...
....
وظائف
مختلف وظائف کے لیے کلک کریں
دار المطالعہ
اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں
صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی
صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں
گوشہءِ غزل
بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں
12/29/16
What is Tolerance In Islam.
12/23/16
ربیع الاول کا پیغام مسلمانوں کے نام The message of Rabi ul awal
الحمد للہ رب العلمین و العاقبۃ للمتقین۔ والصلوۃ و السلام علی سید الانبیاء و المرسلین و علی آلہ الطیبین الطاہرین و علی اصحابہ اجمعین۔ اما بعد:
سونے اور جاگنے کے آداب اور اسلام | اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے | islam is the code of life
سونے جاگنے کے آداب
اسلام صرف مذہب نہیں بلکہ
مکمل نظامِ حیات ہے جس میں ہر چیز کے متعلق احکام اور آداب پوری تفصیل کے ساتھ
موجود ہیں۔نینداورسوناانسان کی مادی ضرورت ہے اور اسلام نے اس مادی عمل کے بارے میں
بھی احکام اورآداب بتائے ہیں۔یہ آداب ایسے ہیں جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں
اور اخلاقی لحاظ سے بھی بہت اعلیٰ و ارفع ہیں۔ ان آداب کی شرعی حیثیت واجب یا فرض
کی نہیں ‘بلکہ سنت اور مستحب کی ہے۔لیکن یہ یاد رہے کہ ان آداب کی رعایت رکھنے سے
ایک طرف تو بہت سے طبعی اورجسمانی فوائد حاصل ہوتے ہیں تو دوسری طرف ان آداب کی
رعایت رکھنے سے یہ مادی عمل بھی ثواب اور تقرب الی اللہ کا ذریعہ بن جاتا ہے۔سونے
کے آداب درج ذیل ہیں:
(۱)بغیر دیوار کی چھت پر
سونے کی ممانعت: نبی
کریمﷺ نے ایسی چھت پر سونے سے منع فرمایا جس کے چاروں طرف دیوار یا منڈیر نہ ہو۔اس
کی وجہ یہ ہے کہ انسان نیند میں غفلت کے باعث کہیں چھت سے گر نہ جائے۔ رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا کہ:’’جو شخص کسی گھر کی ایسی چھت پر سوئے جس کا کوئی پردہ (دیوار)نہ ہو
تو اس کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے۔‘‘(ابوداؤد)۔اس ’’ذمہ داری‘‘سے مراد اللہ تعالیٰ
کی طرف سے بندوں کی حفاظت کے غیبی انتظامات ہیں۔ جب کوئی شخص بغیر دیوار کی چھت پر
سوتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے اس حفاظتی انتظام کا حق کھو دیتا ہے اور حفاظت کرنے
والے فرشتوں کی کوئی ذمہ داری نہیں رہتی۔
(۲)سوتے وقت آنکھوں میں سرمہ
ڈالنا:نظر کاکمزورہونااوربالوں کاجھڑناموجودہ
دور کے اہم مسائل میں سے ہیں جن کی وجہ سے لوگ خاصے پریشان نظر آتے ہیں اور اس سے
چھٹکارا پارا کے لیے ان گنت کوشش کرتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو نبی کریمﷺ کی تعلیمات
میں اس کا حل موجود ہے اور وہ ہے رات کو سوتے وقت سرمہ لگانا۔حضرت جابرؓ فرماتے ہیں
کہ میں نے نبی کریمﷺ کو یہ فرماتے سنا:’’سوتے وقت اثمد سرمہ اہتمام سے استعمال کیا
کرو اس لیے کہ یہ بینائی میں اضافہ کرتا ہے اور بالوں کو اُگاتا ہے۔‘‘(ابن ماجہ)
(۳)سونے سے پہلے بستر جھاڑنا:سونے
کے آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بندہ جب لیٹنے کا ارادہ کرے تو اپنے بستر کو
جھاڑے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی موذی جانور اس کے بستر پر موجود ہو اور اسے نقصان
پہنچائے۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’ جب تم میں سے کوئی
اپنے بستر پر جائے تو اسے چاہیے کہ اپنے تہبند کے اندرونی حصہ سے اپنے بستر کو
جھاڑے اور بسم اللہ پڑھے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے بعد بستر پر کون اس کا جا
نشین بنا تھا ۔‘‘….مسلم
(۴)چراغ اور آگ بجھا کر سونا:نبی
کریم ﷺ نے سونے کے حوالے سے یہ ہدایت دی کہ جب رات کو سونے کا ارادہ کرو تو چراغ
بجھا دیا کرو تاکہ ہر قسم کے نقصان سے بچ سکو۔حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول
اللہ نے فرمایا:’’رات کو جب تم سوتے ہو تو اپنے گھروں میں آگ اور چراغ کو چلتا نہ
چھوڑو۔‘‘ (ابوداؤد)آج کے دور میں چراغ اور آگ کا اطلاق خصوصی طور پر سوئی گیس کے
چولہے اور ہیٹر پر ہوگا کہ سونے سے پہلے ان کو لازمی بند کر دیا جائے۔ورنہ آئے دن
اخبارات میں ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ چولہے یا ہیٹر سے گھر کو آگ لگ گئی یا دم
گھٹنے سے انسان کی موت واقع ہوگئی۔
(۵)لیٹنے کی حالت میں بے
پردگی سے بچنا:اسلامی
تعلیمات میں ستر پوشی کی خاص اہمیت ہے اورہر وہ حالت جس میں بے پردگی کا اندیشہ ہو
‘ اسلام نے اسے ممنوع قرار دیا ہے۔عہدِ رسولؐ میں لوگ زیادہ تر تہبند (پنجابی میں
جسے دھوتی کہتے ہیں)پہنا کرتے تھے اور اس میں سیدھا لیٹ کر ٹانگ پر ٹانگ رکھنے سے
بے پردگی کا اندیشہ تھا اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس طرح لیٹنے سے منع فرمایا۔حضرت
جابرؓ سے روایت ہے: ’’رسول اللہ ﷺ نے سیدھے لیٹ کر ٹانگ پر ٹانگ رکھنے سے منع فرمایا۔‘‘(مسلم)البتہ
اگر لباس ایسا ہو جس میں اس طرح لیٹنے سے بے پردگی کا اندیشہ نہ ہو تو پھر اس طرح
لیٹنا جائز ہے۔
(۶)اُلٹا لیٹنے کی ممانعت:
پیٹ کے بل اُلٹا لیٹنا ممنوع ہے اس لیے کہ یہ غیر مہذہب اور غیر فطرتی طریقہ ہے‘
جبکہ اسلام دین فطرت ہے اور تمام معاملات میں فطرتی طریقوں کو ہی پسند کرتا
ہے۔رسول اللہﷺ نے پیٹ کے بل لیٹنے کو اہل جہنم کا طریقہ قرار دیاہے۔حضرت ابوذرغفاریؓ
بیان کرتے ہیں کہ:’’ رسول اللہﷺایک دفعہ میرے پاس سے گزرے اور میں پیٹ کے بل لیٹا
ہواتھا تو آپؐ نے اپنے قدم مبارک سے مجھے ہلایا اور فرمایا:’’اے جندب !یہ اہل جہنم
کا طریقہ ہے۔‘‘…ابن ماجہ والدین کا مقام و مرتبہ
۔۔۔پڑھنے کے لیے کلک کریں
(۷)دائیں
کروٹ پر سونا:ہر
اچھے کام کی ابتدا دائیں طرف سے کرنا باعث برکت ہے اسی طرح سوتے وقت بھی دائیں
کروٹ پر سونا برکت کا باعث ہے۔ نبی کریمﷺ کی بھی یہی عادت تھی کہ آپ دائیں کروٹ پر
لیٹتے اور دائیں ہاتھ کو اپنی رخسار کے نیچے رکھتے تھے۔اور اپنے صحابہ کرام کو بھی
اسی کی ہدایت فرماتے تھے:’’حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں ہدایت
فرماتے کہ جب تم میں سے کوئی سونے کا ارادہ کرے تو اپنی دائیں کروٹ پر لیٹے۔‘‘….مسلم
(8)سوتے وقت کے مختلف آداب:مندرجہ
بالا آداب کے علاوہ نبی کریمﷺ نے اور بھی بہت سی ایسی ہدایات دی ہیں جن پر عمل پیرا
ہونے سے انسان مختلف قسم کے نقصانات سے بچ جاتا ہے۔حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان
کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’
(۱) جب
رات کی تاریکی آ جائے یا تمہارے سامنے شام ہو جائے تو اپنے بچوں کو باہر نکلنے سے
روکو اس لیے کہ اس وقت شیاطین پھیل جاتے ہیں اورجب رات کی ایک گھڑی گزر جائے تو ان
کو چھوڑ دو۔اور
(۲)اللہ کا نام لے کر دروازے بند کردو اس لیے کہ شیطان
بند کیے ہوئے دروازے نہیں کھولتا۔اور
(۳) اپنے مشک (پانی کا
مٹکا‘بوتل وغیرہ)کے منہ بسم اللہ پڑھ کر بند کرلیا کرو۔اور
(4)
اللہ
کا نام لے کر برتن ڈھانک دیا کرو، اگرچہ عرض میں ہی کوئی چیز کیوں نہ ہو۔‘‘…بخاری
سونے کی دعا
:رسول اللہ ﷺ نے ایک طرف سونے کے آداب تفصیل سے بیان فرمائے
ہیں اور دوسری طرف سونے کی دعابھی اپنی اُمت کو تعلیم فرمائی ہے جس کو پڑھنے سے
انسان ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہتا ہے۔حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ ﷺ کا
معمول تھا جب سونے کے لیے لیٹتے تو اپنا(دائیاں)ہاتھ رخسار کے نیچے رکھتے اور یہ
دعا پڑھتے:اَللّٰھُمَّ بِاسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْیٰی(اے
اللہ !میں تیرے ہی نام کے ساتھ مرنا اور جینا چاہتا ہوں)۔علماء نے اس دعا کی فضیلت
کے بارے میں لکھا ہے کہ جو شخص اس دعا کو اپنا معمول بنائے گا تو قیامت کے دن جب
وہ اٹھایا جائے گا تو اس وقت اس کی زبان سے یہ دعا جاری ہوگی اور اس وقت اس دعا کے
معنی پوری طرح صادق آئیں گے اس لیے کہ تب انسان حقیقی موت کے بعد ہی دوبارہ زندہ کیا
جائے گا۔
سوتے وقت کے
اَذکار:ماقبل بیان کردہ دعا کے علاوہ اوربھی کئی
اذکار ہیں جن کو سوتے وقت پڑھنے کی بہت فضائل ہیں‘مثلاً
(۱)سورۃ
البقرہ کی آخری دو آیات:حضرت ابومسعود بدریؓ سے
روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص رات کو سوتے وقت سورۃ البقرہ کی آخری د
وآیات پڑھ لے وہ اس کے لیے کافی ہے۔‘‘…بخاری
(۲)سورۃ
الکافرون : نبی کریم ﷺ نےحضرت نوفلؓ سے فرمایا: ’’قل یا
ایھا الکافرون‘‘آخر تک پڑھ کر سویا کرو اس لیے کہ اس میں شرک سے برأت
ہے۔‘‘(ابوداؤد
(۳)سبحان
اللہ‘الحمد للہ‘اللہ اکبر:حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ
حضرت فاطمہؓ نبی کریمﷺ کے پاس خادم مانگنے کے لیے گئیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
:’’کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتا دوں!سوتے وقت۳۳ بارسبحان اللہ۳۳بار الحمد للہ اور۳۴بار اللہ اکبر پڑھ لیا
کرو۔‘‘ …بخاری
(۴)قرآن
کی کوئی سورت:نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’جو مسلمان
سوتے وقت قرآن کی کوئی سورۃ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کے لیے ایک فرشتہ
مقرر کر دیتاہے ۔چنانچہ تکلیف دینے والی کوئی چیز اس کے بیدار ہونے تک اس کے قریب
نہیں آتی۔‘‘(ترمذی)یہ فضیلت سورۃالاخلاص ‘ سورۃ الکوثر اور سورۃ العصر پڑھنے سے بھی
حاصل ہوتی ہے جس کے پڑھنے میں ایک دو منٹ سے زیادہ نہیں لگتے۔
بیداری کے وقت کی دعا:انسان
جب نیند سے بیدار ہوتا ہے تو اسے چاہیے کہ اللہ کا شکر بجا لائے اور یہ دعا پڑھے:اَلْحَمْدُ
لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النَّشُوْر(تمام
تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں ایک طرح کی موت کے بعد زندہ کیا اور اُسی کی
طرف مر نے کے بعدلوٹ کر جانا ہے۔‘‘…بخاری
بیدار ہو کر
ہاتھ دھونا:دین اسلام میں انسانی جسم کی صفائی
اور پاکی کی بہت اہمیت ہے اسی لیے نبی کریم ﷺ نے سو کر اٹھنے کے بعد ہاتھ دھونے کی
ہدایت فرمائی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ جس
وقت تم میں سے کوئی شخص رات میں نیند سے بیدار ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنا ہاتھ
برتن میں نہ ڈالے یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ دو یا تین مرتبہ دھولے۔‘‘…..نسائی
بیدار
ہوکر مسواک کرنا:وضو
کے وقت مسواک کرنا بہت فضیلت کا باعث ہے اور اس سے وضو اور نماز کے ثواب میں کئی
گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ نیند سے بیدار ہو کر مسواک کرنا بھی مسنون
عمل ہے اور بہت فوائد کا باعث ہے ۔نبی کریم ﷺ اس کا اتنا اہتمام فرمایا کرتے تھے
کہ مسواک کو اپنے سرہانے رکھ کر سویا کرتے تھے اور بیدار ہونے کے فوراً بعد مسواک
کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:’’رسول اللہ ﷺ رات یا دن میں جب بھی سو کر
اٹھتے تو مسواک ضرور کرتے تھے۔‘‘(ابوداؤد)
سائنس بھی اس بات پر زور دیتی ہے کہ انسان کو نیند کے
بعد اپنے دانتوں کی صفائی ضرورکرنی چاہیے اس سے انسان مختلف قسم کی بیماریوں سے بچ
جاتا ہے اور تندرست و توانا رہتاہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان آداب کی رعایت رکھنے کی
توفیق عطا فرمائے ‘آمین’
Sweet Advice From Beloved Hazrat Muhammad ﷺ
10/18/16
وجودِ باری تعالی کے دلائل
وجودِ باری تعالی کے دلائل:
طرح کے تجارتی سامان ہیں کوئی اس کشتی کی نگرانی نہیں کرتاہے اور نہ اس کو چلانے والا کوئی ہے اس کے باوجود کشتی اپنے آپ آتی جاتی اور چلتی پھرتی ہے بڑی بڑی موجوں کو چیر پھاڑکر نکل جاتی ہے کسی ناخدا کے بغیر اپنے آپ چلتی پھرتی رہتی ہے لوگوں نے کہا یہ بات کوئی عقل والا نہیں کہے گا تب امام صاحب نے فرمایا افسوس ہے تمہاری عقلوں پرکہ ایک کشتی کے متعلق تمہارا گمان ایساہے تو یہ موجودات جن میں آسمان و زمین اور دوسری مستحکم اشیاءہیں کیا ان کا کوئی صانع نہیں ہے؟ یہ سن کر قوم لا جواب ہوگئی حق کی طرف رجوع کیا اور امام صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔
دوسرے سے الگ ہوتی ہے یہاں تک کہ ایک ہی حیوان سے پیداہونے والے بچے سب الگ الگ رنگ وروپ اور شکل کے ہوتے ہیں ۔
ایسی دو چیزوں کو نشان لگائے بغیر ایک ساتھ رکھ دیں تو ان میں پہچان کرنا مشکل ہے۔ لیکن قدرت کی فیکٹری کا کمال دیکھےے کہ اس کے سانچے میں ڈھلنے والی مصنوعات ایک دوسری سے بالکل الگ الگ ہیں ۔ یہ اس ذات کی وجودکی نشانی نہیں تو اور کیا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:
وجود باری تعالی || نظریہ ارتقاء اور وجودِ باری تعالی || کائنات کے عجائبات || What a Universe
نظریہ ارتقاء کو ماننے والے بقائے اصلح (Survival of the Fittest) کا نظریہ پیش کر کے زمینی مخلوقات میں
اللہ تعالی کی نشانیوں کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں لیکن اس بات کا ان کے پاس
کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے کہ زمین سے لاکھوں کلومیٹر دور سورج میں وہ تمام خوبیاں
کیسے پیدا ہو گئیں جو زمین پر زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔مثلًا سورج کی کشش
سمندر میں مدوجزد کا سبب بنتی ہے جس سے سمندری پانی متحرک رہتا ہے اور اس میں وہ
بو اور سرانڈ پیدا نہیں ہوتی جو کھڑے پانی میں پیدا ہو جاتی ہے،اگر ایسا نہ ہوتا
تو سمندری پانی کی بو پوری زمین کو متعفن بنا دیتی ۔ پودوں میں ضیائی تالیف (Photosynthesis) کا عمل سورج کی روشنی کے بغیر ممکن
نہیں۔دنیا میں پیدا ہونے والی تمام خوراک بالواسطہ یا بلاواسطہ اسی ضیائی تالیف کا
نتیجہ ہے۔ سورج سے آنے والی الٹرا وائلٹ ریز کا ایک حصہ زمین کے درجہ حرارت کو
مناسب سطح پر رکھتا ہے۔ انسانی آنکھ روشنی کے سپیکٹرم کے اس حصے کے لیے حساس ہے جو
سورج سے آتی ہے۔سورج کی روشنی چاند سے ٹکرا کر زمین کی طرف پلٹتی ہے اور رات کے
وقت اسے مکمل اندھیرے سے بچاتی ہے۔ سورج کا زمین سے فاصلہ(تقریبًا 150 ملین کلو میٹر)
اتنا متناسب ہے کہ اگر تھوڑا زیادہ ہو تا تو زمین ٹھٹھر کر رہ جاتی اور دریا برف
بن جاتے اور اگر کم ہوتا تو قطب شمالی اور جنوبی پر موجود برف پگھل جاتی اور ساری
زمین زیرِ آب آ جاتی۔ فَبِاَيِّ آلَاء
رَبِّكَ تَتَمَارَى (سورۃ النجم۔55)''پس(اے انسان) تُو اپنے رب کی کن کن نعمتوں
میں شک کرے گا۔''سورج جس کہکشاں (Galaxy)
میں واقع ہے اس کا نام مِلکی وے (Milky
Way) ہے ، ملکی وے میں 400 بلین ستاروں کے موجود ہونے کا اندازہ لگا یا
گیا ہے یہ ستارے ایک دوسرے سے اتنے زیادہ فاصلے پر واقع ہیں کہ اسے ناپنےکے لیے
روایتی پیمانے کم پڑ جاتے ہیں۔ ان کی پیمائش کے لیے ہیئت دانوں نے نوری سال (Light Year) کی اصطلاح وضع کی ہے۔نوری سال کو
سمجھنے کے لیے ذہن میں یہ بات تازہ کر لیجیے کہ روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی
سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ سورج سے زمین تک 150 ملین کلو میٹر فاصلہ طے کرنے
میں اسے تقریبًا آٹھ منٹ لگتے ہیں۔اگر روشنی اسی رفتار سے ایک سال تک چلتی رہے تو
اسے ایک نوری سال کہا جاتا ہے۔ مِلکی وے کا قطر(Diameter) ایک لاکھ نوری سال ہے۔ جبکہ کہکشاں
کے مرکز سےسورج تک کا فاصلہ 26٫000 نوری سال ہے۔ اس میں موجود ستاروں میں سے بعض
سورج سے کروڑہا گنا بڑے ہیں۔ مثلاً ستارہ Antares سورج سے 3500 گنا زیادہ روشن ہے اور اپنے اندر چھ کروڑ سورج سمو
سکتا ہے۔ یہ ہم سے تقریباً 400 نوری سال دور ہے۔ اس سے بھی بڑا ایک اور ستارہ Betelgeuse سورج سے 17000 گنا زیادہ روشن اور ہم
سے 310نوری سالوں کی دوری پر ہے۔ Scheat,
Riegel, W. Cephai, Aurigai اور Hereules ان سے بھی بڑے ستارے ہیں، انھیں Super giants کہتے ہیں۔ ان سے اٹھنے والے کروڑہا
کلومیٹر بلند شعلے اللہ تعالی کی جلالی قدرت کے مظہرہیں۔ اگر ان ستاروں کو سورج کی
جگہ پر رکھ دیا جائے تو نہ صرف ہماری دنیا بلکہ ہمارے سارے نظام شمسی میں سوائے آگ
کے کچھ نہ ہو۔ مثلاً اگر Scheat
کو سورج کے مقام پر رکھ دیا جائے تو زہرہ اس کے محیط میں آجائے اور اگر Betelguse سورج کی جگہ آجائے تو ہماری زمین اور
مریخ تک کی جگہ کو اپنے اندر نگل لے اور اگر Aurgai سورج کے مقام پر آجائے تو سیارہ Uranus اس کے محیط میں آجائے گا۔ یعنی سورج
سے لے کر یورینس تک آگ ہی آگ ہوگی اور نظام شمسی کی آخری حدود تک شعلے ہی شعلے ہوں
گے۔ اس سے آگے چلیں تو خود ہماری کہکشاں کا کائنات میں کوئی مقام نہیں ہے۔ اینڈرومیڈا
کہکشاں (Andromeda Galaxy)
ہم سے اکیس لاکھ اسی ہزار نوری سال دور ہے۔ اس میں 300 سے 400 بلین ستاروں کے
موجود ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔جبکہ اربوں کہکشائیں ایسی بھی ہیں جنھیں محض
عام انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا، بلکہ انھیں دیکھنے کے لیے انتہائی طاقت ور
دوربینیں درکار ہیں۔ ان کے درمیان لاکھوں کروڑوں نوری سال کے فاصلے ہیں۔ یہ سب
ساکن نہیں، بلکہ اپنے مرکز کے گرد گھوم رہی ہیں اور خلا میں بھی چل رہی ہیں۔ ان میں
سے بعض کی رفتار کروڑ ہا میل فی گھنٹا ہے ۔ ہیئت دانوں کا خیال ہے کہ کائنات میں
موجود کہکشاؤں کی تعداد 125 بلین کے قریب ہے۔ ان لاتعداد کہکشاؤں کے گھومنے اور ناقابل
یقین رفتار سے سفر کرنے کا حیرت انگیز منظر دوربینوں کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے۔
سائنس دان کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنی دوربینیں لے کر اس فاصلے کے آخر تک پہنچ جائیں
تب بھی یہی نظارہ ہوگا کیونکہ کائنات
میں مسلسل وسعت ہو رہی ہے۔ اللہ تعالی نے کتنی سچی بات فرمائی ہے:وَالسَّمَاء بَنَيْنَاھَا بِايْدٍ وَاِنَّا لَمُوسِعُونَ (الذاریات۔47)''آسمان
کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم اِسےوسیع کرتے جا رہے ہیں۔'' (الذاریات۔47)یہ
سب کچھ دیکھ کر ایک سلیم الفطرت آدمی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ کائنات کسی
بنانے والے کے بغیر نہیں بن سکتی، اس میں ستاروں اور سیاروں کے مدار اتنی درستگی
سے بنائے گئے ہیں کہ اگر ان میں چند ڈگری کا بھی فرق آ جائے تو کائنات ہل کر رہ
جائے۔ ارب ہا ستارے کائنات میں گردش کر رہے ہیں لیکن ایک دوسرے سے ٹکراتے نہیں۔مقرر
شدہ راستے سے ہٹتے نہیں۔اگر Antares
ستارے کے حجم کے برابر کوئی ستارہ ہمارے نظام شمسی کے قریب سے گزر جائے تو اس کی
کشش کی وجہ سے سارا نظام شمسی اس میں جا گرے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ کوئی تو ہے
جو لاکھوں اربوں سال سے زمین کی حفاظت کرتا چلا آتا ہے اور اسے اس طرح کی خلائی
آفتوں سے بچا کر رکھتا ہے۔
کائنات میں پایا جانے والا توازن، اور اس میں پایا جانے والا نظم کسی خالق کے وجود
کی خبردے رہا ہے۔ اَفِي
اللّہِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن
ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ اِلَى اَجَلٍ مُّسَمًّى (سورۃ ابراھیم۔آیت 10)'' کیا اللّٰہ کے بارے میں شک ہے جو
آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟ وہ تمہیں بلا رہا ہے تا کہ تمہارے قصور معاف کرے اور
تم کو ایک مدتِ مقرر تک مہلت دے۔''علاوہ ازیں اگر اسے چلانے والےایک سے زیادہ ہوتے
تو یہاں جنگ و جدل برپا رہتا مگر یہاں کا امن، سکون اور ہر ایک کی اطاعت و فرمانبرداری شہادت دیتی ہے
کہ ان کا خالق و مدبر ایک ہی ہے۔لَوْ كَانَ فِيھِمَا آلِھۃٌ اِلَّا اللَّہُ لَفَسَدَتَا
فَسُبْحَانَ اللَّہِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ (سورۃ الانبیاء۔22)''اگر
زمین و آسمان میں اللہ کے سوا بھی الٰہ ہوتے تو ان کا نظام بگڑ جاتا۔ پس پاک ہے
اللہ رب العرش اُن باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔''اس میں ان لوگوں کے لیے بھی
سوچنے کا سامان ہے جن کے خیال میں اللہ تعالٰی نے زمین پر کچھ لوگوں کو اپنا نائب یا
حاجت روا بنا کر حاجتیں پوری کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ میرے بھائی! جو اللہ اتنی
بڑی کائنات بنا سکتا ہے وہ بلا شرکتِ غیرے اسے چلا بھی سکتا ہے اور بلاشبہ اکیلے ہی
چلاتا ہے۔