Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

10/3/21

ایصالِ ثواب کے متعلق احادیث | حدیث مبارکہ کی روشنی میں ایصالِ ثواب

1: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : مَرَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلٰی قَبْرَيْنِ، فَقَالَ : إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي کَبِيرٍ، أَمَّا هٰذَا فَکَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ، وَأَمَّا هٰذَا فَکَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيْمَةِ. ثُمَّ دَعَا بِعَسِيْبٍ رَطْبٍ، فَشَقَّهُ بِاثْنَيْنِ فَغَرَسَ عَلٰی هٰذَا وَاحِدًا وَعَلٰی هٰذَا وَاحِدًا. ثُمَّ قَالَ : لَعَلَّهُ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

1.      أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأدب، باب الغيبة، 5 / 2249، الرقم : 5705، و

2.      مسلم في الصحيح، کتاب الطهارة، باب الدليل علی نجاسة البول ووجوب الاستبراء منه، 1 / 240، الرقم : 292،

3.      والنسائي في السنن، کتاب الطهارة، باب التنزه عن البول، 1 / 30، الرقم : 31،

4.      وأبو داود في السنن،کتاب الطهارة، باب الاستبراء من البول، 1 / 6، الرقم : 20. ’’

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اِن دونوں مُردوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور اُنہیں کسی بڑے گناہ کے سبب عذاب نہیں دیا جا رہا. ان میں سے ایک تو اپنے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا. جب کہ دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تر ٹہنی منگوائی اور چیر کر اُس کے دو حصے کر دیئے۔ ایک حصہ ایک قبر پر اور دوسرا حصہ دوسری قبر پر نصب کر دیا. پھر فرمایا : جب تک یہ خشک نہ ہوں گی ان کے عذاب میں تخفیف رہے گی.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

 

2: عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمًا إِلٰی سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ حِيْنَ تُوُفِّيَ، فَلَمَّا صَلّٰی عَلَيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَوُضِعَ ِفي قَبْرِهِ وَسُوِّيَ عَلَيْهِ سَبَّحَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَسَبَّحْنَا طَوِيْـلًا ثُمَّ کَبَّرَ فَکَبَّرْنَا، فَقِيْلَ : يا رَسُوْلَ اﷲِ، لِمَ سَبَّحْتَ ثُمَّ کَبَّرْتَ؟ قَالَ : لَقَدْ تَضَايَقَ عَلٰی هٰذَا الْعَبْدِ الصَّالِحِ قَبْرُهُ حَتّٰی فَرَّجَهُ اﷲُ عزوجل عَنْهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

1.      أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 360، الرقم : 14916. ’’

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اُن کی طرف گئے۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی نماز جنازہ پڑھ لی، اُنہیں قبر میں رکھ دیا گیا اور قبر کو برابر کر دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تسبیح فرمائی. پس ہم نے بھی طویل تسبیح کی. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر فرمائی تو ہم نے بھی تکبیر کہی. اِس پر عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! آپ نے تسبیح و تکبیر کیوں فرمائی؟ ارشاد ہوا : اس نیک بندے پر قبر تنگ ہو گئی تھی. (ہم نے تسبیح و تکبیر کی) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اِس پر فراخی فرما دی.‘‘ اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔

 

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَـلَاثَةٍ : إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُوْ لَهُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه.

1.      أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الوصية، باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته، 3 / 1255، الرقم : 1631،

2.      والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 28، الرقم : 38،

3.      وأبو داود في السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء في الصدقة عن الميت، 3 / 117، الرقم : 2880،

4.      وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب ثواب معلم الناس الخير، 1 / 88، الرقم : 239. ’’

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے (ان کا اجر اسے برابر ملتا رہتا ہے) : ایک وہ صدقہ جس کا نفع جاری رہے، دوسرا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور تیسری وہ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔‘‘

 

3: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : تُرْفَعُ لِلْمَيِتِ بَعْدَ مَوْتِهِ دَرَجَتُهُ، فَيَقُوْلُ : أَي رَبِّ، أَيُّ شَيئٍ هٰذِهِ؟ فَيُقَالُ : وَلَدُکَ اسْتَغْفَرَ لَکَ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ. أخرجه البخاري في الأدب المفرد / 28، الرقم : 36 ’’

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ موت کے بعد جب میت کے لیے ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے تو وہ عرض کرتی ہے : اے رب! یہ کیا ہے؟ اُسے کہا جاتا ہے : تیرے بیٹے نے تیرے لیے بخشش کی دعا کی ہے (یہ اِسی استغفار کے سبب ہے).‘‘ اِسے امام بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔

 

4: عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ : يَتْبَعُ الرَّجُلَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْحَسَنَاتِ أَمْثَالُ الْجِبَالِ، فَيَقُوْلُ : أَنّٰی هٰذَا؟ فَيُقَالُ : بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِکَ لَکَ. رَوَاهُ الْهَيْثَمِيُّ.

1.      أخرجه الهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 210،

2.      والسيوطي في شرح الصدور / 296، الرقم : 20. ’’

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : روزِ قیامت ایک شخص کو پہاڑوں جتنی نیکیاں ملیں گی وہ (حیران ہو کر) پوچھے گا : یہ کہاں سے آئیں؟ اُسے بتایا جائے گا : تیرے بیٹے کا تیرے لیے مغفرت کی دعا کرنا اِس کا سبب ہے۔‘‘ اِسے امام ہیثمی نے روایت کیا ہے۔

 

5: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا الْمَيِتُ فِي قَبْرِهِ إِلَّا يَشْبَهُ الْغَرِيْقَ الْمُتَهَوِّبََ يَنْتَظِرُ دَعْوَةً مِنْ أَبٍ أَوْ أُمٍّ أَوْ وَلَدٍ أَوْ صَدِيْقٍ ثِقَةٍ، فَإِذَا لَحِقَتْهُ کَانَتْ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيْهَا، وَإِنَّ اﷲَ لَيُدْخِلَ عَلٰی أَهْلِ الْقُبُوْرِ مِنْ دُعَاءِ أَهْلِ الْوَرِّ، أَمْثَالَ الْجِبَالِ، وَإِنَّ هَدْيَةَ الْإِحْيَاءِ لِـلْأَمْوَاتِ : الْاسْتِغْفَارُ لَهُمْ، وَالصَّدَقَةُ عَنْهُمْ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

1.      أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 4 / 103، الرقم : 6323،

2.      والبيهقي في شعب الإيمان، 6 / 203، الرقم : 7905،

3.      والهندي في کنز العمال، 15 / 317، الرقم : 42971،

4.      والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 728، الرقم : 2355،

5.      والغزالي في إحياء علوم الدين، 4 / 492. ’’

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قبر میں میت کی مثال ڈوبنے والے اور فریاد کرنے والے کی طرح ہے جو اپنے ماں باپ، بھائی یا کسی دوست کی دعا کا منتظر رہتا ہے۔ جب اُسے دعا پہنچتی ہے تو اُسے دنیا جہاں کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوتی ہے۔ بے شک اہلِ دنیا کی دعا سے اللہ تعالیٰ اہل قبور کو پہاڑوں کے برابر اجر عطا فرماتا ہے۔ مُردوں کے لئے زندوں کا بہترین تحفہ اُن کے لیے استغفار اور صدقہ کرنا ہے۔‘‘

 

6: عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا عَلٰی أَحَدِکُمْ إِذَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ تَطَوُّعاً فَيَجْعَلُهَا عَنْ أَبَوَيْهِ، فَيَکُوْنُ لَهُمَا أَجْرُهَا وَلَا يُنْقَصُ مِنْ أَجْرِهِ شَيءٌ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

1.      أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 358، الرقم : 7726،

2.      والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 138. ’’

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب کوئی شخص نفلی صدقہ کرے اور اس کو اپنے والدین کی طرف سے کر دے، تو اس کے والدین کو اس کا (پورا) اجر ملتا ہے جب کہ اس کے اپنے اجر میں سے بھی کچھ کمی نہیں ہوتی.‘‘ اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

 

7: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَا مِنْ أَهْلِ بَيْتٍ يَمُوْتُ مِنْهُمْ مَيِتٌ، فَيَتَصَدَّقُوْنَ عَنْهُ بَعْدَ مَوْتِهِ إِلَّا أَهْدَاهَا إِلَيْهِ جِبْرِيْلُ. عَلٰی طَبَقٍ مِنْ نُوْرٍ، ثُمَّ يَقِفُ عَلٰی شَفِيْرِ الْقَبْرِ، فَيَقُوْلُ : يَا صَاحِبَ الْقَبْرِ الْعَمِيْقِ، هٰذِهِ هَدِيَةٌ أَهْدَاهَا إِلَيْکَ أَهْلُکَ فَاقْبَلْهَا. فَيُدْخَلُ عَلَيْهِ فَيَفْرَحُ بِهَا وَيَسْتَبْشِرُ وَيَحْزَنُ جِيْرَانُهُ الَّذِيْنَ لَا يُهْدَی إِلَيْهِمْ بِشَيئٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ..

1.      أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 315، الرقم : 6504،

2.      والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 139. ’’

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیںکہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جب اہل خانہ میں سے کوئی اپنے فوت شدہ عزیز کے لیے صدقہ و خیرات کر کے ایصال ثواب کرتا ہے تو اُس کے اِس ثواب کا تحفہ حضرت جبرائیل ں ایک خوبصورت تھال میں رکھ کر اس قبر والے کے سرہانے جا کر پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں : اے صاحبِ قبر! تیرے فلاں عزیز نے یہ ثواب کا تحفہ بھیجا ہے تو اِسے قبول کر. وہ شخص اِسے قبول کر لیتا ہے، وہ اس پر خوش ہوتا ہے اور (دوسرے قبر والوں کو) خوشخبری سناتا ہے اور اُس کے پڑوسیوں میں سے جن کو اس قسم کا کوئی تحفہ نہ ملا ہو وہ غمگین ہوتے ہیں.‘‘

 

عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّهُ سَأَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِذَا نَتَصَدَّقُ عَنْ مَوْتَانَا وَنَحُجُّ عَنْهُمْ وَنَدْعُوْ لَهُمْ فَهَلْ يَصِلُ ذَالِکَ إِلَيْهِمْ؟ قَالَ : نَعَمْ، وَيَفْرَحُوْنَ بِهِ کَمَا يَفْرَحُ أَحَدُکُمْ بِالطَّبَقِ إِذَا أُهْدِيَ إِلَيْهِ. رَوَاهُ الْعَيْنِيُّ.

1.      أخرجه بدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 119.

 ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اللہ! اگر ہم اپنے فوت ہونے والوں کے لیے صدقہ کریں اور حج کریں اور ان کے لیے دعا کریں تو کیا ان سب چیزوں کا ثواب ان کو پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، اور وہ اِس سے اِس طرح خوش ہوتے ہیں جیسے تم میں سے کوئی کسی کو طشتری تحفے میں دے تو وہ خوش ہوتا ہے۔‘‘

 

 

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive