Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

12/29/23

جب سے خیالِ غیر سے ہم پاک ہو گئے | jab se hkayal e ghair se with lyrics


 

جب سے خیالِ غیر سے ہم پاک ہو گئے

پردے جمالِ یار کے سب چاک ہو گئے

 

کیا پوچھتے ہو ان کی نظر کی کرامتیں

زندہ ہوئے بہت سے بہت خاک ہو گئے

 

مٹنے کا خوف   دور یہ منزل میں تھا ہمیں

جتنے قریب ہو گئے بے باک ہو گے

 

اچھا ہواکہ بزم میں ان کی جو غیر تھے

پردہ ابھی اٹھا تھا کہ سب خاک ہو گئے

 

پُر خار راہ ساتھ ہی یہ غلبۂِ جنوں

خود ہی لباس اپنے سبھی چاک ہو گئے

 

ہم بھی توسر بکف ہیں کفن دوش پر لیے

کیا ہو گیا جو راہ خطر  مات ہو گئے

 

مدت ہوئی نظام یہ  خستہ بھی مٹ گئے

پرزے بھی اڑ چکے خس وخاشاک ہو گئے

Share:

جب سے سلطان مدینہ روبرو رہنے لگے | ساجد چشتی | jab se sultan e madina with lyrics


 

جب سے سلطان مدینہ روبرو رہنے لگے

میری آنکھوں کے دریچے باوضو رہنے لگے

 

سر وہ سر ہے جس میں ہو سوودا تیرا یا مصطفی

دل وہ دل ہے جس میں تیری آرزو رہنے لگے

 

بن گیا جب دل مرا ان کے کرم سے آئنہ

دل کے آئنے میں پھر وہ ہو بہو رہنے لگے

 

اس زباں کے شوق سے لیتا ہے بوسے جبرائیل

جس زباںمیں ان کی ساجد گفت گو رہنے رہنے لگے

Share:

12/25/23

کیا کرسمس کی مبارکباد دینا جائز ہے؟ to say Happy Christmas | Muneeb al Rehman

کیا کرسمس کی مبارکباد دینا جائز ہے؟

 جواب:    پروفیسر مفتی منیب الرحمن

حالیہ کرسمس کے موقع پر ایک اخبار نے Happy Christmas کہنے کے بارے میں مختلف مسالک کے علماء سے آراء طلب کیں، اُن میں سے بعض نے کسی وضاحت اور فرق کے بغیر اِسے حرام قرار دیا اور بعض نے کفر و شرک قرار دیا۔

 ہماری گزارش یہ ہے کہ کفر و شرک کا فتویٰ صادر کرنے میں ہمیشہ احتیاط کرنی چاہیے، کیونکہ دینی حکمت سے عاری فتویٰ پر بعض اوقات منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ Happy Christmas کا معنی ہے حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش پر خوشی منانا‘‘۔ پس اگر کوئی اپنے پڑوس میں رہنے والے یا دفتر میں ساتھ کام کرنے والے کسی پاکستانی مسیحی کو عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی مبارک باد دیتا ہے، تو اِس میں کوئی ایسی شرعی قباحت نہیں ہے کہ اُس پر کوئی فتویٰ صادر کیا جائے۔ جب یہ مان لیا جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے، تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ آپ مخلوق ہیں، حادِث ہیں اور اللہ کے بندے ہیں، جبکہ خالق کی ذات ازلی و ابدی ہے، قدیم ہے، اپنے آپ سے ہے، اُس کے تمام کمالات ذاتی ہیں، مخلوق خالق کا جز نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات باپ، بیٹے اور بیٹی کی نسبت سے پاک ہے۔ الغرض پیدائش کی نسبت سے ہی خدا ہونے یا اِبنُ اللہ ہونے کی نفی ہوجاتی ہے۔

سو فی نفسہٖ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی خوشی منانے میں شرعاً کوئی عیب نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے، تو آپ نے دیکھا کہ یہود عاشور کا روزہ رکھ رہے ہیں، آپﷺ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟، انہوں نے کہا: اِس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نجات عطا فرمائی تھی اور فرعونیوں کو غرق کر دیا تھا، تو اُس کے شکرانے کے طور پر موسیٰ علیہ السلام نے روزہ رکھا، آپ ﷺ نے فرمایا: ہمارا تعلق موسیٰ سے تمھارے مقابلے میں زیادہ ہے، سو آپ نے خود بھی یومِ عاشورکا روزہ رکھا اور اُس کا حکم بھی فرمایا. (سنن ابن ماجہ:1734)‘‘۔ دوسرے مقام پر ہے : جب رسول اللہ ﷺ نے یومِ عاشور کا روزہ رکھا اور اُس کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا، تو صحابہ کرام نے عرض کی: یارسول اللہ! یہود ونصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: جب آئندہ سال آئے گا تو ہم اِن شاء اللہ نو محرم کو بھی روزہ رکھیں گے. (صحیح مسلم:2555)‘‘۔ایک اور حدیث میں فرمایا: ’’یومِ عاشور کا روزہ رکھو اور اِس میں یہود کی مخالفت کرو، (اس مشابہت سے بچنے کے لیے) اُس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا روزہ بھی رکھ لیا کرو. (مسند احمد: 2154)‘‘۔

 اِن احادیث سے معلوم ہوا کہ جو کام اپنی اصل کے اعتبار سے پسندیدہ ہے، اُسے محض اہلِ کتاب کی مشابہت کی وجہ سے ترک نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ایسی تدبیر کی جائے کہ وہ پسندیدہ عمل بھی ادا ہوجائے اور مشابہت سے بھی بچ جائیں۔

 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور اُن (یحییٰ علیہ السلام) پر سلام ہو جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن ان کی وفات ہوگی اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے ، (مریم:15)۔ عیسیٰ علیہ السلام نے کہا: ’’اور مجھ پر سلام ہو جس دن میں پیدا کیا گیا اور جس دن میری وفات ہوگی اور جس دن میں (دوبارہ) زندہ اٹھایا جائوں گا، (مریم:33)‘‘۔ان دو آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے یومِ ولادت، یومِ وفات اور قیامت کے دن اُن کے اٹھائے جانے کی نسبت سے اُن پر سلام بھیجا اور اِسی نسبت سے عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے آپ پر سلام بھیجا۔

علامہ جوزی لکھتے ہیں:’’حسن بصری نے بیان کیا :حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی ملاقات ہوئی، حضرت یحییٰ و عیسیٰ علیہما السلام نے ایک دوسرے سے کہا: ’’آپ مجھ سے بہتر ہیں‘‘، پھر حضرت عیسیٰ نے کہا: بلکہ آپ مجھ سے بہتر ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر خود سلام بھیجا ہے اور میں نے خود اپنے اوپر سلام بھیجاہے. (زاد المسیر، ج:3،ص: 123)‘‘۔

 بعض حضرات کا کہنا ہے کہ مسیحی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ابن اللہ ہونے کی حیثیت سے ایک دوسرے کو مبارک دیتے ہیں، اگر ایسا بھی ہے، تو مسلمان کا موحِّد ہونا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ وہ اس طرح کے باطل نظریات سے پاک ہے۔ الغرض جائز حد تک مدارات کی رخصت دی جا سکتی ہے، البتہ مدارات کے نام پر ان کی عبادت گاہوں میں جا کر ان کی مذہبی رسوم میں شرکت کرنا بلاشبہ حرام ہے اور ان کے مذہبی شِعار کو اختیار کرنا بھی حرام ہے، اس میں کوئی اعتقادی یا عملی چیز اگر شرک و کفر پر مبنی ہے، تو شرک و کفر ہے، ورنہ بر سبیل تنزل حرام ہے اور اس میں مدارات کی گنجائش نہیں ہے، بلکہ یہ مداہنت ہے اور حرام ہے۔ جیسے مسیحیوں کی طرح صلیب لٹکانا یا ہندووں کی طرح زنار باندھنا وغیرہ۔ اسلام میں بھی عید کی مشروعیت تشکرِ نعمت باری تعالیٰ اور اجتماعی شِعار عبادت کے لیے ہے اور مسلمانوں کی حقیقی عید یہی ہے۔ ہم جو ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دیتے ہیں، یہ شِعار بھی سنت رسول سے ثابت نہیں ہے، لیکن یہ ایک مستحسن امر ہے، تو اسے ہم جائز قرار دیں گے۔

 روزنامہ دنیا ،  یکم جنوری 2017

 

Share:

12/22/23

افعال مقاربہ و رجاء و شروع | نواسخِ جملہ | Arabic Grammar | عربی قواعد

افعال مقاربہ و رجاء و شروع

ان سے مراد وہ افعال ہیں جو  کَانَ کی طرح اسم کو رفع اور خبر کو نصب دیتے ہیں، ان کی خبر ہمیشہ فعل مضارع ہوتی ہے اور محلا منصوب ۔ جیسے  کَادَ الْجَوُّ یَعْتَدِلُ (قریب ہے کہ فضا معتدل ہو جائے)

یہ تین طرح کے ہیں :

۱: افعال مقاربہ

۲: افعال رجاء

 ۳: افعال شروع

1: افعال مقاربہ: وہ افعال ہیں جو اپنے اسم کی خبر کے قریب ہی واقع ہونے پر دلالت کریں۔ جیسے یَکادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ أَبْصارَهُمْ (قریب ہے کہ چمک ان کی نگاہوں کو اچک لے ) ، کَرُبَ الشِّتَاءُ یَنْقَضِیْ (قریب ہے کہ سردی ختم ہو جائے) اَوْشَکَ الْمَالُ اَنْ یَّنْفَدَ (قریب ہے کہ مال ختم ہو جائے)

نوٹ :کَادَ اور کَرُبَ کی خبر  اکثر بغیر  اَنْ کے آتی ہے اور  اَوْشَکَ کی خبر کے ساتھ اکثر  اَنْ آتا ہے۔

۲: افعال رجا: وہ افعال ہیں جو اپنے اسم کی خبرکے واقع ہونے کی امید پر دلالت کرتے ہیں اور وہ یہ ہیں : عَسٰی ، حَرَی  ، اِخْلَوْلَقَ

عَسٰی: یہ فعل جامد ہے: سوائے ماضی کے اور کوئی صیغہ اس سے نہیں آتا اوراس کی خبر کے ساتھ اکثر ان آتا ہے۔ جیسے عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یَّرْحَمَكُمْ (امید ہے کہ تمہارا رب تم پر رحم فرمائے گا)

حَرٰی اور اِخْلَوْلَقَ: ان کی خبر کے ساتھ ان کا لانا واجب ہے۔ جیسے اِخْلَوْلَقَ الْھَوَآءُ اَنْ یَعْتَدِلَ (امید ہے کہ ہوا معتدل ہو جائے)، حَرٰی الْغَائِبُ اَنْ یَحْضُرَ (امید ہے کہ غائب حاضر ہو جائے)

نوٹ: ۱۔ ان کی خبر واحد ، تثنیہ ، جمع اور تذکیر و تانیث میں ان کے اسم کے مطابق ہوتی ہے ۔

کبھی  کَادَ کی خبر کے ساتھ ان آجاتا ہے جیسے کَادَ الْمَطَرُ اَنْ یَنْقَطِعَ اور عَسٰی کی خبر سے ان حذف ہو جاتا ہے مگر عَسٰیکی خبر پر ان لانا اور کَادَ کی خبر سے اس کا حذف کرنا بہتر ہے۔

۲: افعال رجا کبھی تامہ بھی ہوتے ہیں، صرف فاعل کے ساتھ مل کر مکمل جملہ بن جاتے ہیں، خبر کی ضرورت نہیں ہوتی ، اس وقت ان کا فاعل مصدر مؤول ہوتا ہے۔ جیسے عَسٰی اَن یَقُوْمَ ، اِخْلَوْلَقَ اَن یَاتِیْ

۳: افعال شروع: وہ افعال ہیں جو اپنے اسم کی خبر کی ابتداء پر دلالت کرتے ہیں اور وہ یہ ہیں : شَرَعَ اِنْشَاءَ اَخَذَ طَفِقَ جَعَلَ عَلَقَ قَامَ اَقْبَلَ ھَبَّ

ان کی خبر بھی فعل مضارع ہوتی ہے اور اس کے ساتھ  اَن کا لگانا ممنوع ہے۔ جیسے طَفِقَ الْجَیْشُ یَتَحَرَّکُ (لشکر حرکت کرنے لگا )، جَعَلَ الرَّعْدُ یَقْصِفُ (بجلی کڑکنے لگی )  ، اَخَذَ الْمَطَرُ یَنْزِلُ(بارش برسنے لگی)

 

Share:

12/19/23

Islam is a complete code of life اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات | تشویش ناک رویہ | ہمارے رویے | قیمتی انسان

اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے۔۔۔

ہی جملہ دکھنے میں ، سننے میں ، سمجھنے میں اور کہنے میں بہت آسان ہے ۔۔

لیکن جب ہم اس کی گہرائی میں جاتے ہیں تو اتنی بڑی دنیا ہے کہ شاید ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور ایسی وسیع دنیا ہے کہ آدمی ایک بار بھنچلا جاتا ہے۔ اسلام کی اس دنیا میں بہت سے میدان ہیں اور بہت سی شاخیں ہیں ۔ہر شاخ کی وسعت کااندازہ لگانا آسان نہیں ہے۔جس قدر  زندگی کے معاملات میں گہرائی ہے اس دنیا میں نت نئے اخلاقی، سماجی، معاشی ، مذہبی یا سیاسی چیلنجز رورنما ہو رہے ہیں ان کا تعلق انسان کی  انفرادی یا اجتمائی زندگی سے ہو ،جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام مکمل نظام زندگی اور ضابطہ حیات ہے تو بلاواسطہ ہی ماننا پڑے گا کہ ان معاملات میں رہنمائی کے لیے اسلام میں وسعت بھی اتنی ہی پائی جاتی ہے۔اس جدید دور میں جہاں بے شمار اخلاقی اور سماجی برائیاں پائی جاتی ہیں وہاں ایک نیا فلسفہ، ٹیکنالوجی کی ترقی اور کرشمہ سازی کی وجہ سے یہ پیدا ہو رہا ہے کہ لوگ ہی چاہتے ہیں کہ جس اصول کے تحت ٹیکنالوجی ترقی کرتی ہے ویسے ہی مذہب بھی ہماری رہنمائی کرے یعنی جو اصول ٹیکنالوجی پر لاگو ہوتا ہے وہی اصول  مذہب پر بھی نافذ کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہ دونوں مختلف انداز میں سوچتے اور کام کرتے ہیں  مذہب کو اس بات پر کوئی سروکار نہیں کہ بندہ چاند پر پہنچ گیا ہے اسے وہاں جانا چاہیے یا نہیں ، وہاں انسان راکٹ اور چاند گاڑی کے ذریعے کیوں گیا ہے؟ چاند پر انسان کو صرف راکٹ کے ذریعے جانا چاہیے تھا، موبائل کیوں ایجاد ہوا، سکرین کیوں ایجاد ہوئی، جہاز پر سواری کیوں کی جاتی ہے، جہاز کے ہوتے ہوئے راکٹ کیوں ایجاد کیا گیا ، انسان خلا میں کیوں جا رہا ہے اور خلا سے متعلق اتنا تجسس کیوں رکھتا ہے ؟ مذہب کو ان باتوں سے کوئی سروکارنہیں ہے اور نا ان سے کوئی تعلق ہے ۔جب مذہب ٹیکنالوجی اور سائنس کی ترقی اور کرشمہ سازی میں دخل اندازی نہیں کرتا اور نہ مذہب کا اس سےکوئی تعلق ہے تو کیوں پھر یہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے لوگ مذہب کو اپنی مرضی سے استعمال کرنا چاہتے ہیں؟ اور ہر چیز کو اپنے ہی سائنسی اصولوں پر پرکھنا چاہتے ہیں ؟

 انسان ہمیشہ  سے ایک مکمل وجود ہونے کے ساتھ مجبوراور انتہائی محدود ہے، اس کی صلاحیتیں بہت وسیع ہیں لیکن یہ ان کو کھوجنے اور ان کے اظہار میں اکثر غلطی کرتا ہے اور افراط وتفریط کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ جب یہ کسی بھی میدان میں اترتا ہے اور اس میں کھوجنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو اتنی محنت درکار ہوتی ہے اور ذہنی صلاحیتوں کا اس قدر استعمال ہوتا ہے کہ عموما جب کوئی اُس میدان میں کچھ نا کچھ پا لیتا ہے تو یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اس میدان میں شاید میں ہی اکیلا ہوں اور دوسرا کوئی اس میں اس کا شریک نہیں ہے اور جو گوہر نایاب مجھے ملا ہے کسی اور کو کبھی نہیں مل سکتا۔ یہی سوچ اور اندازہ اس کو پائی ہوئی دولت سے محروم کر دیتا ہے اور وہ دولت ضائع ہو جاتی ہے یعنی وہ دودلت ہوتی تو اس کے پاس ہے لیکن اس کی کوئی قیمت نہیں رہتی کیوں کہ وہ اس کو پا کر اس پر اترانے لگا ہے اور اپنے علاوہ کسی کو برداشت کرنے کی حالت میں نہیں اور کسی کو ماننے اور قبول کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھا ہے لہذا جو اس نے کمایا سو اس نے وہ کھو دیا۔۔

کیا زندگی  اور زندگی کے لوازمات کی اتنی وسعت کو مخاطب کرنے والا مذہب اتنا ہی مختصر ہو گا کہ اس کے تمام فلسفے ایک فرد واحد اپنے من میں سما کر کامل بن گیا ہے؟

ہر انسان کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں ان ترجیحات کی بنیاد پر وہ اپنے لیے ایک میدان منتخب کرتا ہے، وہ ایک سمت کا تعین کرتا ہے اور پھر اس پر اپنی پوری محنت اور لگن سے گامزن ہوتا ہے، چاہیے تو یہ کہ انسان اسی پر رہے اور اپنی ہی سمت اور میدان کے لوازمات سے بات کرے نہ کہ باقی لوگوں کو اچھا برا کہہ کر ٹانگ اڑاتا جائے اور اپنی محبت ونفرت کااظہار کرنا فرض عین سمجھتا رہے اور پھر دوسرے لوگوں سے الجھ جاتا ہے اور نتیجتا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا سوائے بحث و مباحثہ کے۔

 

ایک دوسرے کی قدر کرنا

ہر ایک کو اس کے دائرہ کار میں کام کرتے دیکھ کر حوصلہ افزائی کرنا

دووسروں کی محنت و کوشش کو سراہنا اور اگر ادراک ہو تو علمی و عملی تعاون کرنا

 یہ ایسی سوچ ہے کہ جو یقینی طور پر مثبت اور کارا ٓمد ہے۔

رویہ انتہائی تشویش ناک ہے کہ:

 

میں مکمل ہوں

جو میں جانتا ہوں وہ دوسرا نہیں جانتا

جو  میرا ادراک اور فہم کام کرتا ہے ایسا دوسرا کوئی نہیں کر سکتا

میرے جیسا شعور کوئی ددوسرا نہیں رکھتا

میرا مشورہ سب سے بہترین اور کامل ہے

جو میری رائے ہے وہی سب سے اچھی اور کارآمد رائے ہے

جو میرا انداز ہے وہی سب سے بہتر ہے

 

ہر انسان کی اپنی ایک قیمت ہوتی ہے ہر انسان اپنی ذات میں ایک گوہر نایاب ہے جب وہ اپنے آپ کو کسی دوسرے کے ساتھ وزن کرتا ہے تو کبھی وہ ضرب کھا کر اور زیادہ قیمتی ہو جاتا ہے اور کبھی ضرب کھا کر صفر ہو کاتا ہے۔ کبھی کسی کے ساتھ جمع ہو کر وہ قیمت میں اضافہ کر لیتا ہے اور کبھی منفی ہو کر قیمت کم کر بیٹھتا ہے۔

تو انسان کیوں دوسروں کے ساتھ ضرب کھاتا  ،تقسیم ہوتا ہے  یا جمع و منفی ہوتا ہے اپنی ذات میں ترقی کیوں نہیں کرتا، اپنی ذات کو عروج بخشنے کے لیے وہ رذائل کو کیوں نہیں چھوڑتا ؟ یہی تو ہماری کمزوری ہے کہ ہم جب خود صفر سے آگے بڑھتے ہیں یعنی ہماری کوئی قیمت شروع ہوتی ہے تو ہم دوسروں کے ساتھ ضرب تقسیم ہونے لگ جاتے ہیں۔  کم ظرفی شاید اسی کو کہتے ہیں کہ اپنے آپ کو سنبھال نہیں پاتےاور ایک بے قیمتی اور جہالت جیسی مصیبت سے نکل کر دوسری مصیبت میں پڑ جاتے ہیں ۔۔۔۔

 مشورہ یہی ہے کہ :

اگر آپ کچھ ہیں تو اپنے زبان اورکردار سے خود کو صفر نہ کریں بلکہ اگر کسی سے ملنا ہی ہے تو جمع ہو جائیں ، کسی سے ضرب کھا جائیں سوائے صفر  کے۔۔۔


 

Share:

12/18/23

12/16/23

صوفیانہ طرز زندگی | صوفی کون ہوتا ہے | Who is a Sufi

 

صوفیانہ طرزِزندگی تو اپنی انا کے قتل کا نام ہے

 ــــــ  ذاتی مفاد کی قربانی کا نام ہے

 ــــــ  اللہ کی مخلوق سے پیار کا نام ہے

 ـــــ  اللہ کی یاد میں ہر وقت رونے کا نام ہے

 ـــــ محبوب کے وصل میں خود فراموشی کا نام ہے

 ـــــ محبوب کی رضا میں نفی ذات کا نام ہے

 ـــــ محبوب کے طرف کان لگائے رکھنے کا نام ہے

 ـــــ محبوب کے اک اشارے پر زندگی لٹا دینے کا نام ہے

 ــــــ محبوب کے رنگ میں ڈھل جانے کا نام ہے

 

کاش کوئی  سالکِ مخلص ہو۔۔۔ کاش متمنیِٔ ذات ہو

 

صوفیانہ طرزِزندگی میں نگاہ کسی کے تعاقب میں نہیں اپنے گریبان میں گم ہوتی ہے

 ـــــ  دھیان کسی کے بڑے بڑے جرموں کی طرف نہیں اپنی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر ہوتی ہے

 ـــــ  دوسروں پر تنقید نہیں ہوتی اپنے کرتوتوں کا قتل عام ہوتا ہے

 ـــــ  اپنی نیکیاں بھی ناقابلِ قبول لگتی ہیں

 ـــــ  دوسروں کی غفلت بھی مقبول لگتی ہے

 

کاش ہم کچھ اپنے حال پر نظر کریں

 

ــــ باخدا لاتعداد کیڑے نظر آئیں گے

 ـــــ  دامن تار تار نظر آئے گا

 ـــــ ضمیر چھلنی نظر آئے گا

 

باہروں مل مل دھوندیے کدی اندروں وی مل دھو

تیرا باہر دا دھونا کی دھونا جے اندروں صاف نہ ہو

 

Share:

12/10/23

یہ کام ہے تیرا تو شمع جلائے جا | نغمے محبت کے ہر سو سنائے جا | محمد سہیل عارف معینی | ڈاکٹر شہباز منج


 

یہ کام ہے تیرا تو شمع جلائے جا

نغمے محبت کے ہر سو سنائے جا

 

آئیں گے طوفاں بھی رستے میں تیرے

تو رکنا نہیں تو گلشن بسائے جا

 

تدبر کی دولت فراست کی ثروت

بہاروں کی مانند تو سب پہ لٹائے جا

 

افق سے آگے نشیمن ہے تیرا

عقابوں سے آگے تو بازو پھلائے جا

 

اڑانیں چرخ میں نگاہیں زمیں پر

تو سب کو دامن میں اپنے ملائے جا

 

ہے زرخیز مٹی معینیؔ کا گلشن

کوئی پھول دائم ادھر بھی لگائے جا

محمد سہیل عارف معینیؔ

Share:

12/3/23

نسخ کا مفہوم | نسخ فی الحدیث | اصول حدیث | نسخ کی پہچان کے طریقے | متقدم اور متاخر کی معرفت

نسخ کا مفہوم

نسخ کے دو لغوی  معنی ہیں

۱: نقل یعنی کسی چیز کو نقل کرنا جیسا کہ  اِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (الجاثیہ :45:29) یہ ہمارا لکھا ہوا ہے جو تم پر حق بولتا ہے،بیشک ہم

          لکھتے رہے تھے جو تم کیا کرتے تھے۔

۲: ازالہ کرنا ، مٹانا ختم کرنا  فَیَنْسَخُ اللّٰهُ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ ثُمَّ یُحْكِمُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖؕ (الحج: 22:52)( تو اللہ شیطان کے ڈالے ہوئے کو مٹا دیتا ہے

          پھر اللہ اپنی آیتوں کوپکا کردیتا ہے)

اصطلاحی تعریف : رفع الحکم الشریعی بدلیل شریعی متاخر عنہ (یعنی کسی شرعی کم کو متاخر دلیل شرعی کے ذریعے ختم کردینا )

نسخ کی شرائط

۱: منسوخ ہونے والا حکم شرعی ہو

۲: ناسخ دلیل بھی شرعی حکم ہو

۳: ناسخ حکم منسوخ حکم سے متاخر ہو

۴: منسوخ حکم کسی وقت کے ساتھ مقید نہ ہو

نسخ کی اقسام

۱: نسخ القرآن بالقرآن  (بالاتفاق جائز ہے)

۲: نسخ القرآن بالسنۃ (اختلاف) متواتر کے ساتھ جائز ہے لیکن آحاد کے ساتھ نسخ میں اختلاف ہے

۳: نسخ السنہ بالقرآن (جائز)

۴: نسخ السنۃ بالسنۃ

نسخ کی حکمت

۱: بندوں کی مصالح کا خیال رکھنا

۲: لوگوں کے حالات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ شرعی احکامات کی تبدیلی کر کے شریعت کو کمال تک پہنچانا

نسخ کس چیز میں واقع ہوتا ہے؟

۱: نسخ صرف احکام میں واقع ہوتا ہے۔

۲: عقائد ، آداب و اخلاق اور عبادات و معاملات کے اصول میں نسخ  واقع نہیں ہوتا۔

نوٹ: عقائد میں کبھی تبدیلی نہیں ہوتی۔

نسخ کی پہچان کے طریقے

۱: نبی کریم ﷺ کی صراحت موجود ہو:  جیسے قبور کی زیارت کے معاملے میں

۲: صحابی کی صراحت موجود ہو: نبی کریم ﷺکا آخری معاملہ یہ تھا کہ آپ پکی ہوئی چیز کھا کر وضو نہیں کرتے تھے

۳: امت کا اجماع ہو: جیسے ابوہریرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ کوئی شراب پئے تو اسے کوڑے لگاؤ، اور اگر چوتھی بار پھر ویسے

 ہی کرے تو اسے قتل کر دو (ابو داود:4484) امام نووی کہتے ہیں کہ اس کے منسوخ ہونے پر اجماع سے دلیل ملتی ہے ، یعنی صحابہ کرام کے زمانے میں قتل نہیں کیا گیا تھا ۔ اجماع منسوخ نہیں کرتا بلکہ ناسخ کی دلیل ہوتا ہے۔

متقدم اور متاخر کی معرفت:

جیسا کہ حدیث ہے کہ سنگی (بچھنے)لگانے والا اورسنگی (بچھنے) لگوانے والے نے روزہ توڑ دیا۔ (یہ فتح مکہ کے موقع پر حکم دیا گیا تھا )

 اس پر  ناسخ اور متاخر حکم : نبی کریم ﷺ نے دورانِ روزہ بچھنے لگوائے ( حجۃ الوداع کے موقع پر عمل)

چند مشہود کتب:

الاعتبار فی الناسخ و المنسوخ من الآثار از حافظ حازمی

الناسخ والمنسوخ از امام احمد بن حنبل

تجرید الاحادیث المنسوخہ از امام ابن جوزی

 

ماخوذ ازلیکچرز : ڈاکٹر شہزادہ عمران ایوب صاحب

سبجیکٹ: علوم الحدیث

کلاس PHD سیشن 2023  ایجوکیشن یونیورسٹی  لوئر مال کیمپس لاہور

Share:

انقطاع سند کے اعتبار سے حدیث کی اقسام | معلق | مرسل | معضل | منقطع | اصول حدیث

انقطاع سند کے اعتبار سے حدیث کی اقسام

انقطاع کے لیے سقوط کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کی دو اقسام ہیں:

۱: سقوط ظاہر                  ۲: سقوط خفی

سقوط ظاہر

          جب سند میں انقطاع الفاظ میں ظاہر ہو کوئی خفی امر نہ پایا جاتا ہو اس کی چار اقسام ہیں :

۱: معلق           ۲: مرسل                   ۳: معضل                   ۴: منقطع

معلق

اصطالحی تعریف : جس کی سند کی ابتداء سے پئے در پئے ایک یا زیادہ راوی ساقط ہوں ۔

سند کی ابتداء سے کیا مراد ہے؟  سند کا ابتدائی حصہ وہ ہے جو محدث کی طرف ہے یعنی محدث کا شیخ یا استاذ سند کی ابتداء ہے۔

مثال : حضرت عثمان کو دیکھ کر نبی کریم نے اپنے گھنٹوں کو ڈھانپ لیا۔

امام بخاری نے اس حدیث کی مکمل سند ہی حذف کر دی ہے اور صرف صحابی کا ذکر کیا وہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔

معلق کا حکم :  اصل میں یہ روایت مردود ہے کیوں کہ اس میں صحیح کی ایک شرط یعنی اتصال سند مفقود ہے۔

صحیحین کی معلقات کا حکم:     ۱:  اگر تو صیغہ معلوم (قَالَ ذَکَرَ) کے ساتھ ذکر کی گئی ہو تو وہ سب صحیح ہیں ۔

۲: جو صیغہ مجہول (قِیْلَ ذُکِرَ) سے مروی ہو تو وہ تمام صحیح نہیں ہیں، بلکہ ان  میں صحیح حسن ضعیف اور ہر طرح کی روایات ہیں لیکن ان میں کوئی بھی 

سخت ضعیف نہیں ہے۔

مشہور کتاب: تَغْلِیْقُ  التَّعْلِیْق  از حافظ ابن حجرؒ

مرسل

 جس کی سند کے آخر سے تابعی کے بعد والا راوی ساقط ہو یعنی صحابی کا واسطہ بیان نہ ہو، یعنی تابعی بلا واسطہ جیسا کہ سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ 

رسول اللہﷺ نے بیع مذابنہ سے منع فرمایا۔

مرسل کا حکم : اصل میں یہ روایت ضعیف اور مردود ہے البتہ اس کے بارے میں تین اقوال ہیں :

          ۱: مجہور محدثین کے نزدیک ضعیف

۲:آئمہ ثلاثہ کے نزدیک صحیح

۳: امام شافعی کے نزدیک چند رشرائط کے ساتھ مقبول ہو گی

مرسل صحابی: صحابی نبی کریم ﷺ کا کوئی ایسا قول بیان کرے جو نہ اس نے خود سنا ہو نہ ہی اس کا مشاہدہ کیا ہو۔

مرسل صحابی کا حکم:صحیح اور قابل حجت ہے۔

معضل

 جس کی سند کے درمیان سے دو یا زیادہ راوی پئے در پئے ساقط ہوں ۔

 مثال : امام مالک حضرت ابو ہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ غلام کا بھی حق ہے کہ اسے اچھے طریقے سے کھانا اور لباس مہیا کیا جائے۔ اس کی سند میں امام 

مالک اورابو ہریرہ کے درمیان دو راوی (محمد بن عجلان اور ان کے والد ) ساقط ہیں۔

معضل کا حکم: معضل حدیث ضعیف ہے اور اس کا حال مرسل اور معلق سے بھی برا ہے کیوں کہ اس میں ساقط راویوں کی تعداد زیادہ ہے۔

منقطع

جس کی سند  کسی بھی وجہ سے متصل نہ ہو ۔

منقطع کی مثال : حضرت ذیفہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس خلافت کا والی ابو بکر بناو گے تو وہ قوی بھی ہیں اور امین بھی ہیں ۔ اس کی سند کے

درمیان سے ایک راوی (شریک) ساقط ہیں ۔

منقع کا حکم : منقطع ضعیف ہے اس پر علما کا اجماع ہے۔

ماخوذ ازلیکچرز : ڈاکٹر شہزادہ عمران ایوب صاحب

سبجیکٹ: علوم الحدیث

کلاس PHD سیشن 2023  ایجوکیشن یونیورسٹی  لوئر مال کیمپس لاہور

 

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive