Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

5/26/21

القدس || Al Quds Day || القدس کے دن کی تقریری جھلکیاں

·       صلاح الدین ایوبی تین سال تک چار پائی پر لیٹے نہیں اگر نیندآتی تو  خیمے کے ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر نیند پوری کرتے تھے۔

·       رینالڈ نے مسلمانوں کے قافلے پر حملہ کیا اور کہا ۔۔اَیْنَ محمدکُم لِیُنْقِذَکُم۔۔ صلاح الدین نے قسم کھائی یا اللہ مجھے تب تک موت نہ دینا جب تک رینالڈ کو پکڑ نہ لوں اور مولا میں قسم کھاتا ہوں میں اس کو اپنے ہاتھ سے قتل کروں گا۔

عربوں سے امید نہ لگائیں یہ کیا القدس کے لیے لڑیں گے۔ پہلے بھی کرُد خون تھا جس نے بیت القدس کو فتح کیا ۔

اب عرب میں عمر نہیں ہیں فاروقی خون کی للکار کو بھول گئے۔

وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں

اُسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ شاہبازی

کوئی کارواں سے ٹُوٹا، کوئی بدگماں حرم سے

کہ امیرِ کارواں میں نہیں خُوئے دل نوازی

·       نجم الدین ایوبی شادی نہیں کر رہا تھا اور بھائی اسد الدین نے کہا شادی کیوں نہیں کر رہا کہا اسیی سے شادی کر وں گا جو میرا ہاتھ پکڑ کر جنت میں لے جائے اور ایسی اولاد پیدا ہو جو قبل اول واپس لے۔اسد لادین نے کہا کبھی نہیں ہو گی۔ ایک دن تکریت  میں ایک شیخ کے پاس بیٹھا تھا تو ایک تو ایک لڑکی نے پردے کے پیچھے سے آواز دی تو شیخ گئے آواز آنے لگی جو آپ نے رشتہ بھیجا تھا وہ اچھا تھا لیکن میرے لائق نہیں تھا تم کیسا چاہتی ہو تو کہا ایسا ۔۔۔۔۔ نجم الدین کہنے لگے اس کے ساتھ میرا نکاح کر دو تو شیخ کہنے لگے یہ زہر سب سے فقیر اور غریب عورت ہے فرمایا میں ہی اس سے شادی کروں گا پھر آسمان کی نگاہ نے دیکھا ان میاں بیوی سے وہ بیٹا پیدا ہوا جس نے حج ایک بھی نہیں کیا تھا ، مدینہ کی گلیوں میں ننگے پاوں نہیں چلا جس کے لے خانہ کعبہ کے دروازے نہیں کھلے لیکن آج بھی دنیا جب نام لیتی ہے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، آج بھی کافروں کے دل چھلنی ہو جاتے ہیں۔ آج بھی ہیبت رکھتا ہے نام ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی۔

جب سلاطن نے یروشلم فتح کیا تو فیاضی اور مہربانی کی مثال۔۔۔ 1078 یا 76  میں  انگریز نے فتح کیا تو ہر طرف گلیوں  میں لاشوں کے ڈھیر تھے۔ خون ہی خون تھا ۔ مگر صلاح الدین۔

در مسلمان شان محبوبی نماند

خالد و فاروق و ایوبی نماند

اردو :مسلمانوں میں شان محبوبی نہ رہی .خالد بن ولید ،فاروق اعظم اور صلاح الدین ایوبی کے اوصاف باقی نہیں رہے۔

·       جب ایک  عیسائی حکمران نے ایک گدی پر ریشم کا کپڑا چڑھا کر اوپر پھینکا اور تلوار سے کاٹا اور پیغام بھیجا ہم ریشم کاٹ لیتے ہیں تو آپ نے خالی کپڑا اوپر پھینک کر اس کو کاٹ دیا فرمایا ہم سے بات نہ کرنا تم گدیوں پر شڑھا کر کاٹتے ہو ہم براہ راست کاٹ لیتے ہیں۔

·       ایک مالدار مسیحی شخص جس نے دس دینار دے آزادی پا لی تو لوگ نے اسکا مال چھیننا چاہا لیکن آپ ے فرمایا نہیں اسلامی سرحدوں تک اسے  باحفاظت چھوڑ کر آنا ہماری ذمہ داری ہے۔

·      وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَ عَدُوَّكُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِهِمْۚ-لَا تَعْلَمُوْنَهُمْۚ-اَللّٰهُ یَعْلَمُهُمْؕ-وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ یُوَفَّ اِلَیْكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ(

ترجمہ: اور ان کے لیے تیار رکھو جو قوت تمہیں بن پڑے اور جتنے گھوڑے باندھ سکو کہ ان سے کہ ان کے دلوں میں دھاک بٹھاؤ جو اللہ کے دشمن اور تمھارے دشمن ہیں اور ان کے سوا کچھ اوروں کے دلوں میں جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں جانتا ہے اور اللہ کی راہ میں جو کچھ خرچ کرو گے تمہیں پورا دیا جائے گا اور کسی طرح گھاٹے میں نہ رہو گے۔

ابن عساکر نے عبد اللہ ابن حذیفہ سمی کی سوانح عمری میں لکھا ہے۔ یہ صحابی تھے۔ ان کو رومیوں نے گرفتار کر لیا۔ انہوں نے اسے اپنے بادشاہ کے سامنے پیش کیا۔ بادشاہ نے انہیں کیا کہ آپ نصرانی بن جائیں، میں آپ کو اپنے اقتدار میں بھی شریک کرتا ہوں اور اپنی لڑکی آپ کے نکاح میں دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اگر تو مجھے اپنی پوری مملکت دے دے اور تمام عربوں کی حکومت بھی عطا کر دے، اس کے عوض کہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین کو ترک کردوں اور وہ بھی پلک جھپکنے جتنی دیر کے لیے تو بھی میں یہ کام نہ کروں گا۔ اس نے کہا تو پھر میں تمہیں قتل کردوں گا۔ انہوں نے کہا تمہیں اختیار ہے جو چاہو کرو۔ کہتے ہیں کہ اس نے حکم دیا اور انہیں سولی پر لٹکا دیا گیا۔ پھر اس نے تیرا ندازوں کو حکم دیا کہ وہ اس کے پائوں اور ہاتھوں کے قریب تیر ماریں۔ چنانچہ وہ تیرمارتے رہے اور بادشاہ ان پر نصرانیت کا دین پیش کرتا رہا۔ لیکن انہوں نے انکار کیا۔ اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ انہیں سولی سے اتار دیں۔ چنانچہ انہیں تختہ دار سے اتارا گیا۔ اس کے بعد تاننے کے ایک (تیل کی) ہنڈیا یا دیگ لائی گئی۔ اسے گرم کیا گیا۔ اس کے بعد ایک مسلمان قیدی لایا گیا، اسے اس کے اندر پھینکا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ چمکدار ہڈیاں بن کر رہ گیا۔ اس کے بعد پھر اس نے ان پر اپنا دین پیش کیا اور انہوں نے انکار کر دیا۔ اب اس نے حکم دیا کہ ان کو بھی اس میں پھینک دیا جائے۔ انہیں لوہے کی چرخی پر چڑھایا گیا تاکہ اس کے اندر پھینک دیں۔ اس وقت وہ روئے۔ اس پر اس بادشاہ کو یہ لالچ پیدا ہو گیا کہ شاید اب مان جائیں تو انہوں نے اسے بلایا تو انہوں نے کہا کہ میں رویا اس لیے ہوں کہ میری جان ایک ہے اور یہ ابھی اسی دیگ میں ڈال دی جائے گی اور ختم ہو جائے گی لیکن میری خواہش تو یہ ہے کہ میرے جسم کے ہر بال کے برابر جانیں عطا ہوتیں اور وہ اللہ کی راہ میں قربان ہوتیں۔ ایک روایت میں ہے کہ اس نے ان کو قید کر دیا اور کھانا بند کر دیا۔ ایک عرصے تک یہ پابندی تھی۔ اس کے بعد انہیں شراب اور خنزیر بھیجا تو انہوں نے ان کو ہاتھ نہ لگایا۔ تو انہوں نے بلا کر پوچھا کہ تم نے ان کو کیوں ہاتھ نہ لگایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ چیزیں اس وقت تو میرے لیے حلال ہیں لیکن میں تمہیں خوش کرنا نہیں چاہتا۔ اس پر اس نے کہا چلو میرے س رہی کو چوم لو، میں تمہیں رہا کردوں گا۔ اس پر انہوں نے کہا کیا تم میرے ساتھ تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کردو گے؟ تو اس نے کہا ہاں۔ تو انہوں نے اس کے سر کو چوم لیا اور انہوں نے وہ تمام قیدی رہا کردیے جو ان کے ساتھ تھے۔ جب وہ لوٹے تو عمر بن الخطاب نے فرمایا ہر مسلمان پر یہ حق ہے کہ وہ عبد اللہ بن حذافہ کا سر چومے اور میں اس کی ابتدا کرتا ہوں۔ وہ اٹھے اور انہوں نے ان کے سر کو چوما۔ اللہ دونوں سے راضی ہو


Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive