Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

5/30/21

نفس کی اقسام || نفس مطمئنہ نفس لوامہ نفس امارہ || توبہ کے فضائل

نفس مطمئنہ، نفس لوامہ اور نفس امارہ

بنیادی طور پر تین اقسام ہیں

نفس مطمئنہ جو اللہ کی یاد سے معمور رہتا ہے اور یہ نفس ان لوگوں کا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے شیطان سے فرمایا تھا کہ تو سب کو گمراہ کر سکتا  ہے مگر میرے جو مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کوئی زور نہیں ہو گا۔ تو یہ مخلص بندوں کا نفس ہے۔

نفس امارہ وہ لوگ جو اللہ کی یاد سے غافل ہو جاتے ہیں اور  گمراہی کی گھاٹیوں میں اترتے چلے جاتے ہیں۔ انہیں اپنے تمام کام اچھے لگتے ہیں انہیں گناہ گناہ محسوس نہیں ہوتے اور اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ۔۔۔ وزین لھم الشیطان اعمالھم۔ کہ شیطان نے ان کے کام ان کے لیے بھلے کر دیے ہین۔

نفس لوامہ وہ نفس ہے جو انسان کو کو ندامت دلاتا ہے۔یعنی جب انسان نفس امارہ کے بہکاوے پر گناہ کر بیٹھتا ہے تو نفس لوامہ اس پر انسان کو ندامت دلاتا ہے ۔ عار دلاتا ہے۔  اللہ تعالی نے قرآن مجید میں نفس لوامہ کی قسم بھی کھائی ہے کہ ارشاد فرمایا : ولااقسم بالنفس اللوامہ۔

نفس لوامہ وہ طاقتور نفس ہے کہ جب شیطان کی چال اپنی پوری طاقت سے کام کر رہی ہوتی ہے اور انسان کو شیطان نے اپنے نرغے میں لیا ہوتا ہے اور انسان مکمل طور پر غافل ہو چکا ہوتا ہے تو اس وقت یہ نفس لوامہ انسان کو دل کے کہیں کونے کھدرے سے جھنجھوڑتا ہے اور گناہ اور برائی کا احساس دلاتا ہے اور انسان اس گناہ اور برائی سے بچ جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے نفس لوامہ کی قرآن مجید میں قسم کھائی ہے۔

نفس لوامہ کی مثالیں :

بنی اسرائیل کا شخص کفل کی توبہ کا بیان

1:      عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: لَقَدْ سَمِعْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَدِیْثًا لَوْ لَمْ أَسْمَعْہُ اِلَّا مَرَّۃً أَوْ مَرَّتَیْنِ حَتّٰی عَدَّ سَبْعَ مِرَارٍ وَلٰکِنْ قَدْ سَمِعْتُہُ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ قَالَ: ((کَانَ الْکِفْلُ مِنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ لَا یَتَوَرَّعُ مِنْ ذَنْبٍ عَمِلَہُ، فَأَتَتَہُ اِمْرَأَۃٌ فَأَعْطَاھَا سِتِّیْنَ دِیْنَارًا عَلَی أَنْ یَطَأَھَا، فَلَمَّا قَعَدَ مِنْھَا مَقْعَدَ الرَّجُلِ مِنِ امْرَأَتِہِ أَرْعَدَتْ وَبَکَتْ ، فَقَالَ: مَا یُبْکِیْکِ أَ کْرَھْتُکِ؟ قَالَتْ: لَا وَلٰکِنْ ھٰذَا عَمْلٌ لَمْ أَعْمَلْہُ قَطُّ، وَاِنَّمَا حَمَلَنِیْ عَلَیْہِ الْحَاجَۃُ، قَالَ: فَتَفْعَلِیْنَ ھٰذَا وَلَمْ تَفْعَلِیْہِ قَطُّ، قَالَ: ثُمَّ نَزَلَ فَقَالَ: اذْھَبِیْ فَالدَّنَانِیْرُ لَکِ، ثُمَّ قَالَ: وَاللّٰہِ! لَا یَعْصِی اللّٰہَ الْکِفْلُ أَبَدًا، فَمَاتَ مِنْ لَیْلَتِہِ فَأَصْبَحَ مَکْتُوْبًا عَلٰی بَابِہٖ قَدْغَفَرَاللّٰہُ لِلْکِفْلِ۔)) (مسنداحمد:10439) (( ترمذی میں بھی یہ حدیث پاک موجود ہے امام ترمذی نے اس حدیث پاک کو حسن کہا ہے))

 ترجمہ: سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہماسے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایک حدیث سنی، اگر میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایک بار، یا دو بار، یہاں تک کہ انھوں سات بار کا ذکرکیا، بلکہ میں نے اس سے بھی زیادہ دفعہ سنی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کفل کا تعلق بنو اسرائیل سے تھا، وہ کسیگناہ سے نہیں بچتا تھا، ایک دن ایک خاتون اس کے پاس آئی، اس نے اس کو اس شرط پر ساٹھ دینار دیئے کہ وہ اس سے زنا کرے گا، پس جب وہ اس خاتون سے خاوند کی طرح بیٹھ گیا تو اس پر کپکپی طاری ہو گئی اور وہ رونے لگ گئی، اس نے کہا: تو کیوں رو رہی ہے، کیا میں نے تجھے مجبور کیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، دراصل بات یہ ہے کہ میں نے یہ جرم کبھی بھی نہیںکیاتھا، بس آج حاجت نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کر دیا ہے، اس نے کہا: تو اب یہ جرم کر رہی ہے، جبکہ اس سے پہلے تو نے کبھی ایسے نہیں کیا، پھر وہ اس سے ہٹ گیا اور کہا: تو چلی جا اور یہدینار بھی تیرے ہیں، پھر اس نے کہا: اللہ کی قسم! اب کفل کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرے گا، پھر وہ اسی رات کو مر گیا، صبح کے وقت اس کے دروازے پر لکھا ہوا تھا کہ تحقیق اللہ تعالیٰ نے کفل کو بخش دیا ہے

کفل کو کس چیز نے روکا اوہ نفس لوامہ تھا کہ:

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی کی رحمت شاملِ حال ہوتی ہے مگر وہ نفس لوامہ انسان کو ملامت کرتا ہے۔گویا اللہ کی رحمت سے نفسِ لوامہ بیدار ہوتا ہے اور انسان کو ملامت کرتا ہے۔

نفس مطمئنہ تو ہوتا ہی اللہ کی خاص رحمت میں ہے لیکن نفس لوامہ انسان کو شیطان کے نرغے سے نکال کر لاتا ہے اس لیے اللہ تعالی نے اس کی قسم کھائی ہے۔

ایک شخص بار بار توبہ کرتا اللہ معاف فرما دیتا:

2:      عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ عَبْدًا أَصَابَ ذَنْبًا وَرُبَّمَا قَالَ: أَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ: رَبِّ أَذْنَبْتُ وَرُبَّمَا قَالَ: أَصَبْتُ فَاغْفِرْ لِي فَقَالَ رَبُّهُ: أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ غَفَرْتُ لِعَبْدِي ثُمَّ مَکَثَ مَا شَاءَ اﷲُ ثُمَّ أَصَابَ ذَنْبًا أَوْ أَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ: رَبِّ، أَذْنَبْتُ أَوْ أَصَبْتُ آخَرَ فَاغْفِرْهُ فَقَالَ: أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ غَفَرْتُ لِعَبْدِي ثُمَّ مَکَثَ مَا شَاءَ اﷲُ ثُمَّ أَذْنَبَ ذَنْبًا وَرُبَّمَا قَالَ: أَصَابَ ذَنْبًا قَالَ: قَالَ: رَبِّ، أَصَبْتُ أَوْ قَالَ: أَذْنَبْتُ آخَرَ فَاغْفِرْهُ لِي فَقَالَ: أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ غَفَرْتُ لِعَبْدِي ثَـلَاثًا فَلْيَعْمَلْ مَا شَاءَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ. 5: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: التوحيد، باب: قول اﷲ تعالی يريدون أن يبدلوا کلام اﷲ، 6/ 2725، الرقم: 7068، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 405، الرقم: 9

ترجمہ: ’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے سنا کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی نے گناہ کیا (راوی نے کبھی یہ الفاظ کہے کہ ایک شخص سے گناہ سر زد ہوا) تو وہ عرض گزار ہوا: اے میرے رب! میں گناہ کر بیٹھا (کبھی یہ الفاظ کہے کہ مجھ سے گناہ ہوگیا) پس تو مجھے بخش دے۔ چنانچہ اُس کے رب نے فرمایا: میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہوں کو معاف کرتا اور ان کے باعث مواخذہ کرتا ہے، لہٰذا میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ اس کے بعد جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا وہ گناہ سے باز رہا، پھر اُس نے گناہ کیا (یا اس سے گناہ سرزد ہو گیا) تو اس نے عرض کیا: اے میرے رب! میں گناہ کر بیٹھا (یا مجھ سے گناہ ہو گیا) پس مجھے بخش دے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ معاف کرتا اور ان کے باعث مواخذہ کرتا ہے، پس میں نے اپنے بندے کو پھر بخش دیا۔ پھر وہ ٹھہرا رہا جب تک اللہ نے چاہا، پھر اس نےگناہ کیا (اور کبھی یہ کہا کہ مجھ سے گناہ ہوگیا)۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ پھر عرض گزار ہوا: اے رب! مجھ سے گناہ ہو گیا یا میں پھر گناہ کر بیٹھا، پس تو مجھے بخش دے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ معاف کرتا اور ان کے سبب پکڑتا ہے، لہٰذا میں نے اپنے بندے کو تیسری دفعہ بھی بخش دیا۔ پس جو چاہے کرے۔‘‘

        اس شخص کا نفس بار بار اس کو جھنجھوڑتا رہا اور اللہ کی بارگاہ میں لاتا رہا۔ اور ہر بار اللہ تعالی اس کو معاف فرماتا ہے۔

سو  لوگوں کا قاتل:

3:     وہ شخص جس نے نناوے قتل کیے وہ ایک راہب کے پاس گیا اس نے کہا کہ تیری توبہ نہیں ہو سکتی اس نے اسے بھی قتل کر دیا ۔ 100 کا عدد پوراہو گیا پھر کسی اور کے پاس گیا اس نے اسے کہا کہ ضرور ہو سکتی ہے ۔

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا فَسَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ فَدُلَّ عَلَى رَاهِبٍ فَأَتَاهُ فَقَالَ إِنَّهُ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ فَقَالَ لَا فَقَتَلَهُ فَكَمَّلَ بِهِ مِائَةً ثُمَّ سَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ فَدُلَّ عَلَى رَجُلٍ عَالِمٍ فَقَالَ إِنَّهُ قَتَلَ مِائَةَ نَفْسٍ فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ فَقَالَ نَعَمْ وَمَنْ يَحُولُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ التَّوْبَةِ انْطَلِقْ إِلَى أَرْضِ كَذَا وَكَذَا فَإِنَّ بِهَا أُنَاسًا يَعْبُدُونَ اللَّهَ فَاعْبُدْ اللَّهَ مَعَهُمْ وَلَا تَرْجِعْ إِلَى أَرْضِكَ فَإِنَّهَا أَرْضُ سَوْءٍ فَانْطَلَقَ حَتَّى إِذَا نَصَفَ الطَّرِيقَ أَتَاهُ الْمَوْتُ فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِكَةُ الْعَذَابِ فَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ جَاءَ تَائِبًا مُقْبِلًا بِقَلْبِهِ إِلَى اللَّهِ وَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الْعَذَابِ إِنَّهُ لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ فَأَتَاهُمْ مَلَكٌ فِي صُورَةِ آدَمِيٍّ فَجَعَلُوهُ بَيْنَهُمْ فَقَالَ قِيسُوا مَا بَيْنَ الْأَرْضَيْنِ فَإِلَى أَيَّتِهِمَا كَانَ أَدْنَى فَهُوَ لَهُ فَقَاسُوهُ فَوَجَدُوهُ أَدْنَى إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي أَرَادَ فَقَبَضَتْهُ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ قَالَ قَتَادَةُ فَقَالَ الْحَسَنُ ذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ لَمَّا أَتَاهُ الْمَوْتُ نَأَى بِصَدْرِهِ (مسلم 2766)

 

 ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ،  کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :    تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک شخص تھا اس نے ننانوے قتل کیے ،  پھر اس نے زمین پر بسنے والوں میں سے سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا  ( کہ وہ کون ہے ۔  )  اسے ایک راہب کا پتہ بتایا گیا ۔  وہ اس کے پاس آیا اور پوچھا کہ اس نے ننانوے قتل کیے ہیں ،  کیا اس کے لیے توبہ  ( کی کوئی سبیل )  ہے؟ اس نے کہا :  نہیں ۔  تو اس نے اسے بھی قتل کر دیا اور اس  ( کے قتل )  سے سو قتل پورے کر لیے ۔  اس نے پھر اہل زمین میں سے سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا ۔  اسے ایک عالم کا پتہ بتایا گیا ۔  تو اس نے  ( جا کر )  کہا : اس نے سو قتل کیے ہیں ،  کیا اس کے لیے توبہ  ( کا امکان)  ہے؟ اس  ( عالم )  نے کہا :  ہاں ،  اس کے اور توبہ کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے؟ تم فلاں فلاں سرزمین پر چلے جاؤ ،  وہاں  ( ایسے )  لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں ،  تم بھی ان کے ساتھ اللہ کی عبادت میں مشغول ہو جاؤ اور اپنی سرزمین پر واپس نہ آو ، یہ بُری  ( باتوں سے بھری ہوئی ) سرزمین ہے ۔  وہ چل پڑا ،  یہاں تک کہ جب آدھا راستہ طے کر لیا تو اسے موت  نے آ لیا ۔  اس کے بارے میں رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے جھگڑنے لگے ۔  رحمت کے فرشتوں نے کہا :  یہ شخص توبہ کرتا ہوا اپنے دل کو اللہ کی طرف متوجہ کر کے آیا تھا اور عذاب کے فرشتوں نے کہا : اس نے کبھی نیکی کا کوئی کام نہیں کیا ۔  تو ایک فرشتہ آدمی کے روپ میں ان کے پاس آیا ،  انہوں نے اسے اپنے درمیان  ( ثالث )  مقرر کر لیا ۔  اس نے کہا : دونوں زمینوں کے درمیان فاصلہ ماپ لو ،  وہ دونوں میں سے جس زمین کے زیادہ قریب ہو تو وہ اسی  ( زمین کے لوگوں )  میں سے ہو گا ۔  انہوں نے مسافت کو ماپا تو اسے اس زمین کے قریب تر پایا جس کی طرف وہ جا رہا تھا ،  چنانچہ رحمت کے فرشتوں نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔

 


Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive