Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

11/30/22

leader and team | the role of leader | what is leadership? #LEADERANDTEAM #LEARN #IMPROVEMENT


Can there be a leader without a team or a team without someone leading it? Team members are largely overlooked and seen as anonymous, passive enablers of their leader’s vision — whether that leader is a CEO, a HEAD of STATE, or even a SUPERVISOR. In reality, as is often quoted, leaders are only as good as their team.

 Paired words are often used for relationships where one has no meaning without the other — teacher and student, nurse and patient, etc. Yet, there is a tendency to see one as more important than the other.

Share:

11/28/22

بس یہی سوچ کے پہروں نہ رہا ہوش مجھے bus yahi soch ke pehron na raha hosh mujhy


 

بس یہی سوچ کے پہروں نہ رہا ہوش مجھے

 کر دیا ہو نہ کہیں تُو نے فراموش مجھے

 

 تیری آنکھوں کا یہ میخانہ سلامت ساقی

 مست رکھتا ہے ترا بادہ ء سرجوش مجھے

 

 ہچکیاں موت کی آنے لگیں اب تو آجا

 اور کچھ دیر میں شاید نہ رہے ہوش مجھے

 

 کب کا رسوا میرے اعمال مجھے کر دیتے

 میری قسمت کہ ملا تجھ سا خطا پوش مجھے

 

 کس کی آہٹ سے یہ سویا ہوا دل جاگ اُٹھا

کر دیا کس کی صدا نے ہمہ تن گوش مجھے

 

یاد کرتا رہا تسبیح کے دانوں پہ جسے

 کردیا ہے اُسی ظالم نے فراموش مجھے

 

 ایک دو جام سے نیت مری بھر جاتی تھی

 تری آنکھوں نے بنایا ہے بلانوش مجھے

 

جیتے جی مجھ کو سمجھتے تھے جو اک بارِ گراں

 قبر تک لے کے گئے وہ بھی سرِ دوش مجھے

 

 مجھ پہ کُھلنے نہیں دیتا وہ حقیقت میری

حجلہ ء ذات میں رکھتا ہے وہ رُو پوش مجھے

 

 صحبتِ میکدہ یاد آئے گی سب کو برسوں

 نام لے لے کے مرا روئیں گے مے نوش مجھے

 

بُوئے گُل مانگنے آئے مرے ہونٹوں سے مہک

 چومنے کو ترے مل جائیں جو پاپوش مجھے

 

 زندگی کے غم و آلام کا مارا تھا میں

 ماں کی آغوش لگی قبر کی آغوش مجھے

 

دے بھی سکتاہوں نصیر اینٹ کا پتھر سے جواب

 وہ تو رکھا ہے مرے ظرف نے خاموش مجھے

Share:

11/26/22

allah kis se muhabbat krta he | اللہ کن سے محبت کرتا | اللہ کی محبت | اللہ محبت کرتا ہے | متقین مقسطین متوکلین صابرین

متقین (پرہز گار)

بَلٰى مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ وَ اتَّقٰى فَاِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ (سورۃ اٰل عمران:76)

ہاں کیوں نہیں جس نے اپنا عہد پورا کیا اور پرہیزگاری کی اور بے شک پرہیزگار اللہ کو خوش آتے ہیں۔

اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ (سورۃ التوبۃ: 4)

 بےشک اللہ پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے۔

محسنین (نیکیاں کرنے والے)

الَّذِیْنَ  یُنْفِقُوْنَ  فِی  السَّرَّآءِ  وَ  الضَّرَّآءِ  وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ-وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَۚ (سورۃ اٰل عمران:134)۔

وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں خوشی میں اور رنج میں اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔

فَاٰتٰىهُمُ  اللّٰهُ  ثَوَابَ  الدُّنْیَا  وَ  حُسْنَ  ثَوَابِ  الْاٰخِرَةِؕ-وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَ۠( سورۃ اٰل عمران:148)

تو اللہ نے انہیں دنیا کا انعام دیا اور آخرت کے ثواب کی خوبی اور نیکی والے اللہ کو پیارے ہیں

صابرین (صبر کرنے والے)

وَ  كَاَیِّنْ  مِّنْ  نَّبِیٍّ  قٰتَلَۙ-مَعَهٗ  رِبِّیُّوْنَ  كَثِیْرٌۚ-فَمَا  وَ  هَنُوْا  لِمَاۤ  اَصَابَهُمْ  فِیْ  سَبِیْلِ  اللّٰهِ  وَ  مَا  ضَعُفُوْا  وَ  مَا  اسْتَكَانُوْاؕ-وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الصّٰبِرِیْنَ (سورۃ اٰل عمران:146)

اور کتنے ہی انبیاء نے جہاد کیا ان کے ساتھ بہت خدا والے تھے تو نہ سُست پڑے اُن مصیبتوں سے جو اللہ کی راہ میں انہیں پہنچیں اور نہ کمزور ہوئے اور نہ دبے اور صبر والے اللہ کو محبوب ہیں

متوکلین (اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرنے والے)    

فَبِمَا  رَحْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  لِنْتَ  لَهُمْۚ-وَ  لَوْ  كُنْتَ  فَظًّا  غَلِیْظَ  الْقَلْبِ  لَا  نْفَضُّوْا  مِنْ  حَوْلِكَ۪-  فَاعْفُ  عَنْهُمْ  وَ  اسْتَغْفِرْ  لَهُمْ  وَ  شَاوِرْهُمْ  فِی  الْاَمْرِۚ-فَاِذَا  عَزَمْتَ  فَتَوَكَّلْ  عَلَى  اللّٰهِؕ-اِنَّ  اللّٰهَ  یُحِبُّ  الْمُتَوَكِّلِیْنَ  (سورۃ اٰل عمران:159)

تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لیے نرم دل ہوئے اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہوجاتے تو تم انہیں معاف فرماؤ اور ان کی شفاعت کرو اور کاموں میں ان سے مشورہ لو اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو بے شک توکل والے اللہ کو پیارے ہیں۔

مقسطین(انصاف کرنے والے)

وَ اِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ (سورۃ المائدہ: 42)

اور اگر ان میں فیصلہ فرماؤ تو انصاف سے فیصلہ کرو بے شک انصاف والے اللہ کو پسند ہیں۔

وَ اِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَاۚ-فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰى تَفِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِۚ-فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ(سورۃ الحجرات:9)

          اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کراؤ پھر اگر ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس زیادتی والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے پھر اگر پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ ان میں اصلاح کردو اور عدل کرو بےشک عدل والے اللہ کو پیارے ہیں

مطھرین (پاک صاف رہنے والے)

لَا تَقُمْ فِیْهِ اَبَدًاؕ-لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِؕ-فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْاؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ(سورۃ التوبۃ :108)

          اس مسجد میں تم کبھی کھڑے نہ ہونا بےشک وہ مسجد کہ پہلے ہی دن سے جس کی بنیاد پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے وہ اس قابل ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو اس میں وہ لوگ ہیں کہ خوب ستھرا ہونا چاہتے ہیں اور ستھرے اللہ کوپیارے ہیں

اتباع رسول ﷺ(رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرنا)

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(سورۃ اٰل عمران :31)

 اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے

 

 

Share:

11/20/22

money | dollar | forsage | digitalamarketing | digitalcurrency | cryptocurrency | cryptoearning | cryptowealth

I know everyone wants to earn money but does not want to spend even a penny……. If you don't like to take risk you cannot earn ... 

If you can spend or invest 15 Dollar only YOU can earn handsome amount of Dollars with determination، courage and affection. ....... 

join us to live healthy wealthy life.. 

00923005262557 Swallow is here for you

 #money #dollar #forsage #digitalamarketing #digitalcurrency #cryptocurrency #cryptoearning #cryptowealth

 

Share:

11/18/22

کامیاب لوگ عادات و صفات | ناکام لوگ عادات صفات | Successful people | good habits of good people

💫 کامیاب لوگ کیا کرتے ہیں؟

1)      ہر شخص کی تعریف کرتے ہیں۔

 2)     شکرگزار ہوتے ہیں۔

 3)     دوسروں کو معاف کرتے ہیں۔

 4)     اپنی کامیابی کی وجہ دوسروں کو سمجھتے ہیں۔

 5)     اپنی ناکامی کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔

 6)     دوسروں کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔

 7)     ہر روز مطالعہ کرتے ہیں۔

 8)     اپنی زندگی کے مقاصد طے کرتے ہیں۔

 9)     منصوبہ بندی کی فہرست تیار کرتے ہیں۔

 10)   دوسروں تک علم پہنچاتے ہیں۔

 11)   مسلسل سیکھتے ہیں۔

 12)   خیالات پر بات کرتے ہیں۔

13)    کام میں ہمیشہ بہتر تبدیلی کے خواہاں ہوتے ہیں اندرونی اور بیرونی مثبت تبدیلی کو قبول کرتے ہیں۔

 14)   ہر اچھی عادت کو بلا تامل اپناتے ہیں۔

 

 💫 ناکام لوگ کیا کیاکرتے ہیں؟

 1)     ہر وقت اعتراض کرتے ہیں۔

2)      ہر معاملہ میں خود کو حق دار سمجھنتا ہے۔

 3)     بے مقصد زندگی گزارتے ہیں۔

 4)     دوسروں سے علم چُھپاتے ہیں۔

 5)     تبدیلی سے ڈرتے ہیں چاہے "اندر" کی ہو یا "باہر" کی۔

 6)     اپنی سوچ کو مکمل سمجھتے ہیں یعنی خود کو perfect سمجھتے ہیں۔

 7)     دوسروں کے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔

 8)     سمجھتے ہیں کہ ان کو سب معلوم ہے۔

9)      دوسروں کی ناکامی پر خوش ہوتے ہیں۔

 10)   ان کو خود سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟

11)    اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں کو دیتے ہیں۔

 12)   دوسروں پر بے وجہ غصہ کرتے ہیں۔

13)    کام کو صرف اور صرف پیسہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

 14)   دل میں بغض/حسد رکھتے ہیں۔

 

Share:

11/16/22

سورۃ البقرہ کا تعارف | سورہ بقرہ کے فضائل | سورہ بقرہ کے نام | soorah baqara ka taaruf

سُوْرَۃُ الْبَقَرَہِ قران مجید میں  پہلے پارے سے شروع ہو رہی ہے۔ اس سورت میں دو سو چھیاسی (286) آیات اور چالیس (40) رکوع ہیں۔ سُوْرَۃُ الْبَقَرَہِ ہجرت مدینہ کے بعد ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی۔سورۃ البقرہ قرآن مجید کی طویل ترین سورت ہے۔  اس سورت میں بنی اسرائیل کی ایک گائے کا تذکرہ ہے جس وجہ سے اس سورت کا نام سُوْرَۃُ الْبَقَرَہِ رکھا گیا ہے۔ اس سورت کے چند نام اور بھی احادیثِ مبارکہ میں ملتے ہیں۔

۱:       سنام القرآن

۲:       فسطاط القرآن

۳:       ذروۃ القرآن

۴:       سید القرآن

فضائل:

          سُوْرَۃُ الْبَقَرَہِ میں عبادات اور معاملات سے متعلق احکام بیان ہوئے ہیں اس سورت کا سیکھنا بہت فضیلت والا عمل ہے۔ ذیل میں چند ایک احادیث مبارکہ ذکر کی جارہی ہیں:

1:      عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْفِرُ مِنْ الْبَيْتِ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ (صحیح مسلم:1824(

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ ، شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے ۔‘‘

2:      أَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِيُّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اقْرَءُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ اقْرَءُوا الزَّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ وَسُورَةَ آلِ عِمْرَانَ فَإِنَّهُمَا تَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ كَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا اقْرَءُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَكَةٌ وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ وَلَا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ قَالَ مُعَاوِيَةُ بَلَغَنِي أَنَّ الْبَطَلَةَ السَّحَرَةُ۔(صحیح مسلم:1874(

حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :’’ قرآن پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اصحاب قرآن ( حفظ و قراءت اور عمل کرنے والوں ) کا سفارشی بن کر آئے گا ۔ دو روشن چمکتی ہوئی سورتیں : البقرہ اور آل عمران پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جیسے وہ دو بادل یا دو سائبان ہوں یا جیسے وہ ایک سیدھ میں اڑتے پرندوں کی دو ڈاریں ہوں ، وہ اپنی صحبت میں ( پڑھنے اور عمل کرنے ) والوں کی طرف سے دفاع کریں گی ۔ سورہ بقرہ پڑھا کرو کیونکہ اسے حاصل کرنا باعث برکت اور اسے ترک کرنا باعث حسرت ہے اور باطل پرست اس کی طاقت نہیں رکھتے ۔‘‘ معاویہ نے کہا : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ باطل پرستوں سے ساحر ( جادوگر ) مراد ہیں

3:      النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْكِلَابِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يُؤْتَى بِالْقُرْآنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَهْلِهِ الَّذِينَ كَانُوا يَعْمَلُونَ بِهِ تَقْدُمُهُ سُورَةُ الْبَقَرَةِ وَآلُ عِمْرَانَ وَضَرَبَ لَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةَ أَمْثَالٍ مَا نَسِيتُهُنَّ بَعْدُ قَالَ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ ظُلَّتَانِ سَوْدَاوَانِ بَيْنَهُمَا شَرْقٌ أَوْ كَأَنَّهُمَا حِزْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ صَاحِبِهِمَا ( صحیح مسلم: 1876)

حضرت نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ قیامت کے دن قرآن اور قرآن والے ایسے لوگوں کو لایا جائے گا جو اس پر عمل کرتے تھے ، سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران ان کے آگے آگے ہوں گی ۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے ان سورتوں کے لیے تین مثالیں دیں جن کو ( سننے کے بعد ) میں ( آج تک ) نہیں بھولا ، آپ نے فرمایا :’’ جیسے وہ دو بادل ہیں یا دو کالے سائبان ہیں جن کے درمیان روشنی ہے یا جیسے وہ ایک سیدھ میں اڑنے والے پرندوں کی دو ٹولیاں ہیں ، وہ اپنے صاحب ( صحبت میں رہنے والے ) کی طرف سے مدافعت کریں گی

4:      عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏    مَنْ قَرَأَ الْآيَتَيْنِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ فِي لَيْلَةٍ كَفَتَاهُ  ۔(جامع ترمذی : 2881)

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رات میں سورۃ البقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھیں وہ اس کے لیے کافی ہو گئیں“

5:      عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏    لِكُلِّ شَيْءٍ سَنَامٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ سَنَامَ الْقُرْآنِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَفِيهَا آيَةٌ هِيَ سَيِّدَةُ آيِ الْقُرْآنِ هِيَ آيَةُ الْكُرْسِيِّ 

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر چیز کی ایک چوٹی ہوتی ہے ۱؎ اور قرآن کی چوٹی سورۃ البقرہ ہے، اس سورۃ میں ایک آیت ہے یہ قرآن کی ساری آیتوں کی سردار ہے اور یہ آیت آیۃ الکرسی ہے“۔ (جامع ترمذی : 2878)

6:      عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏    بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْثًا وَهُمْ ذُو عَدَدٍ فَاسْتَقْرَأَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَقْرَأَ كُلَّ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَا مَعَهُ مِنَ الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَى عَلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ مِنْ أَحْدَثِهِمْ سِنًّا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا مَعَكَ يَا فُلَانُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ مَعِي كَذَا وَكَذَا وَسُورَةُ الْبَقَرَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمَعَكَ سورة البقرة ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَاذْهَبْ فَأَنْتَ أَمِيرُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَشْرَافِهِمْ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَا مَنَعَنِي أَنْ أَتَعَلَّمَ سورة البقرة إِلَّا خَشْيَةَ أَلَّا أَقُومَ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ وَاقْرَءُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ مَثَلَ الْقُرْآنِ لِمَنْ تَعَلَّمَهُ فَقَرَأَهُ وَقَامَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏كَمَثَلِ جِرَابٍ مَحْشُوٍّ مِسْكًا يَفُوحُ رِيحُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمَثَلُ مَنْ تَعَلَّمَهُ فَيَرْقُدُ وَهُوَ فِي جَوْفِهِ، ‏‏‏‏‏‏كَمَثَلِ جِرَابٍ وُكِئَ عَلَى مِسْكٍ   (جامع ترمذی:2876)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گنتی کے کچھ لشکری بھیجے  ( بھیجتے وقت )  ان سے  ( قرآن )  پڑھوایا، تو ان میں سے ہر ایک نے جسے جتنا قرآن یاد تھا پڑھ کر سنایا۔ جب ایک نوعمر نوجوان کا نمبر آیا تو آپ نے اس سے کہا: اے فلاں! تمہارے ساتھ کیا ہے یعنی تمہیں کون کون سی سورتیں یاد ہیں؟ اس نے کہا: مجھے فلاں فلاں اور سورۃ البقرہ یاد ہے۔ آپ نے کہا: کیا تمہیں سورۃ البقرہ یاد ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ”جاؤ تم ان سب کے امیر ہو“۔ ان کے شرفاء میں سے ایک نے کہا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی! میں نے سورۃ البقرہ صرف اسی ڈر سے یاد نہ کی کہ میں اسے  ( نماز تہجد میں )  برابر پڑھ نہ سکوں گا۔ آپ نے فرمایا: ”قرآن سیکھو، اسے پڑھو اور پڑھاؤ۔ کیونکہ قرآن کی مثال اس شخص کے لیے جس نے اسے سیکھا اور پڑھا، اور اس پر عمل کیا اس تھیلی کی ہے جس میں مشک بھری ہوئی ہو اور چاروں طرف اس کی خوشبو پھیل رہی ہو، اور اس شخص کی مثال جس نے اسے سیکھا اور سو گیا اس کا علم اس کے سینے میں بند رہا۔ اس تھیلی کی سی ہے جو مشک بھر کر سیل بند کر دی گئی ہو“۔ 

 

Share:

11/12/22

صراط مستقیم کیا ہے؟ | صاحبزادہ محمدعاصم مہاروی | سیدھا راستہ | کوہ بہ کوہ نمی رسد ولے

کوہ بہ کوہ نمی رسد ولے

آدم بہ آدم می رسد

پہاڑ پہاڑ سے نہیں مل سکتا مگر آدمی آدمی سے مل سکتا ہے

 

 مُجھ سے دوست پوچھتے ہیں کہ کیسے معلوم ہو کہ ہم صحیح سمت میں جا رہے ہیں؟

تو یاد رکھیے:

رحمت العالمین سرکارِِ دو عالم ﷺ کی سمت ہی صحیح سمت ہے۔یہی اللہ تعالی کا راستہ ہے اور یہی صراطِ مستقیم ہے:

جب آپ کو خالق کی طرف سے دی گئی یہ زندگی ایک مسئلہ نہیں بلکہ ایک تحفہ اور رحمت محسوس ہونے لگے۔

جب تم یہ رحمت دوسروں میں بانٹنے لگو تو یاد رکھنا کہ یہی صحیح سمت ہے۔

جب چھوٹی چھوٹی باتیں حیران کن اہمیت پانے لگیں۔

جب ساری دنیا ہر روز زیادہ سے زیادہ راز بھری معلوم ہونے لگے۔

جب تم اپنے آپ کو کم سے کم علم والا محسوس کرنے لگو۔

جب تم تتلیوں کے پیچھے کسی معصوم بچے کی طرح بھاگنے لگو۔

جب تمہاری زبان اور تمہارے اعضاء کسی کو ضرر پہچانے سے قاصر ہونے لگیں۔

جب تم دوسروں کے لیے بھی وہ چاہنے لگو جو اپنے لیے چاہتے ہو۔

جب تم اپنے کسی بھی عمل سے قبل اپنی نیت کو ترازو میں رکھنے لگو۔

جب تم اُس بات پر دھیان دینا کم کر دو جس سے تمہارا لین دین نہیں۔ Which is not your Business

جب تم کھانا زبان کے ذائقہ کی خاطر نہیں بلکہ پیٹ کو بھرنے کے لیے کھانا شروع کر دو۔

جب تم بوڑھوں کی عزت کرنا شروع کر دو۔

جب یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھنے سے تم اپنے آپ کو مکمل محسوس کرنے لگو۔

جب تمہاری آنکھیں حیا کا تعارف بننے لگیں۔

جب تم دوسروں کے لیے خیر کی دعائیں مانگنے لگو۔

جب تمہارے دل سے فخر اور غرور رخصت ہونے لگ جائیں ۔

جب تم لوگوں کی پیٹھ پیچھے باتیں کرنا ترک کر دو۔

جب تم دوسرے کی مدد یوں کرنے لگو کہ تمہارے دوسرے ہاتھ کو بھی اس کا علم نہ ہونے پائے۔

جب تم اصل امارت مال و دولت کو نہیں بلکہ اصل امارت دل کے اطمینان کو سمجھنے لگو۔

جب تم طاقت کے ہوتے ہوئے معاف کرنے لگو۔

جب غصہ تمہیں اپنی کمزوری نظر آنے لگے۔

جب تم لوگوں کو ان کے مرتبہ کے مطابق عزت دینے لگو ۔

جب تم موت کو اکثر یاد رکھنے لگو۔

جب تم خدائے مُحَمَّد ﷺ کی یوں پرستش کرنے لگو کہ وہ تمہیں ہر لمحہ دیکھ رہا ہے اور ہر لمحہ تمہارے قریب ہے۔

تو یاد رکھنا کہ تم صحیح سمت پر ہو۔

صاحبزادہ محمدعاصم مہاروی 

Share:

11/11/22

ان صحبۃ الاشرار تورث | کشف المحجوب | برے لوگوں کی صحبت | بری صحبت کے اثرات | صوفی کون ہوتا ہے

یہ بات متفق علیہ ہے بلکہ یقینی اور موجودہ دور کے لوگوں کے موافقِ حال ہے جو عام طور پر محبوبانِ بارگاہ کے منکر اور اس کی وجہ یہ ہے کہ رسمی صوفیوں کی مجالس میں عوام بیٹھے اور ان کے ہر کام میں انہیں خیانت نظر آئی اور ان کے زبانوں پر دروغ بے فروغ پایا اور دوسروں کی غیبت کرتے سنا اور ان کے کان دو پیت اور ہزلیات پر لگے  ہوئے دیکھے۔ ان کی آنکھیں لہو و لعب اور شہوت پرستی پر لگی ہوئی دیکھیں اور ان کی تمام تر کوششیں حرام و مشتبہ مال جمع کرنے میں صرف پائیں۔ تو انھوں نے خیال کر لیا کہ صوفی عام طور پر ایسے ہی ہوتے ہیں اور ان کا عمل اور مجاہدہ یہی ہے۔ بلکہ صوفیا کا یہی مذہب ہے۔ حالاں کہ یہ بالکل غلط اور اتہام ہے۔ بلکہ صوفیوں کے تمام افعال اطاہت الہی پر ہیں اور ان کی زبان کلامِ حق اور ثمرِ محبت حق حٓصل کرنے میں کھلتی ہے۔ ان اکے ضمیروں میں خالص محبتِ الہی بھری ہوئی  ہوتی ہے۔ ان کے کان سماعِ حق کے محل اور حقیقت نیوش ہوتے ہیں۔ ان کی آنکھیں مشاہدۂِ جمالِ یار کو کھلی ہوتی ہیں۔ ان کی سعی و کوشش تمام حصول اسرارِ خفیہ پر ہوتی ہے۔ اور وہ رازِ مخفی کے دیکھنے میں مجاہدہ کرتے ہیں۔

        اگر کوئی قوم ایسی ظاہر ہو جائے کہ صوفیاء کے زمرے میں مل کر ان کی سی رفتار و گفتار میں خیانت کرے تو ان کی خیانت کا اثر ان پر پڑے گا نہ ان احرارِ جہان اور سادات ِ زمان پر۔یاد رکھو ! جو شریر لوگوں سے صحبت رکھے گا وہ اپنی شرارتِ نفس کے ماتحت ہو گا اور اگر اس میں بھلائی اور نیکی ہو گی تو وہ اخیار                   کے ساتھ صحبت پسند کرے گا۔

کند ہم جنس باہم جنس پرواز

کبوتر با کبوتر باز با باز

تو ایسے منکر جو خاصانِ بارگاہ سے بد ظن ہو گئے ، وہ مکاروں کی اقتدا میں خراب ہو ئے۔ 

 

Share:

11/5/22

دم کروانا | دم کی شرعی حیثیت | دم کرنا کیسا ہے؟ | دم کرنے کی اجرت لینا

دم کروانا  ،  دم کرنا

شرعی طور پر جائز ہے۔ کوئی ممانعت نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ خوداپنے ہاتھ پر دم کر کے سینے پر پھیرا کرتے تھے( صحیح بخاری:5735)  اور اپنے نواسوں جناب حسنین کریمین علیھما السلام کو دم کیا کرتے تھے۔  (ابن ماجہ:3525)

سورۃ الفاتحۃ:

          عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ :    انْطَلَقَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفْرَةٍ سَافَرُوهَا حَتَّى نَزَلُوا عَلَى حَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ ، فَاسْتَضَافُوهُمْ ، فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمْ ، فَلُدِغَ سَيِّدُ ذَلِكَ الْحَيِّ ، فَسَعَوْا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ ، لَا يَنْفَعُهُ شَيْءٌ ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ : لَوْ أَتَيْتُمْ هَؤُلَاءِ الرَّهْطَ الَّذِينَ نَزَلُوا لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ عِنْدَ بَعْضِهِمْ شَيْءٌ فَأَتَوْهُمْ ، فَقَالُوا : يَا أَيُّهَا الرَّهْطُ ، إِنَّ سَيِّدَنَا لُدِغَ وَسَعَيْنَا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ لَا يَنْفَعُهُ ، فَهَلْ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْكُمْ مِنْ شَيْءٍ ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ : نَعَمْ ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْقِي ، وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَضَفْنَاكُمْ فَلَمْ تُضَيِّفُونَا ، فَمَا أَنَا بِرَاقٍ لَكُمْ حَتَّى تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا فَصَالَحُوهُمْ عَلَى قَطِيعٍ مِنَ الْغَنَمِ ، فَانْطَلَقَ يَتْفِلُ عَلَيْهِ ، وَيَقْرَأُ : الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 ، فَكَأَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ فَانْطَلَقَ يَمْشِي وَمَا بِهِ قَلَبَةٌ ، قَالَ : فَأَوْفَوْهُمْ جُعْلَهُمُ الَّذِي صَالَحُوهُمْ عَلَيْهِ ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ : اقْسِمُوا ، فَقَالَ : الَّذِي رَقَى ، لَا تَفْعَلُوا حَتَّى نَأْتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَنَذْكُرَ لَهُ الَّذِي كَانَ فَنَنْظُرَ مَا يَأْمُرُنَا ، فَقَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرُوا لَهُ ، فَقَالَ : وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ ، ثُمَّ قَالَ : قَدْ أَصَبْتُمُ اقْسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ سَهْمًا ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ:  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم سفر میں تھے۔ دوران سفر میں وہ عرب کے ایک قبیلہ پر اترے۔ صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے انہیں اپنا مہمان بنا لیں، لیکن انہوں نے مہمانی نہیں کی، بلکہ صاف انکار کر دیا۔ اتفاق سے اسی قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا، قبیلہ والوں نے ہر طرح کی کوشش کر ڈالی، لیکن ان کا سردار اچھا نہ ہوا۔ ان کے کسی آدمی نے کہا کہ چلو ان لوگوں سے بھی پوچھیں جو یہاں آ کر اترے ہیں۔ ممکن ہے کوئی دم جھاڑنے کی چیز ان کے پاس ہو۔ چنانچہ قبیلہ والے ان کے پاس آئے اور کہا کہ بھائیو! ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ اس کے لیے ہم نے ہر قسم کی کوشش کر ڈالی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز دم کرنے کی ہے؟ ایک صحابی نے کہا کہ قسم اللہ کی میں اسے جھاڑ دوں گا لیکن ہم نے تم سے میزبانی کے لیے کہا تھا اور تم نے اس سے انکار کر دیا۔ اس لیے اب میں بھی اجرت کے بغیر نہیں جھاڑ سکتا، آخر بکریوں کے ایک گلے پر ان کا معاملہ طے ہوا۔ وہ صحابی وہاں گئے اور الحمد لله رب العالمين پڑھ پڑھ کر دم کیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے کسی کی رسی کھول دی گئی ہو۔ وہ سردار اٹھ کر چلنے لگا، تکلیف و درد کا نام و نشان بھی باقی نہیں تھا۔ بیان کیا کہ پھر انہوں نے طے شدہ اجرت صحابہ کو ادا کر دی۔ کسی نے کہا کہ اسے تقسیم کر لو، لیکن جنہوں نے جھاڑا تھا، وہ بولے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پہلے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کر لیں۔ اس کے بعد دیکھیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم دیتے ہیں۔ چنانچہ سب حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تم کو کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ بھی ایک رقیہ ہے؟ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے ٹھیک کیا۔ اسے تقسیم کر لو اور ایک میرا حصہ بھی لگاؤ۔ یہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے (صحیح بخاری:2276)

 

 

Share:

سورۃ الفاتحہ کا تعارف | سورہ فاتحہ کے نام | سورۃ فاتحہ کے فضائل soorah fatiha ke fazail

سورۃ الفاتحۃ قرآن مجید کی ترتیب  توقیفی کے لحاظ سے پہلی سورت ہے۔ترتیب نزولی کے اعتبار سے اس سورت کا  نمبر پانچ (5) ہے یہ سورت سورۃ المدثر کے بعد نازل ہوئی۔یہ قرآن مجید کے پہلے پارے میں ہے۔ اس سورت میں ایک (1) رکوع اور سات(7) آیات ہیں۔ اس سورت میں پہلی آیت تسمیہ یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم کو شامل کیا جاتا ہے۔ یہ سورت دو مرتبہ نازل ہوئی ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں اور دوسری مرتبہ مدینہ منورہ میں  تحویل قبلہ کے وقت ،پہلی بار مکہ مکرمہ میں نازل ہونے کی وجہ سے مکی ہی کہا جاتا ہے۔ اس سورت کے بہت سے نام ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

          1:      ام القرآن

          2:      ام الکتاب

          3:      سورۃ الحمد

          4:      السبع المثانی

          5:      فاتحہ الکتاب

          6:      الکافیہ

          7:      الوافیہ

          8:      الشفاء

          9:      سورۃ الدعاء

          10:    سورۃ الالصلوٰۃ                                   (ان اسماء کی تشریح کے لیے تفاسیر کا مطالع کریں)

سورۃ الفاتحۃ کے بے شمار فضائل زبان نبویہ ﷺ سے وارد ہوئے ہیں۔

          عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏    يَا أُبَيُّ وَهُوَ يُصَلِّي فَالْتَفَتَ أُبَيٌّ وَلَمْ يُجِبْهُ وَصَلَّى أُبَيٌّ فَخَفَّفَ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَعَلَيْكَ السَّلَامُ مَا مَنَعَكَ يَا أُبَيُّ أَنْ تُجِيبَنِي إِذْ دَعَوْتُكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي كُنْتُ فِي الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَفَلَمْ تَجِدْ فِيمَا أَوْحَى اللَّهُ إِلَيَّ أَنِ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ سورة الأنفال آية 24، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏وَلَا أَعُودُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَتُحِبُّ أَنْ أُعَلِّمَكَ سُورَةً لَمْ يَنْزِلْ فِي التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الْإِنْجِيلِ وَلَا فِي الزَّبُورِ وَلَا فِي الْفُرْقَانِ مِثْلُهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ كَيْفَ تَقْرَأُ فِي الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَرَأَ أُمَّ الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أُنْزِلَتْ فِي التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الْإِنْجِيلِ وَلَا فِي الزَّبُورِ وَلَا فِي الْفُرْقَانِ مِثْلُهَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهَا سَبْعٌ مِنَ الْمَثَانِي، ‏‏‏‏‏‏وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُعْطِيتُهُ  

ترجمہ:  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابی بن کعب رضی الله عنہ کے پاس سے گزرے وہ نماز پڑھ رہے تھے، آپ نے فرمایا: ”اے ابی  ( سنو )  وہ  ( آواز سن کر )  متوجہ ہوئے لیکن جواب نہ دیا، نماز جلدی جلدی پوری کی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: السلام علیک یا رسول اللہ!  ( اللہ کے رسول آپ پر سلامتی نازل ہو ) ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: وعلیک السلام  ( تم پر بھی سلامتی ہو )  ابی! جب میں نے تمہیں بلایا تو تم میرے پاس کیوں نہ حاضر ہوئے؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: ” ( اب تک )  جو وحی مجھ پر نازل ہوئی ہے اس میں تجھے کیا یہ آیت نہیں ملی استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم ”اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ، جب کہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں“  ( انفال ۲۴ ) ، انہوں نے کہا: جی ہاں، اور آئندہ إن شاء اللہ ایسی بات نہ ہو گی۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں پسند ہے کہ میں تمہیں ایسی سورت سکھاؤں جیسی سورت نہ تو رات میں نازل ہوئی نہ انجیل میں اور نہ زبور میں اور نہ ہی قرآن میں؟“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول!  ( ضرور سکھائیے )  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز میں تم  ( قرآن )  کیسے پڑھتے ہو؟“ تو انہوں نے ام القرآن  ( سورۃ فاتحہ )  پڑھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ تورات میں، انجیل میں، زبور میں  ( حتیٰ کہ )  قرآن اس جیسی سورت نازل نہیں ہوئی ہے۔ یہی سبع مثانی ۲؎  ( سات آیتیں )  ہیں اور یہی وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے“۔(جامع ترمذی: 2875)

          عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ :    انْطَلَقَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفْرَةٍ سَافَرُوهَا حَتَّى نَزَلُوا عَلَى حَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ ، فَاسْتَضَافُوهُمْ ، فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمْ ، فَلُدِغَ سَيِّدُ ذَلِكَ الْحَيِّ ، فَسَعَوْا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ ، لَا يَنْفَعُهُ شَيْءٌ ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ : لَوْ أَتَيْتُمْ هَؤُلَاءِ الرَّهْطَ الَّذِينَ نَزَلُوا لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ عِنْدَ بَعْضِهِمْ شَيْءٌ فَأَتَوْهُمْ ، فَقَالُوا : يَا أَيُّهَا الرَّهْطُ ، إِنَّ سَيِّدَنَا لُدِغَ وَسَعَيْنَا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ لَا يَنْفَعُهُ ، فَهَلْ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْكُمْ مِنْ شَيْءٍ ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ : نَعَمْ ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْقِي ، وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَضَفْنَاكُمْ فَلَمْ تُضَيِّفُونَا ، فَمَا أَنَا بِرَاقٍ لَكُمْ حَتَّى تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا فَصَالَحُوهُمْ عَلَى قَطِيعٍ مِنَ الْغَنَمِ ، فَانْطَلَقَ يَتْفِلُ عَلَيْهِ ، وَيَقْرَأُ : الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 ، فَكَأَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ فَانْطَلَقَ يَمْشِي وَمَا بِهِ قَلَبَةٌ ، قَالَ : فَأَوْفَوْهُمْ جُعْلَهُمُ الَّذِي صَالَحُوهُمْ عَلَيْهِ ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ : اقْسِمُوا ، فَقَالَ : الَّذِي رَقَى ، لَا تَفْعَلُوا حَتَّى نَأْتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَنَذْكُرَ لَهُ الَّذِي كَانَ فَنَنْظُرَ مَا يَأْمُرُنَا ، فَقَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرُوا لَهُ ، فَقَالَ : وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ ، ثُمَّ قَالَ : قَدْ أَصَبْتُمُ اقْسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ سَهْمًا ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ:  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم سفر میں تھے۔ دوران سفر میں وہ عرب کے ایک قبیلہ پر اترے۔ صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے انہیں اپنا مہمان بنا لیں، لیکن انہوں نے مہمانی نہیں کی، بلکہ صاف انکار کر دیا۔ اتفاق سے اسی قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا، قبیلہ والوں نے ہر طرح کی کوشش کر ڈالی، لیکن ان کا سردار اچھا نہ ہوا۔ ان کے کسی آدمی نے کہا کہ چلو ان لوگوں سے بھی پوچھیں جو یہاں آ کر اترے ہیں۔ ممکن ہے کوئی دم جھاڑنے کی چیز ان کے پاس ہو۔ چنانچہ قبیلہ والے ان کے پاس آئے اور کہا کہ بھائیو! ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ اس کے لیے ہم نے ہر قسم کی کوشش کر ڈالی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز دم کرنے کی ہے؟ ایک صحابی نے کہا کہ قسم اللہ کی میں اسے جھاڑ دوں گا لیکن ہم نے تم سے میزبانی کے لیے کہا تھا اور تم نے اس سے انکار کر دیا۔ اس لیے اب میں بھی اجرت کے بغیر نہیں جھاڑ سکتا، آخر بکریوں کے ایک گلے پر ان کا معاملہ طے ہوا۔ وہ صحابی وہاں گئے اور الحمد لله رب العالمين پڑھ پڑھ کر دم کیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے کسی کی رسی کھول دی گئی ہو۔ وہ سردار اٹھ کر چلنے لگا، تکلیف و درد کا نام و نشان بھی باقی نہیں تھا۔ بیان کیا کہ پھر انہوں نے طے شدہ اجرت صحابہ کو ادا کر دی۔ کسی نے کہا کہ اسے تقسیم کر لو، لیکن جنہوں نے جھاڑا تھا، وہ بولے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پہلے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کر لیں۔ اس کے بعد دیکھیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم دیتے ہیں۔ چنانچہ سب حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تم کو کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ بھی ایک رقیہ ہے؟ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے ٹھیک کیا۔ اسے تقسیم کر لو اور ایک میرا حصہ بھی لگاؤ۔ یہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے (صحیح بخاری:2276)

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ بَيْنَمَا جِبْرِيلُ قَاعِدٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ نَقِيضًا مِنْ فَوْقِهِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ هَذَا بَابٌ مِنْ السَّمَاءِ فُتِحَ الْيَوْمَ لَمْ يُفْتَحْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ فَنَزَلَ مِنْهُ مَلَكٌ فَقَالَ هَذَا مَلَكٌ نَزَلَ إِلَى الْأَرْضِ لَمْ يَنْزِلْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ فَسَلَّمَ وَقَالَ أَبْشِرْ بِنُورَيْنِ أُوتِيتَهُمَا لَمْ يُؤْتَهُمَا نَبِيٌّ قَبْلَكَ فَاتِحَةُ الْكِتَابِ وَخَوَاتِيمُ سُورَةِ الْبَقَرَةِ لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِنْهُمَا إِلَّا أُعْطِيتَهُ

ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک انھوں نے اوپر سے ایسی آواز سنی جیسی دروازہ کھلنے کی ہوتی ہے تو انھوں نے اپنا سر اوپر اٹھایا اور کہا : آسمان کا یہ دروازہ آج ہی کھولا گیا ہے ، آج سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا ، اس سے ایک فرشتہ اترا تو انھوں نے کہا : یہ ایک فرشتہ زمین پر اترا ہے ، یہ آج سے پہلے کبھی نہیں اترا ، اس فرشتے نے سلام کیا اور ( آپ ﷺ سے ) کہا : آپ کو دو نور ملنے کی خوش خبری ہو جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیئے گئے : ( ایک ) فاتحۃ الکتاب ( سورہ فاتحہ ) اور ( دوسری ) سورہ بقرہ کی آخری آیات ۔ آپ ان دونوں میں سے کوئی جملہ بھی نہیں پڑھیں گے مگر وہ آپ کو عطا کر دیا جائے گا ۔ (صحیح مسلم : 1877/806)

 

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive