Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

7/30/19

ان کا منگتا ہوں جو منگتا نہیں ہونے دیتے


ان کا منگتا ہوں جو  منگتا نہیں ہونے دیتے

یہ حوالے مجھے رسوا نہیں ہونے دیتے


میرے ہر عیب کی کرتے ہیں پردہ پوشی

میرے جرموں کا تماشہ نہیں ہونے دیتے


اپنے منگتوں کی وہ فہرست میں رکھتے ہیں سدا

مجھ کو محتاج کسی کا نہیں ہونے دیتے



بات کرتا ہوں تو آتی ہے مہک طیبہ کی

میرے لہجے کو وہ میلا نہیں ہونے دیتے


ہے یہ ایمان کہ آئیں گے لحد میں میری

اپنے منگتوں کو و ہ تنہا نہیں ہونے دیتے


آپ کی نعت سے جوبن ہے تخیل میں میرے

فکر تیرے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے


آپ کی یاد سے رہتی ہے نمی آنکھوں میں

میرے دریاؤں کو صحرا نہیں ہونے دیتے


حکم کرتے ہیں تو  ملتے ہیں مقطعے شاکرؔ

آپ نہ چاہیں تو مطلع نہیں ہونے دیتے


تنویر اللہ شاکرؔ


Share:

بے سبب بات بڑھانے کی ضرورت کیا ہے



بے سبب بات بڑھانے کی ضرورت کیا ہے

ہم خفا کب تھے منانے کی ضرورت کیا ہے


آپ کے دم سے تو دنیا کا  بھرم  ہے قائم

آپ جب ہیں تو زمانے کی ضرورت کیا ہے


تیرا کوچہ ترا در تیری گلی کافی ہے

بے ٹھکانوں کو ٹھکانے کی ضرورت کیا ہے


دل سے ملنے کی تمناہی نہیں جب دل میں

ہاتھ سے ہاتھ ملانے کی ضرورت کیا ہے


رنگ آنکھوں کیلیے بو ہے دماغوں کے لیے

پھول کو ہاتھ لگانے کی ضرورت کیا ہے


Share:

ممبروں پر بھی گنہگار نظر آتے ہیں



ممبروں پر بھی گنہگار نظر آتے ہیں

سب قیامت کے ہی آثار نظر آتے ہیں


ان مسیحاؤں سے اللہ بچائے ہم کو

شکل و صورت  سے جو بیمار نظر آتے ہیں


جانے کیا ٹوٹ گیا ہے کہ ہر اک رات میں مجھے

خواب میں گنبد  و مینار نظر آتے ہیں


مات دیتے ہیں یزیدوں کو لہو سے ہم ہی

ہم ہی نیزوں پر ہر اک بار نظر آتے ہیں


آنکھ کھولی ہے فسادات میں جن بچوں نے

ان کو خوابوں میں بھی ہتھیار نظر آتے ہیں

شکیل شمسیؔ
Share:

گنگناتے ہوئے آثار نظر آتے ہیں



گنگناتے ہوئے آثار نظر آتے ہیں

آج بدلے ہوئے سرکار نظر آتے ہیں


ہم ہمیشہ محبت میں جنون کے قائل

اور وہ مائل با انکار نظر آتے ہیں


جو مسیحائے حکومت کی خلعت پہنے ہیں

فکر اذہان سے بیمار نظر آتے ہیں


خود کش حملے ہیں دھماکے ہیں وہاں ہنگامے

سرخیِٔ خون میں اخبار نظر آتے ہیں


چھوڑ کر تنہاں جہاں سب ہی چلے جاتے ہیں

دوست  و رفقاء وہاں اغیار نظر آتے ہیں


راستہ کتنا کٹھن ہے راہ سے پوچھو  رہبرؔ

دیکھنے میں سبھی ہموار نظر آتے ہیں

سید انور ظہیر رہبرؔ

پوسٹ: محمد سہیل عارف معینیؔ


Share:

چار سو درد کے انبار نظر آتے ہیں



چار سو درد کے انبار نظر آتے ہیں

بن تیرے ہم پسِ دیوار نظر آتے ہیں


اس طرح درد دیے مجھ کو میرے اپنوں نے

سارے اپنے مجھے اغیار نظر آتے ہیں


جن کاا ک پل نہ گزرتا تھا مرے بن

جانے کیوں آج وہ اس پار نظر آتے ہیں


کوئی کیا رسم ِمسیحائی نبھائے گا یہاں

سبھی الفت کے جو بیمار نظر آتے ہیں


جن کی قسمت میں لکھا ہو غمِ الفت کا عذاب

کبھی شاعر یا وہ غمخوار نظر آتے ہیں


ان کو بھی راس محبت نہیں آئی شاید

وہ جو روتے سرِ بازار نظر آتے ہیں


کل تلک ہم بھی تھے آزاد غموں سے باقرؔ

آج سوچوں کے علمدار نظر آتے ہیں

مرید باقرؔ


پوسٹ: محمد سہیل عارف معینیؔ

Share:

راستے جو بھی چمکدار نظر آتے ہیں



راستے جو بھی چمکدار نظر آتے ہیں

سب تیری اوڑھنی کے تار نظر آتے ہیں


کوئی پاگل ہی محبت سے نوازے گا مجھے

آپ تو خیر سمجھدار نظر آتے ہیں


میں کہاں جاوں کروں کس سے شکایت اس کی

ہر طرف اس کے طرفدار نظر آتے ہیں


زخم بھرنے لگے ہیں پچھلی ملاقاتوں کے

پھر ملاقات کے آثار نظر آتے ہیں


ایک ہی بار  نظر پڑتی ہے ان پر تابشؔ

اور پھر وہی لگاتار نظر آتے ہیں

زبیر علی تابشؔ

پوسٹ: محمد سہیل عارف معینیؔ


Share:

7/29/19

بدلے بدلے میرے غم خوار نظر آتے ہیں


بدلے بدلے میرے غم خوار نظر آتے ہیں

مرحلے عشق کے دشوار نظر آتے ہیں


کشتیِٔ غیرت احساس سے سلامت  یا رب

آج طوفان کے آثار نطر آتے ہیں


انقلاب آیا نا جانے یہ چمن میں کیسا

غنچہ  و گل مجھے تلوار نظر آتے ہیں


جن کی آنکھوں سے چھلکتا تھا کبھی رنگِ خلوص

ان دنوں مائل ِ تکرار نظر آتے ہیں


جو سنا کرتے تھے ہس ہس کے نامۂِ شوق

اب مری شکل سے بیزار نظر آتے ہیں


ان کے آگے جو جھکی رہتی ہیں نظریں اپنی

اس لیے ہم ہی خطا وار نظرآتے ہیں


دشمن خوئے وفا رسم محبت کے حریف

وہی کیا   اور بھی دو چار نظر آتے ہیں


ہم نہ بدلے تھے نہ بدلے ہیں نہ بدلیں گے شکیلؔ
ایک ہی رنگ میں ہر بار نظر آتے ہیں

شکیلؔ بدایونی
Share:

یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں




یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں

ان میں کچھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں 


تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں

ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظرآتے ہیں


دور تک کوئی ستارہ ہے نہ کوئی جگنو

مرگِ امید کے آثار نظر آتے ہیں


میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں

آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں


کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر

آج وہ رونقِ بازار نظر آتے ہیں


حشر میں کون گواہی میری دے گا ساغرؔ

سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں


پوسٹ : محمد سہیل عارف معینیؔ

Share:

7/25/19

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کیلیے آ

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
کچھ تو مرے پندار محبت کا بھرم رکھ
تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لیے آ
پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو
رسم و رہ دنیا ہی نبھانے کے لیے آ
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ
اک عمر سے ہوں لذت گریہ سے بھی محروم
اے راحت جاں مجھ کو رلانے کے لیے آ
اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں
یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لیے آ
Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive