Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

10/10/22

اللہ کا فضل اور رحمت | قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْاؕ | فضل کبیر | عظیم رحمت

قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْاؕ-هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ (سورۃ یونس : 58)

تم فرماؤ: اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی خوشی منانی چاہیے ، یہ اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں ۔

اس آیہ مبارکہ میں فضل اور رحمت سے کیا مراد ہے چند مفسرین و صحابہ کرام کے اقوال : اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے کیا مراد ہے اس بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، حضرت حسن اور حضرت قتادہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَل کے فضل سے اسلام اور اس کی رحمت سے قرآن مراد ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَل کےفضل سے قرآن اور رحمت سے اَ حادیث مراد ہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۵۸، ۲ / ۳۲۰)

مَا كَانَ عَلَى النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ اللّٰهُ لَهٗؕ-سُنَّةَ اللّٰهِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُؕ-وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ قَدَرًا مَّقْدُوْرَا٘ﰳۙ (۳۸)الَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ وَ یَخْشَوْنَهٗ وَ لَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰهَؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ حَسِیْبًا(۳۹)مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰)یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًاۙ(۴۱)وَّ سَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۴۲)هُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْكُمْ وَ مَلٰٓىٕكَتُهٗ لِیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِؕ-وَ كَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا(۴۳)تَحِیَّتُهُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَهٗ سَلٰمٌۖۚ-وَ اَعَدَّ لَهُمْ اَجْرًا كَرِیْمًا(۴۴)یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵)وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶)وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِیْرًا(۴۷)(سورۃ الاحزاب : 38 تا 47)

نبی پر اس بات میں کوئی حرج نہیں جو اللہ نے اس کے لیے مقرر فرمائی ۔ اللہ کا دستور چلا آرہا ہے ان میں جو پہلے گزرچکے،اور اللہ کا ہرکام مقرر کی ہوئی تقدیر ہے۔وہ جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں کرتے اور اللہ کافی حساب لینے والاہے۔محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والاہے۔اے ایمان والو! اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو۔اور صبح و شام اس کی پاکی بیان کرو۔وہی (اللہ ) ہے جوتم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے تمہارے لئے دعا کرتے ہیں تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے اجالے کی طرف نکالے اور وہ مسلمانوں پر مہربان ہے۔جس دن وہ اللہ سے ملاقات کریں گے اس وقت ان کے لیے ملتے وقت کا ابتدائی کلام سلام ہو گا اوراللہ نے ان کے لیے عزت کا ثواب تیار کر رکھا ہے۔اے نبی!بیشک ہم نے تمہیں گواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا۔اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والااو ر چمکادینے والا ا ٓ فتاب بنا کر بھیجا۔اور ایمان والوں کو خوشخبری دیدو کہ ان کے لیے اللہ کا بڑا فضل ہے۔

نقطہ: ان آیات میں نہ اسلام کا ذکر ، نہ نماز کا ذکر، نہ رووزے کا ذکر نہ جنت و دوزخ کا ان آیات میں فقط ذکر ہے تو مصطفے کا ان آیات میں ذکر ہے تو اللہ کے محبوب کا اور پھر آخر میں ارشاد فرمایا  وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِیْرًا یعنی ایمان والوں کو خوشخبری ہو کہ ان پر اللہ کا فضل کبیر ہو گیا یعنی اسلام فضل ہے مان لیا قرآن فضل ہے مان لیا اللہ کی ہر نعمت اللہ کا فضل ہے مان لیا مگر مصطفے کی آمد اور مل جانا اللہ پاک کا سب سے بڑا فضل ہے ۔۔

vvvvvv

نقطہ: فضل اسلام کو کہا جناب عبد اللہ بن عباس نے جناب قتادہ نے جناب حسن بصری نے مگر قربان جائیں آقا کی آمد کو فضل کہا خود اللہ کے قرآن نے  ۔

نقطہ: اللہ پاک نے اہلِ بیت اطہار کی پاکیزگی بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ اس آیہ مقدسہ میں جناب نے جس قانون کے تحت امہات المئمنین کو داخل کیا یعنی جب یہ آیہ نازل ہوئی تو جناب رسول اللہ  ﷺ نے جناب علی، سیدہ پاک، حسنین کریمین کو بلا کر چادر میں لیا اور فرمایا اللّٰھُمَّ ھٰوُلاَءِ اَھْلَ بَیْتِ یا اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں  کچھ نے کہا کہ اس آیہ میں فقط مراد یہ پانچ نفوس قدسیہ ہیں مگر وہ لوگ جنہیں رسول اللہ ﷺ کے اللہ تعالی کے فضل کبیر ہونے پر اعتراض ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب آیہ مقدسہ کا سیا ق و سباق کہتا ہے کہ اس آیہ مقدسہ کا پہلا مصداق اور مراد نبی کی ازواج ہیں کیوں کہ پہلی آیات میں ذکر ازواج مطہرات کا ہے تو جناب آپ کے اسی کلیے اور قائدے کے مطابق پہلے بہت سی آیات میں ذکر اللہ تعالی کے رسول کا اور اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ کی تعریفیں کی اور پھر ارشاد فرمایا کہ مومنین کوخوشخبری سناو کہ ان پر اللہ تعالی کا فضل کبیر ہو گیا ہے یعنی محمد مصطفطے ﷺ کاآنا اللہ تعالی کا بہت بڑا فضل ہے۔      

                یہ تو ثابت ہو ا کہ آمدِ مصطفطے ﷺ اللہ تعالی کا فضل کبیر ہے۔۔۔۔



اب دیکھتے ہیں کہ رحمت سے مراد کیا ہے؟اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ(۱۰۵)اِنَّ فِیْ هٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوْمٍ عٰبِدِیْنَؕ(۱۰۶) وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (سورۃ الانبیاء : 105 تا 107)

ترجمہ: اور بیشک ہم نے نصیحت کے بعد زبور میں لکھ دیا کہ اس زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔بے شک اس قرآن مجید میں عبادت گزاروں کے لیے بہت بڑا پیغام ہے۔ اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ۔

درج بالا آیات میں اللہ تعالی نے پہلی آیت میں زبور کا ذکر کیا دوسری آیت میں قرآن مجید کا ذکر کیا کہ اس قرآن مجید میں پیغام ہے اور تیسری آیت میں اللہ تعالی سیاق و سباق سے مختلف بات کہ اور بات بھی صریحاً کی کوئی ابہام نہ رکھا اور ڈائریکٹ اپنے محبوب کو ارشاد فرمایا کہ اے محبوب رحمت آپ ہیں ۔ یعنی پہلی آیت میں زبور دوسری میں قرآن مجید اور تیسری آیت میں کتابوں کی ہی تعریف کرنے کی بجائے گویا فرمایا محبوب بے شک وہ میرے کلام ہیں ، لوگوں کی رشد و ہدایت کے ضامن ہیں میری طرف سے ہدایات ان میں موجود ہیں لیکن محبوب جو بات رحمت کی ہے تو رحمت آپ ﷺ کی ذات ہے۔

نقطہ :: اللہ کی تمام نعمتیں اللہ کی طرف سے رحمت ہیں ، بیٹی اللہ کی رحمت ہے، ماں باپ اللہ کی طرف سےط بندے پر رحمت ہیں دنیا کی تمام اللہ تعالی کی رحمت ہیں مگر جو سب سے پہلی رحمت ہے ، جو سب سے بڑی رحمت ہے، جوس کے صڈقے سے ساری کائنات کی رحمتیں ہوئیں وہ رحمت اللہ تعالی کا محبوب محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔

                جب اللہ تعالی کا فضل اور رحمت ہو جائے تو خوش ہو جایا کرو ۔ اور خوشی کا اظہار کیا کرو۔ وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ۠ ( سورۃ الضحی: 11) جب اللہ تعالی کی نعمت ہو جائے تو اس کا خوب خوب چرچا کیا کرو ۔

فضل رب العلی اور کیا چاہیے

مل گئے مصطفے اور کیا چاہیے

دامن مصطفے جس کے ہاتھوں میں ہے

اس کو روزِ جزا اور کیا چاہیے


 

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive