Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

1/27/20

فرقہ واریت کیا ہے؟ فرقہ واریت کے نقصانات کیا ہیں؟ فرقہ واریت کے خاتمے کی تجاویزsection system in Islam and Pakistan

مواد جس کا آپ مطالعہ کریں گے:

فرقہ واریت کی تعریف:

فرقہ واریت کی وضاحت:   

فرقہ واریت اور قرآن مجید:

اسلام میں تفرقہ کی ممانعت:

ایک خاص آیت:

 تفرقہ واریت کے نقصانات قرآن مجید کی روشنی میں:

   فرقہ واریت سے نجات کی چند ایک تجاویز:                     

فرقہ واریت کی تعریف:                                  

لفظ ِفرقہ کا معنی گروہ اور جماعت کے ہیں۔ فرقہ کے معنی جماعت یا گروہ کے ہیں. یہ لفظ "فرق" سے مشتق ہے، جس کے معنی الگ کرنا/جدا ہونا ہے.دوسرے الفاظ میں فرقہ کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ فرقہ کسی بھی مذہب ، جماعت (سیاسی یا مذہبی) یا گروپ کا ذیلی حصہ ہوتا ہے جو اپنے الگ خیالات و نظریات کی وجہ سے الگ جانا جاتا ہے۔(1)

            ان معانی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فرقہ واریت کا مطلب ہے الگ الگ گروہوں اور جماعتوں میں بٹ جانا۔اور یہ گروہ بندی نظریاتی ہو یا عملی ہو یا عقلی ہو الغرض فرقہ واریت ہی کہلائے گی۔

فرقہ واریت کی وضاحت:

                        جب تک یہ بات واضح نہ ہو کہ فرقہ واریت کیا ہے اور اس کی مذمت کرنا یا کلام کرنا یا اس پر بحث کرنا سب کارِ لاحاصل ہو گا ۔دین اسلام کی اندر فرقہ واریت کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ایک تو یہ کہ جیسا بخاری شریف کی ایک روایت میں وارد ہے عبد اللہ بن عمر سے مروی ہےغزوہ احزاب کے روز نبی کریم ﷺ نے منادی فرما دی کہ کوئی شخص عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنو قریضہ کے پاس  تب بعض لوگوں کو عصر کی نماز راستے میں ہو گئی تو بعض نے کہا کہ ہم بنی قریضہ کے ہاں پہنچنے سے پہلے نماز نہ پڑھیں گے جبکہ دوسرے لوگ کہنے لگے کہ ہم تو پڑھ لیں گے ۔ اس بات کا ذکر نبی کریم ﷺ کے پاس کیا گیا تو آپ نے کسی ایک کو بھی سرزنش نہ کی[2]۔

            اس  روایت میں واضح ہے کہ صحابہ کرام کے دو گروہ نبے ایک نے نماز پڑھ لی دوسرے نے نہ پڑھی اس مسئلے پر اختلاف ہوا لیکن نبی کریم ﷺ نے دونوں میں سے کسی کو بھی غلط نہ کہا اور نہ ہی سرزنش کی نہ کسی گروہ کو نماز لوٹانے کا کہا آپ ﷺ کی خاموشی ہی دونوں گروہوں کے درست ہونے کا اشارہ بنی۔ یہاں اسلام نے اختلاف کی گنجائش رکھی ہے یعنی اس پر سختی نہیں کی کیوں کہ ایک نص کے ظاہری معنی ہوتے ہیں اور دوسرے مرادی معنی ہوتے ہیں جیسے ظاہری معنی تو یہ تھے کہ نماز بنو قریضہ کے پاس ہو گی اور مرادی معنی یہ تھے کہ بہت جلد پہنچنا ہے  تو اس صورت میں اسلام نے گنجائش رکھی ہے۔دوسری صورت یہ کہ جس کی دین اسلام نے سخت مذمت کی ہے  اور قرآن مجید نے کئی مقامات پر اور بےشمار احادیث میں اختلاف اور فرقہ بندی کی مذمت کی ہے اس صورت میں قرآن مجید کی آیات ذکر کی جا رہی ہیں۔

اصلاح معاشرہ کے لیے سورہ حجرات کی تعلیمات۔۔۔ ضرور پڑھیں

فرقہ واریت اور قرآن مجید:

                        قرآن مجید حق اور باطل کو الگ الگ فریق کہتا ہے اور ارشاد باری تعالی ہے:

پہلی آیت: فَرِیْقًا هَدٰى وَ فَرِیْقًا حَقَّ عَلَیْهِمُ الضَّلٰلَةُؕ-اِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ۔(سورۃ الاعراف: 30)

 ترجمہ: بعض لوگوں کو اللہ نے ہدایت دی ہے اور بعض پر گمراہی ثابت ہو گئی ہے۔ ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنا لیا اور خیال رکھتے ہیں کہ وہ راست پر ہیں۔

دوسری آیت: وَ كَذٰلِكَ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَ مَنْ حَوْلَهَا وَ تُنْذِرَ یَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَیْبَ فِیْهِؕ-فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّةِ وَ فَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ۔(سورۃ الشوری : 7)

 ترجمہ: اس طرح ہم نے آپ کی طرف عربی قرآن کی وحی کی ہے تاکہ آپ مکہ والوں کو اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو خبردار کر دیں اور جمع ہونے کے دن جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ڈرا دیں۔ ایک گروہ جنت میں ہوگا اور ایک گروہ جہنم میں ہوگا۔ اس آیت میں ایک گروہ کو جنتی اور دوسرے کو دوزخی کہا ہے دونوں اپنے اعمال ، نظریات ، عقائد اور اقوال میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور یہی اختلاف اور گروہ بندی حرام اور ناقابل برداشت ہے۔

 تیسری آیت: وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ الْكِتٰبِ وَ مُهَیْمِنًا عَلَیْهِ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِـعْ اَهْوَآءَهُمْ عَمَّا جَآءَكَ مِنَ الْحَقِّؕ-لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًاؕ-وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لٰكِنْ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِؕ-اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَۙ۔(سورۃ المائدہ: 48)

 ترجمہ: اور اے حبیب !ہم نے تمہاری طرف سچی کتاب اتاری جو پہلی کتابوں کی تصدیق فرمانے والی اور ان پر نگہبان ہے تو ان (اہلِ کتاب) میں اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ کرو اور اے سننے والے ! اپنے پاس آیا ہوا حق چھوڑ کران کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا۔ ہم نے تم سب کے لیے ایک ایک شریعت اور راستہ بنایا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا مگر (اس نے ایسا نہیں کیا) تا کہ جو (شریعتیں ) اس نے تمہیں دی ہیں ان میں تمہیں آزمائے تو نیکیوں کی طرف دوسروں سے آگے بڑھ جاؤ، تم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے تو وہ تمہیں بتادے گا وہ بات جس میں تم جھگڑتے تھے۔

               درج بالا آیات میں  لوگوں کی گروہ بندی بیان کی گئی ہے اس میں ایک گروہ جنتی ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے ہدایت پر ہے اور دوسرا گروہ جس نے اللہ تعالی کا انکار کیا اور انحراف کیا وہ گرو دوزخی اور گمراہ ہے۔مزید برآں ان آیات میں دین اسلام کو ماننے اور نا ماننے والے گروہ سے متعلق بات ہے اب ذیل مین ان آیات کا ذکر کیا جاتاہے جن میں مسلمانوں کو آپس میں تفرقہ ڈالنے سے منع کیا گیا ہے اور آپس میں اتحاد اور اتفاق کی تلقین کی گئی ہے ۔

اسلام میں تفرقہ کی ممانعت:

                   مسلمانوں کو تفرقہ بازی سے بہت سختی سے منع کیا گیا ہے اور قرآن مجید کی  آیات اس بات پر شاہد ہیں ۔

پہلی آیت: اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍؕ-اِنَّمَاۤ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ(سورۃ الانعام: 159)

ترجمہ: بیشک وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے اور خود مختلف گروہ بن گئے اے حبیب! آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔ ان کا معاملہ صرف اللہ کے حوالے ہے پھر وہ انہیں بتادے گا جو کچھ وہ کیاکرتے تھے۔

              اس آیت میں  سختی انتہا درجے کی ہے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ دین میں الگ الگ گرقہ بناتے ہیں ان سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔یعنی دین کے اصول اور قوانین جو اللہ اور اس کے رسول نے طے کر دیے ان میں اختلاف یا ردو بدل کی قطعاًکسی کو کوئی اجازت نہیں ہے یا جو مذہب کو اپنے مذموم نظریات  یا مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ان سے اللہ کے رسول ﷺ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

دوسری آیتوَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ تَفَرَّقُوۡا وَ اخۡتَلَفُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡبَیِّنٰتُ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ (سورۃ اٰل عمران: 105)

تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آجانے کے بعد بھی تفّرقہ ڈالا اور اختلاف کیا ، انہی لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے ۔

تیسری آیت:وَ مَا تَفَرَّقُوْۤا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْؕ-وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى لَّقُضِیَ بَیْنَهُمْؕ-وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْرِثُوا الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِیْبٍ۔(سورۃ الشوری: 14)

ترجمہ: اور انہوں نے پھوٹ نہ ڈالی مگر اپنے پاس علم آجانے کے بعد اپنے باہمی حسد کی وجہ سے اور اگر تمہارے رب کی طرف سے ایک مقررہ مدت تک کی بات نہ گزر چکی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ ہو چکا ہوتا اور بیشک وہ لوگ جو ان کے بعد کتاب کے وارث بنائے گئے وہ اس (قرآن)کے متعلق ایک دھوکا ڈالنے والے شک میں ہیں ۔

چوتھی آیت:مُنِیْبِیْنَ اِلَیْهِ وَ اتَّقُوْهُ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙمِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًاؕ-كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ  (سورۃ الروم : 31،32)

اس کی طرف توبہ کرتے ہوئے اور اس سے ڈرو اور نماز قائم رکھو اور مشرکوں میں سے نہ ہونا۔ان لوگوں میں سے (نہ ہونا) جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیااور خود گروہ گروہ بن گئے۔ ہر گروہ اس پر خوش ہے جو اس کے پاس ہے۔

 درج بالا آیات میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو تفرقہ بازی سے منع کیا اور سابقہ امتوں کا حوالہ دیا اور فرمایا ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈال دیا علم آ جانے کے بعد ۔

ایک خاص آیت:

                وَ  اعْتَصِمُوْا  بِحَبْلِ  اللّٰهِ  جَمِیْعًا  وَّ  لَا  تَفَرَّقُوْا۪-وَ  اذْكُرُوْا  نِعْمَتَ  اللّٰهِ  عَلَیْكُمْ  اِذْ  كُنْتُمْ  اَعْدَآءً  فَاَلَّفَ  بَیْنَ  قُلُوْبِكُمْ  فَاَصْبَحْتُمْ  بِنِعْمَتِهٖۤ  اِخْوَانًاۚ-وَ  كُنْتُمْ  عَلٰى  شَفَا  حُفْرَةٍ  مِّنَ  النَّارِ 

فَاَنْقَذَكُمْ  مِّنْهَاؕ-كَذٰلِكَ  یُبَیِّنُ  اللّٰهُ  لَكُمْ  اٰیٰتِهٖ  لَعَلَّكُمْ  تَهْتَدُوْنَ(سورۃ اٰل عمران :103)

                        ترجمہ: اللہ تعالٰی کی رسی کو سب ملکر مضبوط تھام لو  اور پھوٹ نہ ڈالو  اور اللہ تعالٰی کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچالیا اللہ تعالٰی اسی طرح تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔

اس آیت میں اللہ تعالی نے مسلمانون کو وضاحت کے ساتھ ارشاد فرمایا کی آپس میں تفرقہ نہ ڈالو، ایک دوسرے سے جدا جدا راہیں اختیار نہ کرو ۔ اور فرمایا کہ یہ اتحاد اور اتفاق یہ اللہ تعالی کی نعمت ہے جو اس نے تم پر کی کہ اس سے پہلے لوگ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے تھے اور ایک دوسرے کے دست و گریبان تھے اور اس نے لوگوں کے درمیان الفت ڈال دی اور تمام مسلمان بھائی بھائی بن گئے اور مستقبل کے حوالے سے نصیحت فرمائی کہ آپس میں تفرقہ نہ ڈالنا اور اس اتحاد اور اتفاق کو برقرار رکھنا  اور اگر اس اختلاف میں پڑ گئے اور راہیں جدا جدا کر لیں تو اس کے نقصانات بہت زیادہ ہیں ان کو بھی قرآن مجید نے بیان کیا ہے ذیل میں اس کے متعلق آیات بیان کی جا رہی ہیں۔

تفرقہ واریت کے نقصانات قرآن مجید کی روشنی میں:

                                    قرآن مجید نے تفرقہ واریت اور مسلمانوں کی آپس میں گروہ بندی کے نقصانات کو بیان کیا ہے فرمانِ باری تعالی ہے:

    وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْهَبَ رِیْحُكُمْ وَ اصْبِرُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَۚ (سورۃ الانفال: 46)

ترجمہ: اور اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرتے رہو، آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر و سہار رکھو یقیناً اللہ تعالٰی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالی نے تفرقہ اور اختلاف کے نقصانات بیان کیے ہیں وہ درج ذیل ہیں:

1.    بزدل ہو جاؤ گے

2.    ہوا کھڑ جائے گی (قوت جاتی رہے گی)

اس آیت کی روشنی میں مزید عمومی نقصانات جو تفرقہ کے ہو سکتے ہیں:

1.     ایمان کی کمزوری

2.     کفار کا خوف اور رعب و دبدبہ

3.     عزت جاتی رہے گی

4.     مسلمانوں کو رعب ختم ہو جائے گا

5.     مسلمان منتشر ہو جائیں گے

6.     کفار کا غلبہ ہو جائے گا

7.     دشمن طاقتور ہو جائے گا

8.     اسلام کا رعب ختم ہو جائے گا

الغرض بے شمار نقصانات ہیں جن کا آجکل امت مسلمہ کو سامنا ہے اور آج پوری دنیا میں ہر کہیں مسلمان ہی ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں اور یہ سب کا سب تفرقہ بازی کا ہی کیا دھرا ہے آج بھی اگر مسلمان متحد ہ جائیں اور اللہ کی رسی مضباطی سے تھام لیں تو تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرا سکتی ہے اور مسلمانوں کے عظمت رفتہ بحال ہو سکتی ہے ۔

فرقہ واریت سے نجات کی چند ایک تجاویز:

1.    عقائد و اعمال کے مشترک پہلو تلاش کرکے باہمی اخوت و اتحاد کو فروغ دیا جائے اور تمام تر اختلافات کا خاتمہ کیا جائے۔

2.    متنازعہ اور تنقیدی کی بجائے مثبت اور غیر تنقیدی اسلوبِ تبلیغ اختیار کیا جائے۔

3.    حقیقی رواداری کا عملی مظاہرہ کیا جائے اور عدمِ اکراہ کے قرآنی فلسفے کو اپنی زندگیوں میں لاگو کیا جائے۔

4.    دینی تعلیم کے لئے مشترکہ اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ آپس میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو۔

5.    علماء کے لئے جدید عصری تعلیم کا اہتمام کیا جائے تاکہ مناظرانہ اور مجادلانہ طرزِ عمل کا خاتمہ ہو۔

6.    تہذیبِ اخلاق کے لئے مؤثر روحانی تربیت کا انتظام کیا جائے۔

7.    منافقانہ اور خفیہ فرقہ پرستی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

8.    تمام مکاتبِ فکر کے نمائندہ علماء پر مشتمل قومی سطح کی سپریم کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے۔

9.    ہنگامی نزاعات کے حل کے لئے سرکاری سطح پر مستقل مصالحتی کمیشن قائم کیا جائے۔

10.           مذہبی سطح پر منفی اور تخریبی سرگرمیوں کے خلاف عبرتناک تعزیرات کا نفاذ عمل میں لایا جائے۔

درج بالا عملی اقدامات سے فرقہ پرستی کی لعنت سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔

    گر ہم فرقہ واریت کی لعنت پر قابو پانا چاہتے ہیں تو ہمیں قرآنی پیغام ’’واعتصموا بحبل اﷲ جمیعا ولا تفرقوا‘‘ کو اپنا حرزِ جاں بنانا ہو گا اور برداشت، اخوت اور رواداری کو اپناتے ہوئے جسد واحد کی طرح متحد ہونا ہو گا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم باہمی اختلافات کو فراموش کر کے اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف متحد ہو جائیں اور اسلام کے خلاف ہونے والے منفی پراپیگنڈے کا بھرپور اور منہ توڑ جواب دیں، ہمیں اس واضح حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کی بقا اور اس کا عروج فرقہ پرستی اور گروہی اختلافات میں نہیں بلکہ باہمی اتحاد و یکجہتی میں پنہاں ہے

 

[1] https://ur.wikipedia.org/wiki/فرقہ_واریت      dated 23/12/2015

[2] صحیح بخاری کتاب المغازی باب مرجع النبی ﷺ من الاحزاب و مخرجہ

[3] سورة الأعراف . آیت30

[4] سورة الشورى . آیت7

[5] سورة المائدة . آیت48

[6] سورة الأنعام . آیت159

[7] سورة آل عمران . آیت105

[8] سورة الشورى . آیت14

[9] سورۃ الروم آیت (31)

[10] سورة الروم . آیت(32)

[11] سورة آل عمران . آیت103

[12] سورة الأنفال . آیت46

Share:

2 comments:

  1. Real earning website and group of companies ... B4U Global is the Name of Trust.
    Click to read whole content about it
    contact me if your are agree for further info.
    0092 345 5252 557
    https://www.thenationalduty.com/2020/10/online-earning-real-money-ii-easy-ways.html

    ReplyDelete
  2. محبت بھری باتیں | فکرِ آخرت | صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

    https://www.thenationalduty.com/2022/03/blog-post.html

    ReplyDelete

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive