Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

9/2/20

پاکستان اور ریاست مدینہ :: خلفائے راشدین کا کردار :: قائد اعظم کے خطبات :: قیام پاکستان اور پیر جماعت علی شاہؒ

پاکستان اور ریاست مدینہ
قیام پاکستان اور مشائخ :
حضرت امیرملت نے ہندوستان کی 475 خانقاہوں کے مشائخ عظام کو خطوط ارسال کیے جن میں لکھا تھا کہ اس وقت آستانوں میں مقیم رہ کر اللہ اللہ کرنے کا نہیں بلکہ میدان عمل میں نکلنے کا وقت ہے ۔انہوں نے خود بھی پورے ہندوستان کے دورے کیے اور قیام پاکستان کے حق میں جلسے منعقد کئے۔ آپ نے ایک فتویٰ بھی جاری کیا ہے جس میں کہا گیا کہ جو مسلمان مسلم لیگ کو ووٹ نہ دے اس کا جنازہ نہ پڑھو اور اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کرو۔
بنارس میں آل انڈیا سنی کانفرنس  میں پانچ ہزار علماء و مشائخ تھے  اور یہ عہد کیا گیا کہ اگر آج  کسی وجہ سے قائد اعظم پیچھے ہٹ جائیں تو  ہم اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ جب تک کہ پاکستان بن نا  جائے۔ اسی  کانفرنس میں پیر جماعت علی شاہ صاحب فرماتے ہیں جناح کو کوئی کافر کہتا ہے، کوئی مرتد بتاتا ہے، کوئی ملعون کہتا  ہے  لیکن میں کہتا ہوں کہ محمد علی جناح اللہ کا ولی ہے ۔ آپ لوگ اپنی رائے سے کہتے ہیں لیکن میں قرآن و حدیث کی رو سے کہتا ہوں۔
مشائخ عظام کے اسمائے گرامی:
پیر جماعت علی شاہ۔۔ نعیم الدین مراد آباد۔۔ امین الحسنات مانکی شریف۔۔ احمد سعید کاظمی۔۔ عبدالحامد بدایونی۔۔ شاہ عبدالعلیم میرٹھی ۔۔عبدالغفور ہزاروی ۔۔محی الدین گولڑوی۔۔ قمرالدین سیالوی۔۔ سردار عبدالرب نشتر۔۔ مولانا محمد علی جوہر۔۔ حسنات حسرت موہانی۔۔ عبدالماجد بدایونی۔۔ غلام نعیم الدین معینی۔۔ سید محمد محدث کچھوچھوی۔۔
میِر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
v   آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے اجلاس منعقدہ 15 نومبر 1942 میں قائداعظم نے فرمایا :
مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا۔ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں ۔مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمدللہ قرآن مجید ہماری رہنمائی کیلئے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔
v    دسمبر6، 1943 کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 31 ویں اجلاس سے خطاب کے دوران قائداعظم نے فرمایا :
وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں ۔وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت  کی عمارت استوار ہے ۔وہ کونسا لنگر ہے جس پر امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے؟ وہ رشتہ ، چٹان اور لنگر اللہ تعالی کی کتاب قرآن کریم ہے ۔ مجھے امید ہے کہ جوں  جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے قرآن مجید کی برکت سے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا ،ایک کتاب ،ایک رسول، ایک امت۔
v   قائداعظم نے 17 ستمبر 1944 کو گاندھی جی کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا :
قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے اس میں مذہبی اور مجلسی دیوانی اور فوجداری عسکری اور تعزیری معاشی اور معاشرتی سب شعبوں کے احکام موجود ہیں یہ مذہبی رسوم سے لے کر جسم کی صحت تک، جماعت کے حقوق سے لیکر فرد کے حقوق تک، اخلاق سے لے کر انسداد جرائم تک ،زندگی میں سزا و جزا سے لے کر آخرت کی جزا سزا تک ،غرض کہ ہر قول و فعل اور حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔لہذا جب میں کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات اور مابعد حیات کے ہر معیار اور  پیمانے کے مطابق کہتا ہوں ۔
v  اگست 1947کو انتقال اقتدار کے موقع پر جب حکومت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں کہا:  کہ میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا اور ویسے ہی اصول پیش نظر رکھے جائیں گے جن کی مثالیں اکبر اعظم کے دور میں ملتی ہیں۔تو اس پر قائد اعظم نے برجستہ فرمایا:  وہ رواداری اور خیرسگالی جو شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں کے حق میں برتی کوئی نئی بات نہیں، یہ تو مسلمانوں کی تیرہ صدی قبل کی روایت ہے جب پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ سلم یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے ساتھ نہ صرف انصاف بلکہ فیاضی کا برتاؤ کرتے تھے ۔مسلمانوں کی ساری تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہم پاکستانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں ہی پاکستان کا نظام چلائیں گے۔( قسطنطنیہ، بیت المقدس ،سندھ میں محمد بن قاسم ان کے حالات کا موازنہ کہ جب عیسائیوں نے قبضہ کیا تو قتل و غارت عام کی گئی مگر مسلمانوں نے نرم دلی سے کام لیا)
v    اپریل13، 1948 کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے بانی پاکستان نے فرمایا :
ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔
v               جنوری 1948 کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں ۔آپ کی عزت و تکریم کروڑوں انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔وہ عظیم مصلح تھے، عظیم رہنما تھے ،عظیم واضع قانون تھے، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے ۔ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں بھی ناکامی نہ ہوگی۔
v      جولائی30، 1948 کو لاہور میں اسکاؤٹ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
 میں نے بہت دنیا دیکھ لی، اللہ نے عزت دولت شہرت بھی بے حساب دی ہے اب میری زندگی کی ایک ہی تمنا ہے کہ مسلمانوں کو باوقار اور سر بلند دیکھوں۔میری خواہش ہے کہ جب مروں تو میرا دل یہ گواہی دے کہ جناح نے اللہ کے دین اسلام سے خیانت اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے غداری نہیں کی۔ اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم ،اتحاد اور مدافعت میں اپنا کردار ٹھیک ٹھاک اداکیا ۔اور میرا اللہ کہے کہ اے میرے بندے !بے شک تو مسلمان پیدا ہوا، بے شک تو مسلمان مرا ۔
ریاست مدینہ کے خلفاء کا کردار::
v   جب حضرت ابو بکر صدیقؓ خلیفہ بنے تو ایک بوڑھی مائی رو کر کہنے لگی اب میرے گھر کی صفائی کون کرے گا میری بکری کا دودھ کون دوہے گا تو فرمایا بیبی ابوبکر یہ کام اب بھی کرے گا۔
v   حضرت ابوبکر گھرکی صفائی کرتےتھے۔ کھانا کھلاتے پھر حضرت عمر نے کھانا کھلایا  تو کہنے لگی بھول گئے کھانا کھلانا تو فرمایا وہ فوت ہوگیا ہے میں عمرہوں۔ :: طبقات ابن سعد میں واقعہ  آپ غرباء کو کھانا کھلا رہے تھے کہ ایک شخص الٹے ہاتھ سے کھانا کھا رہا تھا تو آپ اس کے پاس آ کر بیٹھ گئے پوچھا الٹے ہاتھ سے کھانا کیوں کھا رہے ہو تو کہنے لگا کہ فلاں جنگ میں میرا ہاتھ کٹ گیا تھا تو ااپ رونے لگے اس کے پاس بیٹھ گئے اور فرمایا تو کھاتا کیسے ہو گا ، تجھے وضو کون کراتا ہو گا ، تیرے کپڑے کون دھوتا ہو گا۔ تو آپ نے اس ساتھ ایک آدمی کو مقرر کر دیا۔
v   بیت المقدس فتح ہوتا ہے غلام  سواری پہر سوار ہے اور آقا پیدل چلتا ہے ۔
v   سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم جب میدان بدر کی طرف جا رہے تھے تو آپ کے ساتھ بھی تین لوگ تھے باری باری سوار ہوتے تھے ۔
v   سیدنا فاروق اعظم اپنی بیوی کو لے جاتے ہیں اور اس کو دائی  بنا دیتے ہیں (ایک مسافر تھا اس کے اندر رات کے وقت اس کی بیوی کےکراہنے کی آواز آرہی تو آپ نے پوچھا تو کہنے لگا کہ دردِ زہ میں ،مبتلا ہے۔)
Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive