Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

7/12/19

Four States of Human Brain. انسانی دماغ کی چار حالتیں | صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

انسان کی ذہنی کیفیت یا جسے ہم mentation کہتے ہیں کی چار حالتیں ہوتی ہیں۔ جن کی اپنی اپنی ضرورت اور حدود ہیں۔ اور جب تک کوئی انسان ان چاروں زہنی  حالتوں کا تجربہ نہیں کرتا  تب تک وہ حقیقت یا تقابل  و موازنہ حقیقت کی تکمیل نہیں کر سکتا۔ تقریباً تمام لوگ ہی اپنی زندگی کے ہر دن ان حالتوں میں سے گزرتے ہیں مگر ان میں سے صرف دو کہ متعلق مکمل آگاہ ہوتے ہیں اور دو کو بالکل نظر انداز کر جاتے ہیں۔

1. انسانی ذہن کی عمومی بیداری کی حالت ( ordinary wakefulness)

2. انسانی ذہن کی عمومی خواب کی حالت ( ordinary sleep)

3. انسانیذہنکی وہ حالت جو عادت ، تربیت اور کسی تیسری قوت ( نظریہ، والدین، سیاست، ماحول، تعلیم، کلچر، مذہب)  کی جانب سے کی جانے والی ذہن سازی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ آپ اسےذہنکی ایک تنویمی حالت  یا Hypnotic or Hypnodial  state کہہ سکتے ہیں۔ جس میں آپ کاذہن پہلے سے بنے نقوش یا patterns پر ہی چلتا رہتا ہے۔  یہی حالت ایک خاص قسم کی میکانیکی طرز فکر کو جنم دیتی ہے جو “غور” کرنے کی صلاحیت کو اجاگر کرنے سے روکتی ہے۔  انسانی دماغ کی یہ ذہنی حالت “ تحقیق” یا research تو کر سکتی ہے مگر اس میں کھبی بھی تخلیقی صلاحیت نہیں ہوتی۔ یہ improvise  کر سکتی ہے create نہیں کر سکتی۔

 4. اور ذہنی کیفیات کا چوتھا درجہ ایک ایسی حالت ہے جسے اگر آپ چاہیں تو خارج از حواس بھی کہہ سکتے ہیں  جس سے ماورائے حسی  ادراک یا extra-sensory perception  ممکن ہوتا ہے۔ آپ اسے وجدان بھی سمجھ سکتے ہیں۔ آج کا انسان اپنےذہن کی اسی وجدانی حالت سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا رہا۔ اکثریت تو ایسی ہے جو اس کا ادراک نہیں رکھتی اور جن کو اس بارے علم ہے وہ بھی اسے سنجیدگی کے قابل نہیں سمجھتے۔ اور اس متعلق ایک ایسی منفی فضا قائم کر دی گئی ہے کہ باوجود اسکے کہ ہر شخص ہر دن وجدانی تجربہ سے گزرتا ہے مگر وہ اسکا اظہار کسی دوسرے انسان سے تو کجا خود اپنے آپ سے بھی نہیں کرتا۔ “تصوف” صرف تسبیح گھمانے کا نام نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ “مجاوری “ ہے۔ صوفی ایک ایسے اعلی شعور میں رہتا ہے جس کا علم اکثریت کو ہو ہی نہیں سکتا اور شاید کاروبار زندگی کے چلنے میں ہونا بھی نہیں چاہیے۔ جب ہم “ خاص علم” کہتے ہیں تو اس سے مراد “ مخصوص” حامل علم بھی ہوتے ہیں۔

 اللہ سائیں  ہم سب کو ، خود ہمارے اندر اور ہمارے اردگرد اپنی نشانیاں دکھائے۔ آمین۔ ابھی وہ دن نہیں آئے کہ درویش “ ہر گچھہ زخمائے” اور احباب کے ذوق تنقید کے لیے تختہ مشق بنے۔

 التماس دعا ہے۔

 دعا گو صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی


Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive