Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

2/14/17

الحیاء من الایمان (حیا ایمان کا حصہ ہے)

الحیاء من الایمان

اس مضمون میں آپ درج ذیل عنوان کا مطالعہ کریں گے:

حیاء ایمان کا حصہ ہے:۔

حیا ءسے متعلق احادیث مبارکہ:۔

حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیاں:۔

عملی اعتبار سے حیا کے تین شعبے ہیں:

یہ بھی پڑھیں۔۔۔۔۔ حیا کے انسانی زندگی پر اثرات

 

حیاء ایمان کا حصہ ہے

آج دنیا بھر کا میڈیا ایک خاص محنت میں مصروف ہے ۔ وہ اخبارات ہوں یا ٹی وی چینلز ‘ وہ رسائل و جرائد ہوں یا ریڈیو چینلز ‘ سب مسلمانوں سے وہ دولتِ بے بہا اور متاع بیش بہا چھین لینا چاہتے ہیں ‘ جسے ہم ‘‘شرم و حیاء’’  کہتے ہیں ۔ اسلام کا مزاج شرم و حیاء کا ہے اور مغربی ثقافت کی ساری بنیاد ہی بے حیائی اور بے شرمی پر کھڑی ہے، حیاء ہی وہ جوہر ہے ‘ جس سے محروم ہونے کے بعد انسان کا ہر قدم برائی کی طرف ہی اٹھتا ہے اور ہر گناہ کرنا آسان سے آسان تر ہو جاتا ہے ۔ شرم و حیاء آپ کیلئے ایسی قدرتی اور فطری ڈھال ہے‘ جس کی پناہ میں آپ معاشرے کی تمام گندگیوں سے محفوظ رہتے ہیں ۔

حیا ءسے متعلق احادیث مبارکہ:۔

شرم و حیاء کی اسی اہمیت کی وجہ سے قرآن و حدیث میں ہمیں بار بار اس کی طرف متوجہ کیا گیا ہے ۔ اور شریعتِ اسلامی میں اس صفت کو نمایاں مقام حاصل ہے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اس کی نہایت تاکید فرمائی ہے ۔ اس سلسلہ کی چند احادیث درج ذیل ہیں:

(۱)…  حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺنے ارشاد فرمایا :

الحیاء لا یاتی الا بخیر و فی روایۃ الحیاء خیر کلہ ( بخاری شریف)

( حیا کا نتیجہ صرف خیر ہے اور ایک روایت میں ہے کہ حیا ساری کی ساری خیر ہی ہے)۔

(۲)… حضرت زید بن طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺنے ارشاد فرمایا :

ان لکل دین خلقا و خلق الاسلام الحیاء ( مشکوٰۃ شریف )

(ہر دین کی (خاص) عادت ہوتی ہے اور اسلام کی عادت حیا ہے)

3:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ان الحیاء والایمان قرنا ء جمیعاً فاذا رفع احد ھما رفع الاخر (مشکوٰۃ شریف)

ترجمہ: حیا اور ایمان دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی اٹھ جائے تو دوسرا بھی خود بخود اٹھ جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں۔۔۔۔۔ حیا کے انسانی زندگی پر اثرات

4: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :

ان مما ادرک الناس من کلام النبوۃ الاولیٰ اذا لم تستحی فاصنع ماشئت (بخاری شریف)

ترجمہ: پہلے انبیاء کے کلام سے لوگوں نے یہ جملہ بھی پایا ہے کہ اگر تو حیا نہ کرے تو جو چاہے کر۔(یعنی کوئی چیز تجھ کو برائی سے روکنے والی نہ ہو گی۔

5:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺنے ارشاد فرمایا :الحیاء شعبۃ من الایمان(بخاری شریف)

ترجمہ: حیاایمان کا (اہم ترین) شعبہ ہے۔

6:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

الحیاء من الایمان والایمان فی الجنۃ والبذ اء من الجفاء والجفاء فی النار(ترمذی)

ترجمہ: حیا ایمان میں سے ہے اور ایمان (یعنی اہل ایمان) جنت میں ہیں ۔ اور بے حیائی بدی میں سے ہے اور بدی (والے) جہنمی ہیں۔

7: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ماکان الفحش فی شیٔ الا شانہ وما کان الحیاء فی شیٔ الا زانہ (ترمذی شریف)

ترجمہ: بے حیائی جب بھی کسی چیز میں ہو گی تو اُسے عیب دار ہی بنائے گی ۔ اور حیاء جب بھی کسی چیز میں ہو گی تو اُسے مزین اور خوبصورت ہی کرے گی۔

8: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ محسن انسانیت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

ان اللہ عزوجل اذا اراد ان یھلک عبدا نزع منہ الحیاء فاذا نزع منہ الحیاء لم تلقہ الا مقیتا ممقتا فاذا لم تلقہ الا مقیتا ممقتا نزعت منہ الا ما نۃ فاذا نزعت منہ الا مانۃ لم تلقہ الا خائنا مخوانا فاذا لم تلقہ الا خائنا مخونا نزعت منہ الرحمۃ فاذا نزعت منہ الرحمۃ لم تلقہ الا رجیما ملا عنا فاذا لم تلقہ الا رجیما ملا عنا نزعت منہ ربقۃ الاسلام (ابن ماجہ شریف)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ جب کسی بندہ کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اُس سے حیا کی صفت چھین لیتا ہے ۔ پس جب اُس سے حیا نکل جاتی ہے تو وہ (خود ) بغض رکھنے والا اور (دوسروں کی نظر میں) مبغوض ہو جاتا ہے ۔ پھر جب وہ بغیض و مبغوض ہو جاتا ہے تو اس سے امانت نکل جاتی ہے ۔ جب اُس سے امانت نکل جاتی ہے تو وہ خائن اور (لوگوں کی نظر میں) بَد دیانت ہو جاتا ہے ۔ جب وہ خائن اور بددیانت ہو جاتا ہے تو اس میں سے رحم کا مادہ نکل جاتا ہے ۔ جب اُس سے رحمت نکلتی ہے تو وہ لاعن و ملعون ہو جاتا ہے پس جب لاعن اور ملعون ہو جاتا ہے تو اُس سے اسلام کا پھندا (عہد ) نکل جاتا ہے )۔

اسلامی شریعت میں حیا سے مراد محض انسانوں سے حیا نہیں بلکہ اسلام اپنے ماننے والوں کو اس اللہ علیم و خبیر سے بھی  شرم کرنے کی تلقین کرتاہے جو ظاہر و پوشیدہ ، حاضر و غائب ہر چیز کو اچھی طرح جاننے والا ہے ۔ اس سے شرم کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ جو فعل بھی اس کی نظر میں برا ہو اُسے کسی بھی حال میں ہرگز ہرگز نہ کیا جائے اور اپنے تمام اعضاء و جوارح کو اس کا پابند بنایا جائے کہ ان سے کسی بھی ایسے کام کا صُد ور نہ ہو جو اللہ تعالیٰ سے شرمانے کے تقاضے کے خلاف ہو ۔ اس سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو واضح ہدایت فرمائی ہے ۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :

استحیوا من اللّٰہ حق الحیاء قالواانا نستحیی من اللّٰہ یا نبی اللّٰہ والحمد للّٰہ قال لیس ذلک ولکن من استحی من اللّٰہ حق الحیاء فلیحفظ الراس و ما وعیٰ ولیحفظ البطن وما حوٰی ولیذ کر الموت والبلٰی و من اراد الا خرۃ ترک زینۃ الدنیا فمن فعل ذلک فقد استحیٰ من اللّٰہ حق الحیاء(مشکوٰۃ شریف)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ سے اتنی شرم کرو جتنی اُس سے شرم کرنے کا حق ہے ۔ صحابہ نے عرض کیا تمام تعریف اللہ کے لئے ہیں‘ اے اللہ کے نبی ! ہم اللہ سے شرم تو کرتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ مراد نہیں بلکہ جو شخص اللہ سے شرمانے کے حق کو ادا کرے گا تو (اسے تین کام کرنے ہوں گے) اول یہ کہ اپنے سر کی حفاظت کرے اور اس چیز کی جس کو سرنے جمع کیا اور (دوسرے یہ کہ) پیٹ کی حفاظت کرے اور اس چیز کی جو پیٹ سے لگی ہوئی ہے اور (تیسرے یہ کہ ) موت کو اور موت کے بعد کے حالات کو یاد کرے اور (خلاصہ یہ ہے کہ ) جو شخص آخرت کا ارادہ کرے وہ دنیا کی زیب و زینت چھوڑ دے پس جو ایسا کرے گا تو وہ اللہ سے حیا کرنے کا حق ادا کرے گا۔

قرآن مجید حیا کے متعلق ایک خوبصورت واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے، جس سے مسلمان عورت کو یہ سبق بھی ملتا ہے کہ وہ کس طرح اپنے گھر سے نکلے۔

حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیاں:۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک عظیم پیغمبر تھے،  جو اﷲ تعالیٰ  سے براہ راست ہم کلام ہوئے۔ ایک مرتبہ سفر میں تھے گرمی کا موسم تھا پاؤں ننگے تھے۔ سفر کی تھکاوٹ اور پیدل چل چل کر پاؤں میں چھالے پڑچکے ہیں، ذرا آرام کرنے کے لئے ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ فاصلے پر ایک کنواں ہے وہاں سے کچھ نوجوان اپنی بکریوں کو پانی پلارہے ہیں اور ان سے کچھ فاصلے پر باحیا دو لڑکیاں کھڑی ہیں۔ جب آپ ں نے ان کو دیکھا تو حیرانگی کی انتہا نہ رہی کہ یہ دونوں لڑکیاں اس جنگل میں کیوں کھڑی ہیں اور کس کا انتظار کررہی ہیں؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب وجہ دریافت کی تو پتہ چلا کہ ان کا کوئی بھائی نہیں، باپ بوڑھا ہے وہ اس قابل نہیں کہ چل پھرسکے اور وہ دونوں اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لئے آئی ہیں کہ جب تمام لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلاکر چلے جائیں گے تو آخر میں یہ اپنی بکریوں کو پانی پلائیں گی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کی بات سننے کے بعد آگے بڑھے اور خود پانی کنوئیں سے نکالا اور ان کی بکریوں کو پلادیا۔ لڑکیاں جب خلاف معمول جلدی  گھر پہنچیں تو باپ نے جلدی آنے کی وجہ پوچھی تو دونوں نے باپ کو پوری حقیقت سے آگاہ کردیا۔ باپ خود بھی پیغمبر  تھے فرمایا کہ جاؤ اس نوجوان کو بلاکر لاؤ تاکہ ہم اس کو پورا پورا بدلہ دیں۔ اب ایک لڑکی جب موسیٰ علیہ السلام کو بلانے آئی تو وہ کس طرح آئی ، اس کا انداز کیا تھا۔ قرآن نے اس کے چلنے کا انداز جوکہ شرم و حیا سے لبریز تھا اس طرح بیان کیا ہے:

ترجمہ: ’’پھر آئی ان دونوں میں سے ایک، شرم و حیا سے چلتی ہوئی۔ وہ کہنے لگی کہ میرا باپ آپ کو بلاتا ہے تاکہ وہ بدلہ دے جوآپ نے ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے۔‘‘(القصص ؍ ۲۵)

حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے آئی۔ شرم و حیا کا دامن نہیں چھوڑا نگاہ نیچے تھی۔بات بھی شرما کر زیادہ کھل کر نہیں کی۔اﷲ تعالیٰ کو اس کی حیا اس قدر پسند آئی کہ اس حیا کو قرآن بناکرحضرت محمد رسول اﷲﷺ پر نازل کردیا تاکہ پوری امت کی عورتوں کو پتہ چل جائے کہ جب وہ گھروں سے نکلیں تو شرم و حیا سے عاری لوگوں کی طرح گردن اٹھاکر نہ چلیں بلکہ دھیمی چال سے کہ شرافت اور حیا ان سے واضح نظر آئے۔ جس طرح شعیب علیہ السلام کی بیٹی شرم و حیا سے چلتی ہوئی آئی۔

یہ بھی پڑھیں۔۔۔۔۔ حیا کے انسانی زندگی پر اثرات

 عملی اعتبار سے حیا کے تین شعبے ہیں:

(۱) اﷲ تعالیٰ سے حیا

(۲) لوگوں سے حیا

(۳) اپنے نفس سے حیا

اﷲ تعالیٰ سے حیا کا مطلب یہ ہے کہ احکام الٰہی کو نہ توڑے۔ لوگوں سے حیا یہ کہ حقوق العباد کو ادا کرے،لوگوں کے سامنے جن باتوں کے اظہار کو محبوب اور برا سمجھا جاتا ہے،اُن کے اظہار سے بچے اور اپنے نفس سے حیا یہ ہے کہ نفس کو ہر برے اور قابل مذمت کام سے بچائے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ چند آیات اور احادیث کے مطالعے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اسلام نے شرم و حیا پر کتنا زیادہ زور دیا ہے اور اس کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ اسے ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔

شرم و حیاء ایمانی زیور ہے لیکن آج کل کے دور میں شرم وحیا، عفت و عصمت کا جنازہ نکل چکا ہے۔ آج حیا ایک عیب بن کر رہ گیا ہے۔ مغربی تہذیب نے دنیاکو بے شرم اور بے حیا بنادیا ہے۔آج اگر ہم اپنے معاشرے میں نظر دوڑائیں تو ہر طرف بیہودہ  تصویریں نظر آتی ہیں ۔ مغربی میڈیا ہر جگہ عورت کی تصویر کو نمائش بناکر پیش کررہا ہے، آپ کو مختلف چوکوں اور چوراہوں پر ایسے سائن بورڈ نظر آئیں گے جہاں عورت کی تصویر ذریعہ اشتہار برائے کمائی نظر آئے گی، عورت کی اس حالت کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے :پھر افسوس ہے کہ بے وقوف لوگ اسی کو آزادیٔ نسواں اور حقوق ِ نسواں کا نام دیتے ہیں۔

        اپنی زندگی میں ہر قدم ایسے پھونک پھونک کر رکھیں کہ ایمان کے لٹیرے اور عزتوں کے ڈاکو کہیں شرم و حیاء کی یہ قیمتی دولت آپ سے چھین نہ لیں ۔

اللہ کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔ آمین ثم آمین

وصلی اللّٰہ علی النبی الکریم و علی آلہ و صحبہ اجمعین


Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive