Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

8/31/23

حدیث قرآن مجید کی تشریح Hadith is the explanation of Holy Quran

حدیث قرآن مجید کی تشریح ہے۔

                   قرآن مجید اللہ تعالی کا کلام ہےجو تقریباً تئیس سال کے عرصے میں بمناسبت ِ حال نازل ہوتا رہا ۔ قرآن مجید انسان کی رشدو ہدایت کی ضامن کتاب ہے۔ قرآن مجید کو پڑھنا ، سمجھنا اور پھر اس پر عمل کرنا قرآن حکیم کا اولین حق ہے۔قرآن مجید نبی کریم ﷺ کے وساطت سے انسانوں تک پہنچا ہے۔ اس کے سب سے پہلے معلم ، شارح  اور مفسر خود رسالت ماٰب ﷺ ہیں ۔نبی کریم ﷺ کے فرائضِ نبوت کا ذکر کرتے ہوئے قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

لَقَدْ  مَنَّ  اللّٰهُ  عَلَى  الْمُؤْمِنِیْنَ  اِذْ  بَعَثَ  فِیْهِمْ  رَسُوْلًا  مِّنْ  اَنْفُسِهِمْ  یَتْلُوْا  عَلَیْهِمْ  اٰیٰتِهٖ  وَ  یُزَكِّیْهِمْ  وَ  یُعَلِّمُهُمُ  الْكِتٰبَ  وَ  الْحِكْمَةَۚ-وَ  اِنْ  كَانُوْا  مِنْ  قَبْلُ  لَفِیْ  ضَلٰلٍ  مُّبِیْنٍ(سورۃ اٰل عمران: 164)

ترجمہ: بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مَبعوث فرمایا جو انہی میں سے ہے ۔ وہ ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اورانہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناکھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔

اللہ تعالی کی آیات کی تلاوت کرنا ، ترکیہ نفس کرنا ، کتاب اور حکمت کی تعلیم دینا  نبی کریم ﷺ کے منصبِ رسالت کی  ذمہ داریوں  میں سے ہیں۔ تعلیم دینے کے ضمن میں مفاہیم اور علوم کی تشریح کرنا بھی نبی کریم ﷺ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ چناں چہ ارشاد باری تعالی ہے:

وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْا فِیْهِۙ-وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(سورۃ النحل:64)

ترجمہ: اور ہم نے تم پر یہ کتاب اس لئے نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں کیلئے وہ بات واضح کردو جس میں انہیں اختلاف ہے اوریہ کتاب ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔

اس آیہ مقدسہ میں اللہ تعالی نے قرآن مجید کے نزول کا مقصد بیان کیا کہ نازل ہی اس لیے کی گئی کہ آپ لوگوں کو وضاحت سے مسائل بیان کر دیں ۔لوگوں کے اختلافات کو ختم کرنا اور اللہ تعالی کی تعلیمات لوگوں تک مفصل بیان کرنا نبی کریم ﷺ کی ذمہ داری ہے۔ ذیل میں چند ایک اہم نِکات بیان کیے جا رہے ہیں جن سے اچھی طرح اندازہ ہو جائے گا کہ حدیث قرآن مجید کے لیے کیوں لازم و ملزوم ہے ۔

حدیث کے بغیر قرآ ن فہمی نا ممکن ہے:

قرآن مجید کی دیگر بے شمار صفات میں ایک صفت قرآن مجید کا مفصل ہونا بھی ہے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: وَّ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ اِلَیْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًاؕ(سورۃ الانعام:114) ترجمہ: وہی ہے جس نے تمہاری طرف مفصل کتاب اُتاری۔قرآن مجید کو اللہ تعالی ے مفصل کتاب قرار دیا ہے یعنی قرآن مجید خود اپنی تشریح کرتا ہے یعنی اگر ایک مقام پر ایک جملہ مجمل ہے تو دوسرے مقام پر اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ جیسے روزوں کے معاملے میں فرمایا : اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ(سورۃ البقرۃ:184) کہ یہ گنتی کے چند دن ہیں ۔ اب یہ کون سے چند دن ہیں اس کی وضاحت آیت نمبر 185 میں کر دی : شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ (سورۃ البقرۃ:185) ترجمہ:رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی ہے اور فیصلے کی روشن باتوں (پر مشتمل ہے۔) تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے تو ضرور اس کے روزے رکھے۔ اس کے باوجود قرآن مجید میں بعض مقامات ایسے ہیں جن کی وضاحت قرآن مجید میں موجود نہیں ہے اس کی وضاحت اور تشریح ہمیں حدیث رسول ﷺ سے ملتی ہے جیسے

1: وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ(سورۃ الحجر:87) اور بیشک ہم نے تمہیں سات آیتیں دیں جو بار بار دہرائی جاتی ہیں اور عظمت والا قرآن(دیا)۔سبع مثانی  کے معاملے میں قرآن مجید میں کسی دوسری آیت سے اس کی وضاحت نہیں ہوتی کہ سبع مثانی سے کیا مراد ہے۔اس کا علم حدیث پاک میں دیا گیا :

 

أَلَا أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ ، قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ    ، فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ ، فَذَكَّرْتُهُ ، فَقَالَ :    الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ ، الَّذِي أُوتِيتُهُ(صحیح بخاری :4703)

ابو سعید بن المعلیّٰ فرماتے ہیں کہ  آپﷺ نے فرمایا: کیوں نہ آج میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن کی سب سے عظیم سورت بتاوں۔ پھر آپ ﷺ مسجد سے باہر تشریف لے جانے کے لیے اٹھے تو میں نے بات یاد دلا دی۔ آپ نے فرمایا سورۃ الحمد للہ رب اللعلمین یہی سبع مثانی ہے اور یہی قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔

2: ایک اور مقام پر سورۃ الزمر آیت نمبر 67 میں : وَ الْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ السَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌۢ بِیَمِیْنِهٖؕ (سورۃ الزمر :67) ترجمہ: اور قیامت کے دن ساری زمین اس کے قبضے میں ہوگی اور اس کی قدرت سے تمام آسمان لپیٹے ہوئے ہوں گے۔

اس آیہ مبارکہ میں مذکور ہے کہ قیامت کے دن زمین و آسمان اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہوں گے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ :

حَدَّثَتْنِیْ عَائِشَۃُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا  اَنَّہَا سَاَلَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  عَنْ قَوْلِہٖ {وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّمٰوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہٖ} فَاَیْنَ النَّاسُ یَوْمَئِذٍیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!؟ قَالَ: ((ھُمْ عَلٰی جَسْرِ جَہَنَّمَ)۔(مسند احمد:13212)

سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا  نے مجھے بیان کیا تھا کہ انہوں نے رسول اللہ  ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں پوچھا تھا: {وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّمٰوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہٖ} (اور قیامت کے دن ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور سارے آسمان بھی اس کے دائیں ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے) (سورۃ الزمر: 67) اے اللہ کے رسول ! اس تبدیلی کے وقت لوگ کہاں ہوں گے؟ آپ  ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  نے فرمایا:  وہ جہنم کے پل صراط پر ہوں گے۔

3: سورۃ القیامہ کی آیت نمبر 22 اور 23 میں اللہ تعالی کے کی زیارت کے حوالے سے مذکور ہے :

وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌ(22)اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ(23) ترجمہ: کچھ چہرے اس دن تر و تازہ ہوں گے۔اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے۔

ان آیات میں قیامت کے دن اللہ تعالی کے چہرے کی طرف دیکھنے کی بات ہے کہ ترو تازہ چہرے والے اللہ تعالی کے چہرے کی طرف دیکھ رہے ہوں گے : عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قلنا يا رسولَ الله، هل نرى ربَّنا يوم القيامة؟ قال: «هل تُضَارُّون في رؤية الشمس والقمر إذا كانت صَحْوًا؟»، قلنا: لا، قال: «فإنكم لا تُضَارُّون في رؤية ربِّكم يومئذ، إلا كما تُضَارُّون في رؤيتهما»(متفق علیہ )ترجمہ: بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی ﷺ سے سوال کیا کہ: “کیا ہم روز قیامت اللہ تعالی کو دیکھیں گے؟۔” آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ ہاں۔ تم اپنے رب کو بالکل ایسے ہی دیکھو گے جیسے عین دوپہر کے وقت سورج کو اور چودھویں کی رات مکمل چاند کو بغیر کسی بھیڑ اور دھکم پیل کے دیکھ لیتے ہو۔

بیان و تشریحِ قرآن مجید کی مختلف صورتیں:

                   حدیث رسول ﷺ قرآن مجید کی تشریح و توضیح ہے ذیل میں مختلف صورتوں کے بارے میں وضاحت دی گئی ہے:

مجملات کی تفصیل: قرآن مجید میں ایسے کئی احکام ہیں جن کی تفصیل بیان نہیں کئی وہ تفصیل ہمیں نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ سے ملتی ہے مثلاً نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ، نماز کی فضیلت بیان کی گئی ہے یعنی نماز بے  حیائی سے روکتی ہے، نماز پڑھنے کا اجمالاً حکم دیا گیا ہے مگر اس کی جزئیات بیان نہیں کی گئی یعنی نماز کے اوقات ، نماز کی رکعتیں ، نماز کی ہیئت  وغیرہ اسی طرح روزہ ،زکوۃ اورحج کا حکم دیاگیا ہےلیکن ان کی جزیئات یعنی زکوۃ کی مقدار، زکوۃ کا نصاب حج کے مناسک سب احادیث سے ثابت ہیں ۔ ایک مستند ذریعہ تعلیم حدیث نبوی ﷺ ہی ہےجو ہمیں قرآن مجید کے احکام پر احسن انداز میں عمل کرنے کی رہنمائی کرتا ہے۔

مبہمات کی توضیح: اللہ تعالی نے قرآن مجید کو یاد کرنے،  نصیحت حاصل کرنے اورسمجھنےکیلیے بہت آسان بنایا ہے لیکن پھر بھی انسانی فکر و نظر کے تحت کہیں آیات کو سمجھنے میں ابہام پیدا ہو جائے  تو اس کی وضاحت نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ ہی کر سکتی ہیں ۔ جیسے  جب روزے کے احکام کے بارے میں آیہ مبارکہ نازل ہوئی :

وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ (سورۃ البقرہ:187) اس کے ساتھ ابھی مِنَ الْفَجْرِ۪ کے الفاظ نازل نہیں ہوئے تھے  تو حضرت عدی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک سیاہ اور ایک سفید دھاگا لیا : أَخَذَ عَدِيٌّ , عِقَالًا أَبْيَضَ وَعِقَالًا أَسْوَدَ حَتَّى كَانَ بَعْضُ اللَّيْلِ نَظَرَ ، فَلَمْ يَسْتَبِينَا فَلَمَّا أَصْبَحَ , قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، جَعَلْتُ تَحْتَ وِسَادِي عِقَالَيْنِ , قَالَ :    إِنَّ وِسَادَكَ إِذًا لَعَرِيضٌ أَنْ كَانَ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ وَالْأَسْوَدُ تَحْتَ وِسَادَتِكَ (صحیح بخاری:4509). ( اور سوتے ہوئے اپنے ساتھ رکھ لیا ) ۔ جب رات کا کچھ حصہ گزر گیا تو انہوں نے اسے دیکھا ، وہ دونوں میں تمیز نہیں ہوئی ۔ جب صبح ہوئی تو عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں نے اپنے تکیے کے نیچے ( سفید و سیاہ دھاگے رکھے تھے اور کچھ نہیں ہوا ) تو حضور ﷺ نے اس پر بطور مذاق فرمایا : پھر تو تمہارا تکیہ بہت لمبا چوڑا ہو گا کہ صبح کا سفید خط اور سیاہ خط اس کے نیچے آ گیا تھا۔ اس کے بعد پھر وضاحتی الفاظ  مِنَ الْفَجْرِ  نازل ہوئے۔

مشکلات کی تفصیل:قرآن مجید جب نازل ہوتا تو بعض الفاظ اور آیات کو سمجھنے میں صحابہ کرام مشکل کا شکار ہو جاتے تو اس مشکل کے حل کے لیے نبی کریم ﷺ کی طرف رجوع کرتے اور آپ ﷺ اس کی وضاحت انتہائی آسان انداز میں فرما دیتے:

عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَيْسَ أَحَدٌ يُحَاسَبُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا هَلَكَ» . قلتُ: أوَ ليسَ يقولُ اللَّهُ: (فَسَوْفَ يُحَاسِبُ حِسَابا يَسِيرًا) فَقَالَ: «إِنَّمَا ذَلِكَ الْعَرْضُ وَلَكِنْ مَنْ نُوقِشَ فِي الْحساب يهلكُ» . مُتَّفق عَلَيْهِ

ترجمہ:  عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”روز قیامت جس کسی سے حساب لیا گیا وہ مارا گیا۔ “ میں نے عرض کیا، کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا: ”(جس کسی کو نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا) اس سے آسان حساب لیا جائے گا۔ “ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”یہ تو صرف پیش کرنا ہو گا، لیکن جس کی حساب میں جانچ پڑتال کی گئی وہ ہلاک ہو گا۔ “ متفق علیہ

          اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائی:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ سورة الأنعام آية 82 شَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ ، فَقَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّنَا لَا يَظْلِمُ نَفْسَهُ ، قَالَ : لَيْسَ ذَلِكَ إِنَّمَا هُوَ الشِّرْكُ أَلَمْ تَسْمَعُوا مَا ، قَالَ : لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ سورة لقمان آية 13 (صحیح بخاری:3429)   ترجمہ: حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں  جب آیت ” جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کی ملاوٹ نہیں کی ۔“ نازل ہوئی تو مسلمانوں پر بڑا شاق گزرا اور انہوں نے عرض کیا ہم میں کون ایسا ہو سکتا ہے جس نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کی ملاوٹ نہ کی ہو گی ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس کا یہ مطلب نہیں ، ظلم سے مراد آیت میں شرک ہے ۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے کہا تھا اسے نصیحت کرتے ہوئے کہ ’’ اے بیٹے ! اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا ، بیشک شرک بڑا ہی ظلم ہے ۔

اشارات کی تشریح: قرآن مجید کا یہ اعجاز ہے کہ ہر چیز کی تفصیل بیان نہیں کی اور نہ ہی ہر چیز کا اجمالاً بیان کیا بلکہ جہاں ضرورت تھی وہاں تفصیل بیان کی جہاں حسن اجمال میں تھا تو اجمال سے ذکر کیا ۔ اب جہاں کہیں ضرورت ہوتی صحابہ کرام نبی کریم ﷺ سے بلاواسطہ قرآن مجید سمجھ لیتے تھے۔ اس لحاظ سے قرآن مجید کے ہر مجمل ، مشکل اور مبہم حکم کو نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں کھول کھول کر بیان فرما دیا ہے۔ بعض ایسے مقامات ہیں جہاں اللہ تعالی نے اشارے کیے ہیں اور ان کی وضاحت قرآن مجید میں کہیں نہیں کی گئی تو ان کو علم حدیث مبارکہ سے حاصل ہوتا ہے جیسے  سورۃ التوبہ میں فرمایا : وَّ عَلَى الثَّلٰثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْاؕ (سورۃ التوبہ:118) اس میں تین لوگوں کے پیچھے رہ جانے کا ذکر ہے اب وہ لوگ کون تھے اور کس معاملے میں پیچے رہے اس کی وضاحت ہمیں احادیث مبارکہ میں ملتی ہے۔ وہ  تین لوگ  حضرت کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع تھے جو غزہ تبوک میں مجاہدین سے پیچھے رہ گئے تھے اور بغیر کسی عذر کے جہاد میں شریک نہ ہو سکے۔

 

احادیث مبارکہ سے ہمیں تین طرح کے احکام ملتے ہیں:

۱: ایسے احکام جنہیں قرآن مجید نے بھی بیان فرمایا ہے احادیث مبارکہ میں بھی ان کی ترغیب گاہے بگاہے بیان کی گئی۔ جیسے نماز پڑھنے کا حکم ایک مقام پر آیا تو رسول اللہ ﷺ نے کسی مقام پر جہاں قرآن نازل تو نہیں ہوا لیکن آپ ﷺ نے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہو ۔

۲:ایسے احکام کہ قرآن مجید نے جن کا ذکر اجمالاً کیا اس کی جزیئات کا بیان نہیں کیا گیا تو احادیث نبویہ میں ان کی وضاحت بیان کی گئی۔

۳:ایسے احکام جن کے معاملے میں قرآن مجید نے سکوت اختیار کیا یعنی وہ احکام قرآن مجید میں بیان نہیں ہوئے مثلا دادی کی وراثت ، پھوپھی اور بھتیجی کو ایک مرد کا اکٹھانکاح میں رکھنا ۔ 

Download in PDF

ماخوذ ازلیکچرز : ڈاکٹر شہزادہ عمران ایوب صاحب

سبجیکٹ: علوم الحدیث

کلاس PHD سیشن 2023  ایجوکیشن یونیورسٹی  لوئر مال کیمپس لاہور

 

Share:

what is hadees ? حجیت حدیث پر عمومی دلائل

حجیت حدیث کے موضوع کو تین اہم حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:

1: حجیت حدیث کے عمومی دلائل

2: حدیث وحی ہے

3: حدیث قرآن مجید کی تشریح ہے

 

1: حجیت حدیث کے عمومی دلائل:

قرآن مجید اور حدیث نبوی ﷺ آپس میں  لازم و ملزوم ہیں۔ جہاں قرآن مجید اللہ تعالی کا کلام اور اسلامی تعلیمات کا منبع و مرجع ہے وہاں حدیث نبوی ﷺ ان اسلامی تعلیما ت اوراحکام کی تو ضیح و تشریح ہے۔ حدیث نبوی ﷺ کے بغیر قرآن مجید کے احکام اور تعلیمات کی وضاحت اور فہم و ادراک نا ممکن ہے۔ قرآن مجید اور حدیث نبوی کا تعلق متن و شرح،  اجمال و تفصیل اور کلمے کے دو اجزا جیسا ہے۔ قرآن مجید کی دو حیثیتیں ہیں ، ایک علمی اور دوسری عملی ۔ علمی پہلو کے اعتبار سے  کوئی بھی معلم قرآن مجید کی تعلیمات دوسرے  تک پہنچا سکتا ہے اور کامل ادراک کی صورت میں دوسرے کو بہتر انداز میں تعلیم دے سکتا ہے۔ عملی پہلو کے اعتبار سے ایک کامل ہادی و راہبر کی ضرورت ہوتی ہے جو قرآن مجید میں نازل ہونے والے ہر حکم پر عمل کر کے لوگوں کے سامنے اس کا عملی نمونہ پیش کر سکے۔ قرآن مجید کی ان دونوں حیثیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم حدیث نبوی ﷺ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح ہم پر عیاں ہوتی ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ذات  اقدس ہر دو پہلووں میں کامل و اکمل ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات لوگوں تک پہنچانے اور ان کا عملی نمونہ پیش کرنے میں نبی کریم ﷺ نے اس کا حق ادا کر دیا اور خود باری تعالی نے جنابِ رسالت ماب ﷺ کو مرکز و محور قرار دیا ہے۔ تعلیمی پہلو کے حوالے سے سورہ بقرہ کی آیت یوں شہادت دیتی ہے: كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَكِّیْكُمْ وَ یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ (سورۃ البقرۃ:151)۔ اور عملی پہلو کے حوالے سے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (سورۃ الاحزاب:21)۔ مزید برآں اگر دیکھا جائے تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآن مجید جو اللہ تعالی کا کلام ہے ہم تک فقط جنابِ رسالت ماب ﷺ کی زبان اقدس کے ذریعے ہی پہنچا ہے ۔وہی زبان مبارک جس سے نکلے ہوئے الفاظ کو ہم حدیث نبوی ﷺ کہتے ہیں۔

۱: اطاعت ِ رسول ﷺ سے متعلقہ عمومی آیات:

        اطاعتِ رسول ﷺ کے حوالے سے قرآن مجید میں اللہ تعالی نے بہت سے مقامات پر ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو۔ چنانچہ ذیل میں چند آیات درج کی جا رہی ہیں:

۱: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ (سورۃ النساء :59)

ترجمہ: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

۲: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ لَا تُبْطِلُوْۤا اَعْمَالَكُمْ (سورۃ محمد :33)

ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور اپنے عمل باطل نہ کرو

۳: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (سورۃ اٰل عمرٰن: 31)

ترجمہ: اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

۴: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ (سورۃ الانفال:20)

ترجمہ: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اور سن سنا کر اسے نہ پھرو

۵: وَ  اَطِیْعُوا  اللّٰهَ  وَ  الرَّسُوْلَ  لَعَلَّكُمْ  تُرْحَمُوْنَ (سورۃ اٰل عمرٰن: 132)

ترجمہ: اور اللہ و رسول کے فرمان بردار رہو اس اُمید پر کہ تم رحم کیے جاؤ۔

۲: اطاعت رسول ﷺ کو مستقل دین کا حصہ قرار دینے سے متعلق آیات:

رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو اللہ تعالی  نے مستقل دین کا حصہ قرار دیا ہے۔ دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت اطاعت رسول ﷺ ہی ہےاور حقیقتاً اللہ تعالی کی اطاعت اور خوشنودی کا حصول رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہی سے ممکن  ہے۔ ذیل میں قرآن مجید سے چند ایک آیات درج کی جا رہی ہیں۔

۱: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ (سورۃ النساء:80)

ترجمہ: جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا

۲: وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۚ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ(سورۃ الحشر:7)

ترجمہ: وررسول جو کچھ تمہیں عطا فرمائیں وہ لے لو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں تو تم باز رہو۔

۳: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (سورۃ الاحزاب:21)

ترجمہ: تحقیق تمہارے لیے رسول ﷺ کی زنددگی میں (عمل کے لیے) بہترین نمونہ ہے

۴: وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ (سورۃ اٰل عمرٰن: 158)

ترجمہ: اور ان کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پالو۔

۵: فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(65) (سورۃ النساء:65)

ترجمہ: تو اے حبیب! تمہارے رب کی قسم، یہ لوگ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنالیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو اپنے دلوں میں اس سے کوئی رکاوٹ نہ پائیں اوراچھی طرح دل سے مان لیں ۔

۶: وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ(سورۃ النساء:65)

ترجمہ: اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔

۳: اطاعت رسول ﷺ سے انحراف کے خطرناک نتائج سے متعلقہ آیات:

        اللہ تعالی نے قرآن مجید انبیا ئے کرام  علیھم السلام کی بعثت کے مقاصد کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ انبیائے کرام کو بھیجا ہی اس لیے جاتا ہے کہ لوگ ان کی پیروی کریں۔ اللہ تعالی کی محبت اور خوشنودی انبیائے کرام علیھم السلام کی اطاعت اور تباع میں مضمر ہے۔ اب قیامت تک نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا لہذا  دنیا و آخرت میں کامیابی کی واحد ضمانت رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری ہے۔ جن لوگووں نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری سے منہ موڑا اور انحراف کیا قرآن مجید نے ان کے لیے  سخت سے سخت وعید کا ذکر کیا ہے۔ ذیل  میں قرآن مجید کی چند ایک آیات تحریر کی رہی ہیں:

۱: فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ یُصِیْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (سورۃ النور:63)

ترجمہ: تو ڈریں وہ جو رسول کے حکم کے خلاف کرتے ہیں کہ انہیں کوئی فتنہ پہنچے یا اُن پر دردناک عذاب پڑے

۲: اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ شَآقُّوا الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْهُدٰىۙ-لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰهَ شَیْــٴًـاؕ-وَ سَیُحْبِطُ اَعْمَالَهُمْ (سورۃ محمد 32)

ترجمہ: بےشک وہ جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا اور رسول کی مخالفت کی بعد اس کے کہ ہدایت اُن پر ظاہر ہوچکی تھی وہ ہرگز اللہ کو کچھ نقصان نہ پہچائیں گے اور بہت جلد اللہ ان کا کیا دھرا اکارت کردے گا

۳: یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَاۤ اَطَعْنَا اللّٰهَ وَ اَطَعْنَا الرَّسُوْلَا(سورۃ الاحزاب:66)

ترجمہ: جس دن اُن کے منہ اُلٹ اُلٹ کر آ گ میں تلے جائیں کہتے ہوں گے ہائے کسی طرح ہم نے اللہ کا حکم مانا ہوتا اور رسول کا حکم مانا ہوتا۔

۴: وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا(27)

ترجمہ: اور جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبا ئے گا، کہے گا : اے کاش کہ میں نے رسول کے ساتھ راستہ اختیار کیا ہوتا۔

۴: اطاعت رسول ﷺ سے متعلق احادیث مبارکہ:

 

۱: کُلُّ أُمَّتِی یَدْخُلُونَ الجَنَّۃَ إِلَّا مَنْ أَبَی، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم ، وَمَنْ یَأْبَی؟ قَالَ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ أَطَاعَنِی دَخَلَ الجَنَّۃَ ، وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ أَبَی [بخاری رقم 7280]۔

ترجمہ: ''ساری امت جنت میں جائے گی سوائے ان کے جنہوں نے انکار کیا'' صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! انکار کون کرے گا؟ فرمایا کہ: '' جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو میری نافرمانی کرے گا اس نے انکار کیا''۔

 

۲: فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي ( صحیح بخاری: 5063)

تین حضرات ( علی بن ابی طالب ، عبداللہ بن عمرو بن العاص اور عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہم ) نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے ، جب انہیں حضور اکرم ﷺ کا عمل بتایا گیا تو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا آنحضرت ﷺ سے کیا مقابلہ ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کر دی گئی ہیں ۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا ۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا ۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا ۔ پھر آنحضرت ﷺ تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں ؟ سن لو ! اللہ تعالیٰ کی قسم ! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں ۔ میں تم سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں ۔ نماز بھی پڑھتا ہوں ( رات میں ) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں ۔ میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے ۔

۳: عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ،ابوداود:4604)

ترجمہ:  حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ خبردار ! مجھے قرآن کے ساتھ اس جیسی ایک اور چیز بھی دی گئی ہے ۔

۴: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ شَيْئَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُمَا: كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّتِي، وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ (مستدرک للحاکم:319)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ( اگر اس پر عمل پیرا رہو گے ) تو کبھی گمراہ نہ ہو گے ( 1 ) کتاب اللہ ( 2 ) میری سنت ۔ اور یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے ۔

۵: آثارِ صحابہ کرام:

رسول اللہ ﷺ کے اولین تربیت یافتہ صحابہ کرام تھے جو بلاواسطہ رسول اللہ ﷺ سے تعلیم و تربیت حاصل کرتے ۔ قرآن مجید کے علوم ، معاملات میں اللہ تعالی کی رضا مندی اور شرعی احکام نبی کریم ﷺ سے سیکھتے اور اس کے مطابق عمل کرتے تھے۔ جب بھی کسی معاملے میں مشکل درپیش ہوتی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے نبی کریم ﷺ سے اصلاح کرواتے۔صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ کے فرامین میں کوئی فرق روا نہیں رکھتےتھے ۔ نبی کریم ﷺ کے فرمان پر ایسے ہی اتباع کرتے تھے جیسے کسی قرآنی حکم کی اتباع کی جاتی ہے۔  رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم معاملات میں لوگوں کی راہ نمائی کرتے اور کبھی ایسا ہوتا کہ صحابہ کرام کسی ایک معاملے میں  اپنی رائے سے کوئی فتوی دیتے اور نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارک یا سنت کی تصدیق بعد میں ہوتی تو فوراً اپنی رائے کو ترک کر کے سنت نبوی کی اتباع کرتے۔ ذیل میں چند ایک واقعات درج کیے جا رہے ہیں:

۱: حضرت علقمہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبدل اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے بال گوندھنے والی، چہرے کے بال اکھاڑنے والی ، دانتوں میں خوبصورتی کے لیے کشادگی کرنے والی اور اللہ تعالی کی خلقت میں تبدیلی کرنے والی پر لعنت کی  تو اس پر ا م یعقوب نے کہا کہ آپ نے لعنت کیوں کی تو آپ رضی اللہ تعالی ن فرمایا کہ میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں جس پر اللہ تعالی کے رسول نے لعنت کی ہو اور وہ جو کتاب اللہ کے مطابق ہو۔ اس پر اس عورت نے کہا کہ میں نے قرآن مجید پڑھا ہے لیکن مجھے ایسا حکم نہیں ملا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں خدا کی قسم! اگر تو نے قرآن مجید پڑھا ہوتا تو تجھے یہ پڑھنے کو ملتا ، پھر آپ نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی: وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۚ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ(سورۃ الحشر:7)

ترجمہ: وررسول جو کچھ تمہیں عطا فرمائیں وہ لے لو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں تو تم باز رہو۔ (صحیح بخاری:5939)

        اس واقعہ سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ کس طرح صحابہ کرام نبی کریم کی بات کو اہمیت دیتے تھے ، نبی کریم کے عطا کرنے کو اللہ تعالی کی عطا اور رسول ﷺ کے منع کرنے کو اللہ تعالی کا منع کرنا سمجھتے تھے۔

۲: دادی کی وراثت کے معاملے میں ایک بوڑی عورت اپنے پوتے سے وراثت میں دعوی کرتے ہوئے  حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی کے پاس آئی آپ رضی اللہ تعالی نے فرمایا کہ میں کتاب اللہ میں دادی کی وراثت کو نہیں پاتا ۔حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے دادی کو چھٹا حصہ وراثت میں سے دیا ہے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فوراً حدیث مبارک کے مطابق فیصلہ صادر فرمایا۔(سنن ابن ماجہ:2724)

۳: سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے تھی کہ شوہر کی دیت میں سے بیوی کو وراثت نہیں ملنی چاہیے مگر ضحاک بن سفیان رضی اللہ تعالی نے جب رسول اللہ ﷺ کا واقعہ بیان کیا کہ آپ ﷺنے اشیم ضبابی کی بیوی کو دیت میں سے وراثت دی تھی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی رائے سے فوراً رجوع کر لیا۔(سنن ابن ماجہ: 2642)۔

۴: حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھما  کا موقف تھا کہ جس عورت کا شوہر فوت ہو جائےا ور وہ حاملہ بھی ہو تو وہ طویل مدت والی عدت پوری کرے گی مگر حضرت سبیعہ بن حارث رضی اللہ تعالی عنھا نے وضاحت کی مہ میں اپنے شوہر کی وفات کے وقت حاملہ تھی رسول اللہ ﷺ نے میری عدت  وضع حمل کو قرار دیا تھا ، اس پر حضرت علی اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھما نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا۔(سنن النسائی: 3539)

 

ماخوذ ازلیکچرز : ڈاکٹر شہزادہ عمران ایوب صاحب

سبجیکٹ: علوم الحدیث

کلاس PHD سیشن 2023  ایجوکیشن یونیورسٹی  لوئر مال کیمپس لاہور

Share:

8/28/23

blogger post tittle | google my business post | best linkedin posts | google business post

A good blog post is one that effectively communicates valuable and engaging information to its target audience. It goes beyond mere words to captivate readers, inspire thought, and encourage interaction. Here are the key elements that make a blog post "good":

Clear and Compelling Title: A good blog post starts with a title that grabs the reader's attention and provides a clear idea of what the post is about. The title should be relevant, intriguing, and accurately represent the content.

Well-Structured Content: The post should be organized into sections with clear headings, making it easy for readers to navigate and find the information they're looking for. Each section should flow logically from one to the next.

Valuable and Relevant Information: A good blog post provides valuable insights, knowledge, or solutions to a specific problem or question. It addresses the needs and interests of the target audience and offers information they can apply in real life.

Engaging Introduction: The introduction should hook the reader and provide context for the rest of the post. It might include a compelling anecdote, a thought-provoking question, or a surprising statistic.

Thorough Research: If the topic requires it, the blog post should be well-researched and supported by reliable sources. Accurate and credible information adds to the post's authority and usefulness.

Visual Content: Incorporating relevant images, infographics, or videos can enhance the reading experience and help explain complex concepts. Visual content breaks up the text and keeps readers engaged.

Readability: Use clear and concise language. Avoid jargon and complex terminology unless your audience is familiar with it. Short paragraphs, bullet points, and subheadings make the content easier to digest.

Voice and Tone: Develop a consistent voice and tone that matches your blog's style and resonates with your target audience. Whether it's casual, informative, or formal, the tone should be appropriate for the subject matter and audience.

Engaging Writing Style: A good blog post is written in a way that draws readers in. It might include storytelling, relatable anecdotes, or thought-provoking questions to encourage readers to think and feel.

Call to Action (CTA): The post should conclude with a clear CTA, encouraging readers to take a specific action. This could be commenting, sharing the post, subscribing to the blog, or trying out a suggested solution.

Proofreading and Editing: A well-written post is free of grammatical errors, typos, and inconsistencies. Take the time to proofread and edit before publishing to maintain a professional image.

Originality: While it's common for bloggers to draw inspiration from existing ideas, a good blog post offers a unique perspective or adds new insights to the topic. Avoid plagiarism and provide proper credit when referencing other sources.

Engagement and Interaction: A successful blog post sparks discussions and encourages reader engagement through comments, social media shares, and further exploration of related content.

Responsive Design: If your blog is accessed on various devices, ensure that the post's layout is responsive and looks good on desktops, tablets, and smart phones.

Ultimately, a good blog post is a combination of informative content, engaging writing, and a reader-focused approach. It leaves a lasting impact on readers and keeps them coming back for more.

 

Share:

how to rank blogger site on google | tips to grow youtube channel and blogging | blogging tips and tricks

"Blogger" platform generally refers to Google's blogging platform where you can create and publish your blog posts. To rank your Blogger posts higher in search engine results, you need to focus on search engine optimization (SEO) techniques. Here are some steps you can take to improve the ranking of your Blogger posts:

Good blog post: A good blog post is one that effectively communicates valuable and engaging information to its target audience. It goes beyond mere words to captivate readers, inspire thought, and encourage interaction. Here are the key elements that make a blog post "good".

Keyword Research: Identify relevant keywords that your target audience might use to search for content similar to yours. Use tools like Google Keyword Planner, Ubersuggest, or SEMrush to find popular keywords with reasonable search volume.

High-Quality Content: Create informative, engaging, and well-structured content that provides value to your readers. The better your content, the more likely it is to be shared and linked to by others.

Keyword Optimization: Incorporate your chosen keywords naturally into your blog post's title, headings, and throughout the content. However, avoid keyword stuffing, as this can negatively affect your rankings.

Meta keywords, Meta Titles, Meta Tags: Write compelling meta titles and descriptions for each blog post. These tags provide a brief summary of your content in search engine results and should include your target keywords.

Internal External Communication Links: Incorporate both internal links (links to other pages on your blog) and external links (links to authoritative sources) within your posts. This helps search engines understand the context of your content and enhances user experience.

Mobile Friendly Design: Ensure your Blogger template is responsive and mobile-friendly, as Google considers mobile compatibility when ranking websites.

Page Loading Speed: Optimize your blog's loading speed by compressing images, using browser caching, and minimizing unnecessary scripts. Faster-loading pages tend to rank better.

Share your blog i.e. Social Sharing: Encourage readers to share your posts on social media platforms. Social signals can indirectly influence your search engine rankings. Search some free guest blogging websites and share your article with back links.

Link Building SEO Backlinks: Focus on building high-quality backlinks from reputable and relevant websites. Guest posting on other blogs and engaging with the blogging community can help you gain valuable backlinks. You can buy backlinks cheap and link building services.

Regular Updates: Consistently publish new and valuable content to keep your blog fresh and relevant. Search engines favor active and updated websites.

XML Sitemap: Ensure your Blogger blog has an XML sitemap and submit it to Google Search Console. This helps search engines index your content more effectively.

User Experience (UX): Provide a user-friendly experience on your blog. Make sure your website is easy to navigate, with clear categories, tags, and a logical structure.

Engagement: Encourage comments and engagement on your posts. User interactions can signal to search engines that your content is relevant and valuable.

Remember that SEO takes time, and rankings won't improve overnight. It's important to be patient and persistent while implementing these strategies. Keep up with the latest SEO trends and best practices to continuously improve your Blogger blog's ranking.

Share:

8/19/23

نگاہ یار نے بخشا ہے وہ خمار مجھے nigah e yaar ne bakhsha lyrics امیر بخش صابری


 نگاہ یار نے بخشا ہے وہ خمار مجھے

زمانہ کہتا ہے خواجہ کا بادہ خوار مجھے

 

گدائی کی تیری چوکھٹ کی بادشاہی کی

بنا دیا ہے فقیری نے تاجدار مجھے

 

یہ میرے مرشدِ کامل کا ہی تصرف ہے

بنا یا قادری نسبت کا رازدار مجھے

 

اسی نگاہ نے پھر تان لی یہ چلمن سی

کہ جس نگاہ سے پہلے کیا شکار مجھے

 

تو چھوڑ دے میرا پیچھا تو چھوڑ دے واعظ

دکھائی دیتا ہے اب آستانِ یار مجھے

 

امیرِ صابری اب دل پہ اختیار نہیں

ذرا سنبھال  کے لے چل دیارِ یار مجھے

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive