Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

3/30/23

سجناں نے مل لئے نے کنارے جےدور دے | sajna ne mal lay ny lyrics | کلام محمد علی سجنن | تعزیتی کلام


 

سجناں نے مل لئے نے کنارے  جےدور دے

زندگی گزار لاں گے سہارے حضور دے

 

چنگی نبھا کے ٹر گئیوں دلدار جانیاں

رب بخشے تینوں صدقے پیارے حضور دے

 

میں کوئی نواں تے نئیں گداگر حضور دا

بیٹھا ہاں میں ازل توں دوارے حضور دے

 

نسبت سجن جنہاں دی نبی نال ہو گئی

ویکھن گے اوہ حشر نوں نظارے حضور دے

Share:

3/28/23

اک میں ہی نہیں ان پر | ik men hi nahi un par lyrics | کلام پیر نصیر لادین نصیر شاہ رحمۃ اللہ علیہ | کلیات نصیر گیلانی

 

اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے

 جو رب دو عالم کا محبوب یگانہ ہے

 

کل پُل سے ہمیں جس نے خود پار لگانا ہے

زہرہ کا وہ بابا ہے حسنین  کا نانا ہے

 

 اُس ہاشمی دولہا پر کونین کو میں واروں

جو حُسن و شمائل میں یکتائے زمانہ ہے

 

عزت سے نہ مر جائیں کیوں نام محمد پر

ہم نے کسی دن یوں بھی دنیا سے تو جانا ہے

 

آو ٔدرِ زہرہ پر پھیلائے ہوئے دامن

ہے نسل کریموں کی لجپال گھرانہ ہے

 

ہوں شاہ مدینہ کی میں پشت پناہی میں

 کیا اس کی مجھے پرواہ دشمن جو زمانہ ہے

 

یہ کہ کے درِ حق سے لی موت میں کچھ مہلت

میلاد کی آمد ہے محفل کو سجانا ہے

 

سو بار اگر توبہ ٹوٹی بھی تو حیرت کیا

بخشش کی روائت میں توبہ تو بہانہ ہے

 

 ہر وقت وہ ہیں میری دُنیائے تصور میں

 اے شوق کہیں اب تو آنا ہے نہ جانا ہے

 

پُر نور سی راہیں ہیں گنبد پہ نگاہیں ہیں

 جلوے بھی انوکھے ہیں منظر بھی سہانا ہے

 

 ہم کیوں نہ کہیں اُن سے رُو داد الم اپنی

 جب اُن کا کہا خود بھی اللہ نے مانا ہے

 

محروم ِکرم اِس کو رکھیئے نہ سرِ محشر

جیسا ہے نصیر آخر سائل تو پرانا ہے


Share:

3/25/23

مریم از یک نسبت عیسی عزیز ترجمہ کے ساتھ | noor chashm e rahmatallilalameen | منقبت سیدہ فاطمہ زہرا علیہا السلام


 

مریم از یک نسبت عیسی عزیز

از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز

: حضرت مریم سلام اللہ علیہا  تو حضرت عیسٰی علیہ السلام  سے نسبت کی بنا پر عزیز ہیں جبکہ حضرت فاطمہ الزاھرہ سلام اللہ علیہا ایسی تین نسبتوں سے عزیز ہیں۔

 

نور چشم رحمة للعالمیں

آں امام اولین و آخریں

پہلی نسبت یہ کہ آپؓ رحمتہ للعالمینﷺ کی نورِنظر ہیں(صاحبزادی ہیں)، جو پہلوں اور آخروں کے امام ہیں۔

 

بانوی آں تاجدارِ ’’ہل اتے‘‘

مرتضی مشکل کشا شیرِ خدا

دوسری نسبت یہ کہ آپؓ   ‘‘ہل اتٰی ” کے تاجدار یعنی سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ   کی حرم ہیں (زوجہ ہیں)۔ جو اللہ کے شیر ہیں اور مشکلیں آسان کر دیتے ہیں۔

 

مادر آں مرکزِ پرکارِ عشق

مادر آں کاروانِ سالارِ عشق

تیسری نسبت یہ کہ آپؓ  اُن کی ماں ہیں جن میں سے ایک عشقِ حق کی پرکار کے مرکز بنے اور دوسرے عشقِ حق کے قافلے کے سالار بنے۔

 

مزرع تسلیم را حاصل بتول

مادراں را اسوۂِ کامل بتول

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا تسلیم کی کھیتی کا حاصل تھیں اور آپ مسلمان ماوں کے لئے اسوہ کامل بن گئیں۔

 

رشتۂِ آئینِ حق زنجیرِ پاست

پاس فرمانِ جنابِ مصطفٰی است

اللہ تعالٰی کی قانون کی ڈوری نے میرے پاوں باندھ رکھے ہیں۔ رسول اللہﷺ کے فرمان کا پاس مجھے روک رہا ہے۔

 

ورنہ گردِ تربتش گردیدمی

سجدہ ہا بر خاکِ او پاشیدمی

ورنہ میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے مزار کاطواف کرتا اور ان کے مزار پر سجدہ کرتا۔

Share:

3/22/23

English Translated Nikah Nama | over seas Pakistani | english translation of nikah nama | marriage contract

 

English Translated  Nikah Nama ( Marriage Contract )

We have professional English Translated Nikah Nama ( Marriage Contract ).

This service is for over-seas Pakistani who need English Nikah Nama. If you want error free English Translated-Nikah Nama ( Marriage Contract ) contact me on.

0092 300 5262 557

sohailarif89@gmail.com

 

Necessary documents:

 

1:      Manual Urdu Nikah Nama

2:      Copies of CNICs of all witnesses and Vakils (if any)

3:      Copies of CNICs of Bridegroom and Bride

Note: These documents are for Form Filling only the signatures and seal of Nikah-Khan, Vakils, Witnesses, Bridegroom and bride would be at your end.


Share:

3/21/23

رمضان المبارک کے آداب | adab e ramzan


 

رمضان المبارک کے آداب:

1:      بچوں کا بھی کھانا روزہ داروں سے الگ بیٹھ کر کھلائیں۔

2:      لڑائی جھگڑا اور گالی گلوچ سے پرہیز کریں اور ہمیشہ کے لیے توبہ کریں۔

3:      سخت بولنے اور سخت لہجہ اختیار کرنے سے گریز کریں۔

4:      وضو کرتے ہوئے ناک میں پانی نہ چڑھائیں یعنی صرف آگے سے ناک صاف کریں سانس کے ذریعے اوپر پانی نہ لے کر جائیں۔

5:      وضو کے دوران کلی کرتے ہوئے پانی حلق تک نہ لے کر جائیں صرف منہ کے اگلے حصے کو صاف کریں اگر حلق سے پانی نیچے اتر گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا (نبی کریم ﷺ نے روزت کی حالت میں دورانِ وضو کلی اور ناک میں پانی ڈال کر مبالغہ کرنے سے منع فرمایا ہے یعنی غرغرہ کرنے سے اور ناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچانے سے)

6:      رمضان المبارک میں کوئی بھی چیز سرِ عام نہ کھائیں۔

7:      جیسے ہی سحری کا وقت ختم ہو جائے کھانا پینا چھوڑ دیں ۔

8:      افطاری کا وقت ہو جائے توفوراً روزہ افطارکریں دیر نہ کریں ۔

9:      نمازوں کی پابندی کریں۔

10:    رات کو نمازِ تراویح کا خصوصی اہتمام کریں۔

11:    کثرت سے اللہ تعالی کا ذکر کریں۔

12:    فضول باتوں اور کاموں سے گریز کریں اور وقت گزاری کے لیے ایسا کھیل نہ کھیلیں جو اللہ تعالی کے ذکر سے غافل  کر دے۔

13:    قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت کریں۔

14:    آخری عشرے میں اعتکاف کا ارادہ کریں اور دس دن کا اعتکاف کریں۔

Share:

روزے کے احکام| کن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے | رمضان کے احکام

جن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے:

1:      جان بوجھ کر کوئی بھی چیز کھانا پینا  ۔۔۔۔(اس پر کفارہ لازم آتا ہے)

2:      بھول کر کھا رہے ہوں لیکن پھر یاد آ جائے کہ روزے سے ہیں تو کھانا کھاتے رہنا ۔

3:      منہ بھر قے آ جائے یا تھوڑی تھوڑی قے مگر بہت زیادہ آ جائے تو اس سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

4:      وضو اور غسل کے دوران اگرچہ غلطی سے ہی گلے سے پانی نیچے اتر جائےاس سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔اسی طرح پول میں نہا رہے ہیں اور پانی گلے سے نیچے اتر گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔

5:      آنکھوں میں دوا ڈالنا

6:      مشت زنی کرنے سے

7:      بیوی سے ہم بستری کرنے سے

8:      سحری کھا رہے ہیں اور روزے کا وقت شروع ہو گیا ہے تو بھی کھاتے رہیں تو روزہ نہیں ہو گا اگرچہ ایک منٹ ہی کیوں نا کھایا یا ایک نوالہ ہی کیوں نا کھایا ہو۔روزہ نہیں ہو گا۔

9:      ٹوتھ برش کرنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا ۔

 

جن چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا

1:      بھول کر کھا پی لینا اگرچہ پیٹ بھر کر ہی ۔

2:      منہ سے خون نکلا اور باہر تھوک دیا

3:      سر میں تیل لگانا یا مساج کرنا ۔

4:      آنکھوں میں سرمہ لگانا ۔

5:      غسل کرنا :  دن میں جتنی بار چاہے مرضی کریں۔

6:      منہ تھوڑا بہت پانی جمع ہوا اور وہ پانی منہ کا ہی تھا اگر نگل لیا تو اس سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا

7:      انجیکشن لگانے سے

8:      خون دینے سے

9:      مسواک کرنے سے چاہے عصر کی نماز کے وقت ہی کیوں نہ کریں روزہ نہیں ٹوٹے گا اسی طرح مسواک خشک لکڑی کی ہے یا 10:      تر اور تازہ لکڑی کی ہے تو بھی روزہ نہیں ٹوٹے گا۔اگرچہ گلے میں مسواک کا  ذائقہ محسوس  ہو بھی  مگر یہ کہ مسواک کے دوران تھوک یا مسواک کے ریشے گلے سے نیچے نہ اتارے جائیں اور احتیاط سے کلی کی جائے۔

11:    انسولین بھی کوشش کریں روزے کی حالت میں نہ لگائیں ۔ (بعض علمائے کرام اس پر روزہ نہ ٹوٹنے کا فتوی دیتے ہیں مگر احتیاط بہتر ہے)

 

Share:

3/20/23

سحری اور افطاری کے متعلق احادیث مبارکہ | سحری میں تاخیر اور افطاری میں جلدی کرنا:

 

سحری اور افطاری کے متعلق احادیث مبارکہ:

روزے میں سحر ی و افطاری کا معمول رمضان المبارک میں پابندی کے ساتھ سحری و افطاری بے شمار فوائد اور فیوض و برکات کی حامل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بالالتزام روزے کا آغاز سحری کے کھانے سے فرمایا کرتے تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

 أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :    تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً. (صحيح البخاری1923:) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضو صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سحری کھایا کرو، کیونکہ سحری میں برکت ہے

 حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل کتاب اور مسلمانوں کے روزے کے درمیان فرق کی وجہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا

 عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْكِتَابِ، أَكْلَةُ السَّحَرِ». (صحيح مسلم2550:) حضرت ابوقیس نے حضرت عمرو بن العاص سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّہُ دَخَلَ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم   وَہُوَ یَتَسَحَّرُ فَقَالَ: ((إِنَّہُ بَرَکَۃٌ، اَعْطَاکُمُوْہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فَلَا تَدَعُوْہُ۔)). (مسند احمد بن حنبل3725:) حضرت عبد اللہ بن حارث سے مروی ہے کہ ایک صحابی رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے تو آپ ﷺ سحری تناول فرما رہے تھے تو آپﷺ نے ارشاد فرمایاسحری سراپا برکت ہےیہ الہ تعالی نے تمھیں عطا کیا ہے  اسے ترک نہ کیا کرو۔

 حضرت ابو سعید خدری رضی الہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سحری کرنے والے پر اللہ کی رحمتیں ہوتی ہیں۔ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  : ((اَلسَّحُوْرُ اَکْلَۃٌ بَرَکَۃٌ فَلَا تَدَعُوْہُ وَلَوْ اَنْ یَجْرَعَ اَحَدُکُمْ جَرْعَۃً مِنْ مَائٍ فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّوْنَ عَلَی الْمُتَسَحِّرِیْنَ۔). (مسند احمد بن حنبل: 3727) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو تلقین فرمائی ہے کہ سحری ضرور کھایا کرو، خواہ وہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو۔اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کرنے والوں پر اپنی رحمتیں ناز ل کرتے ہیں۔

 روزے میں سحری کو بلاشبہ بہت اہم مقام حاصل ہے۔ روحانی فیوض و برکات سے قطع نظر سحری دن میں روزے کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ سحری آخری وقت میں تناول فرمایا کرتے تھے۔ گویا سحری کا آخری لمحات میں کھانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ برکت سے کیا مراد ہے؟ برکت سے مراد اجر عظیم ہے کیونکہ اس سے ایک تو سنت ادا ہوتی ہے اور دوسرا روزہ کے لئے قوت و طاقت مہیا ہوتی ہے۔ علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اس حدیث میں برکت سے مراد دوسر ے دن کے روزے کی قوت حاصل کرنا ہے۔ حدیث مبارکہ میں بھی اس فائدے کا ذکر ملتا ہے : عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اسْتَعِينُوا بِطَعَامِ السَّحَرِ عَلَى صِيَامِ النَّهَارِ وَبِالْقَيْلُولَةِ عَلَى قِيَامِ اللَّيْلِ (سنن ابن ماجہ :1693). دن کو قیلولہ کرکے رات کی نماز کے لئے مدد حاصل کرو اور سحری کھا کر دن کے روزے کی قوت حاصل کرو۔

 برکت سے مراد ثواب و اجر کی زیادتی ہے، کیونکہ سحری کھانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ سحری میں برکت کے فوائد کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ : و اما البرکة التی فيه فظاهرة لانه يقوي علي الصيام و ينشط له و تحصل بسببه الرغبة في الازدياء من الصيام. و قيل لانه يتضمن الاسقيقاظ، والذکر و الدعاء في ذالک الوقت الشريف و قت تنزل الرحمة و قبول الدعاء و الاستغفار. سحری میں برکت کی وجوہات ظاہر ہیں جیسا کہ یہ روزے کو تقویت دیتی ہے اور اسے مضبوط کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے روزے میں زیادہ کام کرنے کی رغبت پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق رات کو جاگنے کے ساتھ ہے اور یہ وقت ذکر اور دعا کا ہوتا ہے جس میں اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور دعا اور استغفار کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ (شرح نووی، 7 : 206)

سحری میں تاخیر اور افطاری میں جلدی کرنا:

سحری کرنے میں تاخیر اور افطاری کرنے میں جلدی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زندگی بھر معمول رہا۔ جس کے راوی حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ ہیں، وہ فرماتے ہیں عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ» (صحيح مسلم: 1098) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری امت کے لوگ بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ روزہ جلد افطار کرتے رہیں گے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِذَا سَمِعَ أَحَدُكُمُ النِّدَاءَ وَالْإِنَاءُ عَلَى يَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَضَعْهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ مِنْهُ  (سنن ابی داؤد : 2350) جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اپنی ضرورت پوری کئے بغیر اسے نہ رکھے۔

 حدیث قدسی ہے کہ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏    أَحَبُّ عِبَادِي إِلَيَّ أَعْجَلُهُمْ فِطْرًا   .. (جامع الترمذی : 700) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندوں میں مجھے پیارے وہ ہیں جو افطار میں جلدی کریں۔

 اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اس امت کے لوگوں میں یہ دونوں باتیں ( یعنی افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرنا) رہیں گی تو اس وقت تک سنت کی پابندی کے باعث اور حدود شرع کی نگرانی کی وجہ سے خیریت اور بھلائی پر قائم رہیں گے۔

 سحری میں تاخیر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سحری تناول فرمانے میں تاخیر کرتے یعنی طلوع فجر کے قریب سحری کرتے تھے۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِنَّا مَعَاشِرَ الأَنْبِيَاءِ ، أُمِرْنَا أَنْ نُعَجِّلَ الإِفْطَارَ ، وَأَنْ نُؤَخِّرَ السُّحُورَ ، وَأَنْ نَضْرِبَ بَأَيْمَانِنَا عَلَى شَمَائِلِنَا (المعجم الأوسط للطبراني :4381) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے روزہ جلدی افطار کرنے اورسحری میں تاخیر کا حکم دیا گیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : عن سهل بن سعد رضي الله عنه، قال قال رسول اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم : لا تَزالُ أُمَّتي على سُنَّتي مالم تَنتظِرْ بفِطْرِها النُّجومَ.. حضرت سھل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میری سنت پر اس وقت تک برابر قائم رہے گی، جب تک کہ وہ روزہ افطار کرنے کے لئے ستاروں کا انتظار نہ کرنے لگے گی۔ (مواردالضمان : 891) آپ کا یہ عمل یہودیوں کے برعکس تھا، جن کے ہاں سحری کرنے کا کوئی تصور نہیں تھا اور وہ افطاری کرنے کے معاملے میں آسمان پر ستاروں کے طلوع ہونے کا انتظار کیا کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ کا معمول بھی یہی تھا کہ وہ آفتاب غروب ہوتے ہی افطاری سے فارغ ہو جاتے تھے۔ حضرت ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سحری کھانے کی برکت کئی طرح سے حاصل ہوتی ہے، مثلا اتباع سنت، یہود و نصاری کی مخالفت، عبادت پر قوت حاصل کرنا، آمادگی عمل کی زیادتی، بھوک کے باعث جو بدخلقی پیدا ہوتی ہے، اسکی مدافعت سحری میں کئی حقدارو اور محتاجوں کو شریک کرلینا، جو اس وقت میسر آجاتے ہیں۔ علامہ ابن دقیق العید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ روزے کا مقصد چونکہ پیٹ اور شرم گاہ کی خواہشات کو توڑنا اور درجہ اعتدال میں لانا ہے۔ لیکن اگر آدمی اتنا کھا جائے کہ جس سے روزے کے مقاصد پورے نہ ہوں، بلکہ ختم ہی ہو کر رہ جائیں۔ تو یہ روزہ کی روح کے خلاف ہے۔ جبکہ عیش پسند لوگ ایسا کرتے ہیں کہ دن بھر کی کسر شام کو اور رات بھر کی کسر سحری کو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

افطاری:

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روزہ افطار فرمانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر اوقات کھجوروں سے روزہ افطار فرمایا کرتے تھے۔ اگر وہ میسر نہ ہوتیں تو پانی سے افطار فرما لیتے تھے۔ حضرت سلیمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏    إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى تَمْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ بَرَكَةٌ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ تَمْرًا فَالْمَاءُ فَإِنَّهُ طَهُورٌ. جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو اسے چاہئے کہ کھجور سے کرے کیونکہ اس میں برکت ہے اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے کیونکہ پانی پاک ہوتا ہے۔ (جامع الترمذی: 658)

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کو بہترین سحری قرار دیا : عن ابي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نِعْمَ سَحُورُ الْمُؤْمِنِ التَّمْرُ . (سنن ابي داؤد: 2345) حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کی بہترین سحری کھجور ہے۔

یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ انسان پر شیطان ہمیشہ پیٹ کے راستے حملہ آور ہوتا ہے۔ وہ حصولِ رزق کی کوششوں میں پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اسے حرام کی طرف راغب کر دیتا ہے اور بھوک کے ہتھیار سے اسے شکار کر لیتا ہے۔ گویا رزق حرام کی راہ شیطان کی آماجگاہ ہوتی ہے، لہذا فکرِ معاش اور روزگار کی پریشانیوں سے نجات پا کر ہی عبادت کا حقیقی لطف اور کیف و سرور نصیب ہوتا ہے۔

 

 

 

Share:

3/19/23

روزے کا اجر | rozy ka ajar | الصوم لی وانا اجزی بہ | ان فی الجنۃ لبابا | رمضان اور روزے کے فضائل

 

رمضان المبارک کو اللہ تعالیٰ نے روزے اور رات کے قیام کے ساتھ خصوصیت عطا فرمائی ہے یعنی صیام رمضان اور قیام رمضان۔ نفلی روزہ رمضان المبارک کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی رکھا جاتا ہے اور رات کا قیام، رمضان المبارک کی راتوں کے علاوہ دوسری راتوں میں بھی ہوتا ہے مگر جو فضیلت ماہ رمضان کی راتوں کے قیام میں ہے وہ کسی اور رات کے قیام میں نہیں اور جو فضیلت، برکت اور سعادت ماہ رمضان کے روزوں میں ہے وہ کسی اور مہینے کے روزوں میں نہیں۔ اس لئے کہ ان اعمال کی اس مہینے کے ساتھ ایک خاص نسبت ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ مہینہ بہت عزیز ہے۔

روزے کا اجر:

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ داروں کے اجر کے حوالے سے ارشاد فرمایا

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏    إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَبَابا يُدْعَى الرَّيَّانَ، ‏‏‏‏‏‏يُدْعَى لَهُ الصَّائِمُونَ فَمَنْ كَانَ مِنَ الصَّائِمِينَ دَخَلَهُ وَمَنْ دَخَلَهُ لَمْ يَظْمَأْ أَبَدًا   . (جامع ترمذی:765)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے۔ روزہ رکھنے والوں ۱؎ کو اس کی طرف بلایا جائے گا، تو جو روزہ رکھنے والوں میں سے ہو گا اس میں داخل ہو جائے گا اور جو اس میں داخل ہو گیا، وہ کبھی پیاسا نہیں ہو گا“۔

عَنْ أَبِي حَازِمٍ قَالَ حَدَّثَنِي سَهْلٌ أَنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا يُقَالُ لَهُ الرَّيَّانُ يُقَالُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَيْنَ الصَّائِمُونَ هَلْ لَكُمْ إِلَى الرَّيَّانِ مَنْ دَخَلَهُ لَمْ يَظْمَأْ أَبَدًا فَإِذَا دَخَلُوا أُغْلِقَ عَلَيْهِمْ فَلَمْ يَدْخُلْ فِيهِ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ (سنن نسائی :2239)

حضرت سہل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے ۔ قیامت کے دن اعلان کیا جائے گا : کہاں ہیں روزے دار ؟  کیا تمہیں ریان ( سیرابی ) دروازے کی خواہش ہے ؟  جو اس سے جنت میں داخل ہو گا ، کبھی پیاس محسوس نہ کرے گا ۔ جب روزے دار داخل ہو جائیں گے ، وہ دروازہ بند کر دیا جائے گا ۔ ان کے علاوہ کوئی اور اس سے داخل نہ ہو گا ۔

عَنْ سَهْلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ :    إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا ، يُقَالُ لَهُ : الرَّيَّانُ ، يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ ، يُقَالُ : أَيْنَ الصَّائِمُونَ ؟ فَيَقُومُونَ ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ ، فَإِذَا دَخَلُوا أُغْلِقَ ، فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ    .(صحیح بخاری: 1896)

 حضرت سہل رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ، جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں قیامت کے دن اس دروازہ سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے ، ان کے سوا اور کوئی اس میں سے نہیں داخل ہو گا ، پکارا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہے ؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے ان کے سوا اس سے اور کوئی نہیں اندر جانے پائے گا اور جب یہ لوگ اندر چلے جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا ، پھر اس سے کوئی اندر نہ جا سکے گا

أَبَا هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْوِيهِ ، عَنْ رَبِّكُمْ ، قَالَ :    لِكُلِّ عَمَلٍ كَفَّارَةٌ ، وَالصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهٖ ، وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ(صحیح بخاری :7538)

    . ان سے نبی کریم ﷺ نے ، اللہ تعالیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ پروردگار نے فرمایا ہر گناہ کا ایک کفارہ ہے ( جس سے وہ گناہ معاف ہو جاتا ہے ) اور روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بڑھ کر ہے ۔

هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، يَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : قَالَ اللَّهُ :    كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ ، إِلَّا الصِّيَامَ فَإِنَّهُ لِي ، وَأَنَا أَجْزِي بِهِ ، وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ ، وَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلَا يَرْفُثْ وَلَا يَصْخَبْ ، فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ ، فَلْيَقُلْ : إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ ، لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ ، لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا : إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ   (صحیح بخاری: 1904)

رسول کریم ﷺ نے فرمایا ، اللہ پاک فرماتا ہے کہ انسان کا ہر نیک عمل خود اسی کے لیے ہے مگر روزہ کہ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ گناہوں کی ایک ڈھال ہے ، اگر کوئی روزے سے ہو تو اسے فحش گوئی نہ کرنی چاہیے اور نہ شور مچائے ، اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا لڑنا چاہے تو اس کا جواب صرف یہ ہو کہ میں ایک روزہ دار آدمی ہوں ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( ﷺ ) کی جان ہے ! روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے ، روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوں گی ( ایک تو جب ) وہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور ( دوسرے ) جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے کا ثواب پا کر خوش ہو گا ۔


Share:

3/18/23

باب الریان | لفظ ریان کا معنی | ریان کیا ہے | روزے کی جزا

 

باب الریان : لفظ ریان کا مطلب و معنی:

 جنت میں تو بہت سارے دروازے ہیں مگر ایک خاص دروازہ ہے اور اس دروازے کا نام باب الریّان ہے۔ عربی زبان میں ریّان کا ایک معنی خوبصورت پھوار والی بارش ہے۔ جس سے موسم خوشگوار ہوجاتا ہے، نہ گرمی کی تپش رہے اور نہ بارش کا کیچڑ رہے۔ ریّان کا دوسرا معنی سیرابی ہے، یہ سیرابی، پیاس کے برعکس ہے، پیاس کو العطش کہتے ہیں اور شدید پیاسے کو عطشان کہتے ہیں لیکن اگر کوئی خوبصورت، ٹھنڈا، میٹھا مشروب پی کے سیراب ہوجائے، سیر ہوجائے تو عطشان کے مقابلے میں اسے ریّان کہتے ہیں۔ گویا عطش اور عطشان میں جتنی پیاس ہے، ریّان میں اتنی ہی سیرابی ہے۔ یہ دروازہ صرف ماہ رمضان کے روزہ داروں کے لئےمختص ہوگا، روزہ دار اس دروازے سے گزارے جائیں گے۔ اس کی حکمت کیا ہے؟ درحقیقت روزہ اللہ کے لئے بھوک اور پیاس اپنانے کا نام ہے، روزہ دار اللہ کے لئے پیاس اپنا کر عطشان بن کے جائیں گے، اللہ فرمائے گا میری خاطر عطشان ہونے والے بندوں کو ریّان سے گزارو تاکہ جنت میں پہنچنے سے پہلے ہی سیراب ہوجائیں۔ پس آج کی پیاس وہاں کی سیرابی سے بدل جائے گی۔ اب فیصلہ ہم پر ہے کہ ہم آج کی پیاس کو برداشت کرکے وہاں کی سیرابی کے لئے اپنے آپ کو کس قدر کمربستہ کرتے ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اعلان کردیا جائے گا کہ سوائے روزہ داروں کے اس دروازوں سے کسی اور کو گزرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ اللہ فرمائے گا کہ یہ دروازے صرف انہی کے لئے مختص ہے جو میری خاطر بھوکے اور پیاسے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امر ہوگا اور آواز دی جائے گی کہ روزہ دار کہاں ہیں؟ پس اس آواز کو سن کر روزے دار میدانِ قیامت میں کھڑے ہوجائیں گے، عرض کریں گے مولیٰ ہم حاضر ہیں، اس وقت حکم ہوگا کہ تمام روزے دار جنت میں باب الریّان سے داخل ہوجائیں اور ساتھ ہی فرمایا جائے گا کہ ان روزے داروں کے سوا اس دروازے سے اور کوئی داخل نہ ہو اور جب روزہ دار اس دروازے سے داخل ہوجائیں گے تو دروازہ بند کردیا جائے گا اور پھر اس دروازے سے کوئی اور داخل نہ ہوسکے گا۔ یہ خاص نعمت و سعادت اللہ تعالیٰ نے روزہ داروں کے حصہ میں رکھی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جنت کے کئی دروازے ہیں جو نمازی ہوں گے ان کے لئے باب الصلاۃ ہوگا جو مجاہد ہوں گے ان کو باب الجہاد سے گزارا جائے گا جو صدقہ و خیرات کرنے والے ہوں گے وہ باب الصدقہ سے گزارے جائیں گے اور جو روزہ دارہوں گے انہیں باب الریّان سے گزارا جائے گا، ، ۔

 اللہ تعالیٰ نے ہر عمل کے نام پر ایک دروازہ رکھا ہے اور اس عمل کے کرنے والے اسی عمل کے نام والے دروازے سے گزریں گے۔ نمازی ہے تو دروازہ نماز ہے۔ ۔ ۔ مجاہد ہے تو دروازہ جہاد ہے۔ ۔ ۔ صدقہ خیرات کرنے والا ہے تو دروازہ صدقہ ہے۔ اس اصول پر چاہئے تھا کہ روزہ رکھنے والوں کے لئے باب الصیام ہوتا، جس طرح ہر عمل کا دروازہ، فقط اس عمل کے نام پر ہے مگر روزہ رکھنے والوں کے لئے دروازہ باب الصیام کے نام سے نہیں، کیوں؟ اس لئے کہ یہ لوگ اللہ کے لئے بھوک پیاس برداشت کرتے ہیں، لہذا اللہ نے اس دروازے کے نام کو مختلف کردیا اور اپنی بارگاہ کی سیرابی کے نام پر باب الریّان بنادیا اور ارشاد فرمایا : کہ جو روزہ دار ہوں گے انہیں باب الریّان سے گزارا جائے گا۔ اگر اس دروازے کا نام باب الصیام ہوتا یعنی روزوں کے نام سے ہی دروازہ ہوتا تو اس دروازے کی قدرو منزلت بھی دوسرے اعمال والے دروازوں کے برابر ہوجاتی۔ یہاں نام عمل کے نام پر نہیں بلکہ عمل کے اجر کے نام پر رکھا ہے اور اجر کیا ہے؟ دیگر اعمال کے اجر نیکیاں ہیں، کسی نے کوئی نیک عمل کیا تو دس، سو یا سات سو نیکیاں مل گئیں یعنی اجر نیکیوں کی تعداد میں ملا۔مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه عَشْرُاَمْثَالِهَا. (سورۃ الانعام:160)’’جو ایک نیکی کرتا ہے اس کو دس گنا اجر ملتا ہے، ، ۔ ہر عمل کا اجر تعداد کے حساب سے مقرر ہے اور ہر عمل کا دروازہ اس عمل کے نام پر مقرر ہے مگر روزے کے لئے اجر نہ نیکیوں کی تعداد میں ہے نہ دروازہ، عمل کے نام پر ہے بلکہ روزے کے اجر کے بارے میں فرمایا کہ اَلصَّوْمَ لِيْ وَاَنَا اَجْزِيْ به ’’روزہ خاص میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا، ، ۔ وہ جزا کیا ہے؟

 روزے کی جزا کو اللہ تعالیٰ نے دیگر اعمال کی طرح واضح نہیں فرمایا بلکہ چھپا کر رکھا ہے۔ اس اجر کی تھوڑی سی جھلک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد مبارک سے سامنے آرہی ہے۔ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا : إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ ’’روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی افطار کے وقت اور ایک خوشی دیدار کے وقت، ، ۔ ریّان کا معنی اس حدیث کے ساتھ ملاکر سمجھنے سے مزید واضح ہوجائے گا کہ روزے کے عمل کے مطابق اس کا دروازہ اس کے نام پر نہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ بقیہ اعمال کے اجر نیکیوں کی تعداد کے لحاظ سے بتادیئے گئے اسلئے درازے کا نام بھی عمل کے نام پر رکھ دیا گیا مگر چونکہ اللہ نے روزے کے اجر کا اعلان نہیں کیا اس لئے اس اجر کے نام پر دروازے کا نام رکھ دیا گیا کہ روزے داروں کا دروازہ سیرابی کا دروازہ ہے اور سیرابی کس چیز کی؟ فرمایا کہ روزے دار کے لئے میرے دیدار کے سوا کسی اور شے میں سیرابی ہے ہی نہیں۔ فرمایا : اے روزے دار تو نے میری خاطر بھوک برداشت کی، آج اپنے دیدار کے ذریعے تیری بھوک کو رفع کرتا ہوں۔ ۔ ۔ تو نے میری خاطر پیاس برداشت کی آج اپنے دیدار کے شربت سے تیری پیاس کو دور کرتا ہوں۔ ۔ ۔ تو نے میری خاطر اپنے نفس کی لذتوں کو خیر باد کہا آج میں اپنے دیدار کے ذریعے تجھے اپنی قربتوں کی لذت عطا کرتا ہوں۔ ۔ ۔ تو نے میری خاطر اپنے اوپربہت سی راحتیں حرام کرلیں آج میں اپنے وصال کی راحت سے تمہیں ہمکنار کرتا ہوں۔ پس یہ سیرابی اللہ کی قربت سے، اللہ کے وصال اور دیدار سے ہے۔ 

جمالِ یار کی حسرت میں جو مریض ہوا

جمالِ یار ہی ان کا طبیب ہوتا ہے

 اسی مفہوم کو کسی شاعر نے فارسی میں یوں بیان کیا۔

از سرِ بالین من برخیز اے نادان طبیب

درد مندے عشق را دارو بجز دیدار نیست

(مریض کہتا ہے) اے معالج آپ میرے سرہانے سے اٹھ جائیں (آپ کی دوائی میں میری مرض کا علاج نہیں ہے میں تو در مندِ عشق ہوں اور مریضِ عشق کا علاج محبوب کے دیدارکے سوا کچھ نہیں ہوتا، ، ۔

 اللہ تعالیٰ نے روزہ داروں کو اپنے عاشقوں میں شامل فرمایا اس لئے روزہ داروں کا اجر اپنی ذات کا دیدار مقرر فرمایا۔


Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive