Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

10/11/21

میلاد النبی ﷺ | خطابت کے لیے قیمتی الفاظ | وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ | حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا قصیدہ | وَرَدْتَ نارَ الخَلِيلِ مُكْتَتَمًا في صُلْبِهِ أنتَ، كيفَ يَحتَرِقُ

وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا۔


اس آیہ مبارکہ میں کچھ باتیں ظاہر ہوتی ہیں: (اللہ نے عہد لیا انبیاء کرام سے حالانکہ اللہ تعالی نے نبی بھیجنا نہیں تھا کسی بھی نبی کے زمانے میں تو معلوم ہوتا ہے اللہ چاہتا تھا کہ تمام انبیاء کرام اپنے اپنے زمانے میں میرے محبوب کو ذکر کرتے رہیں۔)

اس آیہ مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پاک نے سب سے پہلے اپنے محبوب کو پیدا فرمایا تھا اور حضور ﷺ کا عہدہ بھی چن لیا تھا  اس لیے اب ان سے عہد لیا جا رہا ہے یعنی پہلے سب کچھ طے ہو چکا ہے۔حضورﷺ کے فضائل، کمالات، درجات، عہدے ، مقامِ محمود سب کچھ طے ہو چکا تھا۔  حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت اللہ نے تیرے نبی کے نور کو ساری کائنات سے پہلے پیدا فرمایا: (اس پر کچھ لوگوں نے کہا کہ سب سے پہلے لوح و قلم کو پیدا کیا گیا ) میں نے کہا ہاں ایسا ہی ہے جب کائنات کی تخلیق کی بات کی جائے تو ایسا ہی ہے لوح و قلم کوسب سے پہلے  پیدا کیا مگر سن! یہ لوح وقلم کائنات کا راز ہیں ان پر کائنات کی ہر بات لکھی گئی ہے کائنات کے راز لکھے گئے ، تو لوح و قلم کی تخلیق کا مقصد کائنات کے رازوں کو لکھنا تھا  :: لوح وقلم کی تخلیق سے پہلے یہ سارا منصوبہ جو اللہ تعالی نے بنایا تھا کائنات کی تخلیق کا ،وہ اپنے محبوب ﷺ کے لیے تھا ۔تو  کائنات کی تخلیق کا مقصد مصطفے ﷺ ہیں تخلیق کائنات کا سبب مصطفے ﷺ ہیں، (عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھما حدیث قدسی بیان کرتے ہیں::وعزتي و جلالي لولاک ما خلقت الجنّة ولولاک ما خلقت الدّنيا. ’’میری عزت و عظمت کی قسم، اگر میں آپ کو پیدا نہ کرتا تو جنت کو بھی پیدا نہ کرتا اور اگر آپ کو پیدا نہ کرتا تو پھر دنیا کو بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘ ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب):: لوح و قلم کائنات کا راز ہیں جو بعد میں ہے اور مصطفے ﷺ خدا کا راز ہیں  جو سب سے پہلے ہے۔)

v  ایک یہودی جو کہ مکہ میں تجارت کے لیے آیا تھا کہ ایک دن صبح صبح لوگوں میں شور کرتا آیا اے قریشیو جلدی آو آج کسی کے گھر میں بچہ پیدا ہوا ہے ۔ کسی سردار کے گھر تو حضرت عبد المطلب کے گھر گئے آپ کے ہاں پوتا پیدا ہوا تو دیکھنے کی اجازت دی گئی جب اس نے دیکھا  پشت پر مہر نبوت دیکھی اور چیخا اور بولا ۔ ذھبت النبوۃ من بنی اسرائیل۔ اے بنی اسماعیل اے قریشیو مبارک ہو اللہ کا آخری نبی تم میں پیدا ہو گیا ہے۔

v  دوسری طرف حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں 7 یا 8 سال کا لڑکا تھا کہ ایک دن مدینہ میں ایک یہودی عالم شور کرنے لگا لوگو جلدی آو لوگ جب جمع ہو گئے تو کہنے لگا ‘‘احمد کا ستارہ طلوع ہو گیا ہے آج رات کسی بھی لمحے پیدا ہو سکتا ہے’’

محمد سہیل عارف معینیؔ لاہور

 

مِنْ قَبْلِها طِبْتَ في الظِّلالِ وفي

مُسْتَوْدَعٍ حيثُ يُخْصَفُ الوَرَقُ

 

ثُمَّ هَبَطْتَ البِلادَ لا بَشَ رٌ

أنتَ ولا مُضْغةٌ ولا عَلَقُ

 

بَلْ نُطْفةٌ تَرْكَبُ السَّفِينَ وقدْ

أَلْجَمَ نَسْرًا وأهْلَهُ الغَرَقُ

 

وَرَدْتَ نارَ الخَلِيلِ مُكْتَتَمًا

في صُلْبِهِ أنتَ، كيفَ يَحتَرِقُ

 

تُنْقَلُ مِنْ صَالِبٍ إلى رَحِمٍ

إذا مَضىٰ عالَمٌ بَدا طَبَقُ

 

حتَّى احْتَوَىٰ بَيتُكَ المُهَيْمِنُ مِنْ

خِنْدِفَ عَلْياءَ تَحْتَها النُّطُقُ

 

وأنتَ لمَّا وُلِدْتَ أشْرَقَتِ الْ

أرْضُ وضاءَتْ بِنُورِكَ الأُفُقُ

 

فنحنُ في ذلكَ الضِّياءِ وفي النْـ

ـنُورِ، وسُبْلَ الرَّشادِ نَخْتَرِقُ

 

 

عید نبوی کا زمانہ آگیا

آ گیا موسم سوہانا آ گیا

نعرۂِ صل علی کی دھوم ہے

وجد میں سارا زمانہ آ گیا

ہر ستارے میں بڑھی ہے روشنی

ہر کلی کو مسکرانا آ گیا

میرے ہونٹوں پر ہے نعت مصطفےﷺ

ہاتھ بخشش کا خزانہ آ گیا

 

Share:

عید نبوی ﷺ کا زمانہ آ گیا || میلاد مصطفے ﷺ قیمتی الفاظ خطابت کے کیے || لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الأفْلَاکَ

1: حضرت حسان بِن ثابِت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں سات یا آٹھ سال کی عمر کا ایک ہوش و گوش والا سمجھ دار بچہ تھا۔ میں نے سُنا مدینہ کا ایک یہودی صبح کے وقت اپنے قلعہ کی چھت پر کھڑا ہُوا اور پُکار کر کہنے لگا: اے گروہِ یہود! دیکھو۔ آس پاس کے سارے یہودی جمع ہو گئے ، میں سُن رہا تھا۔ اُن لوگوں نے اُس سے کہا “ تیری خرابی ہو کیوں شور مچاتا ہے؟“ یہودی نے چھت پر سے کہا: احمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا ستارہ طلوع ہو گیا ہےجِس کو آج رات میں کِسی وقت پیدا ہونا ہے-


 2: حضرت عُثمان بِن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میری والدہ نے بتایا کہ میں اُس رات میں حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی جِس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی وِلادت ہوئی۔ میں گھر میں ہر طرف روشنی اور نور پاتی اور محسوس کرتی جیسے کہ ستارے قریب سے قریب تر ہو رہے ہیں۔ حتٰی کہ مُجھے گُمان ہُوا کہ کیا یہ میرے اوپر گِر پڑیں گے۔ پھر جب حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے وضع حمل کیا تو ایک نور بر آمد ہُوا جِس سے کہ ہر شے روشن ہو گئی یہاں تک کہ میں نور کے سوا کُچھ نہ دیکھتی تھی۔ بِلا شُبہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی والدہ ماجدہ نے وِدلاتِ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے وقت ایسے نور کو دیکھا جِس سے اُن پر شام کے مُحلات روشن ہو گئے۔

3: حضرت عرباض بِن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: میں اُس وقت اللہ کا عبد اور خاتم النبیین تھا جب کہ حضرت آدم علیہ السلام ہنوز اپنے خمیر میں تھے اور میں تُم لوگوں پر واضح کرتا ہوں کہ میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دُعا اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کی بشارت اپنی والدہ کے خواب کی تعبیر ہوں اور انبیا علیہ السلام کی مائیں ایسے ہی خواب دیکھا کرتی تھیں۔

 

قرآن و حدیث اور ان کی تشریحات و توضیحات کا تمام ذخیرہ چھان لیں ہمیں از اوّل تا آخر ایک ہستی، ایک ذات اور ایک شخصیت دکھائی دیتی ہے جو اس پوری بزم کون و مکان میں محبوبیت عظمیٰ کے مقام پر فائز ہے اور وہ ہے ہمارے آقائے نامدار حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس۔ تمام خلق میں کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کیسے ہوتا کہ خالق نے تواس عالم و ارض و سماء میں جن و انس اور موت وحیات کا نظام بنایا ہی اسی کے لیے ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ قدسی کا مضمون ملاحظہ کریں جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 وعزتي و جلالي لولاک ما خلقت الجنّة ولولاک ما خلقت الدّنيا. ’’میری عزت و عظمت کی قسم، اگر میں آپ کو پیدا نہ کرتا تو جنت کو بھی پیدا نہ کرتا اور اگر آپ کو پیدا نہ کرتا تو پھر دنیا کو بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘ ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 5: 227، رقم:8031

ایک اور حدیث جسے کثیر ائمہ و محدثین نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے: لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الأفْلَاکَ. ’’محبوب! اگر آپ کو پیدا نہ کرتا تو کائنات ہست و بود کو بھی وجود میں نہ لاتا۔‘‘

 1. عجلوني، کشف الخفاء، 2: 214، رقم: 2123

 2. آلوسي، تفسير روح المعاني، 1: 51

معروف مفسر امام آلوسی رحمۃ اللہ علیہ (م 1270ھ) نے تفسیر روح المعانی میں حقیقت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان میں اس حدیث کو بیان کیا ہے پھر اسی روایت کو سورۃ الفتح کی آیت إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا میں ’’لَكَ‘‘ کی تفسیر میں لکھا ہے: أن لام (لَکَ) للتعليل و حاصله أظهرنا العالم لأجلک و هو في معني ما يرونه من قوله سبحانه (لولاک لولاک ما خلقت الأفلاک). ’’(لَکَ) میں لام تعلیل کے لئے ہے، حاصل کلام یہ ہے کہ ہم نے عالم کو آپ کی خاطر ظاہر کیا، اس کا یہ معنی اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں بیان ہوا ہے کہ (اے حبیب! اگر آپ نہ ہوتے تو میں اس کائنات کو پیدا نہ کرتا۔

‘‘ آلوسي، تفسير روح المعاني، 26: 129

معلوم ہوا کہ مفسرین اور دیگر ائمہ نے اس روایت پر اعتماد کیا ہے۔ الفاظ میں فرق تو ہوسکتا ہے لیکن معناً یہ روایت بالکل درست ہے، نور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اوّلیت تخلیق کے حوالے سے ذخیرۂ کتب احادیث میں کئی روایات ملتی ہیں۔

 علامہ عجلونی (1162ھ) نے مذکورہ بالا روایت کے بارے میں لکھا ہے۔ و أقول لکن معناه صحيح و إن لم يکن حديثا. ’’میں کہتا ہوں کہ اگر یہ حدیث نہ بھی ہو تو بھی یہ روایت معنًا صحیح ہے۔‘‘ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق کے باب میں یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ائمۂِ عقائد کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کی (تخلیق کے اعتبار سے پوری کائنات پر) حقیقی اوّلیت ہر قسم کے شک و شبہ اور اختلاف سے بالاتر ہے۔

 عجلوني، کشف الخفاء، 2: 214، رقم: 3123

وہ ائمہ جو عقائد میں سند کا درجہ رکھتے ہیں جن کی عمریں توحید اور شرک کا صحیح مفہوم سمجھانے میں صرف ہوئیں وہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے پہلے تخلیق کیا گیا انہی ائمہ میں سے ایک امام ابو الحسن اشعری ہیں جو عقائد میں امام علی الاطلاق ہیں، حدیث نور کی شرح میں فرماتے ہیں:

اﷲ تعالي نور، کالأنوار، والرّوح النّبوية القدسية لمعة من نوره والملئکة شرر تلک الأنوار، وقال صلي الله عليه وآله وسلم أوّل ما خلق اﷲ نوري ومن نوري خلق کل شئ. ’’اللہ تعالیٰ اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحِ مقدّسہ اسی نور کی ایک چمک ہے اور فرشتے انہی انوار کا پرتو ہیں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرا نور پیدا کیا اور باقی ہر چیز میرے نور سے پیدا کی۔‘‘

 فاسي، مطالع المسّرات: 265

 ائمہ کاملین اور اجل محدثین و مفسرین کرام نے تخلیقِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے مروی احادیث کو قبول کر کے اپنی گراں قدر تصانیف میں جگہ دی ہے اور پھر ان کی تشریح و تعبیر کر کے یہ ثابت کیا کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مخلوقات سے نہ صرف افضل و برتر ہیں بلکہ وجہ تخلیقِ کائنات بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں یعنی کائنات کو وجود میں لانے کا واسطہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹھہرے، بقول مولانا ظفر علی خان

گر ارض و سما کی محفل میں لَولَاکَ لَمَا کا شور نہ ہو

یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میں یہ نور نہ ہو سیاروں میں

 مولانا ظفر علی خان تخلیقِ کائنات میں واسطۂِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک نعتیہ شعر میں اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے کتنی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔

وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو

جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے

 احمد رضا خان، حدائق بخشش، 1: 62

 

 

Share:

10/3/21

ایصالِ ثواب کے متعلق احادیث | حدیث مبارکہ کی روشنی میں ایصالِ ثواب

1: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : مَرَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلٰی قَبْرَيْنِ، فَقَالَ : إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي کَبِيرٍ، أَمَّا هٰذَا فَکَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ، وَأَمَّا هٰذَا فَکَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيْمَةِ. ثُمَّ دَعَا بِعَسِيْبٍ رَطْبٍ، فَشَقَّهُ بِاثْنَيْنِ فَغَرَسَ عَلٰی هٰذَا وَاحِدًا وَعَلٰی هٰذَا وَاحِدًا. ثُمَّ قَالَ : لَعَلَّهُ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

1.      أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأدب، باب الغيبة، 5 / 2249، الرقم : 5705، و

2.      مسلم في الصحيح، کتاب الطهارة، باب الدليل علی نجاسة البول ووجوب الاستبراء منه، 1 / 240، الرقم : 292،

3.      والنسائي في السنن، کتاب الطهارة، باب التنزه عن البول، 1 / 30، الرقم : 31،

4.      وأبو داود في السنن،کتاب الطهارة، باب الاستبراء من البول، 1 / 6، الرقم : 20. ’’

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اِن دونوں مُردوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور اُنہیں کسی بڑے گناہ کے سبب عذاب نہیں دیا جا رہا. ان میں سے ایک تو اپنے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا. جب کہ دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تر ٹہنی منگوائی اور چیر کر اُس کے دو حصے کر دیئے۔ ایک حصہ ایک قبر پر اور دوسرا حصہ دوسری قبر پر نصب کر دیا. پھر فرمایا : جب تک یہ خشک نہ ہوں گی ان کے عذاب میں تخفیف رہے گی.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

 

2: عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمًا إِلٰی سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ حِيْنَ تُوُفِّيَ، فَلَمَّا صَلّٰی عَلَيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَوُضِعَ ِفي قَبْرِهِ وَسُوِّيَ عَلَيْهِ سَبَّحَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَسَبَّحْنَا طَوِيْـلًا ثُمَّ کَبَّرَ فَکَبَّرْنَا، فَقِيْلَ : يا رَسُوْلَ اﷲِ، لِمَ سَبَّحْتَ ثُمَّ کَبَّرْتَ؟ قَالَ : لَقَدْ تَضَايَقَ عَلٰی هٰذَا الْعَبْدِ الصَّالِحِ قَبْرُهُ حَتّٰی فَرَّجَهُ اﷲُ عزوجل عَنْهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

1.      أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 360، الرقم : 14916. ’’

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اُن کی طرف گئے۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی نماز جنازہ پڑھ لی، اُنہیں قبر میں رکھ دیا گیا اور قبر کو برابر کر دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تسبیح فرمائی. پس ہم نے بھی طویل تسبیح کی. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر فرمائی تو ہم نے بھی تکبیر کہی. اِس پر عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! آپ نے تسبیح و تکبیر کیوں فرمائی؟ ارشاد ہوا : اس نیک بندے پر قبر تنگ ہو گئی تھی. (ہم نے تسبیح و تکبیر کی) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اِس پر فراخی فرما دی.‘‘ اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔

 

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَـلَاثَةٍ : إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُوْ لَهُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه.

1.      أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الوصية، باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته، 3 / 1255، الرقم : 1631،

2.      والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 28، الرقم : 38،

3.      وأبو داود في السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء في الصدقة عن الميت، 3 / 117، الرقم : 2880،

4.      وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب ثواب معلم الناس الخير، 1 / 88، الرقم : 239. ’’

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے (ان کا اجر اسے برابر ملتا رہتا ہے) : ایک وہ صدقہ جس کا نفع جاری رہے، دوسرا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور تیسری وہ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔‘‘

 

3: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : تُرْفَعُ لِلْمَيِتِ بَعْدَ مَوْتِهِ دَرَجَتُهُ، فَيَقُوْلُ : أَي رَبِّ، أَيُّ شَيئٍ هٰذِهِ؟ فَيُقَالُ : وَلَدُکَ اسْتَغْفَرَ لَکَ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ. أخرجه البخاري في الأدب المفرد / 28، الرقم : 36 ’’

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ موت کے بعد جب میت کے لیے ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے تو وہ عرض کرتی ہے : اے رب! یہ کیا ہے؟ اُسے کہا جاتا ہے : تیرے بیٹے نے تیرے لیے بخشش کی دعا کی ہے (یہ اِسی استغفار کے سبب ہے).‘‘ اِسے امام بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔

 

4: عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ : يَتْبَعُ الرَّجُلَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْحَسَنَاتِ أَمْثَالُ الْجِبَالِ، فَيَقُوْلُ : أَنّٰی هٰذَا؟ فَيُقَالُ : بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِکَ لَکَ. رَوَاهُ الْهَيْثَمِيُّ.

1.      أخرجه الهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 210،

2.      والسيوطي في شرح الصدور / 296، الرقم : 20. ’’

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : روزِ قیامت ایک شخص کو پہاڑوں جتنی نیکیاں ملیں گی وہ (حیران ہو کر) پوچھے گا : یہ کہاں سے آئیں؟ اُسے بتایا جائے گا : تیرے بیٹے کا تیرے لیے مغفرت کی دعا کرنا اِس کا سبب ہے۔‘‘ اِسے امام ہیثمی نے روایت کیا ہے۔

 

5: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا الْمَيِتُ فِي قَبْرِهِ إِلَّا يَشْبَهُ الْغَرِيْقَ الْمُتَهَوِّبََ يَنْتَظِرُ دَعْوَةً مِنْ أَبٍ أَوْ أُمٍّ أَوْ وَلَدٍ أَوْ صَدِيْقٍ ثِقَةٍ، فَإِذَا لَحِقَتْهُ کَانَتْ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيْهَا، وَإِنَّ اﷲَ لَيُدْخِلَ عَلٰی أَهْلِ الْقُبُوْرِ مِنْ دُعَاءِ أَهْلِ الْوَرِّ، أَمْثَالَ الْجِبَالِ، وَإِنَّ هَدْيَةَ الْإِحْيَاءِ لِـلْأَمْوَاتِ : الْاسْتِغْفَارُ لَهُمْ، وَالصَّدَقَةُ عَنْهُمْ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

1.      أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 4 / 103، الرقم : 6323،

2.      والبيهقي في شعب الإيمان، 6 / 203، الرقم : 7905،

3.      والهندي في کنز العمال، 15 / 317، الرقم : 42971،

4.      والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 728، الرقم : 2355،

5.      والغزالي في إحياء علوم الدين، 4 / 492. ’’

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قبر میں میت کی مثال ڈوبنے والے اور فریاد کرنے والے کی طرح ہے جو اپنے ماں باپ، بھائی یا کسی دوست کی دعا کا منتظر رہتا ہے۔ جب اُسے دعا پہنچتی ہے تو اُسے دنیا جہاں کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوتی ہے۔ بے شک اہلِ دنیا کی دعا سے اللہ تعالیٰ اہل قبور کو پہاڑوں کے برابر اجر عطا فرماتا ہے۔ مُردوں کے لئے زندوں کا بہترین تحفہ اُن کے لیے استغفار اور صدقہ کرنا ہے۔‘‘

 

6: عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا عَلٰی أَحَدِکُمْ إِذَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ تَطَوُّعاً فَيَجْعَلُهَا عَنْ أَبَوَيْهِ، فَيَکُوْنُ لَهُمَا أَجْرُهَا وَلَا يُنْقَصُ مِنْ أَجْرِهِ شَيءٌ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

1.      أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 358، الرقم : 7726،

2.      والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 138. ’’

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب کوئی شخص نفلی صدقہ کرے اور اس کو اپنے والدین کی طرف سے کر دے، تو اس کے والدین کو اس کا (پورا) اجر ملتا ہے جب کہ اس کے اپنے اجر میں سے بھی کچھ کمی نہیں ہوتی.‘‘ اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

 

7: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَا مِنْ أَهْلِ بَيْتٍ يَمُوْتُ مِنْهُمْ مَيِتٌ، فَيَتَصَدَّقُوْنَ عَنْهُ بَعْدَ مَوْتِهِ إِلَّا أَهْدَاهَا إِلَيْهِ جِبْرِيْلُ. عَلٰی طَبَقٍ مِنْ نُوْرٍ، ثُمَّ يَقِفُ عَلٰی شَفِيْرِ الْقَبْرِ، فَيَقُوْلُ : يَا صَاحِبَ الْقَبْرِ الْعَمِيْقِ، هٰذِهِ هَدِيَةٌ أَهْدَاهَا إِلَيْکَ أَهْلُکَ فَاقْبَلْهَا. فَيُدْخَلُ عَلَيْهِ فَيَفْرَحُ بِهَا وَيَسْتَبْشِرُ وَيَحْزَنُ جِيْرَانُهُ الَّذِيْنَ لَا يُهْدَی إِلَيْهِمْ بِشَيئٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ..

1.      أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 315، الرقم : 6504،

2.      والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 139. ’’

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیںکہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جب اہل خانہ میں سے کوئی اپنے فوت شدہ عزیز کے لیے صدقہ و خیرات کر کے ایصال ثواب کرتا ہے تو اُس کے اِس ثواب کا تحفہ حضرت جبرائیل ں ایک خوبصورت تھال میں رکھ کر اس قبر والے کے سرہانے جا کر پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں : اے صاحبِ قبر! تیرے فلاں عزیز نے یہ ثواب کا تحفہ بھیجا ہے تو اِسے قبول کر. وہ شخص اِسے قبول کر لیتا ہے، وہ اس پر خوش ہوتا ہے اور (دوسرے قبر والوں کو) خوشخبری سناتا ہے اور اُس کے پڑوسیوں میں سے جن کو اس قسم کا کوئی تحفہ نہ ملا ہو وہ غمگین ہوتے ہیں.‘‘

 

عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّهُ سَأَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِذَا نَتَصَدَّقُ عَنْ مَوْتَانَا وَنَحُجُّ عَنْهُمْ وَنَدْعُوْ لَهُمْ فَهَلْ يَصِلُ ذَالِکَ إِلَيْهِمْ؟ قَالَ : نَعَمْ، وَيَفْرَحُوْنَ بِهِ کَمَا يَفْرَحُ أَحَدُکُمْ بِالطَّبَقِ إِذَا أُهْدِيَ إِلَيْهِ. رَوَاهُ الْعَيْنِيُّ.

1.      أخرجه بدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 119.

 ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اللہ! اگر ہم اپنے فوت ہونے والوں کے لیے صدقہ کریں اور حج کریں اور ان کے لیے دعا کریں تو کیا ان سب چیزوں کا ثواب ان کو پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، اور وہ اِس سے اِس طرح خوش ہوتے ہیں جیسے تم میں سے کوئی کسی کو طشتری تحفے میں دے تو وہ خوش ہوتا ہے۔‘‘

 

 

Share:

10/1/21

سر بزم میری نظر سے جب وہ نگاہ ہوش ربا ملی | کبھی زندگی کا مزہ ملا کبھی زندگی کی سزا ملی


 

سر بزم میری نظر سے جب وہ نگاہ ہوش ربا ملی

کبھی زندگی کا مزہ ملا کبھی زندگی کی سزا ملی

 

کئی منزلوں سے گزر گئے تو ہمیں یہ راہ وفا ملی

کہیں دل ملا کہیں درد دل کہیں درد دل کی دوا ملی

 

تمہیں یاد ہے مرے ساتھیو کہ بچھڑ گئے تھے وہیں سے ہم

تمہیں درد دل کی دوا ملی مجھے درد دل کی دعا ملی

 

نہ بہا سکے کبھی اشک بھی تری برہمی کے خیال سے

گئے لے کے جلتے چراغ ہم تو ہمیشہ تیز ہوا ملی

 

نہیں غم جو مجھ کو زمانے میں کوئی غم کی داد نہ دے سکا

مگر ان کے دل پہ لکھی ہوئی مری داستان وفا ملی

 

دل کائنات تڑپ اٹھا وہ شعور نغمہ عطا کیا

جو صدائے ساز حیات سے مرے ساز دل کی صدا ملی

 

جو زمانہ بھول گیا تو کیا کہ چلن یہی ہے زمانے کا

مگر ان کے دل پہ لکھی ہوئی مری داستان وفا ملی

Share:

نگاہ مست سے یہ کیا پلا دیا تو نے | لبوں میں شورِ انا الحق اٹھا دیا تو نے


 

نگاہ مست سے یہ کیا پلا دیا تو نے

لبوں میں شورِ انا الحق اٹھا دیا تو نے

 

میں خوش ہوں تیرے سوا کوئی آرزو نہ رہی

وہ غم دیا کہ ہر اک غم بھلا دیا تو نے

 

یقین آئے کسے میں تو خود بھی حیراں ہو

لبوں سے کہہ نہ سکوں جو دکھا دیا تو نے

 

ہے سوز جاں سے ہی تکمیل آدمی ممکن

وہ درد بخشا کہ انساں بنا دیا تو نے

 

شب حیات میں دو گام چلنا مشکل تھا

قدم قدم پہ مجھے آسرا دیا تو نے

 

یہ تیری مست نگاہی کا فیض ہے سارا

نظر ملا کے خدا سے ملا دیا تو نے

 

کبھی کبھی تو یہ محسوس ہونے لگتا ہے

حجاب جسمی ہی جیسے اٹھا دیا تو نے

 

نا جانے کون یہاں آگ لینے آئے گا

کہ دیارِ عاشقی میں راہِ واپسی نہیں ہے

 

میں جب بھی بجھنے لگا ہوں جلا دیا تو نے

 

میں سوز عشق سے شاداب ہوں علیم اللہ

ہزار شکر ہے جینا سکھا دیا تو نے

Share:

میرا حسین باغ نبوت کا پھول ہے | حیدر کی اس میں جان ہے خون بتول ہے

 

میرا حسین باغ نبوت کا پھول ہے

حیدر کی اس میں جان ہے خون بتول ہے

 

آل نبی کا پیار ہے ایمان کی زندگی

ان سے نہیں ہے پیار تو سب کچھ فضول ہے

 

خوشیاں سبھی نثار ہیں اس پر جہان کی

جس کو غم حسین میں رونا قبول ہے

 

دنیا میں اور کون ہے شبیر کے بغیر

ایسا سوار جس کی سواری رسول ہے

 

گزرا جہاں جہاں سے نواسہ رسول کا

اب تک وہاں خدا کے کرم کا نزول ہے

 

جس کے لئے یزید نے اتنے ستم کیے

وہ تاج تو حسین کے قدموں کی دھول ہے

 

تو ان کے در سے مانگ لے جو کچھ بھی دل کرے

مالک سبھی جہان کی آل رسول ہے

 

صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


Share:

وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ | يا أيها الناس أنما انا رحمة مهداة |یہ تحقیق و تجسس کا ، جہاں تھا آج ویرانہ


 

وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ

مطلق معنی کہ آپ کو رحمت بنا کر بھیجا۔ سراسر رحمت سراپا رحمت بنا کر۔ دوسرا معنی اے محبوب کائنات میں جسے بھی رحمت چاہیے ہو گی تو وہ تیرے درِ رحمت سے ملے گی لاجل الرحمۃ۔ تیسرا معنی ۔ رحمت کرنے والا بنا کر بھیجا  وہ تمام جہانوں پر رحمت کرنےوالے ہیں۔


إنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاﷲُ يُعْطِيْ.

اگر کوئی پوچھے کہ آپ ﷺ کیا ہیں تو سنو! جو اللہ نے فرمایا : وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ کُلَّ شَيْئٍ. پھر فرمایا  الرحمن الرحیم  یعنی وہ جو اللہ تعالی کی رحمت ہے وہ ساری کی ساری فرمایا وہ رحمت میں ہوں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا: يا أيها الناس أنما انا رحمة مهداة۔

وہ سارے جہانوں کے لیے رحمت ہیں : جیسے جانور بھی آئیں تو حضور ان کے لیے بھی رحمت ہیں ایک اونٹ آیا اس نے سجدہ کیا سر جھکا دیا جناب ابو بکر کھڑے تھے عرض کیا یا رسول اللہ جانور سجدہ کریں ہمیں اجازت کیوں نہیں فرمایا انسان کا سجدہ صرف اللہ تعالی کو ہے۔ حضور نے اونٹ کے مالک کو بلایا فرمایا چارہ پورا دیا کرو اور بوجھ کم لادا کرو۔ وہ جان رحمت جانوروں کا اتنا خیال کریں تو پھر سوچو ۔۔۔ فریاد امتی جو کرے حالِ زار میں :: ممکن نہیں کہ خیر البشر کو خبر نہ ہو۔

رحمت ہے تو عذاب نہیں ہو گا  اگر عذاب ہے تو رحمت نہیں ہو گی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ عذاب بھی ہو اور رحمت بھی ہو۔ اس لیے پہلے انبیا کرام کے حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب اللہ تعالی نے انسانیت کو ہدایت دینا چاہی  اور سیدھا راستہ دیکھانا چاہا تو انبیاء کرام بھیجے۔ کہ جب لوگ سر کشی پر اترے تو عذاب آ گئے ، کسی کو کیسے اور کسی کو کیسے۔ مگر جب اللہ کو انسانیت پر پیار آیا  جب اللہ نے رحمت کا معاملہ کرنا چاہا تو اپنے حبیب کو یہ فرما کر بھیج دیا اے محبوب اب عذاب سارے ختم اب اجتمائی عذاب ختم اب پتھروں کی بارش ختم اب آگ کی بارش ختم اب طوفان نوح جیسے سیلاب ختم ۔ اے محبوب اب آپ کو رحمت بنا کر بھیج رہا ہوں تو اب بس پیار ہی کروں گا۔ فرمایا : وماکان اللہ لیعذبھم و انت فیھم۔۔۔۔۔وَ مَا لَهُمْ اَلَّا یُعَذِّبَهُمُ اللّٰہ

دو جگ دے وچ ہوئے اجالے آئے محمد رحمتاں والے

رحمتاں والے برکتاںو الے آئے محمد رحمتاںو الے

یہ تحقیق و تجسس کا ، جہاں تھا آج ویرانہ

افلاطون کی خرد و سقراط کی دانش تھی افسانہ

غرض دنیا میں چاروں سمت اندھیرا ہی اندھیرا تھا

نشان نور گم تھا اور ظلمت کا بسیرا تھا

کہ دنیا کے افق پر دفعتا سیلاب نور آیا

جہاں کفر وباطل میں صداقت کا ظہور آیا

حقیقت کی خبر دینے بشیر آیا نذیر آیا

شہنشاہی نے جس کے قدم چومے وہ فقیر آیا

مبارک ہو زمانے کو وہ ختم المرسلین آیا

سخاب بن کر رحمت للعمین آیا

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive