Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

9/28/19

جنرل اسمبلی کے طویل خطاب سے چند اقتباسات Khan in UNGA


جنرل اسمبلی کے طویل خطاب سے چند اقتباسات

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
اِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَاِيَّاكَ نَسۡتعيۡنُ

شروعات موحولیات سے .... اس کے بعد منی لانڈرنگ …….اسلامو فوبیا.... ڈیڑھ ارب مسلمان دنیا میں موجود ہیں....  نائن الیون کے بعد اسلام فوبیا ایک خطرناک رحجان بن کر سامنے آیا ہے.... مسلمان تمام ترقی یافتہ ممالک میں رہتے ہیں...  اور ان کیلئے خطرات پیدا ہو چکے ہی..... مسلمان عورتوں کیلئے حجاب لینا مشکل بنا دیا گیا.

مغرب میں ایک عورت کو کپڑے اتارنے کی تو اجازت ہے....  لیکن حجاب کی نہیں....  اسلام کو دہشتگردی سے جوڑا جارہا ہے اور یہ غلط ہے..... اسلام صرف ایک ہے جو کہ حضرت محمد ﷺ لے کر آئے...   انتہاپسند اسلام یا ماڈیریٹ اسلام کا کوئی تصور نہیں... اسلام صرف ایک ہے جو ہمارے دلوں میں ہے....

دنیا کی تمام کمیونیٹیز میں ہر طرح کے لوگ پائے جاتےہیں....  انتہا پسند سے لے کر ماڈریٹ تک.... لیکن آپ اس وجہ سے عیسائیوں یا یہودیوں کو تو انتہاپسند نہیں کہتے.... تو پھر مسلمانوں کو انتہا پسند کیوں کہا جاتا ہے....

دنیا میں سب سے زیادہ خودکش دھماکے مسلمانوں کی بجائے تامل ٹائیگرز نے کئے جو کہ ہندو ہیں....  آپ ہندوؤں کو تو دہشتگرد نہیں کہتے لیکن مسلمانوں کو کہتے ہیں....

ہر دو تین سال بعد ہمارے نبی ﷺ کی توہین کی جاتی ہے....  اور جب ہمارا ردعمل آتا ہے... تو ہمیں انتہا پسند یا اسلام کو انتہاپسند کہنا شروع کردیا جاتا ہے.... یہ رحجان مغرب سے شروع ہوا ہے....  مغرب میں جان بوجھ کر ہمارے نبی ﷺ کی توہین کی جاتی ہے....  تاکہ ہمارے ردعمل کو جواز بنا کر اسلام کو نشانہ بنایا جاسکے...
.
جو ویلفئیر کا ماڈل آج اقوام متحدہ پیش کرنے کی کوشش کررہا ہے.....  اس سے کہیں بہتر ویلفئیر سٹیٹ ہمارے نبی ﷺ نے چودہ سو سال قبل مدینہ میں قائم کردی تھی.....ہمارا چوتھا خلیفہ راشد، اپنی خلافت کے دور میں ایک مقدمہ یہودی سے ہارگئے... انصاف کی اس سے بڑی مثال آپ ڈھونڈ کر دکھا دیں.... 

اگر ہولوکاسٹ کا ذکر بھی کیا جائے تو یہودیوں کو تکلیف پہنچتی ہے..... ہم بھی صرف یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کی توہین مت کی جائے کیونکہ اس سے ہمیں تکلیف پہنچتی ہے....

میری انڈیا میں فین فالوؤنگ ہے....  انڈیا میں مجھے پسند کیا جاتا ہے.... میں چاہتا تھا کہ بھارت سے تعلقات بہتر ہوں......  باوجود اس کے کہ  ہم نے بھارتی دہشتگرد کلبھوشن یادیو کو پکڑا جو ہمارے ملک میں دہشتگردی کرتا تھا.... میں نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا... بھارت نے ہماری سرحدوں پر اٹیک کردیا...ہ م نے ان کے دو طیارے مار گرائے... ان کا پائلٹ گرفتار کرلیا... پھر امن کی خاطر ہم نے پائلٹ واپس کردیا....

میں آپ کو بتاتا ہوں کہ آر ایس ایس کیا ہے؟
نریندر مودی اس کا لائف ٹائم ممبر ہے...آر ایس ایس ہٹلر کی پیروی میں قائم کی گئی جو کہ دوسرے مذاہب بالخصوص مسلمانوں کو اپنی سرزمین سے ختم کرنا چاہتی ہے... آر ایس ایس کا مقصد ہندو برتری قائم کرنا ہے اور مسلمانوں اور عیسائیوں کو ختم کرنا ہے... یہ سب کچھ گوگل پر موجود ہے....  آپ خود سرچ کرکے تصدیق کرسکتے ہیں......بھارت کی کانگریس پارٹی کی حکومت میں ان کے ہوم منسٹر نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا کہ آر ایس ایس کے کیمپوں میں دو ہزار مسلمانوں کو ذبح کیا گیا.... مودی کی انہی حرکتوں کی بنیاد پر امریکہ میں اس کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی تھی....

بھارت نے تیس سال میں ایک لاکھ کشمیریوں کو شہید کیا....  اا ہزار عورتوں کو ریپ کیا...اب کرفیو لگا  کر کنٹرول کرنے کی کوشش کررہا ہے ... مودی کیا سمجھتا ہے...  جب وہ کرفیو اٹھائے گا تو حالات نارمل رہیں گے؟
کشمیر میں خون کا غسل ہوگا...  کشمیری بدلہ لیں گے...  تمہارا جینا مشکل کرکے رکھ دیں گے ....

انڈیا میں ایک اور پلوامہ ہونے جارہا ہے...  اور انڈیا ایک مرتبہ پھر ہم پر ہی الزام عائد کرے گا.... پھر اگر وہ جنگ شروع کرے گا تو ہم بھی جواب دیں گے... پھر وہی کچھ ہوگا جو اس سال فروری میں ہوا....

ہالی ووڈ کی فلم آئی تھی جس کا نام تھا ڈیتھ وِش.....  اس فلم میں ہیرو کو کچھ لوگ لوٹتے ہیں اور اسکی بیوی قتل کردیتے ہیں....  ہیرو کو انصاف نہیں ملتا تو وہ بندوق اٹھا کر سب کریمنلز کو مارنا شروع کردیتا ہے.... سینما میں بیٹھے لوگ کھڑے ہو کر اسے داد دینا شروع کردیتے ہیں....
اگر یہی کچھ کشمیری بھی کریں تو پھر انہیں دہشتگرد مت کہیں، انہیں بھی ہیرو ہی کہنا ہوگا ...

اگر پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی.... اور پاکستان جو کہ انڈیا سے سات گنا چھوٹا ملک ہے...  اگر ایسا ہوتا ہے تو میرا یقین ہے لا الہ الا اللہ...
یعنی اللہ کے سوا کوئی حاکم نہیں....  تو پھر ہم نیوکلئیر آپشن استعمال کریں گے....اقوام متحدہ کے پاس موقع ہے کچھ کرنے کا...   نہ کیا تو پھر ہمیں کوئی کچھ نہ کہے....

تھینکس یو.... اور حال تالیوں سے گونج اٹھا

Share:

9/26/19

مری آنکھوں کو آنکھوں کا کنارہ کون دے گا


مری آنکھوں کو آنکھوں کا کنارہ کون دے گا
سمندر کو سمندر میں سہارا کون دے گا

مرے چہرے کو چہرہ کب عنایت کر رہے ہو
تمہیں میرے سوا چہرہ تمہارا کون دے گا

مرے دریا نے اپنے ہی کنارے کاٹ ڈالے
بپھرتے پانیوں کو اب سہارا کون دے گا

بدن میں ایک صحرا جل رہا ہے بجھ رہا ہے
مرے دریاؤں کو پہلا اشارہ کون دے گا

محبت نیلا موسم بن کے آجائے گی اک دن
گلابی تتلیوں کو پھر سہارا کون دے گا

Share:

9/25/19

ناموسِ صحابہ اور ہمارا عقیدہ




 اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے کہ جو انسان کو روز اول سے روزِ آخر تک اپنی زندگی کی ابتداء سے لے کر انتہاء یعنی مرنے تک تمام امور پر اس کی رہنمائی کرتا ہےیہ اسلام اللہ تعالی نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے عطا فرمایا اور اسلام میں سب سے پہلے جو مخاطبین تھے کہ جن سے اللہ تعالی مخاطب ہوتا ان کی اللہ تعالی رہنمائی کرتا اللہ تعالی ان کو اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اپنے احکامات سکھاتا وہ جماعت تھی صحابہ کرام کی جماعت۔ یہ اہلِ اسلام کا ایک متفقہ اصول ہے کہ انبیائے کرام معصوم عن الخطاء ہیں اللہ تعالی کی حفاظت میں ہوتے ہیں اور ان سے گناہ سرزد یا اللہ کی نافرمانی سرزد نہیں ہوتی اور انبیاء کے بعد صحابہ کرام ہیں اور صحابہ کرام معصوم عن الخطا نہیں ہیں لیکن بشری تقاضے سے جو بھی ان سے غلطیاں سرزد ہوئیں تو ان کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے اور اللہ تعالی نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ ‘‘ رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ’’ اللہ تعالی ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہیں تو یہ ان کی خطاؤں سے بڑی بات ہے کہ اللہ ان پر راضی ہوا ہے۔ رہا ان کی خطا کا معاملہ  وہ اللہ دیکھے گا اللہ ان کو پوچھے گا اللہ ان کا حساب کرے گا۔ کسی عام انسان کو  یہ زیب نہیں دیتا کہ کسی صحابی کی غلطی کو لے کر اس کا ڈھنڈھورا پیٹتا پھرے کہ صحابی نے فلاں غلطی کی تو یاد رہے کہ انسان کو اپنے کردار کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کیا کرتا ہے۔ ہمارا کردار کیسا ہے، ہم کیسے ہیں اور ہم اپنے آپ کو سدھارنے کے بجائے ہم صحابہ کرام پر تنقید اور صحابہ کرام کی غلطیوں کو ٹٹولتے پھریں  یہ زیب نہیں دیتا ایک  عام انسان کے گناہوں کو چھپانے کے بارے میں اور اس کے عیبوں پر پردہ ڈالنے کے بارے میں اتنی فضیلت آئی ہے ۔ امام طبرانی نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت نقل فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے مومن بھائی کے عیوب کو دیکھ کر چھپا لیتا ہے تو اللہ اسے بدلے میں جنت عطا فرما دیتا ہے۔سنن ابن ماجہ میں ہے کہ عبداللہ بن عباس نبی کریم علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا  : جو کسی دوسرے کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ قیامت کے دن اس کے عیوب اور گناہوں کو چھپا لیں گے اور جو شخص لوگوں کی پردہ دری کرتا ہے اللہ تعالی اس کو گھر بیٹھے ذلیل اور رسوا کر دیتا ہے۔یہ ایک عام انسان کے بارے میں حکم ہے کہ عام انسان کی غلطی دیکھیں تو اس کی پردہ پوشی کریں۔ جہاں تک بات صحابہ کرام کی ہے تو ہمیں بدرجہ اولی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ عام انسان کے بہت درجے بہتر ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر کیے ہیں وقت گزارا ہے ۔ صحابہ کرام کا حیا ہمیں عام انسان سے زیادہ کرنا چاہیے۔ اور اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو یہ عقیدے کی بات ہے ایمان کی بات ہے اگر آج ہم صحابہ کرام کی ناموس کا پاس نہیں رکھیں گے  تو ہمارا حال کیا ہوگا اور ہمارا انجام کیا ہوگا، ضرور سوچنا چاہیے۔
وہ صحابہ کرام جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی بے شمار احادیث مبارکہ ہیں تبرک کے لیے  چند ایک احادیث مبارکہ قارئین کی نظر کر رہا ہوں۔       1)۔امام ترمذی نے بیان کیا احمد بن حنبل اپنی مسند میں اس کو بیان کیا دیلمی  نے اپنی مسند الفردوس میں بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا میرے صحابہ کرام کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور میرے بعد ان کو اپنی گفتگو کا نشانہ مت بناناکیونکہ جس نے ان سے محبت کی اس نے میری وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نےاللہ کوتکلیف پہنچائی جس نےاللہ کوتکلیف پہنچائی عنقریب اس کی گرفت ہوئی۔               2)۔ امام ترمذی نے اس کو بیان کیا اور امام طبرانی نے معجم الاوسط میں دیلمی نے مسند الفردوس میں بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کرام کو برا بھلا کہتے ہیں تو تم کہو  کہ تم پر اللہ کی لعنت ہو تمہارے شر کی وجہ سے۔           3)۔ امام ابن ماجہ اور ابن ابی شیبہ میں نقل کیا گیا ہے کہ نسیر بن دعلوق  رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ اصحاب رسول کو برا مت کہو پس ان کے عمل کا ایک لمحہ تمہاری زندگی کے تمام اعمال سے بہتر ہے۔           4)۔امام طبرانی اور امام ابویعلی نے روایت کیا کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بیشک لوگ کثیر تعداد میں اور میرے صحابہ قلیل ہیں بس میرے صحابہ کو برا بھلا مت کہو اور جس نے ان کو برا بھلا کہا اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہو۔            5)امام احمد نے اس کو نقل کیا کہ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا جس نے میرے صحابہ کی میری وجہ سے حفاظت اور عزت کی تو قیامت کے دن میں اس کا محافظ ہوں گا اور جس نے میرے صحابہ کو گالی دی تو اس پر خدا کی لعنت ہو۔یہ درج بالا احادیث مبارکہ میں نے بطور تبرک کے نقل کی ہیں اب آگے ہر انسان سمجھ دار ہے اس کو کیا عقیدہ اپنانا چاہیے اس کا کیا عقیدہ ہونا چاہئے یہ ہر انسان خود سمجھ دار ہے خود اپنے اپنے عقیدے کو درست کرے اپنے قبلے کو درست کرے اور اپنے عقائد کی اصلاح کرے کسی صحابی کو برا بھلا کہنا ہمیں زیب نہیں دیتا اگر کسی صحابی سے کوئی غلطی کوتاہی کچھ ہوا ہے تو وہ معاملہ اللہ کے سپرد ہے بہرحال وہ صحابی ہیں کل قیامت کے دن اللہ ان کے ساتھ جو بھی معاملہ کرے ہمیں اپنے عمل کی فکر کرنی چاہیے۔  اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
Share:

9/24/19

حضرت خدیجہؓ سے نکاح اور تعمیر کعبہ


 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا سے شادی:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک پچیس برس ہوئی تو آپ حضرت خدیجہ کا مال لے کر تجارت کے لیے شام کی طرف روانہ ہوئے اور آپ کے ساتھ حضرت خدیجہ کا غلام میسرہ بھی تھا جب واپس آئے تو میں میسرہ نے حضرت خدیجہ سے حضور نبی کریم علیہ السلام کے خصائل اور آپ کی اچھی عادات اور آپ کی صفات کے بارے میں بتایا اور اس وقت سیدہ خدیجہ بیوہ تھیں ان کی دو شادیاں ہوچکی تھیں ان کی پاکدامنی کے سبب لوگ جاہلیت میں انکو طاہرہ کہا کرتے تھے ان کا سلسلہ نسب پانچویں پشت پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے ملتا ہے۔ حضرت خدیجہ نے امور مذکورہ بالا کو مدنظر رکھ کر واپس آنے کے قریباً تین مہینے بعد یعلی بن منیہ کی بہن نفیسہ کی وساطت سے آپ کو نکاح کا پیغام بھیجا آپ نے اس درخواست کی خبر اپنے چچاؤں کو دی انہوں نے قبول کیا۔ تاریخِ معین پر ابو طالب اور امیر حمزہ اور دیگر روسائے خاندان سیدہ خدیجہ کے مکان پر گئے اور ان کے چچا عمر بن اسد نے اور بقول بعض ان کے بھائی عامر بن خویلد نے ان کا نکاح کر دیا۔ شادی کے وقت ان کی عمر چالیس سال کی تھی ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا اور 500 درہم مہر قرار پایا یہ حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی شادی تھی۔ حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ کے انتقال کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے چند شادیاں اور کیں۔ تمام ازواج مطہرات کا مہر 500 درہم مقرر ہوا۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام اولاد حضرت خدیجہ کے بطن سے ہوئی۔ صرف ایک صاحبزادے جن کا نام ابراہیم تھا  ماریہ قبطیہ کے بطن سے سنہ 8 ہجری میں پیدا ہوئے اور سنہ 10ہجری انتقال فرما گئے۔

تعمیرِ کعبہ:


جب حضرت کی عمر مبارک پینتیس سال کی ہوئی ۔ قریش نے کعبہ کو ازسرنو بنایا۔ علامہ ازرقی نے تاریخ مکہ میں لکھا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے پتھروں سے جو تعمیر کی تھی اس کا طول و عرض حسب ذیل تھا:
 ارتفاع 9 گز
طول (سامنے کی طرف) حجرِ اسود سے رکن شامی تک 23 گز
عرض (مزاب شریف کی طرف) رکن شامی سے رکن عربی تک 22
طول (پچھواڑے کی طرف) رکنِ غربی سے رکن یمانی تک 31
عرض رکن یمانی سےحجر اسود تک 20 گز
اس عمارت کو حضرت ابراہیم علیہ السلام تعمیر کر رہے تھے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کندھے پر پتھر لاد کر لا رہے تھے جب دیواریں اونچی ہوگئیں تو مقام پر کھڑے ہو کر کام کرتے رہے جب حجرِ اسود  کی جگہ تک پہنچ گئے تو آپ نے اسماعیل سے فرمایا کہ پتھرلاؤ میں اسے یہاں نصب کر دوں تاکہ لوگ طواف یہاں سے شروع کیا کریں حضرت اسماعیل پتھر کی تلاش میں گئے تو حضرت جبرائیل حضرت اسود لے کر حاضر ہوئے اس بنا میں  دروازہ سطح زمین کےبرابر تھا مگر چوکھٹ بازو نہ تھے نہ کواڑ تھے نہ چھت۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد عمالقہ و  جرہم  قصی نے اپنے اپنے وقت میں اس کی تجدید کی چونکہ عمارت نشیب  میں واقع تھی وادی مکہ کے روؤں کا پانی حرم میں آجاتا تھا اس پانی کی روک کے لیے بالائی حصہ پر بند بھی بنوا دیا گیا تھا مگر وہ ٹوٹ جاتا تھا اس دفعہ ایسے زور کی رو  آئی کے کعبہ کی دیوار پھٹ گئ اس لئے قریش نے پرانی عمارت کو ڈھا کر نئے سرے سے مضبوط و مسقف بنانے کا ارادہ کیا۔حسن ِ اتفاق یہ کہ ایک رومی  تاجر باقوم کا جہاز ساحل جدہ پر کنارے سے ٹکرا کر ٹوٹ گیا۔باقوم مذکور معمار و نجار بھی تھا قریش کو جو خبر لگی تو ولید بن مغیرہ چند  اور قریشیوں کے ساتھ وہاں پہنچا اس نے چھت کے لیے جہاز کے تختے مول لے لیے اور باقوم کو بھی ساتھ لے آیا۔ دیواروں کے لئے قریش کے ہر ایک قبیلہ نے الگ الگ پتھرڈھونے شروع کیے مرد دودو مل کر دور سے پتھروں کو کندھوں پر اٹھا کر لاتے تھے۔ چنانچہ اس کام میں حضرت اپنے چچا عباس کے ساتھ شریک تھے اور کوہ صفا کے متصل اجیاد سے پتہ چلا رہے تھے جب سامان عمارت جمع ہوگیا تو ابو وہب  بن عمر بن عائز مخزومی کے مشورے سے قبائل قریش نے تعمیر کے لیے بیت اللہ کے چاروں طرف آپس میں تقسیم کر لیں۔ ابو وہب مذکور حضرت کے والد ماجد عبداللہ کا ماموں تھا۔ اسی نے قریش سے کہا تھا کہ کعبہ کی تعمیر میں کسب حلال کے سوا اور مال صرف نہ کیا جائے جب عمارت حجر ِ اسود  کے مقام تک پہنچ گئی تو قبائل میں سخت جھگڑا پیدا ہوا ہر ایک قبیلہ چاہتا تھا کہ ہم حجرِاسود اٹھا کر نصب کریں گے۔اسی  کشمکش میں چار دن گزر گئے اور تلواروں تک نوبت پہنچ گئی بنو عبدالدار اور بنو عدی بن کعب نے تو اس پر جان دینے کی قسم کھائی اور حسب دستور اس حلف کی تاکید کے لئے ایک پیالا میں خون بھر کر اپنی انگلیاں  اس میں ڈبو کر چاٹ لیں۔ پانچویں دن سب مسجدِ حرام میں  جمع ہوگئے۔ ابو امیہ بن مغیرہ مخزومی نے جو حضرت ام المؤمنین ام سلمہ ؓ کا والد اور قریش میں سب سے معمر تھا یہ رائے دی کہ جو شخص اس مسجد  کے باب بنی شیبہ سے حرم میں داخل ہو  وہ ثالث قرار دیا جائے سب نے اس رائے سے اتفاق کیا دوسرے روز سب سے پہلے داخل ہونے والے ہمارے آقا نامدار صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔دیکھتے ہی سب  پکار اٹھے یہ امین ہیں ہم ان پر راضی ہیں جب انہوں نے آپ سے یہ معاملہ ذکر کیا تو آپ نے ایک چادر بچھا کر اس میں حجر اسود رکھا پھر فرمایا کہ ہر طرف والے ایک ایک سردار انتخاب کرلیں اور وہ چاروں سردار چادر کے چاروں کونے تھام لیں اور اوپر کو اٹھائیں اس طرح جب وہ چادر  مقام نصب کے برابر پہنچ گئی تو حضرت نے حجرِ اسود  اپنے مبارک ہاتھوں سے اٹھا کر دیوار میں نصب  فرما دیا اور وہ سب خوش ہوگئے۔
 قریش نے تعمیل میں بہ نسبت سابق کئی تبدیلیاں کردیں بنائے خلیل میں ارتفاع  9 گز تھا  اب اٹھارہ کر کے عمارت مسقف کر دی گئی۔ مگر سامانِ تعمیر کے لیے نفقہ  حلال کافی نہ ملا اس لئے بنائے خلیل میں سے جانبِ غرب کا کچھ حصہ چھوڑ دیا گیا اور اس کے گرد چاردیواری کھینچ دی گئی کہ پھر موقع ملے گا تو کعبہ کے اندر لے لیں گےاس حصہ کو حجر یا حطیم کہتے تھے۔ بنائے خلیل میں دروازہ سطح زمین کے برابر تھا مگر اب قریش نے زمین سے اونچا کر دیا تا کہ جس کو چاہیں اندر جانے دیں اور جس کو چاہیں روک دیں۔ عہد نبوت میں حضرت کا ارادہ ہوا کہ ہجر کی عمارت کعبہ میں ملالیں اور دروازہ سطح زمین کےبرابر کر دیں مگر بدیں  خیال ایسا نہ کیا  کہ قریش نئے نئے مسلمان ہیں کہیں دیوار کعبہ کے گرانے سے بد ظن ہو کر دین اسلام سے نہ پھر جائیں۔

Share:

معاہدہ حلف الفضول میں شرکت



جب قریش حرب فجار سے واپس آئے تو یہ واقعہ پیش آیا کہ شہر زبید کا ایک شخص اپنا مال تجارت مکہ میں لایا جسے عاص بن وائل  سہمی نے خرید لیا مگر قیمت نہ دی اس پر زید نے اپنے احلاف عبدالدار اورمخذوم جمح و سہم وعدی بن کعب سے مدد مانگی مگر ان سب نے مدد دینے سے انکار کیا پھر اس نے جبل ابو قبیس پر کھڑے ہو کر فریاد کی اسے قریشی کعبہ میں بیٹھ کر  سن رہے تھے یہ دیکھ کر حضرت زبیر بن عبدالمطلب کی تحریک پر بنو ہاشم زہرہ اور بنو اسد بن عبد العزی عبداللہ بن جدعان کے گھر میں جمع ہوئے اور باہم عہد کیا کہ ہم ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کیا کریں گےاور مظالم واپس کرا دیا کریں گے اس کے بعد وہ سب عاص بن وائل  کے پاس گئے اور ان سے زبیدی کا مال واپس کرایا اس معاہدہ کو حلف الفضول اس واسطے کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ اس معاہدہ کے مشابہ  تھا  جو قدیم زمانے میں بنو جرہم کے وقت مکہ میں بریں  مضمون ہوا تھا کہ ہم ایک دوسرے کی حق رسانی کیا کریں گےاور قوی سے ضعیف کا اور مقیم سے مسافر کا حق لے کر دیا کریں گے چونکہ جرہم کے وہ لوگ جو  اس معاہدہ کے محرک تھے  ان  سب کا نام فضل تھا جن میں سے فضل بن حارث اور فضل بن وداعہ فضل بن فضالہ تھے اس لیے اس کو حلف الفضول  سے موسوم کیا گیا تھا۔
اس معاہدہ قریش میں  آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی شریک تھے اور عہد نبوت میں فرمایا کرتے تھے کہ اس معاہدے کے مقابلہ میں اگر مجھ کو سرخ رنگ کی اونٹ بھی دیے جاتے تو اسے نہ توڑتا اور ایک روایت میں آیا ہے کہ  میں عبداللہ بن جدعان کے گھر میں ایسے معاہدےمیں حاضر ہوا کہ اگر اس سے غیر حاضری پر مجھے سرخ رنگ کے اونٹ بھی دیے جاتے تو میں پسند نہ کرتا اور آج اسلام میں  بھی اگر کوئی مظلوم یا آلِ حلف الفضول کہ کر پکارے تو میں  مدد دینے کو حاضر ہوں۔

Share:

9/22/19

شام کا پہلا سفر اور حرب فجار میں شرکت اور حلف الفضول



شام کا پہلا سفر
جب حضرت کی عمر مبارک بارہ سال کی ہوئی تو ابوطالب حسب معمول قافلہ قریش کے ساتھ بغرضِ تجارت ملک شام کو جانے لگا یہ دیکھ کر آپ اس سے لپٹ گئے اس لیے اس نے آپ کو بھی ساتھ لے لیا جب قافلہ شہر بصری میں پہنچا تو وہاں بحیرہ راہب نے آپ کو دیکھ کر پہچان لیااور آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا یہ سارے جہان کا سردار ہے رب العالمین کا رسول ہے اللہ اس کو تمام جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گا قریشیوں نے پوچھا تجھے یہ کیوں کر معلوم ہوا اس نے کہا کہ جس وقت تم گھاٹی سے چڑھے کوئی درخت اور پتھر باقی نہ رہامگر سجدے میں گر پڑا۔ درخت اور پتھر پیغمبر کے سوا کسی شخص کو سجدہ نہیں کرتے اور میں ان کو مہر نبوت سے پہچانتا ہوں جو ان کے شانے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مانند ہے۔ پھر اس راہب نے کھانا تیار کیاجب وہ ان کے پاس کھانا لایا تو حضرت اونٹوں کے چرانے میں مشغول تھے اس نے کہا آپ کو بلا لو آپ آئے تو بادل نے آپ پر سایہ کیا ہوا تھا۔پھر راہب نے  کہا تمہیں خدا کی قسم بتاؤ ان کا ولی کون ہے؟ انہوں نے کہا ابوطالب بس اس نے ابو طالب سےبتاکید کہا کہ ان کو مکہ واپس لے جاؤ کیونکہ اگر تم آگے بڑھو گے تو ڈر ہے کہیں یہودی ان کو قتل نہ کر دیں لہذا ابوطالب آپ کو واپس لے آیا اور شہر بصری سے آگے نہ بڑھا اور اس راہب نے حضرت کو خشک روٹی اور زیتون کا تیل زادِراہ دیا
حرب فجار میں شرکت
 آغاز اسلام سے پہلے عرب میں جو لڑائیاں ان مہینوں میں پیش آتی تھیں جن میں لڑنا ناجائز تھا حرب فجار کہلاتی تھیں چوتھی یعنی اخیر حرب فجار میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے بھی شرکت فرمائی تھی۔ اس جنگ کا سبب یہ تھا کہ نعمان بن منذر شاہِ حیرہ  ہر سال اپنا تجارتی مال بازار عکاذ میں فروخت کرنے کے لیےاشرافِ عرب میں سے کسی کی پناہ میں بھیجا کرتا تھا اس دفعہ جو اس نے اونٹ لدوا کر تیار کئے اتفاقاً عرب کی ایک جماعت اس کے پاس حاضر تھی جن میں بنی کنانہ میں سے براض اور بنی ہوازن میں سے عروہ رحال موجود تھے۔نعمان نے کہا اس قافلہ کو کون بنا دے گا؟ براض بولا میں بنی کنانہ سے پناہ دیتا ہوں۔ نعمان نے کہا میں ایسا شخص چاہتا ہوں جو اہل نجد تہامہ سے پناہ دے یہ سن کر عروہ نے کہا میں اہل نجد تہامہ سے پناہ دیتا ہوں۔ براض نے کہا کہ کیا تو بنی کنانہ سے پناہ دیتا ہے؟ عروہ نے کہا تمام مخلوق سے۔ پس عروہ اس قافلے کے ساتھ نکلا۔براض بھی اس کے پیچھے روانہ ہوا اور موقع پاکر عروہ  کو ماہِ حرام میں قتل کر ڈالا۔ ہوازن نے قصاص میں براض کو قتل کرنے سے انکار کیا۔ کیونکہ عروہ ہواذان کا سردار تھا۔وہ قریش کے کسی سردار کو قتل کرنا چاہتے تھے مگر قریش نے منظور نہ کیا۔ اس لیے قریش و کنانہ اور ہوازن میں جنگ چھڑگئی۔ کنانہ کا سپہ سالار اعظم حرب بن امیہ تھا۔ جو ابو سفیانؓ کا باپ اور حضرت امیر معاویہؓ کا دادہ تھااور ہوازن کا سپہ سالار اعظم مسعود بن معتب ثقفی تھا۔ لشکرِ کنانہ کے ایک پہلو پر عبداللہ بن جدعان اور دوسرے پر کریز بن ربیعہ اور قلب میں حرب بن امیہ تھا اس جنگ میں کئی لڑائیاں ہوئیں ان میں سے ایک میں حضرت کی چچا آپ کو بھی لے گئے۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک 14 سال کی تھی مگر آپ نے خود لڑائی نہیں کی بلکہ تیر اٹھا اٹھا کر اپنے چچاؤں کو دیتے رہے۔



Share:

رسول اللہ ﷺ 4 سے 12 برس کی عمر تک


رسول اللہ ﷺ 4 سے 12 برس کی عمر تک
حضرت کی عمر مبارک چھ سال کی ہوئی تو آپ کی والدہ آپ کو ساتھ لے کر مدینہ میں آپ کے دادا کے نہال بنو عدی بن نجار میں ملنےگئی بعض کہتے ہیں کہ اپنے شوہر کی قبر کی زیارت کے لئے گئی تھی ام ایمن ساتھ تھی جب واپس آئی تو راستے میں مقام ابوا میں انتقال فرما گئیں اور وہیں دفن ہوئیں۔ ہجرت کے بعد جب حضرت کا گزر بنونجار پر ہوا تو اپنے قیام مدینہ کا نقشہ سامنے آ گیا اور اپنے قیام گاہ کو دیکھ کر فرمایا اس گھر میں میری والدہ مجھے لے کر ٹھہری تھیں میں بنی عدی بن نجار  کے تالاب میں تیرا کرتا تھا۔
عبدالمطلب و ابو طالب کی کفالت
ام ایمن حضرت کو مکہ میں  لائیں اور آپ کے دادا کے حوالے کیا عبدالمطلب آپ کی پرورش کرتے رہے مگر جب آپ کی عمر مبارک آٹھ سال کی ہوئی تو اس نے بھی وفات پائی اور حسب وصیت  آپ  کا چچا ابوطالب علیؓ کا باپ اور آپ کے والد عبداللہ کا ماں  جایا بھائی تھا آپ کی تربیت کا کفیل ہوا ابو طالب نے آپ کی کفالت کو بہت اچھی طرح انجام دیا اور آپ کو اپنی ذات اور بیٹوں پر مقدم رکھا۔

Share:

بچپن میں حضور ﷺ کی برکت سے بارش



 ایک دفعہ ابوطالب نے حضرت کو ساتھ لے کر بارش کے لئے دعا کی تھی جو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی برکت سے فوراً قبول ہوئی تھی چنانچہ ابن عساکرجلہمہ بن عرفطہ  سے ناقل ہے کہ  اس نے کہا کہ میں مکہ میں  آیا ۔  اہل مکہ قحط میں مبتلا تھے۔ ایک بولا کے لات و عزیٰ کے پاس چلو دوسرا بولا کہ منات کے پاس چلو۔ یہ سن کر ایک خوبرو وجیہ الرائے نے کہا تم کہاں الٹے جا رہے ہو حالانکہ ہمارے درمیان باقیہ ابراہیم و سلالہ اسماعیل موجود ہیں وہ بولے تمہاری مراد ابوطالب ہے اس نے کہا ہاں۔  پس وہ سب اٹھے اور میں بھی ساتھ ہو لیا جا کر  دروازے پر دستک دی ابوطالب نکلا تو کہنے لگے ابوطالب جنگل قحط زدہ ہوگیا ہمارے زن و فرزند قحط میں مبتلا ہیں چل بارش مانگ۔ پس ابوطالب نکلا اس کے ساتھ ایک لڑکا تھا گویا آفتاب تھا جس سے ہلکا سیاہ بادل دور ہو گیا ہو۔ اس کے گرد اور چھوٹے چھوٹے لڑکے تھے۔ ابو طالب نے اس لڑکے کو لیا اور اس کی پیٹھ کعبہ سے لگا دی۔ اس لڑکے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے التجا کرنے والے کی طرح اپنی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا حالانکہ اس وقت آسمان پر بادل کا ٹکڑا نہ تھا اشارہ کرنا تھا کہ چاروں طرف سے بادل آنے لگے برسا اور خوب برسا جنگل میں پانی ہی پانی نظر آنے لگا اور آبادی وادی سب سرسبزوشاداب ہوگئے۔ اسی بارے میں  ابو طالب نے کہا ہے:
و ابیض یستسقی الغمام بوجھہ               ثمال الیتمی عصمۃ للارامل
ترجمہ:اور گورے رنگ والے جن کی ذات کے وسیلہ سے نزول باراں طلب کیا جاتا ہے۔ یتیموں کے ملجا و ماوی، رانڈوں اور درویشوں کے نگہبان۔
 بعثت کےبعدقریش آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ و سلم کو ستا رہے تھے تو ابو طالب  نے قصیدہ لکھا تھا جو سیرت ابن ہشام میں دیا ہوا ہے شعر مذکور اسی قصیدے میں سے ایک شعر میں اس شعر میں ابو طالب قریش  پر بچپن سے حضرت کے احسانات جتا رہا ہے اور گویا کہہ رہا ہے کہ ایسے قدیم بابرکت  محسن کے درپے آزار کیوں ہو۔ (مواہب  وزرقانی)

Share:

رسول اللہ ﷺ کی رضاعت


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کی والدہ ماجدہ نے کئی دن دودھ پلایا پھر ابولہب کی آزاد کی ہوئی لونڈی  ثویبہ نے چند روز ایسا ہی کیا بعدازاں حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے یہ خدمت اپنے ذمہ لی قریش میں دستور تھا کہ شہر کے لوگ اپنے شیر خوار بچوں کو بدوی  آبادی میں بھیج دیا کرتے تھے تاکہ بچے بدووں  میں پل کر فصاحت اور عرب کی خالص خصوصیات حاصل کریں اور مدت رضاعت کے ختم ہونے پر عوضانہ  دے کر واپس لے آتے تھےاس لیے نواح مکہ کے قبائل کی بدوی عورتیں  سال میں دو دفعہ ربیع وخریف میں بچوں کی تلاش میں شہر مکہ میں آیا کرتی تھیں چنانچہ اس دفعہ قحط سالی  میں حلیمہ سعدیہ اپنے قبیلہ کی دس عورتوں کے ساتھ اسی غرض سے شہر مکہ میں آئیں حلیمہ کے ساتھ اس کا شیر خوار بچہ عبداللہ ،اس کا شوہر حارث بن عبد العزی درازگوش اور ایک اونٹنی تھی بھوک کے مارے نہ اونٹنی دودھ کا اک قطرہ دیتی تھی اورنہ حلیمہ کی چھاتیوں میں کافی دور تھا اس لئے بچہ بے چین رہتا تھا اور رات کو اس کے رونے کے سبب سے میاں بیوی سو بھی نہ سکتے تھے اب قسمت جاگی تو حلیمہ کو ایسا مبارک رضیع مل گیا کہ ساری زحمت کافور ہوگئی دیکھتے ہی دائیں چھاتی سے لگا لیا دودھ نے جوش مارا حضرت نے پیا اور بائیں چھاتی چھوڑ دی جس سے حلیمہ کے بچے نے پیا۔ اس کے بعد بھی ایسا ہی ہوتا رہا یہ عدل جبلی کا نتیجہ تھا ڈیرے پر پہنچی تو پھر دونوں بچوں نے سیر ہوکر دودھ پیا حارث نے اٹھ کر  اونٹنی کو جو دیکھا تو اس کے تھن دودھ سے بھرے ہوئے تھے جس سے میاں بیوی سیر ہوگئے اور رات آرام سے کٹی اس طرح تین راتیں مکہ میں گزار کر حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا کو وداع  کر دیا گیا اور حلیمہ اپنے قبیلہ کو آئی۔ اس نے حضرت کو اپنے آگے درازگوش پر سوار کر لیا درازگوش نے پہلے کعبہ کی طرف تین سجدے کر کے سر آسمان کی طرف اٹھایا وہاں شکر ادا کیا کہ اس سے یہ خدمت لی گئی پھر روانہ  ہوئی اور حضرت کی برکت سے ایسی چست و چالاک بن گئی کہ قافلہ کے سب چوپایوں سے آگے چل رہی تھی حالانکہ جب آئی تھی تو وہ کمزوری کے سبب سے سب سے پیچھے رہ جاتی تھی ساتھ کی عورتیں حیران ہو کر پوچھتی تھیں کیا یہ وہی دراز گوش  ہے؟حلیمہ جواب دیتی  واللہ یہ وہی ہے۔ بنو سعد میں اس وقت سخت قحط تھا مگر حضرت کی برکت سے حلیمہ کے مویشی سیر ہو کر آتے اور خوب دودھ دیتے اور دوسروں کے مویشی بھوکے آتے اور وہ دودھ کا ایک قطرہ بھی نہ دیتے اس طرح حلیمہ کی سب تنگدستی دور ہوگی۔

حلیمہ حضرت کو کسی دور جگہ نہ جانے دیتی تھی ایک روز وہ غافل ہو گئی اور حضرت اپنی رضاعی بہن شیما کے ساتھ دوپہر کے وقت بھیڑوں کے ریوڑ میں تشریف لے گئے مائی حلیمہ تلاش میں نکلیں اور آپ کو شیما  کے ساتھ پایا کہنے لگی ایسی تپش میں؟ شیما بولی اماں جان میرے بھائی نے تپش محسوس نہیں کی بادل آپ پر سایہ کرتا تھا جب آپ ٹھہر جاتے تو بادل بھی ٹھہر جاتا اور آپ چلتے تو بادل بھی چلتا یہی حال رہا یہاں تک کہ ہم اس جگہ آ پہنچے ہیں۔ جب حضرت دو سال کے ہوگئے تو مائی حلیمہ نے آپ کا دودھ چھڑا دیا اور آپ کی والدہ کے پاس لے کر آئیں اور کہا کاش تو اپنے بیٹے کو میرے پاس اور رہنے دے تاکہ قوی ہو جائے کیونکہ مجھے اس پر مکہ کی وبا ء کا ڈر ہے یہ سن کر بی بی آمنہ نے آپ کو حلیمہ کے ساتھ واپس کر دیا حلیمہ کا بیان ہے کہ ہمیں واپس آئے دو یا تین مہینے گزرے تھے کہ ایک روز حضرت اپنے رضاعی بھائی عبداللہ کے ساتھ ہمارے گھروں کے پیچھے ہماری بھیڑوں میں تھے کہ آپ کا بھائی دوڑتا ہوا  آیا کہنے لگا کہ میرے اس قریشی بھائی کے پاس دو شخص آئے جن پر سفید کپڑے ہیں انہوں نے پہلو کے بل لٹا کر اس کا پیٹ پھاڑ دیا۔ یہ سن کر میں اور میرا خاوند دوڑتے گئے دیکھا کہ آپ کھڑے ہیں اور چہرے کا رنگ بدلا ہوا ہے ہم دونوں آپ کے گلے لپٹ گئے اور پوچھا بیٹا تجھے کیا ہوا آپ نے بیان کیا کہ دو شخص میرے پاس آئے جن پر سفید کپڑے تھے انہوں نے پہلو کے بل لٹا کر میرا پیٹ پھاڑ دیا اور اس میں سے ایک خون کی پھٹکی نکال کر کہا یہ تجھ سے شیطان کا حصہ ہے پھر اسے ایمان وحکمت سے بھر کر سی دیا پس ہم آپ کو اپنے خیمہ میں لے آئے میرے خاوند نے کہا حلیمہ مجھے ڈر ہے اس لڑکے کو کچھ آسیب ہے۔ آسیب ظاہر ہونے سے پہلے اسے اس کے کنبے میں چھوڑ آ۔ میں آپ کو آپ کی والدہ کے پاس لائی اور بڑے اصرار کے بعد اس سے حقیقت حال بیان کی۔ ماں نے کہا اللہ کی قسم ان پر شیطان کو دخل نہیں میرے بیٹے کی بڑی شان ہے۔

Share:

نہ آیا ہوں نہ میں لایا گیا ہوں ۔۔۔۔ کلام واصف علی واصف



نہ آیا ہوں نہ میں لایا گیا ہوں

میں حرف کن ہوں فرمایا گیا ہوں


بہت بدلے مرے انداز  لیکن

جہاں کھویا وہیں پایا گیا ہوں


مری اپنی نہیں ہے کوئی صورت

ہر اک صورت سے بہلایا گیا ہوں


وجود ِ غیر ہو کیسے گوارا

تیری راہوں میں بے سایا گیا ہوں


نہ جانے کون سی منزل ہے واصف

جہاں نہلا کے بلوایا گیا ہوں



Share:

9/18/19

سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ | Third Caliph of Islam Usman bin Affan ﷺ| Bio Hazrat Usman Ghani رضی اللہ تعالی عنہ

سیرت و کردار سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ:

رسول اللہ ﷺ کے تمام اصحاب پیکرِ صدق ووفا ،ہدایت کا سرچشمہ اور ظلمتوں کے اندھیرے میں روشنی کا وہ عظیم مینارہیں ،جن سے جہان ہدایت پاتاہے ،وہ قیامت تک آنے والی نسلِ انسانی کے لئے پیکرِ رُشدوہدایت ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ میرے ستارے ہیں ،جس کی پیروی کروگے ،ہدایت پاجاؤگے ۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے عظیم صفات سے مُتصف فرماکر صحابہ میں ممتاز فرمایا ،جو اُن ہی کا حصہ ہے ۔ حیاکا ایساپیکر تھے کہ فرشتے بھی آپ سے حیا کرتے تھے ۔آپ عشرۂ مُبشرہ میں سے ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے دنیا میں جنت کی بشارت دی ۔حضرت حسان بن عطیہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اے عثمانؓ !اللہ تعالیٰ نے تمہارے اگلے اور پچھلے کام بخش دیئے اور وہ کام جو تم نے پوشیدہ کیے اورجو ظاہر کیے اوروہ جو قیامت تک ہونے والے ہیں ‘‘۔

مختصر حالات اور مناقب پڑھنے کے لیے کلک کریں 

قبیلہ اور ابتدائی تعارف:

ایامِ جاہلیت میں بھی آپ کا خاندان غیر معمولی وجاہت وحشمت کا حامل تھا۔اُمیہ بن عبدشمس کی طرف نسبت کے سبب آپ کا خاندان بنو اُمیہ کہلاتا ہے ، بنوہاشم کے بعد شرف وسیادت میں کوئی خاندان یا قبیلہ بنو اُمیہ کا ہم پلہ نہ تھا ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا سلسلۂ نسب پانچویں پُشت میں عبدِ مناف پر رسول اللہ ﷺ سے جاملتاہے ۔حضرت عثمان کی نانی رسول اللہ ﷺ کی سگی پھوپھی تھیں ،اس رشتے سے آپ رسول اللہ اﷺْ کے قریبی رشتے دار تھے ۔ آپ کی ولادت عام الفیل سے چھٹے سال ہوئی ۔رسول اللہ ﷺ کے اعلانِ نبوت کے بعد آپ چوتھے شخص ہیں ،جس نے اسلام قبول کیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ کے ساتھ کردیا ،پھر حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت رقیہؓ نے مکہ سے حبشہ ہجرت فرمائی ۔ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دے دیا ۔حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہاکے وصال کے وقت

 (1)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اگرمیری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں ، تومیں ان سب کو یکے بعد دیگرے عثمان کی زوجیت میں دے دیتا حتّیٰ کہ اُن میں سے کوئی باقی نہ رہتی ‘‘۔’’

(2)حضرت مرہ بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے فتنوں کا بیان کیا،اُس وقت ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے گزرا ، آپ ﷺ نے فرمایا : ’’یہ شخص اُس دن(یعنی فتنوں کے دورمیں) ہدایت پر ہوگا ‘‘،میں نے جاکر دیکھا تو وہ شخص حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ تھے، (ترمذی ) ‘‘ ۔

ہر انسان فطری طور پر دولت سے محبت کرتا ہے ۔ مستقبل کے لئے کچھ پس انداز کر رکھنا شرعاً درست ہے ،صدقات وفطرات کے علاوہ اپنے مال سے انفاق فی سبیل اللہ کا بڑا اجر وثواب ہے اور جو دولت اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کی جائے ،اللہ تعالیٰ اُس کا اجر کئی سو گُنا بڑھا کر عطافرماتا ہے ۔ سورۂ بقرہ کی آیت261تا 266صدقۂ خیرات کی ترغیب دلائی گئی ہے ،ایک جگہ ارشاد فرمایا:ترجمہ؛’’جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے کی طرح ہے ،جس نے سات ایسے خوشے اُگائے کہ ہر خوشے میں سودانے ہیں اوراللہ جس کے لیے چاہے ان کو دگنا کردیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا بہت علم والا ہے ،(البقرہ:261)‘‘۔صحابۂ کرام کی زندگیاں صدق واخلاص ،وفاشعاری وجاںنثاری کا عملی اظہار ہیں ۔حضرت سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ اپنا تمام مال راہِ خدا میں لٹادیتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی رضا کو اپنی متاعِ حیات کا بیش بہا خزانہ بنالیتے ہیں ،یہی جذبہ حضرت عمر فاروق وحضرت علی رضی اللہ عنہما کی زندگی میں نظر آتاہے لیکن حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہرمشکل موقع پر اسلام اور عظمتِ اسلام کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرتے نظرآتے ہیں ۔ صحابۂ کرام ؓجو صدق ووفاکا پیکر تھے اور راہِ خدا میں اپنا مال بے دریغ لٹاتے رہے ،ان آیاتِ قرآنی کی عملی تفسیر ہیں ۔مدینہ منورہ میں جب قحط پڑا تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنا تمام مال صدقہ کردیا ۔

مختصر حالات اور مناقب پڑھنے کے لیے کلک کریں 

(3)ترجمہ:’’ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں (مدینہ میں) قحط پڑا،حضر ت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم صبح نہیں کروگے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تم پر(رزق ) کشادہ فرمادے گا ۔ اگلے دن صبح یہ خبر ملی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک ہزاراونٹ گندم اور اشیائے خوراک کے منگوائے ہیں ،آپ نے فرمایا: مدینے کے تاجر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا ، آپ گھر سے باہر تشریف لائے ،اس حال میں کہ چادر آپ کے کاندھوں پر تھی اور اُس کے دونوں سرے مخالف سمت میں کاندھے پر ڈالے ہوئے تھے ۔آپ نے مدینے کے تاجروں سے پوچھا کہ تم لوگ کس لئے آئے ہو ؟،کہنے لگے : ہمیں خبر پہنچی ہے کہ آپ کے پاس ایک ہزار اونٹ غلے کے آئے ہیں ،آپ اُنہیں ہمارے ہاتھ فروخت کردیجیے تاکہ ہم مدینے کے فقراء پر آسانی کریں ،آپ نے فرمایا : اندر آؤ ، پس وہ اندر داخل ہوئے ،تو ایک ہزار تھیلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں رکھے ہوئے تھے ،آپ نے فرمایا: اگرمیں تمہارے ہاتھ فروخت کروں، تم مجھے کتنا منافع دوگے ؟۔ اُنہوں نے کہا : دس پر بارہ ، آپ نے فرمایا : کچھ اور بڑھاؤ ،اُنہوں نے کہا دس پر چودہ ،آپ نے فرمایا: اور بڑھاؤ ، اُنہوں نے کہا : دس پر پندرہ ،آپ نے فرمایا: اور بڑھاؤ ،اُنہوں نے کہا : اِس سے زیادہ کون دے گا ،جبکہ ہم مدینے کے تاجر ہیں ۔آپ نے فرمایا: اوربڑھاؤ ،ہر درہم پر دس درہم تمہارے لئے زیادہ ہیں ۔ اُنہوں نے کہا :نہیں ، پھر آپ نے فرمایا: اے گروہِ تجار تم گواہ ہوجاؤ کہ (یہ تمام مال)میں نے مدینہ کے فقراء پر صدقہ کردیا ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ رات گزری رسول اللہ ﷺ میرے خواب میں تشریف لائے ، آپ ﷺ سیاہی مائل سفید سواری پر تشریف فرماتھے ، آپ جلدی میں تھے اور آپ کے دست مبارک میں ایک قندیل تھی جس سے روشنی نور کی طرح پھوٹ رہی تھی ،نعلین مبارک کے تسموں سے نور پھوٹ رہا تھا ۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ ! میری ماں باپ آپ پر قربان میری رغبت آپ ﷺ کی جانب بڑھ رہی ہے،آپ ﷺ نے ارشادفرمایا: یہ عثمان کی اُس نیکی کا بدلہ ہے جو اُس نے ایک ہزار اونٹ اللہ کی راہ میں صدقہ کیے اور اللہ تعالیٰ نے اُسے قبول فرمایا اور اُس کا نکاح جنت کی ایک حور سے فرمادیا اور میں عثمان کی خوشیوں میں شریک ہونے جارہا ہوں ‘‘۔(اِزالۃ الخفا،جلد2،ص:224

دورِ خلافت:

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارہ سالہ دورِ خلافت میں اسلامی سلطنت کادائرہ وسیع ہوتاگیا ،آذربائیجان ،آرمینیا ،طرابلس ،الجزائر اور مراکش فتح ہوئے ۔28؁ھ میں بحیرۂ روم میں شام کے قریب قبرص جو بحری جنگ کے ذریعے فتح کیا ،30؁ھ میں طبرستان ،33؁ھ میں قسطنطنیہ سے مُتصل مرودر، طالستان اور جوزجان فتح ہوئے ۔فتوحات کا یہ سلسلہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد تعطل کا شکار ہوگیا ۔

مختصر حالات اور مناقب پڑھنے کے لیے کلک کریں 

سازشیں اور شہادت:

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے اخیر حصے میں فتنوں اور سازشوں نے سراٹھالیا ۔کابل سے مراکش تک مفتوحہ علاقوں میں مختلف مذاہب کی ماننے والی سینکڑوں اقوام آباد تھیں ،فطری طورپر مسلمانوں کے خلاف انتقامی جذبات اُن میں موجودتھے ،نتیجۃً مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا جال بچھایا گیا ،جس میں یہودی اور مجوسی پیش پیش تھے۔ اِسی سازش کے نتیجے میں بصرہ ،کوفہ اور مصر سے تقریباً دوہزار فتنہ پرداز (باغی) اپنے مطالبات منوانے کے لئے حاجیوں کی وضع میں مدینہ پہنچے ،حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مکان کا محاصرہ کرلیا جو 40روزتک جاری رہا ،باغیوں نے کھانا پانی سب جانے کے راستے بند کردیئے ۔حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کچھ کھانے پینے کی چیزیں پہنچانے کی کوشش کی تو باغیوں نے رسول اللہ ﷺ کے حرم محترم کا لحاظ رکھے بغیر بے ادبی سے مزاحمت کی اور اُنہیں واپس کردیا ۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت کے لئے بھیج دیا ،حضرت عبداللہ بن زبیر بھی جانثاروں کے ساتھ حضرت عثمان کے گھر میں موجود تھے ۔محاصرہ کے دوران حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ آپ کے حامیوں کی عظیم جماعت یہاں موجود ہے ،ان باغیوں کو نکال باہر کیجیے ۔دوسری صورت یہ ہے کہ پچھلی جانب سے مکہ چلے جائیں ،مکہ حرم ہے ،وہاں یہ آپ پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرسکیں گے ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے پہلی صورت کا جواب یہ دیاکہ اگر میں باہر نکل کر ان سے جنگ کروں تو میں اس اُمّت کا وہ پہلا خلیفہ نہیں بننا چاہتا جو اپنی حکومت کی بقا کے لئے مسلمانوں کا خون بہائے ،دوسری صورت کا جواب دیاکہ مجھے ان لوگوں سے یہ توقع نہیں ہے کہ یہ حرم مکہ کی حرمت کا کوئی لحاظ رکھیں گے اور میں نہیں چاہتاکہ میری وجہ سے اس مُقدّس شہر کی حرمتیں پامال ہوں اور میں دارالہجرت اور دیارِ رسولﷺ کو چھوڑ کر کہیں بھی نہیں جانا چاہتا۔(مسند امام احمد بن حنبل ) حضرت زید بن ثابتؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓنے آکر جنگ کی اجازت چاہی کہ انصار دروازے پر منتظر کھڑے ہیں ،آپ نے اُنہیں منع فرمادیا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کرنے والے دوہزار سے بھی کم افراد تھے اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مکان کے اندر اور باہر ان کے جانثار اس سے کہیں زیادہ تعداد میں تھے ،آخری وقت تک یہ سب آپ سے اجازت طلب کرتے رہے کہ ہم باغیوں کا مقابلہ کریں گے اور اُن کا محاصرہ توڑیں گے ،لیکن آپ نے اُنہیں اس کی اجازت نہ دی ،آپ کا ایک ہی جواب تھا : ’’میں اپنی ذات یا اپنی خلافت کی خاطر مسلمانوں کی تلواریں باہم ٹکراتے نہیں دیکھ سکتا ‘‘۔

جمعۃ المبارک اٹھارہ ذوالحجہ 35؁ھ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھاکہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما تشریف فرما ہیں اور رسول اللہ ﷺْ فرمارہے ہیں : عثمان جلدی کرو ،ہم تمہارے افطار کے منتظر ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عثمان آج جمعہ میرے ساتھ پڑھنا ۔(طبقات ابن سعد)بیدار ہوکر آپ نے لباس تبدیل کیا اور قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہوگئے ،تھوڑی دیر بعد باغیوں نے حملہ کیا اور آپ کو تلاوتِ قرآن فرماتے ہوئے شہید کردیا ،اس وقت آپ قرآن مجیدسورۂ بقرہ کی آیت: 137 ترجمہ؛ (تمہارے لئے اللہ کافی ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سننے اور جاننے والا ہے) کی تلاوت فرما رہے تھے ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت اور عظمت پر لاکھوں سلام ،کہ آپ نے اپنی ذات اور خلافت کے دفاع کے لئے مدینے کی سرزمین اور مسلمان کی حرمت کو پامال نہ ہونے دیا ۔جانثار آپ پر قربان ہونے کی اجازت طلب کرتے رہے لیکن آپ نے اجازت نہ دی ۔

قرآن مجید شہادت کی گواہی دے گا:

شہید کا خون جس جگہ گرتاہے ،وہ جگہ اُس کی شہادت کی گواہی دیتی ہے۔ کسی کا خون کربلاکی سرزمین پر گرا ،کسی کا اُحد کی گھاٹیوں میں ،کسی کی شہادت گاہ میدانِ بدر ۔یہ مقامات اُن شہدا ء کی شہادت کی گواہی دیں گے لیکن اے عثمان غنی تمہار ے خون کی عظمتوں کو سلام جو قرآن کے اوراق پر گرا اور قیامت کے دن قرآن کریم کے اوراق آپ کی شہادت کی گواہی دیں گے ۔روزِ محشر ہر شخص اُس حال میں اٹھایاجائے گا جیساکہ اپنی موت کے وقت وہ دنیاسے گیا ،کوئی اَحرام باندھے ہوئے اٹھے گا ،کوئی سجدہ کرتے ہوئے ،آپ کی عظمتوں کو سلام کہ روزِ محشر آپ قرآن پڑھتے ہوئے اٹھیں گے ۔

مختصر حالات اور مناقب پڑھنے کے لیے کلک کریں 

سیدناعثمان ذوالنورینؓ کی حیات مبارکہ کے چند گوشے:

 سفید مائل زردی رنگت کے سفید ریش بزرگ اپنے مکان کے دریچہ پر کھڑے ہوئے تھے۔ بزرگ کے پر نور چہرے پر چیچک کے نشانات تھے۔ زلفیں کا ندھوں تک آئی ہوئی تھیں۔وہ اپنے گھر کا محاصرہ کیے ہوئے باغیوں سے انتہائی مشفقانہ انداز میں فرما رہے تھے: ’’میری دس خصال میرا رب ہی جانتا ہے مگر تم لوگ آج ان کا لحاظ نہیں کر رہے

 ٭میں اسلام لانے میں چوتھا ہوں

 ٭رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحب زادی میرے نکاح میں دی

 ٭جب پہلی صاحب زادی فوت ہوئی تو دوسری میرے نکاح میں دے دی

 ٭میں نے پوری زندگی کبھی گانا نہیں سنا ٭میں نے کبھی برائی کی خواہش نہیں کی

 ٭جس ہاتھ سے حضور ﷺکی بیعت کی اس ہاتھ کو آج تک نجاست سے دور رکھا

٭میں نے جب سے اسلام قبول کیا کوئی جمعہ ایسا نہیں گزرا کہ میں نے کوئی غلام آزاد نہ کیا ہو اگر کسی جمعہ کو میرے پاس غلام نہیں تھا تو میں نے اس کی قضاء کی

 ٭زمانۂ جاہلیت اور حالت اسلام میں کبھی زنا نہیں کیا

 ٭میں نے کبھی چوری نہیں کی

 ٭میں نے نبی ﷺکے زمانہ میں ہی پورا قرآن حفظ کر لیا تھا اے لوگو! مجھے قتل نہ کرو اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو مجھ سے توبہ کرا لو۔ واللہ! اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو پھر کبھی بھی تم اکٹھے نماز پڑھ سکو گے اور نہ دشمن سے جہاد کر سکو گے۔ اور تم لوگوں میں اختلاف پیدا ہو جائے گا‘‘۔

 یہ بزرگ تیسرے خلیفۂ راشد، سیدناعثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ تھے۔ آپؓ خاندان بنو امیہ سے تھے۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کاتب وحی بھی تھے اور ناشر قرآن بھی۔ آپ رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے چوتھے فرد تھے۔

اولاد و ازواج:

 سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دوہرے داماد تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں سیدہ زینبؓ، سیدہ رقیہ ؓ، سیدہ ام کلثوم ؓاور سیدہ فاطمہؓ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیٹی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ سیدہ رقیہؓ سے سیدنا عثمانؓ کے فرزند حضرت عبداللہؓ پیدا ہوئے اور انہی عبداللہؓ کے نام پر سیدنا عثمانؓ کی کنیت ’’ابو عبداللہ‘‘ تھی۔مروج الذہب کے مطابق ان عبداللہؓ بن عثمانؓ کا انتقال 76سال کی عمر میں ہوا۔غزوۂ بدر کے موقع پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا جو کہ اس وقت بستر علالت پر تھیں، کی تیمارداری کے لیے رک گئے اور غزوۂ بدر میں شریک نہ ہوسکے۔ مگر بقول نبی صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اصحاب ِبدر کے مثل درجہ عطا ہوا۔ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے انتقال پرُ ملال کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تیسری بیٹی، سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔ جب وہ بھی وفات پا گئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں اسی طرح ایک کے بعد ایک، عثمان کے نکاح میں دیتا جاتا۔ خیال رہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ وہ واحد ہستی ہیں جن کے نکاح میں کسی پیغمبر کی دو بیٹیاں یکے بعد دیگرے آئی ہوں۔ اس صفت میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اسی وجہ سے سیدنا عثمانؓ کا لقب ’’ذوالنورین‘‘ یعنی ’’دو نوروں (روشنیوں) والا‘‘ ہے۔

بیعتِ رضوان:

 صلح حدیبیہ کے سال نبی علیہ السلام اپنے صحابہ کرامؓ کی معیت میں عمرہ کے ارادہ سے جانب مکہ عازم سفر ہوئے مگر معلوم ہوا کہ کفار مکہ آپﷺ اور صحابہ کرامؓ کے عمرہ ادا کرنے میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں تو آپ ﷺ نے سیدنا عثمانؓ کو اپنا سفیر بنا کر گفت و شنید کے لیے مکہ بھیجا جہاں کفار نے سیدنا عثمانؓ کی شہادت کی افواہ اڑادی۔ اس پر نبی علیہ السلام کو انتہائی رنج و قلق ہوا اور آپﷺ نے سیدنا عثمانؓ کے قتل ناحق کا انتقام لینے کے لیے اپنے ساتھ موجود تقریباًڈیڑھ ہزار صحابہ کرامؓ سے فرداً فرداًبیعت لی، اسے بیعت رضوان کہا جاتاہے۔ بیعت ِرضوان کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست ِمبارک کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا دست مبارک قرار دیتے ہوئے اُنؓ کی طرف سے بیعت کی۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بدولت تقریباً ڈیڑھ ہزار مسلمانوں سے اپنی رضا کا اعلان فرمایا۔

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ اللہ آپ کو ایک قمیص پہنائے گا (یعنی خلافت عطا فرمائے گا) لوگ چاہیں گے کہ آ پ وہ قمیص اتار دیں(یعنی خلافت سے دست بردار ہو جائیں) اگر آپ لوگوں کی وجہ سے اس سے دست بردار ہوئے تو آپ کو جنت کی خوش بو بھی نہ ملے گی۔ یہی وجہ تھی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ باغیوں کے پرُ زور مطالبہ کے باوجود بھی منصب ِخلافت سے دست بردار نہ ہوئے اور اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر جان لٹا دی۔ باغیوں کے محاصرہ کے دوران آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کے دریچہ سے ظاہر ہو کر ان عاقبت نا اندیش باغیوں کو تنبیہ کی مگر اُن کی عقلیں ماؤف اور ضمیر مردہ ہو چکے تھے۔اسی سازش کے نتیجہ میں خلیفۂ وقت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کر لیاگیا۔ اور وہ بھی ایسے وقت میں کہ اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور عام مسلمان بغرض حج مکہ مکرمہ میں تھے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو خلافت سے دست بردار ہونے کو کہا گیا مگر بحکم نبویﷺ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ مطالبہ رَد کر دیا۔ اور چالیس دن بھوکے پیاسے روزہ کی حالت میں ان باغیوں کے محاصرہ میں اپنے گھر میں ہی مقید رہے۔ دن رات نماز و تلاوت قرآن میں مشغول رہے۔ اوربالآخر 18ذی الحج، 35ہجری کو دوران تلاوت شہید کر دیے گئے۔

انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

جود و سخا، پیکر شرم و حیا، کاتب ِوحی، ذوالنورین،خلیفۂ راشد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی سیرت و منقبت کے تفصیلی احاطہ کے لیے یہ مضمون انتہائی مختصر ہے اس لیے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی سیرت مطہرہ کے محض چند پہلو سپرد تحریر کیے گئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سمیت تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما ئے بروایت ترمذی ،(5)نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ہر نبی کے کچھ رفیق ہوتے ہیں، میرے رفیق جنت عثمانؓ ہیں۔ بروایت بخاری،(6) ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمان ذوالنورین رضوان اللہ علیہم اجمعین احد پہاڑ پر چڑھ رہے تھے کہ پہاڑ ہلنے لگا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ احد! رک جا! اس وقت تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔

فرامین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ:

امیرالمؤمنین سیدنا عثمانؓ چوںکہ مکتب نبوت کے ایک اہم اور لائق شاگرد تھے انہوں نے اپنے مربی نبی کریمﷺ کی تربیت کے نتیجہ میں جہاں اور کئی مواقع پر آن حضرتﷺ کی تربیت کے مطابق قرآن و سنت کو سامنے رکھتے ہوئے احسن اندازاختیار فرمائے وہاں سیدنا عثمانؓ نے وقتاً فوقتاً علم و حکمت اور دانائی و تدبر سے بھر پور کلمات بھی ارشاد فرمائے جن میں سے چند ایک پیش ہیں : ٭اللہ کے ساتھ تجارت کرو تو بہت نفع ہو گا

 ٭بندگی اس کو کہتے ہیں کہ احکام الہٰی کی حفاظت کرے اور جو عہد کسی سے کرے اس کو پورا کرے اور جوکچھ مل جائے اس پر راضی ہو جائے اور جو نہ ملے اس پر صبر کرے

 ٭دنیا کی فکر کرنے سے تاریکی پیدا ہوتی ہے اور آخرت کی فکر کرنے سے روشنی

٭ متقی کی علامت یہ ہے کہ اور سب لوگوں کو تو سمجھے کہ وہ نجات پا جائیں گے اور اپنے آپ کو سمجھے کہ ہلاک ہو گیا

 ٭سب سے زیادہ بربادی یہ ہے کہ کسی کو بڑی عمر ملے اور وہ سفر آخرت کی تیاری نہ کرے

 ٭دنیا جس کے لیے قید خانہ ہو قبر اس کے لیے باعث راحت ہوگی

٭اگر تمہارے دل پاک ہو جائیں تو کبھی قرآن شریف کی تلاوت یا سماعت سے سیری نہ ہو

 ٭محاصرہ کے زمانہ میں جب اتمام حجت کے لیے آپ نے بالاخانہ سے سر باہر نکالا تو فرمایا مجھے قتل نہ کرو بلکہ صلح کی کوشش کرو، خدا کی قسم میرے قتل کے بعد پھر تم لوگ متفقہ قوت کے ساتھ قتال نہ کر سکو گے اور کافروں سے جہاد موقوف ہو جائے گا اور باہم مختلف ہو جاؤ گے۔

٭محاصرہ کے زمانہ میں لوگوں نے پوچھا کہ امیرالمؤمنین! آپ تو مسجد نہیں جا سکتے انہی باغیوں میں سے کوئی شخص امام بنتا ہے، ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں تو آپ نے فرمایا کہ نماز اچھا کام ہے جب لوگوں کو اچھا کام کرتے ہوئے دیکھو تو ان کے ساتھ شریک ہو جا یا کرو، ہاں برے کاموں میں ان کے ساتھ شرکت نہ کرو۔

جامع  ُ القرآن حضرت عثمانؓ بن عفان خلیفہ راشد حضرت عثمانؓ بن عفان خلفائے راشدین میں سے تیسرے خلیفہؓ تھے۔ جن کا دور حکومت خوش حالی کا دور تھا۔ آپؓ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی پھوپھی ام حکیم بیضاد کے نواسے تھے اس رشتے سے آپ ؓ نبی اکرم ؐ کے بھانجے ہوئے۔ ام حکیم حضرت عبداﷲ کی جڑواں بہن تھیں، اسلامی تاریخ میں حضرت عثمانؓ بن عفان کا مرتبہ بہت بلند اور فضائل بے شمار ہیں۔ سیرت و کردار اور اسلامی خدمات میں بلند درجے پر فائز ہیں، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دو بیٹیاں حضرت ام کلثومؓؓ اور حضرت رقیہؓ یکے بعد دیگرے حضرت عثمان ؓ سے بیاہی گئیں، اس لیے آپؓ کو ’’ذوالنورین‘‘ کہاجاتاہے۔ دور جاہلیت میں آپؓ کا شمار ان چند اشخاص میں ہوتا تھا جو پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ اس لیے کاتب وحی تھے۔ پیشے کے لحاظ سے تاجر تھے۔ انتہائی دولت مند، فیاض اور غنی تھے۔ قبول اسلام کے بعد اپنی ساری دولت دین وملت کی نذر کردی۔ غزوہ تبوک جسے گرمی اور قحط سالی کی بناء پر ’’جیش العسرۃ‘‘ کہاجاتاہے۔ اس غزوہ میں آپؐ کی اپیل پر مسلمان مردوں اور عورتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حضرت ابو بکرؓ نے کل اثاثہ نذر کردیا، حضرت عمرؓ گھر کا نصف مال لے آئے، حضرت عثمانؓ نے اس موقع پر مسلمانوں کی تیس ہزار فوج کا ایک تہائی حصہ کا تمام خرچ برداشت کیا۔ دس ہزار فوجیوں کے لیے ایک ایک تسمہ تک ان کے روپوں سے خریدا گیا۔ اس کے علاوہ ایک ہزار دینار، ایک ہزار اونٹ، ستر گھوڑے مع ساز و سامان کے اﷲ کی راہ میں نذر کیے۔ اس خدمت پر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم بے اختیار پکار اٹھے ’’آج کے بعد عثمانؓ کے کسی عمل پر نقصان نہیں ہوگا‘‘ حضرت عثمان ؓ تمام غزوات میں آںحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ جان و مال سے شریک رہے، البتہ غزوہ بدر (17رمضان المبارک2ھ) میں اپنی اہلیہ حضرت رقیہؓ کی علالت کی وجہ سے شریک نہ ہوسکے۔ آںحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم پر وہ بیوی کی دیکھ بھال اور علاج کی خاطر مدینہ میں رک گئے، حضرت رقیہؓ صحت یاب نہ ہوسکیں اور ٹھیک اسی وقت حضرت زید بن حارثؓ غزوہ بدر کی فتح کی خوش خبری لے کر مدینہ میں داخل ہوئے اس وقت حضرت عثمانؓ اپنی زوجہ محترمہ صاحب زادی رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی تدفین میں مصروف تھے۔ تاہم چوں کہ غزوہ بدر میں آںحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں شرکت نہیں کی تھی، اس لیے آپؐ نے حضرت عثمانؓ کو بھی مال غنیمت میں سے مجاہدین کے ساتھ حصہ دیا۔6ھ میں صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سفارت کے لیے حضرت عثمانؓ کو منتخب فرمایا۔ یہ عمل بذات خود حضرت عثمانؓ کی فضیلت اور ان پر مکمل اعتماد نبویؐ کی دلیل ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ جب حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر آںحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپؐ نے فوراً ان کا بدلہ لینے کے لیے تیاری شروع کردی۔ اس کے علاوہ آںحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک کو حضرت عثمانؓ کا ہاتھ قرار دیا اور ان کی طرف سے اپنے سے بیعت لی۔ یہ اتنا بڑا شرف اور امتیاز ہے کہ اس میں کوئی اور شخص ’’ذوالنورین‘‘ کا شریک نہیں ہوسکتا۔ حضرت عثمانؓ  آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اعلیٰ درجے کی مشاورتی کونسل کے رکن تھے۔ اس بنا پر کوئی غزوہ ہو یا کوئی اور اہم معاملہ اس میں شریک رہتے تھے۔ مکہ میں جب کفار قریش کے ظلم و ستم بڑھے تو اپنی زوجہ محترمہ کے ساتھ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم سے حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ مدینہ ہجرت کے بعد تعمیر مسجد نبویؐ میں عام لوگوں کی طرح شریک ہوئے، کچھ دن بعد یہ مسجد ضرورت کے لیے ناکافی پڑ گئی تو مسجد کے قریب کا ایک قطعہ پچیس ہزار درہم میں خرید کر نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایماء پر مسجد میں شامل کردیا۔ ہجرت مدینہ کے وقت میٹھے پانی کی بڑی قلت تھی، شہر میں بیررو مہ نام کا ایک کنواں تھا جس کا مالک ایک یہودی تھا، حضرت عثمانؓ نے اس کنوئیں کو پینتیس ہزار درہم میں یہودی سے خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا۔ اتباع سنت میں حد سے زیادہ بڑھے ہوئے تھے، عشق و محبت اور ادب و احترام نبویؐ ہر حال میں پیش نظر رکھتے تھے۔ خود بھی اہتمام کرتے اور دوسروں کو بھی تلقین کرتے۔ معاملہ کے انتہائی صاف تھے۔ فریق ثانی کی دل جوئی کا برابر خیال رکھتے تھے۔ تقویٰ اور طہارت آپؓ کا جوہر تھا۔ آپؓ کا سب سے بڑا وصف ’’حیا‘‘ تھا، وہ انتہائی شرمیلے، بے حد رحم دل، کم سخن، حلیم و متین تھے، نیکی سے محبت اور منکرات سے نفرت کرتے تھے، مکروہات سے طبعاً متنفر تھے۔ خلیفہ ہونے کے بعد آپؓ کا تمام وقت امور خلافت کی انجام دہی میں گزرتاتھا۔ اس لیے اپنے کاروبار کی نگرانی نہیں کرسکتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود آپؓ بیت المال سے تن خواہ نہیں لیتے تھے، غلام آزاد کرنے کا بڑا اہتمام کرتے تھے، ایک روایت کے مطابق قبول اسلام کے بعد ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتے تھے، قرأت قرآن اور تجوید کے بھی ماہر تھے۔ حدیث سے بھی بڑا شغف تھا ۔آپؓ سے روایت کردہ احادیث کی تعداد 146ہے۔ فقہ میں درک حاصل تھا۔ اس وجہ سے ان کا شمار فقہاء صحابہ میں ہوتا ہے۔ عہد صدیقی اور عہد فاروقی میں مجلس افتاء اور شوریٰ کے رکن رہے، خصوصاً علم الفرائض اور علم المناسک میں آپؓ کا درجہ بہت بلند ہے۔ علم الفرائض میں زید بن ثابتؓ اور علم المناسک میں حضرت عبداللہ ؓ بن عمران کے ہم پلہ تھے۔ انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ آںحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میری امت میں حیا میں سب سے زیادہ سچے عثمانؓ ہیں۔بے شمار مصروفیات اور مشاغل کے باوجود کثرت سے عبادت کرتے تھے۔ صائم الدھر اور قائم اللیل تھے۔ نماز انتہائی خضوع وخشوع سے پڑھتے ، اس درجہ محویت ہوتی کہ گرد وپیش کی خبر نہ ہوتی تھی۔ خلافت کے بعد نائب رسولﷺ کا سب سے اہم فرض مذہب کی خدمت اور اس کی اشاعت و تبلیغ ہے ، حضرت عثمانؓ بھی اس خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہتے، جہاد میں بھی جو قیدی گرفتار ہوکر آتے ان کے سامنے اسلام کے محاسن بیان کرکے دین مبین کی طرف آنے کی دعوت دیتے تھے۔

خدمتِ قرآن مجید:

 اسلام کی خدمت میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن مجید کو اختلاف و تحریف سے محفوظ کرنا اور ایک قرأت پر امت مسلمہ پر جمع کرناہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ آرمینہ اور آذربائیجان کی مہم میں شام، مصر، عراق وغیرہ کی فوجیں جمع تھیں ، جن میں زیادہ تر نو مسلم اور عجمی تھے، جن کی مادری زبان عربی نہ تھی حضرت حذیفہؓ بن یمان اس جہاد میں شریک تھے، انہوں نے دیکھا کہ اختلاف قرأت عثمانؓ سے ہے اور ہر ایک اپنے ملک کی قرأت کو درست سمجھتاہے۔ وہ جہاد سے واپس آئے تو حضرت عثمانؓ کو مفصل حالات بتائے اور عرض کی کہ امیر المؤمنینؓ! اگر جلد اس کی اصلاح نہ کی گئی تو مسلمان خدا کی کتاب میں بھی شدید اختلاف پیدا کرلیں گے۔ حضرت حذیفہؓ کی توجہ دلانے پر حضرت عثمانؓ کو بھی خیال ہوا اور انہوں نے ام المومنین حضرت حفصہؓ سے عہد صدیقی کا مرتب اور مدون کیا ہوا نسخہ حضرت زید بن ثابتؓ، عبداﷲ بن زبیرؓ اور سعید بن العاص ؓسے اس کی نقلیں کراکے تمام ممالک میں اس کی اشاعت کی ، اس طرح جامع القرآن ہونے کا شرف حضرت عثمانؓ کی قسمت میں آیا اور یہ اسلام کی اتنی اہم خدمت ہے۔ جس کے لیے حضرت عثمانؓ اکابر صحابہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔ علامہ ذہبی نے لکھا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے مرتبہ ومقام اور جلالت شان کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اس کو دیکھتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح وقت کی اہم ضرورت کا احساس کرکے جمع قرآن کا حکم دیا اور حضرت عثمانؓ ان سب لوگوں میں افضل تھے جنہوں نے قرآن آںحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے پڑھا تھا، حضرت عثمانؓ میں دو صفتیں ایسی تھیں جو انہیں افضل بناتی ہیں۔ ایک ان کا کام جس کا انجام شہادت ہوا اور دوسری صفت پوری امت کو ایک قرآن پر جمع کردینا۔

 آپؓ کی شہادت 18ذی الحجہ سن35ھ میں ہوئی۔ یہ جمعہ کے دن عصر کا وقت تھا۔


Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive