Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

1/26/17

ابراہیم نخعی رحمہ اللہ تعالی

ابراہیم نخعی رحمہ اللہ تعالی سنہ 46 ہجری میں پیدا ہوئے جس زمانے میں کبار صحابہ کرام بھی بڑی تعداد میں موجود تھے  چنانچہ آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی زیارت کا شرف بھی حاصل کیا ہے اور متعدد کبار صحابہ کرام کی زیارت سے سعادت افروز ہوئے ہیں ۔۔
اپنے پیدائشی شہر کوفہ میں ہی آپ کی تمام تر علمی و فقہی تربیت ہوئی جہاں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کا علمی حلقہ قرآن و سنت اور فقہ و حدیث کے علوم میں اپنی بہاریں دکھا رہا تھا اور خود آپ کا خاندان بھی ایک علمی خاندان تھا چنانچہ اس دوہری نسبت نے بچپن سے ہی آپ کی علمی و فقہی تربیت کرنا شروع کردی تھی 
اہل علم کے چند اقوال
امام شعبی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : ابراہیم نخعی نے فقہی گھرانے میں تربیت پائی اور علم فقہ میں خوب مہارت حاصل کی بعد ازاں ہمارے ساتھ ( یعنی اصحاب حدیث کے ساتھ ) بیٹھنا شروع کیا تو ہمارے پاس موجود عمدہ اور قابل اعتبار و قابل عمل احادیث بھی حاصل کر لیں اور یوں فقہ و حدیث کے جامع بن گئے ۔۔
علامہ شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں
كان بصيرا بعلم ابن مسعود ، واسع الرواية ، فقيه النفس ، كبير الشأن ، كثير المحاسن ، رحمه الله تعالى 
یعنی موصوف حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے علوم میں بڑی بصیرت رکھتے تھے ، احادیث پر کافی دسترس تھی ، فقاہت ان کا طبعی جوہر تھا ، بلند شان کے حامل اور اچھی صفات ان میں بکثرت موجود تھیں ۔۔ اللہ تعالی کی رحمت ہو اُن پر
مزید یہ بھی لکھتے ہیں
كان مفتي أهل الكوفة هو والشعبي في زمانهما ، وكان رجلا صالحا ، فقيها ، متوقيا ، قليل التكلف
یعنی ابراہیم نخعی ایک نیک سیرت ، انسان ، بڑے فقیہ ، محتاط اور تکلفات سے پاک انسان تھے ۔ اپنے زمانے میں آپ اور امام شعبی دونوں کوفہ کے مفتی تھے ۔۔ 
فضل و کمال
آپ نے اولا کم سنی میں قرآن کریم حفظ کیا اور علم قرائت میں ایسی مہارت حاصل کی کہ کوفہ کے بڑے قرائ میں شمار ہوتے تھے 
اسی طرح علم حدیث میں بھی کمال حاصل کیا اور کوفہ کے محدثین میں صف اول میں شمار ہوئے جبکہ علم فقہ تو گویا ان کا اوڑھنا بچھونا تھا 
علم حدیث میں مہارت پر چند درج ذیل اقوال سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ 
اسماعیل بن ابو خالد کہتے ہیں کہ : امام شعبی ، ابراہیم نخعی اور ابو الضحی مسجد میں مذاکرہ حدیث کے لیے جمع ہوتے تھے اور جب کسی مسئلے میں کوئی حدیث کسی کو یاد نہ آتی تو سب کی نظریں ابراہیم نخعی پر جم جاتی تھیں ۔۔۔
امام اعمش سلیمان بن مہران رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ : ابراہیم نخعی علم حدیث کے صراف تھے !
۔
یاد رہے کہ یہ وصف بڑا ہی اہم ہے ۔۔ کیوں کہ محدثین کا ایک عمومی طرز یہ ہوتا ہے ک

ہ وہ احادیث جمع فرماتے ہیں اور پھر رجال و اسانید کی بنیاد پر ان میں مقبول و غیر مقبول احادیث کا فیصلہ کرتے ہیں جب کہ ان احادیث سے شرعی احکام معلوم کرنا اور نئے نئے مسائل کو احادیث کی روشنی میں حل کرنا یہ محض محدث سے اونچے درجے کے عالم کا کام ہے اور یہ وصف فقہائے کرام میں بکثرت پایا جاتا ہے ۔۔ اسی لیے امام اعمش جیسے جلیل القدر محدث نے حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ تعالی کو اس وصف مذکورہ بالا سے متصف کیا ہے
Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive