Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

6/30/21

تو کریمی من کمینہ بردہ ام || فارسی اشعار || مولانا روم || مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم


 

تو کریمی من کمینہ بردہ ام

لیکن از لطفِ شما پروردہ ام

اے اللہ تو کریم ہے میں کمینہ تیرا غلام ہوں ، تیرے ہی لطف و کرم کی بنا پر جی رہا ہوں


 

یادِ اُو سرمایۂِ ایماں بود

ہر گدا از یادِ اُو سلطاں بود

حق تعالی کی یاد ہی ایمان کا سرمایہ ہے ، ہر فقیر تیری یاد سے سلطان بن جاتا ہے۔

 

زندگی آمد برائے بندگی

زندگی بے بندگی شرمندگی

زندگی کا مقصد اللہ تعالی کی عبادت کرنا ہے، اور بنا بندگی کے یہ زندگی شرمندگی ہے۔

 

سید و سرور محمد ﷺ نورِ جاں

مہتر و بہتر شفیعِ مجرماں

ہمارے سردار محمد ﷺ پورے جہاں کی جان ہیں، اعلی و بہترین کامل شفاعت کرنے والےہیں مجرموں کی

 

آں محمدﷺ حامد و محمود شُد

شکل عابد صورت معبود شد

حضرت محمدﷺ حامد ہیں محمود ہیں اور آپﷺ عابد کی صورت میں معبود کا مظہر ہیں

 

اولیاء اللہ و اللہ اولیاء

یعنی دیدِ پیر دیدِ کبریا

جو اللہ کے برگزیدہ ہیں اللہ ان کا ولی اور مددگار ہے، یعنی پیرِ کامل کا دیدار، دیدارِ الہی کا سبب ہوتا ہے۔


مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم

تا غلامِ شمس تبریزی نہ شد

مولوی کبھی بھی مولانا روم نہ بنتا جب تک کہ زمس تبریز کا غلام نہ ہوا۔


Share:

6/21/21

اب وہ طوفاں ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا || محسن نقوی


 

اب وہ طوفاں ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا

دل کا عالم ہے ترے بعد خلاؤں جیسا

 

کاش دنیا مرے احساس کو واپس کر دے

خامشی کا وہی انداز صداؤں جیسا

 

پاس رہ کر بھی ہمیشہ وہ بہت دور ملا

اس کا انداز تغافل تھا خداؤں جیسا

 

کیا قیامت ہے کہ دنیا اسے سردار کہے

جس کا انداز سخن بھی ہو گداؤں جیسا

 

پھر تری یاد کے موسم نے جگائے محشر

پھر مرے دل میں اٹھا شور ہواؤں جیسا

 

بارہا خواب میں پا کر مجھے پیاسا محسنؔ

اس کی زلفوں نے کیا رقص گھٹاؤں جیسا

Share:

ترستی آنکھیں , اداس چہرہ , نحیف لہجہ , بغیر تیرے | محسن نقوی | محسن شاعری

 

ترستی آنکھیں , اداس چہرہ , نحیف لہجہ , بغیر تیرے

بکھری زلفیں , لباس اجڑا , وجود خستہ , بغیر تیرے

 

عمیق جنگل, گھپ اندھیرا, وبی سانسیں,ضعیف دھڑکن

برہنہ پاؤں , بے نام منزل , نشاں نہ رستہ , بغیر تیرے

 

خاموش بلبل , سرد پت جھڑ, بے رنگ موسم,ویران گلشن

نہ پھول خوشبو , ہوا نہ بادل نہ کوئی نغمہ , بغیر تیرے


امید مدھم ,مزاج برھم, مایوس جیون , بے آس ہر دم 

نہ کوئی خواہش نہ کوئی حسرت, نہ ہے تمنا , بغیر تیرے


کالی صبحیں , سرخ راتیں , وقت ساکن , اداس شامیں

ہزار صدیوں کے ہے برابر , ہر ایک لمحہ , بغیر تیرے


تعویز الٹے , ادھوری منت , وظیفے , جادو ناکام سارے

نہ استخارہ ہی کام آیا , نہ کوئی دھاگہ , بغیر تیرے


عجیب قسمت , نصیب الجھا , غلط لکیریں میرا مقدر

ہاں گردشوں میں یہ آگیا ہے میرا ستارہ , بغیر تیرے

 

ہجر کامل , فراق حاوی , جدائی یکسر , طویل دوری

خواب قربت , وصال حسرت , حسن ہے تنہا , بغیر تیرے


Share:

6/20/21

تسبیح دے اک اک دانے تے توں یار دا ورد پکاوندا روہ || نصرت فتح علی خان


 

تسبیح دے اک اک دانے تے توں  یار  دا  ورد  پکاوندا  روہ

اوہ رسیا آپے من جائے گا توں  اپنا فرض  نبھاوندا  روہ

 

توں دل دے شیشے وچ رکھ لئے  تصویراں اپنے یار دیاں

توں مار کے جھاتی اپنے وچ  یار  دا  درشن  پاوندا  روہ

 

چھڈ جھوٹے ورد وظیفے نوں  اوہدے عشق دا قاعدہ پڑھیا کر

جگ بھاویں کافر کہندا  رہے توں ایہو سبق  پکاوندا  روہ

 

اوہ بولے بھاویں نہ بولے   ایہ مرضی اوہدے دل دی اے

سر رکھ کے یار دے قدماں تے توں سجناں سیس نواوندا روہ

 

جے بندیا توں کجھ کھٹناں ایں بس اک دا ہو جا چپ کر

توں لگ کے آکھے لوکاں دے نہ ایویں وقت  گواوندا  روہ

 

جے تک لیا سوہنے اک واری  تینوں صادق منزل مل جائے گی

تو اتھرو اوہدیاں یاداں دے نت اکھیاں وچ  سجاوند ا  روہ

Share:

تصوف کیا ہے || جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا فرمان || تذکرۃ الاولیاء خواجہ فرید الدین عطار نیشاپوری رحمۃاللہ تعالی علیہ

تصوف کیا ہے؟

تصوف یعنی راہ طریقت (روحانیت) کے بارے میں حضرت فرید الدین عطار نیشاپوری رح اپنی مشہور کتاب تذکرۃ الاولیاء میں حضرت خواجہ جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالی علیہ  کا ایک قول بیان کرتے ہیں..

حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

ایں راہ کسے باید کہ کتاب بر دست راست گرفتہ باشد و سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بردستِ چپ، و در روشنائی ایں دو شمع مے رود، تانہ در مغاک شبہت اُفتد نہ در ظلمت بدعت. ’’

ترجمہ: یہ راہ یعنی تصوف صرف وہی پا سکتا ہے جس کے دائیں ہاتھ میں قرآنِ حکیم اور بائیں ہاتھ میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو اور وہ اِن دو چراغوں کی روشنی میں راستہ طے کرے تاکہ نہ شک و شبہ کے گڑھوں میں گرے اور نہ ہی بدعت کے اندھیروں میں پھنسے۔‘‘ خواجہ فريد الدين عطار رح، تذکرة الأولياء : 9


Share:

6/18/21

آیات القرآن و الاحادیث عن ذکر اللہ || اللہ کے ذکر کی فضیلت || ذکرِ الہی کے فضائل

فَاذْكُرُوْنِـىٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُـرُوْا لِىْ وَلَا تَكْـفُرُوْنِ (152البقرہ)

ترجمہ:  پس مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا اور میرا شکر کرو اور ناشکری نہ کرو۔

ذکر کے فائدے:

دنیا سے متعلق :  الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ ﴿28 الرعد﴾

أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ﴿28 الرعد﴾

ترجمہ: وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے تسکین ہوتی ہے، خبردار! اللہ کی یاد ہی سے دل تسکین پاتے ہیں۔

آخرت سے متعلق: وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ۔(آل عمران 135)

ترجمہ: اور وہ لوگ جب کوئی کھلا گناہ کر بیٹھیں یا اپنے حق میں ظلم کریں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں سے بخشش مانگتے ہیں، اور سوائے اللہ کے اور کون گناہ بخشنے والا ہے، اور اپنے کیے پر وہ اڑتے نہیں اور وہ جانتے ہیں۔

وَالذَّاكِـرِيْنَ اللّـٰهَ كَثِيْـرًا وَّالذَّاكِـرَاتِ اَعَدَّ اللّـٰهُ لَـهُـمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا۔الاحزاب 35

ترجمہ: اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے مردوں اور بہت یاد کرنے والی عورتوں کے لیے بخشش اور بڑا اجر تیار کیا ہے۔

کیسے کیا جائے:

1: خود کو بھلا کر اور سب سے جدا ہو کر اللہ کو یاد کرنا:

وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذَا نَسِيتَ ﴿24 الكهف﴾جب تو بھول جائے تو اللہ کو یاد کر

وَاذْكُرِ اسْـمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا (مزمل8) اور اپنے رب کا نام لیا کرو اور سب سے الگ ہو کر اسی کی طرف آجاؤ۔

2: اللہ تعالی کی رحمت کے واقعات سنانا:

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا ﴿16 مريم﴾

ترجمہ: اور اس کتاب میں مریم کا ذکر کر جب کہ وہ اپنے لوگوں سے علیحدہ ہو کر مشرقی مقام میں جا بیٹھی۔

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا ﴿41 مريم﴾

ترجمہ: اور کتاب میں ابراہیم کا ذکر کر، بے شک وہ سچا نبی تھا۔

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مُوسَىٰ إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا وَكَانَ رَسُولًا نَبِيًّا ﴿51 مريم﴾

ترجمہ: اور کتاب میں موسٰی کا ذکر کر، بے شک وہ خاص بندے اور بھیجے ہوئے پیغمبر تھے۔

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ ﴿54 مريم﴾

ترجمہ: اور کتاب میں اسماعیل کا بھی ذکر کر، بے شک وہ وعدہ کا سچا اور بھیجا ہوا پیغمبر تھا۔

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا ﴿56 مريم﴾

ترجمہ: اور کتاب میں ادریس کا ذکر کر، بے شک وہ سچا نبی تھا۔

ان آیات میں اللہ تعالی نے انبیاء کرام علیھم السلام کے حوالے سے ارشاد فرمایا کہ ان کو یاد کرو اس کا مطلب ہے ان کے حالات و واقعات کو یاد کرو  ان کا تذکرہ کرو ۔ ایسے ہی اللہ تعالی کے ذکر کا مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت کے تذکرے کیے جائیں اللہ تعالی انعامات کا ذکر کیا جائے اللہ تعالی کی محبت کی باتیں کی جائیں۔

3: نماز پڑھنا:

إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي ﴿14 طه﴾

ترجمہ: بے شک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں پس میری ہی بندگی کر، اور میری ہی یاد کے لیے نماز پڑھا کر۔

4: دل کو اللہ کی یاد سے معمعور رکھنا:

وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةًوَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ  ﴿205 الأعراف﴾

ترجمہ: اور اپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی کرتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے یاد کرتا رہ صبح اور شام بلند آواز کی بجائے ہلکی آواز سے، اور غافلوں سے نہ ہو۔

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ ﴿2 الأنفال﴾

ترجمہ: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کا نام آئے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں۔

دنیا اور آخرت کی بربادی:

دنیا سے متعلق : وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا ﴿124 طه﴾

آخرت سے متعلق: وَمَنْ يُّعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهٖ يَسْلُكْهُ عَذَابًا صَعَدًا (17 ، اور جس نے اپنے رب کی یاد سے منہ موڑا تو وہ اسے سخت عذاب میں ڈالے گا

1: حدیث شریف:  مَثَلُ الَّذِیْ یَذْکُرُ رَبَّہُ وَالَّذِیْ لَا یَذْکُرُہُ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ) (بخاری 6407)

ترجمہ: اس شخص کی مثال جو اپنے رب کا ذکر کرتا رہتا ہے ایسے ہے جیسے ایک زندہ شخص ہو ۔ اور اُس شخص کی مثال جو اس کی یاد سے غافل رہتا ہے ایسے ہے جیسے ایک مردہ شخص ہو ۔

2: حدیث شریف: أَلَا أُنَبِّئُكم بِخَيْرِ أعمالِكُم ، وأَزْكاها عِندَ مَلِيكِكُم ، وأَرفعِها في دَرَجاتِكُم ، وخيرٌ لكم من إِنْفاقِ الذَّهَب والوَرِقِ ، وخيرٌ لكم من أن تَلْقَوا عَدُوَّكم ، فتَضْرِبوا أعناقَهُم ، ويَضْرِبوا أعْناقكُم ؟ ! ، قالوا : بَلَى ، قال : ذِكْرُ اللهِ قَالَ مَعَاذُ بْنُ جَبَلٍ رضی اللہ عنہ : مَا شَيْئٍ أَنْجٰی مِنْ عَذَابِ اللّٰہِ، مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ۔ (ترمذی 3377)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہارے سب سے بہتر اور تمہارے رب کے نزدیک سب سے پاکیزہ اور سب سے بلند درجے والے عمل کی تمہیں خبر نہ دوں؟ وہ عمل تمہارے لیے سونا چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہے، وہ عمل تمہارے لیے اس سے بھی بہتر ہے کہ تم  ( میدان جنگ میں )  اپنے دشمن سے ٹکراؤ، وہ تمہاری گردنیں کاٹے اور تم ان کی  ( یعنی تمہارے جہاد کرنے سے بھی افضل ) “ لوگوں نے کہا: جی ہاں،  ( ضرور بتائیے )  آپ نے فرمایا: ”وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے“، معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں: اللہ کے ذکر سے بڑھ کر اللہ کے عذاب سے بچانے والی کوئی اور چیز نہیں ہے ۔

3: حدیث شریف ؛ -قال معاذ بن جبل سألتُ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: أيُّ الأعمالِ أحَبُّ إلى اللهِ تعالى؟ قال: أن تموتَ، ولِسانُك رَطْبٌ مِن ذِكرِ اللهِ۔ ( فرمایا معاذ میں تجھ سے پیار کرتا ہوں۔)(ابن حبان 818)

ترجمہ: حضرت معاذ بن جبل عرض کرتے ہیں یارسول اللہ ﷺ اعمال میں سے سب سے زیادہ اللہ تعالی کو محبوب عمل کون سا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تجھے موت آئے تو تیری زبان اللہ کے ذکر سے تر ہو۔

4: حدیث شریف: وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «لِكُلِّ شَيْءٍ صِقَالَةٌ وَصِقَالَةُ الْقُلُوبِ ذِكْرُ اللَّهِ وَمَا مِنْ شَيْءٍ أَنْجَى مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ» قَالُوا: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ: «وَلَا أَنْ يَضْرِبَ بِسَيْفِهِ حَتَّى يَنْقَطِعَ»رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّعَوَاتِ الْكَبِيرِ

ترجمہ: حضرت عبداﷲ ابن عمر سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے راوی کہ حضور فرماتے تھے کہ ہر چیز کی صیقل ہے اور دلوں کی صیقل اﷲ کا ذکر ہے ۱؎ اور کوئی چیز ذکر اﷲ سے بڑھ کر عذابِ الٰہی سے نجات نہیں دیتی صحابہ نے عرض کیا کہ نہ اﷲ کی راہ میں جہاد فرمایا بلکہ نہ یہ کہ غازی اپنی تلوار سے کفار کو مارے حتی کہ تلوار ٹوٹ جائے ۔(بیہقی،دعوات کبیر)

 

 

Share:

6/12/21

آیات القرآن عن الخسر و الخاسرین || خسارہ پانے والے || نقصان پانے والے || اللہ تعالی کے ذکر سے غافل لوگ

 

خسارہ پانے والوں کے دو گروہ ہیں  1: کافر  2: غافل مسلمان

کافروں کے بارے میں ارشاد فرمایا:

لَہٗ  مَقَالِیۡدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ؕ وَالَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِایاتِ اللہِ  اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوۡنَ (۶۳)

وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُۚ-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۸۵)ترجمہ: کنزالایماناور جو اسلام کے سوا کوئی دین چاہے گا وہ ہر گز اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں زیاں کاروں(نقصان اٹھانے والوں میں) سے ہے

غافل مسلمانوں کے متعلق قرآنی آیات سے جو ہدایات ملتی ہیں ان کی روشنی میں ذیل میں خسارے کی نوعیت ور اقسام بیان کی گئی  ہیں :

1: اللہ کی رحمت اور مغفرت نہ ہونا خسارہ ہے:

وَلَمَّا سُقِطَ فِىٓ أَيْدِيهِمْ وَرَأَوْا۟ أَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوا۟ قَالُوا۟ لَئِن لَّمْ يَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَيَغْفِرْ لَنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ ٱلْخَـٰسِرِينَ

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۲۳)ترجمہ: کنزالعرفان دونوں نے عرض کی: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ضرور ہم نقصان والوں میں سے ہوجائیں گے۔

فَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُنْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٦٤ البقرة﴾

حضرت نوح علیہ السلام نے عرض کیا : وَإِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُنْ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٤٧ هود﴾

2: آخرت کا خسارہ :

وَتَرَىٰهُمْ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا خَـٰشِعِينَ مِنَ ٱلذُّلِّ يَنظُرُونَ مِن طَرْفٍ خَفِىٍّ ۗ وَقَالَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِنَّ ٱلْخَـٰسِرِينَ ٱلَّذِينَ خَسِرُوٓا۟ أَنفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ ۗ أَلَآ إِنَّ ٱلظَّـٰلِمِينَ فِى عَذَابٍ مُّقِيمٍ

 

قُلْ  اِنَّ الْخٰسِرِیۡنَ الَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا  اَنۡفُسَہُمْ وَ اَہۡلِیۡہِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ؕ اَلَا ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ  الْمُبِیۡنُ (۱۵)

وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ ﴿103 المؤمنون﴾

3: رسول اللہ ﷺ کا ادب نہ ہوا تو خسارہ ہو گا

حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴿69 التوبة﴾

سورہ حجرات میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا یا ایھا الذین آمنوا لاترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی۔

4: دنیا میں لوگ عمل کریں اور اچھے اور برے کی تمییز ختم ہو جائے اور ہر کام اپنا اچھا لگے:

قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا ﴿١٠٣﴾

الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ﴿١٠٤﴾

 

كَالَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ كَانُـوٓا اَشَدَّ مِنْكُمْ قُوَّةً وَّاَكْثَرَ اَمْوَالًا وَّاَوْلَادًاۖ فَاسْتَمْتَعُوْا بِخَلَاقِهِـمْ فَاسْتَمْتَعْتُـمْ بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ بِخَلَاقِهِـمْ وَخُضْتُـمْ كَالَّـذِىْ خَاضُوْا ۚ اُولٰٓئِكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُـهُـمْ فِى الـدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۖ وَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْخَاسِرُوْنَ (69) جس طرح تم سے پہلے لوگ تم سے طاقت میں زیادہ تھے اور مال اور اولاد میں بھی زیادہ تھے، پھر وہ اپنے حصہ سے فائدہ اٹھا گئے اور تم نے اپنے حصہ سے فائدہ اٹھایا جیسے تم سے پہلے لوگ اپنے حصہ سے فائدہ اٹھا گئے اور تم بھی انہیں کی سی چال چلتے ہو، یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہو گئے، اور وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔

 

5: اللہ کی یاد سے غافل ہو جانا خسارہ ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُلۡہِکُمۡ اَمۡوَالُکُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُکُمۡ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ﴿۹

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّـٰهَ عَلٰى حَرْفٍ ۖ فَاِنْ اَصَابَهٝ خَيْـرُ  ِۨ اطْمَاَنَّ بِهٖ ۖ وَاِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُ  ِۨ انْقَلَبَ عَلٰى وَجْهِهٖۚ خَسِرَ الـدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةَ ۚ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ (11) اور بعض وہ لوگ ہیں کہ اللہ کی بندگی کنارے پر ہو کر کرتے ہیں، پھر اگر اسے کچھ فائدہ پہنچ گیا تو اس عبادت پر قائم ہو گیا، اور اگر تکلیف پہنچ گئی تو منہ کے بل پھر گیا، دنیا اور آخرت گنوائی، یہی وہ صریح خسارا ہے۔

مال اور اولاد غفلت کا سبب ہیں :

قَالَ نُوحٌ رَبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي وَاتَّبَعُوا مَنْ لَمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ إِلَّا خَسَارًا ﴿٢١﴾

وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴿٢٨ الأنفال﴾

إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَاللَّهُ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴿١٥ التغابن﴾


Share:

6/8/21

نیک لوگوں کی نسبت || اے ایمان والوں سچوں کے ساتھ ہو جاو ||یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ

نیک لوگوں کے ساتھ تعلق بنانا اور نسبت جوڑنا کیوں ضروری ہے اور کتنا اہم ہے ؟

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(۱۱۹)ترجمہ: کنزالایمان : اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاو

اسی مضمون کو اللہ تعالی نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْۚ-تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا(۲۸)ترجمہ: کنزالعرفاناور اپنی جان کو ان لوگوں کے ساتھ مانوس رکھ جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے ہیں اور تیری آنکھیں دنیوی زندگی کی زینت چاہتے ہوئے انہیں چھوڑ کر اوروں پر نہ پڑیں۔

یہ کون لوگ تھے اصحابِ کہف ؟ کیا یہ پیغمبر تھے؟ کیا رسول  تھے ؟ نہیں یہ لوگ تھے جن سے متعلق اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا :

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(حم سجدہ۳۰)

ترجمہ: کنزالایمانبےشک وہ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے اُن پر فرشتے اُترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور خوش ہو اس جنت پر جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا۔

اصحابِ کہف پر اللہ تعالی کے انعامات ::

سورج کو پھیر دینا اور نظام فطرت کو بدل دینا : وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَت تَّزَاوَرُ عَن كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَت تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِّنْهُ ۚ (سورہ کہف 17)

ان کا سونا ایسا تھا کہ دیکھنےو الا محسوس کرے کہ جاگ رہے ہیں: وَتَحْسَبُهُمْ أَيْقَاظًا وَهُمْ رُقُودٌ(سورہ کہف 18)

اللہ تعالی ان کی کروٹیں بدلتا تھا جیسے ماں بچے کو کافی دیر سے ایک ہی کروٹ پر لیٹا دییکھ کر محسوس کرتی ہے کہ یہ تھک گیا ہو گا تو کروٹ بدل دیتی ہے اللہ فرماتا ہے بچہ سو جائے کروٹ ماں بدلتی ہے ولی سو جائیں کروٹیں اللہ بدلتا ہے بلکہ صرف ان کی ہی نہیں جو ان کے ساتھ ملنے والا کتا ہے اللہ اس کی بھی کروٹیں بدلتا رہتا ہے : وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ ۖ وَكَلْبُهُم بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ ۚ(سورہ کہف 18)

اللہ نے ان کے کتے کا ذکر بھی قرآن میں کیا اور اس کی ہیئت اور بیٹھنے کے انداز کو بھی بیان کیا اس میں نہ نماز کا مسئلہ ہے نہ روزے کا نہ توحید کا نہ رسالت کا نہ آخرت کا نہ تقدیر کا اس میں اللہ تعالی بتانا چاہتا ہے کہ جب اللہ کے ولیوں کے در پر بیٹھو تو ہاتھ پھیلا کر بیٹھا کرو، کتا بھی آ جائے اسے خالی نہیں موڑتے اب ایک اور بات بھی ہے کہ دینے والا اللہ تعالی ہے کرنے والا اللہ تعالی ہے وہ چاہتا تو کتے ولیوں کے در پر لیٹنے پر بھی نواز سکتا تھا مگر وہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ ولیوں کی نسبت کا حیا کرتا ہے۔

جنوں نسبت پاکاں دی مل جاوے او جنتی اے

بھاویں کتا ہووے بیٹھا کوئی غار دے بوہے تھے

سچے لوگ کون ہیں؟

وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِیْنَ(العنکبوت ۳)

ترجمہ: جنہیں اللہ تعالی نے آزمایا اور وہ پورے اترے اور اپنا سب کچھ اللہ کی رضا کے لیے قربان کر دیا یہی لوگ سچے ہیں۔

وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ﴿33 الزمر﴾ پرہیزگار ہی سچے لوگ ہیں اور سچے لوگ پرہیز گار ہیں۔

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ (سورہ الحجرات 15)

ترجمہ: ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر شک نہ کیا اور اپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا وہی سچے ہیں

وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ﴿8 الحشر﴾ ترجمہ: اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی لوگ سچے ہیں

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَۚ-وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِۙ-وَ السَّآىٕلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِۚ-وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَۚ-وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْاۚ-وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(سورہ البقرہ177)

ترجمہ: کنزالایمان: کچھ اصل نیکی یہ نہیں کہ منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرو ہاں اصلی نیکی یہ کہ ایمان لائے اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر اور اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال دے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہ گیر اور سائلوں کو اور گردنیں چھوڑانے میں اور نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ دے اور اپنا قول پورا کرنے والے جب عہد کریں اور صبر والے مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے وقت یہی ہیں جنہوں نے اپنی بات سچی کی اور یہی پرہیزگار ہیں

سچے لوگوں کا اجر کیا ہے ؟

قَالَ اللهُ هَٰذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ ۚ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ رَّضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (المائدہ 119)

ترجمہ: اللہ نے فرمایا کہ یہ ہے وہ دن جس میں سچوں کو ان کا سچ کام آئے گا ان کےلیے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی یہ ہے بڑی کامیابی۔

وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ (سورہ الحدید 19)

ترجمہ: اور وہ جو اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائیں وہی ہیں کامل سچے اور اَوروں پر گواہ اپنے رب کے یہاں ان کے لیے ان کا ثواب اور اُن کا نور ہے

أَنَا رَاوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ ﴿51 يوسف﴾ جو برائی کی انتہا کو سامنے دیکھنے ہیں مگر اس سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتے ہیں وہ سچے ہیں۔

سچے لوگوں کا درجہ :

وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا} [النساء:69]

ترجمہ: اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اُسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں

يقول ابن القيم رحمه الله تعالى في المدارج: "فالصدقُ في هذه الثلاثة:

• الصدق في الأقوال: استواء اللسان على الأقوال كاستواء السُّنبلة على ساقِها.

• والصدق في الأعمال: استواء الأفعال على الأمر والمتابعة كاستواء الرأس على الجسد.

• والصدق في الأحوال: استواء أعمال القلب والجوارح على الإخلاص، واستفراغ الوُسْعِ وبَذْل الطاقة، وبحسَب كمال هذه الأمور فيه وقيامها به تكون صِدِّيقيَّتُه؛ ولذلك كان لأبي بكر الصِّديق رضي الله عنه وأرضاه ذروة سَنامِ الصِّدِّيقيَّة، سُمي الصديق على الإطلاق، والصِّديق أبلغُ من الصَّدوق، والصَّدوق أبلغ من الصادق" (مدارج السالكين: 25/2).

اللہ نے ان کے ساتھ ہو جانے کا حکم کیوں دیا؟:

نمازیں روزے عبادات ان میں شیطان دخل اندازی کر کے ضائع کر سکتا ہے مگر وہ لوگ جو مخلص ہیں جو اللہ تعالی کے سچے بندے ہیں فرمایا ان پر شیطان کا وار نہیں چلتا شیطان انہیں ورغلا نہیں سکتا تم بھی ان کے ساتھ ہو جاو تماہارا ایمان بھی محفوظ تمہارے روزے اور عبادات بھی محفوظ ہو جائیں گے۔ جب شیطان نے مہلت مانگی اور کہا کہ میں تیرے بندوں کو ورغلاوں گا مگر خود ہی کہا کہ جو تیرے مخلص بندے ہوں گے ان پر میرا بس نہیں چلے گا۔

﴿قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ وَ لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ، اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَ﴾  [الحجر:۳۹۔۴۰] ’’

ترجمہ:کہا پروردگار جیسے تو نے مجھے راستے سے الگ کیا ہے میں بھی زمین میں لوگوں کے لیے(گناہوں کو)آراستہ کر دکھاؤں گا اور سب کو بہکاؤں گا۔ ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں(ان پر قابو چلنا مشکل ہے)۔‘‘

قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لأغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ۔ إِلاَّ عِبٰادَكَ مِنْهُمُ اَلْمُخْلَصِينَ (سورہ ص 82،83)

ترجمہ:کہنے لگا : ’’ بس تومیں تیری عزت کی قسم کھاتا ہوں کہ میں ان سب کو بہکاؤں گا۔ مگر جو تیرے مخلص بندے ہیں ( ان کو نہیں بہکا سکوں گا)

اخلاص کی بھی دو قسمیں ہیں ایک اخلاص صدق کے بغیر ہے اور ایک صدق کے ساتھ ہے  سنیں ایک اخلاص کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :

هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ حَتَّى إِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنْجَيْتَنَا مِنْ هَذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ، فَلَمَّا أَنْجَاهُمْ إِذَا هُمْ يَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ}[يونس:22-23]

ترجمہ: وہی ہے کہ تمہیں خشکی اور تری میں چلاتا ہے یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہو اور وہ اچھی ہوا سے انہیں لے کر چلیں اور اس پر خوش ہوئے ان پر آندھی کا جھونکا آیا اور ہر طرف لہروں نے انہیں آلیا اور سمجھ لیے کہ ہم گِھر گئے اس وقت اللہ کو پکارتے ہیں نِرے(خاص) اس کے بندے ہوکر کہ اگر تو اس سے ہمیں بچالے گا تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے

أنَّ رجلًا مِنَ الأعرابِ جاءَ إلى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ فآمَنَ بِهِ واتَّبعَهُ وقالَ: أُهاجرُ معَكَ فأوصى بِهِ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ بعضَ أصحابِهِ فلمَّا كانَت غزوةٌ ، غنِمَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ فيها أشياءَ ، فقَسمَ وقسمَ لَهُ فأعطَى أصحابَهُ ما قَسَمَ لَهُ وَكانَ يرعى ظَهْرَهُم . فلمَّا جاءَ دفَعوا إليهِ فقالَ: ما هذا ؟ قالوا: قَسْمٌ قَسمَهُ لَكَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ . فأخذَهُ فجاءَ بِهِ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ فقالَ: يا مُحمَّدُ ، ما هذا ؟ قالَ: قَسمتُهُ لَكَ . قالَ: ما على هذا اتَّبعتُكَ ، ولَكِنِّي اتَّبعتُكَ على أن أُرمَى هاهُنا وأشارَ إلى حلقِهِ بسَهْمٍ فأموتَ وأدخلَ الجنَّةَ . فقالَ: إن تَصدُقِ اللَّهَ يَصدُقْكَ فلبثوا قليلًا ، ثمَّ نَهَضوا إلى العدوِّ ، فأتى بِهِ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يُحمَلُ ، قد أصابَهُ سَهْمٌ حيثُ أشارَ . فقالَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ: أَهوَ هوَ ؟ قالوا: نعَم قالَ: صدقَ اللَّهَ فصدقَهُ وَكَفَّنَهُ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ في جُبَّةٍ ، ثمَّ قدَّمَهُ فصلَّى عليهِ . فَكانَ مِمَّا ظَهَرَ مِن صلاتِهِ عليهِ: اللَّهمَّ إنَّ هذا عَبدُكَ ، خرجَ مُهاجرًا في سبيلِكَ ، فقُتلَ شَهيدًا ، أَنا شَهيدٌ علَيهِ (صحيح النسائي 1952) التخريج : أخرجه النسائي (4/60)، وعبد الرزاق في ((المصنف)) (3/545)، والطبراني في ((الكبير)) (7/271) باختلاف يسير.۔۔۔۔

ترجمہ: حضرت شداد بن الہاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جو کہ ایک اعرابی (دیہات کا باشندہ)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور مشرف با اسلام ہوا۔ پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں رہنے لگا۔ایک بار کہنے لگا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کروں گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وصیت کی۔ جس وقت غزوہ ہوا اور اس غزوہ میں مسلمانوں کو بکریاں حاصل ہوئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بکریوں کو تقسیم فرمایا اور اس کا بھی حصہ  نکالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کا حصہ اس کو دے  دیا۔ وہ ان کے سواری کے جانور چرایا کرتا تھا۔ جس وقت  وہ (بکریاں چرا کے واپس) آیا تو صحابہ رضی اللہ عنہم اس کا حصہ اسے دیا تو اس نے دریافت کیا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ تمہارا حصہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو عطا فرمایا ہے۔ اس نے وہ حصہ لے لیا اور اس کو لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہارا حصہ میں نے دیا ہے۔ اس نے عرض کیا: میں اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نہیں ہوا تھا بلکہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اس وجہ سے کی ہے کہ میری اس جگہ پر  تیر مارا جائے۔ اس نے اس جگہ (یعنی حلق )کی طرف اشارہ کیا، پھر میرا انتقال ہو جائے اور میں جنت میں داخل ہو جاؤں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر تو اپنے اس ارادے میں سچا  رہا تو اللہ تعالیٰ بھی تم کو سچا کرے گا (یعنی شہادت کی موت عطا فرمائے گا)۔ پھر کچھ دیر تک لوگ ٹھہرے رہے۔ اس کے بعد دشمن سے جنگ کرنے کے واسطے اٹھے اور لڑائی شروع ہوئی۔ لوگ اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے، اس شخص کو اسی جگہ پر تیر لگا ہوا تھا جہاں اس نے بتلایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا یہ وہی شخص ہے؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ شخص اپنے اس ارادے میں سچا  تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو سچ کر دیا (یعنی شہادت کی موت عطا فرمائی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مبارک جبہ کا کفن اس کو دے دیا اور آگے کی جانب رکھا اور اس پر نماز جنازہ ادا کی۔  تو جس قدر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں سے لوگوں کو سنائی دیا وہ یہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ : ”یا اللہ یہ تیرا بندہ ہے اور تیرے راستے میں ہجرت کر کے نکلا اور یہ شخص اللہ کے راستہ میں شہید ہوگیا میں اس بات کا گواہ ہوں

 

قُلْ أَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرٍ مِنْ ذَلِكُمْ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَأَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَرِضْوَانٌ مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ . الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ . الصَّابِرِينَ وَالصَّادِقِينَ وَالْقَانِتِينَ وَالْمُنْفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ} [آل عمران:15-17].

ترجمہ: تم فرماؤ کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز بتادوں پرہیز گاروں کے لیے ان کے رب کے پاس جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ان میں رہیں گے اور ستھری بیبیاں اور اللہ کی خوشنودی اور اللہ بندوں کو دیکھتا ہے۔وہ جو کہتے ہیں اے رب ہمارے ہم ایمان لائے تو ہمارے گناہ معاف کر اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔ صبر والے اور سچے اور اَدب والے اور راہ خدا میں خرچنے والے اور پچھلے پہرسے معافی مانگنے والے

 

 


Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive