Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

1/9/17

قرآن مجید اور نظام معاشرت: Quran and Social System|| Do and Don't

قرآن مجید اور نظام معاشرت:

قرآن مجید اشرف المخلوقات انسان کی پیدائش سے لیکر  موت تک کی تمام ضروریات کی تکمیل کیلیے اصول و ضوابط دیتا ہے گویا کہ اس کی معاشرتی زندگی کے فوائد ہمیں قرآن مجید کی تعلیمات سے میسر ہو سکتے ہیں کیونکہ اولاد  کی پرورش والدین کے حقوق ، حقوق ازدواج ، کاروبار ، تعلیم، نظام حکومت وغیرہ سبھی امور پر ہمیں تعلیماتِ قرآن سے رہنمائی ملتی ہے۔ یہ قرآن ہی ہے جس نے ایک پاکیزہ اور منظم زندگی گزارنے کی تلقین فرمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسانیت ذلت و تباہی کے عمیق گڑھوں میں رسوا ہو رہی تھی شرف انسانیت پامال ہو چکا تھا تو قرآن نے آداب معاشرت میں انقلاب پیدا فرما دیا۔ آج ہماری یہ حالت ہے کہ دنیاوی مقاصد کی تکمیل کیلیے رات دن کوشاں ہیں اس مقصد وحید کی طرف توجہ دینا پسند نہیں فرماتے جس کیلیے ہمیں خالق کائنات نے پیدا فرمایا ہے۔ قرآن مجید  فرقان حمید میں سورہ الذاریات میں ارشاد ہوتا ہے کہ:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (56)

 ترجمہ: ہم نے نہیں پیدا کیا جن اور انسان کو مگر عبادت کیلیے گویا کہ تخلیق انسانی کا مقصد اطاعت خداوندی تھا جس کے طریقے ہمیں قرآن و حدیث میں سکھائے گئے ہیں انسان کے دستور حیات ہیں یہ بات قرآن کے ذریعہ ملتی ہے سورہ انعام میں ارشاد ہے کہ:

قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۖ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (151) وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۖ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۖ وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (152) وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (153)

 ترجمہ: آؤ ہم تمہیں وہ باتیں بتائیں جو تمہارے لیے پروردگار نے تم پر حرام کی ہیں اللہ کا کسی کو شریک نہ بناؤ، والدین سے نیکی کرو، بچوں کو غربت و افلاس سے قتل نہ کرو، کیونکہ خدا تمہیں روزی دیتا ہے۔ لغویات کے قریب نہ جاؤ ، خواہ اعلانیہ ہو یا خفیہ، جس جان کو خدا نے محترم کیا ہے اسے حق کے علاوہ قتل نہ کرو، یہ باتیں ہیں، جس کی نصیحت کی جاتی ہے یقین ہے کہ ان باتوں کو سمجھو گے اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر بہتری کے لیے یہاں تک کہ بالغ ہو ، ناپ تول میں کمی نہ کرو ، ہم کسی کو اس کی گنجائش سے زیادہ بات کا پابند نہیں کرتے ، جب بولو تو انصاف سے خواہ تمہارا عزیز ہی کیوں نہ ہو اللہ کا عہد پورا کرو  یہ وہ باتیں ہیں جن کی طرف  تمہیں راہنمائی کی گئی ہے شاید تم یاد رکھو یہی میرا سیدھا راستہ ہے اس کی پیروی کرو، مختلف راستوں پر نہ چلو ، ورنہ راہ صحیح سے بھٹک جاؤ گے، انہی باتوں کا تمہیں مشورہ دیا جاتا ہے یقین ہے کہ تم پرہیز گار بن جاؤ گے۔

ان آیات مقدسہ کو دیکھو کیسے شاندار انداز میں سماجی ڈھانچہ کی تشریح کی گئی ہے آج بڑے بڑے عالمی ادارے انسانی حقوق کیلیے چارٹر جاری کرتے ہیں لیکن اسلام نے چودہ صدیاں قبل جو عالمی انسانی حقوق کا منشور پیش کیا تھا اور پھر جس کی تشریح محسن انسانیت پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفے ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمائی تھی آج کے منشور اس کی گرد راہ کو بھی نہیں پہنچ پائے ، قرآن کے فرمائے ہوئے احکامات پر جب ایک انسان عمل کرتا ہےتو پوری دنیا اس کے ماتحت ہو جاتی ہے اس کے ارشاد کو اپنے لیے حکم سمجھا جاتا ہے۔

سورہ انفال کی آیت کریم کو دیکھئے ، ارشاد ہوتا ہے کہ:

وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَآصَّةًۚ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(۲۵)

 ترجمہ: ڈرو اور بچو اس فتنہ و فساد سے جس کی لپیٹ میں تم  میں سے صرف ظالم ہی نہیں آئیں گے اور جان لو کہ اللہ تعالی کا عذاب سخت ہے۔ کیونکہ جب کسی قوم کی اکثریت ظالم اور فسادی ہو جاتی ہے تو جو لوگ ان برائیوں سے خود تو بچتے ہیں لیکن دوسروں کو بچانے کی کوشش نہیں کرتے خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں تو وہ بھی قابل رعایت نہیں رہتے۔ سورہ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ:

إِلَّا تَنفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( 39 )

 ترجمہ: اگر تم (خدا کے دین کی حفاظت کیلیے) نہیں نکلو گے تو وہ تمہارے سوا کسی دوسری قوم کو لے آئے گا تم اس خدا کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکو گے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جب کوئی قوم بد اعمالیا ں کرتے کرتے سنگدل ہو جاتی ہے تو پھر اس کی اصلاح کیلیے کوئی دوسری تدبیر کارگر ثابت نہیں ہوتی اور قدرت بھی اس  کی ہدایت کا سامان نہیں  کرتی قارون، شداد، ہامان، فرعون اور نمرود جیسے افراد نے معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کی اللہ تعالی نے سب کو نیست و نابود کر دیا کیونکہ اللہ تعالی کسی بھی ایسے انسان کو پسند نہیں کرتا جو اس کے بندوں کیلیے مشکلات پیدا کرے اور معاشرتی اقدار کو تباہ کرنا چاہے۔

قرآن مجید دین فطرت کا عالمی منشور:

قرآن جو دین فطرت کا عالمی منشور ہے ، جس نے انسان کو ذلت کی پستیوں سے نکالا اور فضائل و کمالات کے عروج پر پہنچایا ، ظلم و جبر کو انصاف سے ، سختی کو نرمی ، جہالت کو علم و معرفت سے عداوت کو محبت ، نفاق کو اتفاق ، خیانت کو امانت سے بدلا  گویا انسانیت کو تہذیب سے روشناس کرایا ، جو نا آشنا تھے انہیں حکمرانی کے قوائد و ضوابط سے واقف کیا ، ظلم و بربریت کو ختم کیا فلاحی معاشرہ قائم فرمایا ۔ لہذا ثابت ہوا کہ قرآن مجید نے انسان کو نظام معاشرت کے وہ سنہری اصول عطا فرمائے ہیں کہ تا قیامت رشد و ہدایت کے چشمے ابلتے رہیں گے۔ ( ماخوذ از: ندائے اہلسنت فروری 1995ء صفحہ225، 226)

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive