Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

1/7/22

شیخ نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللہ تعالی علیہ | Najm ul Din Kubra

محتصر احوال شیخ نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللہ تعالی علیہ (بانی سلسلہ کبرویہ)

شیخ احمد بن عمر محدث نجم الدین کبریٰ خیوقی (م:1221ء) شیخ ابو نجیب سہروردی کے مرید و خلیفہ تھے.

آپ 540ھ/1451ء کو "خیوق" خوارزم، موجودہ (ازبکستان) میں پیدا ہوئے.

 

کنیت اور القاب:۔

ان کی کنیت ابوالجناب تھی شیخ ولی تراش سے مشہور تھے اور لقب نجم الدین الکبری، طامۃ الکبری اور نجم الكبری تھا لقب کبریٰ اس وجہ سے کہ آپ علمی مناظرہ میں ہمیشہ غالب آجاتے تھے۔

ابتدائی تعلیم:۔

آپنے والد گرامی جو خود ایک عالم و صوفی تھے سے حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں ابولمعالی عبدالمنعم القراوی(نیشا پور)، ابوالفضل محمد بن سلیمان ہمدانی اور ابوالعلاء حسن بن احمد ہمدانی(ہمدان) اور ابو جعفر ہندہ (تبریز) شامل ہیں.

خرقہ تصوف:۔

۱ـ شیخ ابوالنجیب عبد القاہر ضیاء الدین سہروردی

۲ـ شیخ عمار یاسر بدیسی

۳ـ شیخ روز بھان مصری

۴ـ حضرت شیخ بابا فرج تبریزی

۵ـ شیخ عمار یاسر بدیسی ۶ـ شیخ اسماعیل قصری ان کے علاوہ بھی بہت سے مشائخ عظام کا تذکرہ ملتا ہے جن سے آپ نے روحانی فیوض و برکات حاصل کیں۔

آپ انتہائی خود دار و پر جوش انسان تھے لیکن اولیاء کرام کےفیوض و برکات اور تربیت نے آپ کی زندگی کو بدل ڈالا. آپ میں ایسی نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں کہ قطرے سے سمندر بن گئے۔

تصانیف:۔

منازل السائرين

فواتح الجمال

منہاج السالكين

ديوان شعر

الخائف الهائم عن لومۃ اللائم

طوالع التنوير

ہدايۃ الطالبين

رِسَالَۃ الطّرق۔

سر الحدس۔

عين الْحَيَاة فِی تَفْسِير الْقُرْآن۔

الطرق الی الله تعالی (بتحقیق میسم الصواف 2015ء، دمشق سے چھپ چکی ہے.

منسوبات:۔

شیخ نجم الدین کبریٰ سے منسوب تفسیر "تاویلات نجمیہ یا نجم القرآن"جو  بیروت سے شائع ہوئی ہے      نام کے اشتباہ کی وجہ سے   لوگ مغالطے کا شکار ہیں. حقیقت میں یہ تفسیر  شیخ نجم الدین کبریٰ کے خلیفہ شیخ نجم الدین رازی کا شاہکار ہے جسے "بحر الحقائق والمعاني في تفسير السبع المثاني" بھی کہتے ہیں۔

خلفا و مریدین:۔

-- شیخ مجد الدین بغدادی (م:1219ء) شیخ فرید الدین عطار آپ کے مرید تھے،

-- شیخ سعد الدین حموی (م:1252ء). شیخ صدر الدین قونوی شارح تعلیماتِ شیخ اکبر ایک عرصہ تک آپ کی صحبت میں رہے،

-- شیخ نجم الدین رازی صاحبِ "نجم القران"

-- شیخ رضی الدین علی لالہ (م:1244ء)،

-- شیخ سیف الدین باخرزی (م:1260ء)،

-- شیخ بہاء الدین ولد والد گرامی مولانا جلال الدین رومی کے نام خاص طور پر مشہور ہیں۔

-- اس سلسلے کے مشہور ولی مولانا یعقوب صرفی کاشمیری تھے۔ مجدد الف ثانی ؒ نے بھی مذکورہ طریقہ حاصل کیا تھا۔ (علمائے ہند کا شاندار ماضی ۱: ۱۵)

چنگیزی یلغار:۔

چنگیز خان نے 8لاکھ فوج کے ساتھ خوارزم پر حملہ کیا۔ شیخ نجم الدین احمد الکبریٰ کے کمالات اور مرتبہ دیکھ کر چنگیز خان کے بیٹے، جو جی خان اور حقتائے خان نے آپ کو کہلا بھیجا کہ آپ خوارزم سے چلے جائیں تاکہ آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ شیخ نے جواب بھجوایا کہ شہادت مقصود ِمومن ہوتی ہے، میں اب تک ان لوگوں کو رشد و ہدایت کرتا رہا اب مشکل وقت میں بھی ان کی پیشوائی کرنا میرا فرض ہے۔ اس کے بعد اپنے خلفاء کو جمع کیا اور فرمایا ترجمہ: اللہ کے حکم سے اٹھو اور کافروں کا مقابلہ کرو۔ پھر خود باہر نکلے اور ہاتھ میں نیزہ لیکر چنگیزوں پر حملہ کر دیا۔ آپ جہاد میں دلیری اور جوان مردی سے لڑتے رہے.

وفات:۔

آپ کی تاریخ وفات 10 جمادی الاول 618ھ بمطابق 2 جولائی 1221ء.

آپ کا مزار اورگنج، صوبہ داش اغوز، شمالی ازبکستان (موجودہ ترکمانستان) میں ہے۔

کبرویہ سلسلہ سے جاری سلسلے

کبرویہ سلسلے کی بعد میں بہت سی شاخیں بن گئیں۔ مثلاً فردوسیہ، ہمدانیہ،

نور بخشیہ صوفیہ،اشرفیہ وغیرہ.

سلسلے کا فروغ کچھ یوں ہوا:-

-- حضرت جنید بغدادی سے شیخ ابو نجیب سہروردی تک سلسلہ جنیدیہ

-- حضرت ابو نجیب سہروردی سے شیخ نجم الدین کبریٰ تک سہروردیہ

-- حضرت نجم الدین کبریٰ  سے امیر سید علی ہمدانی تک کبرویہ

-- حضرت امیر علی ہمدانی سے سید محمّد نور بخش تک ہمدانیہ

-- حضرت سید محمّد نور بخش سے اب تک میں سلسلہ نور بخشیہ 

شیخ سیف الدین باخرزی کے مرید شیخ بدرالدین سمرقندی نے فردوسی سلسلے کو ہندوستان میں روشناس کرایا۔ بعد میں یہی تینوں سلسلے سید علی ہمدانی، شیخ شرف الدین یحیٰ منیری (م1380ء) اور سید اشرف جہانگیر سِمنانی (م:1380ء) کے ناموں سے منسوب ہو کر خوب پھلے پھولے۔

سلسلۂ فردوسیہ کے متعلق اہل تصوف کی دو رائیں ملتی ہیں۔ بعض اسے شیخ نجم الدین کبریٰ سے منسوب کر کے کبرویہ میں داخل کرتے ہیں اور بعض سہروردیہ بتاتے ہیں۔ سلسلۂ فردوسیہ کا آغاز دہلی سے ہوا لیکن اس کی نشو و نما، شہرت اور وسعت بہار کے حصہ میں آئی۔ دیوریا میں خاندانِ ساداتِ عباسیان کے درمیان میں بھی قادریہ، چشتیہ، شطاریہ کے علاوہ خاص طور پر سلسلۂ فردوسیہ بھی مرکز توجہ رہا اور قاضی شاہ محمد عباس دیوریاوی کے ذریعے اسے بڑا فروغ حاصل ہو ا۔

(حیات قطب عالم سہروردی، مدثر حسین)

حوالہ جات

اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 22 صفحہ148،جامعہ پنجاب لاہور

 

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive