Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

3/31/20

دل کے معاملات سے انجان تو نہ تھا



دل کے معاملات سے انجان تو نہ تھا
اس گھر کا فرد تھا کوئی مہمان تو نہ تھا

تھی جن کے  دم سے رونقیں شہروں میں جا بسے
ورنہ ہمارا گاؤں یوں ویران تو نہ تھا

باہوں جب لیا اسے نادان تھا ضرور
جب چھوڑ کر گیا ہمیں نادان تو نہ تھا

کٹ تو گیا ہے کیسے کٹا یہ نہ پوچھیے
یارو سفر حیات کا آسان تو نہ تھا

رسماً  ہی آ کے پوچھتا فاروق حالِ دل
کچھ اس میں اس کی ذات کا نقصان تو نہ تھا

Share:

3/26/20

قرنطینہ کا تصور اوراحادیث مبارکہ: درس حدیث


طبی مقاصد کے لیے اپنے آپ کو محصور کر لینا :
عن عائشہ رضی اللہ عنھا انھا  قالت سالتُ  رسول َاللہ ﷺ عن الطاعون فاخبرنی رسول اللہ ﷺ انہ کان عذاباً یبعثہ اللہ تعالی علی من یشاء فجعلہ رحمۃ للمؤمنین فلیس من رجل یقع الطاعون فیمکث فی بیتہ صابراً محتسباً یعلم انہ لایصیبہ الا ما کتب اللہ لہ الا کان لہ مثل اجر الشھید۔ ( مسند امام احمد بن حنبل)
ترجمہ:سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا طاعون ایک عذاب تھا اللہ تعالی جس پر چاہتا بھیجتا تھا ، اور اس امت کے لیے اس نے رحمت بنا دیا ہے  تو جو شخص زمانہ طاعون میں اپنے گھر میں صبر کرے اور طلبِ ثواب کے لیے اس اعتقاد کے ساتھ  ٹھہرا رہے  کہ اسے وہی پہنچے گا جو اللہ تعالی نے اس کے لیے  لکھ دیا ہے۔ تو اس کے لیے شہید کا ثواب ہے۔
بخاری کتاب الطب میں یہ الفاظ موجود ہیں ، لیس من عبد یقع الطاعون فینکث فی بلدہ صابراً محتسباً ( بخاری کتاب الطب)
ترجمہ: کوئی ایسا بندہ نہیں کہ طاعون واقع ہو اور وہ اپنے شہر میں صبر کے ساتھ ٹھہرا رہے۔
بخاری شریف کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں ، لیس من احد یقع الطاعون فیمکث فی بلدہ صابراً محتسباً ( بخاری کتاب الانبیاء باب حدیث الغار)
ترجمہ: کوئی ایسا شخص نہیں کہ طاعون واقع ہو پھر وہ اپنے شہر میں صبر کرتے ہوئے ثواب کی خاطر ٹھہرا رہے۔

Share:

3/18/20

بیماری کا متعدی ہونا: لاعدوی و لاطیرہ: اک وضاحت




الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ والسلام علی اشرف الانبیاء و المرسلین۔و علی آلہ و اصحابہ اجمعین۔
کرونا وائرس  : ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا عقیدہ ہے کہ یہ، اللہ کے عذاب میں سے ایک عذاب  بھی ہو سکتا اور اللہ تعالی کی آزمائشوں میں سے ایک آزمائش بھی ہو سکتی ہے۔دونوں صورتوں میں اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا استغفار کا کثرت کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ یہ کیوں پھیلتا ہے ، کیسے پھیلتا ہے، کیا کھایا ، کیا نہیں کھایا  کہ جس کی وجہ سے یہ بیماری پھیلی ایک مسلمان کو یہ ساری بحثیں زیب نہیں دیتیں۔ بس ضروری ہے کہ ہم اللہ تعالی کی طرف سچے دل سے مخلص ہو کر رجوع کریں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔
        اللہ تعالی کا امر ہو کر رہتا ہے اللہ تعالی کی مرضی ، اور اس کے حکم کے سامنے انسان کی ساری تدبیریں ناکام و نا مراد ہوتی ہیں ۔ مگر جہاں تک تعلق احتیاطی تدابیر کرنے کا حکم ہے تو ہمیں رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور فرامین سے واضح ہدایات ملتی ہیں ۔ یہاں پر ایک تذبذب کی  سی صورت یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی تقدیر  یعنی اس کی قضا ء اور تدبیر کرنے کو اکثر ملایا جاتا ہے ،تو یاد رہے یہ دونوں الگ الگ عنوان ہیں جیسے موت اللہ تعالی کا حکم اور قضاء ہے مگر ایک بیمار آدمی کے لیے علاج معالجہ کا اہتمام کرنا یہ تدبیر ہے ۔اب اگر بیمار کو چھوڑ دیا جائے اورعلاج نا کروایا جائے  یہ کہا جائے کہ موت تو آ کر رہے گی یا شفاء اللہ کی طرف سے اگر ملنی ہے تو مل جائے گی تو یہ بھی تعلیماتِ اسلامیہ کے خلاف ہے۔ اللہ تعالی کی ذات پر بھروسہ کرنا اور تدبیر اختیار نہ کرنا رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا جیسے  : ایک آدمی آیا اس سے رسول اللہ ﷺ نے پوچھا سواری کا کیا کیا تو عرض کیا کہ  میں اسے کھلا چھوڑ آیا ہوں اللہ پر توکل کر کے، تو رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا یہ توکل نہیں پہلے اس کو باندھو پھر اللہ تعالی پر توکل کرو ۔ تو اس روایت یہ امر واضح ہوا کہ احتیاطی تدابیر لینا یہ اسلامی تعلیمات میں ایک اہم معاملہ ہے۔
        اس  کرونا بیماری کے حوالے سے لوگوں میں یہ الجھن پائی جاتی ہے کہ لوگوں سے ملنے  کو کیوں منع کیا جا رہا ہے، مساجد سے کیوں روکا جا رہا ہے، سلام اور مصافحہ کرنے سے منع کیا جا رہا ہے، طواف کو روک دیا گیا، جمعہ اور مذہبی اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی ، لوگوں کے سماجی اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی ، ایسا کیوں کیا جا رہا جبکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی بیماری متعدی نہیں ہے کہ ایک انسان سے دوسرے انسان کو لگ جائے ایسا نہیں ہے تو یہ بیانیہ مذہبی طبقہ کی طرف سے ہی پیش کیا جا رہا ، جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق ہم لوگوں کو نصیحتیں کرتے نظر آتے جیسے مدینہ میں رات کے وقت ایک گھر میں آگ لگ گئی تو صبح رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو بڑے پیارے انداز میں نصیحت فرمائی کہ رات کو آگ بجھا کر سویا کرو، کیا محبت اور درد ہے ان الفاظ میں اور کیا محبت کے امت سے۔
جہاں تک بات متعدی ہونے یا نہ ہونے کی تو وبا کے معاملے میں رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ پیش خدمت ہیں:
        فاِذا کان بِارض و انتم بھا فلا تخرجوا منھا و اذا بلغکم انہ بارض فلا تدخلوا ھا (مسلم)
ترجمہ: پس جب یہ (طاعون) وبا کسی علاقے میں پھیل جائے اور تم اس میں موجود ہو تو اس علاقے سے باہر نہ جاؤ اور اگر تم اس سے باہر ہو اور تمہیں معلوم ہووبا کا تواس شہر میں داخل نہ ہو۔
ایک اور متفق علیہ حدیث پاک میں ہے رسول اللہ ﷺ نےا رشاد فرمایا : اِ ذا سمعتم  بہ  بارض  فلاتقدموا علیہ  (مسلم و بخاری)
یعنی جب تم سنو کہ کسی علاقے میں وبا پھیل گئی ہے تو اس علاقے کی طرف نہ جاؤ۔
        درج بالا احادیث میں رسول اللہ ﷺ کے واضح ارشادات ہیں کہ نہ اس علاقے میں جاو اور نا وہاں سے نکلو۔ نکلنے اور داخل ہونے سے کیوں منع کیا جا رہا ہے ۔ یہ بات ضرور غور سے سمجھیں اور سوچیں کہ کیوں۔۔۔۔۔۔۔
ایک حدیث پاک یہ بھی ہے رسول اللہ ﷺ  نے ارشاد فرمایا  : لاعدوی ولا طیرۃ ترجمہ: بیماری کا لگنا یعنی متعدی ہونا اور بد شگونی لینا لغو کام ہیں۔
صحیح حدیث پاک کی تعلیم ہے کہ کوئی مرض اڑ کر یا ایک سے دوسرے کو نہیں لگتا۔ اس حدیث پاک میں بیماری کے متعدی ہونے کی نفی کی گئی ہے مگر جب ہم جدید دور میں میڈیکل کی ترقی یافتہ شکل میں اس چیز کو دیکھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بہت سی ایسی بیماریاں ہیں مثلا چیچک، خارش، جذام، منہ اور بغل کی بو، اور آشوبِ چشم وغیرہ ایسی بیماریان ہیں جو ایک سے دوسرے کو منتقل ہو جاتی ہیں۔ اب یہاں ایک الجھن یہ پیدا ہوتی ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے فرمانِ عالی شان کو جھٹلا نہیں سکتے اور دوسرے طرف ایک چیز جسے آج انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے وہ بھی حقیقت ہے  اب ان دونوں صورتوں میں کیا کیا جائے؟۔
        دراصل یہ حدیثِ پاک جس میں فرمایا گیا   ’’لاعدوی‘‘   (کوئی چھوت چھات نہیں) اس حدیث پاک  میں اس باطل عقیدے کا رد کیا گیا ہے کہ ایک بیمار کے پاس بیٹھنے  سے یا  پاس رہنے سے دوسرا تندرست آدمی بھی بیمار ہو جاتا ہے ۔ چونکہ اسلام کا نقطہ نظر یہ ہے کہ بیماری اور شفاء اللہ تعالی کی طرف سے ہوتی ہے اور اسی بات کو راسخ کرنے کے لیے فرمایا گیا ہے کہ کوئی چھوت کی بیماری نہیں ہوتی بلکہ سب بیماریاں اللہ تعالی کی طرف سے ہوتی ہیں۔ لیکن اس بات کی نفی نہیں کی گئی کہ ایک بیماری کے اسباب کی وجہ سے دوسرے تندرست کو بیماری لگ جائے جیسےبخاری شریف میں  ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : بیمار اونٹوں والاشخص اپنے اونٹوں کو ہمارے تندرست اونٹوں کے قریب نہ لائے۔ اسی طرح ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ ’’ جذام کے بیماری والے سے اس طرح بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو‘‘ اور اسی طرح ابتداء میں ذکر کی گئی احادیث  میں کہ نہ شہر سے نکلو اور نہ باہر والے شہر میں داخل ہوں ان  احادیث میں ان اسباب  (جرثوموں) سے بچنے کی تلقین  ہے جن سے بیماری لگ سکتی ہے۔ تو ان وبائی بیماریوں میں احتیاط کرنا اور ان وبائی بیماریوں والوں سے بچنا  اور احتیا ط برتنا  بھی عین اسلامی تقاضا ہے ۔
اختتامیہ: جن احادیث میں نفی کی گئی ہے وہاں عقیدہ کی اصلاح مقصود تھی کہ سب بیماریاں اللہ تعالی کی طرف سے ہوتی ہیں  اگر اللہ چاہے تو بیماری کو نہ پھیلنے دے اور جن احادیث میں بچنے کی تلقین کی گئی ہے وہاں ان اسباب سے بچنے کی تلقین کی گئی جن سے بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہوتا ہے۔
محمد سہیل عارف معینیؔ
Share:

3/13/20

تقوی کیا ہے؟ بیان ڈاکٹر طاہر القادری


اللہ رب العزت نے ہمیں اس دنیا میں بھیجا ور ساتھ سامان دیا۔ ہمیں نفس دیا، دل دیا  ، روح دی اور ہمیں عقل دی تو یہ سارا سامان دیا۔ جس کے ساتھ ہماری زندگی چلتی ہے۔ کچھ چیزیں نفس کے زریعے ہوتی ہیں کچھ چیزیں  روح کے ذریعے کچھ عقل کے ذریعے اور کچھ دل کے ذریعے۔ جسم آیا تو جسم تو خاک میں چلا جائے گا اور باقی چیزیں اللہ کے ہاں چلی جائیں گی ، جب آپ قبر میں رکھیں گے میت کو تو جسم خاک سے آیا تھا اور خاک میں چلا جائے گا ۔مل کے،  گھل کے ختم ہو جائے گا ۔ روح اللہ کی طرف سے آئی تھی اللہ کی طرف جانا ہے۔ آپ ایک روح پر ہی توجہ مرکوز کر لیں تا کہ سمجھنا آسان ہو جائے۔ جسم اور روح دو چیزیں ہیں جسم آ پ آنکھوں سے دیکھتے ہیں  آپ مٹی میں رکھ آتے ہیں وہ مٹی میں مٹی ہو جاتا ہے اور روح خاک نہیں ہوتی وہ اللہ کی طرف چلی جاتی ہے۔تقوی کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی چاہتا ہے کہ اے میرے بندے جب میں نے تجھے دنیا میں بھیجا تو اپنی طرف سے روح دی تھی تجھے و نفخت فیہ من روحی۔ میں نے اپنی طرف سے روح دی تھی تمہیں۔تمہارے اندر روح پھونکی تھی ۔ تقوی یہ ہے کہ جو روح میں نے تجھے جس حال میں دی تھی اسی حال میں مجھے واپس لوٹا۔اسے کرپٹ کر کے داغدار کر کے، تاریک کر کے نا لوٹا،خراب کر کے نا لوٹا۔ جس طرح روشن ، منور ، مزین ، پاکیزہ، طاقت ور، میرا ذکر کرتی ، چمکتی، دمکتی روح میں نے تیرے اندر ڈالی تھی  میری روح یعنی میرا سامان مجھے اسی حال میں لوٹا جس حال میں میں نے تجھے عطا کیا تھا ۔ جو بندہ اس روح کو اسی حال میں بر قرار رکھے جس حال میں اللہ سے لی تھی اس حال میں پلٹائے یہ اصلِ تقوی ہے۔
 مثال کے طور آپ نے کسی سے کار یا موٹر سائیکل لی تو یہ قاعدہ اور کلیہ ہے کہ جس حال میں لی تھی اسی حال میں اسے واپس کی جائے  حتی کی اس کی ٹینکی میں پیٹرول اور ڈیزل بھی اتنا ہی ڈلوا کے واپس کیا جائے۔اور اگر اس کا کوئی نقصان ہو جائے اکسیڈینٹ ہو جائے تو اس کے بدلے میں اس کا خرچ اس کو ادا کرتے ہیں اور اس کے نقصان کو پورا کرتے ہیں بس وہ نقصان کو پورا کرنا اور رقم کی ادائیگی یا اس گاڑی کی ڈینٹنگ پینٹنگ ہی عذاب ہوتا ہے۔
مالک سے جو چیز آپ لیتے ہیں استعمال کے لیے تو قاعدہ یہ ہے کہ اسی حال میں چیز اس کو لوٹاتے ہیں۔ اگر خراب ہوتی ہے تو اس پر جرمانہ ہوتا ہے اس کا معاوضہ دینا ہوتا ہے ۔ اسی طرح اے بندے اللہ نے تمہیں عقل دی پاکیزہ جوہر کے طور پر  اس کو آپ نے گندہ کر دیا خراب کر دیا ، اس کو مکار بنا دیا ، عیار بنا دیا، اس کو بے ایمان بنا دیا تو اللہ قبول نہیں کرے گا فرمائے گا میں نے یہ ایسی  عقل تو نہیں دی تھی ،مجھے اس حا ل میں پاکیزہ عقل لوٹا، جس حال میں پاکیزہ روح دی تھی اسی حال میں لوٹا ، جس حال میں نفس دیا تھا اسی حال میں لوٹا ، جیسا روشن دل دیا تھا اسی طرح منور دل لوٹا ،لہذا جس بندے کو یہ فکر رہے کہ یہ چیزیں اللہ نے مجھے امانت کے طور پر دی ہیں میں تو کرائے دار ہوں ، میں تو بس استعمال کر رہا ہوں اللہ نے استعمال کے لیے دی ہیں اللہ نے مجھے اس کا مالک نہیں بنایا ، اگر مالک ہوتے تو جیسے چاہتے غلط، صحیح استعما ل کرتے  کوئی پوچھنے والا نہیں تھا ، مگر ہم تو کسی چیز کے مالک ہی نہیں ہیں۔ ہمیں تو امانت دی ہے استعمال کرنے کے لیے مالک تو اللہ ہے جس نے دیا اسی کو جانا ہے یہ مانا ہے اس جملہ قرآنی کا
اناللہ واناالیہ راجعون
ہم اس جملے کو استعمال کرتے ہیں صرف موت کے لئے، کہ ہم اللہ کی طرف سے آئے اللہ کے لیے تھے اور اللہ کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔ ہم نے استعمال موت کے ساتھ کر دیا اگر موت سے نکال کر اس کو زندگی پر استعمال کیا جائے کہ ہم اللہ کی طرف سے آئےاور اللہ کی طرف ہی پلٹ کر جانا ہےتو تقویٰ نصیب ہو جائے۔ اللہ کی طرف سے آئے تھے اور اللہ کی طرف ہی لوٹ  کر جانا ہے تو چونکہ اللہ کی طرف پلٹ کر جانا ہے تو ہر چیز کو اللہ دیکھے گااے بندے میں نے تمہیں آنکھیں دی تھیں آنکھیں کیسے استعمال کیں، کان دیے تھے کیسے استعمال کئے، دل کو کیسے رکھا، نفس کو کیسے رکھا، عقل کو کیسے رکھا، ظاہر و باطن کو کیسے رکھا، مالک کو ہر چیز جانی ہےلہذا اس دنیا میں استعمال کرتے ہوئے ہر چیز کا خیال رکھیں کہ اللہ کی ملکیت ہے اس کو بگڑنے نہ دیں  نا ظاہر کو  نا باطن کو۔ اگر یہ اس حال پر برقرار رکھنے کی فکر آجائے تو اس کو ہی تقوی کہتے ہیں۔
Share:

میرا جسم میری مرضی: کالم نگار :حسن نثار


میرا جسم میری مرضی: کالم نگار :حسن نثار
بالکل صحیح بات ہے۔۔۔۔۔ سو فیصد درست۔ اگر جسم تمہارا ہے تو مرضی بھی یقیناً تمہاری چلنی چاہیے۔ لیکن کیا یہ واقعی جسم تمہارا ہے۔ یا خالق و مالک و رازق کی امانت ہے جو چند سانسوں ، چند سالوں کےلیے بطور امانت  تمہیں سونپا گیا ہےتو خود ہی سوچ لو دیانت کا تقاضا کیا ہے
جان، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
جسم ہمارا تمہارا ہوتا تو خود کشی حرام نہ ہوتی۔یہاں کچھ بھ ہمارا تمہارا نہیں ہے۔ کیا ہم اپنی مرضی سے پیدا ہوتے ہیں؟ کیا ہمیں ماں باپ کے انتخاب کا اختیار ہوتا ہے؟ کیا ہم بہن بھائی خود منتخب کرتے ہیں؟ کیا ہم پیدا ہونے کے لیے گھر، خاندان ، شہر ، ملک یہاں تک کہ مذہب کا بھی اختیار رکھتے ہیں؟ کیا ہمیں اپنی شکل و صورت ، رنگ ، جسامت ، افتادِ طبع پر کسی بھی قسم کا اختیار ہے؟ کیا موت ہمارے اختیار میں ہے؟ نہیں۔۔۔۔ ہر گز نہیں۔۔۔اے انسان ! جسم تو کیا۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں کچھ بھی ہمارا نہیں کہ ہم تو اپنے بلڈ گروپ کے سامنے بھی بے بس ہیں اور یہی اصل کام ، اصل امتحان ہے۔‘‘ اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے’’ نہ جسم میرا، نہ مرضی میری، نہ آغاز میرے بس میں نہ انجام میرے بس میں ۔۔۔
آئی حیات لائی قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

Share:

3/11/20

قیامت اچانک قائم ہو گی


حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا!
قیامت ا س وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک سورج مغرب سے نہ نکلے گا۔ جب سورج مغرب سے نکلے گا اور لوگ دیکھ لیں گے اور سب ایمان لے آئیں گے۔ یہی وہ وقت ہو گا جب کسی کے لیے اس کا ایمان نفع نہیں دے گا۔ جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا ہو گا یا جس نے ایمان کے بعد نیک عمل نہیں کیا ہو گا۔ پس قیامت آ جائے گی اور دو آدمی کپڑا درمیان میں (خرید و فروخت کیلیے) پھیلائے ہوں گے ابھی خرید و فروخت  مکمل نہیں ہوئی ہو گی اور نہ انہوں نے اسے لپیٹا ہی ہو گا کہ قیامت قائم ہو جائے گی۔ اور قیامت اس حال میں قائم ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنی اونٹنی کا دودھ لے کر آ رہا ہو گا اور اسے پی بھی نہیں سکے گا اور قیامت اس حال میں قائم ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنا حوض تیار کرا رہا ہو گا اور اس کا پانی بھی نہیں پی پائے گا۔ قیامت اس حال میں قائم ہو جائے  گی کہ ایک شخص اپنا لقمہ اپنے منہ کی طرف  اٹھائے گا اور اسے کھا بھی نہیں پایا ہو گا۔
بخاری شریف حدیث نمبر 6506

Share:

کہتا ہے مجھے جو دن رات غلط


کہتا ہے مجھے جو دن رات غلط
ہوگی اس میں بھی کوئی بات غلط

پھیلنے پہ تعفن  کے کہتا ہے وہ یوں
ہوئی ہے آسمان سے برسات غلط

سمجھ نہ پائے جو حقیقت کے راز
کہتے ہیں کہ الفاظ کی بہتات غلط

زاغ کے مقدر میں کہاں اوجِ ثریا
اور  کوئل کی بھی ہے ہر گھات غلط

ہے اپنا تو معینیؔ اند ازِ ملن اور
لگتے ہیں انہیں میرے جذبات غلط

Share:

اللہ نے حرام کیا ہے || حرام امور || قل تعالوا اتل ما حرم ربکم علیکم || سورہ انعام آیہ 151، 152


اور بے شک یہ میرا  سیدھا راستہ ا ہے پس تم اس کی پیروی کرو:

قرآن مجید سارے کا سارا انسان کی  رشد و ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ۔ انسان کی معاشی و معاشرتی اور انفرادی و اجتماعی زندگی کی  تربیت کے لیے  پورے کا پورا بند و بست فرمایا اور انتہائی آسان الفاظ میں تفصیل کے ساتھ آیات کوکھول کھول کر بیان کیا۔خود قرآن مجید میں اللہ تعالی کا رمان عالی شان ہے ارشاد فرمایا:

و نزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شیئ و ھدی و رحمۃ و بشری للمسلمین  ( سورہ نحل آیہ 89)    

ترجمہ: اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی جو ہر چیز کا بیان ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے۔

ھذا بیان للناس و ھدی و موعظۃ للمتقین (سورہ آل عمران آیہ 138)

ترجمہ: یہ قرآن مجید  لوگوں کےلیے ہر چیز کا بیان ہے اور  ہدایت ہے اور نصیحت ہے پرہیز گاروں کے لیے۔

درج بالا دونوں آیات میں اللہ جل شانہ نے بڑے خوبصورت الفاظ اور محبت بھرے انداز میں لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا یہ قرآن نصیحت ہے ، ہدایت ہے، خوشخبری ہے اور ہر چیز کا تفصیلی بیان ہے۔ ذیل میں سورہ  انعام کی چند آیات میں اللہ تعالی نے حضرت انسان کو نصیحتیں فرمائیں ۔ ارشاد باری تعالی ہے:

قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۖ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۖ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۖ وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ۔ وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ سورہ انعام آیہ 151،152

ترجمہ: اے حبیب آپ آپ فرما یجئے کہ  آؤ میں تم پر تلاوت کروں،  کہ تمہارے رب نے تم پر کیا چیزیں حرام کی ہیں۔ یہ کہ تم اس کے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دو۔ ا ور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اور اپنی اولاد کو رزق میں کمی کی وجہ سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی۔ اور بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ خواہ وہ ظاہر ہویا   پوشیدہ ہو۔ اور جس کے قتل کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کو ناحق قتل نہ کرو ۔یہی وہ کام ہے جن کا اللہ نے تم کو  حکم (نصیحت)دیا ہے تاکہ تم سمجھو۔اور اچھے طریقے کے بغیر یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے اور انصاف کے ساتھ پوری پوری ناپ تول کرو۔ ہم ہر شخص کو صرف اس کی طاقت کے مطابق مکلف (آزمانا  ، بوجھ ڈالنا) کرتے ہیں اور جب تم کوئی بات کہو تو انصاف کے ساتھ کرو اگرچہ  وہ تمہارے قرابت دارہی کیوں نا ہوں۔ اور اللہ کے عہد کو پورا کرو یہی وہ امور ہیں جن کا تمہیں اللہ نے حکم( نصیحت) دیا ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو۔بے شک یہ میرا سیدھا راستہ ہے سو تم اسی راستے پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو ورنہ وہ راستے تمہیہں اللہ کے راستے سے الگ کر دیں گے۔ اسی بات کا اللہ نے حکم دیا ہے تاکہ تم متقی ہو جاؤ۔

ان آیات میں اللہ تعالی نے جن امور کا حکم دیا ور نصیحت فرمائی ذیل میں ان کا خاکہ پیش مطالعہ ہے:

1.   اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نا ٹھہراؤ۔

2.   ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔

3.   اولاد کو رزق کی کمی کی وجہ سے قتل نہ کرو۔

4.   بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ۔

5.   ناحق کسی کا قتل نا کرو۔

6.   یتیموں کے اموال کو بغیر ضرورت اور ناحق نا کھاؤ۔

7.   ناپ تول میں میں کمی بیشی نا کرو۔

8.   جو بات کرو اس میں عدل کرو۔

9.   اللہ سے کیے گئے وعدے کو پورا کرو۔

ان آیات میں اللہ تعالی نے ان درج بالا امور کی نصیحت فرمائی۔ پھر فرمایا کہ ان پر عمل کرو یہی میرا سیدھا راستہ ہے اور اگر ان کے خلاف عمل کیا تو اللہ کے راستے سے الگ ہو جائے گا۔

Share:

3/10/20

دنیا کو یاد آج بھی جرأت علی کی ہے


دنیا کو یاد آج بھی  جرأت علی کی ہے
جس کا نہیں جواب وہ ہمت علی کی ہے

آئی جو حق کا کام وہ طاقت علی کی ہے
لرزاں ہےجس سے کفر وہ قوت علی کی ہے

کیا  امتزاج رخ پہ ہے رعب و جمال و کا
حق ہے کہ بے مثال وجاہے علی کی ہے

بدر و احد حنین ہو یا کوئی جنگ ہو
اپنی ہی مثل آپ  شجاعت علی کی ہے

چودہ سو سال ہو گئے دورِ علی کو آج
لیکن دلوں پہ آج بھی ہیبت علی کی ہے

قول نبی کہ مجھ سے علی میں علی سے ہوں
قلبِ رسولِ پاک میں عظمت علی کی ہے

پیارے نبی کے خلد میں بھی بھائی ہیں علی
کتنی نبی پاک کو چاہت علی کی ہے

Share:

3/4/20

Download Inpage 2009 and Urdu Installer


To Download  Inpage 2009 professional click link below


InPage 2009 Professional



Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive