Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

7/20/21

زکر الہی سے متعلق احادیث مبارکہ || اللہ تعالی کا ذکر اور احادیث مبارکہ | ذکر الہی کے فضائل

 

1: وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَالَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ: يَا رَبِّ عَلِّمْنِي شَيْئًا أَذْكُرُكَ بِهِ وَأَدْعُوكَ بِهِ فَقَالَ: يَا مُوسَى قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَقَالَ: يَا رَبِّ كلُّ عبادكَ يقولُ هَذَا إِنَّما أيد شَيْئًا تَخُصُّنِي بِهِ قَالَ: يَا مُوسَى لَوْ أَنَّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعَ وَعَامِرَهُنَّ غَيْرِي وَالْأَرَضِينَ السَّبْعَ وُضِعْنَ فِي كِفَّةٍ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فِي كِفَّةٍ لَمَالَتْ بِهِنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ". رَوَاهُ فِي شرح السّنة( مراٰۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح 2309)

ترجمہ : روایت ہے حضرت ابو سعید خدری سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا تھا یارب مجھے وہ چیز سکھا جس سے تجھے یاد کیا کروں یا جس کے ذریعے تجھ سے دعا کروں ۱؎ رب نے فرمایا اے موسیٰ کہو لا الہ الا اﷲ  پھر عرض کیا یا رب   یہ تو تیرے سارے بندے  ہی کہتے ہیں   میں تو کوئی ایسی خاص چیز  چاہتا ہوں جس سے  تو مجھے خاص کرے ۲؎  فرمایا اے موسیٰ اگر ساتوں آسمان  اور میرے سواء ان کی  آبادی  اور ساتوں  زمینیں  ایک پلڑے  میں رکھ دی جائیں ۳؎  اور لا الہ الا اﷲ دوسرے پلڑے میں تو ان سب پر لا الہ الا اﷲ بھاری ہوگا ۴؎ (شرح سنہ)

2: عَنْ یَعْلَی بْنِ شَدَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنِی أَبِی شَدَّادُ بْنُ أَوْسٍ، وَعُبَادَۃُ بْنُ الصَّامِتِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌  حَاضِرٌ یُصَدِّقُہُ، قَالَ: کُنَّا عِنْدَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  فَقَالَ: ((ہَلْ فِیکُمْ غَرِیبٌ یَعْنِی أَہْلَ الْکِتَابِ)) فَقُلْنَا: لَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ، فَأَمَرَ بِغَلْقِ الْبَابِ، وَقَالَ: ((اِرْفَعُوا أَیْدِیَکُمْ، وَقُولُوا: لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ۔)) فَرَفَعْنَا أَیْدِیَنَا سَاعَۃً ثُمَّ وَضَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  یَدَہُ ثُمَّ قَالَ: ((الْحَمْدُ لِلّٰہِ، اَللَّہُمَّ بَعَثْتَنِی بِہٰذِہِ الْکَلِمَۃِ، وَأَمَرْتَنِی بِہَا، وَوَعَدْتَنِی عَلَیْہَا الْجَنَّۃَ، وَإِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیعَادَ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((أَبْشِرُوا فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ غَفَرَ لَکُمْ۔)) (مسند أحمد: ۱۷۲۵۱)

 ۔ یعلی بن شداد سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہمارے سردار شداد بن اوس  ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ  نے مجھے بیان کی، جبکہ سیدنا عبادہ بن صامت  ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ  بھی موجود تھے اور ان کی تصدیق کر رہے تھے، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  کے پاس موجود تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  نے فرمایا:  کیا تم میں کوئی اجنبی آدمی ہے؟  آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  کی مراد اہل کتاب تھی، ہم نے کہا: نہیں، اے اللہ کے رسول! پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  نے دروازے کو بند کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:  اپنے ہاتھوں کو بلند کر لو اور کہو: لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ۔ پس ہم نے کچھ دیر تک اپنے ہاتھ بلند کیے رکھے، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  نے اپنا ہاتھ نیچے رکھ دیا اور فرمایا:  اللہ کا شکر ہے، اے اللہ! تو نے مجھے اس کلمہ کے ساتھ بھیجا، تو نے مجھے اس کلمہ کا حکم دیا اور مجھ سے اس پر جنت کا وعدہ کیا اور بیشک تو وعدے کی مخالفت نہیں کرتا۔  پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  نے فرمایا:  خوش ہو جاؤ، بیشک اللہ تعالیٰ نے تم کو بخش دیا ہے۔  Musnad Ahmed#5434  (Islam360:app)  

3: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَابِتٍ الْبُنَانِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏    إِذَا مَرَرْتُمْ بِرِيَاضِ الْجَنَّةِ فَارْتَعُوا   ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ وَمَا رِيَاضُ الْجَنَّةِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏    حِلَقُ الذِّكْرِ   ۔.)ترمذی 3510)

 ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم جنت کے باغوں سے گزرو تو تم  ( کچھ )  چر، چگ لیا کرو ۱؎ لوگوں نے پوچھا «رياض الجنة» کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ذکر کے حلقے اور ذکر کی مجلسیں“۔

4: عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَیَبْعَثَنَّ اللهُ أَقْوَامًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِي وُجُوْھِھِمُ النُّوْرُ عَلَی مَنَابِرِ اللُّؤْلُؤِ یَغْبِطُھُمُ النَّاسُ لَيْسُوْا بِأَنْبِیَاءَ وَلاَ شُهَدَاءَ۔ قَالَ : فَجَثَا أَعْرَابِيُّ عَلَی رُکْبَتَيْهِ فَقَالَ : یَا رَسُوْلِ اللهِ، حِلْھُمْ لَنَا نَعْرِفْھُمْ۔ قَالَ : ھُمُ الْمُتَحَابُّوْنَ فِي اللهِ مِنْ قَبَائِلَ شَتَّی وَبِلاَدٍ شَتَّی یَجْتَمِعُوْنَ عَلَی ذِکْرِ اللهِ یَذْکُرُوْنَهُ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کچھ ایسے لوگ (قبروں) سے اٹھائے گا جن کے چہرے پر نور ہو گا۔ وہ موتیوں کے منبروں پر ہوں گے۔ لوگ ان سے رشک کریں گے، نہ ہی وہ انبیاء ہوں گے اور نہ شہدائ۔ ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک بدوی گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور عرض کرنے لگا : یا رسول اللہ! ان کے متعلق ہمیں بتائیں تاکہ ہمیں بھی ان کا علم ہو جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے ہیں، مختلف قبیلوں سے تعلق رکھتے ہیں اور مختلف علاقوں میں رہتے ہیں لیکن اللہ کی یاد کے لئے جمع ہوتے ہیں اور اسے یاد کرتے ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

5: عن عمر و  بن عسبۃ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم :  عن یمین  الرحمن و کلتا  ید یہ  یمین  رجال  لیسوا  بانبیاء  ولا شہدا ء یغشی  بیاض  وجو ہہم  نظر الناظر  ین  یغبطہم  النبیون  والشہداء بمقعدہم  وقر بہم من اللہ  وعزوجل  قیل :  یا رسول اللہ ! من ہم ؟  قال:ہم جماع من نوازع  القبائل  یجتمعون علی ذکر اللہ تعالیٰ  فینتقون  أطائب  الکلام کما ینتقی  آکل التمر ا طائبہ۔ 

  حضرت عمرو بن عسبہ  رضی اللہ تعالیٰ  عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے داہنے  دست قدرت  کی طرف کچھ لوگ ہیں اور اللہ تعالیٰ  کے  دونوں  دست قدرت کو داہنے  ہی سے تعبیر کیا جا تا ہے ‘ جو نبی و شہید تو نہیں  لیکن ان کے چہروں  کی چمک  دیکھنے والوں  کو ڈھانپ  لیگی ۔انبیاء وشہداء  اللہ تعالیٰ  کے حضور ان کے مقام و قرب پر  رشک کرینگے  ۔ عرض  کیا گیا : یا رسول اللہ ! وہ لوگ کون ہیں ؟ فرمایا:  وہ ذاکرین  کی جماعت  ہوگی  جو آپس  میں متعارف  تھے لیکن ذکر کی مجلس میں  جمع ہو کرچن  چن کر  اچھا  کلام پیش کرتے تھے جیسے کھجور کھانے  والا  اچھی  کھجوریں  چن چن کر  جمع کرتا ہے ۔

حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہن رسول اللہ ﷺ عبد اللہ بن رواحہ کے پاس سے گزرے وہ وعظ فرما رہے تھے تو رسول اللہ و نے فرمایا تمہارے بارے میں اللہ تعالی نے مجھے فرمایا : و اصبر نفسک مع الذین یعون۔۔۔۔۔ پھر فرمایا: جب تم میں سے کوئی اللہ تعالی کا ذکر کرنے کے لے گروہ بیٹھتا ہے  تو اتنی ہی تعداد میں فرشتے بھی ساتھ بیٹھ جاتے ہیں جب تم سبحان اللہ کہتے ہو تو وہ بھی سبحان اللہ کہتے ہیں جب تم الحمد للہ کہتے ہو تو وہ بھی کہتے ہیں جب تم اللہ اکبر کہتے ہو تو وہ بھی اللہ اکبرکہتے ہیں۔ پھر فرشتے اللہ کی بارگاہ میں جاتے ہیں عرض کرتے ہیں مولا تیرے بندے تیری پاکی بولتے تھے ہم بھی ان کے ساتھ تیری پاکی کہتے جب وہ تیری تعریف کرتے ہم بھی جب وہ تیری تکبیر بیان کرتے تو ہم بھی ساتھ کرتے تو اللہ تعالی فرماتا ہے فرشتو گواہ ہو جاو میں نے اپنے بندوں کو معاف کر دیا ۔ تو فرشتے عرض کرتے ہیں مولا ان میں ایک بڑا گناہ گار بھی بیٹھا تھا  تو اللہ تعالی فرماتا ہے یہ ایسی قوم ہے جس کے ساتھ بیٹھنے والا بد بخت نہیں رہتا۔ ( مجمع البحرین ، کتاب الاذکار مجالس ذکر اللہ ، رقم 5460، ج 4 ص 192)

 

جب اللہ بندے کا ذکر کرتا ہے تو کیا ہوتا ہے۔: اللہ اپنے بندے کو اپنا ذاکر بنا لیتا ہے۔ ہم نے پڑھا

فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠(۱۵۲)ترجمہ: کنزالایمانتو میری یاد کرو میں تمہارا چرچا کروں گا اور میرا حق مانو اور میری ناشکری نہ کرو

 

اس سے مراد جب بندہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تو اللہ بندے کا ذکر کرتا ہے ۔ مطلب بندہ ذکر کرے گا تو اللہ تعالی اس کے بدلے میں اپنے بندے کا ذکر کرے گا۔  دوسرا مطلب یہ کہ اللہ اپنے بندے کا ذکر کرنا چاہتا ہے تو اپنے بندے سے کہتا ہے چل ذکر کر میرا میں تیرا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔

 

پہلے یہ کہا کہ ذکر کر پھر کہا میں ذکر کروں گا اس لیے کہا کہ بندہ جب نیک عمل کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کا اجر مانگتا ہے  تو اللہ تعالی فرماتا ہے چل ذکر میرا میں تیرا ذکر کروں گا میری چاہت بھی پوری ہوئی کہ میں تیرا ذکر کرنا چاہتا تھا  وہ بھی ہو جائے گا اور تو بدلہ چاہتا ہے تو چل ذکر کر میرا  میرا بعد میں ذکر کرنا تیرے عمل کا بدلہ ہو جائے گا۔

 

فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبَّوْنَہ: عنقریب اللہ تعالیٰ ایک ایسی قوم کو لے آئے گا جسے خدا دوست رکھتا ہو گا اور وہ خدا کو دوست رکھتی ہوگی

هُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْكُمْ وَ مَلٰٓىٕكَتُهٗ لِیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِؕ-وَ كَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا(۴۳)ترجمہ: کنزالایمانوہی ہے کہ درود بھیجتا ہے تم پر وہ اور اس کے فرشتے کہ تمہیں اندھیریوں سے اُجالے کی طرف نکالے اور وہ مسلمانوں پر مہربان ہے

اولیاء فرماتے ہیں : ساری بربادی 4 چیزوں میں ہے :  انا ، نحن ، لی ، عندی۔۔۔۔۔۔ یعنی ،، میں ، ہم ، میرا ، میری طرف سے۔۔۔ بندے کا ہے ہی کیا  سب اسی کا ہے۔


Share:

7/14/21

ذکر سیدنا ابراہیم علیہ السلام || فضائل سیدنا ابراہیم علیہ السلام || وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا

 

وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ﴿١٢٤ البقرة﴾

کہا جاتا ہے کہ فرشتے امتحان لینے آئے۔۔ میں کہتا ہوں جب امتحان اللہ تعالی نے لے لیا ہے تو فرشتہ کون ہوتے ہیں امتحان لینے۔

اچھا ایک اور بات ہے کہ فرشتے قاصد ہوتے ہیں ۔ تو جب محبوب اور محب آپس میں بات چیت کرتے ہیں تو قاصد درمیان میں مزے لیتا ہے بعض اوقات رقیب محب سے زیادہ قاصد پر رشک کرتا ہے کہ محب تو لہجہ قاصد کا سنتا ہے چہرہ قاصد کا تکتا ہے شکل قاصد کی آواز قاصد کی مگر قاصد شکل محبوب کی تکتا ہے لہجہ محبوب کا سنتا تو قاصد زیادہ مزے لیتا ہے ۔۔۔ میں کہتا ہوں فرشتے امتحان نہیں لینے آئے ہاں نام امتحان کا دیا گیا ہے مگر وہ فرشتے تو مزے لینے آئے تھے ابراہیم کی محبت کی۔

 

اپنا سب کچھ قربان کیا جب آگ میں ڈالا گیا تو فرشتے آئے ہوا والا پانی والا فرمایا  تم سے کوئی حاجت نہیں گویا پہلے تم کہاں تھے اب کوئی حاجت نہیں ۔۔۔ جبرائیل آئے فرمایا جبرائیل بتا جس کے نام کی وجہ سے مجھے جلایا جایا رہا ہے کیا اسے نہیں معلوم کہنے لگے ہاں تو فرمایا پھر جبریل جا آج خلیل کو تیری کوئی حاجت نہیں اگر محبوب کی رضا یہی ہے تو خلیل کو جو مزا جلنے میں ہے وہ جینے میں نہیں۔

پھر اللہ نے فرمایا یا نار کونی بردا و سلما ،۔۔۔ مولا تو کن کہے تو سب کچھ ہو جائے یہاں کیوں پوری آیت فرما دی ۔۔ فرمایا جہاں بات خلیل کی ہو جہاں محبت کرنے والے کی ہو تو کن نہیں پوری آیت بولنے میں مزا ااتا ۔

قُلْ اِنَّنِىْ هَدَانِىْ رَبِّىٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْـمٍۚ دِيْنًا قِيَمًا مِّلَّـةَ اِبْرَاهِيْـمَ حَنِيْفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (161)

کہہ دیں کہ میرے رب نے مجھے ایک سیدھا راستہ بتلا دیا ہے ایک صحیح دین ہے ابراہیم کے طریقے پر جو یکسو تھا اور مشرکین میں سے نہیں تھا۔

وَمَنْ اَحْسَنُ دِيْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٝ لِلّـٰهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّـةَ اِبْـرَاهِيْـمَ حَنِيْفًا ۗ وَاتَّخَذَ اللّـٰهُ اِبْـرَاهِيْـمَ خَلِيْلًا (125)

اس شخص سے بہترین دین میں کون ہے جس نے اللہ کے حکم پر پیشانی رکھی اور وہ نیکی کرنے والا ہو گیا اور ابراہیم کے دین کی پیروی کی جو یکسو تھا ، اور اللہ تعالی نے ابراہیم کو خاص دوست بنا لیا

قُلْ صَدَقَ اللّـٰهُ ۗ فَاتَّبِعُوْا مِلَّـةَ اِبْـرَاهِيْمَ حَنِيْفًاۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (95)

کہہ دو کہ اللہ تعالی نے سچ فرمایا ہے اب ابراہیم کے دین کے تابع ہو جاو جو ایک ہی کے ہو گئے تھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے۔

ثُـمَّ اَوْحَيْنَـآ اِلَيْكَ اَنِ اتَّبِــعْ مِلَّـةَ اِبْـرَاهِيْـمَ حَنِيْفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (123)  پھر ہم نے تیرے پاس ایک وحی بھیجی کہ تمام راہوں سے ہٹنے والے ابراہیم کے دین پر چل اور وہ مشرکین میں سے نہیں تھا

وَاِذْ قَالَ اِبْـرَاهِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَـدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَهْلَـهٝ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْـهُـمْ بِاللّـٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۖ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَاُمَتِّعُهٝ قَلِيْلًا ثُـمَّ اَضْطَرُّهٝٓ اِلٰى عَذَابِ النَّارِ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيْـرُ (126)

 اور جب ابراہیم نے کہا اے میرے رب اسے امن کا شہر بنا دےاور اس کے رہنے والوں کو پھلوں سے رزق دےجو کوئی ان میں سے اللہ تعالین اور آکرت پر یقین رکھتا ہواور فرمایا جو کافر ہو گا سو اسے بھی تھوڑا فائدہ پہنچاوں گا اور پھر اسے دوزخ کے عذاب میں دھکیل دوں گا اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔

وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْـرَاهِيْمَ مُصَلًّى اور فرمایا کہ مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناو

اِنَّ اِبْـرَاهِيْـمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْـمٌ (114) بے شک ابراہیم بڑے نرم دل اور تحمل والے تھے

اِنَّ اِبْـرَاهِيْـمَ لَحَلِيْـمٌ اَوَّاهٌ مُّنِيْبٌ (75) بے شک ابراہیم بردبار نرم دل اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والا تھا

اِنَّ اِبْـرَاهِيْـمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّـٰهِ حَنِيْفًا ۖ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (120)

 بے شک ابراہیم ایک پوری امت تھا اللہ کا فرمانبردار تمام راہوں سے ہٹ جانےو الا اور مشرکین میں نہیں تھا۔

 وَاذْكُرْ فِى الْكِتَابِ اِبْـرَاهِيْـمَ ۚ اِنَّهٝ كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا (41) اور کتاب میں ابراہیم کا ذکر کر بے شک وہ سچا نبی تھا

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِىٓ اِبْـرَاهِـيْمَ بے شک تمہارے لیے ابراہیم کی زندگی میں نمونہ ہے

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِـيْهِـمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُو اللّـٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ  البتہ تمہارے لیے ان میں نیک نمونہ ہے اور اس کے لیے اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو

وَاِبْـرَاهِـيْمَ الَّـذِىْ وَفّـٰى (37) اور ابراہیم کے جس نے اپنا عہد پورا کیا

وَاِذْ قَالَ اِبْـرَاهِـيْمُ رَبِّ اَرِنِىْ كَيْفَ تُحْيِى الْمَوْتٰى ۖ قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ ۖ قَالَ بَلٰى وَلٰكِنْ لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِىْ ۖ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْـرِ فَصُرْهُنَّ اِلَيْكَ ثُـمَّ اجْعَلْ عَلٰى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُـمَّ ادْعُهُنَّ يَاْتِيْنَكَ سَعْيًا ۚ وَاعْلَمْ اَنَّ اللّـٰهَ عَزِيْزٌ حَكِـيْمٌ (260)اور یاد کر جب ابراہیم نے کہا اے میرے پروردگار  مجھ کو دکھا کہ تو کیسے مردے کو زندہ کرتا ہے فرمایا کہ کیا یقین نہیں لاتے  کہا کیوں نہیں لیکن اس لیے چاہتا ہوں کہ میرے دل کو تسکین ہو جائے  فرمایا تو چار جانور اڑنے والے پکڑ پھر انہیں اپنے ساتھ مانوس کر لے پھر ہر پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دے پھر ان کو بلا تیرے پاس جلدی سے آ ئیں گے اور جان لے کہ بے شک اللہ زبر دست حکمت والا ہے۔

 

Share:

7/9/21

ای چهرهِٔ زیبائے تو رشک بتان آذری | غزلیاتِ امیر خسرو رحمۃ اللہ تعالی علیہ


 

ای چهره‌ِٔ زیبا ئے تو رشکِ بتان آذری

 هر چند وصفت می‌کنم در حسن از آں زیباتری

 

اے میرے محبوب! تیرا چہرہ اُن حسین بتوں اور مجسموں سے بھی زیادہ دلکش ہے جو آزر نے اپنے بتکدہ میں تیار کر کے رکھے ہوئے تھے۔میں تیری کتنی بھی صفات بیان کروں کم ہیں حقیقتاً تو اُن سب حسینوں سے زیادہ خوبصورت ہے۔

 

هرگز نیاید در نظر نقشی ز رویت خوبتر

 شمسی ندانم یا قمر، حوری ندانم یا پری

 

تیرے چہرے سے زیادہ خوبصورت چہرہ مجھے ہرگز نظر نہیں آتا۔تیرے سامنے سورج ،چاند حور اور پری کی کیا حیثیت ہے۔

(یعنی تو چاند اور سورج سےزیادہ روشن اور حور اور پری سے زیادہ نازک اور حسین ہے)

 

 آفاق را گردیده‌ام مہر بتاں ورزیده‌ام

 بسیار خوباں دیده‌ ام اما تو چیز دیگری

 

میں دنیا کی بہت سی اطراف میں گھوما پھرا ہوں۔میں نے بہت سے حسین لوگوں سے محبت اختیار کی ہے۔میں نے بہت سے حسین دیکھے ہیں لیکن تو کوئی اور ہی چیز ہے۔ یعنی تو دنیا بھر میں ایک منفرد اور لاثانی حسین معشوق ہے۔

 

من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی

تا کس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری

 

میں تو ہو گیا ہوں اور تو میں ہو گیا ہے یعنی ہم دونوں ایک ہو گئے ہیں میں جسم اور تو اس میں جان بن گیا ہے اب کوئی اس کے بعد ہمیں یہ نہیں کہے گا کہ میں اور ہوں اور تو اور ہے۔

 

تو از پری چابُکتری ز برگ گل نازک تری

وز ہر چہ گویم بہتری حقا عجائب دلبری

 

تو ایک پری سے بھی زیادہ تیز اور پھول کی پتی سے زیادہ نازک تر ہے اور جو کچھ بھی میں کہوں محبت کے سب انداز میں تو عجیب تر ہے یعنی کم ہے میں جتنی بھی تعریف کروں کم ہے

 

عزم تماشا کرده‌ای آهنگ صحرا کرده‌ ای

 جان ودل ما برده‌ای اینست رسم دلبری

 

تو نے ارادہ کر لیا کہ دنیا کو (عشق کا) تماشا دکھا دے۔تو نے صحرا کو چلے جانے کا ارادہ کر لیا ہے۔ تو نے ہماری جان اور ہمارا دل لے لیا ہے۔کیا یہی رسم محبت ہےکیا دل چرانے کی رسم کچھ ایسی ہی ہے۔

 

عالم همه یغمای تو خلقی همه شیدای تو

 آن نرگس رعنای تو آورده کیش کافری

(اے میرے محبوب) یہ سارا جہان تیری تاراج کی زد میں ہے۔تمام دنیا کی خلقت تیری شیدا ہے۔تیری ان خوبصورت نرگسی آنکھوں نے کافری مراد (معشوقوں کی سی) عادات اپنا لی ہیں ۔یعنی تو نے اپنے حسن و دلکشی کی بنا پر پوری دنیا کو لوٹ لیا ہے تیری آنکھوں نے معشوقوں کی سی ایمان لوٹنے والی عادات اپنا لی ہیں۔

 

 

خسرو غریبست و گدا افتاده در شهر شما

 باشد که از بهر خدا سوی غریبان بنگری

 

(اے محبوب)خسرو ایک مسافر ہے اور فقیر ہے اور تمہارے شہر میں گرا پڑا ہے ۔شاید کہ اللہ کے واسطے ان مسافروں کی جانب تو ایک نظر دیکھ لے۔

 حضرت امیر خسروؒ

 

 

 ای راحت و آرام جان با روی چون سرو روان

 زینسان مرو دامنکشان کارام جانم می‌بری

 

اے میری جان کی راحت!اے میری جان کے آرام ۔تو اپنے چلتے پھرتے سرو قد کی طرح اپنا دامن پھیلائے اس طرح مت ٹہل کیونکہ اس طرح تو میری جان کا امن و سکون چھین کر لیے جا رہا ہے۔

 

لعل بدخشان دیدہ ام الماس را سنجیدہ ام

درِّ عدن را چیدہ ام اما تو درّ و گوہری


Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive