Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

5/14/23

Parents in Islam | والدین کا مقام و مرتبہ | اسلام اور والدین | Rights of Parents in Islam حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ | والدین کے حقوق

والدین کے مقام و مرتبہ سے متعلق قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی تعلیمات انتہائی جامع انداز میں پیش کی جا رہی ہیں خود بھی پڑھیں اور دوسروں تک شیئر بھی کریں۔

سورہ لقمان میں تعلیمات:

        سورہ لقمان میں اللہ تعالی نے جہاں  حضرت لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو توحید ،عبادات ،عاجزی و انکساری اور معاشرتی تعلیمات  سے متعلق نصیحتوں کا ذکر کیا تو عین درمیان میں انسان کو وصیت فرمائی کہ اپنے والدین کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک سے پیش آئے کسی صورت میں بھی بد سلوکی کی اجازت نہیں دی گئی اور اپنا اور والدین کا شکر ادا کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔  ارشاد فرمایا

        وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ ۚ حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰی وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَ ؕ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ  (سورۃ لقمٰن: 14) اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں (نیکی کا) تاکیدی حکم فرمایا، جسے اس کی ماں تکلیف پر تکلیف کی حالت میں (اپنے پیٹ میں) برداشت کرتی رہی اور جس کا دودھ چھوٹنا بھی دو سال میں ہے (اسے یہ حکم دیا) کہ تو میرا (بھی) شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔ (تجھے) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے

وَ قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلٰى وَالِدَیَّ وَ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَ اَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِكَ فِیْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِیْنَ (سورۃ النمل :19)

اے میرے رب!مجھے توفیق دے کہ میں تیرے اس احسان کا شکر اداکروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیا اور (مجھے توفیق دے) کہ میں وہ نیک کام کروں جس پر تو راضی ہو اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے ان بندوں میں شامل کر جو تیرے خاص قرب کے لائق ہیں ۔

قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلٰى وَالِدَیَّ وَ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَ اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ ﱂاِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْكَ وَ اِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (سورۃ الاحقاف:15)

اس نے عرض کی: اے میرے رب!مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پراور میرے ماں باپ پر فرمائی ہے اور میں وہ نیک کام کروں جس سے تو راضی ہوجائے اور میرے لیے میری اولاد میں نیکی رکھ،میں نے تیری طرف رجوع کیااور میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔

توفیق مانگنے کی ترغیب دی جا رہی ہے کہ جو تم پر اللہ کی نعمت ہوئی اور جو تمہارے والدین پر نعمت ہوئی اس پر شکر ادا کرنے کی توفیق طلب کرو۔ توفیق ہمیشہ اس کام پر مانگی جاتی ہے جو اللہ کی خوشنودی کا باعث ہو  ،جس کام پر اللہ تعالی راضی ہوتا ہے تو معلوم ہوا اللہ پاک چاہتا ہے کہ لوگو! اپنے والدین کی خوشی میں خوش ہوا کرو۔ باخدا اگر والدین خوش ہوں کسی اپنی بات پر تو آپ فقط ان کے چہرے کو دیکھ مسکرا دیا کرو پھر اللہ پاک کی رحمت دیکھو کیسے تمہارا احاطہ کرتی ہے۔

        آج ہم نے والدین کو بہت ہلکا لے لیا ، والدین کی قدر نہیں کرتے ، والدین کی قدر کو نہیں پہچانتے ، والدین کی عزت و مقام عین دینِ اسلام ہے ۔

اگر والدین کا نافرمان نہ ہو:

عَنْ عَمْرو بِنْ مُرَّہَ الجُہَنِیُّ قَالَ جَآءَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللہِ شَھِدْتُ اَنْ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللہُ  وَاَنَّکَ رَسُوْلُ اللہِ وَصَلَّیْتُ الخمَسَ وَاَدَّیْتُ زَکَاۃَ مَالِیْ وَصُمْتُ شَھْرَ رَمَضَانَ فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ مَاتَ عَلٰی ھٰذَا کَانَ مَعَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدٓاءِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ھٰکَذَا وَنَصَبَ اِصْبَعَیْہِ مَالَمْ یَعُقَّ وَالِدَیْہِ (مسند امام احمد :24299) مترجم مولانا محمد ظفر اقبال مکتبہ رحمانیہ ، جلد 10 ص 987، مطبع لٹل سٹار پرنٹرز لاہور

ترجمہ: حضرت عمرو بن مرہ جہنی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اس نے عرج کیا یا رسول اللہ ﷺ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ تعالی کے رسول ہیں ، میں پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہوں ، اپنے مال سے زکاۃ دیتا ہوں ،رمضان کے روزے رکھتا ہوں تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا  جو آدمی اس بات پر مر گیا تو وہ قیامت کے دن انبیاء ، صدیقین اور شہدا کے ساتھ اس طرح ہو گا (اپنی انگلیاں ملا کر اٹھاتے ہوئے فرمایا) جب تک والدین کا نافرمان نہ ہو۔

نماز کی حالت میں اگروالدہ پکارے :

سمعتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ یَقُوْلُ : لَوْاَدْرَکْتُ وَالِدَیَّ اَوْ اَحَدَھُمَا وَاَنَا فِی صَلَاۃِ الْعِشَاءِ وَقَدْ قَرَاتُ فِیْھَا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ تُنَادِی یَا محمد لَاَجَبْتُھَا لَبَّیْکِ (شعب الایمان : 7497)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر میرے والدین ہوتےت یا دونوں میں سے ایک ہوتا اور میں عشا کی نماز پڑھ رہا ہوتا اور سورت فاتحہ پڑھ چکا ہوتا اور میری ماں مجھے پکارتی محمد! میں ضرور اس کو جواب دیتے ہوئے کہتا میں حاضر۔

غار میں پھنسے تین دوست:

        تین دوست کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ایک غار میں ٹھہرے اور طوفان و بارش سے غار کے منہ پر ایک بڑی چٹان آ گری ، ایک دوسرے سے کہنے لگے کوئی ایسا کام ذکر کرو جو خالصتاً اللہ تعالی کی رضا کے لیے کیا ہو شاید اللہ تعالی اس کے وسیلے سے ہمارے لیے راستہ بنا دے تو ایک نے کہا (والدین کی خدمت کو یاد کیا)

فَقَالَ أَحَدُهُمْ: اللهُمَّ إِنَّهُ كَانَ لِي وَالِدَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ، وَامْرَأَتِي، وَلِي صِبْيَةٌ صِغَارٌ أَرْعَى عَلَيْهِمْ، فَإِذَا أَرَحْتُ عَلَيْهِمْ، حَلَبْتُ، فَبَدَأْتُ بِوَالِدَيَّ، فَسَقَيْتُهُمَا قَبْلَ بَنِيَّ، وَأَنَّهُ نَأَى بِي ذَاتَ يَوْمٍ الشَّجَرُ، فَلَمْ آتِ حَتَّى أَمْسَيْتُ، فَوَجَدْتُهُمَا قَدْ نَامَا، فَحَلَبْتُ كَمَا كُنْتُ أَحْلُبُ، فَجِئْتُ بِالْحِلَابِ، فَقُمْتُ عِنْدَ رُءُوسِهِمَا أَكْرَهُ أَنْ أُوقِظَهُمَا مِنْ نَوْمِهِمَا، وَأَكْرَهُ أَنْ أَسْقِيَ الصِّبْيَةَ قَبْلَهُمَا، وَالصِّبْيَةُ يَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ قَدَمَيَّ، فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ دَأْبِي وَدَأْبَهُمْ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، فَافْرُجْ لَنَا مِنْهَا فُرْجَةً، نَرَى مِنْهَا السَّمَاءَ، فَفَرَجَ اللهُ مِنْهَا فُرْجَةً، فَرَأَوْا مِنْهَا السَّمَاءَ( صحیح مسلم:2743)

ترجمہ: اس پر ان میں سے ایک نے کہا : اے اللہ ! میرے انتہائی بوڑھے والدین ، بیوی اور چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جن کی میں نگہداشت کرتا ہوں ۔ جب شام کو میں اپنے جانور ( چرانے کے بعد انہیں ) ان کے پاس واپس لاتا ، ان کا دودھ دوہتا تو آغاز اپنے والدین سے کرتا اور اپنے بچوں سے پہلے انہیں پلاتا تھا ۔ ایک دن ( مویشیوں کے چرنے کے قابل ) درختوں کی تلاش مجھے بہت دور لے گئی ، میں رات سے پہلے گھر نہ پہنچ سکا ۔ میں نے انہیں پایا کہ وہ دونوں سو چکے ہیں ۔ میں جس طرح ( ہر روز ) دودھ نکالا کرتا تھا نکالا اور وہ دوہا ہوا دودھ لے کر ان کے سرہانے کھڑا ہو گیا ۔ مجھے یہ بھی ناپسند تھا کہ ان کو نیند سے جگاؤں اور یہ بھی گوارا نہ تھا کہ ان سے پہلے بچوں کو پلاؤں ، بچے بھوک کی شدت سے بلکتے ہوئے میرے قدموں میں لوٹ پوٹ ہو رہے تھے ، میں اسی حال میں ( کھڑا ) رہا اور وہ بھی اسی حالت میں رہے یہاں تک کہ صبح طلوع ہو گئی ۔ ( اے اللہ ! ) اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ صرف تیری رضا کے لیے کیا ہے تو اس ( غار کے بند منہ ) میں اتنا سوراخ کر دے کہ ہم آسمان کو دیکھ سکیں ۔ اللہ نے اس میں ایک سوراخ کر دیا کہ وہ آسمان کو دیکھنے لگے ۔

اللہ تعالی کے نزدیک سب سے محبوب کام:

سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ ؟ قَالَ : الصَّلَاةُ عَلَى وَقْتِهَا ، قَالَ : ثُمَّ أَيٌّ ؟ قَالَ : ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ ، قَالَ : ثُمَّ أَيٌّ ؟ قَالَ : الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي بِهِنَّ وَلَوِ اسْتَزَدْتُهُ لَزَادَنِي    . (صحیح بخاری : 527)

ترجمہ: میں نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کون سا عمل زیادہ محبوب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے وقت پر نماز پڑھنا ، پھر پوچھا ، اس کے بعد ، فرمایا والدین کے ساتھ نیک معاملہ رکھنا ۔ پوچھا اس کے بعد ، آپ نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے مجھے یہ تفصیل بتائی اور اگر میں اور سوالات کرتا تو آپ اور زیادہ بھی بتلاتے ۔ ( لیکن میں نے بطور ادب خاموشی اختیار کی )

ہجرت  اور جہاد کے لیے بیعت کرنا:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي جِئْتُ أُبَايِعُكَ عَلَى الْهِجْرَةِ، وَلَقَدْ تَرَكْتُ أَبَوَيَّ يَبْكِيَانِ قَالَ: «ارْجِعْ إِلَيْهِمَا فَأَضْحِكْهُمَا كَمَا أَبْكَيْتَهُمَ (سنن نسائی : 4168)

ترجمہ:  حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم  ﷺ  کے پاس حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں آپ سے ہجرت پر بیعت کرنے آیا ہوں جبکہ میں اپنے ماں باپ کو روتا چھوڑ آیا ہوں ۔ آپ نے فرمایا :’’ ان کے پاس واپس جا اور جیسے تو نے انھیں رلایا ہے اسی طرح انھیں ہنسا ۔‘‘

ایک اور حدیث پاک میں ارشاد پاک ہے:

أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: أَقْبَلَ رَجُلٌ إِلَى نَبِيِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أُبَايِعُكَ عَلَى الْهِجْرَةِ وَالْجِهَادِ، أَبْتَغِي الْأَجْرَ مِنَ اللهِ، قَالَ: «فَهَلْ مِنْ وَالِدَيْكَ أَحَدٌ حَيٌّ؟» قَالَ: نَعَمْ، بَلْ كِلَاهُمَا، قَالَ: «فَتَبْتَغِي الْأَجْرَ مِنَ اللهِ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: «فَارْجِعْ إِلَى وَالِدَيْكَ فَأَحْسِنْ صُحْبَتَهُمَا» (صحیح مسلم: 6507)

ترجمہ:  حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک شخص نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی : میں آپ سے ہجرت اور جہاد پر بیعت کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اس کا اجر طلب کرتا ہوں ، آپ نے فرمایا :’’ کیا تمہارے والدین میں سے کوئی ایک زندہ ہے ؟‘‘ اس نے کہا : جی ہاں ، بلکہ دونوں زندہ ہیں ۔ آپ نے فرمایا :’’ تم اللہ سے اجر کے طالب ہو ؟‘‘ اس نے کہا : جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا :’’ اپنے والدین کے پاس جاؤ اور اچھے برتاؤ سے ان کے ساتھ رہو ۔‘‘

جہاد کے لیے مشورہ کرنا ہے:

عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ جَاهِمَةَ السَّلَمِيِّ أَنَّ جَاهِمَةَ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَدْتُ أَنْ أَغْزُوَ وَقَدْ جِئْتُ أَسْتَشِيرُكَ فَقَالَ هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَالْزَمْهَا فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَيْهَا  (سنن نسائی :3106)

ترجمہ: حضرت معاویہ بن جاہمہ سلمی سے روایت ہے کہ ( میرے والد محترم ) حضرت جاہمہ رضی اللہ عنہ نبی  ﷺ  کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! میرا ارادہ جنگ کو جانے کا ہے جبکہ میں آپ سے مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں ۔ آپ  ﷺ  نے فرمایا :’’ تیری والدہ ہے ؟ ‘‘ اس نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا :’’ اس کے پاس ہی رہ ( اور خدمت کر ) ۔ جنت اس کے پاؤں تلے ہے ۔‘‘

حضرت اویس قرنی اور ماں کی خدمت اور صلہ:

حضرت اویس قرنی یمن کے رہنے والے تھے اور قرن قبیلہ سے تعلق تھا نبی کریم ﷺ کا زمانہ مبارک پایا مگر آپ ﷺ کی زیارت نہ کر سکے اور اس کی ایک ٹھوس وجہ یہ تھی کہ یمن میں ااپ کی ایک بوڑھی ماں تھی جس کی دیکھ بھال کے لیے کوئی اور نہ تھا ااپ رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ ان کی خدمت میں رہتے تھے ۔ یعض احادیث مبارکہ میں ان کی اس علت اور وجہ کا بھی ذکر ہوا ہے کہ اس کی بوڑھی ماں اس کو روکے ہے یعنی اس کی خدمت کی وجہ سے آپ نبی کریم ﷺ کی زیارت نہ کر سکے اور شرف صحابیت نا پا سکے۔

عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِذَا أَتَى عَلَيْهِ أَمْدَادُ أَهْلِ الْيَمَنِ، سَأَلَهُمْ: أَفِيكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ؟ حَتَّى أَتَى عَلَى أُوَيْسٍ فَقَالَ: أَنْتَ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مِنْ مُرَادٍ ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَانَ بِكَ بَرَصٌ فَبَرَأْتَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: لَكَ وَالِدَةٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «يَأْتِي عَلَيْكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ مَعَ أَمْدَادِ أَهْلِ الْيَمَنِ، مِنْ مُرَادٍ، ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ، كَانَ بِهِ بَرَصٌ فَبَرَأَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ، لَهُ وَالِدَةٌ هُوَ بِهَا بَرٌّ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرَّهُ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ فَافْعَلْ» فَاسْتَغْفِرْ لِي، فَاسْتَغْفَرَ لَهُ، (صحیح مسلم : 2542)

ترجمہ: اسیر بن جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہا : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس جب اہل یمن میں سے کوئی ( جہاد میں حصہ لینے والے ) دستے آتے تو وہ ان سے پوچھتے : تم میں اویس بن عامر بھی ہیں ؟ یہاں تک کہ وہ اویس سے مل گئے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ( ان سے ) کہا : آپ اویس بن عامر ہیں ؟ انھوں نے کہا : ہاں ، پوچھا : کیا آپ مراد ( کے قبیلے اور ) اس کے بعد قرن ( کی شاخ ) سے ہیں ؟ انھوں نے کہا : ہاں ، کہا : کیا آپ کو برص ( کی بیماری ) تھی ، پھر آپ ٹھیک ہو گئے ، بس ایک درہم کے برابر جگہ رہ گئی ؟ کہا : ہاں ۔ کہا : آپ کی والدہ ہیں ؟ کہا : ہاں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ فرماتے تھے :’’ تمہارے پاس اہل یمن کے دستوں کے ہمراہ اویس بن عامر آئے گا ، وہ قبیلہ مراد ، پھر اس کی شاخ قرن سے ہو گا ، اسے برص کی بیماری ہوئی ہو گی ، پھر ایک درہم کی جگہ چھوڑ کر باقی ٹھیک ہو گئی ہو گی ، اس کی والدہ ہے ، وہ اس کا پورا فرمانبردار ہے ، اگر وہ اللہ پر ( کسی کام کی ) قسم کھا لے تو وہ اسے پورا کر دے گا ۔ اگر تم یہ کر سکو گے کہ ( تمہاری درخواست پر ) وہ تمہارے لیے بخشش کی دعا کرے تو یہ ( درخواست ) کر لینا ۔‘‘ اس لیے ( اب ) تم میرے لیے بخشش کی دعا کرو تو انھوں نے ان کے لیے بخشش کی دعا کی ۔

نقطہ: اس مکمل حدیث پاک میں تمام فضائل بیان ہوئے ہیں فقط عمل یہ ہے کہ وہ اپنی ماں کے بہت فرماں بردار ہیں ، گویا یہ تمام فضائل ماں کی خدمت کی وجہ سے تھے۔

 

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive