Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

5/30/21

قیامت کے دن اللہ تعالی کی زیارت || آخری شخص جو جنت میں جائے گا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ کچھ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا سورج کو دیکھنے میں تمہیں کوئی دشواری ہوتی ہے جبکہ اس پر کوئی بادل  ( ابر )  وغیرہ نہ ہو؟ صحابہ نے عرض کیا: نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا جب کوئی بادل نہ ہو تو تمہیں چودہویں رات کے چاند کو دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: نہیں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم اللہ تعالیٰ کو اسی طرح قیامت کے دن دیکھو گے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو جمع کرے گا اور کہے گا کہ تم میں سے جو شخص جس چیز کی پوجا پاٹ کیا کرتا تھا وہ اسی کے پیچھے لگ جائے، چنانچہ جو لوگ سورج کی پرستش کیا کرتے تھے وہ اس کے پیچھے لگ جائیں گے اور جو لوگ چاند کی پوجا کرتے تھے وہ ان کے پیچھے ہو لیں گے۔ جو لوگ بتوں کی پرستش کرتے تھے وہ ان کے پیچھے لگ جائیں گے اور آخر میں یہ امت باقی رہ جائے گی اور اس میں منافقین کی جماعت بھی ہو گی، اس وقت اللہ تعالیٰ ان کے سامنے اس صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچانتے نہ ہوں گے اور کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں۔ لوگ کہیں گے تجھ سے اللہ کی پناہ۔ ہم اپنی جگہ پر اس وقت تک رہیں گے جب تک کہ ہمارا پروردگار ہمارے سامنے نہ آئے۔ جب ہمارا رب ہمارے پاس آئے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے  ( کیونکہ وہ حشر میں ایک بار اس کو پہلے دیکھ چکے ہوں گے )  پھر حق تعالیٰ اس صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچانتے ہوں گے اور ان سے کہا جائے گا  ( آؤ میرے ساتھ ہو لو )  میں تمہارا رب ہوں! لوگ کہیں گے کہ تو ہمارا رب ہے، پھر اسی کے پیچھے ہو جائیں گے اور جہنم پر پل بنا دیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جو اس پل کو پار کروں گا اور اس دن رسولوں کی دعا یہ ہو گی کہ اے اللہ! مجھ کو سلامت رکھیو۔ اے اللہ! مجھ کو سلامت رکھیو اور وہاں سعدان کے کانٹوں کی طرح آنکڑے ہوں گے۔ تم نے سعدان کے کانٹے دیکھے ہیں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا جی ہاں دیکھے ہیں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ پھر سعدان کے کانٹوں کی طرح ہوں گے البتہ اس کی لمبائی چوڑائی اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ وہ لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق اچک لیں گے اور اس طرح ان میں سے بعض تو اپنے عمل کی وجہ سے ہلاک ہو جائیں گے اور بعض کا عمل رائی کے دانے کے برابر ہو گا، پھر وہ نجات پا جائے گا۔ آخر جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہو جائے گا اور جہنم سے انہیں نکالنا چاہے گا جنہیں نکالنے کی اس کی مشیت ہو گی۔ یعنی وہ جنہوں نے کلمہ «لا إله إلا الله» کی گواہی دی ہو گی اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا کہ وہ ایسے لوگوں کو جہنم سے نکالیں۔ فرشتے انہیں سجدوں کے نشانات سے پہچان لیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آگ پر حرام کر دیا ہے کہ وہ ابن آدم کے جسم میں سجدوں کے نشان کو کھائے۔ چنانچہ فرشتے ان لوگوں کو نکالیں گے۔ یہ جل کر کوئلے ہو چکے ہوں گے پھر ان پر پانی چھڑکا جائے گا جسے «ماء الحياة» زندگی بخشنے والا پانی کہتے ہیں۔ اس وقت وہ اس طرح تروتازہ ہو جائیں گے جیسے سیلاب کے بعد زرخیز زمین میں دانہ اگ آتا ہے۔ ایک ایسا شخص باقی رہ جائے گا جس کا چہرہ جہنم کی طرف ہو گا اور وہ کہے گا اے میرے رب! اس کی بدبوں نے مجھے پریشان کر دیا ہے اور اس کی لپٹ نے مجھے جھلسا دیا ہے اور اس کی تیزی نے مجھے جلا ڈالا ہے، ذرا میرا منہ آگ کی طرف سے دوسری طرف پھیر دے۔ وہ اسی طرح اللہ سے دعا کرتا رہے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اگر میں تیرا یہ مطالبہ پورا کر دوں تو کہیں تو کوئی دوسری چیز مانگنی شروع نہ کر دے۔ وہ شخص عرض کرے گا نہیں، تیری عزت کی قسم! میں اس کے سوا کوئی دوسری چیز نہیں مانگوں گا۔ چنانچہ اس کا چہرہ جہنم کی طرف سے دوسری طرف پھیر دیا جائے گا۔ اب اس کے بعد وہ کہے گا۔ اے میرے رب! مجھے جنت کے دروازے کے قریب کر دیجئیے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تو نے ابھی یقین نہیں دلایا تھا کہ اس کے سوا اور کوئی چیز نہیں مانگے گا۔ افسوس! اے ابن آدم! تو بہت زیادہ وعدہ خلاف ہے۔ پھر وہ برابر اسی طرح دعا کرتا رہے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اگر میں تیری یہ دعا قبول کر لوں تو تو پھر اس کے علاوہ کچھ اور چیز مانگنے لگے گا۔ وہ شخص کہے گا نہیں، تیری عزت کی قسم! میں اس کے سوا اور کوئی چیز تجھ سے نہیں مانگوں گا اور وہ اللہ سے عہد و پیمان کرے گا کہ اس کے سوا اب کوئی اور چیز نہیں مانگے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اسے جنت کے دروازے کے قریب کر دے گا۔ جب وہ جنت کے اندر کی نعمتوں کو دیکھے گا تو جتنی دیر تک اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ شخص خاموش رہے گا، پھر کہے گا اے میرے رب! مجھے جنت میں داخل کر دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا تو نے یہ یقین نہیں دلایا تھا کہ اب تو اس کے سوا کوئی چیز نہیں مانگے گا۔ اے ابن آدم! افسوس، تو کتنا وعدہ خلاف ہے۔ وہ شخص عرض کرے گا اے میرے رب! مجھے اپنی مخلوق کا سب سے بدبخت بندہ نہ بنا۔ وہ برابر دعا کرتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہنس دے گا۔ جب اللہ ہنس دے گا تو اس شخص کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت مل جائے گی۔ جب وہ اندر چلا جائے گا تو اس سے کہا جائے گا کہ فلاں چیز کی خواہش کر چنانچہ وہ اس کی خواہش کرے گا۔ پھر اس سے کہا جائے گا کہ فلاں چیز کی خواہش کرو، چنانچہ وہ پھر خواہش کرے گا یہاں تک کہ اس کی خواہشات ختم ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہا جائے گا کہ تیری یہ ساری خواہشات پوری کی جاتی ہیں اور اتنی ہی زیادہ نعمتیں اور دی جاتی ہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسی سند سے کہا کہ یہ شخص جنت میں سب سے آخر میں داخل ہونے والا ہو گا۔ (بخاری  6573)۔

 

Share:

نفس کی اقسام || نفس مطمئنہ نفس لوامہ نفس امارہ || توبہ کے فضائل

نفس مطمئنہ، نفس لوامہ اور نفس امارہ

بنیادی طور پر تین اقسام ہیں

نفس مطمئنہ جو اللہ کی یاد سے معمور رہتا ہے اور یہ نفس ان لوگوں کا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے شیطان سے فرمایا تھا کہ تو سب کو گمراہ کر سکتا  ہے مگر میرے جو مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کوئی زور نہیں ہو گا۔ تو یہ مخلص بندوں کا نفس ہے۔

نفس امارہ وہ لوگ جو اللہ کی یاد سے غافل ہو جاتے ہیں اور  گمراہی کی گھاٹیوں میں اترتے چلے جاتے ہیں۔ انہیں اپنے تمام کام اچھے لگتے ہیں انہیں گناہ گناہ محسوس نہیں ہوتے اور اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ۔۔۔ وزین لھم الشیطان اعمالھم۔ کہ شیطان نے ان کے کام ان کے لیے بھلے کر دیے ہین۔

نفس لوامہ وہ نفس ہے جو انسان کو کو ندامت دلاتا ہے۔یعنی جب انسان نفس امارہ کے بہکاوے پر گناہ کر بیٹھتا ہے تو نفس لوامہ اس پر انسان کو ندامت دلاتا ہے ۔ عار دلاتا ہے۔  اللہ تعالی نے قرآن مجید میں نفس لوامہ کی قسم بھی کھائی ہے کہ ارشاد فرمایا : ولااقسم بالنفس اللوامہ۔

نفس لوامہ وہ طاقتور نفس ہے کہ جب شیطان کی چال اپنی پوری طاقت سے کام کر رہی ہوتی ہے اور انسان کو شیطان نے اپنے نرغے میں لیا ہوتا ہے اور انسان مکمل طور پر غافل ہو چکا ہوتا ہے تو اس وقت یہ نفس لوامہ انسان کو دل کے کہیں کونے کھدرے سے جھنجھوڑتا ہے اور گناہ اور برائی کا احساس دلاتا ہے اور انسان اس گناہ اور برائی سے بچ جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے نفس لوامہ کی قرآن مجید میں قسم کھائی ہے۔

نفس لوامہ کی مثالیں :

بنی اسرائیل کا شخص کفل کی توبہ کا بیان

1:      عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: لَقَدْ سَمِعْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَدِیْثًا لَوْ لَمْ أَسْمَعْہُ اِلَّا مَرَّۃً أَوْ مَرَّتَیْنِ حَتّٰی عَدَّ سَبْعَ مِرَارٍ وَلٰکِنْ قَدْ سَمِعْتُہُ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ قَالَ: ((کَانَ الْکِفْلُ مِنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ لَا یَتَوَرَّعُ مِنْ ذَنْبٍ عَمِلَہُ، فَأَتَتَہُ اِمْرَأَۃٌ فَأَعْطَاھَا سِتِّیْنَ دِیْنَارًا عَلَی أَنْ یَطَأَھَا، فَلَمَّا قَعَدَ مِنْھَا مَقْعَدَ الرَّجُلِ مِنِ امْرَأَتِہِ أَرْعَدَتْ وَبَکَتْ ، فَقَالَ: مَا یُبْکِیْکِ أَ کْرَھْتُکِ؟ قَالَتْ: لَا وَلٰکِنْ ھٰذَا عَمْلٌ لَمْ أَعْمَلْہُ قَطُّ، وَاِنَّمَا حَمَلَنِیْ عَلَیْہِ الْحَاجَۃُ، قَالَ: فَتَفْعَلِیْنَ ھٰذَا وَلَمْ تَفْعَلِیْہِ قَطُّ، قَالَ: ثُمَّ نَزَلَ فَقَالَ: اذْھَبِیْ فَالدَّنَانِیْرُ لَکِ، ثُمَّ قَالَ: وَاللّٰہِ! لَا یَعْصِی اللّٰہَ الْکِفْلُ أَبَدًا، فَمَاتَ مِنْ لَیْلَتِہِ فَأَصْبَحَ مَکْتُوْبًا عَلٰی بَابِہٖ قَدْغَفَرَاللّٰہُ لِلْکِفْلِ۔)) (مسنداحمد:10439) (( ترمذی میں بھی یہ حدیث پاک موجود ہے امام ترمذی نے اس حدیث پاک کو حسن کہا ہے))

 ترجمہ: سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہماسے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایک حدیث سنی، اگر میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایک بار، یا دو بار، یہاں تک کہ انھوں سات بار کا ذکرکیا، بلکہ میں نے اس سے بھی زیادہ دفعہ سنی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کفل کا تعلق بنو اسرائیل سے تھا، وہ کسیگناہ سے نہیں بچتا تھا، ایک دن ایک خاتون اس کے پاس آئی، اس نے اس کو اس شرط پر ساٹھ دینار دیئے کہ وہ اس سے زنا کرے گا، پس جب وہ اس خاتون سے خاوند کی طرح بیٹھ گیا تو اس پر کپکپی طاری ہو گئی اور وہ رونے لگ گئی، اس نے کہا: تو کیوں رو رہی ہے، کیا میں نے تجھے مجبور کیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، دراصل بات یہ ہے کہ میں نے یہ جرم کبھی بھی نہیںکیاتھا، بس آج حاجت نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کر دیا ہے، اس نے کہا: تو اب یہ جرم کر رہی ہے، جبکہ اس سے پہلے تو نے کبھی ایسے نہیں کیا، پھر وہ اس سے ہٹ گیا اور کہا: تو چلی جا اور یہدینار بھی تیرے ہیں، پھر اس نے کہا: اللہ کی قسم! اب کفل کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرے گا، پھر وہ اسی رات کو مر گیا، صبح کے وقت اس کے دروازے پر لکھا ہوا تھا کہ تحقیق اللہ تعالیٰ نے کفل کو بخش دیا ہے

کفل کو کس چیز نے روکا اوہ نفس لوامہ تھا کہ:

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی کی رحمت شاملِ حال ہوتی ہے مگر وہ نفس لوامہ انسان کو ملامت کرتا ہے۔گویا اللہ کی رحمت سے نفسِ لوامہ بیدار ہوتا ہے اور انسان کو ملامت کرتا ہے۔

نفس مطمئنہ تو ہوتا ہی اللہ کی خاص رحمت میں ہے لیکن نفس لوامہ انسان کو شیطان کے نرغے سے نکال کر لاتا ہے اس لیے اللہ تعالی نے اس کی قسم کھائی ہے۔

ایک شخص بار بار توبہ کرتا اللہ معاف فرما دیتا:

2:      عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ عَبْدًا أَصَابَ ذَنْبًا وَرُبَّمَا قَالَ: أَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ: رَبِّ أَذْنَبْتُ وَرُبَّمَا قَالَ: أَصَبْتُ فَاغْفِرْ لِي فَقَالَ رَبُّهُ: أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ غَفَرْتُ لِعَبْدِي ثُمَّ مَکَثَ مَا شَاءَ اﷲُ ثُمَّ أَصَابَ ذَنْبًا أَوْ أَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ: رَبِّ، أَذْنَبْتُ أَوْ أَصَبْتُ آخَرَ فَاغْفِرْهُ فَقَالَ: أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ غَفَرْتُ لِعَبْدِي ثُمَّ مَکَثَ مَا شَاءَ اﷲُ ثُمَّ أَذْنَبَ ذَنْبًا وَرُبَّمَا قَالَ: أَصَابَ ذَنْبًا قَالَ: قَالَ: رَبِّ، أَصَبْتُ أَوْ قَالَ: أَذْنَبْتُ آخَرَ فَاغْفِرْهُ لِي فَقَالَ: أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ غَفَرْتُ لِعَبْدِي ثَـلَاثًا فَلْيَعْمَلْ مَا شَاءَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ. 5: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: التوحيد، باب: قول اﷲ تعالی يريدون أن يبدلوا کلام اﷲ، 6/ 2725، الرقم: 7068، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 405، الرقم: 9

ترجمہ: ’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے سنا کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی نے گناہ کیا (راوی نے کبھی یہ الفاظ کہے کہ ایک شخص سے گناہ سر زد ہوا) تو وہ عرض گزار ہوا: اے میرے رب! میں گناہ کر بیٹھا (کبھی یہ الفاظ کہے کہ مجھ سے گناہ ہوگیا) پس تو مجھے بخش دے۔ چنانچہ اُس کے رب نے فرمایا: میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہوں کو معاف کرتا اور ان کے باعث مواخذہ کرتا ہے، لہٰذا میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ اس کے بعد جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا وہ گناہ سے باز رہا، پھر اُس نے گناہ کیا (یا اس سے گناہ سرزد ہو گیا) تو اس نے عرض کیا: اے میرے رب! میں گناہ کر بیٹھا (یا مجھ سے گناہ ہو گیا) پس مجھے بخش دے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ معاف کرتا اور ان کے باعث مواخذہ کرتا ہے، پس میں نے اپنے بندے کو پھر بخش دیا۔ پھر وہ ٹھہرا رہا جب تک اللہ نے چاہا، پھر اس نےگناہ کیا (اور کبھی یہ کہا کہ مجھ سے گناہ ہوگیا)۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ پھر عرض گزار ہوا: اے رب! مجھ سے گناہ ہو گیا یا میں پھر گناہ کر بیٹھا، پس تو مجھے بخش دے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ معاف کرتا اور ان کے سبب پکڑتا ہے، لہٰذا میں نے اپنے بندے کو تیسری دفعہ بھی بخش دیا۔ پس جو چاہے کرے۔‘‘

        اس شخص کا نفس بار بار اس کو جھنجھوڑتا رہا اور اللہ کی بارگاہ میں لاتا رہا۔ اور ہر بار اللہ تعالی اس کو معاف فرماتا ہے۔

سو  لوگوں کا قاتل:

3:     وہ شخص جس نے نناوے قتل کیے وہ ایک راہب کے پاس گیا اس نے کہا کہ تیری توبہ نہیں ہو سکتی اس نے اسے بھی قتل کر دیا ۔ 100 کا عدد پوراہو گیا پھر کسی اور کے پاس گیا اس نے اسے کہا کہ ضرور ہو سکتی ہے ۔

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا فَسَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ فَدُلَّ عَلَى رَاهِبٍ فَأَتَاهُ فَقَالَ إِنَّهُ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ فَقَالَ لَا فَقَتَلَهُ فَكَمَّلَ بِهِ مِائَةً ثُمَّ سَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ فَدُلَّ عَلَى رَجُلٍ عَالِمٍ فَقَالَ إِنَّهُ قَتَلَ مِائَةَ نَفْسٍ فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ فَقَالَ نَعَمْ وَمَنْ يَحُولُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ التَّوْبَةِ انْطَلِقْ إِلَى أَرْضِ كَذَا وَكَذَا فَإِنَّ بِهَا أُنَاسًا يَعْبُدُونَ اللَّهَ فَاعْبُدْ اللَّهَ مَعَهُمْ وَلَا تَرْجِعْ إِلَى أَرْضِكَ فَإِنَّهَا أَرْضُ سَوْءٍ فَانْطَلَقَ حَتَّى إِذَا نَصَفَ الطَّرِيقَ أَتَاهُ الْمَوْتُ فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِكَةُ الْعَذَابِ فَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ جَاءَ تَائِبًا مُقْبِلًا بِقَلْبِهِ إِلَى اللَّهِ وَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الْعَذَابِ إِنَّهُ لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ فَأَتَاهُمْ مَلَكٌ فِي صُورَةِ آدَمِيٍّ فَجَعَلُوهُ بَيْنَهُمْ فَقَالَ قِيسُوا مَا بَيْنَ الْأَرْضَيْنِ فَإِلَى أَيَّتِهِمَا كَانَ أَدْنَى فَهُوَ لَهُ فَقَاسُوهُ فَوَجَدُوهُ أَدْنَى إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي أَرَادَ فَقَبَضَتْهُ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ قَالَ قَتَادَةُ فَقَالَ الْحَسَنُ ذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ لَمَّا أَتَاهُ الْمَوْتُ نَأَى بِصَدْرِهِ (مسلم 2766)

 

 ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ،  کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :    تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک شخص تھا اس نے ننانوے قتل کیے ،  پھر اس نے زمین پر بسنے والوں میں سے سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا  ( کہ وہ کون ہے ۔  )  اسے ایک راہب کا پتہ بتایا گیا ۔  وہ اس کے پاس آیا اور پوچھا کہ اس نے ننانوے قتل کیے ہیں ،  کیا اس کے لیے توبہ  ( کی کوئی سبیل )  ہے؟ اس نے کہا :  نہیں ۔  تو اس نے اسے بھی قتل کر دیا اور اس  ( کے قتل )  سے سو قتل پورے کر لیے ۔  اس نے پھر اہل زمین میں سے سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا ۔  اسے ایک عالم کا پتہ بتایا گیا ۔  تو اس نے  ( جا کر )  کہا : اس نے سو قتل کیے ہیں ،  کیا اس کے لیے توبہ  ( کا امکان)  ہے؟ اس  ( عالم )  نے کہا :  ہاں ،  اس کے اور توبہ کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے؟ تم فلاں فلاں سرزمین پر چلے جاؤ ،  وہاں  ( ایسے )  لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں ،  تم بھی ان کے ساتھ اللہ کی عبادت میں مشغول ہو جاؤ اور اپنی سرزمین پر واپس نہ آو ، یہ بُری  ( باتوں سے بھری ہوئی ) سرزمین ہے ۔  وہ چل پڑا ،  یہاں تک کہ جب آدھا راستہ طے کر لیا تو اسے موت  نے آ لیا ۔  اس کے بارے میں رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے جھگڑنے لگے ۔  رحمت کے فرشتوں نے کہا :  یہ شخص توبہ کرتا ہوا اپنے دل کو اللہ کی طرف متوجہ کر کے آیا تھا اور عذاب کے فرشتوں نے کہا : اس نے کبھی نیکی کا کوئی کام نہیں کیا ۔  تو ایک فرشتہ آدمی کے روپ میں ان کے پاس آیا ،  انہوں نے اسے اپنے درمیان  ( ثالث )  مقرر کر لیا ۔  اس نے کہا : دونوں زمینوں کے درمیان فاصلہ ماپ لو ،  وہ دونوں میں سے جس زمین کے زیادہ قریب ہو تو وہ اسی  ( زمین کے لوگوں )  میں سے ہو گا ۔  انہوں نے مسافت کو ماپا تو اسے اس زمین کے قریب تر پایا جس کی طرف وہ جا رہا تھا ،  چنانچہ رحمت کے فرشتوں نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔

 


Share:

5/28/21

چھ کلمے || Six Kalimas || کلمہ طیبہ

 


چھ کلمے    اردو انگلش ترجمے کےساتھ

Six Kalimas with Urdu English Translation

اَوّل کلمہ طیّب


لَآ اِلٰهَ اِلَّا ﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ ﷲِ۔

اردو ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔

 

First Kalima: Tayyiba (Purity)

        There is no God besides Allah Muhammad (Peace be upon Him) is messenger of Allah.

Download PDF File HERE

Share:

5/26/21

دعا قبول کیوں نہیں ہوتی؟ | ابراہیم بن نصر کرمانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ || 10 وجوہات

لوگوں کی دعا قبول کیوں نہیں ہوتی:

ابن عساکر نے ابراہیم بن نصر کرمانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا قول ذکر کیا ، وہ بیان کرتے ہیں کہ دس وجوہات کی بنا پر لوگوں کی دعا قبول نہیں ہوتی:

1: اللہ کا اقرار کرتے ہیں اور اس کا حکم نہیں مانتے۔

2: رسول اللہ و سے محبت کرتے ہیں اورآپ کی سنت پر عمل نہیں کرتے۔

3: قرآن مجید پڑھتے ہیں اور اس پر عمل نہیں کرتے۔

4: جنت کو پسند کرتے ہیں اور اس کے راستے پر نہیں چلتے۔

5: جہنم کو ناپسند کرتے ہیں اور اس کے راستے پر دھکم پیل کرتے ہیں۔

6: ابلیس کو اپنا دشمن کہتے ہیں اور اس کی موافقت کرتے ہیں۔

7: لوگوں کو دفن کرتے ہیں اور اپنی موت کو یاد نہیں کرتے۔

8: اپنے بھائیوں کے عیوب تلاش کرتے ہیں اور اپنے عیوب نہیں دیکھتے۔

9: مال جمع کرتے ہیں اور حساب کے دن کو یاد نہیں کرتے۔

10: قبریں کھودتے ہیں پھر بھی عالیشان مکان بناتے ہیں۔

(مختصر تاریخ دمشق ج 4 ص 169)

 

Share:

اللہ کی نعمتیں || قیامت کے دن نعمتوں سے متعلق سوال ہو گا || کن نعمتوں سے متعلق سوال ہو گا؟

قیامت کے دن نعمتوں سے متعلق سوال ہو گا:

انسان کے پاس ہر چیز ﷲ تعالیٰ ہی کی عطا کی ہوئی ہے۔ ہر چیز کا ایک حق ہے اور اس حق کی ادائی کا مطالبہ قیامت کے دن ﷲ تعالی کے حضور ضرور ہونا ہے۔ قیامت کے دن میدانِ حشر میں جہاں نیکیاں اور برائیاں تولی جائیں گی تو وہاں اس چیز کا بھی مطالبہ اور محاسبہ کیا جائے گا کہ ﷲ تعالیٰ نے جو اپنی نعمتیں عطا فرمائی تھیں، اُن کا کیا حق اور شکر ادا کیا۔۔۔ ؟

قرآنِ مجید میں سورۂ تکاثر اور سورۂ بنی اسرائیل میں بھی اس کا ذکر موجود ہے کہ قیامت کے دن ﷲ تعالیٰ بندے سے اپنی نعمتوں کا بھی سوال فرمائیں گے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ بدن کی صحت، کانوں کی صحت اور آنکھوں کی صحت کے بارے میں سوال ہوگا کہ ﷲ تعالیٰ نے یہ نعمتیں اپنے لطف سے عطا فرمائیں، ان کو ﷲ تعالیٰ کے کس کام میں صرف کیا۔۔۔ ؟

حضور اقدسؐ کا ارشاد ہے جس کا مفہوم یہ ہے : ’’ کل قیامت کے دن آدمی سے جن نعمتوں کے بارے سوال کیا جائے گا، ان میں سے ایک چیز ’’ بے فکری ‘‘ ہے اور دوسری چیز ’’بدن کی صحت و سلامتی‘‘ بھی ہے اور یہ دونوں چیزیں ﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔

حضرت علیؓ فرماتے ہیں : ’’ اس میں عافیت بھی داخل ہے۔‘‘

ایک شخص نے حضرت علیؓ سے پوچھا : ’’ قرآن مجید میں ، ترجمہ : پھر اس دن نعمتوں کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے گا۔۔۔ ؟‘‘ کا مطلب کیا ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا : ’’ گیہوں کی روٹی اور ٹھنڈا پانی مراد ہے، ان کے بارے میں بھی سوال ہوگا اور رہنے کے لیے مکان کے بارے میں بھی سوال ہوگا۔‘‘

ایک حدیث میں آتا ہے : ’’ جب یہ مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی تو بعض صحابہؓ نے عرض کیا کہ یارسول ﷲ ﷺ ! کن نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا ؟ آدھی بھوک روٹی ملتی ہے اور وہ بھی ’’جو‘‘ کی ( اور پیٹ بھر کر روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی۔)‘‘ تو ارشاد ہوا، کیا پاؤں میں جوتا نہیں پہنتے ؟ کیا ٹھنڈا پانی نہیں پیتے؟ یہ بھی تو ﷲ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں۔

ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ بعض صحابہؓ نے اس آیت شریفہ کے نازل ہونے پر عرض کیا: ’’ یارسول ﷲ ﷺ ! کن نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا، کھجور اور پانی، صرف یہ دو چیزیں کھانے اور پینے کو ملتی ہیں اور ہماری تلواریں (جہاد کے لیے) ہر وقت ہمارے کندھوں پر رہتی ہیں اور دشمن ہر وقت سامنے ہوتا ہے، جس کی وجہ سے یہ دو چیزیں بھی سکون اور اطمینان سے نصیب نہیں ہوتیں۔‘‘ حضور ؐ نے ارشاد فرمایا : ’’عن قریب نعمتیں میسر ہونے والی ہیں۔‘‘

حضور اقدسؐ کا ارشاد ہے : ’’ قیامت کے دن جن نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا، ان میں سب سے اوّل یہ سوال ہوگا کہ ہم نے تجھے تن درستی عطا فرمائی (تونے اس کا کیا حق ادا کیا) ہم نے ٹھنڈے پانی سے تجھ کو سیراب کیا ( اس میں تونے ہم کو کس طرح راضی کیا)‘‘

ایک حدیث میں وارد ہے کہ قیامت کے دن جن نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا وہ یہ ہیں : روٹی کا ٹکڑا کہ جس سے پیٹ بھرا جاتا ہے۔ پانی، جس سے پیاس بجھائی جاتی ہے۔ کپڑا، جس سے بدن ڈھانکا جاتا ہے۔

ایک مرتبہ دوپہر کے وقت سخت دھوپ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ پریشان ہوکر گھر سے چلے، مسجد میں پہنچے ہی تھے کہ حضرت عمر فاروقؓ بھی اسی حالت میں تشریف لے آئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بیٹھا ہوا دیکھ کر دریافت کیا : ’’ تم اس وقت یہاں کہاں۔ ‘‘ صدیق اکبرؓ نے فرمایا : ’’بھوک کی بے تابی نے پریشان کیا۔ ‘‘ حضرت عمرؓ نے عرض کیا ’’ وﷲ! اسی چیز نے مجھے بھی مجبور کیا کہ کہیں جاؤں۔ ‘‘

یہ دونوں حضرات یہ گفت گو کر ہی رہے تھے کہ سرکارِ دو عالم نبی اکرمؐ ﷺ تشریف لے آئے اور انہیں دیکھ کر دریافت فرمایا : ’’ تم اس وقت یہاں۔ ‘‘ عرض کیا یارسول ﷲ ﷺ! : ’’بھوک نے پریشان کیا، جس سے مضطرب ہوکر نکل پڑے۔ ‘‘ حضورؐ نے ارشاد فرمایا : ’’ اسی مجبوری سے میں بھی آیا ہوں۔‘‘

تینوں حضرات اکٹھے ہوکر حضرت ابوایوب انصاریؓ کے مکان پر پہنچے تو وہ تشریف نہیں رکھتے تھے۔ ان کی بیوی نے بڑی مسرت و افتخار سے ان حضرات کو بٹھایا۔ حضور اقدسؐ نے دریافت فرمایا : ’’ ابوایوبؓ کہاں گئے ہیں ؟ ‘‘ عرض کیا : ’’ ابھی حاضر ہوتے ہیں، کسی ضرورت سے گئے ہوئے ہیں۔‘‘ اتنے میں ابوایوبؓ بھی حاضر خدمت ہوگئے اور فرطِ خوشی میں کھجور کا ایک بڑا سا خوشہ توڑ لائے۔ حضورؐ نے ارشاد فرمایا : ’’سارا خوشہ کیوں توڑا ؟ اس میں کچی اور ادھ کچری بھی ٹوٹ گئیں، چھانٹ کر پکی ہوئی توڑ لیتے ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا: ’’ اس خیال سے توڑا کہ ہر قسم کی سامنے ہوں، جو پسند ہو وہ نوش فرمائیں۔‘‘ (کیوں کہ بعض مرتبہ پکی ہوئی سے آدھ کچری زیادہ پسند ہوتی ہیں) خوشہ سامنے رکھ کر جلدی سے گئے اور ایک بکری کا بچہ ذبح کیا اور جلدی جلدی کچھ تو ویسے ہی بھون لیا، کچھ کا سالن تیار کرلیا۔

حضور اقدسؐ نے ایک روٹی میں تھوڑا سا گوشت رکھ کر ابو ایوبؓ کو دیا کہ یہ حضرت فاطمہؓ کو پہنچا دو، اس کو بھی کئی دن سے کچھ نہیں مل سکا۔ وہ فوراً پہنچا کر آئے ان حضرات نے بھی سیر ہوکر تناول فرمایا۔ اس کے بعد حضور اقدسؐ نے ارشاد فرمایا کہ : ’’دیکھو! یہ ﷲ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں، روٹی ہے، گوشت ہے، ہر قسم کی کچی اور پکی کھجوریں ہیں۔ ‘‘ یہ فرما کر نبی اکرمؐ کی پاک آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور ارشاد فرمایا : ’’ اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، یہی وہ نعمتیں ہیں جن سے قیامت میں سوال ہوگا۔‘‘

جن حالات میں اس وقت یہ چیزیں میسر ہوئی تھیں، اس لحاظ سے صحابہ کرامؓ کو بڑی گرانی اور فکر ہوئی کہ ایسی مجبوری اور اضطرار کی حالت میں یہ چیزیں میسر آئیں اور ان پر بھی سوال و حساب ہوگا؟

حضور ؐ نے ارشاد فرمایا : ’’ ﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا تو ضروری ہے ہی، لہٰذا جب اس قسم کی چیزوں کی طرف ہاتھ بڑھاؤ تو اوّل بسم ﷲ پڑھو اور جب کھا چکو تو کہو ’’الحمدﷲ‘‘۔ اس دعا کا پڑھنا شکر ادا کرنے میں کافی ہے۔‘‘

اﷲ جل شانہ کی جس قدر نعمتیں ہر آن اور ہر دم آدمی پر ہوتی ہیں، ان کا شکر ادا کرنا اور ان کا حق بجا لانا بھی آدمی کے ذمے ہے۔ اس لیے جتنی مقدار بھی نیکیوں کی ہوسکے ان کو حاصل کرنے میں کمی نہیں کرنی چاہیے اور کسی مقدار کو بھی زیادہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہاں پہنچ کر معلوم ہوگا کہ کتنے گناہ ہم نے اپنی آنکھ، ناک، کان اور دوسرے بدن کے اعضاء سے کیے ہیں، جن کو ہم گناہ بھی نہ سمجھے۔

حضور اقدسؐ کا ارشاد ہے : ’’ تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ جس کی قیامت والے دن ﷲ تعالیٰ کے یہاں پیشی نہ ہو، کہ اس وقت نہ کوئی پردہ درمیان میں حائل ہوگا اور نہ کوئی ترجمان اور وکیل۔ دائیں طرف دیکھے گا تو اپنے اعمال کا انبار لگا ہوگا۔ بائیں طرف دیکھے گا تب بھی یہی منظر ہوگا۔  جس قسم کے بھی اچھے یا برے اعمال کیے ہیں، وہ سب ساتھ ہوں گے۔ جہنم کی آگ سامنے ہوگی۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہو صدقہ دے کر جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بچاؤ! خواہ کھجور کا ٹکڑا صدقہ کرکے ہی جہنم کی آگ سے کیوں نہ بچا جائے۔‘‘

ایک حدیث میں آتا ہے کہ قیامت والے دن سب سے پہلا سوال یہ کیا جائے گا کہ ہم نے تجھے صحت مند بدن عطا کیا تھا اور پینے کے لیے ٹھنڈا پانی دیا تھا، تو نے ان کا کیا حق ادا کیا۔ ‘‘ دوسری حدیث میں آتا ہے : ’’ اس وقت تک میدانِ حساب سے نہ ہٹ سکے گا، جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کا سوال نہ کرلیا جائے (1) عمر کس کام میں خرچ کی؟ (2) جوانی کس مشغلہ میں صرف کی؟ (3) مال کس طرح سے کمایا تھا ؟ (4) اور کس طریقے سے خرچ کیا ؟ (یعنی کمائی اور خرچ کے طریقے جائز تھے یا ناجائز) (5) جو کچھ علم حاصل کیا (خواہ کسی درجے کا ہو) اس پر کیا عمل کیا ؟

ہمیں اﷲ کی ہر نعمت کی قدر اور اس پر شکرگذار ہونا چاہیے۔

 

Share:

القدس || Al Quds Day || القدس کے دن کی تقریری جھلکیاں

·       صلاح الدین ایوبی تین سال تک چار پائی پر لیٹے نہیں اگر نیندآتی تو  خیمے کے ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر نیند پوری کرتے تھے۔

·       رینالڈ نے مسلمانوں کے قافلے پر حملہ کیا اور کہا ۔۔اَیْنَ محمدکُم لِیُنْقِذَکُم۔۔ صلاح الدین نے قسم کھائی یا اللہ مجھے تب تک موت نہ دینا جب تک رینالڈ کو پکڑ نہ لوں اور مولا میں قسم کھاتا ہوں میں اس کو اپنے ہاتھ سے قتل کروں گا۔

عربوں سے امید نہ لگائیں یہ کیا القدس کے لیے لڑیں گے۔ پہلے بھی کرُد خون تھا جس نے بیت القدس کو فتح کیا ۔

اب عرب میں عمر نہیں ہیں فاروقی خون کی للکار کو بھول گئے۔

وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں

اُسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ شاہبازی

کوئی کارواں سے ٹُوٹا، کوئی بدگماں حرم سے

کہ امیرِ کارواں میں نہیں خُوئے دل نوازی

·       نجم الدین ایوبی شادی نہیں کر رہا تھا اور بھائی اسد الدین نے کہا شادی کیوں نہیں کر رہا کہا اسیی سے شادی کر وں گا جو میرا ہاتھ پکڑ کر جنت میں لے جائے اور ایسی اولاد پیدا ہو جو قبل اول واپس لے۔اسد لادین نے کہا کبھی نہیں ہو گی۔ ایک دن تکریت  میں ایک شیخ کے پاس بیٹھا تھا تو ایک تو ایک لڑکی نے پردے کے پیچھے سے آواز دی تو شیخ گئے آواز آنے لگی جو آپ نے رشتہ بھیجا تھا وہ اچھا تھا لیکن میرے لائق نہیں تھا تم کیسا چاہتی ہو تو کہا ایسا ۔۔۔۔۔ نجم الدین کہنے لگے اس کے ساتھ میرا نکاح کر دو تو شیخ کہنے لگے یہ زہر سب سے فقیر اور غریب عورت ہے فرمایا میں ہی اس سے شادی کروں گا پھر آسمان کی نگاہ نے دیکھا ان میاں بیوی سے وہ بیٹا پیدا ہوا جس نے حج ایک بھی نہیں کیا تھا ، مدینہ کی گلیوں میں ننگے پاوں نہیں چلا جس کے لے خانہ کعبہ کے دروازے نہیں کھلے لیکن آج بھی دنیا جب نام لیتی ہے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، آج بھی کافروں کے دل چھلنی ہو جاتے ہیں۔ آج بھی ہیبت رکھتا ہے نام ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی۔

جب سلاطن نے یروشلم فتح کیا تو فیاضی اور مہربانی کی مثال۔۔۔ 1078 یا 76  میں  انگریز نے فتح کیا تو ہر طرف گلیوں  میں لاشوں کے ڈھیر تھے۔ خون ہی خون تھا ۔ مگر صلاح الدین۔

در مسلمان شان محبوبی نماند

خالد و فاروق و ایوبی نماند

اردو :مسلمانوں میں شان محبوبی نہ رہی .خالد بن ولید ،فاروق اعظم اور صلاح الدین ایوبی کے اوصاف باقی نہیں رہے۔

·       جب ایک  عیسائی حکمران نے ایک گدی پر ریشم کا کپڑا چڑھا کر اوپر پھینکا اور تلوار سے کاٹا اور پیغام بھیجا ہم ریشم کاٹ لیتے ہیں تو آپ نے خالی کپڑا اوپر پھینک کر اس کو کاٹ دیا فرمایا ہم سے بات نہ کرنا تم گدیوں پر شڑھا کر کاٹتے ہو ہم براہ راست کاٹ لیتے ہیں۔

·       ایک مالدار مسیحی شخص جس نے دس دینار دے آزادی پا لی تو لوگ نے اسکا مال چھیننا چاہا لیکن آپ ے فرمایا نہیں اسلامی سرحدوں تک اسے  باحفاظت چھوڑ کر آنا ہماری ذمہ داری ہے۔

·      وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَ عَدُوَّكُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِهِمْۚ-لَا تَعْلَمُوْنَهُمْۚ-اَللّٰهُ یَعْلَمُهُمْؕ-وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ یُوَفَّ اِلَیْكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ(

ترجمہ: اور ان کے لیے تیار رکھو جو قوت تمہیں بن پڑے اور جتنے گھوڑے باندھ سکو کہ ان سے کہ ان کے دلوں میں دھاک بٹھاؤ جو اللہ کے دشمن اور تمھارے دشمن ہیں اور ان کے سوا کچھ اوروں کے دلوں میں جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں جانتا ہے اور اللہ کی راہ میں جو کچھ خرچ کرو گے تمہیں پورا دیا جائے گا اور کسی طرح گھاٹے میں نہ رہو گے۔

ابن عساکر نے عبد اللہ ابن حذیفہ سمی کی سوانح عمری میں لکھا ہے۔ یہ صحابی تھے۔ ان کو رومیوں نے گرفتار کر لیا۔ انہوں نے اسے اپنے بادشاہ کے سامنے پیش کیا۔ بادشاہ نے انہیں کیا کہ آپ نصرانی بن جائیں، میں آپ کو اپنے اقتدار میں بھی شریک کرتا ہوں اور اپنی لڑکی آپ کے نکاح میں دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اگر تو مجھے اپنی پوری مملکت دے دے اور تمام عربوں کی حکومت بھی عطا کر دے، اس کے عوض کہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین کو ترک کردوں اور وہ بھی پلک جھپکنے جتنی دیر کے لیے تو بھی میں یہ کام نہ کروں گا۔ اس نے کہا تو پھر میں تمہیں قتل کردوں گا۔ انہوں نے کہا تمہیں اختیار ہے جو چاہو کرو۔ کہتے ہیں کہ اس نے حکم دیا اور انہیں سولی پر لٹکا دیا گیا۔ پھر اس نے تیرا ندازوں کو حکم دیا کہ وہ اس کے پائوں اور ہاتھوں کے قریب تیر ماریں۔ چنانچہ وہ تیرمارتے رہے اور بادشاہ ان پر نصرانیت کا دین پیش کرتا رہا۔ لیکن انہوں نے انکار کیا۔ اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ انہیں سولی سے اتار دیں۔ چنانچہ انہیں تختہ دار سے اتارا گیا۔ اس کے بعد تاننے کے ایک (تیل کی) ہنڈیا یا دیگ لائی گئی۔ اسے گرم کیا گیا۔ اس کے بعد ایک مسلمان قیدی لایا گیا، اسے اس کے اندر پھینکا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ چمکدار ہڈیاں بن کر رہ گیا۔ اس کے بعد پھر اس نے ان پر اپنا دین پیش کیا اور انہوں نے انکار کر دیا۔ اب اس نے حکم دیا کہ ان کو بھی اس میں پھینک دیا جائے۔ انہیں لوہے کی چرخی پر چڑھایا گیا تاکہ اس کے اندر پھینک دیں۔ اس وقت وہ روئے۔ اس پر اس بادشاہ کو یہ لالچ پیدا ہو گیا کہ شاید اب مان جائیں تو انہوں نے اسے بلایا تو انہوں نے کہا کہ میں رویا اس لیے ہوں کہ میری جان ایک ہے اور یہ ابھی اسی دیگ میں ڈال دی جائے گی اور ختم ہو جائے گی لیکن میری خواہش تو یہ ہے کہ میرے جسم کے ہر بال کے برابر جانیں عطا ہوتیں اور وہ اللہ کی راہ میں قربان ہوتیں۔ ایک روایت میں ہے کہ اس نے ان کو قید کر دیا اور کھانا بند کر دیا۔ ایک عرصے تک یہ پابندی تھی۔ اس کے بعد انہیں شراب اور خنزیر بھیجا تو انہوں نے ان کو ہاتھ نہ لگایا۔ تو انہوں نے بلا کر پوچھا کہ تم نے ان کو کیوں ہاتھ نہ لگایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ چیزیں اس وقت تو میرے لیے حلال ہیں لیکن میں تمہیں خوش کرنا نہیں چاہتا۔ اس پر اس نے کہا چلو میرے س رہی کو چوم لو، میں تمہیں رہا کردوں گا۔ اس پر انہوں نے کہا کیا تم میرے ساتھ تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کردو گے؟ تو اس نے کہا ہاں۔ تو انہوں نے اس کے سر کو چوم لیا اور انہوں نے وہ تمام قیدی رہا کردیے جو ان کے ساتھ تھے۔ جب وہ لوٹے تو عمر بن الخطاب نے فرمایا ہر مسلمان پر یہ حق ہے کہ وہ عبد اللہ بن حذافہ کا سر چومے اور میں اس کی ابتدا کرتا ہوں۔ وہ اٹھے اور انہوں نے ان کے سر کو چوما۔ اللہ دونوں سے راضی ہو


Share:

عبد اللہ بن حزیفہ کا واقعہ || صحابہ کرام کی ثابت قدمی|| فضائل صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم

ابن عساکر نے عبد اللہ ابن حذیفہ سمی کی سوانح عمری میں لکھا ہے۔ یہ صحابی تھے۔ ان کو رومیوں نے گرفتار کر لیا۔ انہوں نے اسے اپنے بادشاہ کے سامنے پیش کیا۔ بادشاہ نے انہیں کیا کہ آپ نصرانی بن جائیں، میں آپ کو اپنے اقتدار میں بھی شریک کرتا ہوں اور اپنی لڑکی آپ کے نکاح میں دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اگر تو مجھے اپنی پوری مملکت دے دے اور تمام عربوں کی حکومت بھی عطا کر دے، اس کے عوض کہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین کو ترک کردوں اور وہ بھی پلک جھپکنے جتنی دیر کے لیے تو بھی میں یہ کام نہ کروں گا۔ اس نے کہا تو پھر میں تمہیں قتل کردوں گا۔ انہوں نے کہا تمہیں اختیار ہے جو چاہو کرو۔ کہتے ہیں کہ اس نے حکم دیا اور انہیں سولی پر لٹکا دیا گیا۔ پھر اس نے تیرا ندازوں کو حکم دیا کہ وہ اس کے پائوں اور ہاتھوں کے قریب تیر ماریں۔ چنانچہ وہ تیرمارتے رہے اور بادشاہ ان پر نصرانیت کا دین پیش کرتا رہا۔ لیکن انہوں نے انکار کیا۔ اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ انہیں سولی سے اتار دیں۔ چنانچہ انہیں تختہ دار سے اتارا گیا۔ اس کے بعد تاننے کے ایک (تیل کی) ہنڈیا یا دیگ لائی گئی۔ اسے گرم کیا گیا۔ اس کے بعد ایک مسلمان قیدی لایا گیا، اسے اس کے اندر پھینکا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ چمکدار ہڈیاں بن کر رہ گیا۔ اس کے بعد پھر اس نے ان پر اپنا دین پیش کیا اور انہوں نے انکار کر دیا۔ اب اس نے حکم دیا کہ ان کو بھی اس میں پھینک دیا جائے۔ انہیں لوہے کی چرخی پر چڑھایا گیا تاکہ اس کے اندر پھینک دیں۔ اس وقت وہ روئے۔ اس پر اس بادشاہ کو یہ لالچ پیدا ہو گیا کہ شاید اب مان جائیں تو انہوں نے اسے بلایا تو انہوں نے کہا کہ میں رویا اس لیے ہوں کہ میری جان ایک ہے اور یہ ابھی اسی دیگ میں ڈال دی جائے گی اور ختم ہو جائے گی لیکن میری خواہش تو یہ ہے کہ میرے جسم کے ہر بال کے برابر جانیں عطا ہوتیں اور وہ اللہ کی راہ میں قربان ہوتیں۔ ایک روایت میں ہے کہ اس نے ان کو قید کر دیا اور کھانا بند کر دیا۔ ایک عرصے تک یہ پابندی تھی۔ اس کے بعد انہیں شراب اور خنزیر بھیجا تو انہوں نے ان کو ہاتھ نہ لگایا۔ تو انہوں نے بلا کر پوچھا کہ تم نے ان کو کیوں ہاتھ نہ لگایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ چیزیں اس وقت تو میرے لیے حلال ہیں لیکن میں تمہیں خوش کرنا نہیں چاہتا۔ اس پر اس نے کہا چلو میرے س رہی کو چوم لو، میں تمہیں رہا کردوں گا۔ اس پر انہوں نے کہا کیا تم میرے ساتھ تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کردو گے؟ تو اس نے کہا ہاں۔ تو انہوں نے اس کے سر کو چوم لیا اور انہوں نے وہ تمام قیدی رہا کردیے جو ان کے ساتھ تھے۔ جب وہ لوٹے تو عمر بن الخطاب نے فرمایا :

ہر مسلمان پر یہ حق ہے کہ وہ عبد اللہ بن حذافہ کا سر چومے اور میں اس کی ابتدا کرتا ہوں۔ وہ اٹھے اور انہوں نے ان کے سر کو چوما۔ اللہ دونوں سے راضی ہو۔

 

Share:

صبر ، شکر اور یقین || اسلام میں صبر وشکر کی کیا اہمیت ہے؟ || صبر اور شکر کی اہمیت | حضرت سلیمان علیہ السلام | حضرت ایوب علیہ السلام :

صبر ، شکر اور ایمان:

حضرت مغیرہ بن عامر سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الشکر نصف الایمان والصبر نصف الایمان و الیقین الایمان کله. ( بیهقی، شعب الایمان، 4: 109، رقم: 4448)

صبر نصف ایمان ہے، اور شکر نصف ایمان اور یقین کامل ایمان ہے۔

وقال ابن مسعود رضي الله عنه: الصبر نصف الإيمان، واليقين الإيمان كله. رواه الطبراني وغيره، وقال الحافظ المنذري في الترغيب والترهيب: رواته رواة الصحيح

وقال علي رضي الله عنه: الصبر من الإيمان بمنزلة الرأس من الجسد، من لا صبر له لا إيمان له.) روى ابن أبي شيبة في "المصنف" (6/ 172) ، والبيهقي في "الشعب" (1/ 146) ،(

آدھا ایمان صبر ہے آدھا ایمان شکر ہے اور مکمل ایمان یقین ہے۔

عَنْ صُهَيْبٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ کُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَيْرًا لَهُ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ، وَأَحْمَدُ۔

أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الزهد والرقائق، باب : المؤمن أمره کله خیر، 4 / 2295، الرقم : 2999، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 15، الرقم : 23969، والمنذري في الترغیب والترهیب، 4 / 140، الرقم : 5149۔

ترجمہ: حضرت صہیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مومن کی(اس) شان پر خوشی کرنی چاہیے کہ اس کے ہر حال میں خیر ہے اور یہ مقام اس کے سوا اور کسی کو حاصل نہیں، اگر وہ نعمتوں کے ملنے پر شکر کرے تو اس کو اجر ملتا ہے اور اگر وہ مصیبت آنے پر صبر کرے تب بھی اس کو اجر ملتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت ایوب علیہ السلام :صبر اور شکر

اللہ پاک نے قرآن مجید میں دو انبیا ئےکرام علیھما السلام کی زندگیاں بیان کی ہیں ۔۔ ایک جناب سلیمان علیہ السلام ہیں اور دوسرے ایوب علیہ السلام ہیں ۔جناب بتائیں!کیا سلیمان علیہ السلام (قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَهَبْ لِیْ مُلْكًا لَّا یَنْۢبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِیْۚ-اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ(۳۵)فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّیْحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِهٖ رُخَآءً حَیْثُ اَصَابَۙ(۳۶)وَ الشَّیٰطِیْنَ كُلَّ بَنَّآءٍ وَّ غَوَّاصٍۙ(۳۷)وَّ اٰخَرِیْنَ مُقَرَّنِیْنَ فِی الْاَصْفَادِ(۳۸)(سورۃ ص: 35-38)کو اتنی شاہانہ زندگی ایسے ہی مل گئی تھی؟، بغیر پٹرول سے چلنے والا ہیلی کاپٹر دیا تھا جہاں چاہتے تھے چلے جاتے تھے۔ دوسری طرف جناب ایوب علیہ السلام ہیں (وَ اذْكُرْ عَبْدَنَاۤ اَیُّوْبَۘ-اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّ عَذَابٍؕ(۴۱)(سورۃ ص:41))کہ بیماری کی کیفیت یہ تھی کہ پورے جسم میں کیڑے تھے اور سب گھر مال اولاد سب جاتا رہا۔ تو جناب بتائیں ! جناب ایوب علیہ السلام کے ساتھ ایسا کیوں تھا ؟ سنیں !  یہ دونوں زندگیاں اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش تھیں انہیں حکومت دےکر طاقت دے کر کائنات کی ساری سہولتیں دےکر آزمایا ۔۔ ادھر ساری کائنات کی نعمتیں دے کر پھر یکے بعد دیگرے اچانک تمام نعمتیں چھین کر اور بیماری لگا کر آزمایا اور امت محمدیہ کو یہ نصیحت فرمائی کہ سنوں دونوں حالتیں آزمائش ہیں کوئی یہ نہ کہے کہ بیمار ہوں، مصیبت میں گھرا ہوں، تکلیف میں پڑا ہوں، تو شاید بڑا بد نصیب ہوں فرمایا نہیں نہیں مایوسی کی ضرورت نہیں یہ آزمائش ہے۔ اسی طرح جس کے پاس نعمتیں ہیں وہ یہ نہ سمجھے کہ مجھ سے اللہ تعالی بڑا راضی ہے، یہ مال  بھی آزمائش ہے ۔۔ جناب نعمتیں ملیں تو شکر کرنا ہو گا اور مصیبت آئے تو صبر کرنا ہو گا ۔

 جناب سلیمان علیہ السلام کی کچہری ہے اور ملکہ بلقیس دربار سلیمان میں پہنچنے والی ہے فرمایا کون اس کا تخت لے کر آئے گا ایک جن نے کہا میں مگر کچھ دیر لگے گی آپ کی محفل برخاست ہونے سے پہلے آ جائے گا فرمایا نہیں  اس سے جلدی چاہیے ۔ اتنے میں ایک کتاب کا عالم سلیمان علیہ السلام کا مرید اور امتی کھڑا ہوا فرمایا میں لاتا ہوں ، فرمایا کتنی دیرْ عرض کیا حضرت آپ کی پلک جھپکنے سے آئے گا ، تخت کو دیکھا تو فرمایا  قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ (سورۃ النمل: 40)فرمایا یہ تیرا کمال نہیں ہے یہ میرے رب کا فضل ہے اور سنوں یہ فضل ایسے نہیں ہوا  وہ امتحان لیتا ہے امتحان لیتا ہے۔ مرید  نےعرض کیا حضرت جب انعام ملے تو امتحان میں پاس کیسے ہوں گے تو آپ نے فرمایا لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُؕ-وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ  (سورۃ النمل: 40)۔۔ یعنی فرمایا شکر کرنا پڑتا ہے۔ فرمایا جب بھی الہ تعالی کی نعمت ملے تو اس کا شکر کیا کرو۔۔

شکر:

یقین ایک درخت ہے اور صبر اور شکر اس کے پھل ہیں یا یوں سمجھ لیں کہ یقین ایک ترازو ہے اور صبر اور شکر دونوں اس کے پلے ہیں۔صبر اور شکر یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ انسان پر دو میں سے ایک حالت رہتی ہے یا وہ خوش ہوتا ہے یا غمگین ہوتا ہے۔ یا اس پر اللہ تعالی کی طرف سے نعمتوں ، رحمتوں کی بارش ہوتی ہے اور وہ خوش ہوتا ۔یا اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش یا اس کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے دکھ اور الم اس کا مقدر ہوتے ہیں۔

        اب اگر اللہ کی نعمتیں اس کو مل رہی ہیں اور وہ خوشحال ہے توانسان اس خوشحالی کو اپنی محنت سمجھتے ہوئے اس پر اترانے نہ لگ جائے اور تکبر نہ کرنے لگ جائے اس لیے حکم دیا کہ اللہ تعالی کا شکر ادا کرو تا کہ تم تکبر کا شکار نہ ہو جاؤ۔ کیوں کہ اللہ تعالی کو تکبر کسی صورت میں پسند نہیں ہے فرمایا: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ هَنَّادٌ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: الْكِبْرِيَاءُ رِدَائِي، وَالْعَظَمَةُ إِزَارِي، فَمَنْ نَازَعَنِي وَاحِدًا مِنْهُمَا قَذَفْتُهُ فِي النَّارِ".

ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل کا فرمان ہے: بڑائی (کبریائی) میری چادر ہے اور عظمت میرا تہ بند، تو جو کوئی ان دونوں چیزوں میں کسی کو مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب اللِّبَاسِ/حدیث: 4090]

تو تکبر سے بچانے کے لیے حکم دیا کہ شکر ادا کرو  فرمایا : وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ  (سورہ ابراہیم آیہ 7)  ترجمہ: اوروہ وقت بھی جب تمہارے پروردگار نے اعلان فرمادیا تھا کہ اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا ، اور اگر تم نے ناشکری کی تو یقین جانو ، میرا عذاب بڑا سخت ہے ۔

صبر:

دوسری طرف اگر اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش کے لیے امتحان کے لیے کوئی پریشان یا مصیبت آ گئی ہے تو اس صورت میں بھی انسان کو مایوسی سے بچانے کے لیے حکم دیا کہ صبر کرو ۔ کیوں کہ مایوسی بھی اللہ تعالی کو پسند نہیں ہے قرآن مجید میں جب یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں سے ارشاد فرماتے ہیں کہ جاؤ اور اپنے بھائی کو تلاش کرو اور اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس نہ ہو  ارشاد باری تعالی ہے: وَلَا تَيْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ (سورہ یوسف آیہ 87) ترجمہ: اللہ تعالی کی رحمت سے مایو س نہ ہو بے شک صرف کافر ہی اللہ کی رحمت سے مایوس ہوتے ہیں۔ تو اس مایوسی سے بچانے کے لیے ارشاد فرمایا کہ صبر کرو  اور یقین رکھو  اللہ تعال کی ذات پر ۔ کیوں کہ یقین نہیں تو کوئی بھی کام فائدہ مند نہیں ہے۔

        اب صبر کے حوالے سے اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو فرمایا  کہ یہ نہیں کہ تم بس صبر کرتے جو صبر کرتے جو نہیں بلکہ فرمایا : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴾ [البقرة: 153] فرمایا کہ صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ تعالی ہوتا ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ﴿ بَلَى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هَذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ ﴾ [آل عمران: 125] فرمایا اگر صبر کرو گےتو فرشتے تمہاری مدد کے لیے تیار رہیں گے اور فوراً تمہاری مدد کو آئیں گے ۔

تقدیر الہی کے نوشتے بھی وہی ہیں

اللہ بھی وہی اس کے فرشتے بھی وہی ہیں

اتریں گے ملائک آج بھی امداد کو تیری

گر ذاتِ خدا سے تیرے رشتے بھی وہی ہیں

﴿ وَكَأَيِّنْ مِنْ نَبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ ﴾ [آل عمران: 146] ترجمہ: اور کتنے ہی انبیاء نے جہاد کیا ان کے ساتھ بہت خدا والے تھے تو نہ سُست پڑے اُن مصیبتوں سے جو اللہ کی راہ میں انہیں پہنچیں اور نہ کمزور ہوئے اور نہ دبے اور صبر والے اللہ کو محبوب ہیں۔

فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ ﴾ [هود: 49]پس صبر کریں آخرت ہمیشہ پرہیزگاروں کے لیے ہے۔

﴿ وَاصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ ﴾ [هود: 115] اور صبر کریں پس اللہ تعالی احسان کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا ۔

إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ ﴾ [يوسف: 90] بے شک جس نے تقوی اختیار کیا اور صبر کیا پس اللہ تعالی اس کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

تکلیف کی انتہا :

اب اس میں یہ بھی ہے کہ صبر کا مطلب یہ نہیں کانٹا چبھ گیا اور بندہ کہے کہ میں نے صبر کیا ایسا نہیں بلکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ ہم اسے تکلیف سے آزمائیں گے آیات دیکھیں اللہ تعالی کیا ارشاد فرماتا ہے :

﴿ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ * الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ﴾ [البقرة: 155، 166]اس آیت کی وضاحت کی جائے گی۔

وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ﴾ [البقرة: 177].جنگ اور جان کی قربانی کا ذکر۔

قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ (الصفت آیہ 102)اس آیت میں درد اور تکلیف کی انتہا ہے مگر فرمانبرداری میں سب کچھ قربان کر دیا اسماعیل علیہ السلام نے۔

          صحابہ کرام نے مشرکین مکہ کے ظلم سے تنگ آ کر عرض کیا یارسول اللہ ﷺ آپ اللہ سے دعا کریں ہمیں نجات دیں ان کے ظلم سے مگر آپ نے ارشاد فرمایا صبر کرو تم سے پہلے لوگوں کے جسم لوہے کی کنگھیوں سے چھلنی کر دیے جاتے تھے اور آرے سے ان کے جسم کو چیر دیا جاتا تھا ۔ یعنی طلم کی انتہا ہو جاتی تھی مگر وہ صبر کرتے ۔ تو جو لوگ اس انتہا کی تکلیف میں صبر کرتے ہیں تو اللہ تعالی بھی اجر اتنا زیادہ عطا فرماتا ہے۔

حضرت ایوب علیہ السلام کو اللہ تعالی نے آزمایا اور ان کا سب کچھ چھین لیا گیا حالانکہ آپ کی جائیداد مال مویشی کے ریوڑ ہوتے تھے اور دولت کا اندازہ نہیں تھا مگر جب تکلیف آئی تو سب کچھ جاتا رہا اور بیمار اس قدر ہو گئے کہ علاقے والوں نے نکال دی اور آپ کے جسم پر کیڑے پڑ گئے اگر کوئی کیڑا نیچے گرتا تو آپ فرماتے تیرا رزق للہ تعالی نے یاں لکھا ہے تو کہاں جاتا ہے تو اس کیڑے کی تکلیف باقیوں سے زیادہ ہتی تھی ۔ بہر کیف آپ نے صبر کیا ور جب تکلیف کی انتہا ہو گئی اور ایوب علیہ السلام نے بھی صبر کی انتہا کر دی تو اللہ تعالی نے فرشہ بھیجا اور چشمے جاری ہوئے ایوب علیہ السلام تن درست ہو گئے اور ارشاد باری تعالی ہے :

فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ ۖ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَذِكْرَىٰ لِلْعَابِدِينَ (سورہ الانبیاء84)

یعنی جو کچھ ان سے چھن گیا تھا اللہ تعالی نے اتنا ور زیادہ عطا فرما دیا ۔

صبر آسان نہیں ، بڑی ہمت کا کام ہے :

اللہ تعالی صبر کرنے والوں کی ہمت کی قدر بھی کرتا ہے فرماتا ہے صبر کرنا اتنا آسان نہیں ہے یہ بہت ہمت اور مشکل کام ہے ہر کوئی اس میدان میں کامیاب نہیں ہو جاتا فرمایا:

وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ﴾ [آل عمران: 186]

﴿ يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ﴾ [لقمان: 17]

﴿ وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ﴾ [الشورى: 43].

صبر کرنا بہت مشکل کام ہے مگر جو صبر کر جاتے ہیں فرمایا پھر ان کے لیے اجر ہی اجر ہے ۔

اور جنہوں نے صبر کیا اور اللہ کی رضا کے لیے صبر کیا تو اللہ تعالی کے ہاں ان کے لیے بہت اجر و ثواب ہے ارشاد فرمایا:

﴿ وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَؤُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ ﴾ [الرعد: 22]

یعنی جو اللہ تعالی کی رضا کے لیے صبر کرتے ہیں تو فرمایا ان کے لیے بہترین آخرت کا گھر ہے۔

صبر کرنے پر اجر کی انتہا:

اب اللہ تعالی اجر کتنا عطا فرماتا ہے سنیں فرمایا :

﴿ مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ بَاقٍ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُوا أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ [النحل: 96]

﴿ إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ ﴾ [هود: 11]

﴿ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ ﴾ [الرعد: 24]

﴿ وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ ﴾ [النحل: 126]

﴿ إِنِّي جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوا أَنَّهُمْ هُمُ الْفَائِزُونَ ﴾ [المؤمنون: 111]

﴿ أُولَئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا ﴾ [الفرقان: 75]

﴿ أُولَئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا وَيَدْرَؤُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ ﴾ [القصص: 54]

إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ﴾ [الزمر: 10]

﴿ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴾ [فصلت: 35]

 احادیث مبارکہ:

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏    يَوَدُّ أَهْلُ الْعَافِيَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِينَ يُعْطَى أَهْلُ الْبَلَاءِ الثَّوَابَ لَوْ أَنَّ جُلُودَهُمْ كَانَتْ قُرِضَتْ فِي الدُّنْيَا بِالْمَقَارِيضِ   (ترمذی 2402)

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب قیامت کے دن ایسے لوگوں کو ثواب دیا جائے گا جن کی دنیا میں آزمائش ہوئی تھی تو اہل عافیت خواہش کریں گے کاش دنیا میں ان کی کھالیں قینچیوں سے کتری جاتیں“

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: ’’جب میں اپنے کسی بندے کو اُس کے جسم، مال یا اولاد کے ذریعے آزمائش میں مبتلا کروں ، پھر وہ صبر جمیل کے ساتھ اُس کا استقبال کرے تو قیامت کے دن مجھے حیا آئے گی کہ اس کے لیے میزان قائم کروں یا اس کا نامۂ اعمال کھولوں ۔ (نوادر الاصول ، الاصل الخامس والثمانون والمائۃ، ج۲، ص۷۰۰، حدیث: ۹۶۳۔)

شکر کرنے کے لیے عطا کیا :

وَأَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿٢٦ الأنفال﴾

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ ﴿١٧٢ البقرة﴾

وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿14 النحل﴾

وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَشُكُورًا ﴿62 الفرقان﴾

وَلَهُمْ فِيهَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ أَفَلَا يَشْكُرُونَ ﴿73 يس﴾

كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿٨٩ المائدة﴾

وَلَٰكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿٦ المائدة﴾

وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ ﴿١٤٥ آل عمران﴾

وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿78 النحل﴾

وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ ﴿12 لقمان﴾

اللہ تعالی شکر کرنے والوں کی قدر کرتا ہے:

وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ ﴿١٥٨ البقرة﴾

وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًا ﴿١٤٧ النساء﴾

لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ ﴿30 فاطر﴾

إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ ﴿34 فاطر﴾

وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ ﴿17 التغابن﴾

اپنا ہی فائدہ ہے :

فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ ﴿12 لقمان﴾

وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ﴿7 الزمر﴾

لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ﴿٤٠ النمل﴾

شکر کرنے سے عذاب نہیں آتا:

مَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ ﴿١٤٧ النساء﴾

شکر کتنی نعمت پر ادا کریں:

ایک مرتبہ دوپہر کے وقت سخت دھوپ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ پریشان ہوکر گھر سے چلے، مسجد میں پہنچے ہی تھے کہ حضرت عمر فاروقؓ بھی اسی حالت میں تشریف لے آئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بیٹھا ہوا دیکھ کر دریافت کیا : ’’ تم اس وقت یہاں کہاں۔ ‘‘ صدیق اکبرؓ نے فرمایا : ’’بھوک کی بے تابی نے پریشان کیا۔ ‘‘ حضرت عمرؓ نے عرض کیا ’’ وﷲ! اسی چیز نے مجھے بھی مجبور کیا کہ کہیں جاؤں۔ ‘‘

 

یہ دونوں حضرات یہ گفت گو کر ہی رہے تھے کہ سرکارِ دو عالم نبی اکرمؐ ﷺ تشریف لے آئے اور انہیں دیکھ کر دریافت فرمایا : ’’ تم اس وقت یہاں۔ ‘‘ عرض کیا یارسول ﷲ ﷺ! : ’’بھوک نے پریشان کیا، جس سے مضطرب ہوکر نکل پڑے۔ ‘‘ حضورؐ نے ارشاد فرمایا : ’’ اسی مجبوری سے میں بھی آیا ہوں۔‘‘

 

تینوں حضرات اکٹھے ہوکر حضرت ابوایوب انصاریؓ کے مکان پر پہنچے تو وہ تشریف نہیں رکھتے تھے۔ ان کی بیوی نے بڑی مسرت و افتخار سے ان حضرات کو بٹھایا۔ حضور اقدسؐ نے دریافت فرمایا : ’’ ابوایوبؓ کہاں گئے ہیں ؟ ‘‘ عرض کیا : ’’ ابھی حاضر ہوتے ہیں، کسی ضرورت سے گئے ہوئے ہیں۔‘‘ اتنے میں ابوایوبؓ بھی حاضر خدمت ہوگئے اور فرطِ خوشی میں کھجور کا ایک بڑا سا خوشہ توڑ لائے۔ حضورؐ نے ارشاد فرمایا : ’’سارا خوشہ کیوں توڑا ؟ اس میں کچی اور ادھ کچری بھی ٹوٹ گئیں، چھانٹ کر پکی ہوئی توڑ لیتے ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا: ’’ اس خیال سے توڑا کہ ہر قسم کی سامنے ہوں، جو پسند ہو وہ نوش فرمائیں۔‘‘ (کیوں کہ بعض مرتبہ پکی ہوئی سے آدھ کچری زیادہ پسند ہوتی ہیں) خوشہ سامنے رکھ کر جلدی سے گئے اور ایک بکری کا بچہ ذبح کیا اور جلدی جلدی کچھ تو ویسے ہی بھون لیا، کچھ کا سالن تیار کرلیا۔

 

حضور اقدسؐ نے ایک روٹی میں تھوڑا سا گوشت رکھ کر ابو ایوبؓ کو دیا کہ یہ حضرت فاطمہؓ کو پہنچا دو، اس کو بھی کئی دن سے کچھ نہیں مل سکا۔ وہ فوراً پہنچا کر آئے ان حضرات نے بھی سیر ہوکر تناول فرمایا۔ اس کے بعد حضور اقدسؐ نے ارشاد فرمایا کہ : ’’دیکھو! یہ ﷲ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں، روٹی ہے، گوشت ہے، ہر قسم کی کچی اور پکی کھجوریں ہیں۔ ‘‘ یہ فرما کر نبی اکرمؐ کی پاک آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور ارشاد فرمایا : ’’ اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، یہی وہ نعمتیں ہیں جن سے قیامت میں سوال ہوگا۔‘‘

 

جن حالات میں اس وقت یہ چیزیں میسر ہوئی تھیں، اس لحاظ سے صحابہ کرامؓ کو بڑی گرانی اور فکر ہوئی کہ ایسی مجبوری اور اضطرار کی حالت میں یہ چیزیں میسر آئیں اور ان پر بھی سوال و حساب ہوگا؟

 

حضور ؐ نے ارشاد فرمایا : ’’ ﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا تو ضروری ہے ہی، لہٰذا جب اس قسم کی چیزوں کی طرف ہاتھ بڑھاؤ تو اوّل بسم ﷲ پڑھو اور جب کھا چکو تو کہو ’’الحمدﷲ‘‘۔ اس دعا کا پڑھنا شکر ادا کرنے میں کافی ہے۔‘‘

 

 

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive