Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

1/30/22

جب بھی جی چاہتا ہے پینے کو ، تیرا میخانہ یاد آتا ہے | ڈاکٹر مغیث الدین فریدی


 

جب بھی جی چاہتا ہے پینے کو ، تیرا میخانہ یاد آتا ہے

بھول بیٹھا ہوں مدتوں سے جسے، کیوں وہ افسانہ یاد آتا ہے

 

یاد رہتا نہیں مجھے پینا، توڑ دیتا ہوں ساغر و مینا

جب تیری مدھ بھری نگاہوں کا مجھ کو پیمانہ یاد آتا ہے

 

یاد آتی ہے جب تیری مجھ کو ساری دنیا کو بھول جاتا ہوں

دل نہیں لگتا صحنِ گلشن میں تیرا ویرانہ یاد آتا ہے

 

وہ کوئی بد نصیب ہی ہو گا روشنی سے نہیں ہے پیار جسے

ہو گیا جو شہید الفت میں وہی پروانہ یاد آتا ہے

 

لوگ کھاتے ہیں جب وفا کی قسم چوٹ سی ایک دل پہ لگتی ہے

مر مٹا جو وفا کی راہوں میں آج دیوانہ یاد آتا ہے

 

غیر سمجھا جسے فریدی نے دوستی کے وہی تو قابل تھا

اپنے سب ہو گئے پرائے جب وہی بیگانہ یاد آتا ہے

Share:

1/11/22

دل کی اقسام | قلب منیب | قلب سلیم | مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَ جَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِۙﹰ | اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ

 

اس مضمون میں آپ دل کی اقسام کے بارے میں پڑھیں گے جو قرآن مجید نے بیان کی ہیں۔ 20 اقسام جو قرآن مجید نے بیان کی ہیں ، قلب منیب، قلب سلیم۔۔۔۔۔۔۔

وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) (سورہ بنی اسرائیل)

ترجمہ: کنزالعرفاناور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔


وَ لَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَۙ(۸۷)یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ(۸۸)اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ(۸۹) سورہ الشعراء

ترجمہ: کنزالایماناور مجھے رسوا نہ کرنا جس دن سب اُٹھائے جائیں گے جس دن نہ مال کام آئے گا نہ بیٹےمگر وہ جو اللہ کے حضور حاضر ہوا سلامت دل لے کر۔

مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَ جَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِۙ(۳۳)ادْخُلُوْهَا بِسَلٰمٍؕ-ذٰلِكَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ(۳۴)لَهُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ فِیْهَا وَ لَدَیْنَا مَزِیْدٌ(۳۵)(سورہ  ق)

ترجمہ: کنزالعرفان جو رحمٰن سے بن دیکھے ڈرا اور رجوع کرنے والے دل کے ساتھ آیا۔ ۔ (ان سے فرمایا جائے گا) سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ ،یہ ہمیشہ رہنے کا دن ہے۔ ان کے لیے جنت میں وہ تمام چیزیں ہوں گی جو وہ چاہیں گے اور ہمارے پاس اس سے بھی زیادہ ہے۔

رشد و ہدایت کا سر چشمہ:

رشد و ہدایت کا سر چشمہ دل ہوتا ہے۔ زبان  بولنے کا حاسہ ہے آنکھ دیکھنے کا کان سننے کا  مگر دل حواسِ خمسہ میں سے نہیں ۔ لیکن چھٹی حس جو ایک ہی ہے مگر وہ سننے ، بولنے ، محسوس کرنے اور سونگھنے کا کام کرتی ہے وہ انسان کا دل ہے۔ دل حواسِ خمسہ کامرکز و محور ہے ۔ اس لیے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جا بجا ہدایت کے معاملات میں ، غور و فکر اور تدبر کے معاملات کو دل کی طرف منسوب کیا ۔  اور مشرکین اور منافقین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :

خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْؕ-وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ٘-وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۠(۷) سورہ (البقرہ)

ترجمہ: کنزالعرفاناللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہرلگادی ہے اور ان کی آنکھوں پرپردہ پڑا ہواہے اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔

كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ (سورہ المؤمن آیہ 35)

ترجمہ: اللہ یوں ہی مہر کردیتا ہے متکبر سرکش کے سارے دل پر

كَذٰلِكَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِ الْمُعْتَدِیْنَ (سورہ یونس آیہ 74)

ترجمہ: ہم اسی طرح سرکشوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں

ان آیات میں اللہ تعالی مشرکین کے دل کی کیفیت کے بارے میں بتا رہے ہیں کہ اب یہ ہدایت کی طرف راغب نہیں ہو سکتے کیوں کہ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اب وہ سنتے تو ہیں دیکھتے تو ہیں ، چلتے پھرتے ہیں ، کھاتے پیتے ہیں ، اٹھتے بیٹھتے ہیں ، سوتے جاگتے ہیں مگر ان کے دل مردہ ہو چکے ہیں وہ سمجھ نہیں سکتے وہ غور و فکر نہیں کر سکتے ۔ فرمایا  دل اندھے ہو جاتے ہیں:

اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِهَاۤ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِهَاۚ-فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَ لٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ(۴۶) (سورہ  الحج)

ترجمہ: کنزالایمان تو کیا زمین میں نہ چلے کہ اُن کے دل ہوں جن سے سمجھیں یا کان ہوں جن سے سُنیں تو یہ کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰى قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا(24) (سورہ محمد)

ترجمہ: تو کیا وہ قرآن کو سوچتے نہیں یا بعضے دلوں پر اُن کے قفل لگے ہیں ۔

كَلَّا بَلْٚ- رَانَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۱۴) (سورہ المطففین)

ترجمہ: کنزالایمان کوئی نہیں بلکہ ان کے دلوں پر زنگ چڑھادیا ہے ان کی کمائیوں نے

حدیث مبارکہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’بے شک بندہ جب غلطی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے، اگر وہ اس سے باز آجائے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کے دل کو صاف کردیا جاتا ہے اور اگر وہ اس غلطی کا بار بار ارتکاب کرے تو اس سیاہی میں اضافہ کردیا جاتا ہے اور اگر وہ اس غلطی کا دوبارہ ارتکاب کرے تو یہ سیاہی اس کے پورے دل پر چھاجاتی ہے۔

‘‘ ابن ماجه، السنن : 724، رقم : 4244، کتاب الزهد، باب ذکر الذنوب

یہی وہ  ‘الران’  زنگ لگنے کی کيفیت ہے جس کو قرآن میں اﷲ رب العزت نے یوں ذکر فرمایا:

 کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ مَّا کَانُوْا يَکْسِبُوْنَO ’’ہر گز نہیں بلکہ ان کے کسب کی بنا پر ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے۔‘‘ المطففين، 83 : 14

  حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لکل شيئی صقالة وصقالةُ القلوب ذکر اﷲ. ’’ہرشے کو کوئی نہ کوئی چیز صاف کرنے والی ہوتی ہے اور دلوں کو صاف کرنے والا اﷲ کا ذکر ہے۔‘‘ خطيب تبريزی، مشکوٰة، کتاب الدعوات : 17، رقم : 2286

دلوں کے تالے ، دلوں کے زنگ اور دلوں کی تاریکیاں کیسے دور ہوں ؟ فرمایا اللہ تعالی کا ذکر کثرت سے کرو ، اب وہ ذکر جو اللہ تعالی کا کرنا ہے وہ کیسے؟ کیا زبان سے اللہ اللہ  کہنے سے دلوں کا زنگ دور ہو جاتا ہے ( بے شک زبان کی دائیگی سے فائدہ ہوتا ہے) جب تک وہ ذکر دل میں نہ اترے جب تک انسان کا دل اللہ کا ذاکر نہیں ہوتا دلوں کی صفائی ممکن نہیں جو دل اللہ تعالی کے ذکر سے غافل ہو جاتے ہیں وہ زبان سے لاکھ ذکر کریں ، کان سے لاکھ ذکر سنیں اور آنکھوں سے لاکھ دیکھتے پھریں جب دل غافل ہو جاتا ہے تو آہستہ آہستہ زبان ، آنکھ اور کان بھی غافل ہو جاتے ہیں دل کی غفلت کے بارے میں اللہ جل شانہ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْۚ-تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا(۲۸) (سورہ الکھف)

ترجمہ: کنزالایماناور اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے اور تمہاری آنکھیں انہیں چھوڑ کر اور پر نہ پڑیں کیا تم دنیا کی زندگی کا سنگار(زینت)چاہو گے اور اس کا کہا نہ مانو جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام حد سے گزر گیا۔

اب اللہ تعالی کا ذکر کیسے کریں؟ اللہ تعالی کا ذکر زبان سے جاری ہو مگر دل کی توجہ اللہ تعالی کی طرف ہو کہ انسان چل پھر رہا ہو، کھا پی رہا ہو، سو جاگ رہاہو   حالت جو بھی ہو اللہ تعالی کا ذکر جاری رہنا چاہیے اس طرح دل کی غفلت اور سیاہی ، زنگ دور ہوتے ہیں دل کے تالے کھل جاتے ہیں۔ اللہ جل شانہ ارشاد فرماتا ہے:

تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا٘-وَّ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ(۱۶)( سورہ السجدہ)

ترجمہ: کنزالعرفان ان کی کروٹیں ان کی خوابگاہوں سے جدا رہتی ہیں اور وہ ڈرتے اور امید کرتے اپنے رب کو پکارتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے میں سے خیرات کرتے ہیں ۔

الَّذِیْنَ  یَذْكُرُوْنَ  اللّٰهَ  قِیٰمًا  وَّ  قُعُوْدًا  وَّ  عَلٰى  جُنُوْبِهِمْ  وَ  یَتَفَكَّرُوْنَ  فِیْ  خَلْقِ  السَّمٰوٰتِ  وَ  الْاَرْضِۚ-رَبَّنَا  مَا  خَلَقْتَ  هٰذَا  بَاطِلًاۚ-سُبْحٰنَكَ  فَقِنَا  عَذَابَ  النَّارِ(۱۹۱) (سورہ آل عمران)

ترجمہ: کنزالعرفان جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلؤوں کے بل لیٹے ہوئے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں ۔ اے ہمارے رب!تو نے یہ سب بیکار نہیں بنایا۔ تو پاک ہے ، تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے ۔

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲)(سورہ الانفال)

ترجمہ: کنزالایمانایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے ان کے دل ڈرجائیں اور جب اُن پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کریں۔

جب انسان کا اوڑھنا بچھونا چلنا پھرنا سونا جاگنا اللہ تعالی کے ذکر کے ساتھ ہو جائے گا اور فرمایا کب پتہ چلے گا کہ اللہ تعالی کے ذکر کا تعلق دل سے ہو گیا ہے تو فرمایا جب اللہ تعالی کا ذکر کیا جائے اور ان کے دل کانپ اٹھیں اور دل میں خشیت الہی کا غلبہ ہو جائے تو سمجھ جائیں کہ دل زندہ ہیں اور زنگ دور ہو چکے ہیں اور اب دل ہدایت کا سر چشمہ بن چکا ہے۔ ایک انصاری صحابی جو رات کو کروٹ بدلتے تو اللہ کا ذکر کرتے ان کا حال بیان کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

حدیث مبارکہ : كان النبيُّ صلَّى الله عليه وسلَّم جالساً مع أصحابه في المسجد فقال لهم: يطلعُ عليكم الآن رجلٌ من أهل الجنة! فدخلَ رجلٌ من الأنصارِ تقطرُ لحيته ماءً من أثر الوضوء. فلما كان الغد، قال النبيُّ صلَّى الله عليه وسلَّم: يطلعُ عليكم الآن رجلٌ من أهل الجنة! فدخلَ الأنصاريُّ ذاته الذي دخل في اليوم الأول. ولما كان اليوم الثالث، قال النبيُّ صلَّى الله عليه وسلَّم: يطلعُ عليكم الآن رجلٌ من أهل الجنة! فإدا بالأنصاري نفسه يدخلُ المسجد! فلما انفضَّ المجلس، قامَ عبدُ الله بن عمرو بن العاص إلى الأنصاريِّ وقال له: لقد تخاصمتُ مع أبي، وأقسمتُ أن لا أدخلَ عليه ثلاثة أيام، فإن رأيتَ أن تستضيفني عندكَ حتى تمضي هذه الأيام! فقال له: أهلاً ومرحباً. فمكثَ عنده عبد الله ثلاثة أيام فلم يَرَهُ يقوم من الليل شيئاً، وليس له في النهار زيادة عبادات عما كان يفعله الصحابة، غير أنه إذا استيقظَ في الليلِ ذكرَ الله في فِراشه حتى يُؤذِّن المُؤذِّن لصلاةِ الفجر فيقوم فيُصلِّي! ولمَّا انقضتْ الأيام الثلاثة، وكادَ عبد الله يستصغرَ عمل الأنصاري، قال له: لم يكُنْ بيني وبين أبي هجرٌ ولا خُصومة، غير أن النبيَّ صلَّى الله عليه وسلَّم قال ثلاث مرات يطلع عليكم الآن رجلٌ من أهل الجنة، فكنتَ أنتَ في الثلاث، فأردتُ أن أعرفَ ما تفعل حتى نلتها! فقال الأنصاريُّ: ما هو إلا ما رأيتَ، غير أني لا أجدُ في نفسي لأحدٍ من المُسلمين غِشاً، ولا أحسِدُ أحداً على خير أعطاه الله إياه! فقال له عبد الله: هذه التي بلغتْ بكَ وهي التي لا نُطِيقُ!

رسول اللہ ﷺ ایک دن صحابہ کرام کے ساتھ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابھی تمہارے پاس ایک شخص آئے گا جو اہل جنت میں سے ہو گا ، تو ایک انصاری صحابی مسجد میں داخل ہوئے ان کی داڑھی کے بالوں سے وضو کے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے ۔ دوسرے دن رسول اللہ ﷺ نے پھر ارشاد فرمایا کہ تمہارے  پاس ابھی ایک جنتی آئے گا تو وہی  پہلے دن والا شخص مسجد میں داخل ہوا ۔ تیسرے دن پھر رسول اللہ و نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے پاس اہل جنت میں سے ایک شخص آئے گا تو تیسرے رو بھی وہی انصاری صحابی داخل ہوئے ۔ جب مجلس ختم ہوئی تو عبد اللہ بن عمرو بن العاص اس شخص کے پاس گئے اور کہا کہ میرا پنے باپ کے ساتھ جھگڑا چل رہا ہے اور میں نے قسم اٹھائی کہ اس مدت میں گھر نہیں جاوں گا اگر آپ اجازت دیں تو میں یہ مدت آپ کے پاس گزار لوں ۔ تو اس شخص نے کہا جی مرحبا۔ تو وہ عرصہ یعنی تین دن عبد اللہ بن عمرواس شخص کے گھر رہے راتوں میں وہ شخص قیام کرتا اور صبح کو عبادات کرتا جو کہ تمام صحابہ کرام کرتے تھے ۔ کوئی نئی چیز نہیں تھی ۔ سوائے اس بات کے کہ جب بھی وہ رات کو جاگتا اس کی آنکھ کھلتی وہ اللہ کا ذکر کرتا تھا یہاں تک کہ مؤذن اذان کہتا تو وہ اٹھ بیٹھتا اور نماز ادا کرتا تھا۔ تین دن اسی طرح گزر گئے آخری دن عبد اللہ بن عمرو کہتے ہیں میرے اور میرے باپ کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں سوائے اس بات کے کہ نبی کریم ﷺ نے تین دن یہ فرمایا کہ جو آدمی تمہارے پاس آنے والا ہے وہ جنتی ےہ تو آپ تین دن نمودار ہوئے تو مجھے تجسس تھا کہ میں معلوم کروں کہ وہ کون سا عمل ہے جس کی بدولت آپ کو یہ مقام ملا ۔ تو انصٓری نے کہا بس وہی ہے جو ااپ نے دیکھا ہے اور ایک بات اور بھی ہے کہ میرے دل میں کسی مسلمان بھائی کے لیے کینہ بغض نہیں ہے۔ اور نہ میں کسی سے حسد کرتا ہوں۔ تو عبد اللہ بن عمرو کہنے لگے بس یہی بات ہے جس کی بدولت تجھے یہ مقام ملا۔

اللہ تعالی کا ذکر دل سے کیا جائے اور انسان کا ہر لمحہ اللہ تعالی کے ذکر میں گزرے۔ پس اللہ تعالی کا زکر ڈلوں کو زندہ کر دیتا ہے۔یہ دل کی کیفیات ہیں جو اللہ تعالی کو مقصود ہیں اور اللہ تعالی یہی چاہتا ہے کہ انسان کا وجود اس کے ذکر میں مگن ہو جائے اور انسان کسی لمحے بھی اپنے رب لم  یزل سے غافل نہ ہو۔

دل کی اقسام:

          قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ہدایت اور گمراہی کا تعلق انسان کے دل سے کیا ہے اور کامیابی کا ضامن قلبِ سلیم اور قلبِ منیب ہیں ۔ اس کے علاوہ کئ مقامات پر انسان کے دل کی کیفیات کا ذکر کیا ہے جن میں چند ایک درج ذیل ہیں۔:

1: القلب السليم(سلامت دل یعنی کفر و شرک اور نفاق سے پاک دل) ۔۔۔إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ (سورہ الشعراء 89 )

2- القلب المنيب( اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے والا دل )۔۔۔ مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَن بِالْغَيْبِ وَجَاء بِقَلْبٍ مُّنِيبٍ (سورہ ق 33 )

3: القلب المخبت(ہدایت کی طرف جھک جانے والے دل) ۔۔۔فتُخْبِتَ لَهُ قُلُوبُهُمْ (سورہ حج 54)

4- القلب الوجل(کانپنے والے دل یعنی اللہ کے خوف میں )۔۔۔۔ وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ (سورہ مومنون 60 )

5- القلب التقي( شعائر اللہ کی تعظیم کرنے والے دل)۔۔۔ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ (سورہ حج 32 )

6- القلب المهدي(ایمان کی طرف ہدایت یافتہ دل)۔۔۔ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ (سورہ التغابن 11 )

7- القلب المطمئن( اللہ تعالی عبادت اور ذکر سے مطمئن دل)۔۔۔۔وتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللّه ( سورہ الرعد 28 )

8- القلب الحي ( زندہ و جاوید دل )۔۔۔إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ (سورہ ق 37 )

9- القلب المريض ( نفاق کی بیماری والے دل )۔۔۔فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ ( سورہ احزاب 32 )

10- القلب الأعمى (اندھے دل اللہ تعالی کی یاد سے غافل دل) ۔۔۔وَلَكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ ( سورہ حج 46 )

11- القلب اللاهي ( توجہ کے بغیر سننے والے یا توجہ نہ کرنے والے )۔۔۔لاهِيَةً قُلُوبُهُمْ (سورہ الانبیاء 3 )

12- القلب الآثم (گناہ گار دل)  ۔۔۔وَلاَ تَكْتُمُواْ الشَّهَادَةَ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ (سورہ البقرہ 283 )

13- القلب المتكبر ( تکبر کرنےوالا دل)۔۔۔قلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ (سورہ المومن 35 )

14- القلب الغليظ ( سخت دل ، سختی کرنے والا یعنی نرمی کا نہ ہونا)۔۔۔وَلَوْ كُنتَ فَظّاً غَلِيظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ (سورہ آل عمران 159 )

15- القلب المختوم( جس دل پر مہر لگ چکی ہو اور وہ ہدایت کی طرف نہ آ سکتا ہو) ۔۔۔وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ (سورہ الجاثیہ 23 )

16- القلب القاسي( سخت دل یعنی ہدایت کو نہ ماننے والے)۔۔۔وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً ( سورہ المائدہ 13 )

17- القلب الغافل( غافل دل) ۔۔۔وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا ( سورہ الکھف 28 )

18- الَقلب الأغلف ( وہ دل جو غلاف میں لپٹا ہو یعنی اس پر ہدایت آشکار نہ ہو سکتی ہو۔جیسے کسی چیز پر کپڑا رکھ دیں تا کہ سورج کی روشنی نہ پڑے )۔۔۔وَقَالُواْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ ( سورہ البقرہ 88 )

19- القلب الزائغ(ٹیڑھے دل کجی والے دل جو ہمیشہ کمیاں تلاش کرتے ہیں ) ۔۔۔فأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ (  سورہ آل عمران 7 )

20- القلب المريب ( شک و شبہ میں پڑنے والے دل )۔۔۔وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ (سورہ التوبہ 45 )

درج بالا آیات میں  کس طرح اللہ تعالی نے انسان  کے دل کو بیان کیا ہے اور ہدایت اور گمراہی کا مرکز دل کو قرار دیا ہے۔ اب قلب سلیم وہ دل ہے جو ہر قسم کی قلبی بیماریوں سے پاک دل ہو ، یعنی نفاق ، کفر ، شرک، شکوک و شبہات ، حسد ، بغض، کینہ ، نفرت ہر قسم کی بیماریوں سے پاک دل اللہ تعالی کو پسند ہے دوسرا دل دل منیب ہے یعنی لوٹنے پلٹنے والا دل ۔ یعنی جس سے گناہ اور نافرمانی سرزد ہو جائے مگر وہ للہ تعالی کی بارگاہ میں تائب ہونےو الا اور رجوع کرنے والا دل ہے ۔ اللہ جل شانہ نے قلب منیب کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ جو اللہ تعالی کی بارگاہ میں قلب منیب کے ساتھ حاضر ہو گا اللہ تعالی اسے فرمائے گا :

مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَ جَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِۙ(۳۳)ادْخُلُوْهَا بِسَلٰمٍؕ-ذٰلِكَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ(۳۴)لَهُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ فِیْهَا وَ لَدَیْنَا مَزِیْدٌ(۳۵)(سورہ  ق)

یعنی اے بندے جو میرے پاس قلب منیب لے کے آیا ہے تو سلامتی کے ساتھ داخل ہو جا ( جنت میں ) آج کا دن تیرے داخلے کا دن ہے۔ ایک تو قلب منیب کے مالک کو جنت کی خوشخبری مل گئی کامیابی مل گئی دوسرا اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تیرے لیے اس (جنت) میں سب کچھ ہے جو تو چاہے گا سب کچھ ملے گا اور ہاں ہمارے پاس تیری خواہش اور تمنا سے کچھ زیادہ بھی ہے جو تجھے عطا فرمائیں گے ۔اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ لأَهْلِ الْجَنَّةِ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ‏.‏ فَيَقُولُونَ لَبَّيْكَ رَبَّنَا وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ‏.‏ فَيَقُولُ هَلْ رَضِيتُمْ فَيَقُولُونَ وَمَا لَنَا لاَ نَرْضَى يَا رَبِّ وَقَدْ أَعْطَيْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ‏.‏ فَيَقُولُ أَلاَ أُعْطِيكُمْ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ‏.‏ فَيَقُولُونَ يَا رَبِّ وَأَىُّ شَىْءٍ أَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ فَيَقُولُ أُحِلُّ عَلَيْكُمْ رِضْوَانِي فَلاَ أَسْخَطُ عَلَيْكُمْ بَعْدَهُ أَبَدًا ‏ ( متفق علیہ)

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:’’اللہ تعالیٰ اہلِ جنت سے فرمائے گا کہ اے اہل جنت! توجنتی جواب دیں گے :ہم حاضر ہیں اے ہمارے پروردگار! تیری سعادت حاصل کرنے کے لیے اور ساری بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ اللہ فرمائے گا کیا تم لوگ خوش ہو؟ وہ لوگ جواب دیں گے کہ اے رب! ہم کیوں خوش نہ ہوں جب کہ تو نے ہم کو وہ چیز عطاء کی ہے جو اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں دی! تو اللہ تعالیٰ فرمائے گاکہ: کیا تم کو اس سے بہتر کوئی چیز نہ دوں؟ وہ لوگ عرض کریں گے کہ:اس سے بڑھ کر کونسی چیز ہو گی؟ اللہ تعالی فرمائے گا کہ: میں تم پر اپنی رضا مندی نازل کروں گا اب اس کے بعد کبھی تم پر ناراض نہ ہوں گا۔‘‘

حدیث مبارکہ : عَنْ صُهَيْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ "‏ إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ - قَالَ - يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى تُرِيدُونَ شَيْئًا أَزِيدُكُمْ فَيَقُولُونَ أَلَمْ تُبَيِّضْ وُجُوهَنَا أَلَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ وَتُنَجِّنَا مِنَ النَّارِ - قَالَ - فَيَكْشِفُ الْحِجَابَ فَمَا أُعْطُوا شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَى رَبِّهِمْ عَزَّ وَجَلَّ ‏ (صحیح مسلم حدیث نمبر 448 ، ترمذی حدیث نمبر 2552 ، ابن ماجہ 187 ، مسند احمد ج 4 ص 332 )

ترجمہ: ‏‏‏‏ سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب جنتی، جنت میں جا چکیں گے اس وقت اللہ تعالیٰ فرما دے گا تم اور کچھ زیادہ چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے: کیا تو نے ہمارے منہ سفید نہ کئے ہم کو جنت نہ دی جہنم سے نہ بچایا (اب اور کیا چاہیئے) پھر پردہ اٹھ جائے گا۔ اس وقت جنتیوں کو کوئی چیز اس سے بھلی معلوم نہ ہو گی یعنی اپنے پروردگار کی طرف دیکھنے سے۔

یعنی جو اللہ تعالی کے پاس قلب منیب لے کر جائیں گے اللہ تعالی جنت میں انہیں ہر نعمت عطا فرمائے گا جو وہ چاہیں گے اور اس کے علاوہ اللہ تعالی اپنا دیدار اور ہمیشہ رہنے والی خوشنودی عطا فرما دے گا اور فرمائے گا اب کبھی میں تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔

دعا کریں اللہ جل شانہ ہمیں ہر وقت توبہ و استغفار کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ ہر وقت اپنا ذکر فکر اور شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


Share:

1/7/22

شیخ نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللہ تعالی علیہ | Najm ul Din Kubra

محتصر احوال شیخ نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللہ تعالی علیہ (بانی سلسلہ کبرویہ)

شیخ احمد بن عمر محدث نجم الدین کبریٰ خیوقی (م:1221ء) شیخ ابو نجیب سہروردی کے مرید و خلیفہ تھے.

آپ 540ھ/1451ء کو "خیوق" خوارزم، موجودہ (ازبکستان) میں پیدا ہوئے.

 

کنیت اور القاب:۔

ان کی کنیت ابوالجناب تھی شیخ ولی تراش سے مشہور تھے اور لقب نجم الدین الکبری، طامۃ الکبری اور نجم الكبری تھا لقب کبریٰ اس وجہ سے کہ آپ علمی مناظرہ میں ہمیشہ غالب آجاتے تھے۔

ابتدائی تعلیم:۔

آپنے والد گرامی جو خود ایک عالم و صوفی تھے سے حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں ابولمعالی عبدالمنعم القراوی(نیشا پور)، ابوالفضل محمد بن سلیمان ہمدانی اور ابوالعلاء حسن بن احمد ہمدانی(ہمدان) اور ابو جعفر ہندہ (تبریز) شامل ہیں.

خرقہ تصوف:۔

۱ـ شیخ ابوالنجیب عبد القاہر ضیاء الدین سہروردی

۲ـ شیخ عمار یاسر بدیسی

۳ـ شیخ روز بھان مصری

۴ـ حضرت شیخ بابا فرج تبریزی

۵ـ شیخ عمار یاسر بدیسی ۶ـ شیخ اسماعیل قصری ان کے علاوہ بھی بہت سے مشائخ عظام کا تذکرہ ملتا ہے جن سے آپ نے روحانی فیوض و برکات حاصل کیں۔

آپ انتہائی خود دار و پر جوش انسان تھے لیکن اولیاء کرام کےفیوض و برکات اور تربیت نے آپ کی زندگی کو بدل ڈالا. آپ میں ایسی نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں کہ قطرے سے سمندر بن گئے۔

تصانیف:۔

منازل السائرين

فواتح الجمال

منہاج السالكين

ديوان شعر

الخائف الهائم عن لومۃ اللائم

طوالع التنوير

ہدايۃ الطالبين

رِسَالَۃ الطّرق۔

سر الحدس۔

عين الْحَيَاة فِی تَفْسِير الْقُرْآن۔

الطرق الی الله تعالی (بتحقیق میسم الصواف 2015ء، دمشق سے چھپ چکی ہے.

منسوبات:۔

شیخ نجم الدین کبریٰ سے منسوب تفسیر "تاویلات نجمیہ یا نجم القرآن"جو  بیروت سے شائع ہوئی ہے      نام کے اشتباہ کی وجہ سے   لوگ مغالطے کا شکار ہیں. حقیقت میں یہ تفسیر  شیخ نجم الدین کبریٰ کے خلیفہ شیخ نجم الدین رازی کا شاہکار ہے جسے "بحر الحقائق والمعاني في تفسير السبع المثاني" بھی کہتے ہیں۔

خلفا و مریدین:۔

-- شیخ مجد الدین بغدادی (م:1219ء) شیخ فرید الدین عطار آپ کے مرید تھے،

-- شیخ سعد الدین حموی (م:1252ء). شیخ صدر الدین قونوی شارح تعلیماتِ شیخ اکبر ایک عرصہ تک آپ کی صحبت میں رہے،

-- شیخ نجم الدین رازی صاحبِ "نجم القران"

-- شیخ رضی الدین علی لالہ (م:1244ء)،

-- شیخ سیف الدین باخرزی (م:1260ء)،

-- شیخ بہاء الدین ولد والد گرامی مولانا جلال الدین رومی کے نام خاص طور پر مشہور ہیں۔

-- اس سلسلے کے مشہور ولی مولانا یعقوب صرفی کاشمیری تھے۔ مجدد الف ثانی ؒ نے بھی مذکورہ طریقہ حاصل کیا تھا۔ (علمائے ہند کا شاندار ماضی ۱: ۱۵)

چنگیزی یلغار:۔

چنگیز خان نے 8لاکھ فوج کے ساتھ خوارزم پر حملہ کیا۔ شیخ نجم الدین احمد الکبریٰ کے کمالات اور مرتبہ دیکھ کر چنگیز خان کے بیٹے، جو جی خان اور حقتائے خان نے آپ کو کہلا بھیجا کہ آپ خوارزم سے چلے جائیں تاکہ آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ شیخ نے جواب بھجوایا کہ شہادت مقصود ِمومن ہوتی ہے، میں اب تک ان لوگوں کو رشد و ہدایت کرتا رہا اب مشکل وقت میں بھی ان کی پیشوائی کرنا میرا فرض ہے۔ اس کے بعد اپنے خلفاء کو جمع کیا اور فرمایا ترجمہ: اللہ کے حکم سے اٹھو اور کافروں کا مقابلہ کرو۔ پھر خود باہر نکلے اور ہاتھ میں نیزہ لیکر چنگیزوں پر حملہ کر دیا۔ آپ جہاد میں دلیری اور جوان مردی سے لڑتے رہے.

وفات:۔

آپ کی تاریخ وفات 10 جمادی الاول 618ھ بمطابق 2 جولائی 1221ء.

آپ کا مزار اورگنج، صوبہ داش اغوز، شمالی ازبکستان (موجودہ ترکمانستان) میں ہے۔

کبرویہ سلسلہ سے جاری سلسلے

کبرویہ سلسلے کی بعد میں بہت سی شاخیں بن گئیں۔ مثلاً فردوسیہ، ہمدانیہ،

نور بخشیہ صوفیہ،اشرفیہ وغیرہ.

سلسلے کا فروغ کچھ یوں ہوا:-

-- حضرت جنید بغدادی سے شیخ ابو نجیب سہروردی تک سلسلہ جنیدیہ

-- حضرت ابو نجیب سہروردی سے شیخ نجم الدین کبریٰ تک سہروردیہ

-- حضرت نجم الدین کبریٰ  سے امیر سید علی ہمدانی تک کبرویہ

-- حضرت امیر علی ہمدانی سے سید محمّد نور بخش تک ہمدانیہ

-- حضرت سید محمّد نور بخش سے اب تک میں سلسلہ نور بخشیہ 

شیخ سیف الدین باخرزی کے مرید شیخ بدرالدین سمرقندی نے فردوسی سلسلے کو ہندوستان میں روشناس کرایا۔ بعد میں یہی تینوں سلسلے سید علی ہمدانی، شیخ شرف الدین یحیٰ منیری (م1380ء) اور سید اشرف جہانگیر سِمنانی (م:1380ء) کے ناموں سے منسوب ہو کر خوب پھلے پھولے۔

سلسلۂ فردوسیہ کے متعلق اہل تصوف کی دو رائیں ملتی ہیں۔ بعض اسے شیخ نجم الدین کبریٰ سے منسوب کر کے کبرویہ میں داخل کرتے ہیں اور بعض سہروردیہ بتاتے ہیں۔ سلسلۂ فردوسیہ کا آغاز دہلی سے ہوا لیکن اس کی نشو و نما، شہرت اور وسعت بہار کے حصہ میں آئی۔ دیوریا میں خاندانِ ساداتِ عباسیان کے درمیان میں بھی قادریہ، چشتیہ، شطاریہ کے علاوہ خاص طور پر سلسلۂ فردوسیہ بھی مرکز توجہ رہا اور قاضی شاہ محمد عباس دیوریاوی کے ذریعے اسے بڑا فروغ حاصل ہو ا۔

(حیات قطب عالم سہروردی، مدثر حسین)

حوالہ جات

اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 22 صفحہ148،جامعہ پنجاب لاہور

 

Share:

1/6/22

جنت میں عورتوں کو کیا ملے گا؟ جنت کی نعمتیں | اللہ تعالی کی جنت

جنت میں مردوں کو تو حوریں ملیں گی مگر عورتوں کو کیا ملے گا؟:۔

اسکا جواب اس قدر مکمل اور خوبصورت کہ پھر کسی سوال کی ضرو رت نہ رہے گی مردوں کو جہاں حوریں ملیں گی وہیں عورتوں کے لیے بھی انعامات کا ذکر ہے:۔

 

💕جنت میں داخل ہونے والی خواتین کو اللہ تعالی نئے سرے سے پیدا فرمائیں گے اور وہ کنواری حالت میں جنت میں داخل ہوں گی۔

 1:  جنتی خواتین اپنے شوہروں کی ہم عمر ہوں گی۔

2:جنتی خواتین اپنے شوہروں سے ٹوٹ کر پیار کرنے والی ہوں گی۔

  قرآن مجید میں ان تمام باتوں کو سورہ واقعہ میں اس طرح بیان کیا ہے:

إنا أنشأھن إنشاء 0 فجعلنھن ابکارا 0 عربا اترابا 0 لاصحاب الیمین 0 ( 56: 38-35 )

ترجمہ: اہل جنت کی بیویوں کو ہم نئے سرے سے پیدا کریں گے اور انہیں باکرہ بنا دیں گے اپنے شوہروں سے محبت کرنے والیاں اور انکی ہم عمر ،یہ سب کچھ داہنے ہاتھ والوں کے لیے ہوگا۔ (سورہ واقعہ)

اہل ایمان میں مردوں کے ساتھ کوئی خاص معاملہ نہ ہوگا بلکہ ہر نفس کو اسکے اعمال کے بدولت نعمتیں عطا کی جائیں گی اور ان میں مرد و عورت کی کوئی تخصیص نہ ہوگی اور جنت کی خوشیوں کی تکمیل خواتین کی رفاقت میں ہوگی.

قرآن مجید میں فرمان الہی ہے

أدخلو ا الجنة أنتم و ازواجکم تحبرون 0 (43 70 )

ترجمہ:  داخل ہو جاؤ جنت میں تم اور تمہاری بیویاں تمہیں خوش کر دیا جائے گا " (سورہ زخرف )

اللہ تعالیٰ نے اہل جنّت کیلئے نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:وَلَكُمۡ فِيهَا مَا تَشۡتَهِيٓ أَنفُسُكُمۡ وَلَكُمۡ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ - نُزُلٗا مِّنۡ غَفُورٖ رَّحِيمٖ’’اور وہاں جس (نعمت) کو تمہارا جی چاہے گا تم کو ملے گی اور جو چیز طلب کرو گے تمہارے لیے موجود ہوگی (یہ) بخشنے والی مہربان ذات کی طرف سے مہمانی ہے۔‘‘(سورۃ فصلت:31-32)اور فرمایا:وَفِيهَا مَا تَشۡتَهِيهِ ٱلۡأَنفُسُ وَتَلَذُّ ٱلۡأَعۡيُنُۖ وَأَنتُمۡ فِيهَا خَٰلِدُونَ’’اور وہاں جو جی چاہے اور آنکھوں کو اچھا لگے (موجود ہوگا) اور (اے اہل جنت!) تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔‘‘(سورۃ الزخرف:71)معلوم ہے کہ انسانی نفوس سب سے زیادہ جس چیز کی خواہش رکھتے ہیں، وہ شادی ہے، لہٰذا جنّت میں مردوں اور عورتوں میں سے سب کے لئے اس خواہش کا انتظام ہوگا۔ جنّت میں عورت کی شادی اللہ تعالیٰ اس کے دنیا کے شوہر سے کرے گا، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: رَبَّنَا وَأَدۡخِلۡهُمۡ جَنَّٰتِ عَدۡنٍ ٱلَّتِي وَعَدتَّهُمۡ وَمَن صَلَحَ مِنۡ ءَابَآئِهِمۡ وَأَزۡوَٰجِهِمۡ وَذُرِّيَّٰتِهِمۡۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡعَزِيزُ ٱلۡحَكِيمُ’’اے ہمارے پروردگار! ان کو ہمیشہ رہنے کی بہشتوں میں داخل کر جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور جو ان کے باپ دادا اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے نیک ہوں ان کو بھی، بے شک تو غالب ،حکمت والا ہے۔‘‘(سورۃ الغافر:8)اور اگر کسی عورت نے دنیا میں شادی نہ کی ہوگی تو اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی کسی ایسے مرد سے شادی کا انتظام کرے گا جس سے اسے آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہوگی۔

جنت میں داخل ہونے والی خواتین اپنی مرضی اور پسند کے مطابق اپنے دنیاوی شوہروں کی بیویاں بنیں گی (بشرطیکہ وہ شوہر بھی جنتی ہوں) ورنہ اللہ تعالی انہیں کسی دوسرے جنتی سے بیاہ دیں گے جن خواتین کے دنیا میں (فوت ہونے کی صورت میں ) دو یا تین یا اس سے زائد شوہر رہے ہوں ان خواتین کو اپنی مرضی اور پسند کے مطابق کسی ایک کے ساتھ بیوی بن کر رہنے کا اختیار دیا جائے گا جسے وہ خود پسند کرے گی اس کے ساتھ رہے گی _

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم ہم میں سے بعض عورتیں (دنیا میں) دو ،تین یا چار شوہروں سے یکے بعد دیگرے نکاح کرتی ہے اور مرنے کے بعد جنت میں داخل ہو جاتی ہے وہ سارے مرد بھی جنت میں چلے جاتے ہیں تو ان میں سے کون اسکا شوہر ہو گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے فرمایا " اے ام سلمہ ! وہ عورت ان مردوں میں کسی ایک کا انتخاب کرے گی اور وہ اچھے اخلاق والے مرد کو پسند کرے گی _ اللہ تعالی سے گزارش کرے گی "اے میرے رب ! یہ مرد دنیا میں میرے ساتھ سب سے زیادہ اخلاق سے پیش آیا لہذا اسے میریے ساتھ بیاہ دیں۔

(طبرانی النھایہ لابن کثیرفی الفتن والملاحم الجز الثانی رقم الصفحہ 387 )

جنت میں حوروں سے افضل مقام نیک صالح عورت کو حاصل ہوگا مرد کو حوریں ملیں گی تو نیک مرد کی نیک بیوی ان حوروں کی سردار ہوگی۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے میں نے عرض کیا " اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم ! یہ فرمائیے کہ دنیا کی خاتوں افضل ہے یا جنت کی حور ؟ "

آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے فرمایا " دنیا کی خاتون کو جنت کی حور پر وہی فضیلت حاصل ہو گی جو ابرے (باہر والا کپڑا) کو استر (اندر والا کپڑا ) پر حاصل ہوتی ہے (طبرانی مجمع الزوائد الجز ء العاشر ،رقم الصفحہ (418-417 )

یہ ان انعامات کو مختصر سے بھی مختصر حصہ ہے جو جنت میں عورتوں کو عطا کیے جائیں گے جنتی عورت بیک وقت ستر جوڑے پہنے گی جو بہت عمدہ اور نفیس ہوں گے جنتی عورتیں حسن وجمال اور حسن سیرت کے اعتبار سے بے مثال ہوں گی _

عورت کے اندر فطری طور پر حیا کا مادہ مرد کی نسبت زیادہ ہے اور وفاداری و محبت بھی خالص ایک کے لیے رکھتی ہے اور حسن و جمال اور زینت کو پسند کرتی ہے ان تمام باتوں کی مناسبت سے جنت میں یہ عیش کریں گی اور نیک عورتیں حوروں پر افضل ہوں گی.

🌹سورہ الرحمن میں اللہ رب العزت کا یہ فرمان پھر دلوں کو سحر زدہ کر دیتا ہے

فبای آلاء ربکما تکذبان.

"پس تم اپنے رب کی کونسی کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے "

 

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive