Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

4/27/24

The Duties of Muslim Diplomates | Study of Islamic Teachings | An Abstract | مسلم سفارت کار

عصر حاضر میں مسلم سفارت کاروں کے فرائض ۔احادیث نبویہ کی روشنی میں

Tooba Khalid Noori

Doctoral Candidate Islamic Studies, University of Education, Lahore, Division of Islamic and Oriental Learning, Lower Mall Campus, Lahore

Click Here for Abstract

اسلام میں سفارت کاری ایک یا دو دن میں پروان نہیں چڑھی بلکہ پیغمبر اسلام ﷺ کے زمانے سے لے کر اب تک اس نے ایک خاص شکل اختیار کر لی ہے۔  اسلام کا ظہور نہ تو کوئی معمولی واقعہ تھا، جیسا کہ کچھ مسیحی تاریخ دانوں نے اس کی تصویر کشی کی  اور نہ ہی ایک اہم واقعہ کی، لیکن یہ روحانی عقیدے اور مادہ پرست فلسفے کے درمیان جدوجہد میں ایک اہم موڑ کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں سماجی، معاشی، قانونی، ثقافتی اور سیاسی انسانی سرگرمیوں کے تمام شعبوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اسلام ذات پات، مذہب اور رنگ سے بالاتر ہو کر تمام انسانیت کے لیے ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جو انسان کی مساوات پر مبنی ایک عالمگیر ریاست کا تصور پیش کرتا ہے۔

ریاست کی بنیادی ذمہ داری رعایا کی زندگی میں نظم و ضبط پیدا کرنا اور تحفظ کے لیے اقدامات کرناہے۔  سماجی نظم و نسق کی ایک نہایت خوبصورت شکل سفارت کاری ہے ۔ سفارت کاری کا دوسرا نام ڈپلومیسی بھی ہے۔

 عصر حاضر میں بھی سفارتکاری کا ایک اہم کردار متعین ہے۔ آج دنیا جس تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ مختلف ممالک کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور طاقت کے بے دریغ استعمال کا مظاہرہ بھی ہو رہا ہے۔ مگر سفارتکاری کسی نہ کسی شکل میں بین الاقوامی ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کے فروغ اور اختلافات و تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لئے اہم کردار ادا کر رہی ہے۔وگر نہ آج پھر سے زمانہ جاہلیت کی طرح دنیا میں جنگل کا قانون برپا ہوتا۔ اسی طرح سفارتکاری کسی ملک کے خارجہ تعلقات اور اندرون ملک مختلف گروہوں کے درمیان صلح اور گفتگو شنید کو اجاگر کرنے میں نمایاں نظر آتی ہے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ احادیث نبویہ  کو مدنظر رکھتے ہوئے سفارت کاری کی نئی جہتوں کو قائم کیا جائے جو امن و سلامتی اور سماجی نظم و نسق کو بہتر انداز میں ابھار سکے۔

اس مقالے میں سفارت کاری اور سفیر کا تعارف پیش کرنے کے بعد سفارت کاری کی ضرورت و اہمیت کو  واضح کیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ایک سفارت کار میں کونسی خوبیوں کا پایا جانا ضروری قرار دیا ہے ، اس کو احادیث نبوی کی روشنی میں مفصل انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ان سب کے بعد عصر حاضر میں ایک سفارت کار کے  کیا فرائض ہیں ؟  اس کا جواب احادیث کی روشنی میں دیا گیا ہے ۔تاکہ بین الممالک تعلقات اچھے ہوسکیں اور اسلام کی تشہیر اور ترقی کی راہیں ہموار ہو سکیں۔ آخر میں مقالے کا خلاصہ اور نتائج مذکور ہیں۔

سفارت کاری اور سفیر کا تعارف

            سفارت کاری “ diplomatic”یونانی لفظ diploma سے مشتق ہے جس کا مطلب بادشاہ کی طرف  سےجاری شدہ سند  جو حامل کو خصوصی مراعات کا حقدار بناتی ہے۔

سفارت کاری کا مفہوم کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ پیشہ، مذاکرات، محبت و شائستگی اور خارجہ پالیسی۔ بحیثیت علم سفارت کاری کے کچھ اصول و قواعد ہیں جس کا مطلب ملکوں اور تنظیموں کے مابین تعلقات بہتر مقاصد کے لیے استعمال کیے جائیں۔دوسرے ممالک سے تعلقات اور کاروبار کو پر امن طریقے سے چلانے کے عمل کو سفارت کاری کہتے ہیں۔

سفارت کاری سے مراد دوسرے ممالک کے مفادات کا تحفط کرنا ، ریاستوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کو بھی سفارت کاری کہا جاتا ہے۔[1]

اہل دانش اس بات پر متفق ہیں کہ:

"سفارت کاری ایک عظیم علم و فن ہے،  اس فن کے اعتبار اسے پڑھا ، سیکھااور قوانین و اصولوں کو جانا جاتا ہے۔اس فن کے اعتبار سے یہ حساس پیشہ ہے۔"

سفارت کاری سے مراد مسلم اور غیر مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنا، آزادانہ تجارتی معاہدات طے کرنااور ثقافتی مواصلات کو یقینی بنانااور ان کے ساتھ سماجی، سفارتی، سائنسی اور مالی تعاون کے لیے رجسٹریشن کروانا ضروری سمجھی جاتی ہے تاکہ ان تک رسائی ممکن ہو سکے۔

سفیر کا مادہ س۔ ف۔ ر ہے۔عربی لغت کے اعتبار سے یہ مادہ مختلف معانی کے لیے  استعمال ہوا ہے۔ یہ کشف اور وضاحت کے معنوں میں پایا جاتا ہے۔ سفر کو سفر اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں انسان کے اخلاق کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔ جیسے "الصبح یسفر"[2] صبح روشن ہو گئی۔

سفیر کی جمع سفراء ہے۔سفیر کو رسول بھی  کہتے ہیں جس کی جمع رسل ہے۔ رسول ارسال سے مشتق ہے جن کا لفظی معنی بھیجنا کے ہیں۔[3]یوں سفیر اور پیغمبر معنی میں دونوں برابر ہیں، مگر اصطلاحی وضع میں دونوں کا مفہوم الگ الگ ہے۔ رسول خالق کائنات کی طرف سے مبعوث ہوتا ہے اور خالق کائنات کی طرف سے دئیے گئے احکامات کی تبلیغ پر مقرر ہوتا ہے۔ اور مبلغ اس زمانے کے کل انسانوں تک لے لیے ہوتا ہے۔جبکہ سفیر ریاستی نمائندے کے تحت اپنے فرائض سر انجام دیتا ہے۔ جس کا مقصد دونوں ملکوں کو قریب لانا اور اپنے مفادات کو تحفظ دینا شامل ہے۔[4] سفیر کو انگریزی میں" ambassador "کہتے ہیں۔

“Ambassador is a minister sent by one sovereign or state on mission to another.”[5]

                     "سفیر ایسا وزیر ہے جو کسی بادشاہ یا ریاست کی طرف سے مشن کی تکمیل کے لیے بھیجا جاتا ہے۔"

محیط المحیط میں سفیر کے منصب کو سفارت کے شعبہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ:

وظیفۃ السفیر و مقامہ فی اصطلاح ارباب السیاسۃ السفارۃ "[6]

"سفیر کا وظیفہ اور مقام ارباب سیاست کی اصطلاح میں سفارت ہے۔"

سفارت کاری ایک کثیر جہتی عمل بن چکی ہے۔ ریاستوں  اور ملکوں کے درمیان ایسے کئی سرکاری اور غیر سرکاری روابط قائم ہو رہے ہیں جو سفارت کاری کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔سفارت کاری کی کامیابی اس ملک کے داخلی ، سیاسی، اور معاشی تناظر پر موقوف ہوتی ہے۔ اگر کوئی ملک سیاسی حوالے سے مضبوط اور مستحکم ہے، اس کی معیشت اتنی ہی طاقتور ہے کہ ٖغیر ملکی سرمایہ کاری اور تجارت کے لیے خاص کشش رکھتی ہے تو عالمی برادری میں اسکے امیج کو فروغ ملے گا۔ اسی طرح سرگرم تجارتی اور معاشی تعلقات بھی ڈپلومیسی میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ کسی ملک کے معاشی، تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات جتنے مستحکم ہوں گے، عالمی سطح پر اس ملک کی سفارت کاری کی کامیابی کے امکانات بھی اتنے ہی روشن ہوتے ہیں۔

سفارت کاری کی ضرورت و اہمیت کتاب و سنت کی رو سے

قرآن مجید اور احادیث نبویہ ﷺمسلمانوں کے لیے ہدایت و رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ اسی لیے قرآن و سنت  میں سفارت کاری کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے، جو کہ مسلمانوں کی اقتصادی اور اجتماعی ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ جیسا کہ قرآن و سنت  میں صلح و سلامتی  کا بارہا ذکر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَـهَا [7]

"اور اگر وہ صلح کے لیے مائل ہوں تو تم بھی مائل ہو جاؤ۔"

اسی طرح حدیث مبارکہ میں بھی ارشاد ہے:

الصُّلْحُ جَائِزٌ[8]

"صلح جائز ہے۔"

 سفارت کاری میں سفارت کار کا ایمانداری اور اس کے اصولوں پر عمل پیرا ہونا بہت ضروری ہے۔سفارت کاری میں ایمانداری سے کام کرنا اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ خود کو اور دوسروں کو دھوکہ بازی اور فریب سے دور رکھ سکے۔سفارت کاری میں دوسرے ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنا بہت اہم ہے۔ اسی لیے قرآن و سنت میں بھی معاشرتی تعلقات کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔

عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ".[9]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ نہ چاہے جو اپنے نفس کے لیے چاہتا ہے۔

قرآن و سنت  کی روشنی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سفارتی تعلقات میں ایک دوسرے کے حقوق و واجبات اور ذمہ داریوں کا خیال رکھنا بہت ضروری اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔رسول ﷺ کی حیات طیبہ میں سفارت کاری کے ذریعے قوموں اور ملکوں کے تمام معاملات کو بخوبی نمٹاتے رہےجو خاص کر پیغامات ، خطوط وغیرہ کی شکل میں ہوتا تھا مگر باقاعدہ طور پر سفارت کاری کا کوئی شعبہ مقرر نہیں کیا گیا تھا۔بعد میں بھی سفارت کاری پر خاطر خواہ کام نہ ہوا۔

بنو امیّہ کے دور میں سفارت کاری کا ادارہ قائم ہوا مگر اس میں معاہدات صلح پر دستخط کیے جاتے یا خراج ادا کیا جاتا لیکن نہ تو معاہدوں کے متن محفوظ کیے جاتے نہ ہی ان کی تفصیلات بتا ئی جاتیں۔بنو عباس کے دور میں سفارتی اداروں کو عروج حاصل ہوا۔ مسلم اور غیر مسلم حکمرانوں کے درمیان سیاسی، تجارتی اور مجلسی مقاصد کے لیے سفیر آتے جاتے۔ فاطمی اور مملوک حکمرانوں نے یہ معمول جاری رکھا۔ لہذا ان کے سفیر یورپ، وسطی ایشیاء اور مشرقی ایشیاء بھی جاتے رہے۔

مسلم سفارت کارکی    خوبیاں

سفارت کاری جیسے منصب کے لیے  اسی شخص کو منتخب کیا جاتا ہے جو اس منصب کے اہل ہونے کے ساتھ ساتھ اس منصب سے متعلقہ ضروری قواعد و ضوابط سے واقف ہو۔سفارت کارکے لیے ماہرین سیاسیات نے کچھ خوبیاں بیان کی ہیں کہ سفارت کار  اپنی  ذاتی زندگی کے ساتھ ریاست کا بہترین تصور اور نظام بھی پیش کر سکے۔اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے  دوسری ریاست کی ذہنی اور فکری صلاحیتوں کو تبدیل کر کے اپنی ریاست کے قریب لا سکیں۔جس طرح جسمانی خوبیاں شخصیت کو دلکش اور وجیہہ بناتی ہیں اسی طرح عقلی خصائص سوچ و فکر کو واضح کرتی ہیں۔ نیز ذیل میں درج تمام خوبیاں اور خصوصیات نبی کریمﷺ میں موجود تھیں۔[10]

کامل ایمان: اسلامی ریاست کے سفارت کار  کا پختہ یقین اور ایمان کے جذبے سے سرشار ہونا ضروری ہے۔ اگر اس میں یہ صفت موجود نہیں ہوگی تو پھر وہ سلطنت کی صحیح نمائندگی نہیں کرسکے گا۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِـىٓ اَدْعُوٓا اِلَى اللّـٰهِ ۚ عَلٰى بَصِيْـرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِىْ ۖ وَسُبْحَانَ اللّـٰهِ وَمَـآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ[11] 

"کہہ دو یہ راستہ ہے کہ میں لوگوں کو اللہ کی طرف بلا رہا ہوں، بصیرت کے ساتھ میرا اور میرے تابعداروں کا، اور اللہ پا ک ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔"

اتباع محمدﷺ: سفارت کار کے لیے ایمان کامل کی شرط اور اتباع محمدی ﷺ سے سرشار ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ درحقیقت رسول اللہ کی اطاعت اللہ تعالی کی اطاعت ہے۔ جیسا کہ ارشاد نبویﷺ ہے:

مَنْ يُّطِــعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّـٰهَ[12]

"جس نے رسول کی اطاعت کی درحقیقت اس نے اللہ کی اطاعت کی"۔

پرکشش ذات:  سفارت کار  کا کردار گفتار اور شخصیت پر کشش ہونی چاہیے کیونکہ دلکش اور پروقار شخصیت ہی اثر انداز ہوتی ہے۔ جیسا کہ حضرت دحیہ کلبی﷜ کا شمار رسول کریمﷺ کے سفیروں میں ہوتا تھا کیونکہ وہ بہت خوبصورت تھے ۔ جس کو اس طرح اما م مسلم نے بیان کیا ہے:

وکان جبریل ینزل احیانا بصورتہ[13]

"اور کبھی کبھی جبریل ان کی صورت میں تشریف لایا کرتے تھے۔"

بہترین نام:  سفارت کار کا نام خوبصورت ہو۔ کیونکہ نام کے فرد پر جسمانی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرکین مکہ کی طرف سے سہیل سفیر بن کر آئے تھے اور آپ ﷺ انتہائی خوش ہوئے اور فرمایا

لقد سھل لکم امرکم[14]

"درحقیقت اللہ تعالیٰ نے تمہارے معاملے کو آسان کردیا۔"

زبان و گفتگو پر عبور:  جس ملک میں سفارت کار بن کر جا رہا ہو اس  ملک کی زبان پر مکمل عبور ہو۔ تاکہ وہ کھل کر اپنا مدعا بیان کرسکے۔ اور بہترین سمجھانے والا بھی ہو۔ جیسا کہ  جب اسلام کو سربلندی ملی تو رسول اللہ ﷺنے تبلیغ دین کے لئے سرزمین عرب سے ہٹ کر عجم پر توجہ فرمائی۔ مختلف ممالک کے سفراء اور خطوط آنے لگے تو حضور اکرم نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو فارسی سیکھنے کا مشورہ دیا۔

عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: " أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتَعَلَّمَ لَهُ كَلِمَاتٍ مِنْ كِتَابِ يَهُودَ، قَالَ: إِنِّي وَاللَّهِ مَا آمَنُ يَهُودَ عَلَى كِتَابٍ، قَالَ: فَمَا مَرَّ بِي نِصْفُ شَهْرٍ، حَتَّى تَعَلَّمْتُهُ لَهُ، قَالَ: فَلَمَّا تَعَلَّمْتُهُ كَانَ إِذَا كَتَبَ إِلَى يَهُودَ كَتَبْتُ إِلَيْهِمْ، وَإِذَا كَتَبُوا إِلَيْهِ قَرَأْتُ لَهُ كِتَابَهُمْ "[15]

"زید بن ثابت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کے لیے یہود کی کچھ تحریر سیکھ لوں، آپ نے فرمایا: ”قسم اللہ کی! میں یہود کی تحریر پر اعتماد و اطمینان نہیں کرتا، چنانچہ ابھی آدھا مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ میں نے آپ کے لیے اسے سیکھ لیا۔ کہتے ہیں: پھر جب میں نے سیکھ لیا اور آپ کو یہودیوں کے پاس کچھ لکھ کر بھیجنا ہوا تو میں نے لکھ کر ان کے پاس بھیج دیا، اور جب یہودیوں نے کوئی چیز لکھ کر آپ کے پاس بھیجی تو میں نے ان کی کتاب (تحریر) پڑھ کر آپ کو سنا دی۔"

جسمانی اور علمی ہئیت : سفارت کار کی ذاتی خصوصیات میں جسمانی قد کا بھی باوقار شخصیت کا حصہ ہے۔ جیسا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسکندریہ کے بادشاہ کو سفیر بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت حاطب ﷜جو طویل القامت، انتہائی خوبصورت، پر اثر شخصیت، چھوٹی داڑھی اور ذہین و فطین تھے۔ مقوقس اسکندریہ نے متاثر ہو کر کہا :

انت حکیم جآء من عند حکیم[16]

"تم تو حکیم  ہواور حکیم کے پاس آئے ہو۔"

شجاعت و بہادری: ذاتی اوصاف میں ایک وصف شجاعت و بہادری بھی ہے۔ کیونکہ سفارت کار  کو غیر معمولی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عمرو بن العاص﷜ ایک زیرک بزرگ، بہادر سپہ سالار اور اسلام سے قبل اہل عرب کے سفیر ہوا کرتے تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد نبی کریمﷺ آپ کو آپ کی بہادری اور سمجھداری کی وجہ سے اپنے پاس بٹھایا کرتے تھے۔[17]

عزت نفس : اسلام سفارت کار  کے احترام کا حکم دیتا ہے انہیں تکلیف دینا یا مشکلات میں ڈالنا اسلام کا مزاج نہیں ہے۔ اسلام سفراء کو مکمل عزت اور رواداری کا حکم دیتا ہے۔ سفیر کی خاص طور پر خاطر تواضع کی جاتی ہے۔ اس بات کو سمجھا اور سنا جاتا ہے۔سفیر کو حالت امن اور حالت جنگ میں  جان و مال کا تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

 ارشاد نبوی ﷺہے:

عن ابيه نعيم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لهما حين قرا كتاب مسيلمة:" ما تقولان انتما؟ قالا: نقول كما قال، قال: اما والله لولا ان الرسل لا تقتل لضربت اعناقكما".[18]

نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس وقت آپ نے مسیلمہ کا خط پڑھا اس کے دونوں ایلچیوں سے کہتے سنا: ”تم دونوں مسیلمہ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟“ ان دونوں نے کہا: ”ہم وہی کہتے ہیں جو مسیلمہ نے کہا ہے، (یعنی اس کی تصدیق کرتے ہیں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ نہ ہوتا کہ سفیر قتل نہ کئے جائیں تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا۔

"نبی کریم ﷺکے پاس مخالف اقوام کے سفیر آنے لگے وہ آپ کے خلاف دشمنی کا اظہار کرتے آپ نہ ان کے خلاف جارحانہ اقدام کرتے اور نہ ہی قتل کرتے تھے۔"[19]

ٹیکس سے نجات: اسلامی نقطہ نظر سے غیر مسلم ملک کا کوئی شخص بھی سفارت کار بن کر جائے اگر اس کے پاس سامان تجارت نہیں تو اس  سے کسی قسم کا ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔[20]

عدالتی تحفظ : سفارت کار  جس ملک میں خدمات سرانجام دے رہا ہوتا ہے اگر اس سے کوئی جرم سرزد ہو جائے تو سفارت کار  کو قانونی طور پر تحفظ حاصل ہو گا۔ مگر فقہاء اسلام کہتے ہیں خواہ سفارت کار  عارضی ہو یا مستقل، اسلام میں داخل ہونے پر اسلامی احکامات کا پابند ہو جاتا ہے۔نبی کریم ﷺنے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کرنے کے بعد عرب سے باہر اقوام عالم اور طاقتور قوتوں کو تبلیغ دین کے لئے مصروف ہوئے لہذا آپﷺ نے دین اسلام کی تبلیغ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے صحابہ کرام﷢ کو سفارت کاری  کی ذمہ داری سونپی۔[21]

مسلم سفارت کار کے فرائض

            مختلف ممالک کے سفارت کاروں کے افعال مشترک ہیں۔ سفارت کار کے حسب ذیل فرائض ہیں جنہیں حسن و خوبی سے نبھانا اور انجام دینا اس کے فرائض منصبی میں شامل ہے:

·       اسلام کی تشہیر

سفارت کار کا دوسرے ممالک میں اسلام کی تشہیر کرنا ایک اہم اور ضروری کام ہے جو مسلمانوں کے لئے مقدس اور معنی خیز ہوتا ہے۔ اسلام کی صحیح تشہیر سے نہ صرف دوسرے ممالک میں اسلام کی بہتر سمجھ اور پذیرائی ہوتی ہے بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کو اسلام کی حقیقت سے روشناس کرانے کا موقع بھی ملتا ہے۔

سفارت کا ر کا سب سے پہلا اور اہم فرض یہ ہے کہ وہ جب بھی کسی غیر اسلامی  ملک میں جائے تو وہاں کے لوگوں میں اسلام کی تشہیر کرے۔ ان کو اسلام کے بارے میں معلومات پہنچائے۔جیسا کہ حدیث نبویﷺ ہے :

عَنْ أَبِیْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّؓ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِذَا بَعَثَ اَحَدًا مِنْ أَصْحَابِہِ فِیْ بَعْضِ أَمْرِہِ قَالَ: بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا وَیَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا۔[22]

"سیدنا ابو موسی اشعری ﷜سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ  ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ جب اپنے صحابہ میں سے کسی کو کسی کام کے لیے بھیجتے تو فرماتے:  (لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے وقت) خوشخبریاں سنانا اور متنفر نہ کر دینا اور آسانیاں پیدا کرنا اور (دین میں) مشکلات پیدا نہ کر دینا۔   "

اسی لیےایک سفارت کار کو چاہیے کہ جب بھی کسی کے سامنے اسلام کی تشہیر کرے تو سب سے پہلے اسلام میں موجود آسانیاں اور خوشخبریاں بیان کرے تاکہ لوگ  مذہب اسلام کی طرف مائل ہو جائیں۔ دین اسلام سے متنفر نہ ہوں۔یہاں کچھ طریقے ہیں جن کے ذریعے سفارت کار اسلام کی تشہیر کر سکتے ہیں:

1)    اسلام کے اصولوں اور اہمیت کے بارے میں معلوماتی سیمینارز اور ورکشاپس کا انتظام کریں۔ مختلف موضوعات پر گفتگو اور تبادلہ خیال انتظام کرکے لوگوں کو اسلام کے اصولوں کے بارے میں واقعی جانکاری فراہم کریں۔

2)    اسلامی تعلیمات کے اہم نکات، قرآنی آیات اور حدیث کی تشہیر کرنے کے لئے اسلامی کتب، مضامین، اور ویڈیوز کا استعمال کریں۔

3)    معیاری اور عالی اسلامی فلموں، ڈاکمنٹریز، اور انیمیشن فلموں کی نمائش  کر کے لوگوں کو اسلام کی معاشرتی، فرہنگی، اور تاریخی پس منظر سے واقفیت کرائیں۔

4)    مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان  ڈائلاگ کے انتظامات کریں تاکہ مختلف مذاہب  کے لوگ ایک دوسرے کے بارے میں بہتر جان سکیں اور ایک دوسرے کے ساتھ احترام و تواضع سے پیش آ سکیں۔

5)    اسلام کی اہم اصولوں میں شامل خدمت خیراتی کاموں کی تشہیر کر کے لوگوں میں محبت اور مہربانی کے جذبات پیدا کریں۔

6)    اسلامی میلے یا موسمی تقاریب اور فیسٹیولز کے انتظامات کریں جیسے رمضان، عید الفطر، عید الاضحی وغیرہ۔ ان تقاریب میں مختلف مذاہب کے لوگوں کو شرکت کی دعوت دی جا سکتی ہے تاکہ وہ اسلامی فرہنگ کو بہتر سے سمجھ سکیں۔

اس طرح کی تشہیر کے ذریعے، سفارت کار اسلام کے اصولوں، اخلاقی اقدار اور فرہنگ کو دوسرے ممالک میں پہنچا سکتے ہیں اور اہل وطن کو اسلام کے بارے میں بہتر جانکاری حاصل ہو سکتی ہے۔

·       دعوت اسلام

سفارت کا ر کا دوسرا فرض یہ ہے کہ وہ جب بھی کسی غیر اسلامی  ملک میں جائے تو وہاں کے لوگوں کو  اسلام کی دعوت دے ۔ اسلام میں دعوت کا اہم کردار ہے ۔ اسلامی تعلیمات کو دوسرے لوگوں کے ساتھ بانٹے اور انہیں راہنمائی فراہم کرنے کے لیے مخصوص حدیث مبارکہ ہیں جو مسلم سفارت کاروں کے لئے اہم ہیں:

جیسا کہ حدیث نبویﷺ  ہے:

بعث النبي صلى الله عليه وسلم خالد بن الوليد إلى بني جذيمة، فدعاهم إلى الإسلام[23]

 "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بنی جذیمہ کی طرف روانہ کیا، خالد رضی اللہ عنہ نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔"

 "خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہُ" [24]

"تم میں بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھتا ہے اور دوسرے کو سکھاتا ہے۔"

اس حدیث میں دوسرے لوگوں کو اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کرنے اور قرآن کی تعلیمات کو سیکھانے کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔

 "بَلِّغُوا عَنِّی وَلَوْ آیَۃً" [25]

 "میری طرف سے چاہے آپ ایک آیت ہی کیوں نہ سنائیں۔"

اس حدیث میں پیغمبر اکرم ﷺ نے دعوت کی اہمیت کو بیان کیا ہے، چاہے آپ کسی بھی اہم اصول یا مسئلہ کو دوسرے تک پہنچانے کے لئے محنت کر رہے ہوں۔

 "مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى، کَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا یَنْقُصُ ذٰلِکَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَیْئًا" [26]

 "جو شخص ہدایت کی طرف دعوت دیتا ہے، وہ اُس کے اجر کے برابر اُجور رکھتا ہے، جو لوگ اُس کی دعوت میں آمد کرتے ہیں ان کی اُجور میں سے کچھ بھی کم نہیں ہوتا۔"

اس حدیث میں دوسرے لوگوں کو اسلام کی طرف رہنمائی دینے کی بہت بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے۔یہ حدیث مبارکہ انسانوں کو دعوت اسلام کی اہمیت اور اُس میں لگنے والے اجر اور ثواب کی بات سمجھانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ ان حدیثوں کو دل سے سمجھنے اور عمل میں لانے کے ذریعے، مسلمان سفارت کار دوسرے ممالک میں اسلام کی دعوت کو مزید فروغ دے سکتے ہیں۔

اسلام کی تعلیمات  اور اُس کی خوبصورتی کا دوسرے ممالک میں دعوت دینا ایک بہت ہی مقدس اور اہم کام ہے۔ مسلم سفارت کار  کئی طریقوں سے دوسرے ممالک میں اسلام کی عظمت اور خصوصیات کی دعوت دے سکتے ہیں:

1.     خود کو اور دوسروں کو اسلامی اخلاق اور ایمانیت کی تربیت دینا بہت اہم ہے۔ اپنے عملوں اور بات چیت میں ایمان اور صداقت دکھانا، دوسرے لوگوں کو بھی انہیں اپنانے کی سمجھ دلانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

2.     دوسرے ممالک میں اسلامی تعلیمات اور قرآن کی تعلیمی سرگرمیوں  کا انعقاد کرنا۔ مذہبی تعلیمات کی ترویج کے لئے مساجد، اسلامی انٹیلی جنسی کمیٹیز، اور مختلف تعلیمی ادارے تشہیری اور تعلیمی سرگرمیوں کا انتظام کر سکتے ہیں۔

3.     غریبوں، یتیموں، اور محتاج لوگوں کی مدد کے لئے معاشرتی خدمات فراہم کرنا۔ اسلام کے اصولوں کے مطابق دوسروں کی مدد کرنا بہت اہم ہے۔

4.     دوسرے مذہبی گروہوں کے لوگوں سے احترام اور تفہیم کے ساتھ بات چیت کرنا۔ اختلافات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ان کے سوالات کے جوابات دینے کے لیے  مکمل محنت کریں۔

5.     اسلام کے مقدس مفہومات اور تعلیمات کو ویب سائٹس، ویڈیوز، اور سوشیل میڈیا کے ذریعے فراہم کرنا۔

6.     دوسرے ممالک میں مقامی زبان میں دعوت دینے سے افراد کو آپ کی بات سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

یہ تمام اقدامات مدد فراہم کر سکتے ہیں تاکہ دوسرے ممالک میں اسلام کی بات چیت کو فروغ دینے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔

·       کشیدگی کا خاتمہ

یعنی اُن کا دوسرے ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانا۔ سفارت کار  کے معنی چونکہ حکومتوں کے درمیان پردہ اٹھانے کے بھی ہیں۔ اس لیے اس کا فرض ہے کہ حکومتوں کی رنجشوں کو دور کرنے کے لیے ان کے سامنے صاف اور واضح حقائق کھول کر رکھ دے۔تاکہ ان کے درمیان سے کشیدگی ختم ہو جائے۔[27]

لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ وَيَقُولُ خَيْرًا وَيَنْمِي خَيْرًا "[28]

"وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں میں صلح کرائے اور اچھی بات کہے اور اچھی بات پہنچائے۔"

اس حدیث مبارکہ سے سفارت کار کی خوبی کا پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگوں اور ملکوں کی درمیان کشیدگی ختم کرنے کا فرض بھی ادا کرتا ہے۔ اور جو شخص کسی کے درمیان صلح کراتا ہے وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا وہ ہمیشہ حقائق پر مبنی بات کرتا ہے۔ یہ اہم ہے کہ سفارت کار اُن ممالک کی رہنمائی اور اُن کے شہریوں کی مدد کریں تاکہ دونوں ممالک کے سفارتی   تعلقات مضبوط ہوں۔یہ اہم ہے کہ سفارت کار اُن ممالک کی معیشت، ثقافت اور سیاست کو سمجھیں تاکہ وہ بہترین طریقے سے اُن کے ساتھ تعلقات بنا سکیں۔

اس کے علاوہ، مسلم سفارت کار کو  سماجی امور میں بھی مہارت رکھنی چاہئے تاکہ وہ مختلف ثقافتوں اور مذہبی اقلیتوں کے بیچ موجود مختلف معاملات میں فعالیت دکھا سکیں۔ یہ دوسرے ممالک میں مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت اور ترویج کرنے میں بھی مدد کرتا ہے۔یہ ممکن ہے کہ مسلم سفارت کار کی ذمہ داریاں بہت وسیع ہوں، جیسے کہ وطنی معاملات، تجارتی تعلقات، تعلیمی تبادلے، ثقافتی مفاہمت، اور مذہبی امور میں مدد فراہم کرنا۔ یہ اُن کا کام ہوتا ہے کہ دو مختلف معاشروں کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانا اور دوسرے ممالک کے ساتھ امن اور متوازن تعاملات کو بڑھانا۔

·       بین الممالک صلح کی کوشش کرنا

جب کوئی مسلم سفارت کار اپنے بین الممالک دوستوں اور دشمنوں کے درمیان صلح کی کوشش کرتا ہے، تو یہ ایک اہم اور نیک قصد ہوتا ہے۔ اسلام میں صلح اور امن کے فروغ اور محبت کی ترویج کو  بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن اور حدیث میں بھی صلح اور دوستی کی باتیں اور محبت کے اصولوں کی باتیں کی گئی ہیں۔سفارت کا ر  کا ایک فرض قوم کے درمیان صلح و دوستی کی کوشش کرنا بھی ہے۔[29] جیسے حضرت علی نے حضرت عثمان سے کہا کہ لوگ مجھے آپ کے اور اپنے درمیان سفیر بننے کے لیے کہتے ہیں یعنی انہوں نے مجھے سفیر بنایا ہے تاکہ لوگوں کے درمیان صلح کروا دوں۔[30]

مسلم سفارت کار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملک کی ترقی اور امن کے لئے جمعیت کے ساتھ مل کر کام کرے۔ وہ دوسرے ممالک کے ساتھ موثر اور متعدد پہلووں پر بات چیت کریں تاکہ علاقائی اور عالمی سطح پر معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی امور میں ترقی ہو سکے۔صلح کی کوشش کرنے والے سفارت کار کو دوسرے ممالک کے فہم اور مقامی حقائق کو سمجھنے اور قبول کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ انصاف، برابری اور احترام کے اصولوں کا پیروی کرتے ہوئے بات چیت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔صلح کی کوشش کرنے والے مسلم سفارت کار کا یہ عمل ان کی ایمانیت، محبت، اور مصروفیت کا ثبوت ہوتا ہے۔ جس میں وہ اپنے دین اور اپنے ملک کے لئے خدمت کرتے ہوئے دنیا کو بہتر بنانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

·       مذہبی معاملات و اصلاحات کی ترویج وتحفظ

سفارت کار کے ایک معنی مذہبی خیالات کی عکاسی کرنے والا  بھی ہے [31]۔ اس کے فرائض میں سے ایک فرض یہ بھی ہے کہ اپنے مذہبی خیالات کی عکاسی کرنے میں اپنی مکمل ذہنی استعداد استعمال کرے۔ کیونکہ دوسری حکومتوں کے ساتھ کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ وہاں تبلیغی اور سفارتی مشن قائم کرکے اسلامی روایات اور عقائد جیسا کہ اخلاقی اصول، نماز، زکوۃ، رمضان، حج، جہاد تعلیم وغیرہ کی ترویج کرے۔

"خَیْرُ النَّاسِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ"۔ "الصَّلَاةُ عِمَادُ الدِّیْنِ"۔ "مَنْ لَمْ یَؤُدِ الزَّکَاۃَ لَهُ یُعَقِّبُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ"۔ "مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ"۔ "وَلِلَّہِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلًا"۔ "الْمُجَاہِدُ مَنْ جَاہَدَ نَفْسَہُ فِی طَاعَۃِ اللَّہِ"۔ "طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ"۔

یہ  مختلف موضوعات پر مبنی احادیث  سفارت کار  کو مذہبی معاملات اور رجحانات میں  راہنمائی کرتی  ہیں۔ اور مختلف سفارتی  مسائل کے حل کے لئے بھی راہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب سفارت کا ر میں مذہبی رجحانات اور دینی خیالات بدرجہ اتم موجود ہوں۔ وہ اپنی دلچسپی کا اظہار بھی کرتا رہے اور اس قسم کے عملی نمونے اور تاثرات چھوڑے کہ لوگ خود بخود اسلام کی صداقت و حقانیت کو تسلیم کیے بغیر نہ رہ سکیں۔

·       سر براہ کو بدلتے حالات سے آگاہ رکھنا

سفیر کے فرائض منصبی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اپنے ملک کے سربراہ کو بدلتے ہوئے حالات سے باخبر رکھے اور اپنی کارکردگی کی رپورٹ باقاعدہ ارسال کرتا رہے۔نبی کریمﷺ سفیر سے خصوصیت کے ساتھ حسن کارکردگی کی رپورٹ طلب فرمایاکرتے تھے۔ بخاری میں روایت ہے کہ " نبی کریمﷺ نے ابن قتیبہ کو بنی ذیبان کی جانب صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا ۔ جب وہ وہاں سے واپس آئے  تو حضورﷺ نے ان کا محاسبہ کیا اور ان سے رپورٹ طلب فرمائی۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عمال و حکام کا محاسبہ فرمایا کرتے تھے۔ اگر ان کی کسی قسم کی خیانت ظاہر ہوتی تو انہیں معزول کر دیتےاور نیا امین و دیانت دار شخص مقرر کردیتے۔

·       تجارتی معاملات کی اصلاح

مسلم سفارت کار کے لئے کسی بھی دوسرے ملک کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنا اہم  ہے۔ تجارتی تعلقات قائم کرنے کے لئے کچھ اہم نکات یہ ہیں:

1.     ممالک کے درمیان تجارتی معاہدے اور متعلقہ قوانین کو سمجھنا اہم ہے۔  تجارت کرنے کے لئے درست دستاویزات اور اجازت حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔

2.     مسلم سفارت کار کو اُن کے محصولات اور خدمات کو دوسرے ممالک میں مارکیٹ کرنے کے لئے درست طریقے سے تشہیر دینا ہوگا۔

3.     دوسرے ممالک کی مارکیٹ کو سمجھنا اہم ہے۔ اُن کی خریداری کا پس منظر اور منافع کا تجزیہ کرنا بھی ضروری ہے۔

4.     مقامی اور عالمی سطح پر تجارتی تعلقات کو بنانا اہم ہے۔ اُن ممالک کے ساتھ تجارتی روابط بنانے سے مسلم سفارت کار کے لئے مقامی اور عالمی منافع حاصل ہو سکتا ہے۔

5.     دوسرے ممالک میں تجارت کرنے کے لئے مالیاتی معاملات کو سمجھنا بھی ضروری  ہے اس کے لیے مالیاتی قوانین اور معاملات کے بارے میں خصوصی جانکاری حاصل کرنا چاہئے۔

6.     مخصوص ممالک کی خصوصیات اور فرہنگ کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ اُن کے آداب، تقالید اور مقامی ضوابط کو خریداروں اور معاشرتی امور میں مد نظر رکھنا ہوگا۔

7.     تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنے اور مزید بڑھانے کے لئے معارفتی تبادلہ اور تجارتی تشہیر کی بہت اہمیت ہے۔ اُن ممالک میں تجارتی معرفت اور تجارتی معارضے کا حصہ بننا چاہئے تاکہ ممکنہ خریداروں کو اُن کے محصولات اور خدمات کے بارے میں معلومات مل سکے۔

8.     دوسرے ممالک میں نئے مارکیٹس اور خریداروں کی تلاش کرنا بھی اہم ہے۔ اُن ممالک میں تجارتی ممکنیات کا تحقیقی جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔

مسلم سفارت کار کو ان تمام نکات کو دھیان میں رکھ کر دوسرے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنا چاہئے تاکہ وہ مستقبل میں اپنی کاروبار میں بہتری لا سکیں اور عالمی تجارت میں مقام حاصل کر سکی۔[32]

·       غیر مسلم ریاست میں رہائش پذیر مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت

میزبان ریاست میں ایک سفارت کار بیرون ملک جانے والے یا پہلے سے ہی وہاں رہنے والے شہریوں کو عام اور فوری مدد فراہم کرتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ ایک سفارت کار کو تناؤ سے نمٹنے اور بحران میں فوری فیصلے کرنے کے قابل ہونا چاہئے۔ بیرون ملک رہتے ہوئے ضرورت مند شہریوں کو مالی امداد یا سفر کی اجازت فراہم کرنا ہنگامی خدمات کی مثالیں ہیں۔ دیگر مثالوں میں لاپتہ، اغوا یا ہلاک ہونے والے شہریوں کے معاملات میں مدد کرنا اور غیر ملکی لوگوں کی پناہ کی درخواستوں سے نمٹنا شامل ہے۔[33]

·       اسلامی قانون سے آگاہی

مسلم سفارت کار کا دوسرے ممالک کو اسلامی قانون سے آگاہ کرنا ایک اہم  ذمہ داری  ہے۔ یہ امر مسلم  سفارت خانوں کے لئے بہت اہم ہے تاکہ وہ دوسرے ممالک میں اسلامی اقدار اور احکام کے بارے میں وضاحت فراہم کر سکیں۔ اس کام کو کرنے کے لئے، سفارت خانے کے کارکنان کو درست تعلیم اور تربیت فراہم کی جانی چاہئے تاکہ وہ بہترین طریقے سے اسلامی اقدار اور قوانین کو سمجھا سکیں اور دوسرے ممالک کے لوگوں کو بھی ان کو سمجھا سکیں۔

"خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہُ" [34]

"تم میں بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھتا ہے اور دوسرے کو سکھاتا ہے۔"

اسلامی قانون کی بہترین آگاہی قرآن و سنت سے ہی ممکن ہے ۔ سفارت کاری کو بہتر طریقے سے انجام دینے  کے لئے، سفارت خانے کے کارکنان کو درست تعلیم اور تربیت فراہم کی جانی چاہئے تاکہ وہ بہترین طریقے سے اسلامی اقدار اور قوانین کو سمجھ سکیں اور دوسرے ممالک کے لوگوں کو بھی  سمجھا سکیں۔مسلم سفارت کار کا کام ایک اہم اور ذمہ داری کا کام ہے جو اُنہیں مختلف ملکوں میں اُن کے ملک کا پیغام منتقل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اسلامی قانون کو دوسرے ممالک میں آگاہ کرنے کے لئے، مسلم سفارت کار کو حدیث کی روشنی میں کچھ اہم نکات یاد رکھنی چاہئیں:

1.     مسلم سفارت کار کو ہمیشہ اچھی تعلیم و تربیت دی جائے۔ وہ دوسرے لوگوں سے احترام اور ادب سے پیش آئیں تاکہ اُن سے  تعلقات مضبوط ہوں۔

2.     مسلم سفارت کار کو اسلامی اصولوں، اخلاقیات اور قوانین کی دوسرے ممالک میں آگاہی فراہم کرنی چاہئی۔ اُنہیں اسلامی معلومات اور قرآنی آیات اور حدیثوں کا خصوصی علم ہونا چاہیے۔

3.     مسلم سفارت کار کو صحیح اور درست اسلامی معلومات فراہم کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ وہ اخبارات، کتب، اشاعت اور دیگر وسائل کا استعمال کرکے معلومات کو دوسرے ممالک میں پہنچانے میں مدد کرسکتے ہیں۔

4.     مسلم سفارت کار کو مذاکرات اور گفتگو میں احتیاطی تدابیر استعمال کرنی چاہئیں۔ تاکہ وہ اسلامی قیمتوں اور قوانین کو درست طریقے سے بیان کریں اور مخاطبین کی رائے کو سمجھیں۔

5.     مسلم سفارت کار کو دوسرے ممالک کے لوگوں کے ساتھ حسن تعامل رکھنا چاہیے۔ وہ دوسروں کے احترام اور عزت کا خصوصی خیال رکھے تاکہ دوسرے لوگ بھی اس کی بات سنیں اور اس کی رائے کو قبول کریں۔

6.     مسلم سفارت کار اپنے عمل اور زندگی سے بھی دوسرے ممالک کے لوگوں کو اسلامی اخلاقیات اور قوانین کی بات سمجھا سکتے ہیں۔

7.     مسلم سفارت کار کو صداقت اور امانت کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیے۔

یہ تمام نکات حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں انسانوں کو ایک بہترین مسلم سفارت کار بنانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔اسلامی اقدار اور قوانین کو دوسرے ممالک کے لوگوں تک پہنچانے کا یہ طریقہ ہے جو ان کی سوچ اور عملی زندگی میں تبدیلی لا سکتا ہے۔ اس طرح سے، اسلامی اصولوں کو سمجھائیں اور انہیں بہترین طریقے سے پیش کر کے، دوسرے ممالک کے لوگوں میں انفرادی اور جماعتی سطح پر بہتری لائیں۔[35]Top of Form

·       اسلام و فوبیا کا تدارک

یہاں کچھ حدیثوں کا ذکر کیا گیا ہے جو اسلامی اصول اور سفارت کار کے درمیان تعلقات کی روشنی میں مدد فراہم کر سکتے ہیں:

حضرت محمد ﷺ نے فوبیا یا خوف کو دور کرنے کی بات کی ہے اور مسلمانوں کو اسلامی اخلاقیات پر عمل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ انہوں نے کبیرہ فوبیا یعنی بڑے خوف (خوافیر) سے دور رہنے کی توجیہہ کی ہے۔

حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: "مسلمان کسی دوسرے مسلمان پر ظلم نہیں کرتا اور اُسے کسی کو دُشمن نہیں جانتا۔ جو شخص اُس کا دوست ہے، وہ اُس کا دوست ہے، اور جو شخص اُس کا دشمن ہے، وہ اُس کا دشمن ہے۔"

مسلم سفارت کار کا کردار اہم ہوتا ہے جب بات اسلام فوبیا یا مسلموں کے خلاف تشہیر  ہوتی ہے۔ مسلم سفارت کار  کا کردار درجہ ذیل طریقوں میں ہو سکتا ہے:

1.     مسلم سفیر کا اہم کردار ہے تعلیم اور آگاہی فراہم کرنے میں۔ اور سفیر کے پاس دین کا علم اور سمجھ ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے:

مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ[36]

"جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے۔"

ناسمجھ لوگ جو مدعیان علم اور واعظ و مرشد بن جائیں نیم حکیم خطرہ جان ، نیم  ملا خطرہ ایمان انہیں کے حق میں کہا گیا ہے۔ مدعیان  علم  وہ معلومات اور تفہیم فراہم کرتے ہیں جواسلام و فوبیا میں مبتلا  لوگوں کو مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں سچائی معلومات فراہم کر سکتے ہیں۔

2.     مسلم سفیر کو اپنے تعاملات میں احترام اور تواضع دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

3.     مسلم سفیر کا کردار سوشل میڈیا پر بھی اہم ہوتا ہے۔ وہ صحیح معلومات کو فراہم کرنے کے لئے سوشل میڈیا پر فعال ہوتے ہیں اور مختلف پلیٹ فارمز پر تعلیمی مواد اور پوسٹس شیئر کرتے ہیں۔

4.     مسلم سفیر کا بہت اہم کردار ہے انکے ہنر، کردار ، ان کا رویہ، اخلاقی اصول اور سچائی ان کی پہچان بنتی ہیں۔

مسلم سفارت کار  کا یہ کردار ہمیشہ معاشرت میں ہم آہنگی اور امن فراہم کرنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔

·       بین الممالک خوشگوار تعلقات کی تعمیر

سفارت کار کا ایک اہم کام ریاستوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کی تعمیر اور فروغ ہے۔ اس حیثیت سے، ایک سفارت کار اپنے میزبان ملک کو ان امور پر مشورہ دیتا ہے جو دونوں ممالک کی آبادیوں اور حکومتوں کی فلاح و بہبود پر اثر انداز ہوتے ہیں. وہ مقامی حکومت کی اہم شخصیات کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کے رہنماؤں اور ممبروں کے ساتھ روابط قائم کرکے اپنے مقاصد کو پورا کرتا ہے۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ، أَوْ قَالَ: لِجَارِهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ".[37]

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی (یا اپنے پڑوسی) کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔

اس حدیث میں معاشرتی امن و سکون قائم کرنے کا ایک بہترین طریقہ بتایا گیا ہے کہ ہر انسان اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے، یعنی اگر وہ چاہتا ہے کہ اس کی عزت کی جائے تو دوسروں کی عزت کرے، اگر وہ چاہتا ہے کہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچائے تو وہ دوسروں کو نقصان نہ پہنچائے، اگر چاہتا ہے کہ اس کے امن و امان کو کوئی تہ و بالا نہ کرے تو وہ دوسروں کے امن و امان کا بھی خیال رکھے وغیرہ وغیرہ۔ اگر تمام مسلمان اس طریقے کو اپنا لیں تو پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ سارا اسلامی معاشرہ امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے گا۔

·       حقائق پر مبنی رپورٹنگ

سفارت کار کا ایک کام وصول کنندہ ملک میں اپنی پیش رفت کے بارے میں اعداد و شمار ، مشاہدات اور خیالات کے بارے میں حقائق پر مبنی رپورٹ لکھنا ہے۔ کیونکہ حق اور سچ بات کہنے کی اسلام میں بہت تلقین کی گئی ہے اور اس پر سختی سے عمل پیرا ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔

اصْدُقُوا إِذَا حَدَّثْتُمْ[38]

"جب بات کرو تو سچ بولو۔"

حدیث مبارکہ اس طرف توجہ دلاتی ہے کہ جب بھی بات کرو سچ بولو۔ ایک سفارت کار کو بھی اس بات پر سختی سے عمل پیرا ہونا چاہیے کہ وہ جب بھی بات کرے یا کسی بھی طرح کی رپورٹ تیار کرے اس میں حق اور سچ بات کرے۔  ان رپورٹوں میں ان کی حکومت کو دی گئی تجاویز بھی شامل ہوسکتی ہیں کہ وہ اپنے اہداف کو آگے بڑھانے اور عالمی تبدیلیوں کے مطابق ڈھلنے کے لئے کس طرح کام کریں۔

·       فرائض کی تکمیل کے لیے میڈیا کا استعمال

سفارت کار کے فرائض میں عوامی سطح پر اپنی قوم کی نمائندگی کرنا اور اپنی ریاست کے مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے ملکی اور بین الاقوامی میڈیا تنظیموں کے ساتھ رابطے کے لئے اپنی حیثیت کا استعمال کرنا بھی شامل ہے۔ میزبان ملک میں ہونے والی تقریبات میں وہ اپنی قوم کی جانب سے عوامی بیانات دے سکتے ہیں۔

نتائج و خلاصہ بحث

حضورﷺ کی سفارت کاری  بے مثال تدبر ، سیاسی بصیرت، کامیاب حکمت عملی پر مشتمل تھا۔حضورﷺ انسانی دنیا کے لیے بے مثال ہدایت اور راہنمائی کے لیے مبعوث ہوئے۔ بہترین دستور کی عالمگیر خصوصیات کے ساتھ قیامت تک کے انسانوں کے لیے ہدایت کا سر چشمہ ہے۔عصر حاضر میں دنیا میں امن و سلامتی کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ مساوات اور عدل و انصاف کے نظریے پر کچھ عمل درآمد کرتے ہوئے انہی  اصولوں پر معاشرے کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

ایک مسلم سفارت کار میں کامل ایمان، اتباع محمدﷺ، پرکشش ذات، بہترین نام، زبان و گفتگو پر عبور، جسمانی اور علمی ہئیت، شجاعت و بہادری اور  عزت نفس جیسی خوبیوں کا پایا جانا ضروری ہے۔اس کے علاوہ احادیث نبویہﷺ میں بتایا گیا ہے کہ ایک مسلم سفارت کار کے فرائض میں اسلام کی تشہیر، دعوت اسلام،  کشیدگی کا خاتمہ، اہم معاملات کو بیان کرنا، بین الممالک صلح کی کوشش کرنا، مذہبی معاملات و اصلاحات کی ترویج و تحفظ، سربراہ کو بدلتے حالات سے آگاہ کرنا اور اس کا محاسبہ، تجارتی معاملات، غیر مسلم ریاست میں رہائش پذیر مسلمانوں کے حقوق، اسلامی قانون سے آگاہی، اسلامو فوبیا کا تدارک، تعلقات کی تعمیر، رپورٹنگ اور پالیسی کی ترقی، میڈیا اور پبلسٹی  وغیرہ شامل ہیں۔

اسلام میں سفارت کاری نے کشیدگی کو کم کرنے، دشمن کے ساتھ امن قائم کرنے کے معاہدوں پر دستخط کرنے، جنگی قیدیوں کے تبادلے اور غیر مسلم ممالک کے ساتھ رابطے قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔  قرون وسطیٰ میں خارجہ پالیسی کو اسلام کی ترویج اور پرامن طریقے سے تنازعات سے بچنے کے لیے مؤثرسمجھا جاتا تھا۔ اور یہی اسلام میں سفارت کاری کی خوبصورتی تھی۔

سفارت کار کے فرائض اسلامی عقائد اور حدیث کی روشنی میں واضح ہیں۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سفارت کار کے لئے مخصوص اہم اصول اور فرائض بیان کیے گئے ہیں جو اُن کی روشنی میں ہمارے لئے ہدایت ہیں۔

·       ایمان کا اہم ترین پہلو ا خدا کی عظمت اور واحدیت پر مبنی ہونا چاہئے۔

·       سفارت کار کو اسلامی امور اور قرآن و حدیث کی اچھی سمجھ ہونی چاہئے تاکہ وہ صحیح عقائد کے ساتھ بات چیت کر سکے اور دوسرے لوگوں کی شبہات کا بھی جواب دے سکے۔

·       سفارت کار کو امانت دار ہونا چاہئے۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے: کہ جو شخص امانت دار نہ ہو، وہ دنیا اور آخرت میں بھی کامیاب نہ ہو سکتا۔

·       سفارت کار کو دوسرے لوگوں کے حقوق اور دکھ درد میں شریک ہونا چاہئے۔ اُنہیں دوسرے لوگوں کی مدد کرنے، اُن کے مسائل حل کرنے اور اُن کے لئے دعا کرنے کی رحمت بننی چاہئے۔

·       سفارت کار میں راستی اور صداقت ہونی چاہئے۔ جھوٹ بولنا یا دوسرے کو گمراہ کرنے کی کوشش سے  اجتناب کرنا چاہئے۔

·       حدیث کا مفہوم ہے کہ شکریہ ادا کرنے والے کی  خوشیوں میں کمی نہیں ہوتی اور صبر کرنے والا مصیبتوں میں اجر و ثواب پائے گا۔ سفارت کار کو ہر حالت میں شکرادا کرنا اور صبر رکھنا چاہئے۔

عصر حاضر کےمسلم سفارت کار کو اُوپر ذکر کیے گئے اصولوں پرفرائض پر عمل میں کرنا چاہئے تاکہ وہ ایمان، صداقت، امانت داری، رحمت، شفقت اور صبر کے ساتھ اپنے کام کو انجام دے تاکہ اپنے ملک و قوم کو  کوبہترین طریقے سے اپنی خدمات فراہم کر سکے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

مصادرو  مراجع

1.     القرآن الکریم

Al-quran al-kareem

2.     The Encyclopedia of Americana, vol.1, p.470, (ambassador)

3.     The Illustrated Dictionary, (Ambassador)Oxford University press.p.45

4.     The Encyclopedia of Islam, voll.2, (C-G), p.649.

5.      أبو عبد الله محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة، الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول اللهﷺ وسننه وأيامه، (بيروت: دار طوق النجاة، 1422ه)

Abu Abdullah Muhammad bin Ismail bin Ibrahim bin al-Mughira, al-Jami al-Musnad al-Sahih al-Mukhtasar min Amoor Rasool Allah (saw) wa Sunanuhu wa Ayyamuhu, (Beirut: Dar Tawq al-Najat, 1422 AH)

6.     ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی ،الجامع الترمذی،(دارالسلام ،الریاض، الطبعہ الاولیٰ ،1418ھ)

Abu Isa Muhammad bin Isa Tirmizi, al-Jami al-Tirmizi, (Dar al-Salam, Riyadh, Al-Tibah al-Ula, 1418 AH)

7.     احمد بن حنبل،امام، مسند امام احمد ،انصارپبلی کیشنز لاہور، س-ن۔

Ahmad bin Hanbal, Imam, Musnad Imam Ahmad, Ansar Publishers, Lahore, n.d.

8.     أحمد بن شعيب بن علي بن سنان، أبو عبد الرحمن النسائي، سنن نسائی(دارالسلام و النشر والتوزیع) س-ن

Ahmad bin Shuaib bin Ali bin Sinan, Abu Abdullah al-Nasai, Sunan al-Nasai (Dar al-Islam wa al-Nashr wa al-Tawzi, n.d.)

9.     احمد بن علی بن محمد شہاب الدین ،ابن حجر ، العسقلانی، الاصابہ فی تمیزالصحابہ،(مطبع السعادۃ، مصر، 1328ھ)

Ahmad bin Ali bin Muhammad Shahab al-Din, Ibn Hajar, al-Isabah fi Tamyiz al-Sahabah, (Matba al-Sa'adah, Misr, 1328 AH)

10. بطرس البستانی،البنانی، محیط المحیط، بیروت: 1870ء

Butrus al-Bustani, al-Banani, Muheet al-Muheet, Beirut: 1870 AD

11.                        حسین بانو، ڈاکٹر، پروفیسر، رسول اکرمﷺ کی سفارت کاری اور خارجہ پالیسی، ناشر: ادارہ تحقیقات سیرۃ النبیﷺ، ( المکتبہ رحمانیہ، لاہور، 2018ء)

Husain Bano, Doctor, Professor, Rasool Akram ki Safarat Kari aur Khareja Policy, Publisher: Idara Tahqiqat Seerat al-Nabi , (Al-Maktabah al-Rahmania, Lahore, 2018 AD)

12.حمید اللہ ، محمد، ڈاکٹر، اسلامی ریاست ، عہد رسالت کے طرز عمل سے استشہاد، )ناشر: الفیصل تاجران کتب اردو بازار، لاہور، جنوری، 2005ء(

Hamidullah, Muhammad, Doctor, Islami Riyasat, Ahad-e-Risalat ke Tarz-e-Amal se Istishhad, Publisher: Al-Faisal Tajiran Kutub Urdu Bazar, Lahore, January 2005

13.                       ڈاکٹر ہدایت اللہ خان،عصر حاضر میں سفارت کاری کے رہنما اصول اور ان کا اطلاق، ضیائے تحقیق، شمارہ:20

Doctor Hidayatullah Khan, Asr Hazir Mein Safarat Kari ke Rahnama Usool aur un ka Itlaaq, Zia-e-Tahqiq, (Issue: 20)

14.سليمان بن أشعث السجستاني، السنن أبو داود، (بيروت، دار الكتب العلمية، 1424هـ)

Sulaiman bin Ash'ath al-Sijistani, al-Sunan Abu Dawood, (Beirut, Dar al-Kutub al-Ilmiyyah, 1424 AH)

15.علی بن برہان الدین، الحنبی، السیرۃ الحلبیۃ، مصطفیٰ البابی الحنبی،(مصر، 1349ھ)

Ali bin Burhan al-Din, al-Hanbi, al-Sirah al-Halbiyyah, Mustafa al-Babi al-Hanbi, (Misr, 1349 AH)

16.                       فیاض احمد فاروق،  عصر حاضر میں سفارت کاری کےاصول و ضوابط: سیرت طیبہ کا اطلاقی مطالعہ، العلم، ج:4، شمارہ جنوری-جون،2020۔

Fayyaz Ahmed Farooq, Asr Hazir Mein Safarat Kari ke Usool aur Zawabit: Seerat Tayyibah ka Itlaqi Mutala, Al-Ilm, (Vol: 4, Issue January-June, 2020)

17.محمد بن ابی بکرابن قیم، زاد المعاد فی ھدی خیر العباد، (مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، 1989ء)

Muhammad bin Abi Bakr bin Qayyim, Zad al-Ma'ad fi Hadi Khair al-Ibad, (Mausisat al-Risalah, Beirut, 1989 AD)

18.محمد بن مکرم،ابوالفضل، ابن منظور، (لسان العرب دارالعلم ، بیروت،1411ھ)

Muhammad bin Mukram, Abu al-Fadl, Ibn Manzur, Lisan al-Arab (Dar al-Ilm, Beirut, 1411 AH)

19.محمد مرتضیٰ الحسینی، تاج العروس، (دارالعلم ،بیروت، 1421ھ)

Muhammad Murtaza al-Husaini, Taj al-Arus, (Dar al-Ilm, Beirut, 1421 AH)

20. یعقوب بن ابراہیم،  ابو یوسف ، کتاب الخراج، (دارالنصر، مصر، 1981ء)

Ya'qub bin Ibrahim, Abu Yusuf, Kitab al-Kharaj, (Dar al-Nashr, Misr, 1981 AD)

 

 



[1]۔ مآخوذ از،فیاض احمد فاروق،  عصر حاضر میں سفارت کاری کےاصول و ضوابط: سیرت طیبہ کا اطلاقی مطالعہ

Maakhoz az, Fiaz Ahmed Farooq, Asr Hazir Mein Sifarat Kari Ke Usool aur Zawabit: Seerat Tayyiba Ka Itlaqi Mutalia

[2]۔ افریقی، ابن منظور، لسان العرب، دارالمعارف، قاہر، ص: 20- 25

Afriqi, Ibn Manzoor, Lisan al-Arab, Dar al-Maarif, Qahira, Safha: 20-25

[3]۔ ایضاً

ibid

[4]۔ حسین بانو، ڈاکٹر، پروفیسر، رسول اکرمﷺ کی سفارت کاری اور خارجہ پالیسی، (لاہور: المکتبۃ رحمانیہ، 2018ء)، ص:185

Husain Bano, Doctor, Professor, Rasool Akram Ki Sifarat Kari aur Khareja Policy, Nashar: Idara Tahqiqat Seerat al-Nabi, (Al-Maktaba Rahmaniyah, Lahore, 2018), Safha: 185

[5]۔ The Illustrated Dictionary, (Ambassador)Oxford University press.p.45

[6]۔ البنانی، بطرس البستانی، محیط المحیط، بیروت: 1870ء، ج:1 ، ص: 963

Al-Banani, Butrus al-Bustani, Muheet al-Muheet, Beirut: 1870, Jild: 1, Safha: 963

[7]۔ القرآن، 9: 61

Al-Quran, 9:61

[8]۔ ابن ماجة، أبو عبد الله بن يزيد القزويني، سنن ابن ماجة (بيروت: دار الفكر، س-ن)، رقم الحديث: 2353

Ibn Majah, Abu Abdullah bin Yazid al-Qazwini, Sunan Ibn Majah (Bayrut: Dar al-Fikr), Hadith number: 2353

[9]۔ البخاري، أبو عبد الله محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة، الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول اللهﷺ وسننه وأيامه، صحيح البخاري (بيروت: دار طوق النجاة، 1422ه)، رقم الحديث: 13

Al-Bukhari, Abu Abdullah Muhammad bin Ismail bin Ibrahim bin al-Mughirah, Al-Jami al-Musnad al-Sahih al-Mukhtasar min Umur Rasool Allah wa Sunanihi wa Ayamih, Sahih al-Bukhari (Beirut: Dar Tauq al-Najat, 1422H), Raqam al-Hadith: 13

[10] ۔ حسین بانو، رسول اکرمﷺ کی سفارت کاری اور خارجہ پالیسی، ص:198

Husain Bano, Rasool Akram Ki Sifarat Kari aur Khareja Policy, Safha: 198

[11]۔ القرآن الکریم، 12: 108

Al-Quran al-Kareem, 12: 108

[12]۔ القرآن، 4: 80

Al-Quran, 4: 80

[13]۔ العسقلانی، ابن حجر، شہاب الدین، احمد بن علی بن محمد، الاصابہ فی تمیزالصحابہ،(مطبع السعادۃ، مصر، 1328ھ)، ج:1، ص:473

Al-Asqalani, Ibn Hajar, Shihab al-Din, Ahmad bin Ali bin Muhammad, Al-Isabah fi Tamyiz al-Sahabah, (Matba al-Saadah, Misr, 1328H), Jild: 1, Safha: 473

[14] ۔ ابن قیم ،محمد بن ابی بکر، زاد المعاد فی ھدی خیر العباد، (مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، 1989ء)، ج:2، ص: 129

Ibn Qayyim, Muhammad bin Abi Bakr, Zad al-Maad fi Hadi Khair al-Ibad, (Muassasah al-Risalah, Beirut, 1989), Jild: 2, Safha: 129

[15]۔ البخاري، أبو عبد الله، صحيح البخاري، رقم الحديث: 7195

Al-Bukhari, Abu Abdullah, Sahih al-Bukhari, Raqam al-Hadith: 7195

[16]۔ الحنبی، علی بن برہان الدین، السیرۃ الحلبیۃ، مصطفیٰ البابی الحنبی،(مصر، 1349ھ)، ج: 2، ص: 371

Al-Hanbali, Ali bin Burhan al-Din, Al-Sirah al-Halabiyyah, Mustafa al-Babi al-Hanbali, (Misr, 1349H), Jild: 2, Safha: 371

[17]۔ حسین بانو، رسول اکرمﷺ کی سفارت کاری اور خارجہ پالیسی، ص: 201

Husain Bano, Rasool Akram Ki Sifarat Kari aur Khareja Policy, Safha: 201

[18]۔ أبو داود، سليمان بن أشعث السجستاني، السنن، (بيروت، دار الكتب العلمية، 1424هـ)، رقم الحديث: 2761

Abu Dawood, Sulaiman bin Ash'ath al-Sijistani, al-Sunan, (Beirut, Dar al-Kutub al-Ilmiyyah, 1424 H), Hadith Number: 2761

[19]۔ ابن قیم، محمد بن ابی بکر، زاد المعاد فی ھدی خیر العباد، ج:3، ص: 139

Ibn Qayyim, Muhammad bin Abi Bakr, Zad al-Maad fi Hadi Khair al-Ibad, Jild: 3, Safha: 139

[20] ۔  ابو یوسف، یعقوب بن ابراہیم، کتاب الخراج، (دارالنصر، مصر، 1981ء)، ص: 365

Abu Yusuf, Ya'qub bin Ibrahim, Kitab al-Kharaj, (Dar al-Nasr, Misr, 1981), Safha: 365

[21] ۔ حسین بانو، رسول اکرمﷺ کی سفارت کاری اور خارجہ پالیسی، ص: 204

Husain Bano, Rasool Akram Ki Sifarat Kari aur Khareja Policy, Safha: 204

[22] ۔ احمد بن حنبل،امام، مسند امام احمد بن حنبل،انصارپبلی کیشنز لاہور، رقم الحدیث: 19935

Ahmad bin Hanbal, Imam, Musnad Imam Ahmad bin Hanbal, Ansar Publications Lahore, Raqam al-Hadith: 19935

[23] ۔ أحمد بن شعيب بن علي بن سنان، أبو عبد الرحمن النسائي، سنن نسائی، (دارالسلام و النشر والتوزیع) س-ن، رقم الحدیث: 5407

Ahmad bin Shu'aib bin Ali bin Sinan, Abu Abdullah al-Nasai, Sunan al-Nasai, (Dar al-Salam wa al-Nashr wa al-Tawzee), Raqam al-Hadith: 5407

[24]۔ امام بخاری، جامع الصحیح البخاری، باب: من تعلم القرآن و علمہ،  رقم الحدیث: 5027

Imam Bukhari, Jami al-Sahih al-Bukhari, Bab: Man Ta'allam al-Quran wa 'allamah, Raqam al-Hadith: 5027

[25]۔ امام بخاری، جامع الصحیح البخاری،  رقم الحدیث: 3416

Imam Bukhari, Jami al-Sahih al-Bukhari, Raqam al-Hadith: 3416

[26] ۔  ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی ،الجامع الترمذی،(دارالسلام ،الریاض، الطبعہ الاولیٰ ،1418ھ)،کتاب العلم ، رقم،2674

Abu Isa Muhammad bin Isa al-Tirmidhi, Al-Jami al-Tirmidhi, (Dar al-Salam, Riyadh, al-Tibah al-Ulai, 1418H), Kitab al-Ilm, Raqam: 2674

[27] ۔ ابن منظور، ابوالفضل محمد بن مکرم، (لسان العرب دارالعلم ، بیروت،1411ھ)، ج:4، ص: 73

Ibn Manzoor, Abu al-Fadl Muhammad bin Mukram, (Lisan al-Arab Dar al-Ilm, Beirut, 1411H), Jild: 4, Safha: 73

[28]۔ مسلم، أبو الحسن، مسلم بن الحجاج القشيري النيسابوري، المسند الصحيح المختصر بنقل العدل عن العدل إلى رسول الله ﷺ، الطبعة الخامسة، (بيروت: دار إحياء التراث العربي، 2002م)، رقم الحديث: 6633

Muslim, Abu al-Hasan, Muslim bin al-Hajjaj al-Qushayri al-Nisaburi, Al-Musnad al-Sahih al-Mukhtasar bin Qawl al-Adl an al-Adl ila Rasul Allah  ,5th Edition (Bayrut: Dar Ihya' al-Turath al-Arabi, 2002 CE), Hadith number: 6633

[29] ۔ محمد مرتضیٰ الحسینی، تاج العروس، (دارالعلم ،بیروت، 1421ھ)، ج:21، ص:14

Muhammad Murtaza al-Husaini, Taj al-Arus, (Dar al-Ilm, Beirut, 1421H), Jild: 21, Safha: 14

[30] ۔ ابن منظور، لسان العرب، ج:4، ص:53

Ibn Manzoor, Lisan al-Arab, Jild: 4, Safha: 53

[31] ۔ The Encyclopedia of Islam, voll.2, (C-G), p.649.

[32]۔ ماخوذ از، ڈاکٹر ہدایت اللہ خان،عصر حاضر میں سفارت کاری کے رہنما اصول اور ان کا اطلاق

Doctor Hidayat Allah Khan, Asr Hazir Mein Sifarat Kari Ke Rahnama Usool aur Un Ka Itlaq

[33]۔ ماخوذ از، ڈاکٹر ہدایت اللہ خان،عصر حاضر میں سفارت کاری کے رہنما اصول اور ان کا اطلاق

Doctor Hidayat Allah Khan, Asr Hazir Mein Sifarat Kari Ke Rahnama Usool aur Un Ka Itlaq

[34]۔ امام بخاری، جامع الصحیح البخاری، باب: من تعلم القرآن و علمہ،  رقم الحدیث: 5027

Imam Bukhari, Jami al-Sahih al-Bukhari, Bab: Man Ta'allam al-Quran wa 'allamah, Raqam al-Hadith: 5027

[35]۔ ماخوذ از، ڈاکٹر ہدایت اللہ خان،عصر حاضر میں سفارت کاری کے رہنما اصول اور ان کا اطلاق

Doctor Hidayat Allah Khan, Asr Hazir Mein Sifarat Kari Ke Rahnama Usool aur Un Ka Itlaq

[36]۔ امام بخاری، جامع الصحیح البخاری،  رقم الحدیث: 71

Imam Bukhari, Jami al-Sahih al-Bukhari, Raqam al-Hadith: 71

[37]۔ ابن ماجة، سنن ابن ماجة، رقم الحديث: 66

Ibn Majah, Sunan Ibn Majah, Hadith number: 66

[38]۔ احمد بن حنبل، مسند امام احمد، رقم الحدیث: 19935

Ahmad bin Hanbal, Musnad Imam Ahmad, Raqam al-Hadith: 21699

 

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive