Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

10/16/20

اولیاء اللہ کی شان :: اولیاء اللہ کا کردار :: ایمان کی حقیقت :: رسول اللہ ﷺ سے محبت کیا ہے؟

قیامت کے دن ایمان والوں کی عزت افزائی  اور گناہگاروں کی شفاعت کرنا:۔ 

فَمَا أَنْتُمْ بِأَشَدَّ لِي مُنَاشَدَةً فِي الحَقِّ ، قَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنَ المُؤْمِنِ يَوْمَئِذٍ لِلْجَبَّارِ ، وَإِذَا رَأَوْا أَنَّهُمْ قَدْ نَجَوْا ، فِي إِخْوَانِهِمْ ، يَقُولُونَ : رَبَّنَا إِخْوَانُنَا ، كَانُوا يُصَلُّونَ مَعَنَا ، وَيَصُومُونَ مَعَنَا ، وَيَعْمَلُونَ مَعَنَا ، فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى : اذْهَبُوا ، فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ دِينَارٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجُوهُ ، وَيُحَرِّمُ اللَّهُ صُوَرَهُمْ عَلَى النَّارِ ، فَيَأْتُونَهُمْ وَبَعْضُهُمْ قَدْ غَابَ فِي النَّارِ إِلَى قَدَمِهِ ، وَإِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ ، فَيُخْرِجُونَ مَنْ عَرَفُوا ، ثُمَّ يَعُودُونَ ، فَيَقُولُ : اذْهَبُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ نِصْفِ دِينَارٍ فَأَخْرِجُوهُ ، فَيُخْرِجُونَ مَنْ عَرَفُوا ، ثُمَّ يَعُودُونَ ، فَيَقُولُ : اذْهَبُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجُوهُ ، فَيُخْرِجُونَ مَنْ عَرَفُوا۔۔۔۔بخاری کتاب التوحید باب وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھا ناظرہ

ترجمہ:   تم لوگ آج کے دن اپنا حق لینے کے لیے جتنا تقاضہ اور مطالبہ مجھ سے کرتے ہو ، اس سے زیادہ مسلمان لوگ اللہ سے تقاضہ اور مطالبہ کریں گے اور جب وہ دیکھیں گے کہ اپنے بھائیوں میں سے انہیں نجات ملی ہے تو وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہمارے بھائی بھی ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے ، ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ دوسرے نیک اعمال کرتے تھے۔چنانچہ اللہ تعالی فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں ایک اشرفی کے برابر بھی ایمان پاؤ اسے دوزخ سے نکال لو ۔ اللہ ان کے چہروں کو دوزخ پر حرام کر دے گا چنانچہ وہ آئیں گے اور دیکھیں گے کہ بعض کا تو جہنم میں قدم اور آدھی پنڈلی جلی ہوئی ہے۔ چنانچہ جنہیں وہ پہچانے گے انہیں دوزخ سے نکال لیں گے۔ پھر واپس آئیں گے اور اللہ تعالی ان سے فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں  آدھی اشرفی کے برابر بھی ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ ۔چنانچہ جن کو وہ پہچانتے ہوں گے ان کو نکال لیں گے۔پھر وہ واپس آئیں گے اور اللہ تعالی فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہوا سے بھی نکال لاؤ چنانچہ وہ جن کو پہچان لیں گے انہیں نکال لیں گے۔

ایمان  کی حقیقت کیا ہے؟

اَنَّهُ مَرَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ لَهُ : كَيْفَ أَصْبَحْتَ يَا حَارِثُ ؟ قَالَ : أَصْبَحْتُ مُؤْمِنًا حَقًّا ، فَقَالَ : انْظُرْ مَا تَقُولُ ، فَإِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ حَقِيقَةً ، فَمَا حَقِيقَةُ إِيمَانِكَ ؟ فَقَالَ : قَدْ عَزَفَتْ نَفْسِي عَنِ الدُّنْيَا ، وَأَسْهَرْتُ لِذَلِكَ لِيَلِي ، وَاظمَأَنَّ نَهَارِي ، وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى عَرْشِ رَبِّي بَارِزًا ، وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى أَهْلِ الْجَنَّةِ يَتَزَاوَرُونَ فِيهَا ، وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى أَهْلِ النَّارِ يَتَضَاغَوْنَ فِيهَا . فَقَالَ : يَا حَارِثُ عَرَفْتَ فَالْزَمْ . ثَلاثًا طبرانی معجم الکبیر)

ترجمہ: حضرت حارث رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ایک دن وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرے تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا! اے حارث تو نے صبح کس حالت میں کی تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں نے صبح سچے مومن کی حالت میں صبح  کی۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا غور کرو تم کیا کہہ رے ہو ، ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے تو تیرے ایمان کی کیا حقیقت ہے؟۔ حضرت حارث کہتے ہیں میں عرض کیا یارسول اللہ ﷺ میں نے اپنے دل سے دنیا کو نکال دیا ۔اوررات کو جاگتا ہوں اور دن کو پیاسا رہتا ہوں اور گویا میں اپنے رب کے عرش کو اپنی آنکھوں سے ظاہر دیکھتا ہوں،اور میں اپنی آنکھوں سے اہل جنت کو جنت میں دیکھتا ہوں وہ اس میں لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔ اور میں جہنمیوں کو دیکھتا ہوں کہ اس میں رہ رہے ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تو نے حقیقت کو پہچان لیابس اس کو لازم پکڑ لو ، تین بار آپ نے یہ فرمایا۔

رسول اللہ ﷺ سے محبت کیا ہے ؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے:۔

 حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ان سے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

یا بنی ان قدرت ان تصبح و تمسی لیس فی قلبک غش لاحد فافعل ثم قال لی۔ یا بنی و ذلک من سنتی و من احیا سنتی فقد احبنی و من احبنی کان معی فی الجنۃ۔(ترمذی )

ترجمہ: اے بیٹے اگر تجھے استطاعت ہو تو تم صبح اور شام اس حالت میں کرو کہ تمہارے دل میں کسی بھی شخص کے لیے بغض نہ ہو ، یہ ضرور کرو۔ پھر مجھے فرمایا: اے بیٹے یہی میری سنت ہے اور جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا۔

ایمان والوں کی صفات اور کردار::

                  ان الانبیاء کانوا اوتاد الارض فلما انقطعت النبوۃ ابد اللہ تعالی مکانتھم قوما من امۃ احمد، یقال لھم الابدال۔ لم یفضلوا الناس بکثرۃ صوم و لاصلاۃ ولا تسبیح۔ ولکن بحسن الخلق و بصدق الورع و حسن النیۃ و سلامۃ قلوبھم لجمیع المسلمین و النصیحۃ للہ تعالی ابتغاء مرضاتہ۔(نوادر الاصول الاصول الحادی و الخمسون)

ترجمہ: بے شک انبیاء علیھم السلام زمین کے اوتاد ہیں(میخیں)پس جب نبوت ختم ہو گئی تو اللہ تعالی نے ان کی جگہ امت احمدﷺ سے ایک گروہ کو بدل دیا اور انہیں ابدال کہا جاتا ہے۔ وہ لوگ تمام لوگوں سے اپنی نماز ، روزہ اور تسبیح کی وجہ سے افضل نہیں ہوتے بلکہ ان کی فضیلت  اچھے اخلاق ، پرہیز گاری ، اچھی نیت اور رتمام لوگوں کے لیے نصیحت اور قلب سلیم (اللہ تعالی کی رضا کی لیے)کی وجہ سے ہوتی ہے۔

محمد سہیل عارف معینی

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive