علما
کو اپنا یہ رویہ بدلنا ہو گا!
نوجوانوں
کے سوالات اور علما کا موجودہ طرزِ عمل
جب
کوئی نوجوان کسی مسئلے پر سوال کرتا ہے تو اکثر دیکھا گیا ہے کہ علامہ صاحب اس کا
جواب اپنی ذاتی فہم یا اپنے مخصوص مسلک کی روشنی میں دیتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی
نوجوان قرآن و حدیث سے واضح حوالہ مانگتا ہے، تو بجائے خوشی محسوس کرنے کے، بعض
علما برا مان جاتے ہیں، غصے میں آ جاتے ہیں، یا ناراضگی کے ساتھ محض ایک آدھ حدیث
سنا دیتے ہیں یا کسی بزرگ کا قول پیش کر کے بات ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر
نوجوان سے اس پر عمل کرنے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں، چاہے وہ مطمئن ہو یا نہ ہو۔
اکیسویں
صدی کے نوجوان — تحقیق، سوال اور حوالہ کی عادت
یہ
اکیسویں صدی کے نوجوان ہیں۔ سوشل میڈیا اور جدید ذرائع نے انہیں سوال کرنے، تحقیق
کرنے اور حوالہ تلاش کرنے کا عادی بنا دیا ہے۔ ممکن ہے وہ اس مسئلے سے متعلق احادیث
پہلے ہی پڑھ کر آیا ہو، یا آپ کا علم جانچنا چاہتا ہو۔ اس لیے آج کے دور میں ضروری
ہے کہ علما اپنی پرانی عادت چھوڑ کر نوجوانوں کی ضرورت کے مطابق بات کریں اور بات
ہمیشہ قرآن و سنت کے واضح دلائل کے ساتھ کریں۔
انا
سے بڑھ کر قرآن و سنت کی اہمیت
یاد
رکھیں! آپ کی علمی انا یا ذاتی تشریح سے زیادہ
اہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا اصل فرمان ہے۔ اگر کوئی حدیث مانگتا ہے تو اس پر
ناراض ہونے کی کوئی وجہ نہیں، کیونکہ اسی نبی ﷺ کی احادیث کی بدولت ہی آپ کو عزت
ملی ہے۔ تو پھر اس نوجوان کو اپنی ذاتی تاویلات کے بجائے براہِ راست نبی ﷺ کی بات
کیوں نہ بتائیں؟
دیانت
داری سے حوالہ دینے کی ضرورت
اگر
کسی وقت حوالہ یاد نہ ہو تو دو ٹوک اور سچائی سے کہہ دیں کہ "میں دیکھ کر
بتاؤں گا"۔ اس میں نہ آپ کی عزت کم ہوتی ہے، نہ علم۔ بلکہ یہ آپ کی دیانت
اور شرافت کی دلیل ہو گی۔ اور اگر آپ کو معلوم ہے تو واضح اور صحیح حوالہ دے کر
بات ختم کر دیں۔
مثبت
رویہ — دین کی عزت اور نوجوانوں کا احترام
یہی
طرز عمل آج کے دور میں دین کی عزت، عالم کی وقعت اور نوجوان کے دل میں احترام پیدا
کرے گا۔
محمد سہیل عارف معینیؔ ( پی ایچ ڈی سکالر : یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور)
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You