Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

12/17/22

وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ | اللہ کا قرب | اللہ کے قرب کے تقاضے allah ka qurb | dua #dua #allah #islam #quran

وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌؕ(سورۃ البقرہ : 186)

ترجمہ: اور اے حبیب! جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں تو بیشک میں نزدیک ہوں۔

وَ اِذَا سَاَلَكَ محبوب جب تجھ سے سوال کریں (ترے در کے سوالی بن جائیں )

عِبَادِیْ میرے بندے (میں اپنا بندہ بنا لیتا ہوں)

عَنِّیْ میرے بارے میں (اس کی تمنا میں بن جاوں وہ ہر وقت میرے بارے میں سوال کریں)

فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ میں قریب ہوتا ہوں (نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ میں ان کے قریب ہوتا ہوں)

یعنی سوالی محبوب کے در کے بن جائیں اور تمنا میں بن جاوں یعنی محبوب سے سوال میرا کریں اور کوئی چیز ان کو نہ بھائے وہ ہر وقت بس مجھے چاہیں فرمایا ایسے لوگوں کو اپنا بندہ بنا لیتا ہوں اور میں ان کے قریب ہوتا ہوں۔

 


اللہ تعالی کن کو اپنا بندہ کہتا ہے؟؟؟

یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُۗۖ(۲۷)ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةًۚ(۲۸) فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْۙ(۲۹)وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۠(۳۰)(سورۃ الفجر:27،28۔29۔30)

ترجمہ: اے اطمینان والی جان۔اپنے رب کی طرف اس حال میں واپس آ کہ تو اس سے راضی ہووہ تجھ سے راضی ہو۔پھر میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا۔اور میری جنت میں داخل ہوجا۔

اللہ تعالی نفس مطمئنہ سے مخاطب ہے اور نفس مطمئنہ سے کلام کرتا ہے تو سب سے پہلے نفس مطمئنہ پیدا کریں  اب یہ نفس مطمئنہ کیا ہے؟ تو سنیں:عموماً  بیان ہونے والی نفس کی تین اقسام ہیں (نفس کی بہت سی اقسام تفصیلاً پڑھنے کے لیے کلک کریں)

نفس مطمئنہ: وہ نفس جو گناہوں سے بے زار ہو جاتا ہے اور گناہوں اور نافرمانیوں سے اسے کوئی رغبت نہیں رہتی اور سراپا اطاعت و فرماں برداری بن جائے ۔ کتنا خوش نصیب ہے یہ نفس کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تو میرے پاس آجا ، تو پلٹ آ ، تو ادھر ہی کا تھا ، ایسا نفس ہے کہ خود اللہ جل شانہ اس کو اپنی طرف بلاتا ہے، یعنی اللہ تعالی اس کا مشتاق ہوتا ہے۔

نفس لوامہ : وہ نفس ہے جو انسان کو گناہ کے بعد ملامت کرتا ہے اور توبہ و استغفار کی رغبت دلاتا ہے اور ہر برے عمل سے روکتا ہے۔نفس لوامہ اتنی عظمت کا مالک ہے کہ اللہ تعالی اس کی قسم کھاتا ہے : وَ لَاۤ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِؕ (سورۃ القیامہ: 2)

نفس امارہ : وہ نفس جو انسان کو ہمیشہ گناہوں کی طرف رغبت دلاتا ہے اور ہر برا عمل اچھا اور بھلا کر کے دیکھاتا ہے۔

          نفس مطمئنہ کو فرمایا کہ تو پلٹ جا اپنے رب کی طرف اس کیفیت کے ساتھ کہ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً  یعنی تو اللہ تعالی سے راضی ہے اور اللہ تعالی تجھ سے راضی ہے۔ یہ دو صفات ہیں ایک یہ کہ تو اللہ تعالی کے ہر حکم پر راضی(راضیۃ) ہے اس نے تجھے تکلیف پہنچائی تو نے شکوہ نہیں کیا بلکہ تو راضی رہا ، اس نے تجھے خوشی دی تو نے اسے اللہ تعالی کی عطا سمجھا اور اس ر راضی ہو وا۔ فرمایا میری طرف آ سارے شکوے شکایتیں ادھر چھوڑ کے آ ، دکھ درد کی کہانیاں ادھر چھوڑ کے آ ، حالات کا رونا پیٹنا ادھر ہی اتار کے آ ، میرے پاس بس تو راضی ہو کے آ کیفیت جو بھی تھی ، حالات جو بھی تھے ، معاملات جیسے بھی تھی ، تو صحرا میں خنجروں سے کٹ گیا مگر راضی رہا ، تجھے پانی نہیں ملا پیاسا شہید ہوا مگر راضی رہا ، تجھے لوگو ں نے پتھر مارے مگر تو مجھ سے راضی رہا ، تیرا مذاق اڑایا گیا مگر تو راضی رہا ، تجھے راتوں کو جگائے رکھا مگر تو راضی رہا ، اے نفس مطمئنہ تجھے جس بھی حالت میں رکھا تو راضی رہا ،،،،، فرمایا ہاں ہاں اب آ جب تو میرے ہر امر پر راضی رہا تو اب آ تو سراپا رضا ہے اور سن ۔۔۔۔۔۔ ایک طرف تو راضی ہوا تو ادھر ہم نے بھی تجھے محروم نہیں رکھا بلکہ ہم بھی تجھ سے راضی ہو گئے ہیں ، علامہ اقبال نے اسی سے متعلق فرمایا :

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے تیری رضا کیا ہے

حدیث مبارکہ  ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشا دفرمایا کچھ بندے ہیں کہ

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : رُبَّ أَشْعَثَ أغبرَ مَدْفُوعٍ بالأبواب لو أَقسم على الله لَأَبَرَّهُ(صحیح مسلم :2622)

ترجمہ: ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”بہت سارے پراگندہ بال والے، لوگوں کے دھتکارے ہوئے ایسے ہیں کہ اگر اللہتعالی پر قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ اُن کی قسم پوری فرما دے۔

          اللہ ان سے راضی ہو جاتا ہے اور پھر فرمایا : فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ اب تو میرے بندوں میں داخل ہو جا ایسے ہوتے ہیں میرے بندے ۔ جو نفس مطمئنہ کے مالک ہوں جو اللہ سے راضی ہوں اور جن سے اللہ تعالی راضی ہو وہ اس کے بندے ہوتے ہیں۔

وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا (سورۃ الفرقان :63)

اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ هُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ (سورۃ التوبۃ:104)

وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَمُنُّ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖؕ(سورۃ ابراھیم :11)

نَبِّئْ عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُۙ(سورۃ الحجر:49)

اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنٌؕ( سورۃ بنی اسراءیل :65)

قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ(۸۲)اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ (سورۃ ص :82،83)

درج بالا چند ایک قرآن مجید کی آیات ہیں جن میں اللہ تعالی نے اپنی طرف نسبت کی کچھ بندوں کی ۔

فرمایا محبوب جو تیرے در کا سوالی بن جائے اس کو میں اپنا بندہ بنا لیتا ہوں ۔ جب تیرا سوالی بن جائے  جب صرف تیرے سوالی ہو شاعر کہتا ہے :

رب نے اس واسطے قرآں میں کہا لاتنھر

تیرے در سے کوئی محروم نہ اے یار پھرے

رب کی مرضی ہے ادھر آپ کی مرضی ہے جدھر

کعبہ قبلہ بنے جس وقت رخِ یار پھرے

یعنی محبوب سوالی صرف تیرا رہے ، اس کی آنکھ نکل جائے تو تیرے در پہ آئے، روزہ توڑ لے اور در تیرے پر آئے، پانی ختم ہو جائے تو تیرے در پہ آئے، نماز سیکھنی ہو تو تیرے در پہ آئے، دین کی چاہت ہو تو در تیرے پر آئے، دنیا چاہیے تو در تیرے پہ آئے، نیکیاں چاہیں تو در تیرے پہ آئے قیامت کا سوال کرنا ہو تو در تیرا ہو جیسے صحابہ کرام کا سوال کہ قیامت کب آئے گی تو فرمایا اس کو چھوڑ بتا اس کی تیاری کیا کی تو عرض کیا سوہنا آپ کی محبت ہی سرمایہ حیات ہے  ایک صحابی نے سوال کیا یارسول اللہ ﷺ قیامت کےدن ہمارا کیا ہو گا آج تو آپ کا دیدا رہو جاتا ہے تو سکون مل جاتا ہے کل قیامت کے دن ہمارا کیا ہو گا جب آپ کا دیدار نہ ہوا تو فرمایا جو جس سے محبت کرے گا اسی کے ساتھ قیامت کےدن ہو گا ۔ فرمایا محبوب جب تیرے در کے پکے سوالی ہوں گے  اور صرف تیرے سوالی بنیں گے تو ہم اسے اپنا بندہ بنا لیں گے۔

          ایک شرط یہ ہے کہ سوالی محبوب کے در کے بنیں اور دوسری شرط یہ ہے کہ سوال فقط میرا ہو یعنی مجھے تلاش کریں، مجھے چاہیں ، مجھے سوچیں ، مجھ سے محبت کریں بس میں ہی ان طلب بن جاوں  فرمایا

        الَّذِیْنَ  یَذْكُرُوْنَ  اللّٰهَ  قِیٰمًا  وَّ  قُعُوْدًا  وَّ  عَلٰى  جُنُوْبِهِمْ  وَ  یَتَفَكَّرُوْنَ  فِیْ  خَلْقِ  السَّمٰوٰتِ  وَ  الْاَرْضِۚ-رَبَّنَا  مَا  خَلَقْتَ  هٰذَا  بَاطِلًاۚ(سورۃ آل عمران : 191)

          ترجمہ: جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلؤوں کے بل لیٹے ہوئے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں ۔ اے ہمارے رب!تو نے یہ سب بیکار نہیں بنایا۔

ایک اور مقام پر فرمایا :

        وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ (سورۃ الکھف :28)

          ترجمہ: اور اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے

یعنی  وہ کھڑے ہوں تو ذکر ہمارا ہو، بیٹھ جائیں تو ذکر ہمارا ، اگر لیٹ جائیں یا رات کو پہلو پر لیٹ جائیں تو فرمایا  ہمارا ذکر ان کی زبانوں پر جاری رہتا ہے ، دن ہو یا رات ہو لمحہ کوئی بھی ہم ان زبان پر ہوتے ہیں ، ان کے خیالوں میں ہوتے ہیں ، ہم ان کے دل میں ہوتے ہیں بس وہ سارے کے سارے ہمارے ہو جائیں تو فرمایا:

           محبوب!  میرے ان بندوں کو خوش خبری سنا دیں کہ وہ محبوب جس کا دن رات ذکر کرتے ہو جسے پانے کے لیے دن رات تڑپتے ہو راتوں کو اٹھ اٹھ کر جس کی بارگاہ میں جبینیں جھکاتے ہو سنو اسے محسوس کرو اسے دیکھو وہ تمھارے بہت قریب ہے۔ وہ تمھارے پاس ہے۔

 

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive