Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

صحیح احادیث | حدیث کی اقسام




اتصال ِ سند کے اعتبار سے حدیث کی اقسام :
جس حدیث کی سند جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہو اس کو مرفوع حدیث کہیں گے حدیث کا مرفوع ہونا کبھی بہت صاف اور واضح ہوتا ہے مثلا کہا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور کبھی صریح تو نہیں مگر صریح کے حکم میں ہوتا ہے مثلا صحابہ اور تابعین کوئی ایسی بات نقل فرمائیں کہ بغیر رسول اللہ سلم سے سنے ہوئے عقل و قیاس کے اصول اور اجتہاد سے وہ بات معلوم نہ ہو سکے مثلا آخرت کے حالات عذاب قبر حشراجسادپل صراط جنت دوزخ وغیرہ۔ (وحی قرآن مجید کی تشریح ہے: مضمون پڑھیں)
مثال: عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه واله وسلم بني الاسلام على خمس حديث البخاري كتاب الايمان
سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔
 حدیث موقوف:
        جس حدیث کی انتہا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین تک ہو اس کو موقوف کہتے ہیں جیسے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان ہے
موقوف کی مثال :حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا يَعرِفُونَ اَتُحِبُّونَ اَن يُّكَذَّبَ اللهُ ورسولُه بخاري باب من  خَصَّ بالعلم قوماً دون قوم
لوگوں کو وہ چیز بیان کرو جسے وہ سمجھ سکیں کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول کو جھٹلایا جائے۔
مقطوع :
وہ حدیث ہوتی ہے جس کی انتہا کسی تابعی تک ہو یعنی صحابی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بیان کو منسوب نہ کیا گیا ہو۔ (وحی قرآن مجید کی تشریح ہے: مضمون پڑھیں)
 مقطوع کی مثال: قول حسن بصري ’’صَلِّ وعليه بِدعَتُه‘‘  بخاری باب امامۃ المفتون و المبتدع
ترجمہ بدعتی کے پیچھے نماز پڑھ لو اس کی بدعت کا وبال اسی پر ہو گا
اثر :  حدیث موقوف اور مقطوع کو اثر کہتے ہیں کبھی حدیث مرفوع کو بھی اثر کہتے ہیں اسی طرح امام طحاوی کے کتاب کا نام شرح معانی الآثار  اس میں مرفوع احادیث بھی ہیں
خبر :1:جمہور علماء کے نزدیک خبر حدیث کے ہم معنیٰ ہے
 2:خبر حدیث کی مخالف ہے حدیث وہ ہے جو نبی کریم صلی وسلم سے منقول ہوکر آئے اور خبروںہ ہے جو غیر سے منقول ہوں۔
3:خبر حدیث سے عام ہے یعنی حدیث وہ ہے جو نبی کریم صلی وسلم سے منقول اور خبر وہ ہے جو آپ سے منقول ہو یا آپ کے سوا کسی اور سے گویا ہر حدیث خبر ہے مگر ہر خبر حدیث نہیں ہوتی یہ حدیث اور خبر میں عموم خصوص مطلق کی نسبت ہوتی ہے۔
حدیث کو روایت کرنے والوں کی تعداد کے اعتبار سے حدیث کی حسب ذیل اقسام ہیں :
  وہ حدیث ہے کہ جس کو ہر طبقہ میں ایک بڑی جماعت نے روایت کیا ہو اور وہ جماعت اتنی زیادہ ہو کہ ان سب کا جھوٹ پر اتفاق کر لینا ممکن نہ ہو روایت شروع سے آخر تک برابر پائی جائے متواتر کی حسب ذیل چار شرائط ہیں
1: اس خبر کو کثیر تعداد روایت کرے  کم از کم دس اشخاص ہوں۔
2:یہی کثرت  تمام طبقوں میں موجود ہو۔
3: عادت ان کے جھوٹ پر متفق ہونے کو محال جانے ۔
4: خبر کا اعتماد صیغہ حس پر ہو جیسے وہ کہیں ہم نے سنا ،ہم نے دیکھا، ہم نے چھوا ۔
جب متواتر کی تمام شرائط پائی جائیں تو ایسی حدیث سے جو بات معلوم ہو گئی وہ یقینی ہوگی اور متواتر حدیث میں روایت کرنے والوں کی تفتیش کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ مثال قَالَ النَّبِيّ صَلَّى الله عليه وسلم مَن كَذَبَ عَلَيَّ متَعَمِّدًا فَليَتَبَوَّا مَقعَده مِنَ النَّارِ رواه بضعه وسبعون صحابيا(حدیث صحیح بخاری )
ترجمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے جان بوجھ کر کوئی جھوٹی بات میری طرف منسوب کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے اس حدیث کو ستر سے کچھ اوپر صحابہ کرام نے بیان کیا ہے ۔
تعریف اخبار آحاد :
1: لغوی تعریف احاد واحد کی جمع ہے جس کا معنی ہے ایک یعنی واحد اور خبر واحد وہ ہے جسے ایک شخص روایت کرے
2: اصطلاحی تعریف جس میں متواتر حدیث کی شرطیں جمع نہ ہوں یا جس نے متواتر کی شرطوں کو جمع نہ کیا ہو
خبر واحد کا حکم  :یہ علم نظری کا فائدہ دیتی ہے اور علم نظری سے مراد وہ علم ہے جس کا دارومدار غوروفکر اور نظروں استدلال پر مبنی ہو۔ (حجیت حدیث پر عمومی دلائل : مضمون پڑھیں)
 خبر آحاد کی سند کی نسبت کے اعتبار سے اقسام اپنے عددطرق سندوں کی تعداد کے اعتبار سے خبر واحد کی تین اقسام ہیں
1:مشہور2: عزیز 3: غریب
مشہور:
 وہ حدیث ہے جس کے ہر طبقہ میں کم از کم تین روایت کرنے والے ہوں اور اس میں متواتر کی تمام شرطیں نہ پائی جائے یعنی تواتر کی حد کو نہ پہنچے حدیث مشہور کو بعض مستفیض بھی کہتے ہیں۔
 مستفیض:     اس حدیث کو کہتے ہیں کہ اس کی سند کے دونوں طرف برابر ہوں اور مشہور میں یہ شرط عائد نہیں یہ مشہور کے مترادف ہے
مشہور حدیث کی مثال ان الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد ولكن يقبض العلم بقبض العلماء صحیح بخاري
ترجمہ:  اللہ علم کو چھین لینے کی شکل میں نہیں اٹھائے گا لیکن علماء کو موت دے کر علم اٹھائے گا۔
عزیز :
 وہ حدیث ہے جس کے ہر طبقہ میں کم از کم دو راوی ہو اور اگر کسی طبقہ میں دو سے زائد ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
مثال: ا ما رواه الشيخان من حديث انس والبخاري من حديث ابي هريره ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا يؤمن احدكم حتى اكون احب اليه من والده وولده والناس اجمعين (صحيح البخاري كتاب الايمان)
  ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ مجھے اپنے والد اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ جانے۔
غریب:
  و ہ حدیث ہے جس میں روایت کرنے والا ایک ہی ہو خواہر طبقہ میں ایک ہو یا کسی طبقہ میں زائد ہو جاۓ حدیث غریب کو فرد بھی کہتے ہیں ۔               غریب یا فرد کی دو اقسام ہیں
1:  فرد مطلق         وہ حدیث ہے جس کی سند میں صحابی سے روایت کرنے والا تنہا ہوں دوسرے راوی تنہا تنہا ہو یا نہ ہو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ فرد مطلق کے تمام راوی یااکثر راوی تنہا ہوتے ہیں مسند بزار اور المعجم الاوسط میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ مثال جیسے حدیث نھی النبی عن بیع الولاءترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء کی بیع  سے منع فرمایاہے ۔ اسے صرف حضرت عبد اللہ بن دینار  نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے ۔
2: فرد نسبی   جس کی سند میں صحابی سے روایت کرنے والا نہیں بلکہ اس کے بعد کا راوی  منفردہو ۔ فرد مطلق کو عمومافرد اور  نسبی  کو غریب کہا جاتا ہے۔ مثال : حديث مالک عن الزهري عن انس ان النبي دخل مكه وعلى راسه المغفر
ترجمہ:  سیدنا انس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے اور آپ کے سر پر خول تھا۔
حدیث آحاد کی دو اقسام ہیں1: مقبول اور2: مردود
مقبول کی دو اقسام ہیں جن میں 1:محکم   2: مختلف الحدیث
محکم :
ٍ        وہ حدیث ہے جس کی مخالف کوئی حدیث مقبول نہ ہو تو ایسی حدیث پر عمل ضروری ہے صحاح ستہ وغیرہ میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ كل بيمينك وكل مما يليك (مسلم الاطعمه)
ٍ        وہ ہوتی ہے  جس کی مخالف دوسری حدیث موجود ہو مگر دونوں حدیثوں میں تطبیق ممکن ہو اس کو علم مختلف الحدیث کہتے ہیں ۔ لا عدوى ولا طيره (صحيح مسلم باب لا عدوى ولا طيره)کوئی بیماری متعدی نہیں اور فال بد لینا درست نہیں۔
متعارض:  من المجذوم كما تفر من الاسد (البخاري باب الجذامي) جزام کی بیماری والے سے اس طرح بھاگ جس طرح تو شیر سے بھاگتا ہے ۔یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں ان کا ظاہر آپس میں متعارض ہے کیونکہ پہلی حدیث بیماری کے متعدی ہونے کی نفی کرتی ہے جبکہ دوسری حدیثاسے ثابت کرتی ہے علماءحدیث نے انہیں جمع کیا ہے اور ان کے معنوں میں متعدد طریقوں سے موافقت ڈالی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی چیز کسی چیز کو متعدد نہیں بناتی اور آپ کا وہ فرمان بھی ہے کہ جب آپ سے معارضہ کرتے ہوئے ایک اعرابی نے کہا کہ جب ایک خارشی اونٹ صحیح انٹوں میں جاتا ہے تو وہ ان کو بھی خارش کر دیتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ پہلےکو کس نے بیماری لگائی تھی ۔مطلب واضح ہے کہ یقیناً اللہ تعالی نے ہی دوسرے اونٹ میں ابتداء میں بیماری پیدا کی جس طرح اللہ تعالی نے پہلے اونٹ کو لگائی تھی ۔باقی رہی بات مجذوم سے بھاگنے کے حکم کی تو یہ باب سد الذرائع  سے ہے کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص اس کے پاس رہتا ہے تقدیر من جانب اللہ  اس وقت اس کو بیماری لگ جاتی ہے تو وہ سمجھے گا کہ شاید اس نے مجھے بیماری لگائی ہے اور وہ بیماری کے متعدی ہونے کا عقیدہ رکھ لے جس کی نفی کی گئی ہے ۔
حدیث آحاد میں سے مقبول حدیث کی مزید 4 اقسام  حسب ذیل ہیں۔
الصحیح لذاتہ:
         وہ حدیث ہے جس کے راوی عادل کامل الضبط ، اس کی سند متصل ہو ، معلل و شاذ نہ ہو، ۔ اس موقع پر عادل، کامل الضبط ، معلل اور شاذ نئی اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں ان کا مفہوم بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے۔
عادل: عادل وہ ہے جو کبیرہ گناہ سے بچتا ہو اور ایسی باتوں سے بچتا رہے جس سے اس کے تقوی پر دھبہ آتا ہو۔
کامل الضبط: کامل الضبط راوی وہ ہے جو روایت کو خوب اچھی طرح یاد رکھے ۔ جب چاہے بے تکلف بیان کر دے رکاوٹ نہ ہو۔
متصل: اگر حدیث کے راویوں میں سے کوئی چھوٹ نہیں گیا تو اس حدیث کو متصل السندکہتے ہیں
معلل : وہ راوی ہے جو اپنے وہم سے کچھ تغیر و تبدل کر دے۔
 صحیح لذاتہ کی مثال: عن جبير بن مطعم قال سمعت رسول الله قرا في المغرب بالطور (صحيح البخاري)
ترجمہ: سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ مغرب کی نماز میں سورۃ طور کی تلاوت فرما رہے تھے ۔
حکم: حدیث صحیح لذاتہ  پرعمل کرنا واجب ہے۔
صحیح لغیرہٖ :
وہ حدیث ہے جس میں صحیح لذاتہ کی  تمام شرائط پورے طور پر جمع نہ ہوں  اگرچہ کثرت طرق نے اس کمی کو پورا کردیا ہو ۔
مثال: عن زيد بن خالد ان رسول الله قال لولا ان اشق على امتي لامرتهم بالسواك عند كل صلاه (سنن ابي داود باب السواك)
ترجمہ: سیدنا زید بن خالد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میری امت پر مشکل نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا۔
صحیح لغیرہٖ کا مرتبہ حسن لذاتہ ہی سے بلند مرتبہ ہوتی ہے لیکن صحیح لذاتہ یا سے نچلے درجے پر ہوتی ہے۔
حسن لذاتہ:
وہ حدیث ہے جس کے راویوں میں صرف ضبط ناقص ہو اور صحیح لذاتہ کی باقی دوسری شرائط موجود ہوں۔
مثال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ان ابواب الجنه تحت ظلال السيوف   جامع ترمذی
ترجمہ: جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے ہیں۔
حسن لغيره:
اگر حدیث ضعیف میں تعدد طرق نے اس کے ضعف کے نقصان کو دور کر دیا ہے تو اس کو حسن لغیرہ کہیں گے۔
مثال: عن عامر بن ربيعه ان امراه من بني فراره تزوجت على نعلين فقال رسول الله رديتي من نفسك ومالك بنعلين قالت نعم في اجازه (حسن صحیح الترمذي باب ما جاء في مهور النسائي)
 ترجمہ: بنو فزارہ کی ایک عورت نے دو جوتوں پر نکاح کرایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو اپنے بارے میں اس حال پر راضی ہے اور خوش ہے تو وہ کہنے لگی ہاں تو آپ نے اس نے نکاح کو جائز قرار دیا۔

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive