Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

10/29/20

یہ چاند ستارے ہی حسیں رات نہ ہوتی :: ye chand sitary ye haseen raat na hoti

 


یہ چاند ستارے یہ حسیں رات نہ ہوتی

گر آپ نہ آتے تو کوئی بات نہ ہوتی

 

اللہ سے ملایا ہے ہمیں آپ نے آ کر

ملتا نہ خدا بھی جو تیری ذات نہ ہوتی

 

اٹھتی نہ اگر گنبدِ خضری سے گھٹائیں

دنیا میں کہیں بھی کبھی برسات نہ ہوتی

 

وہ چہرہ نہ ہوتا تو کبھی دن نہ نکلتا

وہ زلف نہ ہوتی تو کبھی رات نہ ہوتی


Share:

یہ چمک یہ دمک سارے جگ میں مہک سب کچھ سرکار تمہی سے ہے :: پوربی زبان میں خوبصورت کلام :: ye chamak ye damak sare jag

یہ چمک یہ دمک سارے جگ میں مہک سب کچھ سرکار تمہی سے ہے

چومے سیاں کے قدم بکھلا کے پون بغین میں بہار تمہی سے ہے

 

ہے تم پہ نچھاور مورا جیا بس پیار کیا تو تمہی سے کیا

مورے نین کا چین تمہی ہو پیا اس دل کو قرار تمہی سےہے

 

میرا دل لے لو میری جاں لے لو میرا تن لے لو میرا من لے لو

میں اور کہاں سودا بیچوں میرا سب بیوپار تمہی سے ہے

 

میرے سکھ دکھ کی رکھتے ہو خبر  میرے سر پہ تمہارا سایہ ہے

میری نیا کے کھیون ہار ہو تم، میرا بیڑا پار تمہی سے ہے

 

ہر شاخ چمن میں جھومت ہے مورے پیا کے قدم کو چومت ہے

اک شمع کے سب ہیں پروانے روشن یہ دیار تمہی سے ہے

 

میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا میرا قول قرار تمہی سے ہے

میرے عشق کو نسبت ہے تم سے میرا ہار سنگھار تمہی سے ہے

 

میں سپنا ہوں تم سچ مچ ہو میں کچھ بھی نہیں تم سب کچھ ہو

میں قطرہ ہوں تم ساگر ہو مجھے نسبت یار تمہی سے ہے

 

میں جوگن تھا م تورے بہیاں تم جانت ہو سب کچھ سیاں

توری پریت ماں روپ یہ دھار لیا یہ بناؤ سنگھار تمہی سے ہے

Share:

10/25/20

پیغمبر صحرا:: The Prophet of the Desert:: Qazi Abdurauf Moeeni :: Download Book English and Urdu

محمد عبدالمجید صدیقی ایڈووکیٹ قانون دان ہونے کے ساتھ ساتھ معتبر مصنف بھی ہیں۔ آپ نے تحریر میں تحقیق و جستجوکو ہمیشہ مد نظر رکھا۔ خصوصا سیرت پاک پر لکھتے ہوئے احتیاط کا دامن نہیں چھوڑا۔

سیرت نبیؐ کے حوالے سے دوعلمی ، روح پروراور عظیم تحقیقی کتب سات حصوں پر مشتمل ’’سیرت النبیؐ بعد از وصال النبیؐ ‘‘اور دو حصوں پر مشتمل’’زیارت نبیؐ بحالت بیداری ‘‘ عرصہ دراز سے شائع ہو رہی ہیں۔دونوں نئے موضوعات ہیں۔ چودہ صدیاں گزر گئیں پہلی دفعہ اس عنوان پر معیاری اور تحقیقی کام ہوا۔ کتب تحقیقی حوالوں سے مالا مال ہیں اور عالمی اور دائمی مقبولیت حاصل کر چکی ہیں۔ صدیقی صاحب نے ’’سیرت النبی ؐبعد از وصال النبی ؐ ‘‘کے پہلے حصے میں ایک خوش نصیب نو مسلم خالد لطیف گابا سے متعلق ایک ایمان افروز واقعہ قلمبند کیا ہے۔لکھتے ہیں کہ ۔کے ایل گابا کے والد ہر کشن لال گابا ڈپٹی کمشنر ملتان کے دفتر میں کلرک تھے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے اتنی ترقی کی کہ وزیر تعلیم بن گئے،  امیر آدمی تھے ان کا دل اور دسترخوان وسیع تھا۔

ان کے بیٹے کنہیا لال گابانے1933ء میں اسلام قبول کر لیا۔ مشہور ہے کہ حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال رحمت اللہ علیہ نے ان کا نام کنہیا لا ل گابا سے خالد لطیف گابا تجویزکیا۔ انہیں دوبارہ ھندو بنانے کے لئے بڑا زور لگایا گیا مگر وہ آخر دم تک اسلام پر قائم رہے۔ آپ نے حضرت محمدؐکی سیرت طیبہ پر ایک کتاب  پیغمبر صحرا لکھی  TheProphet Of The Desert۔ یہ کتاب بڑی مقبول ہوئی۔کے ایل گابا کسی وجہ سے حکومت وقت کے زیر عتاب آگئے اور ایک مقدمہ میں قید ہوگئے۔ اس دور کے مسلمانوں نے بڑی کوششیں کیں یہاں تک کہ اخبارات میں زر ضمانت اور رہائی کے لیے اپیلیں بھی شائع ہوئیں لیکن ضمانت نہ ہو سکی اورجیل سے آپ کی رہائی نہ ہو سکی۔ سیالکوٹ کے ایک ٹھیکیدار ملک سردار علی کو خواب میں نبی کریمؐ کی زیارت نصیب ہوئی۔ آپؐ نے فرمایا سردار علی لاہور جا کر نو مسلم خالد لطیف گابا کی ضمانت دو۔ اس نے ایک کتاب لکھی ہے جو مجھے بڑی پسند ہے۔ سردار علی لاہور آئے اور ڈیڑھ لاکھ کی خطیر رقم کی ضمانت دے کر رہائی دلوائی۔

جناب خالد لطیف گابا کی تصنیف جسے بارگاہ رسالت میں قبولیت کا شرف حاصل ہوا سیرت کے موضوع پر لکھی جانے والی انگریزی کتب میں شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔اور بیسٹ سیلرقرارپائی۔

        کے ایل گابا ماہر قانون دان ہونے کے ساتھ ایک بہترین ادیب بھی تھے۔آپ نے اس کے علاوہ بھی معیاری کتب تصنیف فرمائیں۔

اسلوب:

پیغمبر صحراﷺ کا انداز بیان انتہائی عالمانہ اور محققانہ ہے۔ سادہ لیکن دل نشین طرز تحریر کیساتھ عشق و محبت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ لطافت بیان مصنف کی کریم آقاؐ سے محبت کی عکاسی کرتا ہے۔ سلاست اور روانی ایک نشست میں ہی مکمل کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ منظر کشی ایسی کہ قاری اپنے آپ کو آپؐ کے دور میں محسوس کرتا ہے۔اور آپ کے زمانہ کی تہذیب و تمدن کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ کتاب کے مطالعہ سے سیرت نگار کے علمی مقام اور سیرت کے موضوع پر تحقیقی جستجو کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

سیرت نبوی کا ذخیرہ دنیا کی ہر زبان میں ہزاروں کتب اور ان کے تراجم کی صورت میں دستیاب ہے اور ہر دور میں اضافہ ہو رہا ہے۔بہت سی کتب عالمی سطح پر مشہور ہوئیں۔یہ اس حقیقت کی علامت ہے کہ اللہ رب العزت اپنے پیارے حبیبؐ کی عظمت کا پرچم بلند کررہا ہے۔ اللہ پاک ہمیں اپنے محبوبؐ کی شفاعت سے نوازے۔

·       Download English ::  The Prophet ofThe Desert

·       Download Urdu translation by

Pro. Ahmad ul Din Marharvi :: پیغمبر ِ صحرا click the link


Share:

کس سے مانگیں، کہاں جائیں ، کس سے کہیں ، اور دنیا میں حاجت روا کون ہے kis se mangen kahan jaen lyrcis

 


کس سے مانگیں، کہاں جائیں ، کس سے کہیں ، اور دنیا میں حاجت روا کون ہے

سب کا داتا ہے تو ، سب کو دیتا ہے تو ، تیرے بندوں کا تیرے سوا کون ہے

 

کون مقبول ہے، کون مردود ہے، بے خبر! کیا خبر تجھ کو کیا کون ہے

جب تُلیں گے عمل سب کے میزان پر، تب کھلے گا کہ کھوٹا کھرا کون ہے

 

کون سنتا ہے فریاد مظلوم کی ، کس کے ہاتھوں میں کنجی ہے مقسوم کی

رزق پر کس کے پلتے ہیں شاہ وگدا، مسند آرائے بزمِ عطا کون ہے

 

اولیا تیرے محتاج اے ربّ کل ، تیرے بندے ہیں سب انبیاء ورُسُل

ان کی عزت کا باعث ہے نسبت تری ، ان کی پہچان تیرے سوا کون ہے

 

 میرا مالک مری سن رہا ہے فغاں ، جانتا ہے وہ خاموشیوں کی زباں

اب مری راہ میں کوئی حائل نہ ہو ، نامہ بر کیا بلا ہے، صبا کون ہے

 

وہ حقائق ہوں اشیاء کے یا خشک وتر ، فہم وادراک کی زد میں ہیں سب ،مگر

ماسوا ایک اس ذاتِ بے رنگ کے ، فہم وادراک سے ماورٰی کون ہے

 

انبیا، اولیا، اہل بیت نبی ، تابعین و‌صحابہ پہ جب آ بنی

گر کے سجدے میں سب نے یہی عرض کی، تو نہیں ہے تو مشکل کشا کون ہے

 

اہل فکر ونظر جانتے ہیں تجھے ، کچھ نہ ہونے پہ بھی مانتے ہیں تجھے

اے نصیرؔ اس کو تو فضلِ باری سمجھ ، ورنہ تیری طرف دیکھتا کون ہے

 

کلام : پیر نصیر الدین نصیر رحمۃ اللہ  تعالی علیہ

Share:

یہ کہتی تھی گھر گھر میں جا کر حلیمہ میرے گھر میں خیر الوری آ گئے ہیں


 

صلی اللہ علیہ وسلم  صلی اللہ علیہ وسلم

یہ کہتی تھی گھر گھر میں جا کر حلیمہ میرے گھر میں خیر الوری آ گئے ہیں

بڑے اوج پر ہے میرا ب مقدر میرے میں حبیب خدا آ گئے ہیں

 

حلیمہ سے پوچھو یہ کر  کے مقرر کیا کس نے ہے تیرے گھر کو منور

میں بھی وہی میرا گھر بھی وہی ہے مگر گھر میں مہماں عجیب اآ گئے ہیں

 

سبھی دائیوں نے حلیمہ سے پوچھا تیرے پاس کیا ہے تو بولی حلیمہ

اسے دیکھ کر پھر بتاؤ کہ ایسا کسی کو ملا ہے نہیں ہے نہیں ہے

 

یہ ظلمت سے کہہ دو کہ ڈیرے اٹھا لے کہ ہیں چار سو اب اجالے اجالے

کہا جن کو حق نے سراجاً منیرا میرے گھر وہ نور خدا آ گئے ہیں


Share:

10/21/20

ادھر بھی ہو ابرِ رحمت کا چھینٹا ، ادھر بھی نظر بے سہاروں کے والی :: خوبصورت نعت رسول ﷺ

 


ادھر بھی ہو ابرِ رحمت کا چھینٹا ، ادھر بھی نظر بے سہاروں کے والی

نگاہوں میں ہے تیری بخشش کا عالم ، کھڑے ہیں تیرے در پہ تیرے سوالی

 

ہمیں پھر عطا ہو جلالِ ابو ذر ، ہمیں پھر عنایت ہو شانِ بلالی

دمکتے رہیں تیرے گنبد کے جلوے ، سلامت رہے تیرے روضے کی جالی

 

جہاں سے ملی تھی بوصیری کو چادر ، جہاں کیف ساماں تھی روح بلالی

وہیں لے کے آیا ہوں پھولوں کے گجرے وہیں لے کے آیا ہوں پھولوں کی ڈالی

 

بجا ہے کہ ہم تشنگانِ کرم کا ، عمل کی حقیقت سے دامن ہے خالی

مگر یہ شرف بھی کوئی کم نہیں ہے ، تیری ذات سے ایک نسبت ہے عالی

 

شبِ زندگی کی سحر کرنے والے، خزف* کو حریفِ گوہر کرنے والے

عرب تیرے فیضانِ رحمت کا طالب، عجم تیری چشم ِ کرم کا سوالی


خزف:  کنکر ، بے وقعت

Share:

میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ تعالی علیہ:: ایک مختصر تعارفی نوٹ

اعلی حضرت شیرربانی میاں شیر محمد شرقپوری رحمتہ اللہ تعالی علیہ


(ایک مختصر تعارفی نوٹ)

(پیدائش: 1865ء— وفات: 20 اگست 1928ء)

سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کے اجل اور صاحب کرامت ولی اللہہو گزرے ہیں پنجاب کے ان اولیا کرام میں سے ہیں جنہوں نے سلسلہ نقشبندیہ میں بے پناہ شہرت حاصل کی۔

میاں شیر محمد بن میاں عزیز الدین بن محمد حسین بن حافظ محمد عمر بن محمد صالح بن حافظ محمد بن حافظ ہاشم رحمتہ اللہ تعالی علیہم 1282ھ/ 1865ء کو شرقپور میں پیدا ہوئے۔ انہیں سائیں شیر محمد شرقپوری رحمتہ اللہ تعالی علیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ میاں شیرمحمد شرقپوری رحمتہ اللہ تعالی علیہ پاک و ہند کے ان صوفیا کرام میں سے تھے جنہوں نے اس صدی میں اپنی قوت روحانی اور عظمت کردار کی بدولت لاکھوں گم کردہ راہ لوگوں کو سیدھا راستہ دکھایا ان کا ہر لمحہ سنت نبوی کے مطابق گذرتا تھا۔خلا ف سنت و شریعت فعل انہیں دیکھنا بھی برداشت نہ ہوتا تھا پاکستان میں جن بزرگوں کی علمی و باطنی تبلیغ سے نقشبندی سلسلہ کو آخری دور میں فروغ حاصل ہوا ان میں میاں شیر محمد شرقپوری رحمتہ اللہ تعالی علیہ کا بڑا حصہ ہے۔اور آپ کا نمایاں نام ہے ابتدائی تعلیم اپنے چچا میاں حمیدالدین سے حاصل کی اور اس کے بعد طریقہ نقشبندیہ مجددیہ میں خواجہ امیر الدین رحمتہ اللہ تعالی علیہ سے بیعت ہوئے ۔ان کا سلسلہ طریقت حضرت مجدد الف ثانی تک پہنچتا ہے۔

میاں صاحب کی ساری زندگی اتباع شریعت کی تبلیغ میں صرف ہوئی ۔ سائیں صاحب نے 3 ربيع الأول 1347ھ/ 28 اگست 1928ء بروز پیر وفات پائی۔

ولادت:۔

میاں شیر محمد شیرربانی رحمتہ اللہ تعالی علیہ آپ پیدائشی ولی تھے۔ 1282ھ 1865ء میں پیدا ہوئے ولادت کے ساتویں دن آپ کا نام شیر محمد رکھا گیا۔ ذات کے ارائیں تھے۔ کھیتی باڑی ان کا خاندانی پیشہ تھا۔ میاں شیر محمد رحمتہ اللہ تعالی علیہ کی ولادت سے قبل ایک مجذوب بزرگ شرقپور شریف میں تشریف لائے اور اکثر آپ کے گھر کے گرد چکر لگاتے ہوئے لمبے لمبے سانس لیتے جیسے کہ کوئی خوشبو سونگھتا ہے جب اُن سے پوچھا جاتا تو کہتے کہ اس گھر سے دوست کی خوشبو آ رہی ہے۔ وہ اللہ تعالی تعالیٰ کا مقبول بندہ ہو گا۔ اسی طرح آپ کی ولادت سے قبل خواجہ امیر الدین رحمتہ اللہ تعالی علیہ نے اکثر شرقپور شریف جانا شروع کر دیا، تاکہ اس بابرکت بچے کو نسبت نقشبندیہ سے مستفیض فرمائیں۔

آباء و اجداد:۔

میاں شیر محمد المعروف شیرربانی رحمتہ اللہ تعالی علیہ کے آباء و اجداد کابل افغانستان سے ہجرت کر کے پنجاب ہندوستان آئے اور پہلے وہ دیپالپور میں مقیم ہوئے پھر زمانے کے انقلاب سے خاندان کے بعض بزرگوں نے شہر قصور میں رہائش اختیار کی۔ آپ کے جد اعلیٰ مولوی غلام رسول جن دنوں حجرہ شاہ مقیم میں سکونت رکھتے تھے ویدیوؤں نے اس علاقہ پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا اس دوران مولوی غلام رسول کو بھی گرفتار کر لیا گیا ان کی قید سے جب رہائی ملی تو حجرہ شاہ مقیم سے شرقپور شریف تشریف لے آئے اور اس مقام پر مستقل سکونت اختیار کی۔۔ آپ کے والد ماجد کا نام میاں عزیز الدین رحمتہ اللہ تعالی علیہ تھا۔ قادری طریق میں بیعت تھے نہایت نیک سیرت اور پاک طینت بزرگ تھے روہتک میں ملازمت کرتے تھے اور وہیں پر ان کا انتقال ہوا۔ علم وہنر کے سبب شہر کے رؤسا ان کے حلقہ بگوش ہو گئے اور انہیں مخدوم کے لقب سے یاد کرنے لگے۔ دین کی تدریس و تبلیغ کے سوا اس خاندان کا کوئی مشغلہ نہیں تھا۔۔ وہ محنت و مشقت کی روزی پر یقین رکھتے تھے اس لیے اپنی کتابوں اور قرآن پاک کی کتابت کرتے تھے۔ قرآن پاک کا حفظ اس خاندان کی روایت تھی۔ حالات کچھ معمول پر آئے تو ان میں چند بزرگ دیپال پور واپس چلے گئے مگر خاندان کے باقی لوگوں کو قصور کی آب وہوا اور اس کے لوگ ایسے پسند آئے کہ وہ وہیں کے ہو کے رہ گئے۔ میاں عزیز الدین کے نانا مولوی غلام رسول کو قصور کے باشندے بے حد عزیز رکھتے تھے۔ مولوی غلام رسول تپاک، انکسار، دیانت اور زہد وتقوی میں ایک مثال تھے۔ وہ حافظ ہونے کے علاوہ خطاط بھی تھے۔ لوگ اپنے دینی اور سماجی مسائل کے حل کے لیے ان ہی سے رجوع کرتے تھے۔

القاب وخطابات:۔

میاں شیر محمد رحمتہ اللہ تعالی علیہ کو عاشق ربانی ،شیر یزدانی، عارفِ اکمل اور شیر ربانی کے القابات سے یاد کیا جاتا ہے

بچپن:۔

میاں شیر محمد شرقپوری رحمتہ اللہ تعالی علیہ مادر زاد ولی اللہ تھے۔ جو کوئی آپ کو دیکھتا تو بے اختیار کہہ دیتا کہ آپ مادرزاد ولی اللہ ہیں۔ آپ کا بچپن عام بچوں کی طرح نہ تھا۔ آپ بچپن سے ہی گوشہ نشینی کو پسند فرماتے تھے بچوں کے ساتھ کھیلتے کودتے نہ تھے۔ آپ کی حیا کا یہ عالم تھا کہ چھوٹی سی عمر میں بھی جب کبھی محلّہ سے گزرتے تو سر مبارک پر چادر اوڑھے ہوئے ہوتے۔ محلّہ کی عورتیں آپ کی نگاہ کی پاکیزگی اور حیاء کی قدر کرتی تھیں۔ بچپن سے ہی آپ کی پیشانی مبارک سے نور ولایت ہویدا تھا۔

تعلیم وتربیت:۔

آپ کو قرآن حکیم پڑھنے کی غرض سے مکتب میں داخل کرایا گیا تو آپ نے بہت جلد قرآن حکیم پڑھ لیا ۔ماں اور چچا کی نگرانی میں آپ نے گھر میں ناظرہ قرآن ختم کیا۔ چچا نے آپ کو شرقپور کے اسکول میں داخل کروایا۔ اسکول کی فضا آپ کے لیے نئی تھی، ماں اور چچا کی خواہش پر آپ پابندی سے اسکول تو چلے جاتے مگر وہاں آپ کا جی نہیں لگتا تھا۔۔ چچا آپ کی بے دلی پر ہراساں ہو گے۔ آپ کے اساتذہ بتاتے کے آپ جماعت میں گم صم بیٹھے رہتے ہیں۔ آپ کا عجب عالم تھا چھٹی کی گھنٹی بجتی تو سب بچے کھیل کود میں مشغول ہو جاتے لیکن آپ مسجد کا رخ کرتے اور وہاں جا کر سر جھکائے تنہا بیٹھے رہتے۔ بہر صورت کسی نہ کسی طرح آپ نے پانچویں جماعت پاس کر لی۔ چچا کو احساس ہو گیا کہ مدرسہ آپ کے لیے مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے مستقل طور پر آپ کو نگاہوں کے سامنے رکھنا شروع کر دیا اور فارسی کی درسی کتب سے ابتدا کی۔ دادا حافظ محمد حسین نے بھی توجہ کی اور قرآن کا آموختہ کرایا۔ آپ کا یہ حال تھا کہ جب سپارہ پڑھنے کو دیا جاتا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے سپارہ بھیگ بھیگ کر چند روز میں خستہ ہو جاتا۔ دادا آپ کی اشک فسانی کی وجہ پوچھتے تو جواب سکوت کے سوا کچھ نہ ہوتا۔ دادا اور چچا کی درخواست پر شہر کے ایک عالم حکیم شیر علی نے آپ کو کتابوں کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی۔ آپ نے اب بھی کتابوں میں کسی دلچسپی کا اظہار نہ کیا۔ ہاں آپ کو خوشنویسی سے ضرور کسی قدر رغبت ہوئی۔ مدرسے ہی میں آپ حروف و الفاظ کو ایک کہنہ مشق خطاط کی طرح نئی نئی شکلیں دینے لگے تھے۔ آپ نے مختلف خطوں میں قرآن پاک لکھنے کی مشق کی۔ آپ کی مکتوبہ بیاضیں اور قرآنی نسخے دیکھ کر بڑے بڑے کاتب نقاش اور خطاط انگشت بہ لب رہ جاتے تھے۔ کسی کو یقین نہیں آتا تھا کہ یہ کام نو مکتب کا کیا ہوا ہے۔

بیعت وخلافت:۔

بابا امیر الدین نقشبندی رحمتہ اللہ تعالی علیہ کوٹلہ سے شرقپور آتے اکثر آپ کے والد صاحب کے ہاں ٹھہرتے ان کے روحانی تصرف کے زیر اثر آپ نے ان سے بیعت کی اور کافی عرصہ تک جذب و سکر کی کیفیت طاری رہی جب مرشد نے عروج دیکھا تو خلافت بھی عطا فرمانے کا ارادہ کیا لیکن آپ کافی عرصہ تک انکاری رہے بالاخر مرشد کے اصرار پر قبول فرمایا اور ان کے حکم پر ہی شرقپور کو اپنی قیام گاہ بنایا اور روحانی سلسلہ آج تک قائم ہے۔

اتباع_سنت:۔

میاں شیر محمد شرقپوری رحمتہ اللہ تعالی علیہ زندگی کے تمام معمولات میں شریعت مطہرہ کی پیروی کا خاص طور پر خیال رکھا کرتے تھے۔ اگر کوئی آپ کی مجلس پاک میں آلتی پالتی مار کر بیٹھتا تو آپ اس پر خفا ہوتے اور فرماتے لوگوں کو بیٹھنے کا طریقہ بھی نہیں آتا۔ پہلے بیٹھنے کا طریقہ تو سیکھنا چاہیے آپ دو زانو ہوکر بیٹھنے کو پسند فرماتے تھے۔ آپ اتباع نبوی ﷺ کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ آپ نے اپنی پوری زندگی اتباع سنت میں گزاری اور اپنے پیروکاروں کی بھی یہی درس دیا کہ زندگی کے ہر فعل میں سنت نبوی کی اتباع کرو۔ آپ جامع علوم ظاہری وباطنی تھے۔ آپ علم، ریاضت، مجاہدہ، زہد، جودوسخا اور بردباری میں بے نظیر تھے۔ گویا کہ آپ اپنے وقت کے قطب الاقطاب اور ولی کامل تھے۔ آپ کی برکت سے کئی مردہ دل نور الہی سے منور ہوئے ہیں اور آج بھی آپ کا ذکر اور نام بڑی عقیدت وارفتگی سے لیا جاتا ہے۔

ارشادات ِعالیہ:۔

میاں شیر محمد رحمتہ اللہ تعالی علیہ کے ارشادات عالیہ سے بھلائی اور اچھائی کا درس ملتا ہے۔ آپ کا معمول تھا کہ آپ ہر آنے والے کو تلقین و ہدایت فرمایا کرتے تھے اور شریعت مطہرہ کے مطابق زندگیاں گزارنے کا سبق دیتے تھے ذیل میں اسی حوالے سے آپ کے چند ارشادات عالیہ بیان کیے جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ

1۔ اپنے سالن کی وجہ سے ہمسایہ کو تکلیف نہ دو اگر کوئی لذیذ سالن پکاؤ تو پہلے ہمسایہ کے گھر بھیج دو جس شخص سے اس کا ہمسایہ ناراض ہو اس سے اللہ تعالی اور رسول ناراض ہو جاتے ہیں۔

2۔ لوگوں کو لا الہ اِلا اللہ تعالی پر پورا یقین نہیں ہے اگر یقین ہو تو اعمال درست ہوجائیں۔

3۔ ہر کام کو کرنے سے پہلے بسم اللہ تعالی پڑھ لیا کرو۔

4۔ توجہ یہ چیز ہے کہ مرید صادق کا خیال مرشد کی طرف ہو اور شیخ کا خیال مرید کی طرف ہو یہ ضروری نہیں کہ سامنے بٹھا کر خیال کیا جائے۔

5۔ جب کسی طالب صادق کی طرف خیال کیا جاتا ہے خواہ وہ طالب کہیں ہو۔ ہوا میں سے گزرتا ہوا وہ خیال اُس تک پہنچ جاتا ہے۔

6۔ دیوار کی ایک ایک اینٹ بھی صاحب فکر کے لیے بڑا وعظ ہے مگر انسان غفلت میں غرق ہے۔

7۔ جو پیر جبراً مریدوں کے گھر میں قیام کرتے ہیں وہ ظالم تھانیداروں سے کم نہیں ہیں۔

8۔ توکل بڑی مشکل چیز ہے کوئی ہم سے پوچھے کہ توکل کے راستہ میں کون کون سے امتحان ہوتے ہیں۔

9۔ عید تو تب ہے جب دل اللہ تعالی تعالیٰ کی طرف عود کرے ورنہ عید کیسی۔

وفات:۔

میاں شیر محمد شرقپوری رحمتہ اللہ تعالی علیہ سوموار 3 ربیع الاول 1347ھ 20 اگست 1928ء بعد نماز عصر اس عالم فانی سے عالم باقی کی طرف رحلت فرما گئے۔ نصف شب کے وقت آپ کو غسل دیا گیا اور صبح کے وقت آپ کا جنازہ اٹھایا گیا نماز جنازہ صاحبزادہ محمد مظہر قیوم جانشین مکان شریف نے پڑھائی ہزاروں عقیدت مند نماز جنازہ میں شامل تھے آپ کو دوہڑاں والے قبرستان شرقپور شریف میں دفن کیا گیا۔ آپ کے مزار اقدس پر روزانہ لاتعداد عقیدت مند حاضری کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور روحانی فیوض و برکات سے مستفید ہوتے ہیں۔


Share:

10/20/20

aaya sofya :: آیا صوفیا ترکی:: سلطان محمد فاتح:: ترکی عدالت کا تاریخ ساز فیصلہ آیا صوفیا عجائب گھر سے مسجد

آیاصوفیا کو رومی شہنشاہ جسٹینین اول کے عہد 537ءمیں تعمیر کیا گیا۔ نصف مسیحی دنیا اس کلیسا کو اپنی مقدس ترین عبادت گاہ سمجھا کرتی تھی۔ اس کی بنیاد تیسری صدی عیسوی میں اسی رومی بادشاہ قسطنطین نے ڈالی تھی جو روم کا پہلا عیسائی بادشاہ تھا اور جس کے نام پر اس شہر کا نام بزنطیہ سے قسطنطنیہ رکھا گیا تھا۔

اس عمارت نے کی رنگ روپ بدلے، کئی بار اجڑی اور آباد ہوئی۔ رومی اور بازنطینی آپس میں لڑتے رہے اور گرجا گھر کا تشخص بدلتے رہے۔ موقع ملنے پر یونانیوں نے بھی گرجا گھر کی شکل بدل ڈالی۔537ء تا 1054ء یہ بطور بازنطینی کرسچین گرجاگھر قائم رہا۔1054ء تا 1204ء یونانیوں نے قبضہ کرکے قدامت پرست کیتھیڈرل  بنا دیا۔ 1204ء تا 1268ء رومیوں نے قبضہ کرکے رومن کیتھولک چرچ میں تبدیل کر دیا۔ دوسرے گروہوں کی تمام نشانیاں ایک بار پھر مٹا دی گئیں۔1261ء تا 1453ء اسے یونانی آرتھوڈکس میں بدل دیا گیا۔

            ء1453ء میں فاتح سلطان محمد نے جب رومیوں اور یونانیوں کو عبرتناک شکست دینے کے بعد پورے علاقے کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا تو وہاں مسلمانوں کی نماز اور اجتماع کے لیے فوری کوئی عبادت گاہ نہ تھی ، اس لیے سلطان نے آرتھوڈکس کلیسا کے اس تاریخی مذہبی مرکز کو مسجد بنانے کا ارادہ کیا۔چنانچہ سلطان نے  اس عمارت کو اور ااس پاس کی زمین کو اپنے ذاتی مال سے خریدا اور اس کی مکمل قیمت کلیسا کے راہبوں کو ادا کر دی، سلطان نے اس مصرف کے لیے مسلمانوں کے بیت المال سے بھی قیمت نہیں بلکہ طے کردہ پوری قیمت اپنی جیب سے ادا کی ۔ پھر اس عمارت اور زمین کو مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔ خرید و فروخت کی یہ دستاویزات آج بھی ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں موجود ہیں۔ اس کے بعد یہ عمارت ’’مسجد آیا صوفیا‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئی اور سلطنت عثمانیہ کے خاتمے تک تقریباً پانچ سو سا ل تک اس میں پانچ وقت کی نماز ہوتی رہی۔ جہاں کئی صدیوں تک کروڑوں مسلمانوں نے سجدے کیے تھے ، اس عظیم الشان مسجد کو 1935ء میں کمال اتا ترک نے عجائب خانہ بنانے کی ڈگری جاری کر دی۔ یوں عالمِ اسلام کو اس پر شکوہ عبادت گاہ سے محروم کر دیا گیا۔

            ء 10 جولائی 2020ءکو ترکی کی عدالت عظمی نے آیا صوفیا عجائب گھر کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کی سرکاری طور پر منظوری دے دی۔

Share:

10/19/20

how to get rid of jealousy :: good qualities in a man ::evil eye jealousy :: Causes of Jealousy in relationship

Jealousy is one of the causes of mental and emotional turmoil. Jealousy arises because of the good qualities in another person.


 

Reasons for Good Qualities:

There can be only two reasons for good qualities, First is that Allah Almighty has blessed man and the Second is That with the help of Allah Almighty man acquires these attributes by working hard.

Causes of Jealousy in relationship:

For either of these two reasons, when a person becomes moral or has acquired that particular virtue, then some people do not like that virtue which makes them jealous. They start hating this person. They do not like the expression of this particular quality in this person.

Bad Impacts of Jealousy:

These feelings and emotions have a very bad effect on a person's personality and destroy a person emotionally. Many emotional, social and moral evils arise in man.

Such as

·       looking with suspicion

·       blaming

·       criticizing

·       hating

·       making mistakes

·       trying to do harm

·       heart and mind restlessness

·       suffering from emotional stress

·       negative thinking

·       selfishness


How to get rid of jealousy?

How do you get rid of jealousy is an honest question from a person. It is very difficult but not impossible to get rid of jealousy. It takes a little time.

There are a few ways to get rid of it.

·       Ignorance:

Ignore the person you are jealous of. Do not discuss his good qualities. Get up from where he is being praised. It's not that you keep thinking about him, it's just that you get busy with something else

·       To Praise:

Wherever he is being praised, you should also praise him. This task will be very difficult in the beginning but it will be very beneficial. Gradually you will come out of the state of jealousy. If you cannot sit in people and praise, then Praise him in solitude.

·       Focus on positive aspects:

Look at the good qualities of this person. Pay attention to his virtues. Find the good in his every work.

·       Giveing Gifts:

Giving a gift is a great feature and it is a virtue that replaces hatred and creates an atmosphere of love and affection on both sides. Gifts are a great way to get rid of jealousy.

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive