Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

8/4/17

اصلاح معاشرہ اور اصلاح نفس :: معاشرتی اصلاح : دل کی بیماریاں : ہاتھ پاوں کا استعمال : معزز مہمان آنے کو ہیں

اصلاح معاشرہ اور اصلاح نفس:

معاشرتی اصلاح::

پڑھنے کے لیے باتیں: 

معاشرہ کیا ہے اور اصلاح کیا ہے:

معزز مہمان آنے کو ہیں اور تیاری:

دل کی بیماریاں:

ہاتھ کا استعمال :

پاوں کا استعمال:

نظر کا استعمال:


معاشرہ کیا ہے اور اصلاح کیا :

    اصلاح معاشرہ ایک ایسا عنوان ہے جو ایک نقطہ سے شروع ہوکر دائرہ کی شکل میں پھیلتا چلا جاتا ہے۔ ہر دائرہ

پہلے دائرے سے بڑا اور زیادہ دور تک پھیلتا ہے۔ اصلاح معاشرہ کی شروعات ایک نقطہ یعنی فرد واحد سے شروع ہوتی ہے جیسے ٹھہرے ہوئے پانی میں کنکر پھینکنے پر جو منظر آنکھوں کے سامنے آتا ہے کہ پانی کی وہ ہلچل جو پتھرکے آکر گرنے سے پیدا ہوتی ہے، ایک ہی جگہ پر نہیں رکتی بلکہ وہ دور تک پانی میں پھیل جاتی ہے، یا جیسے شمع روشن کریں تو نقطہ روشنی شمع تک محدود نہ رہ کر آس پاس کے ماحول کو بھی روشن کرتا ہے، یا پھول جب کھلتا ہے تو خوشبو پھول تک ہی نہیں سمٹی رہتی بلکہ چاروں طرف پھیل جاتی ہے۔ سورج نکلتا ہے تو اس کی روشنی کروڑوں میل دور زمین کو بھی روشن کردیتی ہے، یعنی اچھائی کی بنیاد جب بھی ڈالی جائے گی تووہ محدود نہ رہے گی بلکہ دور دور تک پھیلے گی۔\n\nآج جب ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو کتنا غیر اصلاحی غیر اخلاقی ماحول نظر آتا ہے. ہر طرف برائی، بد اخلاقی، بد عملی، بد عقیدگی کی تاریکی ہے تو کیا اب صرف معاشرے کی حالت زار پر آنسو بہا کر یا اسے برا بھلا کہہ کر کوئی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے؟ نہیں، تو پھر کیا اسی معاشرے کے رنگ میں رنگ کر سکون حاصل ہو سکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں تو پھر کریں کیا؟

جس طرح ایک قابل ڈاکٹر اپنے مریض کی بہت ساری بیماریوں کا حال سننے کے بعد ان کی جڑ کا پتہ لگا کر صرف اس کا علاج شروع کرتا ہے کہ باقی بیماریاں تو اس جڑ کے ٹھیک ہوتے ہی آسانی سے دور ہو جائیں گی۔ آج اس معاشرے میں پھیلی ان گنت بیماریوں کا سد باب بھی اسی طرح ہوگا، ا ن برائیوں کی جڑ معلوم کر کے اصلاح کی شروعات ہوگی۔

معاشرے کی اصلاح کیسے؟ اب آخر اس کی جڑ کیا ہے؟ کہاں ہے؟ تو آپ لوگوں نے وہ قصہ تو پڑھا ہی ہوگا کہ ایک صاحب کچھ ضروری کام کر رہے تھے۔ ان کا 5 سالہ بچہ آکر انہیں ڈسٹرب کر رہا تھا تو انہوں نے سامنے پڑے اخبار میں سے دنیا کے نقشے کی تصویر لے کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے بچے کو دیے اور کہا کہ جائو دنیا کا نقشہ جوڑ کر ٹھیک کرکے لائو۔ بچہ چلا گیا تو انہوں نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے سوچا کہ اب کافی دیر تک بچہ ان کو پریشان نہ کر سکے گا لیکن جب 5 منٹ بعد ہی وہ بچہ نقشہ ٹھیک بنا کر لے آیا تو ان کو بہت حیرت ہوئی اور انہوں نے پوچھا کہ بیٹا تم نے اتنی جلدی دنیا کا نقشہ ٹھیک کیسے کر دیا؟ بچے نے جواب دیا کہ جب آپ اخبار پھاڑ رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ نقشے کے پیچھے ایک آدمی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ بس میں نے آدمی کی تصویر ٹھیک کر دی تو دنیا کا نقشہ اپنے آپ ٹھیک ہوگیا۔ دیکھا آپ نے، آج بھی اگر آدمی کی اصلاح ہوجائے تو پوری دنیا کا نقشہ ٹھیک ہوجائے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ آدمی کون ہو جس کی تصویر ٹھیک کی جائے۔ تو غور کریں کہ وہ شخص وہی ہوسکتا ہے جس پر آپ کو پورا پورا حق ہو، جس کا ہر معاملہ آپ طے کرسکیں، جس کو آپ اپنے اشارے پر چلا سکیں، جس کے پاس آپ کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو، جو آپ کی بات رد کرنے کی ہمت طاقت اور حوصلہ نہ رکھتا ہو۔کیوں؟ بننے لگیں نہ دماغ میں ان لوگوں کی تصویریں جو اس معیار پر پورے اترتے ہوں، لیکن نہیں، ان میں سے کوئی بھی وہ شخص نہیں۔تو پھر کون ؟ وہ شخص دراصل ہم میں سے ہر ایک کا اپنا نفس ہے کیونکہ نہ خود سے زیادہ زور کسی پر چل سکتا ہے، نہ خود سے زیادہ جانکاری کسی کے بارے میں ہوسکتی ہے اور نہ خود سے زیادہ زیر نگرانی کوئی اور رہ سکتا ہے۔ یعنی وہ شخص جس کی اصلاح پر دنیا کی اصلاح کا دارومدار ہے، وہ میں اور آپ خود ہیں۔اچھا اب اس شخص کا علم ہو جانے کے بعد کہ جس کی اصلاح سب سے زیادہ ضروری اور اولین ہے، یہ پتہ لگانا ہوگا کہ اس اصلاح کی شروعات کی کہاں سے جائے؟تو پھر واپس آجائیے، ٹھہرے ہوئے پانی کے منظر پر اور ماریے ایک کنکری اور دیکھیے ہلچل کو پھیلتے اور پھیلتے اور پھیلتے۔ ہلچل کا نقطہ ہے دل، اور بڑھتے ہوئے دائرے ہیں خواہشات، احساسات، جذبات، عزم اور پھر قولی اور عملی دائرے ہیں جو وسیع تر ہوتے جا رہے ہیں، یعنی سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنی ہے اور اصلاح کی شروعات کرنی ہے اپنے دل سے۔

اگر بہت معزز مہمان آرہے ہوں، ٹھہرانے کے لیے کمرہ کی ضرورت ہو، اور ایک کمرہ ایسا ہو لیکن کاٹھ کباڑ سے بھرا ہوا ہو، کو ڑا کرکٹ پھیلا ہوا ہو، جگہ جگہ مکڑی کے جالے لٹک رہے ہوں،گرد و غبار سے اٹا ہوا ہو تو کیا کریں گے؟ ایسے کمرے میں تو معزز مہمان کو ٹھہرا نہیں سکتے لہٰذا پہلے تو تمام کاٹھ کباڑ باہر جائے گا، پھر جھاڑ پونچھ شروع ہوگی، پھر صفائی پوری طرح مکمل ہوجانے کے بعد سجاوٹ کی باری آئے گی،گلدان میں پھول مہکیں گے، بستر پر صاف ستھری چادر اور تکیہ ہوگا، ضروریات کا باقی سامان سلیقے سے جگہ پر ہوگا۔ ان سب پر ایک نظر ڈال کر آپ اطمینان بھری سانس لیں گے اور مسکرا کر کہیں گے کہ اب کوئی فکر نہیں، جب چاہیں آجائیں معزز مہمان۔ اسی کو تو اصلاح کہتے ہیں، چلیے کمرے کی اصلاح تو ہوگئی۔ اب بالکل اسی طریقہ سے دل کی اصلاح کرنی ہوگی

دل کی بیماریاں:  یعنی بغض، حسد، کینہ، نفرت، غصہ، انتقام، غیر اللہ پر بھروسہ، حاصل شدہ نعمتوں کی نا قدری، غیرحاصل نعمتوں پر دل کی تنگی، لالچ، بہتر سے بہتر کی خواہش، اونچے سے اونچا اٹھنے کی آرزو، تکبر، غرور، بداخلاقی، ذرا دیکھیے تو کتنا کوڑا کرکٹ جمع ہوگیا ہے اس دل میں، ہماری ہی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے۔اور وہ معزز مہمان ہیں کون؟ جن کو اس دل میں جگہ دینی ہے ۔ وہ ہیں اللہ پر ایمان، اس پر بھروسہ، اس کی محبت، اس کو ہر حال میں راضی رکھنے کا خیال، اس زندگی کی ذمہ داری کا احساس۔ تو چلیے اب شروع ہوجائیے، کاٹھ کباڑ کو باہر نکالنے کے لیے۔ مگر ایک بات یاد رکھیے کہ کمرے سے کباڑ باہر کرنا تو آسان تھا لیکن دل سے نکالنا آسان نہیں ہوگا۔کیونکہ یہاں ایک آواز بار بار حوصلہ توڑے گی کہ ارے اسے نہ ہٹائو، یہ بہت بھاری سامان ہے، یا ارے یہ سامان تمہارا کیا بگاڑ رہا ہے؟ اسے پڑا رہنے دو، کبھی اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے، یا ارے یہ تو یادگار ہے اسے نہ ہٹائو۔ اس آواز پر کان نہ دھر کر اپنے کام میں لگا رہنا گویا دگنی محنت ہے۔ مگر آپ کو رکنا تھکنا نہیں ہے ورنہ مہمانو ں کو کہاں ٹھہرائیں گے لہٰذا ٰان کے لائق جگہ بنانے کے لیے تو ان تھک کوششیں کرنی ہی ہوں گی۔ چاہے محنت لگے چاہے وقت صرف ہو، یہ کام تو ہر حال میں پورا کرنا ہی ہے۔ اب سب سے پہلے تو غیر اللہ پر بھروسے کو نکال باہر کریں۔ اور یاد رکھیے اس کو ہٹاتے وقت وہ بہکانے والی آواز اور زیادہ تیز ہوجائے گی۔ بس سب سے پہلے اسی کو باہر کیجیے۔ یہی ہے وہ سب سے گندی چیز جس کی موجودگی میں آپ کے معزز مہمان دل میں داخل بھی نہ ہوں گے، یہی ہے لہٰذا اسے باہر نکال کر بہت دور پھینک آئیے۔ پھر باری ہے ان بھاری اور بھدی چیزوں کی جن کی موجودگی میں سجاوٹ ناممکن ہے یعنی ناشکری، لالچ، حرص، طمع، زیادہ سے زیادہ کی آرزو۔ یہ ہیں تو بھاری سامان تو ظاہر ہے کہ محنت بھی زیادہ لگے گی لیکن انہوں نے بہت جگہ گھیر لی ہے اور ان کی موجودگی بھی کراہیت دلاتی ہے کیونکہ ان کی رنگت پھیکی ہے، ان کا ڈیل ڈول بھدا ہے، ان کی شکل بد شکل ہے۔ انہیں تو محنت سے اٹھائیے اور بلندی سے نیچے پھینکیے کہ چور چور ہوجائیں۔ اب رہ گئیں وہ برے وقتوں کی یادیں، جھگڑوں کی یادگاریں، لڑائیوں کے قصے، حق تلفیوں کے صدیوں پرانے غم، تو یہ تو انتہائی خطرناک چیزیں ہیں کیونکہ ان میں جو دیمک لگی ہے، وہ دوسری تمام خوبصورت چیزوں کو بھی کھوکھلا کر دے گی۔ ان کو نکال کر پھینکیے ہی نہیں بلکہ جلا دیجیے کہ ان کی دیمک کے کیڑے تو اچھے وقتوں کی یادگاروں، محبت بھری یادوں کے لیے انتہائی مضر ہیں، یہ ان کو کبھی پنپنے نہیں دیں گے۔کوڑا ابھی بھی باقی ہے یعنی یہ تکبر، غرور، بداخلاقی، جھگڑالوپن جو یہاں وہاں پھیلا ہے اور صفائی کو مکمل بھی نہیں ہونے دیتا بلکہ پیروں کو زخمی بھی کرتا ہے، انہیں اٹھا کر پھینکیے۔ کوڑا تو ہٹ گیا اب مزید صفائی شروع کیجیے۔ سب سے پہلے دل کی زمین کو توبہ اور استغفار کے آنسوئوں سے دھو ڈالیے۔ دل کے شیشوں کو شکر گزاری اور نعمتوں کے اقرار سے صاف کیجیے۔ چمک اٹھیں گے اور کائینات کی اصل حقیقت سامنے آجائے گی۔ عاجزی اور انکساری کا بستر بچھائیے۔ بردباری کے پردے ڈالیے، تسبیحات کے پھول کھلائیے، اب اس ذکر الٰہی سے معطر اس روشن اور چمکدار دل میں اپنے معزز مہمانوں کا استقبال کیجیے یعنی اپنے رب کی پہچان کا اقرار۔ لاالہ الاللہ، اللہ کی محبت، اللہ پر توکل، اللہ کے ہر فیصلہ پر رضامندی۔ اس کو ہر حال میں راضی رکھنے کی کوشش کا عزم۔ دیکھیے مہمان دل میں اتر تو آئے ہیں لیکن خیال رہے کہ ذرا بھی شکایت کا موقع نہ ہو، طبیعت اور فطرت کے خلاف کوئی بات نہ ہو۔دل تو مہک گیا چمک گیا، پہلی گھاٹی تو پار ہو گئی۔ 

زبان  کا استعمال : بھلا اب اس دل کے جذبات جب زبان پر آئیں تووہ کڑوے اور ناپسندیدہ کیسے ہوسکتے ہیں۔ ایسے حسین دل والے انسان کی زبان سے جو بات بھی نکلے گی وہ پاک اور شیریں ہونے کے علاوہ کچھ اور بھی ہو سکتی ہے کیا؟ پھر ایسے پاکیزہ کلام والی زبان رکھنے والے کا عمل کتنا عمدہ کتنا قابل رشک ہوگا۔کیونکہ دلی جذبات ہی تو زبان سے کلام کی صورت میں نکلتے اور زبان سے نکلے الفاظ ہی تو عملی شکل اختیار کرتے ہیں، یعنی دل پاکیزہ تو قول و عمل دونوں پاکیزہ۔ دل گندہ تو قول اور عمل دونوں گندے۔ زبان سے نکلنے والی ہر بات یا تو سامنے والے کا دل موہ لیتی یا دکھا دیتی ہے۔ ذرا رک کر سوچیں کہ ہم اپنے لیے کیا پسند کرتے ہیں کیونکہ پیارے نبی ﷺ نے ہم کو ہدایت کی ہے کہ دوسروں کے لیے وہی پسند کرو، جو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔ کیا یہ کہ کوئی ہمیں دیکھ کر منہ بنائے یا ہمیں دیکھ کر خلوص سے مسکرادے۔ ہم سے مل کر کوئی طعنہ دے یا ہم سے مل کر کوئی خیریت دریافت کرے۔ کوئی ہمارا مذاق اڑائے یا ہماری عزت کرے، کوئی ہماری غلطیوں ہماری کمزوریوں کو دوسروں کے سامنے بیان کرے یا ان پر پردہ ڈالے۔ ہماری کوتاہیوں پر سب کے سامنے شرمندہ کرے یا تنہائی میں متوجہ کرے۔ ہماری خوشیوں سے کوئی حسد کرے یا ان کے قائم رہنے کی دعا دے۔ ہماری تکلیف کسی کی خوشی کاباعث ہو یا ہمدردی کا۔ ہماری بیماری پر کوئی اپنی بیماری کا قصہ شروع کر دے یا ہماری شفایابی کی دعائیں کرے۔ان میں سے وہ کون شخص ہے جو ہماری محبت اور عقیدت کا مستحق ہوگا، اور ان میں سے وہ کون سا شخص ہوگا کہ ہم اس کے جیسا بننا چاہیں گے۔ ہم سامنے والے بندے کو کیا محسوس کرانا چاہیں گے، اس سے کیسا سلوک کرنا چاہیں گے؟ یہ بات میں اور آپ خوب اچھی طرح جان گئے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ زبان زخم بھرنا بہت مشکل ہوتا ہے تلوار کے زخم کے مقابلے میں۔ آج تولو پھر بولو جیسے سنہری اصول پر عمل کرنے کے بجائے بولو پھر تولو پھر پچھتائو پر عمل عام ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں تعلقات کشیدہ سے کشیدہ ترین ہوتے جارہے ہیں۔ قریب ترین رشتہ داروں کے دل بھی آپس میں پھٹ چکے ہیں۔ بھروسہ، خلوص اور ہمدردی جیسے کمیاب ہوتی جا رہی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ جس کو سنبھالنے کا حکم دیا گیا تھا یعنی زبان اس سے اسے کاٹتے ہیں جس کوجوڑنے کا حکم دیا گیا تھا یعنی رشتہ داری۔ لہٰذا معاشرے میں اگر ایک بار پھر محبت، خلوص، رواداری اور بردباری کو عام کرنا ہے تو ہم کو اپنی زبانوں کی حفاظت کرنی ہوگی۔ خواہ دل کتنا مچلے، شیطان کتنا ورغلائے، ایسی بات زبان سے نکالنے سے بچنا ہوگا جس کی وجہ سے کل قیامت میں اللہ کے سامنے شرم سے سر نہ اٹھایا جا سکے۔ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی کا احساس زمین میں گڑ جانے کی تمنا کرے۔ بلکہ بات ایسی ہو جو دلوں کو جوڑے، محبتیں پھیلیں، بھائی چارے کی فضا عام ہو یا کہ آج کے مقابلے میں کل کا آنے والا معاشرہ اسلامی زندگی کا وہ نمونہ ہو جو اللہ کو مطلوب ہے۔دیکھیے دائرہ بڑا ہورہا ہے، زبان کے بعد دوسرے اعضاء کی باری ہے۔

آنکھوں کا استعمال: ان آنکھوں کا کیا استعمال ہو؟ کیسی ہوں ہماری نظریں؟ کیا غلط نظریں، غلط جانب نظریں، کھوجتی کریدتی نظریں، مضحکہ اڑاتی نظریں، اشارہ باز نظریں، متکبر نظریں، دیدہ دلیر نظریں، بےحیا نظریں، بےوفا نظریں، احسان فراموش نظریں، گھورتی نظریں، کھاجانے والی نظریں، بےرحم نظریں، غیریت بھری نظریں، یا پھر باحیا نظریں، جھکی نظریں، ہمدرد نظریں، پرخلوص نظریں، پراحترام نظریں، محبت بھری نظریں، منکسر نظریں، پرشفقت نظریں، بھروسہ مند نظریں، محبت سے ٹوکتی نظریں، یقین دلاتی نظریں، اپنائیت سے بھرپور نظریں، مہربان نظریں؟ ان میں سے کون سی نظریں اپنی طرف دیکھ کر ہم سکون اور اطمینان محسوس کر تے ہیں اور کن نظروں سے گھائل ہو کر درد کی لہریں برداشت کرتے ہیں۔ تو پھر کون سی نظریں ان میں سے ہماری ہوں گی۔ اپنی ہر اٹھنے والی نظر کے بارے میں یہ دھیان رکھنا ہوگا کہ یہ جو اٹھے گی تو کس دل پر کیا اثر ڈالے گی۔

ہاتھوں کا استعمال: ہمارے ہاتھ کس کام میں استعمال ہوں گے، کیا دوسروں کی مدد کرنے، سہارا دینے، ضرورت پوری کرنے کے لیے، تکلیف دور کرنے کے لیے، نقصان دہ چیزیں راہ سے ہٹانے کے لیے، انسانوں کی خدمت کے لیے ہو نہ کہ دھکا دینے، تکلیف دینے، ظلم کرنے کے لیے۔ دوسروں کی چیز یں چھیننے، حق مارنے، چوری کرنے، جھوٹے کاغذات تیار کرنے، نقل کرنے، دھوکہ دینے، بےشرمی کے کاموں میں، گندے میسیج لکھنے،گندی ای میل بھیجنے، فحش مضامین لکھنے میں۔

پاوں کا استعمال: ہمارے قدم کہاں اٹھیں گے؟ کیا اللہ کی ناراضگی والی راہوں میں، غلط کاموں میں مدد دینے کے لیے، حرام راستوں کی طرف، شیطان کے قدموں کی پیروی میں، یا اللہ کے پسندیدہ راستے پر صراط مستقیم پر، علم کی تلاش میں، دین کی اشاعت میں، یتیموں مسکینوں بیوائوں کی مدد میں، بیماروں کی مزاج پرسی میں، غم کے ماروں کی تعزیت میں، حلال روزی کی تلاش میں.تو کیا آج سے میں اور آپ اس معاشرے کی اصلاح کا پہلا قدم اٹھانے کا تہیہ کرتے ہیں ۔اور اپنی اصلاح کرنے کا سچے دل اور سچی نیت سے بیڑا اٹھاتے ہیں؟ کیونکہ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ کام میرے اور

آپ کے بدلے اور کوئی کر بھی نہیں سکتا ۔کرنا چاہے تب بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو (آمین)

دلیل سے عالیہ صابر کی تحریر


Share:

8/2/17

صلہ رحمی پر امن معاشرے کی ضرورت ہے۔۔۔۔


صلہ رحمی پر امن معاشرے کی ضرورت ہے۔۔۔۔
دین اسلام میں صلہ رحمی کے فضائل اور قطع رحمی پر بہت ساری وعیدیں بیان کی گئی ہیں، صلہ رحمی کا نبھانا ایک پر سکون معاشرے کی اہم ضرورت ہے۔ اسلام انسانوں کا ایک انتہائی باہمی رحم و کرم اور مہربانی والا معاشرہ تعمیر کرنا چاہتا ہے جس کی قیادت و سیادت محبت و بھائی چارے کے ہاتھ میں ہو۔ خیرو بھلائی اور عطا و کرم کا اس پر راج ہو ، خاندان معاشرے کی اکائی ہوتا ہے۔ اسلمام نے خاندان کی جڑیں مضبوط کرنے اور اس کی عمارت کو پائیدار بنانے کا خاص اہتمام کیا ہے۔
اللہ کی توحید اور والدین کی اطاعت کئ حکم کے ساتھ جس چیز کا حکم دیا گیا ہے وہ یہی صلہ رحمی ہے۔ چنانچہ ارشاد بارئ تعالی ہے : ترجمہ: اللہ تعالی کی عبادت و بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ اور قرابت داروں سے بھی حسن سلوک کرو۔ (سورہ النساء )
            نبی کریم ﷺ نے عبادت میں توحید الہی اور نماز و زکوۃ کے ساتھ صلہ رحمی کو بھی شمار فرمایا ہے چنانچہ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں داخل کر دے۔ تو رسول اللہ ﷺ  نے ارشاد فرمایا: اللہ کی عبادت کرو اور اس کی ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، نماز قائک کرو اور زکوۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو۔ ( متفق علیہ) ہم سے پہہلے بھی قوموں کو رشتہ داریوں اور صلہ رحمی کا حکم تھا چنانچہ ارشاد باری تعلی ہے : ترجمہ: اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے یہ عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا ، اور قرابت داریوں کو قائم رکھنا ۔ (البورہ)
            نبی کریم ﷺ نے صلہ رحمی کی وصیت فرمائی تھی۔ حضرت ابو ذر غفاری ؓ کہتے ہیں رسول اکرم ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی کہ میں صلہ رحمی کروں اگرچہ رشتہ دار میرے ساتھ بے رخی کا سلوک ہی کیوں نہ کریں۔ ( معجم طبرانی کبیر) قرابت داروں سے تعلقات جوڑنا اور صلہ رحمی کرنا ایمان کی نشانی ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے ترجمہ: جو شخص اللہ پر اور آخرت پو ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔ (متفق علیہ) اللہ تعالی نے قطع رحمی پر قریش کی مذمت فرمائی ، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: یہ تو کسی مسلمان کے حق میں کسی رشتہ داری یا عہد کا مطلق لحاظ نہیں کرتے۔ (التوبہ)
            صلہ رحمی قائم کرنے کیلیے سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی  و حسن سلوک کریں۔ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا ! والدین کے فوت ہو جانے کے بعد بھی میرے لیے کوئی ایسا کام ہے کہ میں ان کے ساتھ حسن سلوک کر سکوں؟ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ‘‘ہاں’’ ان کیلیے رحمت کی دعائیں مانگو۔ ان کیلیے اللہ سے مغفرت و بخشش کی دعا کرو اور اپنے قرابت داروں سے رشتہ قائم رکھو جن کا تعلق تم سے صرف والدین کی طرف سے ہی ہے۔ (ابو داؤد)
            والدین کے بعد اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوسرے دوست احباب  کے ساتھ اچھا سلوک رکنا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا اور ضرورت کے وقت ان کے کام آنا اس سے متعلق اسلام نے بہت زیادہ نصیحت کی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے میں برابری کر لے بلکہ صلی رحمی کرنے والا وہ ہے کہ رشتہ دار اس سے قطع تعلقی کریں اور وہ ان سے اپنا رشتہ  جوڑے رکھے (صحیح بخاری)
قطع تعلقی انسان کو معاشرے کے اندر تنہا کر دیتی ہےاور انسان معاشرے کے اندر کمزور ، رسوا اور پریشان ہو جا تاہے ۔ آج اس دور میں معاشرتی بگاڑ اور معاشرتی بے راہ روی کا جو سلاب امڈ رہا ہے وہ اس قطع تعلقی کا ہی کیا دھرا ہے ۔ اگر آج ہم معاشرے کی اصلاح چاہتے ہیں اور پاکستان کو ایک پر امن معاشرہ دینا چاہتے ہیں تو ہمیں مل کر قطع تعلقی کے خلاف جہاد کرنا ہو گا اور صلہ رحمی کی صحابہ کرام کے دور کی روایت کو جاری کرنا ہو گا ۔

اللہ تعالی ہم سب کو صلہ رحمی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Share:

7/30/17

یورپ کی ترقی میں اقلیدس کا کردار :: علم ہندسہ اور اقلیدس :: book element

یورپ کی ترقی میں اقلیدس کا کردار

اقلیدس جتنی  شہرت چند ہی لوگوں کو تاریخ میں حاصل ہوتی ہے۔ اس کے باوجود ہمیں اقلیدس کی سانح حیات کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ سکندر یہ ، مصر میں 300 قبل مسیح میں ایک فعال استاد تھا۔ تاہم اس کی پیدائش اور موت کی تواریخ نامعلوم ہیں۔ اس نے متعدد کتب لکھیں جس میں سے چند ایک بچ پائیں۔ تاریخ میں اس کی قدر و منزلت اس کی عظیم کتاب ‘‘عناصر’’ (ELEMENT) سے ملی ۔ اس کتاب میں موجود قریب سبھی نظریات اقلیدس سے پہلے بھی پیش کیے جا چکے تھے۔

اقلیدس کا سب سے اہم کام تو مواد کی ترتیب بندی اور کتاب کی ساخت کی تشکیل تھا۔ پہلے تو مقولات اور مفروضات کے ایک موزوں مجموعہ کا انتخاب کرنے کا مرحلہ تھا ۔ اس میں غیر معمولی قوت فیصلہ اور گہری بصیرت کی ؔضرورت تھی۔ تب اس نے احتیاط کے ساتھ ان مفروضات کو ترتیب دیا تا کہ ہر ایک اپنے پیش رو سے منطقی طور پر جڑا ہوا معلوم ہو۔ یہ امر قابل غور ہے کہ ‘‘عناصر’’ جو بنیادی طور پر سادہ اور ٹھوس علم ہندسہ کی ترقی یافتہ صورت ہے  ، الجبرا اور اعداد کے نظریات کا بھی تفصیلی احاطہ کرتی ہے۔

            کتاب ‘‘عناصر’’ گزشتہ دو ہزار برسوں سے زائد عرصہ سے نصابی کتاب کے طور پر پڑھائی جا رہی ہے۔ یہ بلا مبالغہ ایک کامیاب کتاب ہے۔ اقلیدس نے اسے شاندار انداز میں ایسے لکھا کہ اس کی اشاعت کے بعد یہ علم ہندسہ کی تمام سابق نصابی کتب پر افضل ہو گئی یہ یونان میں لکھی گئی۔ اب تک یہ متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے۔ پہلی بار یہ 1482 میں باقاعدہ طور پر طبع ہوئی ۔ یعنی گٹن برگ کو چھاپہ خانہ کو ایجاد کیے 30 برس ہی گزرے تھے۔ تب سے اب تک اس کے ہزاروں ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔

منطقی دلیل کی ہیئت کے مطابق اس نے انسانی اذہان کے تربیت کی۔ یہ ارسطو کے منطق پر مقالات سے کہیں زیادہ اثر انگیز ثابت ہوئی۔ یہ کہنا بجا ہے کہ جدید سائنس کے فروغ میں اقلیدس کی کتاب نے اہم کردار ادا کیا۔ سائنس متعدد درست مشاہدات اور پر اثر مفروضات کا مجموعہ ہے۔ ایک طرف تو یہ جدید سائنس کی عظیم ترقی ، تجربیت اور آزمائش کے اشتراک سےپھوٹی دوسری طرف یہ ایک محطاط تجزیہ اور استخراجی دلیل ہے۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ یورپ کی بجائے سائنس کا فروغ چین یا جاپان میں پہکے کیوں نہیں ہوا ۔ بلا شبہ نیوٹن ، گلیلیو ، کوپر نیکس اور کلیر جیسی عظیم ہستیاں بے حد اہمیت کی حامل ہیں۔ تاہم یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں مذکورہ بالا ہستیاں مشرق کی بجائے یورپ میں پروان چڑھیں ؟ غالبا یونانی عقلیت پسندی مغربی یورپ میں سائنس کی تخم ریزی کر رہی تھی۔

            یورپی لوگوں کیلیے یہ تصور کہ چند ایسے طبعی قوانین ہیں جن سے شئے مستخرج کی جا سکتی ہے یکسر فطری تھا۔ کیونکہ اقلیدس کی مثال ان کے پاس تھی۔ یورپی اقوام اقلیدس کے علم ہندسہ کو محض مجرد نظام ہی نہیں سمجھتے تھے ، ان کا خیال تھا کہ اقلیدس کے اصول موضوع اور کلیے ایک حقیقی دنیا کے حقائق ہیں۔

            جن شخصیات کا ذکر کیا گیا انہوں نے کوپر نیکس کی کتاب عنصر کا بغور مطالعہ کیا تھا اور اسی سے ان کے ریاضیاتی علم کی اساس قائم ہوئی۔ آئزک نیوٹن پر اقلیدس کے اثرات خاص طور پر بہت واضح ہیں۔ نیوتن نے اپنی کتاب Principia  ہندسیاتی ہیئت ہی میں تحریر کی جو عناصر کی ہیئت سے مماثل ہےتب سے دیگر اہم مغربی سائنس دانوں نے یہ ثابت کر کے اقلیدس کی تقلید کی ہی کہ کس طرح ان کےنتائج ابتدائی مفروضات کی ایک ہی مختصر تعداد سے منطقی طور پر اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ بر ٹرینڈرسل اور الفرڈ نارتھ وائٹ ہینڈ جیسے ماہرین ریاضیات اور سپنوزا جیسے فلسفی نے ایسا ہی کیا۔ چین کی ٹیکنالوجی صدیوں تک یورپ سے بدرجہا بہتر رہی ، لیکن چینیوں میں اقلیدس کا ہم پلہ کوئی ماہر علم ہندسہ پیدا نہیں ہوا۔ سو چینی کبھی ریاضیات کی وہ نطریاتی ہیئت نہیں پا سکے جو مغرب کو حاصل ہوئی۔ 1600ء تک اقلیدس کا چینی زبان میں ترجمہ ہی نہ ہو سکا۔ جاپان میں اقلیدس کا کا کام اٹھارویں صدی عیسوی تک کسی کے علم میں نہیں تھا۔ اسے قابل قبول ہونے میں بھی سالہا سال کا عرصہ لگا۔ لامحالہ ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یورپی اقوام کیلیے اقلیدس راہ ہموار نہ کرتا تو کیا سائنس میں اس قدر ترقی ان کے لیے ممکن ہوتی۔

            کزشتہ 150 برس سے زائد کا عرصہ میں اقلیدسی نظام کے علاوہ متعدد ہندساتی نظام اختراع کیے گئے ہیں۔ جب سے آئن سٹائن کا اضافیت کا عمومی نظریہ قبول کیا گیا ہے، سائنس دانوں کو اس امر کا قوی احساس ہوا ہے کہ اقلیدس کا علم ہندسہ ہمیشہ ایک حقیقی  دنیا میں درست نتائج کا سبب بنتا ہے۔

            روزن سیاہ (بلیک ہول) اور نیوٹران ستاروں کے قرب و جوار میں، جہاں کشش ثقل کی قوت انتہائی شدید ہے ، اقلیدس کا علم ہندسہ صورت حال کا درست خاکہ پیش نہیں کر پاتا تاہم یہ مثالیں مخصوص ہیں، بیشتر میں اقلیدسی نظام ہندسہ حقیقت کا درست خاکہ پیش کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔

ولیم ہارٹ

 

روزنامہ دنیا ، جمعہ المبارک 14 جولائی ، 2017 صفحہ 15

 

Share:

7/7/17

اسلام میں حقوق والدین اور فرائض اولاد || والدین اور اسلام || والدین اور تعلیماتِ اسلام|| والدین سے متعلق24 احادیث مبارکہ

والدین اور اسلام: 

اللہ تعالیٰ نے انسان کی افزائش کے لئے مرد و عورت کے نکاح کو لازمی قرار دیا ۔ جب نسل انسانی ان سے رواں ہوتی ہے تو ان سے پیدا ہونے والے بچوں کے یہ والدین ٹھہرے ۔ پھر ان کے احترام کے لئے اسلام نے ان کے حقوق اور اولاد کے فرائض متعین کیے ۔یہاں ہم ان حقوق کا ذکر کرتے ہیں ،جو اُن کی زندگی میں اولاد پر واجب و لازم ہیں ۔قرآن کریم میں رب کریم جل جلالہ نے ،والدین کے حقوق کا ذکر اپنے حق کے ساتھ فرمایا ۔اِنِ اشْکُرْلِیْ وَلِوَالِدَیْکَ۔’’حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا۔‘‘

      تو صاف ظاہر ہے کہ ماں باپ کا درجہ ،اللہ تعالیٰ و رسول کریم ﷺ کے بعد تمام انسانی رشتوں میں سب سے بڑا ہے ۔اسی لیے اللہ و رسول ﷺکی اطاعت کے ساتھ ان کی اطاعت اور جا بجا وَبِا الْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ۔’’ماں باپ کے ساتھ بھلائی‘‘کا تاکید ی حکم دیا گیا ہے ،پھر ماں باپ میں بھی ماں کا حق ،باپ سے زیادہ رکھا گیا ہے ۔عورت کی فطری کمزوری ،بیچارگی ،حمل و وضع حمل اور تربیت اولاد، پر ورش بچگان کو تکلیفوں کی ہنسی خوشی برداشت کرنا ۔ماں کی بڑائی اور باپ کے حق سے اس کے حقوق مقدم ہونیکی بڑی دلیل ہے ۔قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے ۔

۔’’اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی کہ (ان کافرمانبردار رہے اور اُن کے ساتھ نیک سلوک کرے۔)‘‘۔

یہ آیت اس امر کی طرف واضح اشارہ کرتی ہے کہ اگر چہ اولاد پر ماں باپ دونوں ہی کی اطاعت و خدمت گزاری لازم ہے لیکن ماں کی خدمت کی اہمیت اس بنا پر کہیں زیادہ ہے کہ وہ اولاد کے لئے تکلیفیں اٹھاتی اور مشقتیں جھیلتی ہے اور حمل و وضع حمل کے دوران شدتوں پر شدتیں برداشت کرتی ہے ۔

اس بات کی مزید تاکید اس ارشاد نبویﷺ سے ہوتی ہے کہ ایک شخص نے خدمتِ حضوراقدس ﷺمیں آکر دریافت کیا کہ:

عنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِي قَالَ ‏"‏ أُمُّكَ ‏"‏ ‏.‏ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ ‏"‏ ثُمَّ أُمُّكَ ‏"‏ ‏.‏ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ ‏"‏ ثُمَّ أُمُّكَ ‏"‏ ‏.‏ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ ‏"‏ ثُمَّ أَبُوكَ ‏"‏ ‏.‏ وَفِي حَدِيثِ قُتَيْبَةَ مَنْ أَحَقُّ بِحُسْنِ صَحَابَتِي وَلَمْ يَذْكُرِ النَّاسَ ‏

 یا رسول اللہ ! سب سے زیادہ میرے حسن سلوک کا مستحق کون ہے ؟فرمایا:’’ تیری ماں‘‘ پوچھا پھر کون ؟فرمایا ’’تیری ماں‘‘ اس نے عرض کیا پھر کون ؟فرمایا :’’تیری ماں‘‘ تین دفعہ آپ نے یہی جواب دیا ۔ چوتھی دفعہ پوچھنے پر ارشاد فرمایا۔’’تیرا باپ‘‘(بخاری)۔

حضور ﷺ کا یہ ارشاد مبارک ،ٹھیک ٹھیک اس آیہ کریمہ کی ترجمانی ہے کیونکہ اس میں بھی ماں کے تہرےحق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

۔1:۔ اس کی ماں نے اُسے مشقت اٹھا کر پیٹ میں رکھا ۔

۔2:۔ شدتیں اور دردِ زہ کی تکلیفیں جھیل کراسے جنا۔

۔3:۔ اور اس کے حمل اور دودھ چھڑا نے میں 30مہینے اذیت میں گزارے ۔

ایسی حالت میں کیا ماں سے بڑھ کر ،انسان اپنے وجود میں مخلوقات میں کسی اور کا محتاج ہو سکتا ہے ۔اس لیے شریعت محمدیﷺ نے اپنی تعلیم میں جو بلند سے بلند مرتبہ ماں کو بخشا ہے وہ ضرور اس کی مستحق ہے ۔

اللّٰہ تعالیٰ کا ایک اور فرمان:معراج مبارک کے احکام میں اس وحدہٗ لا شریک بے ہمتا کی یکتائی و توحید کے بعد ،والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی تعلیم اور ان کی اطاعت و خدمت گزاری اور تکریم و تعظیم کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور یہ کہ شریعت اسلامیہ میں خدمت والدین کا درجہ کتنا اہم و بلند ہے ۔قرآن شریف کا یہ ارشاد گرامی تلاوت فرمائیے۔فرمان باری ہے :

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوۡ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا ﴿۲۳﴾وَ اخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا ﴿ؕ۲۴

ترجمہ ’’اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجواور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور اگر تیرے سامنے اُن میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن سے’’ہوں‘‘ نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور اُن سے تعظیم کی بات کہنا اور اُن کے لئے عاجزی کا بازو بچھا ،نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب ! تو ان دونوں پر رحم کر، جیسا کہ ان دونوں نے مجھے بچپن میں پالا۔‘‘

تو حید و خدا پرستی کی تعلیم سے متصلاً ہی والدین کے ساتھ حسنِ سلوک ،نیکی اور خدمت گزاری کی تاکید سے آپ ہی اس کی اہمیت ظاہر ہے ۔پھر بھی مزید اہتمام و تاکید کے لئے اس نے بتایا اور اولاد کو سمجھا یا کہ :’’اگر تیرے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں۔‘‘

خوب یاد رکھنا چاہیے کہ تہذیب فرنگ کی طرح ، شریعت اسلامیہ کا یہ فتویٰ نہیں کہ لڑکا جب عاقل و بالغ اور صاحب اختیار ہو جائے تو بیوی کے ساتھ اپنا الگ گھر بار کر لے اور بوڑھے ماں باپ سے تعلق اگر رکھے بھی تو محض دور کا اور ضابطہ کا ۔بلکہ صاف و اشگاف الفاظ میں حکم دیا جا رہا ہے ،ان کی ہر طرح خدمت گزاری اور دلجوئی کا خاص کر اس حالت میں کہ والدین بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکے ہیں ضعف کا غلبہ ہو چکا ہے ۔طاقت ختم ہو چکی ہے ۔توانائی اور جسمانی قوت رخصت ہو چکی ہے ۔عقل میں فتور سا آچکا ہے ۔مزاج میں چڑ چڑا پن پیدا ہو چکا ہے ۔ہوش و حواس میں گڑ بڑ ہے اور والدین قدم قدم پر اولاد کی خدمت و دستگیری کے محتاج بن گئے ہیں اور بڑھاپے کی لپیٹ میں آکر ،والدین معذور ہو کر دوسروں کی راہ تکنے لگے ہیں اور عالم یہ ہے کہ اُن کی خدمت ،طبیعت پر گراں گزرنے لگتی ہے ۔مگر شریعت مطہرہ حکم دیتی ہے کہ خبردار اُن کی دلجوئی اور خدمت گزاری میں ذرا برابر فرق نہ آنے پائے اور ہر صورت ان کی خبر گیری کی جائے اور ہمہ اوقات ان کی ضرورت کا لحاظ رکھ کر اُن کی خدمت بجا لائی جائے ۔اسلام کی نظر میں وہی اولاد سعادت مند اولاد ہے جو خصوصاً والدین کی ضعیفی میں ان کی خدمت و دلجوئی میں مصروف رہے ۔

غور فرمائیں کہ اسی دنیا میں اسی سطح زمین پر ایسی ایسی مہذب و شائستہ قومیں بھی گزری ہیں جن کے یہاں دستور یہ تھا کہ جب والدین بوڑھے ہو کر قوم کے لئے عضو معطل و بیکار بلکہ قوم پر ایک قسم کا بوجھ ہو جاتے تھے تو سعادت مند صاحبزادہ انہیں لے جا کر کسی سنسان پہاڑی پر چھوڑ آتا تھا کہ وہیں پڑے پڑے مر جائیں یا کسی جنگلی جانور کی غذا بن جائیں۔

یہ صرف اسلام ہے جس نے بوڑھے والدین کی خدمت گزاری کا اتنا اہتمام فرمایا کہ ان کے آبگینوں کو ٹھیس نہ لگنے دی۔ ایک حدیث شریف میں یہ مضمون آیا ہے کہ بڑا بدبخت و بد قسمت ہے وہ شخص جو اپنے والدین کا بڑھاپا پائے ۔پھر انہیں خوش کر کے ان کی نیک دعاؤں سے اپنے آپ کو جنت کا مستحق نہ بنالے آگے فرمایا ۔فَلَا تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّ’’تو اُن سے ’’ہوں‘‘ بھی نہ کہنا ۔‘‘

حکم قرآن سے مراد صرف لفظ اُف کے تلفظ سے روکنا نہیں بلکہ مقصود کلام یہ ہے کہ والدین کو قولاً یا فعلاً بڑی یا چھوٹی ،کسی قسم کی اذیت پہنچانا جائز نہیں ،یعنی نہ کوئی ایسی حرکت کی جائے اور نہ زبان سے کوئی ایسا کلمہ نکالا جائے جس سے یہ سمجھا جائے کہ ان کی طبیعت پر کچھ گرانی ہے ۔ہر ذی ہوش سمجھ سکتا ہے کہ جب ماں باپ کے سامنے ’’ہوں‘‘ کرنے کی بھی ممانعت ہو گئی تو ظاہر ہے کہ جو چیزیں اس سے بڑھ کر اُن کے مقابلہ میں گستاخانہ یا اُن کے حق میں تکلیف دہ ہیں ان کی ممانعت تو کہیں زائد ہو گی۔

آگے حکم ہوتا ہے ۔وَلَا تَنْھَرْ ھُمَا ۔’’اور انہیں نہ جھڑکنا۔‘‘وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا۔’’اور ان سے تعظیم کی بات کہنا ۔

یعنی جب اُن سے کسی معاملہ میں گفتگو کرنے کا موقع آئے تو حُسن ادب کے ساتھ اُن سے خطاب کیا جائے کہ کسی طور پر بے ادبی کا شائبہ بھی نہ آنے پائے بلکہ اس طرح کلام کرے جیسے غلا م و خادم اپنے آقا و مخدوم سے کرتا ہے ۔

وَبِا الْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا۔سے اگر والدین کے ساتھ عمل میں لطف و نرمی کا حکم نکلا تو ۔فَلَا تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّّ وَّلَا تَنْھَرْ ھُمَا۔سے قول میں ان کے ساتھ ادب و تمیز داری کی تاکید نکلی اور وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا۔سے مخاطبت و گفتگو میں اُن کے ادب و عظمت کے لحاظ رکھنے کا حکم نکل آیا ۔یہ ہے اسلام میں ماں باپ کی عظمت کا تصور ۔وَخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ۔’’اور اُن کے لئے عاجز ی کا باز و بچھا‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے قول کریم کے بعد اولاد کو حکم دیا کہ والدین کے ساتھ نرمی و تواضع ،خاکساری و انکساری سے پیش آؤ اور ان کے تھکے وقت میں شفقت و محبت کا بر تاؤ کرو کہ اُن سے گفتگو ہی نہ کی جائے ۔مگر فروتنی ،خاکساری اور تواضع و انکساری کے ساتھ اور اگر کوئی بات ان سے اپنے مزاج کے خلاف سر زد ہو جائے تو اسے بہر حال برداشت کی عادت ڈالی جائے اور خواہ کتنی ہی خدمت گزاری ان کی کی جائے پھر بھی ان سے یہی کہہ کے میں خدمت کا حق ادا نہ کر سکا ۔میری تقصیر اور کوتاہی کو معاف فرما دیں۔

یہ حسن سلوک و قول حسن ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے اور ان کی نیک دعاؤں کے حصول کا اعلیٰ ذریعہ ہے اور والدین کی نیک دعائیں اولاد کے حق میں نعمت ہیں ۔وَقُلَّ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا۔’’اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کرو‘‘مدعا یہ ہے کہ دنیا میں والدین کے ساتھ بہتر سلوک اور خدمت میں کتنا ہی مبالغہ کیا جائے لیکن والدین کے احسان کا حق ادا نہیں ہوتا ۔اس لئے بندہ کو چاہئے کہ بارگاہ الہٰی میں اُن پر فضل و کرم فرمانے کی دعا کرے اور عرض کرے کہ یا رب میری خدمتیں اُن کے عظیم احسانات کی جزا نہیں ہو سکتیں تو ان پر رحم فرما اور رحمت کر۔

والدین کے حق میں دعا ئے رحمت کرتے رہنے سے خود اپنے دل میں بھی اُن کے متعلق محبت و کشش کے جذبات بیدار ہو جائیں گے ۔یہ ایک نفسیاتی نکتہ ہے جب جس کا جی چاہے اس کا تجربہ کر کے دیکھ لے ۔

اور پھر یہ دعا کر نا کہ اے پروردگار ان پر رحمت فرما’’گویا یہ دعا کرنا ہے کہ ‘‘اے پروردگار انہیں دنیا و آخرت کی ،ہر قسم کی بھلائی سے بہرہ ور فرما ۔‘‘اس لئے کہ لفظ رحمۃ عربی میں جامعیت ہی ایسی رکھتا ہے کہ دین و دنیا کی تمام حسنات کو شامل ہے ۔کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرً ا۔’’جیسا کہ ان دونوں نے مجھے بچپن میں پالا‘‘یہاں کس حکمت کے ساتھ جوان تندرست و تنو مند اولاد کو خود اس کے بچپن کی بے کسی و بے بسی یاد دلا دی گئی ۔قدرۃً یہاں پہنچ کر ،ہر انسان کو یہ خیال آئے گا کہ ایک دن مجھے بھی ،اسی طرح ضعیف اور معذور ہو کر خود اپنی اولاد کا محتاج و دست نگر ہونا ہے اور یہی خیال والدین کی خدمت گزاری پر اور زیادہ آمادہ کرے گااور یہیں سے ضمناً یہ بات بھی نکل آئی کہ معاشرتِ اسلامی میں بچوں کی تربیت و پرورش والدین ہی کا حق ہے اور ہر صالح تمدن میں یہی ہوتا بھی ہے ۔پرورش بچگان کا یہ حق والدین سے لے کر حکومت یا کسی ادارے کو سونپ دینا فطرت انسانی اور قدرتِ ربانی کے منافی ہے اور اس کا نتیجہ صاف ظاہر ہے والدین اور اولاد میں اجنبیت ۔ہر ایک کا دوسرے سے غیر متعلق اور محض اجنبی ہونا اور یہ ذریعہ ہی انسانی گمراہی وقسات قلبی کا دروازہ کھولتا ہے تو فتنہ و فساد نئے رنگ و روپ میں سرا بھارتے ہیں ۔

آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مسلمان کے لئے رحمت و مغفرت کی دعا جائز اور اُسے فائدہ پہنچانے والی ہے ۔مُردوں کے ایصال ثواب میں بھی اُن کے لئے دعائے رحمت و مغفرت ہوتی ہے ۔لہٰذا ایصال ثواب کے لئے یہ آیت اصل ہے ۔

احادیث کریمہ اور حقوق والدین:قرآن کریم کی طرح احادیث نبوی ﷺ میں بھی حقوق والدین کی ادائیگی پر زور دیا گیا ہے ۔اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:1: ’’میں جنت میں گیا ۔اُس میں قرآن پڑھنے کی آواز سنی میں نے پوچھا ۔یہ کون پڑھتا ہے ۔‘‘فرشتوں نے کہا ’’حارثہ بن نعمان ہیں ‘‘ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا یہی حال ہے احسان کا یہی حال ہے احسان کا ۔حارثہ اپنی ماں کے ساتھ بہت بھلائی کرتے تھے ۔(بیہقی)۔

2: حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ :پروردگار کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور پروردگار کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے ۔(ترمذی)۔

3: حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :جس نے اس حال میں صبح کی کہ اپنے والدین کا فرمانبردار ہے اس کے لئے صبح ہی کو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اگر والدین میں سے ایک ہی ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے اور جس نے اس حال میں صبح کی کہ والدین کے متعلق خدا کی نا فرمانی کرتا ہے ۔(اُن کے حقوق ادا نہیں کرتا ) اس کے لئے صبح ہی کو جہنم کے دروازے کھل جاتے ہیں اور ایک ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے ۔ ایک شخص نے عرض کی اگر چہ ماں باپ اس پر ظلم کریں فرمایا اگر چہ ظلم کریں اگر چہ ظلم کریں اگر چہ ظلم کریں۔(بیہقی)۔

4: حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :جب اولاد اپنے والدین کی طرف نظرِ رحمت کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر نظر کے بدلے حج مبرور کا ثواب لکھ دیتا ہے۔لوگوں نے کہا اگر چہ دن میں سو مرتبہ نظر کرے ؟ فرمایا ہاں اللہ تعالیٰ بڑا ہے اور اطیب ہے یعنی اسے سب کچھ قدرت ہے اور اس سے پاک ہے کہ اُس کو اس کے دین سے عاجز کیا جائے ۔(بیہقی )۔

5: حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :کسی کے ماں باپ دونوں یا ایک کا انتقال ہو گیا اور بچہ ان کی (زندگی میں) نافرمانی کرتا تھا اب اُن کے لئے ہمیشہ استغفار کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو نیکو کار لکھ دیتا ہے ۔(بیہقی)۔

6: ایک صحابی حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ! میرا ارادہ جہاد میں جانے کا ہے ۔حضور سے مشورہ لینے حاضر ہوا ہوں۔ ارشاد فرمایا !تیری ماں ہے ۔عرض کی ہاں فرمایا اُس کی خدمت لازم کر لے کہ جنت اس کے قدموں کے پاس ہے ۔(احمد و نسائی )۔

7: حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :زیادہ احسان کرنے والا (اپنے باپ کے ساتھ )وہ ہے جو اپنے با پ کے دوستوں کے ساتھ ،باپ کے نہ ہونے کی صورت میں احسان کرے ۔یعنی جب باپ مر گیا یا کہیں چلا گیا ہو ۔(مسلم)۔

8: حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :یہ بات کبیرہ گناہوں میں سے ہے کہ آدمی اپنے والدین کو گالی دے ۔لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا کوئی اپنے والدین کو بھی گالی دیتا ہے ؟ فرمایا ہاں اس کی صورت یہ ہے کہ یہ دوسرے کے بات کو گالی دیتا ہے ۔وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اور یہ دوسرے کی ماں کو گالی دیتا ہے وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے ۔(مسلم و بخاری)۔

اللہ اللہ صحابہ کرام جنہوں نے عرب کے زمانۂ جاہلیت کودیکھا تھا ۔اپنے ماں باپ کو کوئی کیوں کر گالی دے گا۔ یعنی یہ بات ان کی سمجھ سے باہر تھی۔حضور اکرم ﷺ نے بتایا کہ اس سے مراد دوسرے سے گالی دلوانا ہے اور اب وہ زمانہ آ گیا ہے کہ بعض لوگ خود اپنے ماں باپ کو گالیاں دیتے ہیں اور کچھ لحاظ نہیں کرتے اور ذرا بھی نہیں شرماتے ۔

والدین کی نا فرمانی کا وبال:جہاں قرآن وحدیث میں والدین کی عظمت پر احکامات آئے ہیں وہاں والدین کی نا فرمانی پر وعیدیں بھی آئی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں ۔

9: ابن ماجہ نے ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ !والدین کا اولاد پر کیا حق ہے ؟ فرمایا کہ وہ دونوں تیری جنت و دوزخ ہیں۔ یعنی اُن کو راضی رکھنے سے جنت ملے گی اور ناراض رکھنے سے دوزخ کے مستحق ہو گے ۔

10: نسائی و دارمی نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ احسان جتانے والا اور والدین کی نا فرمانی کرنے والا اور شراب خوری کی مداومت کرنے (ہمیشہ پینے )والا جنت میں نہ جائے گا۔

11: حاکم نے مستدرک میں حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’سب لوگ منبر کے پاس حاضر ہو جائیں ۔ہم سب حاضر ہوئے ۔جب رسول اللہ ﷺ منبر کے پہلے درجہ پر چڑھے تو ارشاد فرمایا’’آمین‘‘جب دوسرے پر چڑھے کہا ’’آمین‘‘ جب تیسرے پر چڑھے ارشاد فرمایا ’’آمین‘‘ جب حضور اکرم ﷺ منبر سے اترے ،ہم نے عرض کی حضور آج ایسی بات سنی کہ کبھی ایسی نہ سنا کرتے تھے ۔فرمایا کہ جبرائیل میرے پاس آئے اور کہا کہ ’’اُسے رحمت الٰہی سے دوری ہو ۔جسنے رمضان کا مہینہ پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوئی ۔‘‘ اس پر میں نے آمین کہا ۔ جب دوسرے درجے پر چڑھا تو انہوں نے کہا ’’اس شخص کے لئے رحمت سے دوری ہو جس کے سامنے حضور اکرم ﷺ کا ذکر ہو او ر وہ درود نہ پڑھے ‘‘ اس پر میں نے کہا آمین ۔جب تیسرے درجے پر چڑھا ۔انہوں نے کہا اس کے لئے رحمت سے دوری ہو جس کے ماں باپ دونوں یا ایک کو بڑھاپا آیا اور انہوں نے اسے جنت میں داخل نہ کیا ۔‘‘میں نے کہا آمین ۔

12: بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جتنے گناہ ہیں ۔اُن میں سے جس کو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے ،سوائے والدین کی نافرمانی کے ۔کہ اس کی سز ا زندگی میں موت سے پہلے دی جاتی ہے ۔

13: ایک حدیث شریف میں ہے کہ والدین کا فرمانبردار جہنمی نہ ہو گا اور اُن کا نافرمان کچھ بھی عمل کرے گرفتار عذاب ہو گا ۔

14: ایک اور حدیث میں ہے کہ سید عالم ﷺ نے فرمایا ’’والدین کی نافرمانی سے بچو ،اس لئے کہ جنت کی خوشبو ہزار برس کی راہ تک آتی ہے ۔نافرمان وہ خوشبو نہ پائے گا۔ نہ قاطع رحم (رشتہ و قرابت کو کاٹنے والا) نہ بوڑھا زنا کار اور نہ تکبر سے اپنی(شلوار خواہ پاجامہ یا تہ بند )ٹخنوں سے نیچے لٹکانیوالا ۔‘‘

15: طبرانی و حاکم نے روایت کی کہ اللہ تعالیٰ نے ساتوں آسمانوں سے لعنت کی اس پر جو اپنے والدین کی نافرمانی کرے ۔

16: ایک حدیث میں مروی ہے کہ ماں باپ کا نافرمان ،جب دفن کیا جاتا ہے تو (جوش غضب میں )قبر اُسے ایسا دباتی ہے کہ اس کی پسلیاں ،ادھر سے اُدھر ہو جاتی ہیں ۔

17: کعب بن احبار سے روایت ہے کہ والدین کی نافرمانی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ ہلاک کرنے میں مہلت نہیں دیتاتاکہ اس پر عذاب میں جلدی ہو اور ماں با پ کے ساتھ نیک سلوک کرنے والے کی عمر بڑھا دیتا ہے تاکہ اور بھی حسن سلوک کرے ۔

18: وہب بن منبہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے پاس وحی بھیجی کہ اے موسیٰ اپنے والدین کی تعظیم و توقیر کرو ۔جس نے والدین کی عزت بڑھائی ۔ ہم اس کی عمر بڑھائیں گے اور اس کو ایسی اولاد دیں گے جو اس کے ساتھ نیک سلوک کرے اور جو والدین کی نافرمانی کرتا ہے ۔ہم اس کی عمر گھٹا دیں گے اور اس کو ایسی اولاد دیں گے کہ اس کو ستائے اور اس کی نا فرمانی کرے ۔

19: حدیث پاک میں مروی ہے کہ شب معراج حضور اقدس ﷺ کا گزر ایک جماعت پر ہوا تو آپ ﷺ نے ملاحظہ فرمایا کہ وہ لوگ آگ کی شاخوں میں باندھ کر لٹکا دئیے گئے ہیں ۔دریافت فرمایا’’جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا ۔یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اپنے والدین کو برا بھلا کہا کرتے تھے ۔‘‘

معزز قارئین !ان روایات کو دیکھیں اور ماں باپ کے حقوق کو پہچانیں ۔ اُن کی خدمت و تعظیم کو دارین میں سعادت کا ذریعہ جانیں اور اُن کے اطاعت گزار بن کر رہیں۔

20: صحیح بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ فرماتے ہیں ۔’’اگلے زمانے کے تین شخص کہیں جا رہے تھے ۔ سونے کے وقت ایک غار کے پاس پہنچے اور اس میں تینوں داخل ہو گئے ۔پہاڑ کی ایک چٹان اوپر سے گری جس نے غارکو بند کر دیا ۔ انہوں نے کہا کہ اب اس سے نجات کی صورت نہیں ۔بجز اس کے کہ تم نے جو نیک کام کیا ہو اس کے وسیلے سے اللہ سے دعا کرو ۔ ایک نے کہا ، اے اللہ ! میرے والدین بہت بوڑھے تھے ۔جب میں جنگل سے بکریا ں چرا کر لاتا تو دودھ دھو کر سب سے پہلے انہیں پلاتا ۔ان سے پہلے نہ اپنے بال بچوں کو پلاتا ۔نہ لونڈی و غلام کو دیتا ۔ ایک دن جنگل میں دور چلا گیا ۔رات میں جانوروں کو لے کر ایسے وقت میں آیا کہ والدین سو گئے تھے ۔میں دودھ لے کر اُن کے پاس پہنچا تو سوئے ہوئے تھے ۔بچے بھوک سے چلا رہے تھے ۔ مگر میں نے والدین سے پہلے بچوں کو پلانا پسند نہ کیا اور یہ بھی پسند نہ کیا کہ انہیں سوتے سے جگادوں اور دودھ کا پیالہ ہاتھ پر رکھے ہوئے ،اُن کے جاگنے کے انتظار میں رہا یہانتک کہ صبح نمودار ہو گئی ۔اب وہ جاگے اور دودھ پیا ۔اے اللہ ! اگر میں نے یہ کام تیری خوشنودی کے لئے کیا ہے تو اس چٹان کو کچھ ہٹا دے ۔‘‘اس کا کہنا تھا کہ چٹان کچھ سر ک گئی ۔مگر اتنی نہیں ہٹی کہ یہ لوگ غار سے نکل سکیں۔

دوسرے نے کہا اے اللہ ! میرے چچا کی لڑکی تھی جس کو میں بہت محبوب رکھتا تھا ۔میں نے اُس کے ساتھ بر ے کام کا ارادہ کیا ۔اُس نے انکار کر دیا۔ پھر وہ قحط کی مصیبت میں مبتلا ہوئی ۔میرے پاس کچھ مانگنے کو آئی ۔ میں نے اسے ایک سو بیس اشرفیاں دیں کہ میرے ساتھ خلوت کرے وہ راضی ہو گئی ۔ جب مجھے اس پر قابو ملا تو وہ بولی کہ ’’میں ناجائز طور پر اس مہر کا توڑنا تیرے لئے حلال نہیں کرتی ۔‘‘ میں اس کام کو گناہ سمجھ کر ہٹ گیا اور اشرفیاں جو دے چکا تھا وہ بھی چھوڑ دیں ۔الہٰی یہ کام تیری رضا جوئی کے لئے میں نے کیا تو اس چٹان کو ہٹا دے ۔‘‘اتنا کہتے ہی چٹان کچھ اور سرک گئی مگر اتنی نہیں ہٹی کہ یہ اس سے باہر آسکیں۔

تیسرے نے کہا اے اللہ ! میں نے چند شخصوں کو مزدوری پر رکھا تھا ۔ان سب کو مزدوریاں دیں ۔ایک شخص مزدوری چھوڑ کر چلا گیا ۔اس کی مزدوری کو میں نے بڑھایا یعنی اس سے تجار ت وغیرہ کوئی ایسا کام کیا جس سے اُس میں اضافہ ہوا اور اس کو میں نے بڑھا کر بہت کچھ کر لیا ۔ وہ ایک زمانے کے بعد آیا اور کہنے لگا ’’اے خدا کے بندے میری مزدوری مجھے دیدے ۔میں نے کہا یہ جو کچھ اونٹ گائے بیل بکریاں غلام تو دیکھ رہا ہے ،یہ سب تیری ہی مزدوری کا ہے ۔‘‘ سب لے لے ۔وہ بولا اے بندۂ خدا مجھ سے مذاق نہ کر ۔میں نے کہا مذاق نہیں کرتا ہوں ۔یہ سب تیرا ہی ہے لے جا ۔وہ سب کچھ لے کر چلا گیا ۔الہٰی اگر یہ کام میں نے تیری رضا کے لئے کیا ہے تو اِسے ہٹا دے ۔وہ پتھر ہٹ گیا اور یہ تینوں اس غار سے نکل کر چلے گئے ۔‘‘

21: ایک نوجوان کا نام علقمہ تھا جسے نمازیں پڑھنے ،روزے رکھنے اور صدقہ و خیرات دینے کا بڑا شوق تھا ۔کبھی اس میں کوتاہی نہ کرتا ۔اتفاقاً وہ بیمار پڑا اور اس کی بیماری طول پکڑ گئی ۔اس نے اپنی بی بی کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت مبارک میں بھیجا ،وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ۔’’ یا رسول اللہ ! میر ا شوہر علقمہ حالتِ نزع میں ہے ۔‘‘حضور اقدس ﷺ نے ایک دو صحابہ کو بھیجا کہ جا کر کلمہ کی تلقین کریں ۔اُسے تلقین کی گئی لیکن کوشش رائیگاں گئی اور کلمہ طیبہ اس کی زبان سے ادا نہ ہوا ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے واپس آکر حضور اکرم ﷺ کو مطلع کیا ۔آپ نے فرمایا کہ ’’ اس کے والدین میں سے کوئی زندہ ہے ‘‘؟لوگوں نے کہا اس کی بوڑھی ماں زندہ ہے ۔

آپ ﷺ نے اُس کے پاس اطلاع بھیجی کہ اگر تو آسکتی ہے تو خیر ،ورنہ میں خود تیرے پاس آؤں گا ۔ اس نے کہا میری جان آپ ﷺپر قربان ۔میں خود چلوں گی اور عصا ٹیکتی ہوئی حاضر خدمت ہوئی اور سلام کیا ۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا۔’’اے علقمہ کی ماں !سچ سچ بیان کرنا ،ورنہ میرے پاس وحی آتی ہے۔(حقیقت معلوم ہو جائے گی ) تیرے فرزند علقمہ کا کیا حال رہا ہے ؟ اس نے جواب دیا ،یا رسول اللہﷺ ! وہ نمازیں بہت پڑھتا تھا ۔روزے بھی بہت رکھتا تھا اور خیر خیرات بھی بہت کرتا تھا ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا تو اس سے خوش تھی ۔اس نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ !(ﷺ) ’’میں ہمیشہ اس کی طرف سے رنجیدہ رہی ۔‘‘آپ نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا یا رسول اللہ !(ﷺ)وہ اپنی بی بی کی سنتا اور مانتا تھا اور میری نا فرمانی کیا کرتا تھا ۔آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تیری ناراضگی اس کے منہ سے کلمہ شہادت نہیں نکلنے دیتی ۔‘‘

پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ بلال رضی اللہ عنہ جاؤ اور لکڑیاں جمع کرو۔عورت نے کہا کہ یا رسول اللہ !(ﷺ) یہ کس لئے ؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں علقمہ کو آگ میں جلا ؤں گا۔ وہ بولی یا رسول اللہ !(ﷺ)میں اسے برداشت نہ کر سکوں گی ۔ارشاد فرمایا۔ اے علقمہ کی ماں اللہ کا عذاب تو اور بھی زیادہ سخت اور بہت عرصہ تک رہنے والا ہے ۔اگر تو اس کی بخشش چاہتی ہے تو اس سے راضی ہو جا (اور اس کی تقصیر معاف کر دے ) قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔جب تک تو اُس سے راضی نہ ہو گی (اور معاف نہ کرے گی ) اس کی نمازیں اس کو نہ فائد ہ پہنچائیں گی اور نہ روزے مفید ہوں گے اور نہ اس کا صدقہ و خیرات ۔‘‘

(ماں آخر ماں ہوتی ہے )وہ چلا اٹھی کہ یا رسول اللہ !(ﷺ) میں اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں نیز تمام مسلمانوں کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ میں اپنے لڑکے علقمہ سے راضی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ معلوم کر و وہ کلمہ پڑھتا ہے یا نہیں ۔آپ نے دیکھا کہ وہ کلمہ شہادت پڑھ رہا ہے ۔آکر حضور اکرم ﷺ کو اطلاع دی ۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ لوگو! علقمہ کی ماں کی رنجش نے اُسے کلمہ خوانی سے باز رکھا تھا وہ راضی ہو گئی تو علقمہ کو کلمہ پڑھنا نصیب ہوا ۔علقمہ کا اسی روز انتقال ہو گیا ۔خود حضور اکرم ﷺ نے تجہیز و تکفین میں شرکت فرمائی ۔

خلاصۂ کلام: قرآن کریم و احادیث شریفہ نے والدین کی خدمت گزاری و اطاعت شعاری کو جو اہمیت دی ہے اس کی روشنی میں ہر مسلمان پر یہ بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین کا عمر کے ہر حصے میں عموماً اور اُن کی ضعیفی و کبرسنی میں خصوصاً مطیع و فرمانبردار اور اطاعت گزار رہے ۔اُن کی خدمت کو موجب نجات جانے ۔ اُن کے جملہ حقوق سے انحراف نہ کرے ۔کبھی ان کی ضرورتوں سے بے نیازی نہ برتے ۔بلکہ خود اپنے آپ کو اور اپنے متعلقین کو بھی ان کے اکرام و احترام کا پابند بنائے ۔خصوصاً بڑھاپے میں اسی طرح ان کی خدمت بجالائے اور دوسروں کو سکھائے جس طرح اس کے بچپن میں وہ اس کی پرورش اور ناز برداری کرتے رہے ۔

اس کے برخلاف بڑی بد نصیبی اور بد بختی ہے مسلمان کی کہ وہ اپنے ماں باپ کے مقابل آئے اور ان کی مشقتوں اور اذیت پسندیوں کو یہ کہہ کر خاک میں ملا دے کہ وہ اُن کا فرض تھا جسے وہ بجا لائے ۔کیا ہم پر احسان کیا ؟

معزز قارئین ! مانا کہ ان کا فرض تھا جسے انہوں نے ادا کیا ۔لیکن جس شریعت نے والدین پر ،اولاد کی پرورش ،تربیت فرض کی ۔اسی نے اولاد پر اُن کی اطاعت گزار ی اور دلجوئی واجب ٹھہرائی ۔تو تم اپنے فرض سے کیوں جی چراتے ہو ۔

ہم یہاں وہ بات پھر دہرائے دیتے ہیں جو ابتدائی حصوں میں بیان کر چکے ہیں کہ ۔

بالجملہ والدین کا حق وہ نہیں کہ انسان اس سے کبھی عہدہ بر آو سبکدوش ہو سکے ۔ماں ،باپ ،اولاد کی حیات و وجود کے سبب ہیں تو جو کچھ نعمتیں دینی و دیناوی پائے گا ۔ سب انہی کے طفیل ہیں کہ ہر نعمت و مال و جود پر موقوف ہے او ر وجود کے سبب وہ ہوئے ۔تو صرف ماں باپ ہونا ہی ایسے عظیم حق کا موجب ہے جس سے آدمی بری الذمہ کبھی نہیں ہو سکتا ۔ نہ کہ اس کے ساتھ اس کی پرورش میں ان کی کوششیں، اس کے آرام کے لئے ان کی تکلیفیں، خصوصاً پیٹ میں رکھنے ،پیدا ہونے اور دودھ پلانے میں ماں کی اذیتیں ۔ان کا شکر کہاں تک ادا ہو سکتا ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ وہ اس کے لئے اللہ و رسول ﷺ کے لئے سائے اور ان کی ربوبیت و رحمت کے مظہر ہیں ۔ لہٰذا قرآن عظیم میں اللہ جل جلا لہ نے اپنے حق کے ساتھ ان کا حق فرمایا:اَنِ اشْکُرْلِیْ وَلِوَالِدَیْکَ۔’’حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا۔‘‘

22: حدیث میں ہے ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے حاضر ہو کر عرض کی ۔یا رسول اللہﷺ ! ایک راہ میں ایسے گرم پتھروں پر ،کہ اگر گوشت کا ٹکڑا ان پر ڈالا جاتاتو کباب ہو جاتا ،چھ میل تک اپنی ماں کو اپنی گردن پر سوار کر کے لے گیا ہوں کیا اب میں اُس کے حق سے بر ی الذمہ ہو گیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ تیرے پیدا ہونے میں جس قدر دردوں کے جھٹکے اس نے اٹھائے ہیں شاید یہ اُن میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ بھی نہ ہو سکے ۔(طبرانی )۔

ایک ضروری تنبیہہ:والدین کی اطاعت و فرماں برداری کا حکم تو قرآن کریم و احادیث کریمہ میں بار بار اور عام بہ تاکید تمام آیا ہے اور اطاعت والدین اپنی جگہ نہایت اہم وضروری شے ہے ۔بلکہ اسلام کی مجلسی اور معاشرتی زندگی کی تو بنیاد ہی اتحاد زوجین کی طرح اطاعت والدین پر رکھی گئی ہے ۔لیکن اگر کسی کے ماں باپ مشرک ہوں اور عقیدۂ توحید پر زد پڑتی ہو تو کیا اب بھی اس خاص مد میں ان کی اطاعت کی جائے ؟قرآن کریم اس سوال کا جواب دیتا ہے کہ :فَلَا تُطِعْھُمَا ۔’’ان کا کہنا نہ مان ۔‘‘

صاف ظاہر ہے کہ اب وہ فریضہ اطاعت ،ساقط ہو جائے گا اور اس باب میں ان کی اطاعت، اطاعت نہیں بلکہ عین معصیت بن جائے گی ۔کیونکہ اس میں خالق کی صریح نافرمانی ہے خالق کی نا فرمانی کرنے میں کسی کی اطاعت روا نہیں ۔البتہ یہ حکم اس حال میں بھی قائم ہے کہصَاحِبُھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفاً۔’’دنیا میں اچھی طرح ان کا ساتھ دو ۔‘‘

یعنی دنیاوی معاملات و حاجات ،خوردونوش میں اُن کے ساتھ حسن سلوک حسن اخلاق اور احسان و تحمل کے ساتھ پیش آنا چاہیے ۔والدین کفر و شرک میں ملوث ہوں ۔تب بھی انہیں عضو معطل بنا کر چھوڑ دینا اور ان کی خدمت گزاری سے دست کش ہو جانا شریعت مطہرہ کو ہر گز پسند نہیں ۔والدین کی اطاعت گزاری بہر صورت واجب ہے ۔ بجز اس کے کہ ان کی اطاعت گزاری اللہ تعالیٰ کی معصیت کو لازم نہ ہو جائے ۔‘‘

اس آیت کے بارے میں صحیح مسلم شریف و جامع ترمذی کی روایت ہے23:  کہ یہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص 19-18سال کی عمر میں ایمان لے آئے اور اسلام قبول کر لیا اور اُن کی مشرک والدہ کو معلوم ہوا کہ بیٹا مسلمان ہو گیا ہے تو وہ بہت ناخوش ہوئیں اور قسم کھا کر کہا کہ جب تک تو اسلام کو ترک نہ کرے گا اور محمد (ﷺ) کا انکار نہ کرے گا میں نہ کچھ کھاؤں گی نہ پیوں گی اور نہ سائے میں بیٹھوں گی۔‘‘

ماں کا حق ادا کرنا تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ۔حضرت سعد رضی اللہ عنہ اس پر پریشان ہو گئے کہ اگر ماں کی بات نہ مانی تو یہ بھی اللہ کی نا فرمانی ہو گی ۔چنانچہ حضور اکرم ﷺخدمت اقدس میں حاضر ہو ئے اور تمام ماجرا بیان کیا ۔اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہو ئی اور ارشاد ہوا کہ ایسی باتوں میں والدین کی اطاعت نہیں ۔

اور شان نزول نے یہ بات بھی صاف کر دی کہ خدا کی نا فرمانی پر آمادہ کرنے کے لئے والدین اگر پورا زور بھی لگادیں ،بھوک ہڑتال کر دیں ،کھانا پینا بھی چھوڑ دیں ۔آسائش کو بھی اپنے اوپر قسم کھا کر حرام کر لیں تب بھی خدا و رسول ﷺ کے احکام کی خلاف ورزی جائز نہیں ۔ایک طرف ماں باپ کی فرماں برداری ہے ۔تو دوسری جانب خدا و رسول ﷺ کی نا فرمانی اور ظاہر ہے کہ خدا و رسولﷺ کی نا فرمانی سے بچنا فرض اہم اور تمام مخلوق کی فرماں برداری پر مقدم ہے۔ ہاں ان کی دنیاوی خدمت اور حسن سلوک میں کوتاہی نہ برتیں ۔انہیں ایذا نہ دیں اور دنیاوی امور میں حسن اخلاق اور صبر و تحمل سے پیش آئیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں والدین کی خدمت اور ان کی نا فرمانی سے بچنے کی توفیق دے ۔آمین۔


Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive