Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

7/21/24

فلسفہ شہادت امام حسینؓ | پیغام کربلا | انسانی بنیادی حقوق

ارشاد باری تعالی ہے : وَقُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ ۔۔ زمین میں چلے جاو اور ایک مقررہ مدت تک رہنا بھی ہے اور ساز و سامان بھی ہے یعنی جینے کا حق یعنی سیاست کا حق یعنی آزادی کا حق اور معاشی حق ہے جو کہ حضرت انسان کی اس دنیا میں آمد کے ساتھ ہی اللہ تعالی نے اعلان کر دیا تھا کہ جینا بھی اور دنیا کے مال سے برتنا بھی ہے۔۔۔ یہ بنیادی حقوق ہیں ۔ ۔۔ سیاسی آزادی ، معاشی آزادی ، سیاسی عدل و انصاف ، معاشی عدل و انصاف ہی اللہ تعالی کا نظام ہے۔۔

فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّىْ هُدًى فَمَنْ تَبِــعَ هُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْـهِـمْ وَلَا هُـمْ يَحْزَنُـوْنَ۔ کامیابی کی ضمانت اور گارنٹی صرف اسی طریقہ کار میں ہے جو میں دنیا میں میں بھیجوں گا جو میرا بتایا ہوا طریقہ ہے وہی کامیابی کا طریقہ ہے اور وہی لوگ بے خوف و خطر ہوں گے جو میرے نظام کو لے کر چلیں گے۔ (جناب فاروق اعظم کا تذکرہ ننگی ریت پر سونا بغیر سکیوڑٹی گارڈز اور لمبی لمبی گاڑیوں کی قطاروں کے بغیر سفر کرتے تھے۔کیا اس وقت ان کے دشمن نہ تھے کیا ان سے نفرت کرنے والے نہ تھے ، موجود تھے لیکن جناب فاروق پر امن کیوں تھے ؟ وجہ یہ تھی کہ انہوں نے نظام الہی اور عدل و انصاف کو اپنایا تھا ، لوگوں کو ان کے حقوق دیے تھے ، یہی وجہ تھی کہ وہ پر امن تھے اور سکون سے سویا کرتے تھے۔)

جب انبیائے کرام علیھم السلام اللہ تعالی کی وحدانیت کا ذکر کرتے تھے، اعلان کرتے تھے تو قوم کے وڈیرے اور سرمایہ دار ہی کیوں پیغمبر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے تھے اور غریب ہی کیوں پیغمبر کے اردگرد اکٹھے ہوتے تھے ؟؟؟؟؟؟

پیغام توحید صرف اللہ کے سامنے جھکنا نہیں تھا بلکہ باطل کے سامنے ڈٹ جانا اور حقوق العباد (سیاسی اور معاشی )کی بحالی تھا،اعلان توحید صرف عقائد کی اصلاح نہیں تھا بلکہ نظام الہی کا احیا اور اعلاء کلمۃ اللہ تھا،یعنی نظام خداوندی کا اعلا اور احیا تھا۔ آئیے قرآن مجید میں انبیائے کرام علیھم السلام کی بات کرتے ہیں:

حضرت نوح علیہ السلام

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُـوْحًا اِلٰى قَوْمِهٓ ٖ اِنِّـىْ لَكُمْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ (25)

فَقَالَ الْمَلَاُ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ مَا نَرَاكَ اِلَّا بَشَـرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّـذِيْنَ هُـمْ اَرَاذِلُـنَا بَادِىَ الرَّاْىِۚ

قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهٓ

حضرت ہود علیہ السلام

وَاِلٰى عَادٍ اَخَاهُـمْ هُوْدًا

قَالَ الْمَلَاُ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٓ

حضرت صالح علیہ السلام

وَاِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُـمْ صَالِحًا ۗ

قَالَ الْمَلَاُ الَّـذِيْنَ اسْتَكْـبَـرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّـذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْـهُـمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صَالِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖ

قَالَ الَّـذِيْنَ اسْتَكْـبَـرُوٓا اِنَّا بِالَّـذِىٓ اٰمَنْتُـمْ بِهٖ كَافِرُوْنَ

حضرت شعیب علیہ السلام

وَاِلٰى مَدْيَنَ اَخَاهُـمْ شُعَيْبًا

فَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْـزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْيَآءَهُـمْ وَلَا تُفْسِدُوْا فِى الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا ۚ(تاجر برادری اور بزنس کمیونٹی کو چیلنج کیا)

قَالَ الْمَلَاُ الَّـذِيْنَ اسْتَكْـبَـرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مَعَكَ مِنْ قَرْيَتِنَـآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِىْ مِلَّتِنَا ۚ

حضرت موسی علیہ السلام

ثُـمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهِـمْ مُّوْسٰى بِاٰيَاتِنَـآ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهٖ

وَقَالَ مُوْسٰى يَا فِرْعَوْنُ اِنِّـىْ رَسُولٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَالَمِيْنَ (104)

حَقِيْقٌ عَلٰٓى اَنْ لَّآ اَقُوْلَ عَلَى اللّـٰهِ اِلَّا الْحَقَّ ۚ قَدْ جِئْتُكُمْ بِبَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَرْسِلْ مَعِىَ بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ (105)

 

سارے پیغمبر ظلم و ستم ، استحصالی ، اور تفریقی معاشرے اور پورے نظام کے خلاف اعلان جنگ کرتے تھے اور یہی حق کی منشا دعوت و تبلیغ کی تکمیل اور اتمام ہے یہی اصل اعلان توحید باری تعالی ہے اور آج بھی کربلا ہمیں یہی بتاتی ہے کہ سنو مدینہ میں رہنا اور لوگوں کے بیچ میں عزت و شان کے ساتھ رہنا کتنا مرغوب تھا اور آسان تھا لیکن امام عالی مقام نے سکون کی بجائے حق کی خاطر بے سکونی کو پسند کیا ، لوگ ہاتھ چوم کر عزت افزائی کریں اس بات کو آپ نے ہاتھ کٹوانے اور سر کٹوانے پر قربان کر دیا۔گھر بیٹھے بٹھائے ہزاروں درہم و دینار اکاونٹ میں آجائیں امام کو یہ پسند نہ تھا امام کو کربلا کی تپتی دھوپ میں بھوکا اور پیاسا رہنا اچھا لگا یہی حسینیت ہے یہی پیغام کربلا ہے۔(حق کی خاطر انا کو قربان کرنا ، نفس کو قربان کرنا ، سکون کو قربان کرنا ۔)

یزید کو بھی معلوم تھا کہ اگر اسلام کی دعوت اور نظام کو رسول کے انداز میں پیش کیا گیا تو یہ ظلم اور بربریت کا نظام اس کے لپیٹے میں آئےگا اس لیے اسے خطرہ جناب عبد اللہ بن عباسؓ اور عبداللہ بن عمرؓ سے نہیں تھا نہ ان کو بیعت پر مجبور کیا اگر بیعت پر مجبور کیا تو امام عالی مقام ؓکو یا عبد اللہ بن زبیرؓ  کیوں کہ اسے یا امام پاک سے خطرہ تھا یا عبد اللہ بن زبیر سے ۔۔۔ کیوں کہ  یہی ہستیاں نظام الہی اور حق و باطل کے درمیان ڈٹ جانے والی تھیں اور یہی حضرات نظام الہی کے احیا اور کلمۃ اللہ کے اعلا کا موقف رکھتے تھے۔

·       ایک سیاسی لیڈر کا بیان تھا کہ مولویوں کا سیاست سے کیا لینا دینا مولوی مسجدیں سنبھالیں بس ۔ (افسوس تو یہ ہے کہ مسجدیں بھی مولویوں کو سنبھالنے نہیں دیتے) خیر کیوں مولوی خطرہ ہوتے ہیں اس لیے کہ دین اسلام کی حقیقی تشریح ایک سیاست سے آشنا ، سیرت الرسول ، سیرت ابی بکر ، سیرت فاروق اعظم ، سیرت عثمان غنی ، اور سیرت حیدر کرار اور سیرت امام عالی مقام کو سمجھنے والا اور اس کا اثر رکھنے والا مولوی ہی کر سکتاہے

آئیں اب سمجھیں ہمیں کیا کرنا ہے کیا ہم حکومت وقت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ، کیا بغاوت کر دیں اس استحصالی نظام کے  خلاف کہ جہاں ایک طرف 8 لاکھ تنخواہ لینے والا گاڑی میں تیل مفت کا جلائے ، گھر میں بجلی مفت استعمال کرے ، کیچن میں گیس فری کی استعمال کرے ، اور دوسری طرف ایک بیچارہ جس کی ماہانہ آمدن 20 ہزار ہے وہ ان عیاش پرستوں کے بجلی کے بل بھی دے اور پیٹرول کا خرچہ بھی برداشت کرے کیوں کیا یہ یزیدیت نہیں کیا یہ غریب کے وہ حقوق جو اس کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے رب نے طے کر دیے تھے پر ڈاکہ نہیں ہے۔ باخدا کبھی بھی مفت کی بجلی استعمال کرنے والا نہیں چاہے گا کہ یہ رعایت کبھی ختم ہو ، مفت کا پیٹرول استعمال کرنے والا کبھی نہیں چاہے گا کہ اسے اپنی جیب سے  پیٹرول ڈلوانا پڑے ۔ ۔ ۔ آج ضرورت ہے فکر حسین اور فکر کربلا کو سمجھنے کی اور دنیا میں نافذ کرنے کی۔

ہمیں کیا کرنا ہے ؟ کیا جتھا بنا کر اسلام آباد پر چڑھائی کر دیں ؟؟؟؟؟ نہیں ۔۔۔ ایسا نہیں کیوں ؟؟؟؟ آئیں یہ بھی سمجھیں ۔۔۔۔ ہم کرتے کیا ہیں کبھی کوئی گروہ اسلام آباد جا رہا ہے اوار کبھی کوئی ، جب ایک پارٹی حکومت میں ہوتی ہے تو دوسری اس کو ظالم کہہ رہی ہوتی ہے اور جب وہ حکومت میں ہوتی ہے تو پہلے والی اس کو ظالم کہہ رہی ہوتی ہے ۔۔۔۔ یہ سب ایک ٹوکرے کے بھانڈے ہیں یہ سب ایک چھپڑ کے ڈڈو ہیں۔ سنو ہمیں پہلے خود اپنی فکر کی اصلاح کرنی ہے اپنے کردار کی اصلاح کرنا ہے پہلے حسین کی سیرت کو اپنا لباس بنانا ہو گا ، ہمیں اپنی اصلاح کرنا ہے ، چھوڑو اسلام آباد کو اپنے محلے کی اصلاح کریں محلے کو چھوڑیں پہلے اپنی گلی کی فکر کریں ، گلی کو چھوڑی اپنے گھر کی اصلاح کریں اور اپنے گھر کو چھوڑیں پہلے اپنے گریبان کو پکڑیں اور اپنے گریباں میں جھانکیں کہ ہم کہاں تک حسینی ہیں اور کہاں تک حسین کی فکر ہمارے قلب و جگر میں اتری ہے ، سب سے پہلے میں اپنی ذات کے کان پکڑوں اپنی انا اور نفس کے گلے میں پٹا ڈالوں پہلے اپنی آپ کو سچا اور پکا حسینی بناوں یقین مانیں میں ممبر کو گواہ بنا کر کہتا ہوں جب آپ حسینی بن جائیں گے ، جب آپ کی شکل میں حسین نظر آئیں گے جب آپ کے کردار میں حسینی کردار نظر آنے لگے گا تو اسلام آباد جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔۔ آئیے حسینی بنیں اور کوشش کریں ہماری زبان ہی نہیں، ہمارا کردار  بھی یا حسین ، وا حسین کرے ہماری ہر ہر حرکت ہماری ہر ہر ادا بول کر کہے کہ حسینی آرہا ہے حسینی آ رہا ہے۔

 

Share:

7/1/24

احکام خلع Ahkam-e-Khula | Divorce by Wife Via Court

احکام خلع کی تفصیل 

                 1)        خلع کا معنی و مفہوم:

لغوی معنی خلع لفظ خَلَعَ سے مأخوذ ہے اور کلامِ عرب میں خلع کا معنی نزعٌ ہے یعنی اتارنا اور ایک چیز کو دوسری چیز سے نکالنا 

لغت میں خلع کا لفظ میاں بیو ی کے درمیان علیحدگی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے  جیسے کہتے ہیں :  خَالَعَتِ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا مُخَالَعَةً عورت نے اپنے خاوند سے خلع لیا ، یعنی جب عورت خاوند کو اپنی آزادی کے لیے فدیہ پیش کرے اور وہ فدیہ لے کر اسے طلاق دے دے ۔ در حقیقت اس معنی ٰ میں خلع زوجین کے درمیان جدائی بیان کرنے کے لیے ایک لطیف استعارے کے طور پر لایا گیا ہے ۔

اصطلاحی مفہوم:

فقہا نے خلع کے شرعی مفہوم کو واضح کرنے کے لیے اس کی متعدد تعریفات کی ہیں جوا یک دوسرے سے قدرے مختلف ہیں ، جس کی بڑی وجہ اُن کے ہاں خلع کی حقیقت و ماہیت میں اختلاف ہے کہ آیا خلع طلاق ہے یا فسخِ نکاح۔

خلع فقہائے احناف کی نظر میں : ابن ہمام ؒ خلع کی اس تعریف کو راجح قرار دیتے ہیں۔

اِزَالَةُ مِلْكِ النكاحِ بِبدلٍ، بِلَفْظِ الخلع.معاوضہ لے کر لفظ خلع کے ذریعے رشتۂ زوجیت کو ختم کرنا۔

ابن نجیمؒ نے درج ذیل تعریف کو اختیار کیا ہے ۔ رشتۂ زوجیت کو لفظ خلع یا اس کے ہم معنی کسی اور لفظ کے ذریعے ختم کرنا جو بیوی کے قبول کرنے پر موقوف ہو۔

مالکیہ کے ہاں خلع کی تعریف: خلع سے مراد وہ طلاق ہے جو معاوضہ پر ہو یا خلع کے لفظ کے ساتھ۔

فقہ شافعی میں خلع کی تعریف: زوجین کے درمیان لفظ طلاق یا خلع کے ذریعے تفریق جو ایسے معاوضے کے بدلے میں ہو جو مقصود(مالی قدروقیمت رکھتا) ہو اور خاوند کی طرف لوٹتا ہو۔

خلع حنابلہ کے نزدیک: خاوند کا مخصوص الفاظ کے ذریعے اپنی بیوی سے معاوضہ لے کر جدا ہونا، خواہ یہ معاوضہ بیوی سے لے یا اس کے علاوہ کسی اور سے۔

خلع کی حکمت: خلع کے ذریعے در حقیقت اسلام میں عورت کو یہ حق دیا گیا ہے کہ جب وہ خاوند سے اس کی دینی حالت، شکل و صورت، رویہ  اور طرزِ عمل ، بڑھاپے، کمزوری یا کسی اور فطری سبب کی بنا پر متنفر ہو جائے تو وہ خلع کے ذریعے خاوند سے الگ ہو سکتی ہے ۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ طلاق اور خلع چونکہ اسلام کے مقاصدِ نکاح کے خلاف ہیں ، اس لیے شریعت میں ان کی اجازت ایک ناپسندیدہ ضرورت اور آخری حل کے طور پر دی گئی ہے ۔ چنانچہ معمولی یا چھوٹی موٹی باتوں پر طلاق دینا یا خلع لینا شریعت کی نظر میں کوئی پسندیدہ عمل نہیں ، اس سے نہ صرف خاندانی اکائی بکھر جاتی ہے بلکہ بچوں کی پرورش بھی شدید متاثر ہوتی ہے اس لیے کہ اس کے نتیجے میں انہیں والدین میں سے کسی ایک کی شفقت سے محروم ہونا پڑتا ہے  یہی وجہ ہے کہ طلاق کو ابغض الحلال قرار دیا گیا اور بلاوجہ اور بلاعذر خلع طلب کرنے والی خاتون کے لیے احادیث مبارکہ میں شدید وعید اور تنبیہ آئی ہے ۔ سنن ابی داود ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ اور دیگر اصحاب سنن نے حضرت ثوبان ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جس عورت نے بھی بغیر سبب کے اپنے شوہر سے طلاق طلب کی تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔‘‘

خلع کی اقسام : خلع کی دو اقسام ہیں ۔ ۱۔ خلع بعوض    ۲۔ خلع بغیر عوض

خلع بعوض: اس سے مراد وہ خلع ہے جس میں زوجین ایک دوسرے سے اس شرط پر علیحدگی اختیار کرتے ہیں کہ بیوی خاوند کو خلع کے بدلے میں معاوضہ ادا کرے گی ۔ یہ خلع اسی وقت درست ہو گا جب یہ بیوی کی رضا مندی سے انجام پائے اور بیوی کے قبول کرتے ہی خلع کے تمام احکام خود بخود نافذ ہو جائیں گے ۔

خلع بغیر عوض:  اگر خاوند خلع دیتے وقت معاوضہ کا ذکر نہ کرے اور بیوی سے صرف اتنا کہے کہ میں نے تمہیں خلع دیا ، تو یہ خلع بغیر عوض کہلائے گا ۔ خلع بعوض کے برعکس یہاں خاوند کی نیت کا اعتبار ہو گا ۔ اگر خاوند نے خلع کے لفظ ادا کرتے ہوئے طلاق کی نیت کی تو طلاق واقع ہو جائے گی ورنہ نہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ خلع طلاق کے لیے کنایہ کے طور پر استعمال ہوا ہے اور کنائی الفاظ سے طلاق اس وقت واقع ہوتی ہے جب خاوند نے طلاق کی نیت کی ہو۔

خلع کی مشروعیت : خلع کی مشروعیت قرآن مجید کی سورہ بقرہ کی آیت ۲۲۹ سے ثابت ہے  فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِۙ-فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖؕ ۔۔۔ ہاں اگر زن و شوہر کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اگر عورت (خاوند کے ہاتھ سے ) رہائی پانے کے بدلے میں کچھ دے ڈالے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں ۔

خلع سے متعلق احادیث : خلع سے متعلق جو احادیث روایت ہوئی ہیں ان میں زیادہ تر جلیل القدر صحابی حضرت ثابت بن قیس ؓ اور ان کی بیوی کے واقعہ خلع کے بارے میں ہیں جو متعدد روایات میں مختلف الفاظ سے منقول ہے۔ اسلام میں یہ نہ صرف اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا بلکہ خلع کے باب میں اسے بنیاد کی حیثیت حاصل ہے۔ صحیح بخاری میں یہ واقعہ اس طرح منقول ہے :

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتی ہیں : اے اللہ کے رسول ! میں ثابت بن قیس کے دین و اخلاق پر کوئی نکتہ چینی نہیں کرتی ، البتہ میں اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں، یہ سن کر رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا وہ باغ (جو اس نے تمہیں بطور مہر کے دیا تھا) اسے انہیں واپس کرتی ہو؟ اس عورت نے عرض کیا : جی ہاں! رسول اللہ ﷺ نے حضرت ثابت بن قیسؓ سے فرمایا : کہ باغ واپس لے لو اور اسے ایک طلاق دے دو۔سنن نسائی اور سنن ابی داود میں یہ واقعہ مختلف الفاظ سے منقول ہے ۔

خلع کا جواز: خلع کے جواز پر تمام فقہا بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا اتفاق ہے ۔البتہ خلع کس بنیاد پر اور کس حالت میں جائز ہوتا ہے؟ اس کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔

خلع کے ارکان و شرائط: خلع کے درج ذیل پانچ ارکان ہیں

۱۔ صیغہ ۲۔ موجِب (یعنی ایجاب کرنے والا۔خاوند) ۳۔ قابل (قبول کرنے والا) ۴۔ عوض ۵۔ مُعَوَّض۔

 

 

Share:

منقبت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ | ہر ایک شرف میں اعلی ہے عثمان غنی عثمان غنی


 

ہر ایک شرف میں اعلی ہے عثمان غنی عثمان غنی

یکتا دونوروں والا ہے عثمان غنی عثمان غنی

 

یہ پیارے خدا کا پیارا ہے یہ بزم نبی کا تارا ہے

اسلام کا نور اجالا ہے عثمان غنی عثمان غنی

 

کامل عثمان حیا میں ہے اکمل یہ جو دوسخا میں ہے

عظمت کا خاص حوالہ ہے عثمان غنی عثمان غنی

 

مخدوم ہے سب مخدوموں کا سالار ہے سب  مظلوموں کا

ساجد کا والی و مولا ہے عثمان غنی عثمان غنی

Share:

6/23/24

حدیث اور مستشرقین

حدیث اور مستشرقین

سترھویں، اٹھارویں اور کسی حد تک انیسویں صدی کے آغاز میں مستشرقین کی جو کتابیں منصہ شہود پر آئیں، ان میں بیشتر حملے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر کیے گئے ۔اس مہم کے قافلہ سالار مشہور مستشرق سر ولیم میور۱۹۰۵ء) (Sir william Muir) ہیں جنھوں نے چار جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب The Life of Muhammad میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو ہدفِ تنقید بنایا۔سر سید احمد خان نے ’’ خطباتِ احمدیہ‘‘ میں مستشرق مذکور کے اعتراضات کاعلمی اسلوب میں جواب دیا۔

سیرت کے محاذ پر جب مستشرقین کو منہ کی کھانی پڑی تو انھوں نے اپنا رخ قرآن مجید کی طرف موڑ دیا اوران لوگوں نے ان تمام اعتراضات کو قرآن پرلوٹانے کی کوشش کی جو عام طور پر بائیبل پر کیے جاتے ہیں ۔ اس مہم کا آغاز جارج سیل (Gorge Sale) نے "The Koran"سے کیا اورمعروف آسٹریلوی مستشرق آرتھر جیفری نے اس تحریک کو نقطۂ عروج تک پہنچایا ۔ موصوف نے اپنی کتابوںمیں قرآن کے متن کے غیرمحفوظ ہونے کے اعتراضات اٹھائے،سابقہ امم کے حالات و واقعات جو یہود و نصاری کی کتب سے ماخوذ لیکن مستشرقین کی یہ مہم بھی بہت جلد کمزور ہوگئی۔ صرف چالیس پچاس سال کی محنت کے بعد ہی مستشرقین کو اندازہ ہوگیا کہ قرآن اتنی مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے کہ اس کو محض الزامات سے ہلانا ممکن نہیں۔

اب ایک اور مہم شروع ہوئی اور ان لوگوں نے اپنا رخ حدیثِ رسول کی طرف کرلیا ، لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ مستشرقین نے سیرت اورقرآن پر اعتراضات سے کلی طور پر صرفِ نظر کر لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اب بھی سیرت اور قرآن پر اعتراضات کرتے ہیں، لیکن ان میں اب وہ پہلے جیسی شدت نہیں ہے ۔ حالات کے جبر نے مستشرقین کو مجبور کیا کہ وہ اسلام کے خلاف کسی اور محاذ پر نئی صف بندی کریں چنانچہ انھوں نے قرآن کے بعد اسلام کے دوسرے بنیادی مأخذ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تختۂ مشق بنانے کا فیصلہ کیا ۔

ڈاکٹر اسپرنگر (Sprenger) نے تین جلدوں میں سیرت پر کتاب لکھی تو اس میں حدیث کی روایت اور اس کی حیثیت پر بھی تنقید کی۔ سرولیم میور نے سیرت پر اپنی کتا ب میں حدیث پر اس بحث کو مزید آگے بڑھایا ، لیکن حدیث پر جس شخص نے سب سے پہلے تفصیلی بحث کی ،وہ مشہور جرمن مستشرق گولڈ زیہر۱۹۲۱ء) (Gold Zehr)ہے۔ اس نے اپنی کتاب "Muslim Studies"کی دوسری جلد میں علمِ حدیث پر تجزیاتی انداز میں تنقید کی ہے۔ بعد کے دور میں تمام مستشرقین نے گولڈ زیہر ہی کے اصولوں کا اتباع کیا ہے۔ پروفیسر الفرڈ گیوم (Alfred Guillaume)نے اپنی کتاب "Islam" اور "Traditions of Islam"میں گولڈ زیہر کی تحقیق کو آگے بڑھایا ہے۔ جوزف شاخت (Joseph Schacht)نے اپنی کتاب "The Origins of Muhammadan Jurisprudence" میں گولڈ زیہر کے اصولوں کی روشنی میں اسلامی قانون کے مصادر ومنابع کاتجزیہ کیا ہے اور حدیث کے ظہور اور ارتقا پر بحث کرتے ہوئے حدیث کی نبوی کی ؑ حیثیت کو مشکوک قرار دیا ہے۔اس کے علاوہ مارگولیتھ۱۹۴۰ء) (Margoliouthرابسن(Robsonگب(م ۱۹۶۵ء)(Gibbول ڈیورانٹ۱۹۸۱ء) (Will Durantآرتھر جیفری (Arthur Jafferyمنٹگمری واٹ۱۹۷۹ء)(Montgomery Watt) ، وان کریمر (Von Kremer)، کیتانی (Caetani) ،اور نکلسن(Nicholson) وغیرہ نے بھی اپنے حدیث مخالف نظریات پیش کیے۔

مستشرقین میں سے علمِ حدیث پر بنیادی کام گولڈ زیہراورشاخت ہی کا ہے۔ یہ دونوں یہودی ہیں اوران کا تعلق جرمن سے ہے۔ جن دیگر مستشرقین نے حدیث نبوی کو اپنی تحقیقات کا موضوع بنایا ہے، انھوں نے اسلامی مصادر سے براہِ راست استفادہ کرنے کی بجائے زیادہ تر گولڈ زیہر اور شاخت کی تحقیقات کو ہی اپنے خیالات کی بنیادبنایا ہے ۔ آزادانہ تحقیق کے دعوے دار مغربی اہلِ علم کے اس اسلوبِ تحقیق پرجسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ (م۱۹۱۸ ۔۱۹۹۸ء) تعجب کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’حیرت کی بات ہے کہ اصولِ حدیث اور تاریخِ حدیث پر مسلمانوں کی بے شمار کتابیں دنیا کی لائبریریوں میں موجود ہیں۔ حدیث طیبہ کے بارے مسلمانوں کا جو موقف ابتدا سے رہا ہے، وہ ہر دور کی تصانیف میں درج ہے لیکن مستشرق محققین نہ تو مسلمانوں کے موقف کی طرف اپنی توجہ مبذول کرتے ہیں اور نہ ہی حدیث کے متعلق مسلمانوں کے چودہ سو سالہ ادب کو کوئی اہمیت دیتے ہیں، بلکہ ان پر جب حدیث کے متعلق تحقیق کا بھوت سوار ہوتا ہے تو گولڈ زیہر اور اس کے نقالوں کی تصانیف کو ہی قابلِ اعتماد مصادر قرار دیتے ہیں۔‘‘

اعتراضات:

حجت: مستشرقین نے حدیث کے بارے میں یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ دورِ اوّل کے مسلمان حدیث کو حجت نہیں سمجھتے تھے ،مسلمانوں میں یہ خیال بعد کے دور میں پیدا ہوا۔ (7) جوزف شاخت نے لکھا ہے کہ امام شافعی ؒ (م ۲۰۴ھ) سے دو پشت پہلے احادیث کی موجودگی کا کوئی اشارہ ملتا ہے تو یہ شاذ اور استثنائی واقعہ ہے۔ (8) آرتھر جیفری (Arthur Jeffery)کہتا ہے کہ پیغمبر ؑ کے انتقال کے بعد ان کے پیرو کاروں کی بڑھتی ہوئی جماعت نے محسوس کیا کہ مذہبی اور معاشرتی زندگی میں بے شمار ایسے مسائل ہیں جن کے متعلق قرآن میں کوئی راہنمائی موجود نہیں ہے،لہٰذا ایسے مسائل کے حل کے لیے احادیث کی تلاش شروع کی گئی۔

اعتراض کا جائزہ اور جواب: (( اللہ تعالی نے احادیث طیبہ کی اہمیت اور حجیت کو قرآن حکیم کے ذریعے بیان کردیا۔ قرآن حکیم کی بے شمار آیتیں احادیث طیبہ کی اہمیت کو ثابت کر رہی ہیں۔ مستشرقین کی ایک معقول تعداد اب یہ تسلیم کرتی ہے کہ آج مسلمانوں کے ہاتھوں میں جو قرآن ہے ، یہ بعینہ وہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے سامنے پیش کیا تھا۔ اس لیے وہ قرآن حکیم کی کسی آیت کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ بعد کے مسلمانوں نے خود گھڑی ہے ۔جب قرآن حکیم کی بے شمار آیات کریمہ احادیث طیبہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت کو بیان کرر ہی ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ دورِ رسالت کے مسلمانوں نے احادیثِ طیبہ کو کوئی اہمیت نہ دی ہو اور صدی، ڈیڑھ صدی بعد مسلمانوں کو مجبوراً احادیث کی طرف متوجہ ہونا پڑا ہو؟۔ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے متعلق  مستشرقین سمجھتے ہیں کہ قرآن حکیم کی بے شمار آیات جو اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم دے رہی تھیں، ان آیات کی طرف ان کی توجہ ہی نہ تھی۔ یہ بات محض من گھڑت اور اسلامی تاریخ سے چشم پوشی کے مترادف ہے کیوں کہ ہر زمانے کے مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو فرض سمجھتے تھے، قرآن حکیم کے اسرار و رموز کو سمجھنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی کو ضروری سمجھتے تھے ، وہ احکامِ قرآنی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی نمونے کی روشنی پر عمل کرتے تھے، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معلم کتاب و حکمت اور مزکئ قلوب سمجھتے تھے تو پھر یہ بھی سچ ہے کہ وہ جس طرح قرآن حکیم کو دین کا اول مصدر سمجھتے تھے، اسی طرح وہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور احادیثِ طیبہ کو دین کا مصدرِ ثانی سمجھتے تھے))

سند پر اعتراضات: مستشرقین نے اسناد کے من گھڑت ہونے کا اعتراض کرکے احادیث کو ناقابلِ اعتبار قرار دینے کی کوشش کی اور دعویٰ کیا کہ اُس دور میں لوگ مختلف اقوال اور افعال کو محمد ؑ کی طرف منسوب کردیا کرتے تھے ۔کتانی (Caetani) (10) اور اسپرنگر (Springer) (11) ان مستشرقین میں شامل ہیں جن کے نزدیک اسناد کاآغاز دوسری صدی کے آواخر یا تیسری صدی کے شروع میں ہوا۔گولڈ زیہر موطأ امام مالک ؒ پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ امام مالک ؒ (م ۱۷۹ھ) نے اسناد کی تفصیل بیان کرنے کے لیے کوئی مخصوص طریقہ اختیار نہیں کیا بلکہ اکثر و بیشتر وہ عدالتی فیصلوں کے لیے ایسی احادیث بیان کرتے ہیں جن کا سلسلۂ اسناد صحابہ تک ملا ہوا نہیں اور اس میں متعدد خامیاں ہیں۔ (12) جبکہ جوزف شاخت کا کہنا ہے کہ اس مفروضے کو قائم کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ اسناد کے باقاعدہ استعمال کارواج دوسری صدی ہجری سے قبل ہو چکا تھا۔(13) منٹگمری واٹ (Montgomery Watt)نے اسناد کے مکمل بیان کو امام شافعی ؒ (م ۲۰۴ھ) کی تعلیمات کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

اعتراض کا جائزہ اور جواب: ((اس بات سے انکار نہیں کہ دشمنانِ اسلام نے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چشمۂ صافی کو گدلا کرنے کی کوشش کی اور انہوں نے ایسی باتوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے کی کوشش بھی کی جو آپ نے نہ فرمائی تھیں، لیکن صورتِ حال یہ نہ تھی کہ ایسے کم بختوں کی مذموم کارروائیوں کو کسی نے روکا نہ ہو ۔ حدیث گھڑنے والے گھڑتے رہے، لیکن وہ لوگ جن کی نظریں قرآن حکیم کی ان آیات پر تھیں جو کسی خبر پر یقین کرنے سے پہلے تحقیق کرنے کا سبق دیتی ہیں یا جو افتراء علی اللہ کو ظلم عظیم قرار دیتی ہیں اور جن لوگوں کی نظریں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پاک پر تھیں جو جھوٹی حدیث گھڑنے والوں کو دوزخ کا ٹھکانا دکھا رہی ہے، ایسے لوگوں نے کبھی ان لوگوں کو کھل کھیلنے کا موقع نہیں دیا جو احادیث طیبہ کے چشمۂ صافی کو گدلا کرنا چاہتے تھے ۔قرآن حکیم نے انہیں فاسق کی خبر کے متعلق محتاط رہنے کا حکم دیا تھا۔ اسماء الرجال جیسے فن کی ایجاد کا سہرا مسلمانوں کے سر ہے جس میں دنیا کی کوئی قوم ان کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ اس علم کی بدولت محدثین نے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کے شب و روز، ان کے اخلاق و کردار اور ان کے اندازِ زیست کا ریکارڈ جمع کردیا اور ہر خبر کے راویوں کے سلسلے کا کھوج لگایا تاکہ یہ پتہ چلایا جاسکے کہ کسی حدیث کے سلسلۂ سند میں کسی فاسق و فاجر اور کذاب کا نام تو نہیں آتا۔ محدثین کی ان عظیم الشان کوششوں کا اعتراف مستشرقین نے بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر اسپرنگر (Springer) اس حوالے سے مسلمانوں کے اس علمی میدان کی ایجاد کا کھلے دل سے اعتراف کرتا ہےا ورسراہتا ہے۔

            حدیث کے مضامین اور تعلیمات پر اعتراض: مستشرقین نے قرآن مجید کی طرح احادیث پر بھی یہ اعتراض کیا ہے کہ بہت ساری روایات یہودو نصاریٰ کی کتب سے متأثر ہوکر گھڑی گئی ہیں ۔وہ احادیث جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی معجزانہ شان کا ذکر ہے،ان پر تبصرہ کرتے ہوئے ول ڈیورانٹ(م ۱۹۸۱ء) (Will Durant)کہتاہے کہ بہت ساری احادیث نے مذہبِ اسلام کو ایک نیارنگ دے دیا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ ان کے پاس معجزات دکھانے کی قوت ہے ، لیکن سینکڑوں حدیثیں ان کے معجزانہ کارناموں کا پتہ دیتی ہیں جس سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ اکثر احادیث عیسائی تعلیمات کے زیر اثر تشکیل پذیر ہوئیں۔ (15) اس قسم کا دعویٰ کرنے والوں میں فلپ کے حتی (Philip.K.Hitti) بھی قابلِ ذکرہے۔

            اعتراض کا جائزہ اور جواب: ((رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ کتاب کی اتباع اور اقتدا سے سختی سے منع کیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم اپنے سے پہلے لوگوں کے نقش قدم کی ہو بہو پیروی کرو گے، حتیٰ کہ اگر وہ بجو کے بل میں گھسے ہوں گے تو تم بھی اس میں گھسو گے۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ ! آپ کی مراد یہود ونصار یٰ ہیں؟ آپ نے فرمایا: تو اور کس سے ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ ایسے اعمال سے بچتے رہے جن سے یہود و نصاریٰ سے مشابہت پیدا ہوتی ہے ۔ صحابہ کرامؓ نے ہمیشہ اس بات کی حوصلہ شکنی کی کہ لوگ قرآن کی موجودگی میں اہلِ کتاب کی روایات کو آگے بیان کریں۔ حضرت عمر فاروقؓ کو علم ہوا کہ ایک شخص کتابِ دانیال دوسروں کو نقل کرواتا ہے تو آپؓ نے اس کو بلایا اس کی پٹائی کی اور حکم دیا کہ جو کچھ اس نے لکھا ہے اس کو مٹا دے اور وعدہ کرے کہ آئندہ نہ تو وہ اس کتاب کو پڑھے گا اور نہ ہی کسی کو پڑھائے گا اور پھر حضرت عمر فارووقؓ نے یہود و نصاریٰ کی کتب کے نقل کرنے کی ممانعت کے سبب کے طور پر خود اپنا واقعہ بیان کیاکہ ایک موقع پر جب انھوں نے یہی عمل کیا تھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر شدید غصے اور ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔  اس لیے مستشرقین کے اس اعتراض میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ احادیث کا مأخذ بائیل اور اسرائیلی روایات ہیں ۔

            کتابت حدیث ، احادیث مبارکہ ضائع ہوئیں ، یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ فرمان محمد ﷺ ہے: مستشرقین کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کی کتابت سے منع کردیا تھا، اس لیے دورِ اوّل کے علما نے علمِ حدیث کی حفاظت میں سستی اور لاپرواہی سے کام لیا جس کے نتیجہ میں احادیث یا تو ضائع ہوگئیں یا پھران میں اس طرح کا اشتباہ پیدا ہوگیا ہے کہ پور ے یقین کے ساتھ کہنا کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ، ممکن نہیں ہے۔مستشرق الفرڈگیوم (Alfred Guillaume) لکھتا ہے کہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ حدیث کے بعض مجموعے اموی دورکے بعد جا کر مدون ہوئے۔ (17) مشہور مستشرق میکڈونلڈ (Macdonold) لکھتا ہے کہ بعض محدّثین کا صرف زبانی حفظ پر اعتماد کرنا اور اُن لوگوں کو بدعتی قرار دینا جو کتابتِ حدیث کے قائل تھے، یہ طرزِ عمل بالآخر سنّت کے ضائع ہونے کا سبب بنا۔

            اعتراض کا جائزہ اور جواب: ((مسلمانوں نے حدیث طیبہ کی حفاظت کے لیے صرف تدوین حدیث کے طریقے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے اس کار خیر کے لیے متعدد ایسے طریقے اپنائے ہیں جن کی مستشرقین کو ہوا بھی نہیں لگی۔ مستشرقین کے ساتھ مباحثے میں ضروری نہیں کہ ہم ہمیشہ اسی محاذ پر ان کا مقابلہ کریں جس محاذ کو وہ خود منتخب کریں۔ اگر تدوین کے بغیر دینی پیغام کی حفاظت کا کوئی طریقہ مستشرقین کے ہاں مروج نہیں تو یہ ان کا قصور ہے ، ہم ان کی اس کوتاہی کی وجہ سے امت مسلمہ کی ان خصوصیات کو کیوں نظرانداز کردیں جو اس ملت کا طرۂ امتیاز ہیں؟‘‘ (35) عربوں کے بے مثل حافظے کے ساتھ ساتھ ان کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو والہانہ محبت تھی، اس کی بنا پر انھوں نے آپ کے اقوال کو اپنے دل و دماغ میں پوری طرح محفوظ کرلیا ۔ ’’حدیثِ تقریری ‘‘ اور سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت میں مفہوم کی یکسانیت کے باوجود الفاظ کا مختلف ہوجانا عین ممکن ہے لیکن جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کا معاملہ ہے، اگرچہ ان کی روایت میں محدثین نے صحابہ کرامؓ کے لیے روایت بالمعنی کے جواز کو تسلیم کیا ہے، کیونکہ وہ رسولِ خدا کے براہِ راست مخاطب ہونے کی وجہ سے مرادِ رسول کو پوری طرح سمجھتے تھے لیکن اس کے باوجود صحابہ کرامؓ جس لفظی صحت کے ساتھ ان اقوال کو محفوظ رکھتے تھےوہ بھی بے مثل ہے اس حوالے سے چند ایک واقعات بیان کیے جاتے ہیں جو کہ اسلامی تاریخ میں عین حقیقت کا درجہ رکھتے ہیں۔

کتابتِ حدیث کی ممانعت والی روایات منسوخ ہیں، کیونکہ ان روایات کا سیاق و سباق ، تاریخی پس منظر اور دیگر شواہداس مؤقف کی تائید کرتے ہیں اور پھر صحابہ کرامؓ کی کثیر تعدادکا کتابتِ حدیث کی طرف عملی رجحان ان احادیث کے مفہوم کو متعین کرنے میں ہمارے لیے حجت ہے۔))

 

 

Share:

5/25/24

میں چپ کھڑا ہوا ہوں دربار مصطفیٰ ﷺ میں men chup khara howa hon naat lyrics


 

میں چپ کھڑا ہوا ہوں دربار مصطفیٰ ﷺ میں

 آنکھوں سے بولتا ہوں دربار مصطفیٰ ﷺ میں

 

میرا وجود جیسے گم ہو کہ رہ گیا ہے

 خود سے بچھڑ گیا ہوں دربار مصطفیٰ ﷺ میں

 

محسوس ہو رہا تھا صدیاں سمٹ گئی ہیں

 کچھ دیر ہی رہا ہوں دربار مصطفیٰ ﷺ میں

 

آنسوں ندامتوں کے ہیں چشمِ تر سے جاری

 چھپ چھپ کے رو رہا ہوں دربارِ مصطفی ﷺ میں

 

 اللّه میری قسمت برسات رحمتوں کی

 آنکھوں سے دیکھتا ہوں دربارِ مصطفی ﷺ میں

 

 کرنیں نکل رہی ہیں میرے وجود سے بھی

خورشید بن گیا ہوں دربارِ مصطفی ﷺ میں

 

 دل میں سما گئی ہے اپنائیت کی خوشبو

جس جس سے میں ملا ہوں دربارِ مصطفیٰ ﷺ میں

 

 آداب کا تقاضا کہ جنبش نہ ھو بدن میں

 دل وجد کر رہا ہے دربار مصطفی ﷺ میں

 

سینے پہ ہاتھ رکھ کر میں دل کو ڈھونڈتا ھوں

 دل مجھ کو ڈھونڈتا ھے دربار مصطفی ﷺ میں

 

کیا اب بھی میرے رب کا مجھ پر کرم نہ ھوگا

کہ اب تو میں آ گیا ھوں دربار مصطفی ﷺ میں

 

اعجازؔ میرے ماٹی اب ہوگئی سوارہ

میں کیپیاں بنا ہوا ہوں دربار مصطفیٰ ﷺ میں

Share:

5/24/24

جرم عصیاں سے رہا ہونے کا چارہ مانگو | محمد علی ظہوری قصوری


 

جرم عصیاں سے رہا ہونے کا چارہ مانگو

مانگنے والو  محمد کا سہارا مانگو

 

 ہاتھ پھیلا کے زر و سیم طلب کرتے ہو

 ان کے فیضان کی دولت بھی خدا را مانگو

 

 بحر ظلمات میں کام آئے گا دامان کرم

ناخدا ان کو سمجھ لو تو کنارا مانگو

 

روز محشر سے نہ گھبراؤ تڑپنے والو

 میری سرکار کی رحمت کا اشارا مانگو

 

 ساقیٔ طیبہ کا ہر جام صدا دیتا ہے

جینا چاہو تو مدینے کا نظارا مانگو

 

 اور مانگو نہ ظہوریؔ کوئی بس اس کے سوا

اپنے اللہ سے اللہ کا پیارا مانگو

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive