Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

4/27/21

اس کے بعد کیا || کر لوں گا جمع دولت و زر اس کے بعد کیا || لے لوں گا شاندار سا گھر اس کے بعد کیا


 

کر لوں گا جمع دولت و زر اس کے بعد کیا

لے لوں گا شاندار سا گھر اس کے بعد کیا

 

مے کی طلب جو ہو گی  تو بن جاوں گا میں رند

کر لوں گا میکدوں کا سفراس کے بعد کیا

 

ہو گا جو شوق حسن سے راز و نیاز کا

کر لوں گا گیسوو ں میں سحر اس کے بعد کیا

 

شعر و سخن کی خوب سجاوں گا محفلیں

دنیا میں ہو گا نام مگر  اس کے بعد کیا

 

موج آئے گی تو سارے جہان کی کروں گا سیر

واپس وہی پرانا نگر اس کے بعد کیا

 

اک روز موت زیست کا در کھٹکھٹائے گی

بجھ جائے گا چراغِ قمر اس کے بعد کیا

 

اٹھی تھی خاک خاک سے مل جائے گی وہیں

پھر اس کے بعد کس کو خبر اس کے بعد کیا

Share:

4/26/21

آپ کی آنکھ اگر گلابی ہو گی میری سرکار بڑی سخت خرابی ہو گی || عبد الحمید عدم


 

آپ کی آنکھ اگر گلابی ہو گی

میری سرکار بڑی سخت خرابی ہو گی

 

محتسب نے ہی پڑھا ہو گا مقالہ پہلے

میری تقریر بہر حال جوابی ہو گی

 

آنکھ اٹھانے سے بھی پہلے  وہ ہوں گےغائب

کیا خبر تھی کہ انہیں اتنی شتابی ہو گی

 

ہر محبت کو سمجھتا ہے وہ ناول کا ورق

اس پری زاد کی تعلیم کتابی ہو گی

 

شیخ جی ہم تو جہنم کے پرندے ٹھہرے

آپ کے پاس تو فردوس کی چابی ہو گی

 

کر دیا موسی کو جس چیز نے بے ہوش عدمؔ

بے نقابی نہیں وہ نیم حجابی ہو گی

Share:

4/25/21

kalam Mian Muhammad Bakhsh || کلام میاں محمد بخش || فضل تیرے نل لوہے تردے پھٹیاں دے سنگ رل کے


 

جان منگے تے دیر نہ کریے اگے یار سجن دے

عاشق تے شہید محمد نہیں محتاج کفن دے

 

یاری اندر عمر گزاری دیکھ لئیں اک واری

ایہناں اکھیں تینوں ڈٹھا ہور نہ ویکھن کاری

 

برے اعمال سے اجتناب کے حوالے سے

کر کر بدیاں بڈھا ہویوں نکل گیا کُب تیرا

فیر وی بدیوں باز نہ آئیوں واہ واہ شخص دلیرا

 

ہڈیاں کمبن گوڈے کھڑکن تے ٹٹ گیا لک تیرا

ہجے وی بدیوں باز نہ آئیوں جی اوہ مرد دلیرا

 

ایناں گلا تھیں کی لبھدا عیب کسےدا کرنا

اپنا آپ سنبھا؛ل محمد جو کرنا سو بھرنا

 

اُچا نام رکھایا جس نے چلھے ہیٹھ اوہ سڑیا

نیواں ہو کے لنگھ محمد لنگھ جائیں گا اڑیا

 

عاماں تے بے اخلاصاں اندر خاصاں دی گل کرنی

مٹھی کھیر پکا محمد کتیاں اگے دھرنی

 

حرص طمع دے گھوڑے چڑھیوں ڈھلیاں چھڈ لگاماں

گھر نو واگاں موڑ سوارا سر تے پے گئیاں شاماں

 ..

موت کے بارے میں

دکھیے دی گل دکھیا جانے سکھیے نوں کی خبراں

سجن جنہاں دے موت نے مارے روندے تک تک قبراں

 

لمبی رات جدائیاں والی ہوندی سہہ وریاں دی

کون لیاوے خبر محمد سجناں دور گئیاں دے

 

اچے ٹبے شیراں ملے تے جل ملے مرغائیاں

چارے اوٹاں موت نے ملیاں فضل کریں رب سائیاں

 

وکھو وکھرے لیکھ سبھی دے لکھ چھڈیوس ہک واری

جمن مرن نہ گھسن دیندا ساعت ادھی ساری

 

رحمت خداوندی کے بارے میں

رحمت دا دریا الہی ہر دم وگدا تیرا

جے اک قطرہ بخشیں مینوں کم بن جاوے میرا

 

رحمت دا منہ پا خدایا باغ سکا کر ہریا

بوٹا آس امید میری دا کر دے میوے بھریا

 

عدل کریں تے تھر تھر کمبن اچیاں شاناں والے

فضل کریں تے بخشے جاون میں جے وہ منہ کالے

 

فضل تیرے نل لوہے تردے پھٹیاں دے سنگ رل کے

کتے وی جنت جان محمد چنگیا دے سنگ رل کے

 

لکھ واری میں توبہ بھنی تے میں ہاں بے اعتبارا

فیر وی فضل تیرے دیاں مولا آساں رکھن والا

 

عیب میرے پر پلہ دیندا ہنر کریندا ظاہر

جدوں اوہ کرم داواڑہ کردا کوئی نہ رہندا باہر

 

اے سلطان حسن دی نگری راج سلامت تیرا

میں پردیسی ہاں فریادی عدل کرین کجھ میرا

 

 

محبوب کے رنگ میں رنگ جانا

دم دم جان لباں تے آوے چھوڑ حویلی تن دی

کھلی اڈیکے مت ہن آوے کدروں وا سجن دی

 

راہ تیرا میں تکدی رہندی محل اُچے تے چڑھ کے

جاں غم بوہتا کاہلی پاوے رواں اندر وڑ کے

 

آسجناں جے تو سجنا بن سجناں کی سجنا

جنہاں یار بکل اچ ملیا اوہ رجیا نہ رجناں

 

جے تون یار نوں ملنا چاہیں مرضی لور سجن دی

جے تو مرضی اپنی لوڑیں ایہہ گل کدے نہ بن دی

 

جے تو سر دے پیر بنا کے مگر سجن دے  چلیوں

تاں فیر پرت دلاسہ دیسی جانی سنگت رلیوں

 

دنیا کھیتی آخر سیتی خود حضرت فرماوے

جیسا اس وچ بیجے کوئی ویسا ہی پھل پاوے

 

بیجن ویلے کجھ نہ بیجیں موسم پیا گنواویں

اگے فصل پکی ویکھیں ر و رو کے پچھتاویں

 

اگے تیں تھی چنگے ہالی ہل واہ گئے نے اگیرے

شوق عشق دی ہل پنچالی توں گھن سویرے

 

لکھ ہزار بہار حسن دی اندر خاک سمانی

لاپریت اجئی محمد جگ تے رہے کہانی


Share:

4/24/21

جدا باطل سے حق کو کر دیا فاروقِ اعظم نے || منقبت سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ || juda batil se haq ko kr dia


 

جدا باطل سے حق کو کر دیا فاروقِ اعظم نے

علم اسلام کا اونچا کر دیا فاروقِ اعظم نے

 

نبی کے بعد گر کوئی نبی ہوتے عمر ہوتے

نبی سے پا لیا یہ مرتبہ فاروقِ اعظم نے

 

انہیں کے نام کی  تاثیر تھی یا خط کی ہیبت تھی

رکے دریا کو جاری کر دیا فاروقِ اعظم نے

 

جدا کیسے کرو گے حشر تک ان کو نبی سے تم

لیا پہلو میں محبوبِ خدا فاروقِ اعظم نے

 

عمر کو دیکھ کر شیطان خود رستہ بدل لیتا

وہ پایا حق سے رعب و دبدبہ فاروقِ اعظم نے

Share:

انتخابِ چشمِ قدرت ماں خدیجہ آپ ہیں || منقبت سیدہ خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالی عنھا || Manqabat Sayda Khadija Kubra


 

آبروئے دین و ملت ماں خدیجہ آپ ہیں

انتخابِ چشمِ قدرت ماں خدیجہ آپ ہیں

 

جنکی ہستی ہے سکونت دونوں عالم کے لیے

ان کی آنکھوں کی سکونت ماں خدیجہ آپ ہیں

 

آپ کے عز و شرف کا ایک پہلو یہ بھی ہے

مادرِ خوتونِ جنت ماں خدیجہ آپ ہیں

 

ہم قدم تھیں مشکلوں میں شاہِ دو عالم کےساتھ

کوہِ عزم و استقامت ماں خدیجہ آپ ہیں

 

جز براہیم آپ ہیں اولادِ پیغمبر کی ماں

کس نے پائی ہے یہ عزت ماں خدیجہ آپ ہیں

 

جب نبی نے کہہ دیا خیر نساء العالمین

ماورائے ہر فضیلت ماں خدیجہ آپ ہیں

Share:

منقبت سیدہ خدیجہ الکبری ؓ || کرم کی نشانی ہیں بی بی خدیجہ || manqabat Sayda Khadija Kubra


 

مکے کی رانی ہیں بی بی خدیجہ

کرم کی نشانی ہیں بی بی خدیجہ

 

رواں سلسلے ہیں کرم کے جو اب تک

وجہ روانی ہیں بی بی خدیجہ

 

زمانہ غم میں میرے مصطفے پر

عطائے ربانی ہیں بی بی خدیجہ

 

جنہیں آسماں سے سلام آ رہے ہیں

وہ زینب کی نانی ہیں بی بی خدیجہ

 

اسلام کی ہیں وہ خاتونِ اول

حوا کی ثانی ہیں بی بی خدیجہ

 

جنہیں سن کے روتے ہیں سرکارِ عالم

وہ غم کی کہانی ہیں بی بی خدیجہ

 

ہے جنت بھی نازاں جسے پا کے لوگو

وہ جنت مکانی ہیں بی بی خدیجہ

 

ظہیؔر ان کی سیرت امر ہو گئی ہے

نہیں جن کا ثانی ہیں بی بی خدیجہ

Share:

4/23/21

جاری ہے زمانے میں فیضان خدیجہ کا || منقبت سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنھا || manqabat syda Khadija Kubra


 

جاری ہے زمانے میں فیضان خدیجہ کا

لاریب ہے امت پر احسان خدیجہ کا

 

لے جاؤ مری دولت احمد کو ستاؤمت

تھا عام عرب میں یہ اعلان خدیجہ کا

 

وہ پہلی شہادت ہیں سرکارِ مدینہ کی

ہے اوج پہ کس درجہ ایمان خدیجہ کا

 

ہے پاس میرے سب کچھ اس گھر کی عنائیت سے

ہے آب محمد ﷺ کا اور نان خدیجہ کا

 

مطلوب ہے جو تجھ کو داور کی رضا مندی

دے واسطہ پھر اس کو ہر آن خدیجہ کا

 

تبلیغ محمدﷺ کا رہ جائے بھرم یا رب

تھا زندگی بھر بس یہ ارمان خدیجہ کا

Share:

4/21/21

منقبت سیدہ فاطمہ زہرہ سلام اللہ علیھا || کرم کا مخزن سخا کا مرکز || نبی کی صورت نبی کی سیرت نبی کا نقشہ جاب زہرہ

 



کرم کا مخزن سخا کا مرکز عطا سراپا جنابِ زہرہ

نبی کی صورت نبی کی سیرت نبی کا نقشہ جنابِ زہرہ

 

رسول اعظم کی کی پیاری دختر شہید اعظم کی پاک مادر

جنابِ شیرِ خدا کی زوجہ جناں کی ملکہ جنابِ زہرہ

 


سراپا رحمت سراپا راحت سراپا عفت سراپا عصمت

رسولِ اکرم کی دل ٹھنڈک بتول و عذرا جناب زہرہ

 

ہے غیر ممکن کہ ان کے در سے کوئی سوالی بھی آئے خالی

قسیمِ جنت قسیمِ کوثر قسیمِ دنیا جنابِ زہرہ

 

تمام حوریں کنیز یں ان کی غلام ان کے سبھی فرشتے

مگر چلاتی تھیں خود ہی چکی بغیر شکوہ جنابِ زہرہ

 

فدا ہے صائم غلام ان پر درود ان پر سلام ان پر

ہیں میرا دونوں جہاں وللہ فقط سہارا جنابِ زہرہ


Share:

4/17/21

اہلِ علم کی فضیلت || علماء کے فضائل || علم کی فضیلت || علماء شفاعت کریں گے || ulama ki fazeelat

علماء کے فضائل ، اہلِ علم کی فضیلت:

1: مدینہ سے ایک شخص ابو دردہ رضی اللہ تعالی عنہ  کے پاس آیا جب وہ دمشق میں تھے- تو انھوں نے پوچھا:

اوہ میرے بھانجے!  کیا بات تمھیں یہاں لائی ہے؟اسنے جواب دیا: " ایک حدیث مجھ تک پہنچی ہے جسے آپ نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے.

" آپ رضی الله نے فرمایا : " تو تم ادھر اپنے کسی ضرورت کی وجہ سے نہیں آئے ہو؟ اس نے جواب دیا: "نہیں"- آپ نے پوچھا: " کیا تم ادھر تجارت کے لئے آئے ہو؟- اسنے کہا : " نہیں، میں صرف اس حدیث کی جانکاری کے لئے یہاں آیا ہوں"- تو آپ رضی الله عنہ نے فرمایا : بے شک میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے  ہوئے سنا کہ:

 مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَبْتَغِيفِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِطَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِنَّالْمَلاَئِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَارِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّالْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْفِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِحَتَّى الْحِيتَانُ فِي الْمَاءِوَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِكَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِالْكَوَاكِبِ إِنَّ الْعُلَمَاءَوَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ إِنَّالأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًاوَلاَ دِرْهَمًا إِنَّمَاوَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَبِحَظٍّ وَافِرٍ(جامع ترمذی :2682)

ترجمہ: اگر کوئی شخص علم کا راستہ اختیار کرے گا تو الله اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دے گا اور فرشتے طالب علم کی رضا کے لئے (اسکے پاؤں کے نیچے) اپنے پر بچھاتے ہیں – عالم کے لئے آسماں ؤ زمین میں موجود ہر چیز مغفرت طلب کرتی ہے- یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں اس کے لئے استغفار کرتی ہیں- عالم کو عابد پر اسطرح فضیلت ہے جیسے چاند کو فضیلت ستاروں پر- علماء انبیاء کے وارث ہیں اور بےشک انبیاء کی وراثت درہم ؤ دینار نہیں ہوتے بلکہ انکی میراث علم ہے- پس جس نے اسے حاصل کیا اس نے انبیاء کی وراثت سے بہت سارا حصہ حاصل کر لیا-

2: ابو امامہ باہلی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا تذکرہ کیا گیا جن میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم- آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

 فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ ‏"‏ ‏.‏ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إِنَّ اللَّهَ وَمَلاَئِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ حَتَّى النَّمْلَةَ فِيجُحْرِهَا وَحَتَّى الْحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَيْرَ ‏"‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ ‏.‏ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَمَّارٍ الْحُسَيْنَ بْنَ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ( الْفُضَيْلَ بْنَ عِيَاضٍ يَقُولُ عَالِمٌ عَامِلٌ مُعَلِّمٌ يُدْعَى كَبِيرًا فِي مَلَكُوتِ السَّمَوَاتِ) ‏.

[جامع ترمذی :2685]

 عالم کی فضیلت عابد پر اسطرح ہے جسطرح میری تمہارے ادنی ترین آدمی پر - پھر فرمایا کہ یقیناّ الله، فرشتے اور تمام اہل زمین ؤ آسماں یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلیاں بھی، اس شخص کی لئے دعائے خیر کرتے ہیں اور رحمت بھیجتے ہیں جو لوگوں کو بھلائی کی باتیں سکھاتا ہے۔ فضیل بن عیاض رضی اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مالا اعلی میں عالم باعمل اور طالب علم کو بہت بڑا مرتبے والا سمجھا جاتا ہے۔

3: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «لَمَوْتُ أَلْفِ عَابِدٍ قَائِمٍ اللَّيْلَ صَائِمٍ النَّهَارَ أَهْوَنُ مِنْ مَوْتِ الْعَاقِلِ الْبَصِيرِ بِحَلَالِ اللَّهِ وَحَرَامِهِ (جامع البیان العلم و فضلہ ، جلد 1.صفحہ 65)

ترجمہ: ان ایک ہزار عبادت گزاروں کی موت کا غم برداشت کرنا آسان ہےجو دن میں روزے رکھتے ہیں اور رات میں قیام کرتے ہیں بنسبت اس ایک عالم کے موت کے جو حرام اور حلال کا فرق سمجھتا ہو-

4: عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ نے فرمایا:

 عَنْ سَعِيدِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا أَخَذُوا الْعِلْمَ عَنْ أَكَابِرِهِمْ وَعَنْ أُمَنَائِهِمْ وَعُلَمَائِهِمْ فَإِذَا أَخَذُوا مِنْ صِغَارِهِمْ وَشِرَارِهِمْ هَلَكُوا (نصیحه الخطیب البغدادی 8 صحیح الالبانی)

ترجمہ: لوگ ہمیشہ اچھائی پر رہیں گےجبتک وہ علم لیں اپنے بڑوں سے، قابل اعتماد اور ثقہ لوگوں سے اور علماء سے- اگر لوگ اپنے نوجوانوں اور برے  خیانت دار لوگوں سے علم لیں گے تو پھر وہ تباہ ہو جائیں گے-

5: عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ لِي رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم: يَا أَبَا ذَرٍّ، لَأَنْ تَغْدُوَ فَتَعَلَّمَ آيَةً مِنْ کِتَابِ اﷲِ خَيْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ تُصَلِّيَ مِاءَةَ رَکْعَةٍ، وَلَأَنْ تَغْدُوَ فَتَعَلَّمَ بَابًا مِنَ الْعِلْمِ عُمِلَ بِهِ أَوْ لَمْ يُعْمَلْ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تُصَلِّيَ أَلْفَ رَکْعَةٍ. (ابن ماجہ حدیث نمبر 219)

ترجمہ: حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر! تم اس حال میں صبح کرو، کہ تم (رات بھر جاگ کر) اللہ تعاليٰ کی کتاب میں سے ایک آیت سیکھ لو تو یہ تمہارے لئے سو رکعات نفل پڑھنے سے بہتر ہے۔ تم اس حال میں صبح کرو، کہ (اس دوران) تم علم کا ایک باب سیکھ لو چاہے اس پر عمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو تو یہ تمہارے لئے ایک ہزار رکعت نوافل ادا کرنے سے بہتر ہے۔

علماء قیامت کے دن شفاعت کریں گے:

6: عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم: يَشْفَعُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَـلَاثَةٌ: أَلْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الْعُلَمَاءُ، ثُمَّ الشُّهَدَاءُ. (رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه حدیث نمبر 4313)

ترجمہ: حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزِ ِقیامت تین گروہ شفاعت کریں گے: انبیاء، پھر علماء اور پھر شہداء۔

7: وَفِي رِوَايَةِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم: يُبْعَثُ الْعَالِمُ وَالْعَابِدُ. فَيُقَالُ لِلْعَابِدِ: ادْخُلُ الْجَنَّةَ. وَيُقَالُ لِلْعَالِمِ: اثْبُتْ حَتَّی تَشْفَعَ لِلنَّاسِ بِمَا أَحْسَنْتَ أَدَبَهُمْ.

( أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 2/ 268، الرقم/ 1717، والديلمي في مسند الفردوس، 5/ 465، الرقم/ 8773، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 1/ 57، الرقم/ 134، والذهبي في ميزان الاعتدال، 6/ 506.)

ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عالم اور عابد کو (روزِ قیامت) اٹھایا جائے گا۔ عابد سے کہا جائے گا: تو جنت میں داخل ہوجا۔ اور عالم سے کہا جائے گا: ٹھہر جا حتی کہ تو لوگوں کی اچھی تربیت کے بدلے اُن کی سفارش کرے۔

قیامت کے دن علماء کے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے:

8: عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ الْحَکَمِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم: يَقُوْلُ اﷲُ تَعَالٰی لِلْعُلَمَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِذَا قَعَدَ عَلٰی کُرْسِيِّهِ لِقَضَاءِ عِبَادِهِ: إِنِّي لَمْ أَجْعَلْ عِلْمِي وَحُکْمِي فِيْکُمْ إِلَّا وَأَنَا أُرِيْدُ أَنْ أَغْفِرَ لَکُمْ عَلٰی مَا کَانَ فِيْکُمْ وَلَا أُبَالِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَرُوَاتُهُ ثِقَاتٌ.

(أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 2/ 84، الرقم/ 1381، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 1/ 57، الرقم/ 131، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 126، وقال: رواه الطبراني في الکبير ورجاله موثقون، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3/ 142، وقال: إسناده جيد.) ترجمہ: حضرت ثعلبہ بن حکم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزِ قیامت جب اللہ تعاليٰ اپنے بندوں کے بارے میں فیصلہ فرمانے کیلئے اپنی کرسی پر (اپنی شان کے لائق) تشریف فرما ہو گا تو علماء سے فرمائے گا: میں نے تمہیں اپنا علم اورحکمت و دانائی صرف اس لئے عطا فرمائی تھی کہ تمہارے تمام گزشتہ گناہ معاف فرما دوں اور مجھے (ایسا کرنے میں) کچھ پرواہ نہیں۔

 9: وَفِي رِوَايَةِ أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم: يَبْعَثُ اﷲُ الْعِبَادَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ يُمَيِّزُ الْعُلَمَاءَ فَيَقُوْلُ: يَا مَعْشَرَ الْعُلَمَاءِ، إِنِّي لَمْ أَضَعْ فِيْکُمْ عِلْمِي وَأَنَا اُرِيْدُ أَنْ أُعَذِّبَکُمُ. اذْهَبُوْا فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ. أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4/ 302، الرقم/ 4264، وفي المعجم الصغير، 1/ 354، الرقم/ 591، والروياني في المسند، 1/ 353، الرقم/ 542، والبيھقي في المدخل إلی السنن الکبری، 1/ 343، الرقم/ 567، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 1/ 57، الرقم/ 132، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 126.

ترجمہ: حضرت ابو موسيٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعاليٰ قیامت کے روز اپنے بندوں کو اٹھائے گا پھر علماء کو ان سے الگ کرکے فرمائے گا: اے گروهِ علماء! میں نے تمہیں اپنا علم اس لیے نہیں دیا تھا کہ تمہیں عذاب دوں۔ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا۔

 

 

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive