Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

9/24/19

حضرت خدیجہؓ سے نکاح اور تعمیر کعبہ


 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا سے شادی:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک پچیس برس ہوئی تو آپ حضرت خدیجہ کا مال لے کر تجارت کے لیے شام کی طرف روانہ ہوئے اور آپ کے ساتھ حضرت خدیجہ کا غلام میسرہ بھی تھا جب واپس آئے تو میں میسرہ نے حضرت خدیجہ سے حضور نبی کریم علیہ السلام کے خصائل اور آپ کی اچھی عادات اور آپ کی صفات کے بارے میں بتایا اور اس وقت سیدہ خدیجہ بیوہ تھیں ان کی دو شادیاں ہوچکی تھیں ان کی پاکدامنی کے سبب لوگ جاہلیت میں انکو طاہرہ کہا کرتے تھے ان کا سلسلہ نسب پانچویں پشت پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے ملتا ہے۔ حضرت خدیجہ نے امور مذکورہ بالا کو مدنظر رکھ کر واپس آنے کے قریباً تین مہینے بعد یعلی بن منیہ کی بہن نفیسہ کی وساطت سے آپ کو نکاح کا پیغام بھیجا آپ نے اس درخواست کی خبر اپنے چچاؤں کو دی انہوں نے قبول کیا۔ تاریخِ معین پر ابو طالب اور امیر حمزہ اور دیگر روسائے خاندان سیدہ خدیجہ کے مکان پر گئے اور ان کے چچا عمر بن اسد نے اور بقول بعض ان کے بھائی عامر بن خویلد نے ان کا نکاح کر دیا۔ شادی کے وقت ان کی عمر چالیس سال کی تھی ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا اور 500 درہم مہر قرار پایا یہ حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی شادی تھی۔ حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ کے انتقال کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے چند شادیاں اور کیں۔ تمام ازواج مطہرات کا مہر 500 درہم مقرر ہوا۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام اولاد حضرت خدیجہ کے بطن سے ہوئی۔ صرف ایک صاحبزادے جن کا نام ابراہیم تھا  ماریہ قبطیہ کے بطن سے سنہ 8 ہجری میں پیدا ہوئے اور سنہ 10ہجری انتقال فرما گئے۔

تعمیرِ کعبہ:


جب حضرت کی عمر مبارک پینتیس سال کی ہوئی ۔ قریش نے کعبہ کو ازسرنو بنایا۔ علامہ ازرقی نے تاریخ مکہ میں لکھا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے پتھروں سے جو تعمیر کی تھی اس کا طول و عرض حسب ذیل تھا:
 ارتفاع 9 گز
طول (سامنے کی طرف) حجرِ اسود سے رکن شامی تک 23 گز
عرض (مزاب شریف کی طرف) رکن شامی سے رکن عربی تک 22
طول (پچھواڑے کی طرف) رکنِ غربی سے رکن یمانی تک 31
عرض رکن یمانی سےحجر اسود تک 20 گز
اس عمارت کو حضرت ابراہیم علیہ السلام تعمیر کر رہے تھے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کندھے پر پتھر لاد کر لا رہے تھے جب دیواریں اونچی ہوگئیں تو مقام پر کھڑے ہو کر کام کرتے رہے جب حجرِ اسود  کی جگہ تک پہنچ گئے تو آپ نے اسماعیل سے فرمایا کہ پتھرلاؤ میں اسے یہاں نصب کر دوں تاکہ لوگ طواف یہاں سے شروع کیا کریں حضرت اسماعیل پتھر کی تلاش میں گئے تو حضرت جبرائیل حضرت اسود لے کر حاضر ہوئے اس بنا میں  دروازہ سطح زمین کےبرابر تھا مگر چوکھٹ بازو نہ تھے نہ کواڑ تھے نہ چھت۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد عمالقہ و  جرہم  قصی نے اپنے اپنے وقت میں اس کی تجدید کی چونکہ عمارت نشیب  میں واقع تھی وادی مکہ کے روؤں کا پانی حرم میں آجاتا تھا اس پانی کی روک کے لیے بالائی حصہ پر بند بھی بنوا دیا گیا تھا مگر وہ ٹوٹ جاتا تھا اس دفعہ ایسے زور کی رو  آئی کے کعبہ کی دیوار پھٹ گئ اس لئے قریش نے پرانی عمارت کو ڈھا کر نئے سرے سے مضبوط و مسقف بنانے کا ارادہ کیا۔حسن ِ اتفاق یہ کہ ایک رومی  تاجر باقوم کا جہاز ساحل جدہ پر کنارے سے ٹکرا کر ٹوٹ گیا۔باقوم مذکور معمار و نجار بھی تھا قریش کو جو خبر لگی تو ولید بن مغیرہ چند  اور قریشیوں کے ساتھ وہاں پہنچا اس نے چھت کے لیے جہاز کے تختے مول لے لیے اور باقوم کو بھی ساتھ لے آیا۔ دیواروں کے لئے قریش کے ہر ایک قبیلہ نے الگ الگ پتھرڈھونے شروع کیے مرد دودو مل کر دور سے پتھروں کو کندھوں پر اٹھا کر لاتے تھے۔ چنانچہ اس کام میں حضرت اپنے چچا عباس کے ساتھ شریک تھے اور کوہ صفا کے متصل اجیاد سے پتہ چلا رہے تھے جب سامان عمارت جمع ہوگیا تو ابو وہب  بن عمر بن عائز مخزومی کے مشورے سے قبائل قریش نے تعمیر کے لیے بیت اللہ کے چاروں طرف آپس میں تقسیم کر لیں۔ ابو وہب مذکور حضرت کے والد ماجد عبداللہ کا ماموں تھا۔ اسی نے قریش سے کہا تھا کہ کعبہ کی تعمیر میں کسب حلال کے سوا اور مال صرف نہ کیا جائے جب عمارت حجر ِ اسود  کے مقام تک پہنچ گئی تو قبائل میں سخت جھگڑا پیدا ہوا ہر ایک قبیلہ چاہتا تھا کہ ہم حجرِاسود اٹھا کر نصب کریں گے۔اسی  کشمکش میں چار دن گزر گئے اور تلواروں تک نوبت پہنچ گئی بنو عبدالدار اور بنو عدی بن کعب نے تو اس پر جان دینے کی قسم کھائی اور حسب دستور اس حلف کی تاکید کے لئے ایک پیالا میں خون بھر کر اپنی انگلیاں  اس میں ڈبو کر چاٹ لیں۔ پانچویں دن سب مسجدِ حرام میں  جمع ہوگئے۔ ابو امیہ بن مغیرہ مخزومی نے جو حضرت ام المؤمنین ام سلمہ ؓ کا والد اور قریش میں سب سے معمر تھا یہ رائے دی کہ جو شخص اس مسجد  کے باب بنی شیبہ سے حرم میں داخل ہو  وہ ثالث قرار دیا جائے سب نے اس رائے سے اتفاق کیا دوسرے روز سب سے پہلے داخل ہونے والے ہمارے آقا نامدار صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔دیکھتے ہی سب  پکار اٹھے یہ امین ہیں ہم ان پر راضی ہیں جب انہوں نے آپ سے یہ معاملہ ذکر کیا تو آپ نے ایک چادر بچھا کر اس میں حجر اسود رکھا پھر فرمایا کہ ہر طرف والے ایک ایک سردار انتخاب کرلیں اور وہ چاروں سردار چادر کے چاروں کونے تھام لیں اور اوپر کو اٹھائیں اس طرح جب وہ چادر  مقام نصب کے برابر پہنچ گئی تو حضرت نے حجرِ اسود  اپنے مبارک ہاتھوں سے اٹھا کر دیوار میں نصب  فرما دیا اور وہ سب خوش ہوگئے۔
 قریش نے تعمیل میں بہ نسبت سابق کئی تبدیلیاں کردیں بنائے خلیل میں ارتفاع  9 گز تھا  اب اٹھارہ کر کے عمارت مسقف کر دی گئی۔ مگر سامانِ تعمیر کے لیے نفقہ  حلال کافی نہ ملا اس لئے بنائے خلیل میں سے جانبِ غرب کا کچھ حصہ چھوڑ دیا گیا اور اس کے گرد چاردیواری کھینچ دی گئی کہ پھر موقع ملے گا تو کعبہ کے اندر لے لیں گےاس حصہ کو حجر یا حطیم کہتے تھے۔ بنائے خلیل میں دروازہ سطح زمین کے برابر تھا مگر اب قریش نے زمین سے اونچا کر دیا تا کہ جس کو چاہیں اندر جانے دیں اور جس کو چاہیں روک دیں۔ عہد نبوت میں حضرت کا ارادہ ہوا کہ ہجر کی عمارت کعبہ میں ملالیں اور دروازہ سطح زمین کےبرابر کر دیں مگر بدیں  خیال ایسا نہ کیا  کہ قریش نئے نئے مسلمان ہیں کہیں دیوار کعبہ کے گرانے سے بد ظن ہو کر دین اسلام سے نہ پھر جائیں۔

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive