Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

9/28/23

بارہ وفات | صحیح بخاری | کیا بارہ ربیع الاول وفات ہے یا نہیں

کیا واقعی بارہ ربیع الاول یومِ وصال ثابت ہے  ؟؟

صحیح بخاری کی 2 مستند حدیث سے اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے ، پوری امت مسلمہ  کے علماء اکرام اور تاریخ دان اس بات پر متفق ہے کہ رسول اللہ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے دسویں سال یعنی 10 ہجری میں اپنے آخری حج کے دوران 9 ذالحجہ کو عرفات کے میدان میں جمعہ کے دن اپنا آخری مشہور خطبہ ارشاد فرمایا، جسے خطبہ الودع کہا جاتا ہے ، اور اسی دوران ہی دین میں تکمیل والی آیت مبارکہ نازل ہوئی  ، پھر اسی آخری حجِ اکبر کے فوراً بعد اگلے سال یعنی 11 ہجری میں ربیع الاول میں کسی ایسی تاریخ کو جب سوموار(پیر) کا دن تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا ۔ عام فہم انسان بھی بنا بحث و تکرار یہ بات ضرور تسلیم کرے گا کہ  سوموار کا دن 11,12 ربیع الاول یومِ وصال قطعاً ثابت نہیں ہے۔

آئیے سب سے پہلے صحیح بخاری شریف کی دو حدیث کی روشنی میں ان تاریخی حقائق کو ملاحظہ فرمائیں۔

 نمبر1: 9 ذالحجہ یعنی عرفہ 10 ہجری کو جمعہ کا دن تھا ۔

 نمبر2 : 11ہجری  میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال سوموار (پیر)کے دن ہوا تھا ۔

نوٹ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا 10 ہجری میں آخری حج فرمانےاور 11 ہجری سوموار (پیر)کے دن وصال ہونے پر کوئی اختلاف نہیں ۔

نمبر 1 :: ایک یہودی ( کعب احبار اسلام لانے سے پہلے ) نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے امیرالمؤمنین! اگر ہمارے یہاں سورۃ المائدہ کی یہ آیت نازل ہوتی « اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ ‏» کہ ”آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین کے پسند کر لیا۔“ تو ہم اس دن کو عید ( خوشی ) کا دن بنا لیتے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ یہ آیت کس دن نازل ہوئی تھی، عرفہ کے دن نازل ہوئی اور جمعہ کا دن تھا ۔ (صحیح بخاری :7368)

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے 10 ہجری کو جو حج کیا تھا تو وہ 9 ذلحجہ بروز جمعہ تھا ۔

 نمبر2 : حضرت انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی.... آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والے، آپ کے خادم اور صحابی تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز پڑھاتے تھے۔ پیر کے دن جب لوگ نماز میں صف باندھے کھڑے ہوئے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ کا پردہ ہٹائے کھڑے ہوئے، ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک ( حسن و جمال اور صفائی میں ) گویا مصحف کا ورق تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا کر ہنسنے لگے۔ ہمیں اتنی خوشی ہوئی کہ خطرہ ہو گیا کہ کہیں ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے ہی میں نہ مشغول ہو جائیں اور نماز توڑ دیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ الٹے پاؤں پیچھے ہٹ کر صف کے ساتھ آ ملنا چاہتے تھے۔ انہوں نے سمجھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اشارہ کیا کہ نماز پوری کر لو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ڈال دیا۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اسی دن ہو گئی۔ ( «اناللہ و انا الیہ راجعون» ) متفق علیہ ، (صحیح بخاری :680) (صحیح مسلم :944)

اس حدیث کی روشنی میں سوموار(پیر) کا دن  ثابت ہو جاتا ہے۔

اب 9ذالحجہ 10 ہجری بروز جمعہ سے لیکر 11 ہجری بارہ ربیع الاول تک تقریباً کُل چار ماہ شامل ہوتے ہیں ، چاروں مہینوں کا نقوش :

 مزید یہ کے چاند کا یعنی قمری مہینہ یا تو 30 دن کا ہوتا ہے یا 29 دن کا ، یعنی کل چار(4) ممکنات بنتی ہیں ۔

نمبر1: اگر ذالحجہ 30 دن محرم 30 دن صفر 30 دن کا ہوتو 10 ہجری جمعہ 9 ذالحجہ سے لیکر 12 ربیع الاول اتوار کا دن بنتا ہے۔

 نمبر2: اسی طرح آپ ان ماہ کو 29/29/29  کا کرے تو جمعرات کو 12 ربیع الاول بنتا ہے ۔

نمبر3: یا پھر 30/29/30  کا کر لیں تو 12 ربیع الاول جمعہ کا دن بنتا ہے ۔

نمبر4: یا پھر 29/29/30 کا کر لیں تو 12 ربیع الاول ہفتہ کا دن بنتا ہے

 10 ہجری بروز جمعہ 9 ذالحجہ سے لیکر  12 ربیع الاول  کو سوموار کا دن قطعاً ثابت نہیں ہوتا تو پھر بارہ وفات کیسے ثابت ہو گئی؟

 مندرجہ بالا تحقیق سے یہ بات بلکل واضح ہو گئی کے 11 ہجری سوموار والے دن کو بارہ ربیع الاول کسی اعتبار سے بھی ثابت نہیں ہو سکتا۔

 

Share:

9/27/23

منکرین حدیث | حدیث پر اعتراض اور جوابات

منکرین حدیث کے بعض اعتراضات کا جائزہ:

       ٍاعتراض نمبر ایک: قرآن مجید میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے  جیسے تبیاٍناً لکل شیئ لہذا حدیث کی پھر ضرورت نہیں ہے۔

          جواب: ۱:قرآن مجید میں ہی یہ وضاحت موجود ہے کہ اس کا بیان اور تشریح کا واحد ذریعہ نبی کریم ﷺ کی ذات ہے۔ بِالْبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِؕ-وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ(سورۃ النحل:44) ۲:یہ بات درست ہے کہ وضاحت موجود ہے لیکن وہ اجمالاً ہے تفصیلاً نہیں ہے۔ اس کی وضاحت اور تفصیل نبی کریم ﷺ کی حدیث ہےاور عملی تعبیر اور وضاحت اسوہ حسنہ سے ملتی ہے۔ اگر ان کا یہ دعوی تسلیم کر لیا جائے تو نماز روزہ زکوۃ وغیرہ کی تفصیل قرآن مجید میں موجود نہیں ہے۔

اعتراض نمبر دو: رسول اللہ ﷺ کا منصب صرف ابلاغ تھا لہذا حدیث حجت نہیں۔ما علی الرسول الا البلاغ۔ رسول کا کام قرآں مجید کا بلاغ تھا ۔ (فتنہ انکار حدیث کا آغاز و ارتقاء)

جواب: ابلاغ قرآن مجید صرف کفار کے لیے ہے ، فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ وَ عَلَیْنَا الْحِسَابُ (سورہ الرعد آیہ 40) ۔ ان آیات کی روشنی میں دیکھا جائے تو ابلاغ کافروں کے لیے تھا ، یعنی ان کو صرف پہنچا دیں اگر نہیں مانتے تو ان کا حساب ہم خود لیں۔ جبکہ اہل، ایمان کے آپ کو منصب معلم کتاب و حکمت ہے۔ لَقَدْ  مَنَّ  اللّٰهُ  عَلَى  الْمُؤْمِنِیْنَ  اِذْ  بَعَثَ  فِیْهِمْ  رَسُوْلًا  مِّنْ  اَنْفُسِهِمْ  یَتْلُوْا  عَلَیْهِمْ  اٰیٰتِهٖ  وَ  یُزَكِّیْهِمْ  وَ  یُعَلِّمُهُمُ  الْكِتٰبَ  وَ  الْحِكْمَةَ(سورۃ آل عمران: 164)۔ اہل ایمان کے لیے آپ کا منصب بیان ہوا ہے اس میں صرف پہنچانے کاذکر نہیں بلکہ آیات کی تلاوت ، لوگوں کو تزکیہ اور کتاب و حکمت کی تعلیم دینا ہے۔ اس سے معلوم ہوا  نبی کریم ﷺ کا منصب شارح اور شارع ہے۔ اگر قرآن مجید کہتا ہے کہ آپ کا منصب ابلاغ ہے تو قرآن مجید ہی یہ بھی کہتا ہے کہ آپ تلاوت کریں، تزکیہ کریں اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیں۔ خود اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اطاعت رسول کو دین کا حصہ قرار دیا ۔ اگر صرف ابلاغ ہوتا تو اتنی سختی سے اطاعت کا حکم کیوں دیتا۔

اعتراض نمبر تین: رسول اللہ ﷺ نے خود حدیث لکھنے سے منع کر دیا تھا۔ جیسا کہ یہ حدیث ہے حدیث نمبر۔۔۔  لا تَكْتُبُوا عَنِّي، ومَن كَتَبَ عَنِّي غيرَ القُرْآنِ فَلْيَمْحُهُ(صحیح مسلم:7510) مجھ سے کچھ بھی نہ لکھو سوائے قرآن کے جس نے قرآن مجید کے علاوہ کچھ لکھا ہے تو اس کو مٹا دے۔لہذا موجودہ کتب حدیث عجمی سازش کا حصہ ہیں۔

جواب: ۱: ایک طرف حدیث کا انکار کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف خود  بطور دلیل حدیث ہی پیش کر رہے ہیں۔یہ کیسے پتہ چلا کہ لکھنے سے منع کیا تھا تو آپ بھی دلیل کے طور پر حدیث پیش کر رہے ہیں۔

۲: ایک اور حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ ممانعت ابتدائے اسلام میں تھی ، کہ کہیں حدیث قرآن مجید کے ساتھ خلط ملط نہ ہو جائے۔ لیکن جب یہ خطرہ ٹل گیا تو نبی کریم ﷺ نے لکھنے کی طرف ترغیب دی  ۔۔۔۔آپ ﷺ نے خود بھی معاملات لکھوائے(جیسے ابو شاہ کے لے آپ ﷺ نے قتل اور دیت کے معاملات لکھ کر دینے کا حکم دیا)بہت سے صحابہ کرام نے حدیث کے صحیفے بھی تیار کر لیے تھے۔ جیسے کہ صحابہ کرام کے صحیفے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا صحابہ کرام کو نہیں معلوم تھا کہ نبی کریم ﷺ نے منع کیا تھا ۔ یہ حدیث صحابہ کرام جانتے تھے لیکن انہیں معلوم تھا کہ آپ ﷺ نے بعد میں اجازت دے دی تھی۔

اعتراض نمبر چار: متعدد احادیث خلاف عقل ہیں اور بعض میں عریانیت پائی جاتی ہے لہذا قابلِ اعتماد نہیں ہیں۔

جواب:  احادیث دراصل خلاف عقل نہیں بلکہ ہماری عقل سمجھنے سے قاصر ہے۔ اور اگر عقل ہی بنیا دہو تو عقول میں بھی تفاوت ہوتا ہے ایک بندے کی عقل کے مطابق ایک بات درست ہوتی ہے جبکہ وہی بات دوسرے کی عقل کے مطابق درست نہیں ہوتی ۔

          اگرچہ عریاں گفتگو ممنوع ہے لیکن اگر اس کی ضرور ت ہو تو جائز ہی نہیں ضروری ہوجاتی ہے۔ اگر یہ بات حدیث کے کو ناقابل اعتبار بناتی ہے تو اس طرح ہمیں قرآن مجید میں بھی بعض مقامات پر ایسی باتیں ملتی ہیں جیسے ‘‘ماہواری کے معاملات’’ محرم عورتوں کے ضمن میں ‘‘وَ  رَبَآىٕبُكُمُ  الّٰتِیْ  فِیْ  حُجُوْرِكُمْ  مِّنْ  نِّسَآىٕكُمُ  الّٰتِیْ  دَخَلْتُمْ  بِهِنَّ٘-فَاِنْ  لَّمْ  تَكُوْنُوْا  دَخَلْتُمْ  بِهِنَّ  فَلَا  جُنَاحَ  عَلَیْكُمْ٘’’  تو اس طرح (نعوذ باللہ) قرآن مجید ک ابھی انکار کر دیں؟۔ اگر احادیث مبارکہ میں کہیں ایسے الفاظ اور معاملات موجود ہیں تو ضرورت کے مطابق تعلیم و تعلم کے وقت ہی اسیی باتیں ہوئی ہیں ورنہ خطابات میں اور عوام الناس میں ایسا نہیں ہے۔

اعتراض نمبر پانچ: علم حدیث ظنی ہے لہذاحق کے مقبلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ بطور دلیل  ان الظن لایغنی من الحق شیئا ۔ علم حدیث میں شک کی گنجائش ہے کیوں کہ اس میں غلطی کا امکان ہے اور یہ بندوں کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے۔

جواب: ۱: حدیث بھی قرآن کی طرح وحی پر مبنی ہے اس لیے قطعی علم کا فائدہ دیتی ہے  ظنی علم کا نہیں۔

          ۲: اگر بندوں کے ذریعے پہنچنے والی ہر چیزز غلط ہو یا اس میں غلطی کا امکان ہو تو قرآن مجید بھی بندوں کے ذریعے پہنچا ہے۔

          ۳: لفظ ظن اردو میں شک کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے عربی میں ایسا نہیں ہے۔ عربی میں قرائن کو دیکھا جاتا ہے یعض اوقات یقین کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ جب موت آ رہی ہوتی ہے جیسے   وَّ ظَنَّ اَنَّهُ الْفِرَاقُ (سورۃ القیامہ:28)تو موت کو دیکھنے والے کو گمان یا شک نہیں بلکہ یقین ہوتا ہے ، یہاں لفظ ظن یقین کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

اعتراض نمبر چھے: علم حدیث بالمعنی ہم تک پہنچا ہے اس لیے یہ شکوک و شبہات سے خالی نہیں ہے۔

جواب: ۱: روایات بالمعنی کا تعلق فقط اقوال سے ہے ۔تو کیا منکرین افعال اور تقریرات کو حجت مانتے ہیں؟

          ۲: اس کے علاوہ اقوال میں اذکار ، اذان ، اقامت اور احادیث قدسیہ تمام روایات باللفظ ہیں۔

          ۳: صحابہ بھی جہاں ناگزیر ہوتا وہاں روایت بالمعنی کرتے اور یہ یاد رہے کہ صحابہ کرام نہ صرف اعلی درجہ کے حافظ تھے بلکہ رسول اللہ ﷺ کے مزاج شناس بھی تھے۔ لہذا ممکن ہی نہیں کہ معنی و مفہوم میں تبدیلی ہو سکے۔

اعتراض نمبر سات: کتب احادیث عہد نبوی کے اڑھائی ، تین سو سال بعد لکھی گئی تھیں اس لیے ان کا محفوظ ہونا محل نظر ہے۔

جواب: اگر فن حدیث کا مطالعہ کیا گیا ہو تو طیہ اعتراض پیدا ہی نہیں ہوتا کیوں کہ مستند روایات سے ثابت ہے  کہ عہد نبوی سے ہی کتابت حدیث کا آغاز ہو گیا تھا اور بہت سے صحابہ کرام کے صحائف بھی اس پر شاہد ہیں۔

موطا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سو سال بعد لکھی گئی تھی جس سے اس اعتراض کی تردید کی جا سکتی ہے دوسری صدی ہجری میں مسند شافعی مسند احمد مسند عبدالرزاق اور مسند ابن ابی شیبہ وغیرہ سے بھی اس کی تردید ہوتی ہے۔

اعتراض نمبر آٹھ: مشاجرات صحابہ اور دور فتن میں احادیث میں تحریف کی گئی لہذا قابل اعتماد نہیں ہے۔

 جواب : یہ اعتراض دراصل صحابہ کی عدالت اور دیانت پر حملہ ہے جس پر نہ صرف محدثین کا اتفاق ہے بلکہ قران مجید میں بھی متعدد مقامات پر صحابہ کرام کو خیر امت، امت وسط اوررضی اللہ عنھم کہہ کر اس کی گواہی دی گئی ہے اور اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے تو یہ قران بھی انہی صحابہ کرام کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے اس طرح وہ بھی مشکوک ہو جائے گا۔

اعتراض نمبر نو :صرف وہ احادیث قابل قبول ہیں جو قران مجید کے موافق ہیں اس کے علاوہ تحلیل و تحریم اور اضافی احکام پر مشتمل قابل قبول نہیں۔  (فتنہ انکار حدیث کا آغاز و ارتقاء)

جواب: ۱:یہ ممکن ہی نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم قران مجید کے خلاف کوئی بات کریں اس لیے یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

۲: یہ اعتراض بھی منکرین اس لیے کیا کہ اس کے برعکس قران مجید پر اعتراض بھی لازم اتا ہے

۳: احادیث کی تین اقسام ہیں اور تینوں برابر حجت ہیں ۱: ایسی احادیث جو قران مجید کی تائید کرتی ہیں ۲: ایسی جو قران مجید کی تشریح کرتی ہیں ۳:ایسی احادیث جن میں قران مجید کے علاوہ کچھ اضافی احکام موجود ہیں یہ سبھی اقسام قابل حجت ہیں اور اضافی احکام بھی قابل حجت ہیں جو کہ وَمَاۤ اٰتٰکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ۚ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانۡتَہُوۡا (سورۃ الحشر: 7)زمرے میں آتے ہیں۔جیسے خالہ بھانجی کو اکٹھے نکاح میں رکھنا ،دادی کی وراثت اور گھریلو گدھے کی حرمت ہے

اعتراض نمبر دس:  احادیث میں تعارض ہے اس لیے قابل قبول نہیں۔

 جواب: ۱:  احادیث میں تعارض حقیقی نہیں صرف ظاہری ہے اور اس کا بھی حل محدثین نے صدیوں پہلے پیش کر دیا تھا۔ اختلاف الحدیث امام شافعی تاویل مختلف الحدیث امام ابن قتیبہ اور مشکل الاثار امام طحاوی ۔  اور رفع تعارض کے اصول بیان کر دیے ہیں : جمع و تطبیق ، ناسخ و منسوخ ، ترجیح اور توقف

۲:  امام ابن خزیمہ نے صدیوں پہلے یہ دعوی کیا تھا کہ احادیث میرے پاس لاؤ میں ان کا تعارض دور کرتا ہوں یعنی حل پیش کرتا ہوں۔

اگر صرف ظاہری تعارض کی وجہ سے حدیث ساقط الاعتبار ہے تو ایسی مثالیں تو قرآن مجید میں بھی ہیں جیسے: کن  فیکون اور فی ستہ ایام  اور الیوم نختم علی  اور یوم تشہد علیھم السنتھم  میں ظاہری الفاظ میں تعارض ہے۔

Download in PDF

ماخوذ ازلیکچرز : ڈاکٹر شہزادہ عمران ایوب صاحب

سبجیکٹ: علوم الحدیث

کلاس PHD سیشن 2023  ایجوکیشن یونیورسٹی  لوئر مال کیمپس لاہور

 

Share:

9/26/23

انکار حدیث | نبی کریم ﷺکی پیشین گوئی | انکار حدیث کا مقصد | استخفاف حدیث

انکار حدیث کا مختصر تعارف:

        امت مسلمہ کے علمی سرمایہ مین دو اہم اور بنیادی ماخذ ، قرآن مجید اور حدیث نبوی ﷺ ہیں۔ قرآن مجید اللہ تعالی کاکلام ہے جو کہ نبی کریم ﷺ پر نازل ہوا اور احادیث مبارکہ نبی کریم ﷺ کے الفاظ ہیں جو کہ اللہ تعالی کی مرضی و منشاء کے مطابق زبان رسالت ماٰب ﷺ سے ادا ہوئے۔ قرآن مجید  کا انکار کبھی بھی کسی بھی مسلمان کہلانے والے کے لیے ممکن نہیں رہا ۔ البتہ احادیث نبویہ میں لوگوں نے خود کو مسلمان کہلاتے ہوئے یہ جسارت کی ، بعضوں نے کلی طور پر انکار کیا ا وربعضوں نے جزوی طور پر یعنی بالخصوص خلاف عقل احادیث کا انکار کیا ۔انکار حدیث کے حوالے سے دو ادوار بہت اہم ہیں کہ جن میں احادیث نبویہ کا انکار کیا گیا آگے چل کر اس کی وضاحت کی جائے گی۔نبی کریم ﷺ نے فتنہ انکار حدیث کی نشاندہی کرتے ہوئے پیشین گوئی فرمائی تھی ۔

نبی کریم ﷺکی پیشین گوئی :

          ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَأْتِيهِ الْأَمْرُ مِنْ أَمْرِي مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ لَا نَدْرِي، ‏‏‏‏‏‏مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللَّهِ اتَّبَعْنَاهُ. (سنن ابی داود:: 4605)

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں تم میں سے کسی کو اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہرگز اس حال میں نہ پاؤں کہ اس کے پاس میرے احکام اور فیصلوں میں سے کوئی حکم آئے جن کا میں نے حکم دیا ہے یا جن سے روکا ہے اور وہ یہ کہے: یہ ہم نہیں جانتے، ہم نے تو اللہ کی کتاب میں جو کچھ پایا بس اسی کی پیروی کی ہے۔

انکارا حدیث حدیث کا زمانہ:

دوسری صدی ہجری اور تیرھویں صدی ہجری

انکار حدیث کا مقصد:

          ۱: حدیث کو غیر ضروری قرار دینا

          ۲: قرآن مجید کو حدیث سے الگ کرنا

          ۳: خود ساختہ افکار امت میں پھیلانا

          ۴: صرف قرآن مجید کے ساتھ وابسطہ ہونے کا دل فریب جھانسہ دینا

دوسری صدی ہجری:

          ۱: خوارج: جنگ صفین کے موقع پر ظاہر ہوئے اور صرف اللہ تعالی کی حاکمیت کا نعرہ لگایااور انسانی حکم بنانا کفر قرار دیا۔ ان کے انکار حدیث کی وجہ انتہا پسندانہ نظریات ہیں جو حدیث کی موجودگی میں ناقابل عمل ہیں۔ جیسے

۱: کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر ہے۔

۲: رجم کا نکار کیوں کہ قرآن مجید میں حکم نہیں ہے

۳: خبر واحد کا نکار کیا کہ اس میں غلطی کا امکان ہے اور جس میں غلطی کا امکان ہو وہ حدیث کیسے ہو سکتی ہے۔

۲:معتزلہ: چونکہ ہی اہل سنت کےعقائد سے منحرف ہوئے  ہوئے اور الگ ہوئے اس لیے انہیں معتزلہ کہا گیا ۔ واصل بن عطا اس کا بانی ہے اور یہ یونانی فلسفے سے متاثر تھا جس کی وجہ سے عقل کو نقل پر ترجیح دی۔ صفات باری تعالی کا انکار کیا ۔اور یہ دعوی کیا کہ اللہ تعالی خالق ِ شر نہیں ہے۔

۳: روافض و شیعہ: فضائل صحابہ کے بارے میں وارد احادیث کا انکار کیا۔

نوٹ؛ خوارج اور معتزلہ کے فتنے زیادہ دیر نہ چل سکے کیونکہ

1:  ایک تو ان کی تردید میں وسیع کام ہوا جیسا کہ امام شافعی کی کتاب ‘‘الرسالہ’’ امام احمد کی کتاب ‘‘الرسالہ’’ امام ابن قیم  کی کتاب ‘‘ اعلام المؤقعین’’ امام ابن حزم کی کتاب ‘‘ الاحکام’’ ان کتابوں میں سنیت کی حجیت پر کام ہوا ہے۔

2: اس وقت مسلمان غالب تھے اور کافر مغلوب تھے۔ دوسری صدی ہجری میں اس فتنے کا مرکز عراق تھا۔جب تیرھویں صدی ہجری میں یہ فتنہ شروع ہوا تو اس کا مرکز برصغیر تھا اور یہ برصغیر میں اس وقت مسلمان مغلوب تھے اور کافر غالب تھے۔

تیرھویں صدی ہجری اور نکار حدیث:

          ۱: سر سید احمد خان : مغرب سے متاثر اور تعلیم یافتہ تھے۔ اس وقت مغرب میں علم کا معیار عقل تھا  تو سر سید نے خلاف عقل احادیث کا نکار کیا چنانچہ معجزات ، آدم کے نبی ہونےاور فرشتوں کا انکار کیا جبکہ جنت و دوزخ کی مختلف تاویلات کیں۔

          ۲: مولوی چراغ علی: یہ بھی سر سید کے ساتھی اور مغرب سے متاثر تھے ، خلاف عقل احادیث کا انکار کیا، یہ دونوں حضرات کلی طور پر حدیث کے منکر نہیں تھے ، صرف خلاف عقل احادیث کا انکار کیا یا تاویل کرتے تھے۔ البتہ جن حضرات نے کلی طور پر حدیث کا انکار کیا ان میں سے چند ایک کا ذکر درج ذیل ہے:

          ۱: عبد اللہ چکڑالوی: اہل قرآن فرقہ کا ابنی تھا اس نے فکر پیش کی کہ قرآن  کے علاوہ نبی کریم ﷺ پر کچھ بھی نازل نہیں ہوا لہذا عذاب قبر کی احادیث ، نماز تراویح اور تعدد ازدواج کا نکار کیا۔

          ۲: حافظ اسلم جیراج پوری: علی گڑھ یونیورسٹی کے لیکچرار تھے  یہ اعلان کیا کہ حدیث پر ہمارا ایمان نہیں۔ حیدث کو لہو الحدیث قرار دیا۔ اور یہ کہ اطاعت رسول کا حکم صرف نبی کریم ﷺ کی زندگی کے ساتھ خاص تھا۔

          ۳: علامہ عنائیت اللہ مشرقی: اسلامیہ کالج پشاور کے پرنسپل تھے ۔ حدیث کو غیر ضروری قرار دیا ۔ اہل مغرب سے متاثر تھے۔ اس لیے خلاف عقل احایث کو رد کیا ۔ معجزات کا نکار کیا ۔ حوروں سے مراد سفید فام عورتیں ، جنات سے مراد مولوی اور داڑھی والے ہیں۔

          ۴: غلام احمد پرویز:  اسلم جیراج پوری کے شاگرد ، مغرب سے م،تاثر تھے ۔ ہی عقیدہ کی احادیث ظنی ہیں ، عجمیوں کی سازش ہیں اور روایت بالمعنی ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں اور اطاعت رسول ﷺ کا تعلق نبی کریم ﷺ کی زندگی کے ساتھ ہی تھا۔

تیرھویں صدی  اور استخفاف حدیث:

          حدیث کو معمولی اور غیر اہم سمجھنا ، اس میں تین اہم لوگ شامل ہیں:

          ۱: حمید الدین فراہی: علی گڑھ سے فلسفہ اور انگلش کی تعلیم حاصل کی ، شبلی نعمانی کو ماموں تھے ، لغات القرآن اور نظم قرآن کے انوکھے اصول پیش کیے۔ سنت رسول اور تعامل صحابہ پر زور دیا ، اخبار احاد کی صحت پر شبہ پیدا کیا۔

          ۲: امین احسن اصلاحی: حمید الدین فراہی کے ششاگرد تھے ، حدیچ کے معاملے میں اپنی آراء شامل کیںا ور فراہی کے جانشین ، تفسیر تدبر قرآن کے مصنف تھے۔ اعلانیہ حدیث کا انکار نہیں کیا لیکن عمل سے استخفاف ظاہر ہوتا ہے جیسے تفسیر میں احایث سے بہت کم فائدہ لیا ہے ۔ لغت اور جاہلی ادب سے کام لیا ۔ مسلک امت سے انحراف کرتے ہوئے رجم کا اننکار کیا۔

          ۳: جاوید احمد غامدی: امین احسن اصلاحی کے شاگرد ہیں، ان کے نزدیک فراہی امام اول اور اصلاحی امام ثانی ہیں ۔ سنت کو قرآن مجید سے بھی مقدم قرار دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک ستائیس اعمال سنت ہیں۔ حدیث سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا  ۔ زکوۃ کا کوئی نصاب متعین نہیں ہے۔ شراب نوشی اور مرتد کی کوئی سزا نہیں ہے۔

تاریخ انکار حدیث پر ایک نظر

1:خوارج نے فضائل اہل بیت سے متعلقہ احادیث کا انکار کیا

2: روافض نے  دیگر صحابہ کے فضائل سے متعلقہ احادیث سے اعراض کیا

3: معتزلہ نے صفات باری تعالی سے متعلق احادیث کا انکا رکیا

4: برصغیر میں سر سید اور مولوی چراغ علی نے خلاف عقل احادیث کا انکار کیا ، عبد اللہ چکڑالوی ، اسلم جیراج پوری اور غلام احمد پرویز وغیرہ  نے کلی طور پر احادیث کا انکار کیا ۔ غلام احمد پرویز نے احادیث رسول پر عمل کو نبی کریم ﷺ کی زندگی تک محدود قرار دیا ۔

5:حمید الدین فراہی امین احسن اصلاحی اور جاوید غامدی نے حدیث و سنت میں فرق کیا اور استخفاف حدیث کے مرتکب ہوئے ۔ حدیث کو غیر اہم قرار دیا۔

6: انکار حدیث کے اسباب :

          ۱: عقل  و فلسفہ کو معیار بنانا ۲:اتباع نفس یعنی قرآن مجید کی من مانی تاویل  کرنے کی کوشش کی گئی اور  جب حدیث اس کی رکاوٹ بنی تو حدیث کا انکار کر دیا یا اس میں تاویل کر دی۔۳:قوت فیصلہ کا فقدان یعنی حدیث پر اعتراض کرنے والوں کی بات سن کر ان کے پیچھے چل پڑے یعنی خود اس کی اصلاح نہ کر سکے اور ان کی باتوں میں  آ گئے۔  ۴:پست ہمتی اور جہالت یعنی عصری مسائل کے حل کے لیے کتاب و سنت کی نصوص سے استنباط کرنے میں محنت نہیں کی اور جب کوئی حل نہ ملا ، خود حدیث سے جاہل رہے  تو ذخیرہ حدیث کا انکار کر دیا۔  ۵:منصبِ رسالت سے بے اعتنائی یعنی رسالت  کی اہمیت اور مقام و مرتبہ سے لاپرواہی کی گئی اسے غیر اہم قرار دینے کی کوشش کی گئی اور اس کا احساس نہیں کیا ۔ ۶: سستی شہرت کا حصول  یعنی عجیب و غریب تاویلات اور افکار پیش کر کے بغیر محنت کے ہی شہرت کے حصول کی کوشش کی گئی ۔

 بطور خاص بر صغیر میں چند خارجی اسباب یہ تھے:

۱:برطانوی سامراج کی سازش۔ مسلمانوں کو کمزور اور تقسیم کرنے کے لیے ایسے فتنوں کو ہوا دی گئی بطور خاص ختم نبوت اور انکار حدیث ۔

۲:مستشرقین کی کوششیں یا سازشیں ، اسلامی عقائد کو متزلزل کرنے کے لیے حدیث کو مشکوک قرار دینے کے لیے کاوشیں کیں۔ مختلف قسم کے اعتراضات اور شکوک وشبہات پیدا کیے گئے جن کا اثر برصغیر میں پڑا۔

Download in PDF

 ماخوذ ازلیکچرز : ڈاکٹر شہزادہ عمران ایوب صاحب

سبجیکٹ: علوم الحدیث

کلاس PHD سیشن 2023  ایجوکیشن یونیورسٹی  لوئر مال کیمپس لاہور

 

 

Share:

9/24/23

سوہنا مدینے والا دکھیاں دا آسرا اے sohna madine wala dukhian da aasra


 

سوہنا مدینے والا دکھیاں دا آسرا اے

  سوہنے دا نام سوہنا  ہر مرض دی دوا اے

 

بیٹھے نے وچ مدینے سن دے نے سب دی بولی

منگدا جو آپ کولوں بھر دے نے سب دی جھولی

در در تے  اوہ نہ جاوے سوہنے دا جو گدا اے

 

سوہنا مدینے والا دکھیاں دا آسرا اے

 

ذکر رسول کر کے دل اپنا شاد کرلئیں

 مشکل بنے جے کوئی سوہنے نوں یاد کرلئیں

 نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم دا صدقہ ٹل  جاندی ہر بلا اے

 

سوہنا مدینے والا دکھیاں دا آسرا اے

 

 نام نبی نو رکھیا اللہ نے اپنے نال اے

ایہہ اذاناں وچ وی نال اے، اے نمازاں وچ وی نال

رب ایس توں جدا نئیں ، نا رب توں ایہہ جدا اے

 

سوہنا مدینے والا دکھیاں دا آسرا اے

سوہنے دا نام سوہنا  ہر مرض دی دوا اے

 

Share:

تدوین حدیث حفاظت حدیث تدوین حدیث کے مختلف ادوار

حفاظتِ حدیث بذریعہ کتابت:

        اللہ تعالی نے حفاظت حدیث کا انتظام فرمایا اور امت کو توفیق دی کہ نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ کو لکھنے ک اہتمام کیا۔ اور یوں حدیث مبارکہ کو محفوظ کر لیا۔ یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ حدیث مبارکہ بہت بعد میں لکھی گئی لیکن ذیل میں حفاظت حدیث بذریعہ کتابت کے چند ایک عوامل کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔

عہد نبوی اور کتابت حدیث:

 حدیث نبوی ﷺ کے لکھنے کااہتمام نبی کریم ﷺ کے زمانے میں ہی ہو گیا تھا ۔ یہ اعتراض بلکل غلط کیا جاتا ہے کہ آپ کی احادیث اڑھائی سو سال بعد میں لکھی گئی ۔ صحیح بخاری  میں امام بخاری نے کتابت حدیث سے متعلق مستقل باب باندھا ہے اور اس کے تحت چار احادیث بیان کی ہیں۔

حدیث نمبر 111 ہے کہ ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُلِعَلِيِّ :‏‏‏‏ هَلْ عِنْدَكُمْ كِتَابٌ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا كِتَابُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ فَهْمٌ أُعْطِيَهُ رَجُلٌ مُسْلِمٌ أَوْ مَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الْعَقْلُ وَفَكَاكُ الْأَسِيرِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ. (صحیح بخاری:111) حضرت ابو جحیفہ  کہتے ہیں کہ میں نے علی ؓ سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی (اور بھی ) کتاب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں، مگر اللہ کی کتاب قرآن ہے یا پھر فہم ہے جو وہ ایک مسلمان کو عطا کرتا ہے۔ یا پھر جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔ میں نے پوچھا، اس صحیفے میں کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا، دیت اور قیدیوں کی رہائی کا بیان ہے اور یہ حکم کہ مسلمان، کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔

          حدیث نمبر 112 میں ہے، نبی کریم مکہ مکرمہ کی حرمت کے بارے میں ارشاد فرما رہے تھ اور فرمایا کہ جب کسی کا قتل ہو جائے تو اس کو اختیار ہے یا تو قصاص لے یا دیت لے لے اتنے میں ایک یمنی بادشاہ (ابو شاہ) آیا اس نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے یہ احکام لکھوا دیجیے تو آپ و نے یہ احکام لکھ کر دینے کا حکم دیا اور پھر ایک آدمی نے وہ احکام لکھ کر دیے۔

          حدیث نمبر 113 میں حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے بھائی کے حوالے سے کہتے ہیں انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو کہتے سنا کہ کوئی مجھ سے زیادہ احادیث بیان کرنے والا نہیں سوائے عبداللہ بن عمرو ؓ کے کیوں کہ وہ لکھ لیا کرتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔

          حدیث نمبر 114 میں ہے  حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ کی مرض شدت اختیار کر گئی تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ کاغذ اورقلم لاو تا کہ میں تمہیں کچھ لکھ دوں۔

درج بالااحادیث میں نبی کریم ﷺ کے زمانے میں حدیث مبارک لکھنے کی طرف اشارہ ملتا ہےیعنی نہیں کہا جا سکتا کہ آپ ﷺ کے دور میں احادیث لکھی نہیں گئیں۔

کتابت حدیث :

پہلا مرحلہ:کچھ احادیث مبارکہ کےصحائف ایسے ہیں جو  صحابہ کرام نے لکھے تھے  درج ذیل ہیں:

صحیفہ صادقہ عبد اللہ بن عمرو بن العاص

 صحیفہ ابو ہریرہ / صحیفہ حمام بن منبہ بھی کہتے ہیں

 صحیفہ عمرو بن حزم جب یمن بھیجا تب احکام لکھ کر دیے

 صحیفہ علی جس میں زکوۃ اور حج کے احکام  تھے بخاری میں ذکر موجود ہے۔

صحیفہ حضرت انس

صحیفہ حضرت جابر جس میں مناسک حج لکھے اور اس میں خطبہ حجۃ الوداع موجود تھا ۔

صحیفہ سمرہ بن جندب

 دوسرا دور:   موضوعی اور غیر موضوعی تدوین حدیث۔99 میں عمر بن عبد العزیز نے سرکاری سطح پر حکم دیا کہ احادیث کا مجموعہ تیار کیا جائے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ صحابہ کرام کے جانے سے حدیث کا علم ضائع ہو جائے۔ آپ کے حکم پر حدیث مرتب کرنے والے مشہور تین ائمہ کرام  امام زہری، امام شعبی ، امام مکحول ہیں جنہوں نے ابتدائی ذخیرہ حدیث جمع کیا  اس دور میں کوئی شرط نہ تھی کہ کیسے جمع کرنا ہے، کس موضوع پر جمع کرنا ہے ۔اس دور میں ایسا کچھ نہیں تھا بس یہ فکر تھی کہ حدیث کو زیادہ سے زیادہ جمع کیا جائے۔ابواب کے نام سے امام شعبی کی کتاب ہے جس میں موضوعاتی ترتیب ملتی ہے، اس میں کچھ نا کچھ احدایث جمع جمع کیا مگر کوئی  منظم اصول  نہ تھا۔ابو العالیہ، حسن بصری ، زید بن علی  کی بھی کتابیں ملتی ہیں۔

تیسرا دور:  اس دور میں فقہی ترتیب سے ابواب بندی ہوئی ۔ اور احادیث کو جمع کیا گیا۔ باقاعدہ کتب میں سب سے قدیم امام اعظم ابو حنیفہ کی کتاب ہے جو  فقہی اعتبار سے ابواب بندی کر کے لکھی گئی ،کتاب الآثار امام اعظم کے شاگرد امام ابو یوسف اور امام محمد نے مرتب کی اوراپنے شیخ امام اعظم ابو حنیفہ کی طرف منسوب کر دی۔ اس میں اس طرح روایات ہیں کہ حدثنا ابو حنیفہ۔ اسی اسلوب کے تحت  دوسری کتاب موطا امام مالک وجودمیں آئی اس کے بعد تیسری کتاب ابو سفیان ثوری کی کتاب جامع سفیان ہے۔ ان میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ یہ رسول اللہ نے فرمایا یا صحابہ نے فرمایا یا صحابہ کا فتوی ہے۔ اس کے ساتھ مسانید کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایک نیا انداز اپنایا گیا کہ اس میں صحابہ کے نام کی ترتیب سے احادیث جمع کی گئی ہیں۔سب سے ممتاز مشہور کتا ب مسند احمد بن حنبل آج بھی اس کی اہمیت مسلم ہے۔ چند اہم مسانید ، مسندشافعی ، مسند حمیدی ، مسند بزار ،  اس دور میں کتب احادیث  کو انتہائی عمدہ موضوعا ت اور عنوانات کے تحت جمع کیا گیا ، ان کو تین انواع میں تقسیم کیا جاتا ہے؛

1: ایسی کتب جن میں صرف صحیح احادیث جمع کی گئی ہیں۔ بخاری و مسلم، ان کو جامع کہا جاتا ہے۔

2:ایسی کتب جن میں صحیح کے ساتھ حسن اور بعض ضعیف احادیث بھی تھیں۔اس کو سنن کہا گیا اورانہیں فقہی ابواب پر مرتب کیا گیا۔ ان میں مشہور سنن اربعہ ہیں، ان میں صرف احکام ہوتے ہیں۔ ترمذی کو جامع بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس میں کتاب التفسیر بھی ہے۔یہی ایک فرق ہے اس میں اور سنن اربعہ میں۔  

3: ایسی کتب جن میں فقہی ابواب کے تحت احادیث کو جمع کیا گیا لیکن مرفوع روایات کے ساتھ موقوف اور مقطوع روایات بھی جمع کر دی گئیں۔ایسی کتب کو مصنفات کا نام دیا گیا۔مصنف عبد الرزاق ،مصنف ابن ابی شیبہ، (مصنف اور سنن میں فرق کیا ہے؟ دونوں میں احادیثِ احکام ہی جمع کی جاتی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ مصنف میں مرفوع روایات کے ساتھ ساتھ موقوف اور مقطوع بھی پائی جاتی ہیں جب کہ سنن میں صرف مرفوع روایات ہی جمع کی جاتی ہیں۔) (جامع اور مصنف میں فرق ، جامع میں تمام موضوعات کے تحت احادیث جمع ہوتی ہیں جیسےسیرت ، تاریخ عقائد تفاسیر، احکام  وغیرہ، جب کہ مصنف میں احادیث احکام ہیں)۔

تدوین حدیث کا ایک منفرد اسلوب:

          جوامع، سنن اور مسانید کے علاوہ ایک اسلوب اختلاف الحدیث بھی ہے۔ اس اسلوب کے تحت احادیث مبارکہ کو جمع کیا گیا ان میں وہ احادیث شامل ہیں جن کے معانی و مطالب مشکل تھے یا وہ متعارض احکام پر دلالت کرتی تھیں۔ اس اسلوب کے تحت جو کتب مدون ہوئیں ان میں امام شافعی کی کتاب مختلف الحدیث ہے امام ابن قتیبہ کی کتاب تاویل مختلف الحدیث اور امام طحاوی کی کتاب مشکل الآثار مشہور کتابیں ہیں۔

تیسری صدی ہجری یں لکھی جانے والی متفرق کتب:

          ایسی کتب ہیں جن کے نام کےس اتھ تفسیر لکھا گیا مگر ان میں صر ف احادیث درج تھیں جیسا کہ تفسیر عبد الرزاق اور تفسیر عبد بن حُمید ہے

۲: ایسی کتب جن میں عقائد سےمتعلق احادیث جمع کی گئیں تھیں؛ کتاب الایمان  مصنفہ ابو عبید ، کتاب الایمان مصنفہ امام احمد ، کتاب الایمان مصنفہ امام ابن ابی شیبہ۔

۳: ایسی کتب جن میں کسی بھی خاص موضوع پر احادیث جمع کی گئیں ہوں جیسے کتاب الاموال  مصنفہ ابو عبید ، کتاب العلم مصنفہ ابو خثیمہ ، کتاب الزہد مصنفہ امام احمد۔

چوتھی صدی ہجری اور ما بعد:

          چوتھی صدی ہجری میں بھی کتب احادیث مرتب کی گئیں جن کو کہ درج ذیل مختلف اسالیب کے تحت مرتب کی گئیں:

۱: معاجم: معجم  کی جمع ہے ، وہ حدیث کی کتاب جس میں احدیث کو صحابہ کرام یا شیوخ یا ان کے دیار و بلدان کی ‘‘الف بائی’’  ترتیب سے جمع کیا گیا ہو۔ جیسے مشہور معجم الکبیر ، معجم الاوسط اور معجم الصغیر ہیں۔

۲: اربعین: ایسی کتب یں میں ایک باب یا مختلف ابواب کے تحت 40 احادیث مبارکہ جمع کی گئی ہوں۔ جیسے اربعین نووی اربعین دار قطنی ۔ ان کو اربعینیات بھی کہا جاتا ہے۔

۳: اجزاء: جز کی جمع اجزاء ہے ،ایسی کتب جن میں کسی ایک خاص موضوع پر احادیث جمع کی گئی ہوں امام بخاری کی جز رفع الیدین  ، امام بیہقی کی جز القراءت ہے۔

 ۴: اطراف: طرف کی جمع ہے۔ ایسی کتب جن میں محدثین نے احادیث کا ایک حصہ جمع کیا ہوتا ہے جس پر غور کرنے سے باقی حدیث کا مفہوم بھی سمجھ آ جاتا ہے۔ جیسا کہ تحفۃ الاشراف بمعرفۃ الاطراف امام مزی کی کتاب ہے۔

۵: استدراک: استدراک سے مراد ایسا اسلوب ہے  کہ کسی دوسری کتاب کے مولف کی متروکہ روایات جو اس کی شرائط پر پوری اترتی ہوں ان کو تلاش کر کے ایک کتاب میں درج کیا جائے۔ جیسے مستدرک للحاکم امام حاکم کی کتاب ہے۔

۶: استخراج: یہ ایسا اسلوب ہے کہ جس میں محدث پہلے سے مدونہ کتب احادیث میں سے کسی کتاب کو اپنی سند سے روایت کرے۔ جیسے مستخرج ابو عوانہ

۷: علل: یہ ایسا اسلوب ہے جس کے تحت ایسی روایات کو جمع کیا جاتا ہے جو بظاہر ضعف سے خالی ہوں مگر ان میں ایسا خفی سبب ہو جو انکی صحت کو مشکوک کرتا ہو۔ کتاب العلل امام بخاری و امام مسلم ، العلل و معرفۃ الرجال امام احمد۔

۸: غریب الحدیث: اسی کتب جن میں محدثین نے احدایث کے متون میں موجود مشکل الفاظ اور غیر مانوس الفاظ کی شرح ہوتی ہے۔ احادیث کا مفہوم سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے۔ امام خطابی کی کتاب غریب الحدیث امام زمحشری کی کتاب الفائق فی غریب الحدیث۔

Download in PDF

ماخوذ ازلیکچرز : ڈاکٹر شہزادہ عمران ایوب صاحب

سبجیکٹ: علوم الحدیث

کلاس PHD سیشن 2023  ایجوکیشن یونیورسٹی  لوئر مال کیمپس لاہور

 

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive