Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

3/29/22

آٓج کا استاد | استاد کے مسائل | استاد کا مقام | پاکستانی معاشرے میں استاد کا مقام | صاحبزادہ محمد عاصم چشتی مہاروی

ستم ظریفی دیکھیے آج کے بچے کو جس اُستاد نے اس دنیا میں جینے کا علم اور فن سیکھانا ہے وہ صرف اپنے” سر” میں جی رہا ہے( living in his head) . اُس کے لیے جسم صرف “ سر” کو اُٹھانے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے ، transport کرنے کے زریعے کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔ صبح سویرے “سر” کو اُٹھائے گھر سے اسکول، کالج ، پھر اُسی “ سر” کو اُٹھائے ٹیوشن سینٹر اور رات کو وہی سر، lesson plan, student assignments یا پھر امتحانوں کے پرچے بنانے یا پرچوں کی چیکنگ کرنے کے بوجھ کو سر پر اُٹھائے گھر چلا جاتا ہے اور تھک ہار کر وہی سر ، بستر کے تکیہ پر دھر کر سو جاتا ہے۔ وہ جی کہاں رہا ہے۔۔۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ وہ “ سر” میں جی رہا ہے تو لوگ نہ جانے ناراض کیوں ہو جاتے ہیں ۔ شاید اس لیے کہ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ وہ لوگ جو صرف “ سر” میں جیتے ہیں ان کے لیے شعبہ صحت میں علاج کی خاطر الگ ہسپتال بنائے جاتے ہیں۔ اور کیونکہ ہمیں ہمیشہ اُستادوں کا احترام کرنے کا درس دیا جاتا ہے تو ہمارے لیے اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں دقّت ہو جاتی ہے کہ اُستاد کیسے نفسیاتی مریض ہو سکتے ہیں۔

انہیں نفسیاتی مریض بنانے میں جہاں استادوں کے اپنے مسائل اور انکی لاتعداد وجوہات ہوں گی خود ہمارا یعنی والدین کا بہت بڑا کردار ہے۔

ایک بہت ہی دلچسپ اور عمومی رویہ ہے کہ اگر کسی تقریب میں یا عشائیہ یا ڈنر پر ۔۔اوّل تو کسی ڈنر پر استاد کو بلایا ہی نہیں جاتا مگر کھبی ایسا اتفاقاً ہو جائے کہ آپ کی ساتھ والی کرسی پر بیٹھنے والے شخص کے تعارف میں آپ کو پتہ چلے کہ وہ teacher ہے یا اُستاد ہے تو آپ کا فوری رد عمل کیا ہوتا ہے۔۔۔

“ آہ! آج کی شام کا کباڑہ ہو گیا” اور پھر اپنی اسی اندرونی اور ان کہی خفت کو مٹانے کے لیے لایعنی سا مکالمہ شروع کرتے ہیں جس میں نہ آپ کی دلچسپی ہوتی ہے نہ اُس مہمان کی جو اتفاقاً اُستاد نکلا۔۔۔ “ موسم کیسا ہے” امتحانات کب ہو رہے ہیں” فیسیں بہت ہو گئی ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔

ایسا کیوں کرتے ہیں ہم؟ کبھی یہ بھی سوچا ؟

شاید اس لیے کہ ہم سمجھ بیٹھے ہیں کہ اُستاد “ سر” میں جیتا ہے اور اسکے اندر کچھ تخلیقیت نہیں، کچھ creativity نہیں، teacher is not dynamic, he is not interesting

صورتحال اور بھی دلچسپ ہو جاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ تقریباً سب لوگوں کو ہی تعلیم میں دلچسپی ہے مجھے تو دلچسپی ہے کیا آپ کو نہیں ہے؟ باوجود تعلیم میں عالمگیر دلچسپی کے باوجود ہمیں “ معلم” دلچسپ نہیں لگتے ۔

ایک اور زاویہ سے اگر ہم اسی معاشرتی رویہ کو دیکھیں ۔ کیا آپ کے بچوں کے اُستاد آپ کے دوست ہیں؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ آپ نے بچوں کے اُستاد کو صرف ایک سہولت کار کے طور پر لیا ہے اور اس سہولت کاری یا facilitation کا معاوضہ دیتے ہیں مگر وہ میرے دوست نہیں ہیں ۔۔۔۔

میں اپنی متاع عزیز یعنی اولاد کی ذہن سازی ایک ایسے فرد کے حوالے کیے بیٹھا ہوں جو میرا دوست نہیں ہے۔۔۔۔۔

آپ درویشوں سے پریکٹیکل step پوچھتے ہیں تو وہ تو یہی ہے کہ اپنے بچوں کے اُستاد کے ساتھ دوستی کریں اُنکے ساتھ friendly ہو جائیں۔ یقین مانیں یہ جو صرف اپنے “ سر” میں جیے چلے جا رہے ہیں اور جنہیں آپ نے بچوں کو تعلیم دینے کا سہولت کار بنا رکھا ہے یہ بہت قیمتی لوگ ہیں۔ ان سے آپ دوستی کر لیں۔۔۔let them join you ۔۔۔ یہی تو آپ کا بہترین دوست ہے جس نے آپ کے بچہ کو اس دنیا کا علم اور جینے کا ڈھنگ دینا ہے۔  انہیں ڈنر پر بلائیں، انکے ساتھ outing پر جائیں۔ چھٹیوں میں اکٹھے سیر کو نکلیں ۔۔۔ اور جب اس “سر” میں پھنسے سہولت کار facilitator کو دوست بنائیں گے اور انکو “ سر” سے نکلنے میں مدد دیں گے تو پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ کا یہ دوست کس بہترین طریقہ سے آپ کے بچہ کے زہن سازی کرتا ہے۔ وہ پھر آپ کے بچوں کو ادھار لیے گئے جوابات دستیاب نہیں کرے گا ، وہ بچوں کے ازہان میں خوابیدہ سوالات کو جگائے گا، انکے اندر تجسس کو اُبھارے گا اور آپ کے بچوں کو اپنے سوالات کے جواب خود تلاش کرنے کے لیے تیار کرے گا۔

علاج اور مسلۂ کا حل ۔۔۔ پیار میں ہے اور دوستی میں ہے۔ الولی اور الودود سے اپنا بھی علاج کریں اور اپنے مسائل کا بھی۔۔

دُعاگو:صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

 

 

 

Share:

3/25/22

تیرا در مل گیا مجھ کو سہارا ہو تو ایسا ہو|| تیرے ٹکڑوں پہ پلتے ہیں گزارا ہو تو ایسا ہو


 

تیرا در مل گیا مجھ کو سہارا ہو تو ایسا ہو

تیرے ٹکڑوں پہ پلتے ہیں گزارا ہو تو ایسا ہو

 

بڑے سلطان ہو خواجہ بڑے  دھنوان ہو خواجہ

بھری جھولی ہے منگتوں کی دوارا ہو تو ایسا ہے

 

زمانے میں نہیں دیکھا کوئی خواجہ پیا جیسا

ملا سب کو تیرے در کا اتارا ہو تو ایسا ہو

 

تیری نسبت سے یا خواجہ میری پہچان ہوتی ہے

ہمیں یہ ناز ہے رہبر ہمارا  ہو تو ایسا ہو

 

نظام الدین کا صدقہ ہمیں بھی بھیک مل جائے

بدل دیتے ہیں تقدیریں اشارہ ہو تو ایسا ہو

 

مروں میں تیری چوکھٹ پر، میرے خواجہ  میرے خواجہ

رہے تو روبرو میرے ، نظارا ہو تو ایسا ہو

Share:

سنور گئے ہیں دو عالم انہیں کے آنے سے


 

سنور گئے ہیں دو عالم انہیں کے آنے سے

کہ مٹ گئے ہیں اندھیرے سبھی زمانے سے

 

ہوا بکھیرتی خوشبو فضا میں پھرتی ہے

مہک اٹھا ہے چمن ان کے مسکرانے سے

 

عجیب رنگِ جہاں تھا  عجیب حالت تھی

کہ مٹ گئی ہے جہالت تیرے مٹانے سے

 

ہے میرے دل کی یہ حسرت نبیﷺ جی مدت سے

تیرے حضور میں آوں کسی بہانے سے

 

جہاں میں پھرتے تھے لاچار ، بے سہارا تھے

بنی ہے بات مری آپ ﷺ کے بنانے سے

 

خدا کا قرب ہو حاصل اگر یہ حسرت ہے

ملے گا مرتبہ آقا سے لو لگانے سے

 

دمِ اخیر سرِ ناز ان کے قدموں میں ہو

ملے گی زندگی اس در پہ یوں مر جانے سے

Share:

3/24/22

انبیاء کی بزم میں ان کا کوئی ہمسر نہں مثل ِ سرکار ِ مدینہ کوئی پیغمبر نہیں


 

انبیاء کی بزم میں ان کا کوئی ہمسر نہں

مثل ِ سرکار ِ مدینہ کوئی پیغمبر نہیں

 

خود خداجن کو بنا کر آپ شیدا ہو گیا

جز میری سرکار کے ایسا کوئی دلبر نہیں

 

بے اجازت جس جگہ آتے نہیں روح الامیں

آپ کے در کے علاوہ کوئی ایسا در نہیں

 

یا رسول اللہ کرم ہو یا رسول اللہ کرم

آپ کے در کے سوائے کوئی ہمارا در نہیں

 

جن کی خود تعظیم کو اٹھے جناب مصطفےﷺ

جز جناب فاطمہ ایسی کوئی دختر نہیں

 

حق نہ بخشے گا اسے جیسا بھی ہو وہ پارسا

روزِ محشر جس کے حامی شافع محشر نہیں

 

ان کی مدحت کے لیے قرآن دیکھیے

اس سے بڑھ کر نعت کوئی آپ کی بہتر نہی

 

جس کی  ہے ہر ہر ادا  ساجد ثبوت حسنِ یار

میرے آقا کے سوا ایسا کوئی دلبر نہیں

 

Share:

3/23/22

If we recognize our mistakes | mistakes | habits of successful people

Whenever we fail, we blame others, while failure is due to our own weakness.

We cannot know our mistakes so we never call ourselves wrong and never correct ourselves.

While in reality weaknesses and mistakes keep growing inside us and we fall into more failures.

If we recognize our mistakes and try to correct them, the day is not far when we will succeed.

What are the characteristics of successful people?

Some are written below.

1.     They are Pro-active

2.     They are goal oriented

3.     They are results driven

4.     They begin with the End in mind

5.     They are action oriented

6.     They are people oriented

7.     They are health conscious

8.     They are honest

9.     They are self-disciplined

 

Share:

3/13/22

جس پاسے وی ٹر جاواں سرکار ﷺ نظر رکھدے | بیٹھے نے مدینے وچ دو جگ ددی خبر رکھدے


 

جس پاسے وی ٹر جاواں سرکار ﷺ نظر رکھدے

بیٹھے نے مدینے وچ دو جگ ددی خبر رکھدے

 

ہر شے جو کرے صدقے سرکارﷺ مدینہ توں

سلطانِ مدینہ ﷺ وی اوہدی جھولی نوں بھر رکھدے

 

جیہڑے آقاﷺ دے ہو جاندے رب اوہناں دا ہو جاندا

اوہ قبر تے محشر دا ماسہ وی نہ ڈر رکھدے

 

خالی نہ سمجھ بیٹھیں آقاﷺ دے فقیراں نوں

اوہ ازلاں دے جوہری نیں قدماں چہ گوہر رکھدے

 

ایہ اوس نے دسیا اے صدیق ہے ناں جس دا

جیہڑے یار توں وک جاندے کوئی شے وی نہ گھر رکھدے

 

Share:

3/6/22

محبت پھیلائیں | صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی | محبت ایک لامتناہی سمندر ہے

محبت کو بہنے دیں۔

آپ چاہِ ( کنواں) محبت ہیں۔ لوگوں کو اس میں سے اتنا پیار نکالنے دیں جتنا وہ نکال سکتے ہیں اور مزید تازہ پانی اندر آنے دیں۔آپ لامتناہی سمندر سے جڑے ہیں۔ محبت قطعا قلیل نہیں۔ یہ تو لامتناہی ہے اس میں قلت کا سوال ہی نہیں۔

انسان قلت کی شکار معشیت میں رہ چکا ہے۔ خوراک سب کے لیے کافی نہیں۔ مکان سب کے لیے کافی نہیں۔ کپڑے سب کے لیے کافی نہیں۔ انسان صدیوں سے قلت کی معشیت میں رہتا چلا آیا ہے۔ ہر شے قلت کی معشیت کا شکار ہے اور اسی سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ محبت بھی قلیل ہے۔ اگر آپ دو افراد سے محبت کرتے ہیں تو قدرتی طور پر دونوں کو آدھی آدھی ملے گی۔ اگر آپ تین سے محبت کرتے ہیں تو مزید تقسیم ۔ اگر آپ ہزاروں سے پیار کرتے ہیں تو اس قدر تقسیم ہو جاتی ہے کہ جیسے کی ہی نہ ہو۔

محبت کے بارے یہ سوچ غلط ہے اور چونکہ آپ کے ذہن میں یہ خیال ڈال دیا گیا ہے اس لیے آپ تکلیف اُٹھا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر محبت کرنے والا غیر مطمئن ہے کیونکہ محبت کی اس قدر افراط ہے کہ صرف ایک فرد کو دینے سے آپ کو اطمینان حاصل نہیں ہوتا ۔ آپ غیر مطمئن محسوس کرتے ہیں۔ آپ پوری دنیا کو محبت دے سکتے تھے۔ اب جو محبت نہیں دی جاتی وہ پڑی رہتی ہے اور جب کوئی توانائی آپ کے اندر پڑی رہتی ہے اور استعمال نہیں ہوتی تو وہ تباہ کن بن جاتی ہے۔ آپ کی دشمن بن جاتی ہے۔ اور آپ اس اضافی محبت کو اپنے استعمال میں لے آتے ہیں اور صرف اور صرف اپنے آپ سے پیار کرنے میں صرف کرتے ہیں اور یہیں سے نفرت کی پیدائش ہوتی ہے۔

جب انسان اس چیز سے آگاہ ہو جائے گا کہ محبت لامتناہی ہے اور اس کی کوئی قلت نہیں تو حسد ختم ہو جائے گا۔ حسد قلت کی معشیت کا حصہ ہے۔ محبت ہر چیز کو زندہ کر دیتی ہے۔ یہ جس چیز کو بھی چھوتی ہے وہ جی اُٹھتی ہے۔ اس کے مقابلے میں بے مہری ہر چیز کو مردہ کر دیتی ہے۔ یہ جس چیز کو چھوتی ہے اسے مردہ کر ڈالتی ہے۔

اگر آپ بے مہری کی حالت میں رہتے ہیں تو ایک مردہ دنیا میں رہتے ہیں ۔ اگر آپ محبت کی حالت میں رہتے ہیں تو آپ کا مسکن بھی ایک زندہ دنیا میں ہوتا ہے۔

محبت وہ ہے جسے آپ جتنا دیں گے اُتنا پائیں گے۔ اس کو دیں گے تو یہ ملے گی۔ آپ محبت کو ذخیرہ نہیں کر سکتے ۔ ذخیرہ کرنے سے یہ مر جائے گی۔ یہ صرف شریک کرنے سے سے زندہ رہے گی۔ جب یہ ایک انسان سے دوسرے انسان کے پاس جائے گی تو زندہ رہے گی اور مزید سے مزید توانائی حاصل کرے گی۔ یہ آپ کے اندر سے جتنا زیادہ خارج ہو گی، آپ اتنا ہی اسے مزید خارج کرنے کے قابل ہوں گے۔ آپ خدا کی دنیا میں محبت کے بہاؤ کا ایک بڑا منبع بن جائیں گے۔

محبت یہ نہیں ہوتی جسے تقسیم میں اپنی حسابوں کی ضرورت ہو۔

محبت کو بہنے دیں آپ چاہ محبت ہیں۔

التماس دُعا

صاحبزادہ محمد عاصم مہارویؔ   چشتی

 

 

Share:

3/4/22

محبت بھری باتیں | فکرِ آخرت | صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

شام ہونے والی ہے:۔

آپ پلاسٹک کا مصنوعی پھول نہیں ہیں۔ یاد رکھیں کہ آپ اصلی پھول ہیں۔ شام تک آپ مُرجھا جائیں گے اور پھر جھڑ جائیں گے۔ ہوا کے ساتھ کھیلیں، سورج کے ساتھ باتیں کریں، بادلوں کے ساتھ جھومیں ، رقص کریں۔ جھرنوں کے ساتھ نغمہ سرائی کریں۔ شام ہونے والی ہے۔

یاد رکھیں کہ موت صرف اُس وقت اعلی ہو سکتی ہے جب زندگی بہت اعلی ہو۔ آپ بے معنی طور پر جئیں گے تو بے معنی طور پر مریں گے۔

فلسفہ توجہ ہٹاتا ہے۔ معاشیات فریب دیتی ہے۔ سیاست آپ کو صرف احمقانہ چیزوں میں اُلجھائے رکھتی ہے۔آرٹ صرف پنجرے کو خوبصورت بناتا ہے۔ جبکہ سائنس میں ابھی اتنا حوصلہ نہیں کہ اصل مسائل سے نبٹ سکے اس لیے یہ ظاہری چیزوں پر مصروف عمل ہے۔ مذہب میں حوصلہ ہے کہ وہ پیدائش اور موت ، ظاہر و باطن ، داخل و خارج ، مادے اور شعور کی متناقصی حقیقت میں داخل ہو سکے۔

بہت کم لوگ مذہبی ہوتے ہیں۔ ایک بہادر شخص ہی مذہبی ہوسکتا ہے۔

اپنے اُن رویوں کو ترک کردیں:۔۔۔۔

اپنے تعصبات و تصورات اور مفروضوں کو ترک کر دیں تو دنیا بہت خوبصورت ہے۔ صرف اپنے اُن رویوں کو ترک کردیں جو آپ کو سکھائے جا چکے ہیں ، جو آپ سے مشروط کئیے جا چکے ہیں۔ اگر آپ اپنے حالات کو ترک کرتے ہیں تو آپ اپنی جہالت کو ترک کرتے ہیں۔ یاد رکھئیے حالات کبھی کسی بڑے کام کی اجازت نہیں دیتے، کیونکہ یہ بنائے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ ایک اوسط درجہ کا پروڈکٹ ہی سامنے آ سکے۔

ہوا کے ساتھ یوں کھیلیں کہ:۔۔۔۔

یاد رکھیں کہ آپ اصلی پھول ہیں اور شام ہونے والی ہے۔ آپ نے بھی آپ سے پہلے آنے والے پھولوں کی طرح مرجھا جانا ہے اور پھر جھڑ بھی جانا ہے۔ جھڑنے سے پہلے ہوا کے ساتھ یوں کھیلیں کہ جب آپ جھڑنے لگیں تو یہی ہوا آپ کو اپنے سنگ اُڑا کر ایک ایسے باغ میں لے جائے جہاں شام نہیں ہوتی، جہاں خزاں داخل نہیں ہوتی ، جہاں کوئی پھول نہیں مُرجھاتا ۔۔

دُعا گُو

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive