Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

6/29/22

شہر خالی، جادّہ خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی | امیر صبوری کلام shehr khali jadda khali


 

شہر خالی، جادّہ خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی

جام خالی، سفرہ خالی، ساغر و پیمانہ خالی

کوچ کردہ ، دستہ دستہ ، آشنایان، عندلیبان

باغ خالی، باغچہ خالی، شاخہ خالی، لانہ خالی

(کیا عالم ہے کہ شہر، رستے، کوچے اور گھر سب خالی لگتے ہیں، جام میز صراحی و ساغر بھی خالی ہیں۔ آہستہ آہستہ تمام دوست اور بلبلیں یہاں سے کوچ کر چکی ہیں یہی وجہ ہے کہ باغیچے شاخیں اور گھونسلے سب کے سب خالی ہیں)

وائے از دنیا کہ یار از یار می ترسد

غنچہ ہای تشنہ از گلزار می ترسد

عاشق از آوازہ دیدار می ترسد

پنجہ خنیاگران از تار می ترسد

شہ سوار از جادہ ہموار می ترسد

این طبیب از دیدن بیمار می ترسد

(حیف ہے اس دنیا پر کہ جہاں دوست دوست سے ڈرتا ہے، کلیاں کھلنے سے پہلے ہی باغ سے ڈرتی ہیں، عاشق اپنے محبوب کی آواز سے ڈرتا ہے، موسیقار ساز کو ہاتھ لگانے سے ڈرتے ہیں اور مسافر آسان راستے سے بھی خوف کھاتے ہیں اور طبیب بیمار کو دیکھنے (معائنہ کرنا)سے ڈرتا ہے۔)

سازہا بشکست و دردِ شاعران از حد گذشت

سال ہائے انتظاری بر من و تو برگذشت

آشنا ناآشنا شد تا بلی گفتم بلا شد

(سْروں کو بکھیرنے والے تار ٹوٹ چکے اور شاعروں کا درد حد سے گزر گیاہے۔ میں نے تیرے انتظار میں اتنے سال گزارے ہیں ستم ظریفی کی حد تو یہ کہ سب آشنا اب ناآشنا ہو گئے ہیں۔)

گریہ کردم، نالہ کردم، حلقہ بر ہر در زدم

سنگ سنگِ کلبہ ویرانہ را بر سر زدم

آب از آبی نجنبید خفتہ در خوابی نجنبید

(میں بہت رویا، گریہ و فریاد کی،ہر ایک دروازے پر دستک دی۔ اس ویرانے کے پتھروں کی ریت اپنے سر پر ڈالی۔ لیکن جیسے پانی کو نہیں معلوم کہ وہ کسقدر گہرا ہے ویسے ہی سوئے ہوئے شخص کو کیا پتہ کہ وہ کتنی گہری نیند سو رہا ہے)

چشمہ ہا خشکیدہ و دریا خستگی را دم گرفت

آسمان افسانہ ما را بہ دستِ کم گرفت

جام ہا جوشی ندارد، عشق آغوشی ندارد

بر من و بر نالہ ہایم، ہیچ کس گوشی ندارد

(سب چشمے خشک ہوگئے، دریا سست ہوگئے، آسمان نے بھی میری داستان کو کوئی وقعت نہ دی سب نشہ بے اثر ہوگیا ہے اور عشق کی آگ جو سینوں میں تھی بجھ چکی ہے)

بازآ تا کاروانِ رفتہ باز آید

بازآ تا دلبرانِ ناز ناز آید

بازآ تا مطرب و آہنگ و ساز آید

تا گل افشانم نگارِ دل نواز آید

بازآ تا بر در حافظ اندازیم

گل بیفشانیم و می در ساغر اندازیم

(تم لوٹ آؤ تاکہ قافلہ پھر روانہ ہو جائے، لوٹ آئوکہ محبوبوں کے نازوانداز لوٹ آئیں۔ لوٹ آؤ گے مضطرب ساز کی دنیا آباد ہو۔ لوٹ آؤ اور حافظ کے انداز میں مہرجاناں کے استقبال میں پھول برسائیں اور رونقیں پھیلا دیں

شاعر : امیر جان صبوری

Share:

6/26/22

اپنی ہستی کا اگر حسن نمایاں ہو جائے | کلیات بیدم شاہ وارثی | تو جو اسرار حقیقت کہیں ظاہر کر دے | baidam shah warsi


 

اپنی ہستی کا اگر حسن نمایاں ہو جائے

آدمی کثرت انوار سے حیراں ہو جائے

 

 تم جو چاہو تو مرے درد کا درماں ہو جائے

 ورنہ مشکل ہے کہ مشکل مری آساں ہو جائے

 

 او نمک پاش تجھے اپنی ملاحت کی قسم

 بات تو جب ہے کہ ہر زخم نمک داں ہو جائے

 

 دینے والے تجھے دینا ہے تو اتنا دے دے

کہ مجھے شکوۂ کوتاہیٔ داماں ہو جائے

 

اس سیہ بخت کی راتیں بھی کوئی راتیں ہیں

 خواب راحت بھی جسے خواب پریشاں ہو جائے

 

 سینۂ شبلی و منصور تو پھونکا تو نے

 اس طرف بھی کرم اے جنبش داماں ہو جائے

 

 آخری سانس بنے زمزمۂ ہو اپنا

ساز مضراب فنا تار رگ جاں ہو جائے

 

 تو جو اسرار حقیقت کہیں ظاہر کر دے

 ابھی بیدمؔ رسن و دار کا ساماں ہو جائے

Share:

6/25/22

arsh e haq he masnad e | عرش حق ہے مسندِ رفعت رسول اللہ ﷺ کی

Share:

6/23/22

بت بھی اس میں رہتے تھے دل یار کا بھی کاشانہ تھا | بیدمؔ اس انداز سے کل یوں ہم نے کہی اپنی بیتی | bedam shah warsi غزلیات بیدم شاہ


 

بت بھی اس میں رہتے تھے دل یار کا بھی کاشانہ تھا

 ایک طرف کعبے کے جلوے ایک طرف بت خانہ تھا

 

دلبر ہیں اب دل کے مالک یہ بھی ایک زمانہ ہے

 دل والے کہلاتے تھے ہم وہ بھی ایک زمانہ تھا

 

 پھول نہ تھے آرائش تھی اس مست ادا کی آمد پر

ہاتھ میں ڈالی ڈالی کے ایک ہلکا سا پیمانہ تھا

 

ہوش نہ تھا بے ہوشی تھی بے ہوشی میں پھر ہوش کہاں

 یاد رہی خاموشی تھی جو بھول گئے افسانہ تھا

 

 دل میں وصل کے ارماں بھی تھے اور ملال فرقت بھی

آبادی کی آبادی ویرانے کا ویرانہ تھا

 

 شمع کے جلوے بھی یارب کیا خواب تھا جلنے والوں کا

صبح جو دیکھا محفل میں پروانہ ہی پروانہ تھا

 

 دیکھ کے وہ تصویر مری کچھ کھوئے ہوئے سے کہتے ہیں

 ہاں ہاں یاد تو آتا ہے اس شکل کا اک دیوانہ تھا

 

غیر کا شکوہ کیوں کر رہتا دل میں جب امیدیں تھیں

 اپنا پھر بھی اپنا تھا بیگانہ پھر بیگانہ تھا

 

 بیدمؔ اس انداز سے کل یوں ہم نے کہی اپنی بیتی

ہر ایک نے سمجھا محفل میں یہ میرا ہی افسانہ تھا

Share:

6/22/22

جھپٹنا ، پلٹنا ، پلٹ کر جھپٹنا | پرندوں کی دنيا کا درويش ہوں ميں | اقبالیات | prindon ki dunya ka darvesh


 

کيا ميں نے اس خاک داں سے کنارا

جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ

 

خيابانيوں سے ہے پرہيز لازم

 ادائيں ہيں ان کی بہت دلبرانہ

 

حمام و کبوتر کا بھوکا نہيں ميں

 کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ

 

جھپٹنا ، پلٹنا ، پلٹ کر جھپٹنا

 لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

 

يہ پورب ، يہ پچھم چکوروں کي دنيا

مرا نيلگوں آسماں بيکرانہ

 

پرندوں کی دنيا کا درويش ہوں ميں

کہ شاہيں بناتا نہيں آشيانہ

Share:

6/17/22

دعائے قنوت اردو ترجمہ کے ساتھ | وتر پڑھنے کا طریقہ

 

وتر پڑھنے کا طریقہ:

عشاء کے وقت میں تین وتر پڑھے جائیں گے جن کا طریقہ یہ ہے کہ : تین رکعت پڑھی جائیں گی پہلی ودو رکعت ویسے ہی پڑھیں گے جیسے عام دو رکعت پڑھتے ہیں  ۔ دو رکعت کے بعد تشہد میں عبدہ ورسولہ پڑھنے کے بعد کھڑے ہو جائیں گے اور سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورت ملائیں گے اور پھر  اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اٹھائیں گے یعنی رفع یدین کریں گے اور پھر یہ دعائے قنوت پڑھیں گے۔ پڑھنے کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے رکوع میں جائیں گے اور تشہد پڑھ کے نماز مکمل کر دیں گے۔

دعائے قنوت :

اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِيْنُکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ، وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَلُّ عَلَيْکَ، وَنُثْنِيْ عَلَيْکَ الْخَيْرَ، وَنَشْکُرُکَ وَلَا نَکْفُرُکَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ يَفْجُرُکَ، اَللّٰهُمَّ اِيَاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّيْ وَنَسْجُدُ وَاِلَيْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ، وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ، وَنَخْشٰی عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفَّارِ مُلْحِقٌّ.

ترجمہ: اے اﷲ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں اور تجھ سے بخشش چاہتے ہیں، تجھ پر ایمان لاتے ہیں اور تجھ پر بھروسہ کرتے ہیں، ہم تیری اچھی تعریف کرتے ہیں، تیرا شکر ادا کرتے ہیں اور تیری ناشکری نہیں کرتے، اور جو تیری نافرمانی کرے اُس سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کرتے ہیں۔ اے اﷲ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تیرے لیے ہی نماز پڑھتے، تجھے ہی سجدہ کرتے ہیں۔ تیری ہی طرف دوڑتے اور حاضری دیتے ہیں، ہم تیری رحمت کے امید وار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بے شک تیرا عذاب کافروں کو ہی پہنچنے والا ہے۔


Share:

6/16/22

دل کی بیماریاں اور علاج | نفسانی اصلاح | اصلاح نفس How is self-improvement possible

دل کی بیماریاں:  یعنی بغض، حسد، کینہ، نفرت، غصہ، انتقام، غیر اللہ پر بھروسہ، حاصل شدہ نعمتوں کی نا قدری، غیرحاصل نعمتوں پر دل کی تنگی، لالچ، بہتر سے بہتر کی خواہش، اونچے سے اونچا اٹھنے کی آرزو، تکبر، غرور، بداخلاقی، ذرا دیکھیے تو کتنا کوڑا کرکٹ جمع ہوگیا ہے اس دل میں، ہماری ہی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے۔

اور وہ معزز مہمان ہیں کون؟       جن کو اس دل میں جگہ دینی ہے ۔ وہ ہیں اللہ پر ایمان، اس پر بھروسہ، اس کی محبت، اس کو ہر حال میں راضی رکھنے کا خیال، اس زندگی کی ذمہ داری کا احساس۔ تو چلیے اب شروع ہوجائیے، کاٹھ کباڑ کو باہر نکالنے کے لیے۔ مگر ایک بات یاد رکھیے کہ کمرے سے کباڑ باہر کرنا تو آسان تھا لیکن دل سے نکالنا آسان نہیں ہوگا۔کیونکہ یہاں ایک آواز بار بار حوصلہ توڑے گی کہ ارے اسے نہ ہٹائو، یہ بہت بھاری سامان ہے، یا ارے یہ سامان تمہارا کیا بگاڑ رہا ہے؟ اسے پڑا رہنے دو، کبھی اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے، یا ارے یہ تو یادگار ہے اسے نہ ہٹائو۔ اس آواز پر کان نہ دھر کر اپنے کام میں لگا رہنا گویا دگنی محنت ہے۔ مگر آپ کو رکنا تھکنا نہیں ہے ورنہ مہمانو ں کو کہاں ٹھہرائیں گے لہٰذا ٰان کے لائق جگہ بنانے کے لیے تو ان تھک کوششیں کرنی ہی ہوں گی۔ چاہے محنت لگے چاہے وقت صرف ہو، یہ کام تو ہر حال میں پورا کرنا ہی ہے۔ اب سب سے پہلے تو غیر اللہ پر بھروسے کو نکال باہر کریں۔ اور یاد رکھیے اس کو ہٹاتے وقت وہ بہکانے والی آواز اور زیادہ تیز ہوجائے گی۔ بس سب سے پہلے اسی کو باہر کیجیے۔ یہی ہے وہ سب سے گندی چیز جس کی موجودگی میں آپ کے معزز مہمان دل میں داخل بھی نہ ہوں گے، یہی ہے لہٰذا اسے باہر نکال کر بہت دور پھینک آئیے۔ پھر باری ہے ان بھاری اور بھدی چیزوں کی جن کی موجودگی میں سجاوٹ ناممکن ہے یعنی ناشکری، لالچ، حرص، طمع، زیادہ سے زیادہ کی آرزو۔ یہ ہیں تو بھاری سامان تو ظاہر ہے کہ محنت بھی زیادہ لگے گی لیکن انہوں نے بہت جگہ گھیر لی ہے اور ان کی موجودگی بھی کراہیت دلاتی ہے کیونکہ ان کی رنگت پھیکی ہے، ان کا ڈیل ڈول بھدا ہے، ان کی شکل بد شکل ہے۔ انہیں تو محنت سے اٹھائیے اور بلندی سے نیچے پھینکیے کہ چور چور ہوجائیں۔ اب رہ گئیں وہ برے وقتوں کی یادیں، جھگڑوں کی یادگاریں، لڑائیوں کے قصے، حق تلفیوں کے صدیوں پرانے غم، تو یہ تو انتہائی خطرناک چیزیں ہیں کیونکہ ان میں جو دیمک لگی ہے، وہ دوسری تمام خوبصورت چیزوں کو بھی کھوکھلا کر دے گی۔ ان کو نکال کر پھینکیے ہی نہیں بلکہ جلا دیجیے کہ ان کی دیمک کے کیڑے تو اچھے وقتوں کی یادگاروں، محبت بھری یادوں کے لیے انتہائی مضر ہیں، یہ ان کو کبھی پنپنے نہیں دیں گے۔ کوڑا ابھی بھی باقی ہے یعنی یہ تکبر، غرور، بداخلاقی، جھگڑالوپن جو یہاں وہاں پھیلا ہے اور صفائی کو مکمل بھی نہیں ہونے دیتا بلکہ پیروں کو زخمی بھی کرتا ہے، انہیں اٹھا کر پھینکیے۔ کوڑا تو ہٹ گیا اب مزید صفائی شروع کیجیے۔ سب سے پہلے دل کی زمین کو توبہ اور استغفار کے آنسوئوں سے دھو ڈالیے۔ دل کے شیشوں کو شکر گزاری اور نعمتوں کے اقرار سے صاف کیجیے۔ چمک اٹھیں گے اور کائینات کی اصل حقیقت سامنے آجائے گی۔ عاجزی اور انکساری کا بستر بچھائیے۔ بردباری کے پردے ڈالیے، تسبیحات کے پھول کھلائیے، اب اس ذکر الٰہی سے معطر اس روشن اور چمکدار دل میں اپنے معزز مہمانوں کا استقبال کیجیے یعنی اپنے رب کی پہچان کا اقرار۔ لاالہ الاللہ، اللہ کی محبت، اللہ پر توکل، اللہ کے ہر فیصلہ پر رضامندی۔ اس کو ہر حال میں راضی رکھنے کی کوشش کا عزم۔ دیکھیے مہمان دل میں اتر تو آئے ہیں لیکن خیال رہے کہ ذرا بھی شکایت کا موقع نہ ہو، طبیعت اور فطرت کے خلاف کوئی بات نہ ہو۔دل تو مہک گیا چمک گیا، پہلی گھاٹی تو پار ہو گئی۔

Share:

دن حشر نوں سجدے کر کر کے میرے پیر نے رب نوں منا لینا | din hashr nu sajdy kr kr k


 

دن  حشر نوں سجدے کر کر کے میرے پیر نے رب نوں منا لینا

ساڈے ورگے گناہ گاراں نوں مولا گھٹ کے سینے لا لینا

 

جدوں کل نبیاں نے نا کرنی کلے رب دے سجن نے ہاں کرنی

اوتھے سب نبیاں میرے آقا نوں اپنا سردار بنا لینا

 

چک چک کے اڈیاں لوکی ویکھن گے ایڈی شاناں والا کون آیا

جدوں سوہنے حمد دے جھنڈے نوں بسم اللہ پڑھ کے اٹھا لینا

 

بے شک ہے جنت بہوں سوہنی پر اس دن اس تے عروج ہوسی

جس دن میرے آقا نے سنے یاراں ڈیرا لا لینا

 

اوتھے کوثر دا اک حوض ہوسی جتھے سوہنا جلوہ فروز ہوسی

جنہیں جامِ کوثر پی لینا اوہنوں رب نے اپنا بنا لینا

 

 

Share:

6/11/22

دیسی مہینے | بکرمی سال | ہندی مہینے | بکرمی مہینے | دیسی مہینے کا تعارف Bikrami year an introduction

دیسی مہینوں کا تعارف اور وجہ تسمیہ

1- چیت/چیتر (بہار کا موسم)

2- بیساکھ/ویساکھ/وسیوک (گرم سرد، ملا جلا)

3- جیٹھ (گرم اور لُو چلنے کا مہینہ)

4- ہاڑ/اساڑھ/آؤڑ (گرم مرطوب، مون سون کا آغاز)

5- ساون/ساؤن/وأسا (حبس زدہ، گرم، مکمل مون سون)

6۔ بھادوں/بھادروں/بھادری (معتدل، ہلکی مون سون بارشیں)

7- اسُو/اسوج/آسی (معتدل)

8- کاتک/کَتا/کاتئے (ہلکی سردی)

9۔ مگھر/منگر (سرد)

10۔ پوہ (سخت سردی)

11- ماگھ/مانہہ/کُؤنزلہ (سخت سردی، دھند)

12- پھاگن/پھگن/اربشہ (کم سردی، سرد خشک ہوائیں، بہار کی آمد)

تعارف:

برِصغیر پاک و ہند کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس خطے کا دیسی کیلنڈر دنیا کے چند قدیم ترین کیلنڈرز میں سے ایک ہے۔ اس قدیمی کیلنڈر کا اغاز 100 سال قبل مسیح میں ہوا۔ اس کیلنڈر کا اصل نام بکرمی کیلنڈر ہے، جبکہ پنجابی کیلنڈر، دیسی کیلنڈر، اور جنتری کے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے۔

بکرمی کیلنڈر کا آغاز 100 قبل مسیح میں اُس وقت کے ہندوستان کے ایک بادشاہ "راجہ بِکرَم اجیت” کے دور میں ہوا۔ راجہ بکرم کے نام سے یہ بکرمی سال مشہور ہوا۔ اس شمسی تقویم میں سال "چیت” کے مہینے سے شروع ہوتا ہے۔

تین سو پینسٹھ (365 ) دنوں کے اس کیلینڈر کے 9 مہینے تیس (30) تیس دنوں کے ہوتے ہیں، اور ایک مہینا وساکھ اکتیس (31) دن کا ہوتا ہے، اور دو مہینے جیٹھ اور ہاڑ بتیس (32) بتیس دن کے ہوتے ہیں۔

 

1: 14 جنوری۔۔۔ یکم ماگھ

2: 13 فروری۔۔۔ یکم پھاگن

3: 14 مارچ۔۔۔ یکم چیت

4: 14 اپریل۔۔۔ یکم بیساکھ

5: 14 مئی۔۔۔ یکم جیٹھ

6: 15 جون۔۔۔ یکم ہاڑ

7: 17 جولائی۔۔۔ یکم ساون

8: 16 اگست۔۔۔ یکم بھادروں

9 : 16 ستمبر۔۔۔ یکم اسوج

10: 17 اکتوبر۔۔۔ یکم کاتک

11: 16 نومبر۔۔۔ یکم مگھر

12: 16 دسمبر۔۔۔ یکم پوہ

دن کے پہر اور ان کے نام:

بکرمی کیلنڈر (پنجابی دیسی کیلنڈر) میں ایک دن کے آٹھ پہر ہوتے ہیں، ایک پہر جدید گھڑی کے مطابق تین گھنٹوں کا ہوتا ہے.

ان پہروں کے نام یہ ہیں۔۔۔

1۔ دھمی/نور پیر دا ویلا:

صبح 6 بجے سے 9 بجے تک کا وقت

2۔ دوپہر/چھاہ ویلا:

صبح کے 9 بچے سے دوپہر 12 بجے تک کا وقت

3۔ پیشی ویلا:

 دوپہر 12 سے سہ پہر 3 بجے تک کا وقت

4۔ دیگر/ڈیگر ویلا:

سہ پہر 3 بجے سے شام 6 بجے تک کا وقت

5۔ نماشاں/شاماں ویلا:

شام 6 بجے سے لے کر رات 9 بجے تک کا وقت

6۔ کفتاں ویلا:

رات 9۔بجے سے رات 12 بجے تک کا وقت

7۔ ادھ رات ویلا:

رات 12 بجے سے سحر کے 3 بجے تک کا وقت

8۔ سرگی/اسور ویلا:

صبح کے 3 بجے سے صبح 6 بجے تک کا وقت

لفظ ویلا :

لفظ "ویلا” وقت کے معنوں میں برصغیر کی کئی زبانوں میں بولا جاتا ہے. راجپوت۔ گجر ۔ آرائیں۔ اور جاٹ لوگوں کی خاص کر یہی زبان بولی جاتی تھی۔

 

Share:

آقا تیرے آنے سے رنگ بدلا زمانے کا | محشر تو بہانہ ہے تیری شان دکھانے کا


 

آقا تیرے آنے سے رنگ بدلا زمانے کا

ہیبت سے گرا تیری ہر بت بتخانے کا

 

تپتی ہوئی ریتوں پر پڑھے کلمہ بلال تیرا

انداز نرالا ہے تیرے ہر پروانے کا

 

جس کو بھی ملا صدقہ حسنین کے نانا کا

منگتا وہ بنا سائل سلطان زمانے کا

 

تو چوم لے تلووں کو کافوری ہونٹوں سے

خود رب نے سکھایا ہے انداز جگانے کا

 

محبوب نہ غم کرنا سرِ حشر تو امت کا

محشر تو بہانہ ہے تیری شان دکھانے کا

Share:

6/9/22

کوئی سلسلہ نہیں جاوداں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی


 

کوئی سلسلہ نہیں جاوداں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی

میں تو ہر طرح سے ہوں رائیگاں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی

              

مرے ہم نفس تو چراغ تھا تجھے کیا خبر مرے حال کی

کہ جیا میں کیسے دھواں دھواں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی

 

نہ ترا وصال وصال تھا نہ تری جدائی جدائی ہے

وہی حالت دل بد گماں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی

 

میں یہ چاہتا ہوں کہ عمر بھر رہے تشنگی مرے عشق میں

کوئی جستجو رہے درمیاں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی

 

مرے نقش پا تجھے دیکھ کر یہ جو چل رہے ہیں انہیں بتا

ہے مرا سراغ مرا نشاں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی

اظہر فراغؔ

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive