Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

10/28/22

اللہ کی رحمت | اللہ کی محبت کے واقعات | محبت اِلٰہی کی تعریف Allah ki rahmat

اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُۚ (سورۃ النساء :48)

ترجمہ: بے شک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے اور کفر سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرمادیتا ہے۔

وَ اكْتُبْ لَنَا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ اِنَّا هُدْنَاۤ اِلَیْكَؕ-قَالَ عَذَابِیْۤ اُصِیْبُ بِهٖ مَنْ اَشَآءُۚ-وَ رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَیْءٍؕ-فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَۚ (سورۃ الاعراف:156)

اور ہمارے لیے اس دنیا میں بھلائی لکھ اور آخرت میں بے شک ہم تیری طرف رجوع لائے فرمایا میرا عذاب میں جسے چاہوں دوں اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہے تو عنقریب میں نعمتوں کو ان کے لیے لکھ دوں گا جو ڈرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔

اللہ کا حق بندے پر:

عَن مُعَاذ بِن جَبَل  رضی اللہ تعالی عنہ قال کنتُ رَدِفِ النَّبی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم عالی حِمَارِ فقال : یا معاذ ھل تَدرِی ما حقُّ اللہِ علی  عبادِہ و ما حقُّ العبادِ علی اللہِ ؟ قلتُ : اللہُ و رسولُہ اَعلَمُ  ، قال : فاِنَّ حقَّ اللہ علی العبادِ ان یَّعبُدُوہُ  و لا یُشرِکُوا بِہ شیئًا و حقَّ العبادِ علی اللہِ ان لا یُعذِّبَ  مَن لا یُشرِکُ باللہِ شیئًا (صحیح بخاری، 2856، الجھاد۔صحیح مسلم ۳۰ ، الایمان)

ترجمہ: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے معاذ! تمہیں معلوم ہے کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ اور اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے؟  میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے۔تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے  کہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں پھر آپ ﷺ فرمایا کہ اللہ پر بندوں کا حق ہے کہ جب وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں تو انہیں عذاب نہ  دے۔

قبر کے سوالات  :

          قبر کے سوالات تین ہوں گے  من ربک ؟ مادینک؟ ما کنت تقول فی ھذا الرجل؟ تینوں سوال عقائد سے متعلق ہیں عمل کا کوئی سوال نہیں ہے اور ان سوالات میں سے بھی بہت سی ایسی روایات ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک ہی سوال ہو گا اور لوگوں کو آزمایا جائے گا اور پوچھا جائے گا ماکنت تقول فی ھذا الرجل؟ یعنی پہلے سوال چھانٹی کرنے کے لیے ہوں گے اور ایک سوال اصل ہو گا اور مصطفی ﷺ کے بارے میں ہو گا ۔۔۔ اب آتے ہیں اپنے معاملے کی مان لیا کہ سوال تین ہوں گے اور جان لیا کہ تینوں عقائد کے متعلق ہوں گے عمل کے بارے میں کیوں نہیں پوچھا جائے گا ۔۔۔ صوفیا کہتے ہیں کہ(1) اللہ تعالی کو جو اپنے بندے سے پیار ہے یہ اس کی وجہ سے ہے کہ عمل،کے بارے میں سوال نہیں رکھا  اور (2) رسول اللہ ﷺ کو جو محبت ہے کہ پہلے قبر رمیں بس میرے پہچان کرےا ور سو جائے قیامت کے دن دیکھیں گے میں اپنے رب کو منا لوں گا۔ ۔۔۔اللہ کو محبت ہے اپنے بندے سے فرمایا فرشتو سنو میرا بندہ عمل میں کمزور بھی ہو سکتا ہے یہ مجھے مانتا ہے میرے محبوب کو بھی مانتا ہے سنو عمل میں کمزور ہو سکتا تم چھوڑو بس عقیدہ پوچھنا عمل کے بارے میں قیامت کے دن آئے گا میں خود دیکھ لوں گا۔۔

یا اللہ ابھی میرے بڑے گناہ باقی ہیں:

          عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:    إِنِّي لَأَعْلَمُ آخِرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا الْجَنَّةَ، وَآخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا مِنْهَا، رَجُلٌ يُؤْتَى بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُقَالُ: اعْرِضُوا عَلَيْهِ صِغَارَ ذُنُوبِهِ، وَارْفَعُوا عَنْهُ كِبَارَهَا، فَتُعْرَضُ عَلَيْهِ صِغَارُ ذُنُوبِهِ، فَيُقَالُ: عَمِلْتَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا، وَعَمِلْتَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا، فَيَقُولُ: نَعَمْ، لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُنْكِرَ وَهُوَ مُشْفِقٌ مِنْ كِبَارِ ذُنُوبِهِ أَنْ تُعْرَضَ عَلَيْهِ، فَيُقَالُ لَهُ: فَإِنَّ لَكَ مَكَانَ كُلِّ سَيِّئَةٍ حَسَنَةً، فَيَقُولُ: رَبِّ، قَدْ عَمِلْتُ أَشْيَاءَ لَا أَرَاهَا هَا هُنَا    فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، (صحیح مسلم : 190)

ترجمہ: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں اہل جنت میں سے سب کے بعد جنت میں جانے والے اور اہل دوزخ میں سے سب سے آخر میں اس سے نکلنے والے کو جانتا ہوں ، وہ ایک آدمی ہے جسے قیامت کے دن لایا جائے گا اور کہا جائے گا : اس کے سامنے اس کے چھوٹے گناہ پیش کرو اور اس کے بڑے گناہ اٹھا رکھو ( ایک طرف ہٹا دو ۔ ) تو اس کے چھوٹے گناہ اس کے سامنے لائے جائیں گے اور کہا جائے گا : فلاں فلاں دن تو نے فلاں فلاں کام کیے اور فلاں فلاں دن تو نے فلاں فلاں کام کیے ۔ وہ کہے گا : ہاں ، وہ انکار نہیں کر سکے گا اور وہ اپنے بڑے گناہوں کے پیش ہونے سے خوفزدہ ہو گا ، ( اس وقت ) اسے کہا جائے گا : تمہارے لیے ہر برائی کے عوض ایک نیکی ہے ۔ تو وہ کہے گا : اے میرے رب ! میں نے بہت سے ایسے ( برے ) کام کیے جنہیں میں یہاں نہیں دیکھ رہا ۔‘‘ میں ( ابوذر ) نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ہنسے یہاں تک کہ آپ کے پچھلے دندان مبارک نمایاں ہو گئے ۔

اللہ اپنے قریب کرے گا:

          صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ ، كَيْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي النَّجْوٰى ؟ قَالَ : يَدْنُو أَحَدُكُمْ مِنْ رَبِّهٖ حَتّٰی يَضَعَ كَنَفَهُ عَلَيْهِ ، فَيَقُولُ :    عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا    ، فَيَقُولُ : نَعَمْ ، وَيَقُولُ :    عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا    ، فَيَقُولُ : نَعَمْ ، فَيُقَرِّرُهُ ، ثُمَّ يَقُولُ :    إِنِّي سَتَرْتُ عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا فَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ. ۔(صحیح بخاری: 6070)

          ترجمہ: ایک شخص نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کانا پھوسی کے بارے میں کیا سنا ہے؟  ( یعنی سرگوشی کے بارے میں )  انہوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے  ( قیامت کے دن تم مسلمانوں )  میں سے ایک شخص  ( جو گنہگار ہو گا )  اپنے پروردگار سے نزدیک ہو جائے گا۔ پروردگار اپنا بازو اس پر رکھ دے گا اور فرمائے گا تو نے  ( فلاں دن دنیا میں )  یہ یہ برے کام کئے تھے، وہ عرض کرے گا۔ بیشک  ( پروردگار مجھ سے خطائیں ہوئی ہیں پر تو غفور رحیم ہے )  غرض  ( سارے گناہوں کا )  اس سے  ( پہلے )  اقرار کرا لے گا پھر فرمائے گا دیکھ میں نے دنیا میں تیرے گناہ چھپائے رکھے تو آج میں ان گناہوں کو بخش دیتا ہوں۔

سونے اور چاندی کے محل تیرے ہیں تو معاف کر:

عن أنس بن مالك بينما رسولُ اللهِ ﷺ جالسٌ، إذ رأَيْناه ضحِك حتّى بدَتْ ثناياه، فقال عُمَرُ: ما أضحَككَ يا رسولَ اللهِ بأبي أنتَ وأُمِّي؟ فقال: رجُلانِ مِن أُمَّتي، جثَوْا بينَ يدَيِ اللهِ عزَّ وجلَّ، رَبِّ العزَّةِ تبارَك وتعالى، فقال أحدُهما: يا رَبِّ، خُذْ لي مَظْلِمَتي مِن أخي، قال اللهُ تعالى: أَعْطِ أخاكَ مَظْلِمَتَه، قال: يا رَبِّ، لم يَبْقَ مِن حسَناتي شيءٌ، قال اللهُ تعالى للطّالبِ: كيف تصنَعُ بأخيكَ؟ لم يَبْقَ مِن حسَناتِه شيءٌ، قال: يا ربِّ، فلْيحمِلْ عنِّي مِن أوزاري، قال: وفاضَتْ عَيْنا رسولِ اللهِ ﷺ بالبكاءِ، ثمَّ قال: إنَّ ذلكَ لَيومٌ عظيمٌ، يومٌ يحتاجُ النّاسُ إلى أن يُتحمَّلَ عنهم مِن أوزارِهم، فقال اللهُ للطّالبِ: ارفَعْ بصرَكَ فانظُرْ في الجِنانِ، فرفَع رأسَه فقال: يا ربِّ، أرى مدائنَ مِن فِضَّةٍ، وقصورًا مِن ذهَبٍ، مكلَّلةً باللُّؤلؤِ، لأيِّ نبيٍّ هذا؟ لأيِّ صِدِّيقٍ هذا؟ لأيِّ شهيدٍ هذا؟ قال: هذا لِمَن أعطى الثَّمنَ، قال: يا ربِّ، ومَن يملِكُ ذلكَ؟ قال: أنتَ تملِكُه، قال: ماذا يا ربِّ؟ قال: تعفو عن أخيكَ، قال: يا ربِّ، فإنِّي قد عفَوْتُ عنه، قال اللهُ تعالى: خُذْ بيدِ أخيكَ فأَدخِلْه الجنَّةَ، قال رسولُ اللهِ ﷺ عند ذلكَ: فإنَّ اللهَ يُصالِحُ بينَ المُؤمِنينَ يومَ القيامةِ.( البداية والنهاية 59/2) (الحاكم 8718)

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپِ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون سی چیز ہنسی کا سبب ہوئی؟ فرمایا کہ میرے دو امتی اللہ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ ایک اللہ سے کہتا ہے کہ یارب! اس نے مجھ پر ظلم کیا ہے‘ میں بدلہ چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس (ظالم) سے فرماتے ہیں کہ اپنے ظلم کا بدلہ ادا کردو۔ ظالم جواب دیتا ہے یارب! اب میری کوئی نیکی باقی نہیں رہی کہ ظلم کے بدلے میں اسے دے دوں۔ تو وہ مظلوم کہتا ہے کہ اے اللہ! میرے گناہوں کا بوجھ اس پر لاد دے۔ یہ کہتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم آبدیدہ ہوگئے اور فرمانے لگے کہ وہ بڑا ہی سخت دن ہوگا۔ لوگ اس بات کے حاجت مند ہوں گے کہ اپنے گناہوں کا بوجھ کسی اور کے سر دھر دیں۔ اب اللہ تعالیٰ طالب انتقام سے فرمائے گا کہ نظر اٹھا کر جنت کی طرف دیکھ‘ وہ سر اٹھائے گا‘ جنت کی طرف دیکھے گا اور عرض کرے گا یارب! اس میں تو چاندی اور سونے کے محل ہیں‘ موتیوں کے بنے ہوئے ہیں یارب! یہ محل کس نبی اور کس صدیق اور شہید کے ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائینگے جو اس کی قیمت ادا کرتا ہے اس کو دے دئیے جاتے ہیں۔ وہ کہے گا یارب! کون اس کی قیمت ادا کرسکتاہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائینگے کہ تو اس کی قیمت ادا کرسکتا ہے۔ اب وہ عرض کرے گا یارب! کس طرح؟ اللہ جل شانہ ارشاد فرمائے گا: اس طرح کہ تو اپنے بھائی کو معاف کردے۔ وہ کہے گا یارب! میں نے معاف کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائینگے: اب تم دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے جنت میں داخل ہوجاو۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ: ”اللہ سے ڈرو‘ آپس میں صلح قائم رکھو کیونکہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ بھی مومنین کے درمیان آپس میں صلح کرانے والا ہے۔

بندہ جانتا ہے کہ اس کا رب معاف کرنے والا ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ فِيْمَا يَحْکِي عَنْ رَبِّهِ قَالَ: أَذْنَبَ عَبْدٌ ذَنْبًا فَقَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي فَقَالَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی: أَذْنَبَ عَبْدِي ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِالذَّنْبِ ثُمَّ عَادَ فَأَذْنَبَ فَقَالَ: أَي رَبِّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي فَقَالَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی: عَبْدِي أَذْنَبَ ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِالذَّنْبِ ثُمَّ عَادَ فَأَذْنَبَ فَقَالَ: أَي رَبِّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي فَقَالَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی: أَذْنَبَ عَبْدِي ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِالذَّنْبِ اعْمَلْ مَا شِئْتَ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکَ (صحيح مسلم: 2758)، (مسند احمد بن حنبل: 10384)

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب سے روایت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ایک بندے نے گناہ کیا پھر (بارگاہِ الٰہی میں) عرض کیا:اے اللہ! میرے گناہ کو بخش دے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے گناہ کیا ہے اور اُسے یقین ہے کہ اس کا رب گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے، (سُو اﷲ تعالیٰ اُسے بخش دیتا ہے) پھر دوبارہ وہ بندہ گناہ کرتا ہے اور کہتا ہے: اے میرے رب! میرا گناہ معاف کر دے، اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے گناہ کیا ہے اور اُسے یقین ہے کہ اس کا رب گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے، (سو وہ اُسے پھر بخش دیتا ہے) وہ بندہ پھر گناہ کرتا ہے اور کہتا ہے: اے میرے رب! میرے گناہ کو معاف کر دے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے گناہ کیا ہے اور اسے یقین ہے کہ اس کا رب گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گناہ پر مواخذہ بھی کرتا ہے (سو اﷲتعالیٰ فرماتا ہے) تم جو چاہو کرو، میں نے تمہاری مغفرت کر دی، راوی حدیث عبدا لاعلیٰ نے کہا مجھے یاد نہیں آپ نے تیسری یا چوتھی بار فرمایا تھا: جو چاہو کرو۔‘‘




 

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive