Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

4/24/20

خطبہ استقبالِ رمضان: فضائلِ رمضان | حدیث سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ

خطبہ استقبالِ رمضان:

 عَنْ سُلْمَانَ الْفَارِسی قَالَ خَطَبَنَارَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ اٰ خِرِ یَوْمِ مِنْ شَعْبَانَ فَقَالَ یَاَ یُّھَا النَّاسُ قَدْاَظَلَّکُمْ شَھْرْ مُبَارَکْ ، شَھْرْ فِیْہِ لَیْلَۃْ خَیْرٗ مِّنْ اَلْفِ شَھْرِ جَعَلَ اللّٰہُ صِیَامَہٗ فَرِ یْضَۃً وَ قِیَامَ لَیْلِہٖ تَطَوُّعًا، مَنْ تَقَرَّبَ فِیْہِ بِخَصْلَۃِ مِّنَ الْخَیْرِکَانَ کَمَنْ اَدّٰی فَرِیْضَۃً فِیْمَا سِوَاہُ وَمَنْ اَدّٰی فَرِیْضَۃً فِیْہِ کَانَ کَمَنْ اَدّٰی سَبْعِیْنَ فَرِیْضَۃً فِیْمَا سِوَاہُ وَھُوَ شَھْرُ الصَّبْرِ وَالصَّبْرُ ثَوَابُہُ الْجَنَّۃُ، وَشَھْرُالْمَوَاسَاۃِ وَشَھْرُ یُّزَادُفِیْہِ رِزْ قُ الْمُئْومِنْ مَنْ فَطَّرَفِیْہِ صَائِمًاکَانَ لَہٗ مَغْفِرَۃً لِذُنُوْبِہٖ وَ عِتْقَ رَقْبَتِہٖ مِنَ النَّارِوَکَانَ لَہٗ مِثْلَ اَجْرِہٖ مِنْ غَیْرِاَنْ یُّنْتَقَضَ مِنْ اَجْرِہٖ شَیْئْ قُلْنَا یَارَ سُولَ اللّٰہِ لَیْسَ کُلَّنَا نَجِدُ مَانُفَطِّرُبِہِ الصَّائِمَ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعْطِیْ اللّٰہُ ھٰذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَصَائِمًاعَلٰی مُذْقَۃِ لَبَنِ اَوْ تَمَرَۃِ اَوْ شَرْبَۃِ مِنْ مَائِ وَمَنْ اَشْبَعَ صَائِماً سَقَاہُ اللّٰہُ مِنْ حَوْضِیْ شَرْبَۃً لَا یَظْمَائُ حَتّٰی یَدْخُلَ الْجَنَّۃَوَھُوَا شَھْرُ  اَوَّلُہٗ رَحْمَۃْ وَاَوْسَطُہٗ مَغْفِرَۃْ وَاٰخِرُہٗ عِتْقْ مِّنَ النَّارِ وَمَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوْ کِہٖ فِیْہِ غَفَرَ اللّٰہُ لَہٗ وَاَعْتَقَہٗ مِنَ النَّارِ

ترجمہ :: حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور نبی کریم ﷺ نے شعبان کے آخر میں و عظ فرمایا ۔اے لوگو ! تمہارے پاس عظمت والا برکت والا مہینہ آنے والا ہے ، وہ مہینہ جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس کے روزے اللہ تعالیٰ فرض کیے اور اس کی رات میں قیام کرنا (نماز پڑھنا )قطوع یعنی نفل قراردیا ہے جو اس میں نیکی کا کوئی کام یعنی نفل عبادت کرے تو ایسا ہے جیسے اور مہینوں میں فرض ادا کیا اور جس نے ایک فرض ادا کیا تو ایسا ہے جیسے اور دنوں میں ستر فرض ادا کیے یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے ، اور یہ غم خوری کا مہینہ ہے ،اور اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا یا جاتا ہے جو اس میں روزہ دار کو افطار کرائے اس کے گناہوں کے لیے مغفرت ہے اور اس کی گردن دوزخ سے آزاد کردی جائے گی اور اس میں افطار کرانے والے کو ویسا ہی ثواب ملے گا جیسا روزہ رکھنے والے کو ملے گا بغیر اس کے کہ اُس کے ثواب میں کچھ کمی واقع ہو ، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم میں کا ہر شخص وہ چیز نہیں پاتا جس سے روزہ افطار کرائے ، حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو ایک گھونٹ دودھ یا ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے افطار کرائے اور جس نے روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا ا س کو اللہ تعالیٰ میرے حوض کوثر سے سیراب کریگا کبھی پیا سا نہ ہوگا ،یہاں تک کہ جنت میں داخل ہوجائے گا یہ وہ مہینہ ہے کہ جس کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اورا س کا درمیانی حصہ مغفرت ہے اور اس کا آخری حصہ جہنم سے آزادی ہے ۔اور جو اپنے غلام پر اس مہینے میں تخفیف کرے یعنی کام لینے میں کمی کردے تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا اور جہنم سے آزاد فرمائے گا (بیہقی)

مزید مطالعہ کریں

روزے کی جزا اور اجر

سحری و افطاری سے متعلق احادیث مبارکہ

روزے کے احکام

رمضان المبارک کے آداب


Share:

4/20/20

آوس مانڈرے کول




آوس مانڈرے کول ، یار سپاہیڑا



ہک لکھ منگسیں ڈو لکھ ڈیساں


ہک واری چا بول



سانول یار دے نین سلونیں

کجلے دی ٹک ٹول

( کیا خوب سجن دیاں اکھیاں نے
جویں بھر کے صراحیاں رکھیاں نے )


مر مر جاندی رسک نا سہندی

دلڑی سخت سڈول



پہلوں دے کر بانہ سرہاندی

سانول یار نا رول


یار فریدا نا تھی اداسی

اللہ ملیسئی ڈھول


Share:

مفلسانیم آمدہ در کوئے تو | عید گاہ ما غریباں کو ئے تو | eid gah e ma gharrebaan persian lyric | امیر خسرو

عید گاہ ما غریباں کو ئے تو

انبساطِ عید دیدن رو ئے تو

ہم پردیسیوں/غریبوں کی عِیدگاہ آپ کا کُوچہ ہے، آپ کا چہرہ دیکھنے کا لمحہ ہی ہماری عید ہے

 

کعبہ من قبلۂ من روے تو

سجدہ گاہ عاشقاں ابرو ئے تو

آپ کا چہرہ میرا کعبہ و قبلہ ہے اور عاشقوں کی سجدہ گاہ تیرے ابرو ہیں۔

 

دست بکشا جانبِ زنبیلِ ما

آفریں بر ہمتِ بازو ئے تو

ہمارے کاسے کی طرف اپنا بڑھا ؤ آپ ے ہاتھ کی ہمت کو سلام ہے

 

مفلسانیم آمدہ در کو ئے تو

 شیٗاً للہ از جمالِ رو ئے تو

نادار اور غریب آپ کے در پر آئے ہیں اللہ کیے لیے اپنے چہرے کے جمال کی خاطر کچھ عنایت فرمائیے۔

 

صد ہزاراں عید قربانت کُنم

 اے ھلالِ ما، خمِ ابرُو ئے تو

 اے میرے ماہِ عِید آپ کے ابرُو کے خم پہ مَیں سیکڑوں ہزاروں عیدیں قربان کر دُوں

 

یا نظام الدّینؒ محبُوبِ خدا

جملہ محبُوباں غلامِ رُو ئے تو

اے حضرت نظام الدینؒ محبوبِ خدا سب محبوب آپ کے رُخ مبارک کے غلام ہیں

 

Share:

4/17/20

کتوں سے دعا کروا لیں :: ابو الاثر حفیظ جالندھری :: خالق پاک سر زمین شاد باد

پاک سر زمین شاد باد پاکستانی قومی ترانےاور ’’شاہنامہ اسلام‘‘ جیسی مشہور و معروف کتاب کے خال ابو الاثر حفیظ جالندھری مرحوم اپنی آپ بیتی بیان فرماتے ہیں کہ میری عمر بارہ سال تھی ۔میرا لحن داؤدی بتایا جاتا اور نعت خوانی کی محفلوں میں بلایا جاتا تھا۔ اس زمانے میں شعر و شاعری کے مرض نے بھی مجھے آلیا تھا۔ اس لئے اسکول سے بھاگنے اورگھر سے اکثر غیر حاضر رہنے کی عادت بھی پڑ چکی تھی ۔

میری منگنی لاہور میں میرے رشتے کی ایک خالہ کی دُختر سے ہو چکی تھی۔ میرے خالو نے جب میری آوارگی کی داستان سُنی تو سیر و تفریح کے بہانے محترم نے جالندھر سے مجھے ساتھ لیا اور محض سیر و تفریح کا سبز باغ دکھلانے شہر گجرات کے قریب قصبہ جلال پور جٹاں میں پہنچ گئے ۔ اصل سبب مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ ہونے والے خُسر اورفی الحال خالُو میرے متعلق اپنے دینی مرشد سے تصدیق کرنا چاہتے تھے کہ وہ بزرگ ان کی بیٹی کی شادی مجھ ایسے آوارہ سے کردینے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔
یہ پُر انوار پیر و مرشد ایک کہنہ سال بزرگ تھے۔ اُن کے اِردگرد مؤدب بیٹھے ہوئے دوسرے شُرفا سے پہلے ہی دن میں نے نعت سنا کر واہ واہ سبحان اللہ کے تحسین آمیز کلمات سُنے ۔
ہر روز نمازِ عشائ کے بعد میلاد کی بزم اورنعت خوانی کا اہتمام ہوتا۔ دو مہینے اسی جگہ گزرے۔
اس سال ساون سُوکھا تھا۔ بارش نہیں ہو رہی تھی لوگ بارش کے لئے میدانوں میں جاکر نمازِ استسقائ ادا کرتے تھے ۔ بچّے ، بوڑھے ، جوان مرد و زن دعا کرتے لیکن گھنگھورگھٹا تو کیا کوئی معمولی بدلی بھی نمودار نہ ہوتی تھی ۔یہ ہے پس منظر اس واقعہ کا جسے میں عجوبہ کہتا ہوں۔ جسے بیان کردینے کے لئے نہ جانے کیوں مجبور ہو گیا ہوں۔ پہلے یہ جان لیجئے کہ وہ محترم بزرگ کون تھے؟ مجھے یقین ہے ان کا خاندان آج بھی جلال پور جٹاں میں موجود ہے ۔ ان بزرگ کا نام نامی حضرت قاضی عبدالحکیم رحمۃ اللہ علیہ تھا اَسی پچاسی برس کی عمر تھی دُور دُور سے لوگ ان سے دینی اور دُنیوی استفادہ کی غرض سے آتے تھے۔ یہ استفادہ دینی کم دنیوی زیادہ تھا۔ آنے والے اوردو تین دن بعد چلے جانے والے گویا ایک تسلسلِ امواج تھا۔ کثرت سوداگروں اورتجارت پیشہ لوگوں کی تھی ۔
میری نعت خوانی کے سبب حضرت مجھے بسا اوقات اپنے مصلّے کے بہت قریب بٹھائے رکھتے تھے۔ ایک دن میری طرف دیکھ کر حضرت نے کہا’’برخوردار تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی سے مجھے خوش کرتے ہو ، تمہارے لئے میرے پاس بس دعائیں ہی ہیں۔ انشائ اللہ تم دیکھو گے کہ آج تو تم دوسروں کی لکھی ہوئی نعتیں سناتے ہو، لیکن ایک دن تمہاری لکھی ہوئی نعتیں لوگ دوسروں کو سنایا کریں گے ۔‘‘
اس وقت بھلا مجھے کیا معلوم تھا کہ سرکارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ محّب صادق میری زندگی کا مقصود بیان کررہے ہیں۔ بہر صورت یہ تواُن کی کرامتوں میں سے ایک عام بات ہے جس عجوبے کے اظہار نے مجھ سے آج قلم اٹھوایا وہ کرامتوں کی تاریخ میں شاید بے نظیر ہی نظر آئے ۔
ایک دن حضرت قاضی صاحب کے پاس میں اوران کے بہت سے نیاز مند بیٹھے ہوئے تھے ۔ ان میں میرے خالو بھی تھے۔ یہ ایک بڑا کمرہ تھا اورحضرت مصلّے پر بیٹھے تھے ۔ السّلام علیکم کہتے ہوئے کندھوں پر رومال ڈالے سات آٹھ مولوی طرز کے معتبر آدمی کمرے میں داخل ہوکر قاضی صاحب سے مخاطب ہوئے ۔ قاضی صاحب نے وعلیکم السلام اوربسم اللہ کہہ کر بیٹھ جانے کاایما فرمایا۔ہم سب ذرا پیچھے ہٹ گئے اورمولوی صاحبان تشریف فرما ہوگئے۔
ان میں سے ایک صاحب نے فرمایا کہ حضرت !ہمیں ہزاروں مسلمانوں نے بھیجا ہے ۔ یہ چار صاحبان گجرات سے اور یہ وزیر آباد سے آئے ہیں۔ میں ، آپ جانتے ہیں ڈاکٹر ٹیلر کے ساتھ والی مسجد کا امام ہوں۔ عرض یہ کرنا ہے کہ آپ اس ٹھنڈے ٹھار گوشے میں آرام سے بیٹھے رہتے ہیں۔ باہر خلق خدا مررہی ہے ، نمازی اور بے نماز سب بارانِ رحمت کے لئے دعائیں کرتے کرتے ہار گئے ہیں ۔ ہر جگہ نمازِ استسقائ ادا کی جارہی ہے ۔ کیا آپ اورآپ کے ان مریدوں کے دل میں کوئی احساس نہیں ہے کہ یہ لوگ بھی اُٹھ کر نماز میں شرکت کریں اورآپ بھی اپنی پیری کی مسند پر سے اُٹھ کر باہر نہیں نکلتے ،کہ لوگوں کی چیخ و پکار دیکھیں، اللہ تعالٰی سے دعا کریں تاکہ وہ پریشان حال انسانوں پر رحم کرے اور بارش برسائے۔
میرے قریب سے ایک شخص نے چپکے سے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا ’’یہ وہابی ہے ‘‘۔
میں اُن دنوں وہابی کا مفہوم نہیں سمجھتا تھا ۔ صرف اتنا سنا تھا کہ یہ صوفیوں کو بُرا سمجھتے ہیں اور نعت خوانی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب سلام پیش کیا جاتا ہے تو یہ لوگ تعظیم کے لئے کھڑے نہیں ہوتے بلکہ کھڑے ہونے والوں کو بدعتی کہتے ہیں۔
مسکراتے ہوئے قاضی صاحب نے پوچھا’’حضرات! آپ فقیر سے کیا چاہتے ہیں‘‘۔ توان میں سے ایک زیادہ مضبوط جُثے کے مولوی صاحب نے کڑک کر فرمایا ’’اگر تعویذ گنڈا نہیں تو کچھ دُعا یہ کرو۔ سُنا ہے پیروں فقیروں کی دُعا جلد قبول ہوتی ہے۔‘‘
یہ الفاظ مجھ نادان نوجوان کو بھی طنزیہ محسوس ہوئے تاہم قاضی صاحب پھر مسکرائے اورجواب جو آپ نے دیا وہ اس طنز کے مقابلے میں عجیب و غریب تھا۔
قاضی صاحب نے فرمایا ’’آپ کُتّوں سے کیوں نہیں کہتے کہ دُعا کریں‘‘۔ یہ فرمانا تھا کہ مولوی غضب میں آگئے اور مجھے بھی اُن کا غضب میں آنا قدرتی معلوم ہوا۔ چنانچہ وہ جلد جلد بڑبڑاتے ہوئے اُٹھے اور کوٹھڑی سے باہر نکل گئے۔
قاضی صاحب کے اِردگرد بیٹھے ہوئے نیاز مند لوگ ابھی گم صم ہی تھے کہ مولوی صاحبان میں سے جو بہت جَیّد نظر آتے تھے ، دوبارہ کمرے میں داخل ہوئے ، اُن میں سے ایک نے کہا’’حضرت! ہم تو کُتّے کی بولی نہیں بول سکتے ۔ آپ ہی کُتّوں سے دُعا کرنے کے لئے فرمائیے۔‘‘
مجھے اچھی طرح یاد ہے اورآج تک میرے سینے پر قاضی صاحب کا یہ ارشاد نقش ہے۔
حضرت ! پہلے ہی کیوں نہ کہہ دیا ، کل صبح تشریف لائیے کُتّوں کی دُعا ملاحظہ فرمائیے’’!‘‘مولوی صاحبان طنزاً مسکراتے ہوئے چل دئیے اور میں نے اُن کے الفاظ اپنے کانوں سے سُنے کہ ’’یہ صوفی لوگ اچھے خاصے مسخرے ہوتے ہیں۔‘‘
جب مولوی صاحبان چلے گئے تو میرے خالو سے قاضی صاحب نے فرمایا کہ ’’ذرا چھوٹے میاں کو بلائیے۔ ‘‘ چھوٹے قاضی صاحب کانام اب میں بھولتا ہوں۔ مہمانوں کی آؤ بھگت اورقیام و طعام کا سارا انتظام انہی کے سِپرد تھا ۔ انواع و اقسام کے کھانے اور دیگیں قاضی صاحب کی حویلی کی ڈیوڑھی اورصحن میں پکتی رہتی تھیں۔ ساتھ ہی ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد تھی۔ جس میں عشائ کی نماز کے بعد نعت خوانی ہوا کرتی تھی اورمیں ذوق و شوق سے یہاں نعت خوانی کیا کرتا تھا۔
میرے خالو ان کے چھوٹے بھائی کو لائے تو قاضی صاحب نے ان سے کہا’’ میاں کل صبح دو تین سو کُتّے ہمارے مہمان ہوں گے آپ کو تکلیف تو ہوگی بہت سا حلوہ راتوں رات تیار کرا لیجئے۔ ڈھاک کے پتوں کے ڈیڑھ دو سو دَونے شام ہی کو منگوا کر رکھ لیجئے گا۔ ڈیوڑھی کے باہر ساری گلی میں صفائی بھی کی جائے۔ کل نماز فجر کے بعد ہم خود مہمانداری میں شامل ہوں گے۔‘‘
چھوٹے قاضی صاحب نے سر جھکایا اگر چہ ان کے چہرے پر تحیر کے آثار نمایاں تھے۔ میرے لئے تویہ باتیں تھی ہی پُراسرار ، لیکن میرے خالو مسجد میں بیٹھ کر قاضی صاحب کے دوسرے مستقل نیاز مندوں اورحاضر باشوں سے چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ کل صبح واقعی کچھ ہونے والا ہے۔
میں نے تین چار کڑاہے حویلی کے صحن میں لائے جاتے دیکھے، یہ بھی دیکھا کہ کشمش، بادام اور حلوے کے دوسرے لوازمات کے پُڑے کھل رہے ہیں۔ سُوجی کی سینیاں بھری رکھی ہیں گھی کے دو کنستر کھولے گئے۔ واقعی یہ تو حلوے کی تیاری کے سامان ہیں۔ ناریل کی تُریاں کاٹی جارہی ہیں اورسب آدمی تعجب کر رہے ہیں کہ کُتّوں کی مہمانداری وہ بھی حلوے سے ؟
صبح ہوئی نماز فجر کے بعد میں نے دیکھا کہ قاضی صاحب قبلہ دو تین آدمیوں کو ساتھ لئے ہوئے اپنی ڈیوڑھی سے نکل کر گلی میں اِدھر اُدھر گھومنے لگے چند ایک مقامات پر مزید صفائی کے لئے فرمایا۔میری ان گناہ گار آنکھوں نے یہ بھی دیکھا کہ اس گلی میں دونوں طرف یک منزلہ مکانوں کی چھتوں پر حیرت زدہ لوگ کُتّوں کی ضیافت کا کرشمہ دیکھنے کے لئے جمع ہونا شروع ہوگئے تھے ۔ اورجلال پور جٹاں میں سے مختلف عمر کے لوگ اس گلی میں داخل ہورہے تھے۔ وہ قاضی صاحب کو سلام کرکے گلی میں دیواروں کے ساتھ لگ کر کھڑے ہوجاتے اورجانے کیا بات تھی کہ یہ سب اونچی آواز سے باتیں نہیں کرتے تھے۔ کوٹھوں پر عورتیں اور بچے تھے۔
ہم دونوں قاضی صاحب کا بھتیجا محمد اکرام اورمیں مسجد کی چھت پر چڑھ گئے اور یہاں سے گلی میں ہونے والا عجیب و غریب تماشا دیکھنے لگے ۔
درویش طرز کے چند آدمی حلوے سے بھری ہوئی سینیاں لاتے جارہے تھے ۔ اور قاضی صاحب چمچے سے ان دَونوں کو پُر کرتے پھر دونوں ہاتھوں سے دَونا اٹھاتے اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مین گلی کے درمیان رکھتے جاتے۔ جب پوری گلی میں حلوے بھرے دَونے رکھے جا چکے تو اُنہوں نے بلند آواز سے دَونوں کو گِنا۔ مجھے یقین ہے کہ گلی میں دیواروں کی طرف پشت کئے کھڑے سینکڑوں لوگوں نے قاضی صاحب کا یہ فقرہ سُنا ہوگا:’’کُل ایک سو بائیس(۱۲۲)ہیں۔‘‘
یہ کام مکمل ہوا ہی تھا کہ زور زور سے کچھ ایسی آوازیں آنے لگیں جن کو میں انسانی ہجوم کی چیخیں سمجھا ۔ مجھے اعتراف ہے کہ اُس وقت مجھے اپنے بدن میں کپکپی سی محسوس ہونے لگی، میں نے گلی میں ہر طرف دیکھا تو عورتیں اور بچے اورمرد گلی میں اور کوٹھوں سے چیخ رہے تھے۔
کیوں چیخ رہے تھے اس لئے کہ ایک کُتّا جس کو، جب سے میں یہاں وارد ہوا تھا، حویلی کے اِردگرد چلتے پھرتے اورمہمانوں کا بچا کچھا پھینکا ہوا کھانا کھاتے اکثر دیکھا تھا، بہت سے کُتّوں کو اپنے ساتھ لئے ہوئے گلی کی مشرقی سمت سے داخل ہوا۔ جو بے شمار کتّے اس کے پیچھے پیچھے گلی میں آئے تھے ان میں سے ایک بھی بھونک نہیں رہا تھا بھونکنا توکیا اس قدر خلقت کو گلی میں کھڑے دیکھ کر کوئی کتّا خوفزدہ نہ تھا۔ اورنہ کوئی غرّا رہا تھا۔ کتّے دو دو تین تین آگے پیچھے بڑے اطمینان کے ساتھ گلی کے اندر داخل ہورہے تھے۔
کتّوں کی یہ پُراسرار کیفیت دیکھ کر ساری خلقت نہ صرف پریشان تھی بلکہ دہشت زدہ بھی ، پھر ایسی دہشت آج تک مجھے بھی محسوس نہیں ہوئی۔
قاضی صاحب اگر اپنے ہونٹوں پر انگشتِ شہادت رکھ کر لوگوں کو خاموش رہنے کی تلقین نہ کرتے تو میں سمجھتا ہوں کہ گلی میں موجود سارا ہجوم ڈر کر بھاگ جاتا۔
اس گلی والا وہ کُتّا جس کا میں ذکر کر چکا ہوں قاضی صاحب کے قدموں میں آکر دُم ہلانے لگا۔ قاضی صاحب نے جو الفاظ فرمائے وہ بھی مجھے حرف بہ حرف یاد ہیں۔ فرمایا’’بھئی کالو! تم تو ہمارے قریب ہی رہتے ہو، دیکھو، انسانوں پر اللہ تعالٰی رحمت کی بارش نہیں برسا رہا، اللہ کی اور مخلوق بھی ہم انسانوں کے گناہوں کے سبب ہلاک ہو رہی ہے ۔ اپنے ساتھیوں سے کہو، سب مل بیٹھ کر یہ حلوہ کھائیں پھر اللہ سے دعا کریں کہ رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے بادلوں کو اجازت دے تاکہ وہ پیاسی زمین پر برس جائیں۔‘‘
یہ فرما کر حضرت قاضی صاحب اپنی ڈیوڑھی کے دروازے میں کھڑے ہوگئے اورمیں کیا سبھی نے ایک عجوبہ دیکھا۔
خدارا یقین کیجئے کہ ہر ایک حلوہ بھرے دَونے کے گِرد تین تین کُتّے جُھک گئے اور بڑے اطمینان سے حلوہ کھانا شروع کر دیا۔ ایک بھی کُتّا کسی دوسرے دَونے یا کتّے پر نہیں جھپٹا، اورنہ کوئی چیخا چلایااورجس وقت یہ سب کُتّے حلوہ کھار رہے تھے ایک اور عجیب و غریب منظر دیکھنے میں آیا کہ وہ کتا جو اس گلی کا پرانا باسی اوران تمام کتّوں کو یہاں لایا تھا خود نہیں کھا رہا تھا بلکہ گلی میں مسلسل ایک سِرے سے دوسرے سِرے تک گھومتا رہا، جیسے وہ ضیافت کھانے والے کتّوں کی نگرانی کررہا ہو یا میزبانی ۔
میں نے اسکول میں اپنے ڈرل ماسٹر صاحب کو طالب علموں کو اِسی طرح نگرانی کرتے وقت گھومتے دیکھا تھا۔ کالو کا انداز معائنہ بڑا پُر شکوہ تھا جس پر مجھے اپنا ڈرل ماسٹر یاد آگیا۔ کیونکہ ہم میں سے کوئی لڑکا ماسٹر صاحب کے سامنے ہلتا تک نہیں تھا۔
تھوڑی دیر میں سب کُتّے حلوہ کھا کر فارغ ہوگئے بے شمار لوگوں نے ہجوم میں سے صرف حضرت قاضی صاحب کی آواز ایک مرتبہ پھر سنائی دی۔ وہ فرمارہے تھے،’’لو بھئی کالو! ان سے کہو کہ اللہ تعالٰی سے دُعا کریں تاکہ خدا جلد ہی انسانوں پر رحم کرے‘‘۔
یہ سنتے ہی میں نے غیر ارادی طور پر ایک طرف دیکھا تو کل والے مولوی صاحبان ایک سمت کھڑے اس قدر حیرت زدہ نظر آئے جیسے یہ لوگ زندہ نہیں یا سکتے کے عالم میں ہیں۔
اب صبح ، کے نو دس بجے کا وقت تھا، ہر طرف دھوپ پھیل چکی تھی ، تپش میں تیزی آتی جارہی تھی ۔ جب قاضی صاحب نے ’’کالو’’ کو اشارہ کیا۔ حیرت انگیز محشر بپا ہوا۔ تمام کتّوں نے اپنا اپنا مُنہ آسمان کی طرف اُٹھالیا اور ایک ایسی متحد آواز میں غُرانا شروع کیا جو میں کبھی کبھی راتوں کو سُنتا تھا۔ جسے سُن کر میری دادی کہا کرتی تھیں،’’کُتّا رو رہا ہے خدا خیر کرے‘‘۔
آسمان کی طرف تھوڑی دیر مُنہ کئے لمبی غراہٹوں کے بعد یہ کتّے جو مشرقی سمت سے اس کوچے میں داخل ہوئے تھے۔ اب مغرب کی طرف چلتے گئے۔
میں اور قاضی اکرام ہی نہیں جلال پور جٹاں کے سبھی مردوزن کتّوں کو گلی سے رخصت ہوتے دیکھ رہے تھے۔ اورخالی دَونے آسمان کی طرف منہ کھولے گلی میں بدستور پڑے تھے۔ (یہ دستِ دُعا تھے)۔
جونہی کُتّے گلی سے نکلے قاضی صاحب کے ہاتھ بھی دُعا کے لئے اُٹھ گئے اور ان کی سفید براق داڑھی پر چند موتی سے چمکنے لگے یقیناً یہ آنسو تھے۔
پَس منظر بیان ہو چکا اب منظر ملاظہ فرمائیے۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ میں جو آج ستّر برس اور گیارہ میہنے کابوڑھا بیمار ہوں خدا عزوجل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بادل گرجا اور مغرب سے اس تیزی کے ساتھ گھٹا اُمڈی کہ گلی ابھی پوری طرح خالی بھی نہ ہوئی تھی ، مرد ،عورتیں ، بچے بالے ابھی کوٹھوں سے پوری طرح اُترنے بھی نہ پائے تھے کہ بارش ہونے لگی ۔ ہم بھی مسجد کی چھت سے نیچے اُترے۔ پہلے مسجد میں گئے اورپھر حلوہ کھانے کا شوق لئے ہوئے حویلی کی ڈیوڑھی میں چلے گئے۔ دیکھا کہ وہی معتبر مولوی صاحبان چٹائیوں پر بیٹھے ہیں اورحضرت قاضی صاحب حلوے کی طشتریاں ان لوگوں کے سامنے رکھتے جارہے ہیں ۔ وہ حلوہ کھاتے بھی جارہے ہیں اورآپس میں ہنس کر باتیں بھی کررہے ہیں۔ ایک کی زبان سے میں نے یہ بھی سُنا کہ حضرت یہ نظر بندی کا معاملہ نہیں ہے تو اور کیا ہے ۔ جادو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نعوذ باللہ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ قاضی صاحب قبلہ ان کی اس بات پر دیر تک مسکرائے اوران بن بلائے مہمانوں کے لئے مزید حلوہ طلب فرماتے رہے ۔ باہر بارش ہو رہی تھی اوراندر مولوی صاحبان خوشی سے حلوہ اڑارہے تھے ۔ قاضی صاحب کے جو الفاظ آج تک میرے سینے پر منقوش ہیں میں یہاں ثبت کئے دیتا ہوں اورمیرا ایمان ہے کہ یہی مقصود تھا۔
قاضی صاحب نے کہا تھا’’کُتّے مل جل کر کبھی نہیں کھاتے لیکن یہ آج بھلائی کے لئے جمع ہوئے تھے۔ اللہ کے بندوں کے لئے دُعا کرنے کے لئے وہ اتنے متحد رہے کہ ایک نے بھی کسی دوسرے پر چھینا جھپٹی نہیں کی۔ ان کا ایک ہی امام تھا۔ اس نے کھایا بھی کچھ نہیں۔ اب وہ آئے گا تو میں اس کے لئے حلوہ حاضر کروں گا۔‘‘
ایک مولوی صاحب نے کہا’’حضرت ہمیں تو یہ جادوگری نظر آتی ہے۔‘‘ قاضی صاحب بولے ’’مولوی صاحب ! ہم تو آپ ہی کے فَتوؤں پر زندگی گزارتے ہیں۔ خواہ اسے جادو فرمائیں یا نظر بندی آپ نے یہ تو ضرور دیکھ لیا ہے کہ کُتّے بھی کسی نیک مقصد کے لئے جمع ہوں تو آپس میں لڑتے جھگڑتے نہیں۔‘‘ یہ سُن کر مولوی صاحبان جھیپتے نظر آئے۔
مجھے یاد ہے کہ مولوی صاحبان کو بھیگتے ہوئے ہی اس ڈیوڑھی سے کل کر جاتے ہوئے میں نے دیکھا تھا۔ بخدا یہ عجوبہ اگر میں خود نہ دیکھتا تو کسی دوسرے کے بیان کرنے پر کبھی یقین نہ کرتا۔ یاد رہے کہ میں وہی حفیظ جالندھری ہوں جس کے بارے میں حضرت قاضی صاحب نے جلال پور جٹاں میں ساٹھ سال پہلے فرمایا تھا کہ حفیظ؎ تیری لکھی ہوئی نعتیں دوسرے سنایا کریں گے ۔
الحمدللہ ، نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم یعنی ’’شاہنامہ اسلام‘‘ ساری دنیا کے اُردوجاننے والے مسلمان خود پڑھتے اوردوسروں کو بھی سُناتے ہیں۔

ارادت ہو تو دیکھ ان خرقہ پوشوں کو !
یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں !!

حفیظ جالندھری کے بھانجے حافظ صفوان صاحب کی وال سے !!

Share:

4/8/20

لاک ڈاؤن میں مساجد کو آباد رکھنے کیلیے ایک تجویز



لاک ڈاؤن میں مساجد کو آباد رکھنے کیلیے ایک تجویز:
کرونا وبا کی وجہ سے دنیا میں لاک ڈاؤن کی سی صورتحال ہے ہر طرف سماجی فاصلے کی تلقین کی جارہی ہے اور اسی کے پیش نظر بعض مسلم ممالک میں بھی مساجد میں اجتماعی نماز اجتماعِ جمعہ دوسرے مذہبی اجتماعات پر پابندی لگائی جا رہی ہے اور ملک پاکستان میں بھی یہ پابندی عائد کی جا رہی ہے تو اس صورتحال میں مذہبی حلقوں میں بہت زیادہ ہلچل مچی ہوئی ہے بعض لوگ اس کے حمایت میں بولتے ہیں اور بعض لوگ اس کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں۔ بہرحال اضطراب اہل اسلام میں پایا جاتا ہے جہاں پر اجتماعات پر پابندی لگائی ہے ان مساجد میں جمعہ کی نماز پر یا باقی نمازوں پر زیادہ سے زیادہ پانچ دس لوگ یا انتظامیہ کے لوگوں کو نماز پڑھنے کی اجازت دی جا رہی ہے اس کے علاوہ لوگوں کو مساجد میں داخل ہونے سے منع کیا جارہا ہےاور اعلانیہ کیا جا رہا ہے کہ باقی نمازیں گھر میں پڑھی جائیں۔
ایک تجویز ہے جہاں تک میرا خیال ہے قوانین شریعت کے خلاف نہ ہوگی جہاں پر لا ک ڈاؤن کی کیفیت ہے مساجدسے لوگوں کو روکا جا رہا ہے وہاں پر لوگوں سے کہا جا رہا ہے گھروں میں نماز پڑھیں۔ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ گھر میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے نماز مسجد میں پڑھی جائے اور اکیلے نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ نماز جماعت کے ساتھ پڑھی جائے ۔
تو کیوں نہ اس کیفیت میں کہ جب لوگوں کو روکا جا رہا ہے مساجد میں آنے سے اور مساجد کی آباد کاری کے حوالے سے بھی علماء علمائے کرام فکرمندہیں تو حکمت سے کام لیا جائے اس طرح  کہ ایک جماعت اگر ہوجائے جو مرکزی جماعت ہے وہ مسجد میں اپنے ٹائم پر ہوجائے اس کے بعد چند لوگوں کو پابند کر دیا جائے کہ آدھے گھنٹے بعد جب پہلے لوگ نماز پڑھ کے چلے جائیں تو بعد میں کچھ لوگ  مسجد میں آجائیں اور آکر مسجد میں ان میں سے کوئی ایک بندہ جماعت کروائے اور اس طرح جماعت کے ساتھ نمازپڑھ لیں پھر اسی طرح وہ لوگ چلے جائیں پھر اس کے بعد اورلوگ آ جائیں  وہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں ، یہ زیادہ بہتر ہے کہ بندہ گھر میں اکیلا نماز پڑھے میری اس تجویز میں کہیں کوئی خلاف شرع   امر ہوں تو اس سے بندہ ناچیز کو آگاہ بھی کیا جائے تاکہ اس سے رجوع کیا جائے اور استغفار کیا جائے۔ اور اگر اس تجویز میں کوئی خلاف شرع امر  نہیں ہے تو پھر اس پر عمل بھی کرسکتے ہیں اور اس طرح مساجد بھی آباد رہیں گی۔ اللہ اعلم بالصواب۔ و ما توفیقی الا باللہ



محمد سہیل عارف معینیؔ

Share:

4/7/20

خشیتِ الہی میں رونے کی فضیلت

اللہ کے خوف میں رونے کی فضیلت:
ما مِن عبد مؤمن يخرج من عينيه دموع وان كان مثلَ راسِ الذُبابِ من خشيۃ الله ثم تُصيبُ شيئًا من حُرِّ وجھِہٖ اِلّا حَرَّمه اللهُ على النّارِ (سنن ابن ماجه باب الحزن والبكاء)
ترجمہ:جس مومن بندے کی آنکھوں سے خوف خدا سے آنسو بہہ پڑی چاہے وہ مکھی کے سر کے برابر بھی ہو پھر وہ رخسار تک جا پہنچی تو اللہ تعالی اسے دوزخ پر حرام فرما دیتا ہے۔


Share:

4/6/20

چمن میں ہمارے حضور آگئے ہیں

ہوا مہکی مہکی فضا لہکی لہکی چمن میں ہمارے حضور آگئے ہیں
 تمہیں ہو یہ ساعت مبارک حلیمہ کہ گھر میں تمہارے حضور آگئے ہیں

 عجب حسن آیا زمین و زماں میں عجب نور ہے جلوہ گر دو جہاں میں
 جو اب تک نہاں تھے دلِ لامکاں میں وہ لے کر نظارےحضور آگئے ہیں

 ہوا حسنِ محبوب جلوہ نما ہے زمین سے فلک تک یہی اک صدا ہے
 مبارک تجھے آمنہ تیرے گھر میں لیےکیف سار ےحضور آگئے ہیں

ہیں حوروں نےہر سمت جھرمٹ لگائے ملک برہنہ پا  قطاروں میں آئے
سحر آرہی ہے قمر جا رہا ہے جھکے سب ستارے حضور آ گئے ہیں

 غلاموں کے ملجا ، کنیزوں کے ماوی ،اسیروں کے حامی یتیموں کے مولا
 غریبوں کے والی فقیروں کے داتا جہاں کے سہارے حضور آگئے ہیں

 بڑی شان والی یہ صائم گھڑی ہے دو عالم میں پھیلی ہوئی روشنی ہے
 خدا کی محبت کا پیغام لیکر خدا کے پیارے حضور آ گئے ہیں


Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive