Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

4/26/22

زندگی تو میری جان حال کا نام ہے | حال، ماضی ، مستقبل ، انسان |صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

جب آپ زندگی کو ایک تماشا کے طور پر لیں گے تو انا مر جائے گی۔ اس کا وجود نہیں رہے گا۔ زندگی کو بازیچہ اطفال سمجھۓ

آپ پوچھتے ہیں کہ مستقبل کے بارے میں میرا کیا خیال ہے؟ سچی بات ہے کہ میں مستقبل کی فکر نہیں کرتا۔ میرے لیے حال ہی کافی ہے۔ اگر حال خوبصورت ہے تو مستقبل کا خوبصورت ہونا یقینی ہے کیونکہ مستقبل نے حال ہی کے بطن سے جنم لینا ہے۔ ہمیں مستقبل بارے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ مستقبل کے بارے میں پیشینگوئی کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں لمحہ موجود سے خوشی کشید کرنا چاہیے اور اگلا لمحہ اسی لمحہ موجود سے پیدا ہو گا۔


کچھ لوگ مستقبل کے ہی خواب بُنتے رہتے ہیں۔ ایسا مستقبل کبھی رونما نہیں ہوتا۔ ایسا مستقبل احمقوں کی جنت ہوتا ہے۔ مستقبل ایک غیر متعلق چیز ہے۔ میری ساری جدوجہد کا دائرہ یہاں تک محدود ہوتا ہے کہ حال کو کیسے خوشگوار بنایا جائے؟ لوگوں کے چہروں پر کیسے ہنسی کی کرن لائی جائے اور لوگوں کی زندگیوں میں کیسے حسین رنگ بکھیرے جائیں۔

درحقیقت عرصہ ہوا آپ اپنی آواز بھول چکے ہیں ۔ آپ کو کبھی اتنی آزادی نہیں ملی کہ اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔ آپ کی آواز ہمیشہ دبی رہی ہے اور دوسری آوازیں بہت بلند تھیں، تحکمانہ تھیں کیونکہ وہ احکامات تھے اور آپ ان کو مانتے رہے۔ آپ انہیں نہیں ماننا چاہتے تھے مگر مانتے رہے کیونکہ آپ عزت کروانا چاہتے تھے، قابل قبول بننا چاہتے تھے، محبت کروانا چاہتے تھے۔ آپ کے اندر صرف اپنی آواز کی کمی ہے۔ ایک آواز کہتی ہے “یہ کرو” دوسری آواز کہتی ہے “ایسا ہرگز نہ کرنا”۔ اور آپ الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان آوازوں سے پیچھا چھڑانا ہوتا ہے۔ آپ کو ان سب آوازوں کو خُداحافِظ کہنا پڑے گا۔ ایک بات تو یقینی ہے کہ یہ آپ کی آوازیں نہیں ہیں۔ یہ اُن کی آوازیں ہیں جو اپنا دور گزار چکے ہیں اور انہیں مستقبل کی خبر نہیں تھی۔

لہذا اس بابرکت مہینے میں خاموش ہو جائیں اور اپنے آپ کو دریافت کریں۔ جب تک آپ اپنی ذات کو تلاش نہیں کرتے یہ ہجوم نہیں چھٹے گا ۔

حال تب بہتر ہوتا ہے جب انسان ماضی سے جان چھڑا لیتا ہے اور زندگی میں سب سے مشکل کام ماضی سے خلاصی حاصل کرنا ہے۔ کیونکہ ماضی سے دستبردار ہونے کا مطلب ہے کہ اپنی پوری شناخت سے، اپنے سارے حوالوں اور شخصیت کو چھوڑ دیا جائے۔ یہ اپنے آپ کو چھوڑ دینے کے مترادف ہوتا ہے۔

بلھے شاہ چل اُتھے چلیے جتھے سارے انے

نہ کوئی ساڈی ذات پہچانے ، نہ کوئی سانوں منے

یہ عمل کپڑے تبدیل کرنے کی طرح نہیں ہے بلکہ یہ ایسا ہے جیسے جلد کو چاقو سے چھیلا جائے۔ آپ اپنے آپ کو ماضی ہی کے حوالے سے جانتے ہیں۔ ماضی سے خلاصی حاصل کرنا سب سے مشکل کام ہے لیکن صرف وہی حقیقی زندگی بسر کرتے ہیں جو اس بوجھ کو اتار پھینکتے ہیں۔ ماضی سے نکلے بغیر آپ حال میں نہیں آ سکتے۔

زندگی تو میری جان حال کا نام ہے۔ ماضی اور مستقبل دونوں کچھ نہیں۔ آپ کو اپنے باطن کا مشاہدہ کرنا ہو گا کہ آپ ماضی سے کچھ غذا حاصل کر رہے ہیں یا اس کے برعکس یہ آپ کا خون چوستے رہا ہے؟

خود کلامیاں ہیں ان کی تائید کرنا یا تنقید کرنا مفید نہیں ہوتا ان کو صرف پڑھ کر مزا لینا چاہیے۔

سلامت رہیں

دُعاگو، دُعا جُو

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی


 

Share:

کچھ چیزیں دل کا معاملہ ہوتی ہیں | دل ، دماغ ، انسان | صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

بس بہت ہو چکا اب اسے دھو ڈالیے۔

یہ مت سوچیں کہ آپ وہی ہیں جو آپ ہیں۔ آپ اس سے بڑھ کر ہیں اور آپ ہمیشہ اس سے بڑھ کر رہیں گے۔ آپ میں عظیم صلاحیت ہے ۔ ایک ایسی صلاحیت جس سے آپ بے خبر ہیں ۔ آپ کی یہ صلاحیت ، آپ کا یہ پوٹیشنل ( potential) کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ 

زندگی میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کو صرف اندر سے جانا جا سکتا ہے۔ اگر آپ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ صرف اس وقت محبت میں گرفتار ہوں گے جب آپ محبت کے معنی سمجھ لیں گے تو آپ کبھی بھی محبت میں مبتلا نہیں ہوں گے۔ محبت کے بارے میں جاننے کا اس کے سوا کوئی طریقہ نہیں کہ آپ اس میں گرفتار ہوں۔ آپ لائبریریوں میں جا سکتے ہیں اور محبت پر لکھی گئی ہزاروں کتابوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ آپ ان کتابوں کو پڑھ سکتے ہیں اور محبت کے بارے میں پی ایچ ڈی PhD کے مقالے تحریر کرسکتے ہیں لیکن اس کے باوجود آپ محبت کے بارے میں کچھ نہیں جانیں گے۔

لوگ میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں: پہلے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ خدا ہے، اسی صورت میں ہم اس کی تلاش کے لیے جائیں گے۔ وہ کبھی تلاش کے لیے نہیں جائیں گے۔ اُنہیں خدا کبھی  نہیں ملے گا۔ ظاہر ہے کہ آپ کیسے تلاش کرسکتے ہیں؟ اب خدا کو بحث کے طور پر ثابت کرنا ممکن نہیں۔

آپ کو ایک چیز کی تلاش کے لیے جانا ہوگا جسے آپ بالکل نہیں جانتے اور جس کے بارے میں آپ سرے سے یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ درحقیقت تلاش کا اصل مزا بھی یہی ہے، یہی لُطف ہے کہ آپ ایک ایسی چیز کی تلاش میں جا رہے جو نجانے ہے یا نہیں ہے۔ یہ ایک جوا ہے ۔ لیکن یہی وہ جوا ہے جس میں آپ نمو پاتے ہیں ۔ اور اسی نمو کے عمل میں خدا قریب آتا ہے، اور جب آپ تلاش جاری رکھتے ہیں اور رسک لیتے ہیں تو اچانک ایک دن آپ جان لیتے ہیں کہ خدا ہے۔ صرف خدا ہے۔

دراصل آپ کے دماغ کو اس حد تک conditioned مشروط کر دیا گیا ہے کہ آپ دماغ کو صاف کیے جانے سے خوفزدہ ہیں۔ آپ کو سوچ کی صورت میں چمٹنے کے چیز ملی ہوئی ہے۔ آپ کے دماغ میں بہت سا کچرا ہے۔ کیا آپ نے کبھی نہیں سوچا کہ اسے ایک اچھی دھلائی کی ضرورت ہے؟ تو آپ اس مائینڈ واش ( mind wash) سے اس قدر خوفزدہ کیوں ہیں؟ یہ خطرناک لگے گا لیکن رسک لیں۔ درحقیقت آپ کے پاس کھونے کو کیا ہے؟ آپ کے دماغ میں کیا ہے؟ آپ اس قدر فکرمند کیوں ہیں کہ اس میں کوئی ایسی قابل قدر چیز ہے۔ سب کچرا ہے اور آپ جانتے ہیں۔

یاد رکھیے کہ ایمان کا اقرار باللسان اور بالقلب ہے نہ کہ دماغ کہ ساتھ۔ آپ اپنے دماغ کو جانیں کہ یہ کیا ہے جس حالت میں آپ اسے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ایک پاگل خانہ ہے۔ ایک ھزار ایک چیز چل رہی ہے اس میں، شور ، ہجوم، فضولیات۔۔اس میں بیش قیمت کیا ہے؟

آپ کو بتایا گیا ہے کہ آپ کے جسم میں سب سے قیمتی پرزہ دماغ ہے۔ مگر یہ کس نے بتایا ہے؟ خود دماغ نے ہی بتایا ہے ناں۔ آپ ایک ایسے دماغ میں مقید ہے جو اپنی تعریف پسند کرتا ہے اور تنقید برداشت نہیں کر سکتا۔ جو صرف اُن چیزوں سے چمٹا ہے جو معاشرے یا اس تعلیمی نظام نے اس کو feed کی ہیں اور جن کے بار بار دہرائے جانے سے یہ اسے اپنا حاصل کردہ علم سمجھے بیٹھا ہے۔ مستعار لی گئی معلومات علم نہیں ہوتیں۔

تصوف ایک محبت کا معاملہ ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ جسے پہلے ثابت کرنا ہوتا ہے اور پھر اسے آپ پا لیتے ہیں۔

آپ پرانے طریقے میں زندگی جی چکے ہیں اور اس سے کچھ بھی نہیں ہوا اور اگر کچھ ہوا بھی ہے تو وہ مصنوعی اور بے کار ہے۔

دماغ میں اتنا مت جائیں۔ کچھ چیزیں دل کا معاملہ ہوتی ہیں۔ دل کے اپنے دلائل ہوتے ہیں جن کو دماغ نہیں جانتا۔ دل کو اجازت دیں۔ یہ دل کا معاملہ ہے۔ یہ دماغ سے کیا جانے والا فیصلہ نہیں کہ آپ اس کے فائدے اور نقصان کے بارے میں سوچیں، فلاں طریقے اور فلاں طریقے کے بارے میں سوچیں اور پھر دماغ کی جانب سے منظوری ملنے کے بعد فیصلہ کریں۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ دل کا معاملہ ہے اور آپ فائدے اور نقصان کے بارے میں نہیں سوچتے ہیں۔

بس اب اسے دھو ڈالیے۔ آپ ہی اسے دھو سکتے ہیں ۔ کچھ صابن ہم مہیا کردیں گے ۔

ہمت کیجیے۔                                               دُعاگو

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی



 

Share:

انسانی شعور | آئنہ صفت انسان | صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

انسانی شعور کو بھی آئنہ کی ضرورت رہتی ہے:

جس طرح آپ کا ہاتھ متعدد اشیاء کو پکڑ سکتا ہے مگر خود اپنے آپ کو گرفت میں نہیں لے سکتا اور جس طرح انسانی آنکھ دنیا کو دیکھ سکتی ہے مگر اپنے آپ کو نہیں۔ شاید بالکل اسی طرح انسانی شعور کائنات کے بارے میں جان پاتا ہے شاید اپنے آپ کو جاننے میں معذور رہتا ہے۔ اور بالکل جیسے آنکھ کو خود اپنا آپ دیکھنے کے لیے آئینہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ بالکل اسی طرح انسان کو اپنے اندرونی شعور کو بطور بیرونی دنیا کے جاننے والے اور تفتیش کرنے والے کے، اس کے لیے بھی انسانی شعور کو  بیدار اور آئینہ صفت انسانوں کی ضرورت پڑتی ہے۔

دُعاگو!

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

 

Share:

4/17/22

یہ نہیں دل میں ،ہو تیری ہر نظر میرے لیے | اک نظر کافی ہے تیری عمر بھر میرے لیے | ساجد چشتی


 

یہ نہیں دل میں ،ہو تیری ہر نظر میرے لیے

اک نظر کافی ہے تیری عمر بھر میرے لیے

 

کوچہ گردوں کو طوافِ کعبہ سے کیا واسطہ

یار کی گلیاں ہیں کافی آنے جانے کے لیے

 

مر کے بھی اے یار نہ چھوٹے گا تیرا سنگِ در

میں ترے در کے لیے ہوں تیرا در میرے لیے

 

منتظردر پر کھڑے ہیں دیر سے سب بادہ کش

 ساقیا اٹھنا پڑے گا مے پلانے کے لے


جان و دل سے میں تصدق اس تری تقسیم پر

وصل غیروں کے لیے دردِ جگر میرے لیے

 

تم سے پوشیدہ نہیں کچھ میرے دل کا ماجرہ

کیوں بنے پھرتے ہو آخر بے خبر میرے لیے

 

آرزو ئے حور و غلماں زاہدا  تم کو نصیب

ہیں خیال یار کافی تا عمر میرے لیے

 

اس گلی میں زندگی کی شام آخر ہو گئی

بعد مدت کے ہوئی ساجد سحر میرے لیے

 

Share:

4/2/22

خط میں لکھے ہوئے رنجش کے کلام آتے ہیں | کس قیامت کے یہ نامے مرے نام آتے ہیں | مرزا داغ دہلوی


 

خط میں لکھے ہوئے رنجش کے کلام آتے ہیں

کس قیامت کے یہ نامے مرے نام آتے ہیں

 

رہروِ راہِ محبت کا خدا حافظ ہے

اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں

 

وہ ڈرا ہوں کہ سمجھتا ہوں یہ دھوکا تو نہ ہو

اب وہاں سے جو محبت کے پیام آتے ہیں

 

صبر کرتا ہے کبھی اور تڑپتا ہے کبھی

دلِ ناکام کو اپنے یہی کام آتے ہیں

 

نہ کسی شخص کی عزت نہ کسی کی توقیر

عاشق آتے ہیں تمہارے کہ غلام آتے ہیں

 

رسمِ تحریر بھی مٹ جائے یہی مطلب ہے

اُن کے خط میں مجھے غیروں کے سلام آتے ہیں

 

داغ کی طرح سے گُل ہوتے ہیں صدقے قربان

بہرِ گل گشت چمن میں جو نظام آتے ہیں

داغ دہلوی

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive