Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

1/26/19

حضرت عبد اللہ بن زبیر.Abdullah Bin Zubair (RA)...c



حضرت عبد اللہ بن زبیر بالاتفاق اسلام کی ایک اہم اور قد آور شخصیت ہیں۔مورخین کے لیے آپ کی شخصیت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ اس لیے تمام نے آپ کا تذکرہ کیا ہے۔خاندانی شرف و کمال, زہد و تقوی حق گوئی شجاعت اور دوسری کئی خصوصیات کی بنا پر آپ کا شمار اکابر صحابہ کرام میں ہوتا ہے۔آپ جلیل القدر صحابہ زبیر بن عوام کے صاحبزادے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نواسے اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے تھے۔ آپ کی والدہ حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنھما ہیں جنہیں رسول اللہ نے ذات النطاقین کا لقب عطا کیا ہے ۔حضرت عبد اللہ بن زبیر 2ھجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اسم عبد اللہ جبکہ کنیت ‘ابو بکر’ خود رسول اللہ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی نسبت سے مقرر فرمائی۔جبکہ دوسری کنیت ابو خبیب آٓپ کے بیٹے خبیب کی وجہ سے منقول ہے۔ہجرت مدینہ کے بعد جب مدینہ میں کچھ عرصہ تک مسلمانوں کے ہاں بچے نہ پیدا ہوئے تو یہودیوں نے یہ بات پھیلانی شروع کی کہ ہم نے جادو اور سحر کاری سے مسلمانوں کے ہاں بچوں کی ولادت کی بندش کر دی ہے۔ کہ ان کے ہاں اب کوئی بچہ پیدا نہیں ہو گا ۔ مگر جب حضرت عبد اللہ بن زبیر کی ولادت ہوئی تو صحابہ کرام نے نعرہ تکبیر بلند کیا ۔ آپ کی والدہ حضرت اسماء آپ کو حضور کی بارگاہ میں لے کر حاضر ہوئیں آپ نے اپنی گود میں اٹھایا اور اپنا لعاب دہن آپ ؓ کے منہ میں لگایا اور کھجور کی گھٹی دی اور خیر و برکت کی دعا کی۔ (مسند الامام احمد)
آپ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے عبد اللہ بن زبیر بن عوام بن خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصئی۔ جناب قصئی پر آپ کا سلسلہ نسب حضور کے ساتھ مل جاتا ہے اس طرح ننہال کی طرف سے آپ کا سلسلہ نسب حضور کے شجرہ کے ساتھ مرہ پر جا کر مل جاتا ہے خاندانی شرف وکمال کی وجہ سے آپ کے قالبِ خاکی میں بہت سے اوصاف جمع ہو گئے تھے ۔ جن کا اظہار ان کی زندگی میں پے درپے ہوتا رہا ہے۔جن کاتذکرہ کتبِ تواریخ میں موجود ہے جو صحابہ کرام کی سیرت کے قاریوں کے دل موہ لیتا ہے۔ آپ کی خاندانی عظمت کے بارے میں برملا کہا جا تا ہے کہ اگر آپ کا ددھیال آفتاب ہے تو آپ کا ننھیال مہتاب ہے۔حضرت عبد اللہ بن عباس حضور کے چچا زاد نے ایک موقع پر آپ کو یوں خراجِ عقیدت پیش کیا ہےجہاں تک حضرت عبد اللہ بن زبیر کے والد کا تعلق ہے تو وہ رسول اللہ کے حواری تھے اور اور رہی بات ان کے نانا کی تو وہ رسول اللہ کے رفیق ِ غار تھے۔ اور ان کی والدہ ذات النطاقین ہیں یعنی حضرت اسماء اور آپ کے خالہ ام المؤمنین ہیں یعنی حضرت عائشہ اور ان کی پھوپھی حضور کی زوجہ تھیں یعنی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور رسول اللہ کی پھوپھی ان کی دادی ہیں یعنی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اور وہ خود اسلام میں پاکباز ہیں اور قارئ قرآن ہیں۔(صحیح بخاری( تو حضرت عبد اللہ کی ذات  میں درج بالا عظیم المرتبت شخصیتوں جیسے کمالات اور اوصاف کا پایا جانا خاندانی شرف اور تربیت و صحبت کا مرہون منت بھی ہے۔
آپ کو براہ راست بارگاہ رسالتِ مآبﷺ  سے فیض یاب ہونے کا موقع بہت کم ملا ہےکیوں کہ ان کی عمر ابھی نو برس تھی کہ آپ کا ظاہری وصال ہو گیا۔اس کے باوجود کتب احادیث میں ان کی مروی احادیث کی تعداد تینتیس ۳۳ ہے جو کہ انکی زبردست قوت حافظہ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ نے پچھنے لگوائے اور جو خون نکلا وہ حضرت عبد اللہ بن زبیر کو دے کر فرمایا کہ اسے کسی جگہ دبا دو یا کسی ایسی جگہ چھپا دینا کہ کسی کو نظر نہ آئے۔آپ گو کہ کم عمر تھے مگر آپ سے بے پناہ محبت کرتے تھے آپ نے رسول اللہ سے خون لیا اور  نظر سے اوجھل ہو کر پی لیا واپس آئے تو رسول اللہ نے وچھا تو عرض کیا میں نے اپنے مطابق سب سے محفوظ جگہ رکھ دیا رسول اللہ نے فرمایا ایسا محسوس ہوتا ہے تو اس کو پی گیا ہے۔ تو عرض کیا ہاں یا رسول اللہ۔ تو آپ نے فرمایا جس کے بدن میں میرا خون جائے گا جہنم کی آگ اس کو نہیں چھو سکتی ۔(حکایات صحابہ)
تعلیم و تربیت میں آپ نے اپنے والدین اور خالہ سیدہ عائشہ ؓ سے خوب استفادہ کیا۔ یہ بات بھی آپ کی ذہانت اور راسخ العقل ہونے کی دلیل ہے آپ کے لڑکپن میں آپ سے لوگوں نے پوچھا کہ ؛ آپ کے نزدیک عالم اور درویش ہونا بہتر ہے یا تونگر اور جاہل ہونا تو آپ نے فرمایا علم کا درویشی کے ساتھ ہونا اچھا ہے کیوں کہ جب میں عالم ہوں گا تو ہو سکتا ہے کہ اپنے علم کی وجہ سے میں دولت مند ہو جاوں اس وقت عالم بھی ہوں گا اور مالدار بھی مگر رہی بات جاہل ہونے کی تو جب جاہل ہوں گا تو ممکن ہے کوئی ایسی بات کروں جس سے میرا مال بھی جاتا رہے پھر میرے پاس جہالت اور درویشی باقی رہ جائے گی۔
حضرت عبد اللہ بن زبیر بچپن سے ہی نڈر اور بہادر تھے جنگ خندق کے وقت ان کی عمر پانچ برس تھی ان کی عمر کے بچے جنگ کا منظر دیکھنے کی جرات بھی نہیں کر سکتے تھے مگر ننھے عبد اللہ یہ منظر بڑی دلچسپی سے دیکھا کرتے تھے۔
آپ کی شخصیت میں بڑائی اور عظمت کے آثار بڑے واضح تھے شجاعت بہادری حسب و نسب عزت و وقار علم و فضل حق گوئی غیر معمولی قوت حافظہ اور شعلہ بیانی جیسے اوصاف سے متصف شخصیت کے مالک تھےخلافت راشدہ کے زمانے میں آپ نے کئی مہمات میں شجاعت و بہادری کے جوہر دکھائے تھے ۷۳ ھجری میں حجاج بن یوسف کے مکہ پر حملہ کے دوران آپ نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔



ماخذ
صحیح بخاری۔۔ مسند امام احمد ۔۔۔الاصابہ ۔ الاسد الغابہ۔۔۔الاستیعاب۔۔سیرت حضرت  عبد اللہ بن زبیر ۔۔۔۔ حکایاتِ صحابہ

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive