Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

12/12/21

اجمیر شریف میں نعتیہ مشاعرہ | جگر مراد آبادی | اک رند ہے اور مدحتِ سلطانِ مدینہ

جب ایک شرابی نے نعت رسول مقبول پڑھی

 

اجمیر شریف میں نعتیہ مشاعرہ تھا،

فہرست بنانے والوں کے سامنے یہ مشکل تھی کہ جگر مرادآبادی صاحب کو اس مشاعرے میں کیسے بلایا جائے ،

وہ کھلے رند تھے اورنعتیہ مشاعرے میں ان کی شرکت ممکن نہیں تھی۔ اگر فہرست میں ان کا نام نہ رکھا جائے تو پھر مشاعرہ ہی کیا ہوا۔ منتظمین کے درمیان سخت اختلاف پیداہوگیا۔ کچھ ان کے حق میں تھے اور کچھ خلاف۔

دراصل جگرؔ کا معاملہ تھا ہی بڑا اختلافی۔

بڑے بڑے شیوخ اور عارف باللہ اس کی شراب نوشی کے باوجود ان سے محبت کرتے تھے۔ انہیں گناہ گار سمجھتے تھے لیکن لائق اصلاح۔شریعت کے سختی سے پابند علماء حضرات بھی ان سے نفرت کرنے کے بجائے افسوس کرتے تھے کہ ہائے کیسا اچھا آدمی کس برائی کا شکار ہے۔عوام کے لیے وہ ایک اچھے شاعر تھے لیکن تھے شرابی۔ تمام رعایتوں کے باوجود علماء حضرات بھی اور شاید عوام بھی یہ اجازت نہیں دے سکتے تھے کہ وہ نعتیہ مشاعرے میں شریک ہوں۔

آخر کار بہت کچھ سوچنے کے بعد منتظمین مشاعرہ نے فیصلہ کیا کہ جگر ؔ کو مدعو کیا جانا چاہیے۔یہ اتنا جرات مندانہ فیصلہ تھا کہ جگرؔ کی عزت کا اس سے بڑا اعتراف نہیں ہوسکتا تھا۔

جگرؔ کو مدعو کیا گیا تووہ سر سے پاؤں تک کانپ گئے۔

’’میں گنہگار، رند، سیہ کار، بد بخت اور نعتیہ مشاعرہ! نہیں صاحب نہیں‘‘ ۔

اب منتظمین کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ جگر صاحب ؔکو تیار کیسے کیا جائے۔ ان کی تو آنکھوں سے آنسو اور ہونٹوں سے انکار رواں تھا۔نعتیہ شاعر حمید صدیقی نے انہیں آمادہ کرنا چاہا، ان کے مربی نواب علی حسن طاہر نے کوشش کی لیکن وہ کسی صورت تیار نہیں ہوتے تھے، بالآخر اصغرؔ گونڈوی نے حکم دیا اور وہ چپ ہوگئے۔

سرہانے بوتل رکھی تھی، اسے کہیں چھپادیا، دوستوں سے کہہ دیا کہ کوئی ان کے سامنے شراب کا نام تک نہ لے۔ دل پر کوئی خنجر سے لکیر سی کھینچتا تھا، وہ بے ساختہ شراب کی طرف دوڑتے تھے مگر پھر رک جاتے تھے،

لیکن مجھے نعت لکھنی ہے ،اگر شراب کا ایک قطرہ بھی حلق سے اتراتو کس زبان سے اپنے آقا کی مدح لکھوں گا۔ یہ موقع ملا ہے تو مجھے اسے کھونانہیں چاہیے،

شاید یہ میری بخشش کا آغاز ہو۔ شاید اسی بہانے میری اصلاح ہوجائے، شاید اللّه کو مجھ پر ترس آجائے!

ایک دن گزرا، دو دن گزر گئے، وہ سخت اذیت میں تھے۔ نعت کے مضمون سوچتے تھے اور غزل کہنے لگتے تھے، سوچتے رہے، لکھتے رہے، کاٹتے رہے، لکھے ہوئے کو کاٹ کاٹ کر تھکتے رہے، آخر ایک دن نعت کا مطلع ہوگیا۔

پھر ایک شعر ہوا، پھر تو جیسے بارش انوار ہوگئی۔ نعت مکمل ہوئی تو انہوں نے سجدۂ شکر ادا کیا۔ مشاعرے کے لیے اس طرح روانہ ہوئے جیسے حج کو جارہے ہوں۔ کونین کی دولت ان کے پاس ہو۔ جیسے آج انہیں شہرت کی سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا ہو۔

انہوں نے کئی دن سے شراب نہیں پی تھی، لیکن حلق خشک نہیں تھا۔ادھر تو یہ حال تھا دوسری طرف مشاعرہ گاہ کے باہر اور شہرکے چوراہوں پر احتجاجی پوسٹر لگ گئے تھے کہ ایک شرابی سے نعت کیوں پڑھوائی جارہی ہے۔ لوگ بپھرے ہوئے تھے۔

اندیشہ تھا کہ جگرصاحب ؔ کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے یہ خطرہ بھی تھاکہ لوگ اسٹیشن پر جمع ہوکر نعرے بازی نہ کریں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے جگر کی آمد کو خفیہ رکھا تھا۔ وہ کئی دن پہلے اجمیر شریف پہنچ چکے تھے جب کہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ مشاعرے والے دن آئیں گے۔

جگر اؔپنے خلاف ہونے والی ان کارروائیوں کو خود دیکھ رہے تھے اور مسکرا رہے تھے۔

 

کہاں پھر یہ مستی، کہاں ایسی ہستی

جگرؔ کی جگر تک ہی مے خواریاں ہیں

 

آخر مشاعرے کی رات آگئی۔جگر کو بڑی حفاظت کے ساتھ مشاعرے میں پہنچا دیا گیا۔

اسٹیج سے آواز ابھری’’رئیس المتغزلین حضرت جگر مرادآبادی!‘‘ ۔۔۔۔۔۔

اس اعلان کے ساتھ ہی ایک شور بلند ہوا، جگر نے بڑے تحمل کے ساتھ مجمع کی طرف دیکھا… اور محبت بھرے لہجے میں گویاں ہوئے۔۔

’’آپ لوگ مجھے ہُوٹ کررہے ہیں یا نعت رسول پاک کو،جس کے پڑھنے کی سعادت مجھے ملنے والی ہے اور آپ سننے کی سعادت سے محروم ہونا چاہتے ہیں‘‘۔

شور کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ بس یہی وہ وقفہ تھا جب جگر کے ٹوٹے ہوئے دل سے یہ صدا نکلی ہے…

 

اک رند ہے اور مدحتِ سلطان مدینہ

ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطان مدینہ

 

جوجہاں تھا ساکت ہوگیا۔ یہ معلوم ہوتا تھا جیسے اس کی زبان سے شعر ادا ہورہا ہے اور قبولیت کا پروانہ عطا ہورہا ہے۔

نعت کیا تھی گناہگار کے دل سے نکلی ہوئی آہ تھی،خواہشِ پناہ تھی، آنسوؤں کی سبیل تھی، بخشش کا خزینہ تھی۔وہ خود رو رہے تھے اور سب کو رلا رہے تھے، دل نرم ہوگئے، اختلاف ختم ہوگئے، رحمت عالم کا قصیدہ تھا، بھلا غصے کی کھیتی کیونکر ہری رہتی۔

’’یہ نعت اس شخص نے کہی نہیں ہے، اس سے کہلوائی گئی ہے‘‘۔مشاعرے کے بعد سب کی زبان پر یہی بات تھی.نعت یہ تھی..

 

اک رند ہے اور مدحتِ سلطان مدینہ

ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطان مدینہ

 

دامان نظر تنگ و فراوانیِ جلوہ

اے طلعتِ حق طلعتِ سلطانِ مدینہ

 

اے خاکِ مدینہ تری گلیوں کے تصدق

تو خلد ہے تو جنت ِسلطان مدینہ

 

اس طرح کہ ہر سانس ہو مصروفِ عبادت

دیکھوں میں درِ دولتِ سلطانِ مدینہ

 

اک ننگِ غمِ عشق بھی ہے منتظرِ دید

صدقے ترے اے صورتِ سلطان مدینہ

 

کونین کا غم یادِ خدا ور شفاعت

دولت ہے یہی دولتِ سلطان مدینہ

 

ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی

یہ عالم سطوتِ سلطان مدینہ

 

اس امت عاصی سے نہ منہ پھیر خدایا

نازک ہے بہت غیرتِ سلطان مدینہ

 

کچھ ہم کو نہیں کام جگر اور کسی سے

کافی ہے بس اک نسبت ِسلطان مدینہ

 

اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے

 

Share:

احمد کہ احد میں کیا سمجھوں، یہ کون ہے میم کی چلمن میں | ساجد چشتی مہروی | پوربی زبان میں نعتیہ کلام


 

احمد کہ احد میں کیا سمجھوں، یہ کون ہے میم کی چلمن میں

حیرت کی ہے جا سایہ بھی نہیں، لگتا بھی ہے انساں دیکھن میں

 

تورے نام سے سب سنسار ہوا، تورے نام سے بیڑا پار ہوا

اللہ  بھی ہے تورے گن گائے، قرآن آیا توری شانن میں

 

لولاک کی پگڑی سر سوہے، طہ سہرا ماتھے پہ سجے

والیل کی زلفیں کاندھوں پر، مازاغ کا کجرا نینن میں

 

توہے یاد کرت مورا انگ انگ ہے، مورا بھاگ سہاگ تورے سنگ ہے

اک بار جو آ مورے آنگن میں، ہو جاؤں سہاگن سکھین میں

 

طیبہ کے سجیلے سانوریا، للہ مجھے اب درش دکھا

بن درشن مر نہ جاؤں کہیں، مورا جیون ہے تورے درشن میں

 

موہے برہا پیا کی مار گئی ، پیا جیت گئے میں ہار گئی

میں ہار کے بھی بلہار گئی ایسو پریم بسا مورے تن من میں


میں نیچ کمینی اور پاپن، ماہ راج توری اونچی شانن

توری لاج پہ مان کرت ہوں میں گن کوئی نہیں ہے بے گن میں


موہے دیس عرب من بھاوت ہے، موہے یاد مدینہ آوت ہے

بے زر بےپر کی کوک سنو، ساجد کو بلا لو چرنن  میں


ساجد چشتی مہروی

Share:

11/23/21

پھر نظر میں وہی کوچہ وہی بازار پھرے || پھر تصور میں درِ سیدِ ابرارﷺ پھرے || سید ساجد چشتی مہروی

 

پھر نظر میں وہی کوچہ وہی بازار پھرے

پھر تصور میں درِ سیدِ ابرارﷺ پھرے

 

عمر گزری ہے اسی ایک تمنا میں شہا ﷺ

اب تو اک چشمِ کرم سوئے گناہگار پھرے

 

فردِ عصیاں وہ قیامت میں کبھی پیش نہ ہوا

جس پہ تیرا قلم اے احمد مختار ﷺ پھرے

 

رب نے اس واسطے قرآں میں کہا لاتنھر

تیرے در سے کوئی محروم نہ اے یار پھرے

 

کعبہ قبلہ ہے مگر ہے یہ تمنا یا رب

جب مروں منہ طرفِ روضۂِ سرکار پھرے

 

رب کی مرضی ہے ادھر آپ کی مرضی ہے جدھر

کعبہ قبلہ بنے جس وقت رخِ یار پھرے

 

پھر بھی آغوش میں لے لیتی ہے رحمت اس کو

 چاہے توبہ سے گنہگار وہ سو بار پھرے

 

مجھ سے دربارِ محمد ﷺ کی نہ پوچھو ساجدؔ

ایسا دربار نہ دیکھا کئی دربار پھرے


Share:

11/21/21

ہے مصطفےﷺ دا چین تے قرار فاطمہؓ || منقبت سیدہ خاتون جنت فاطمہ زہرہ رضی اللہ تعالی عنھا

ہے مصطفےﷺ دا چین تے قرار فاطمہؓ

مولا علیؓ دے گھر دا سنگھار فاطمہؓ

 

بنت رسول پارسا ہے طیبہ طاہرہ

شرم وحیا دے ملک دی سالار فاطمہؓ

 

زہرہ جدوں ہے آوندی ہوندے کھڑے حضورﷺ

ایہنوں تعظیم کہہ دیواں یا پیار فاطمہؓ

 

 اعلان ہوسی حشر نوں نظراں جھکا لوو

والد دی لے کے آئی اے دستار فاطمہؓ

 

خیر النسائے عالمیں  فرمانِ مصطفےﷺ

نسلِ رسول پاک دی ہے بہار فاطمہؓ


Share:

11/4/21

بس یہی سوچ کے پہروں نہ رہا ہوش مجھے || کب کا رسوا میرے اعمال مجھے کر دیتے || دے بھی سکتاہوں نصیر اینٹ کا پتھر سے جواب || کلام نصیر الدین نصیر شاہ رحمۃ اللہ علیہ


 

بس یہی سوچ کے پہروں نہ رہا ہوش مجھے

 کر دیا ہو نہ کہیں تُو نے فراموش مجھے

 

تیری آنکھوں کا یہ میخانہ سلامت ساقی

 مست رکھتا ہے ترا بادہ ء سرجوش مجھے

 

 ہچکیاں موت کی آنے لگیں اب تو آجا

 اور کچھ دیر میں شاید نہ رہے ہوش مجھے

 

 کب کا رسوا میرے اعمال مجھے کر دیتے

میری قسمت کہ ملا تجھ سا خطا پوش مجھے

 

 کس کی آہٹ سے یہ سویا ہوا دل جاگ اُٹھا

 کر دیا کس کی صدا نے ہمہ تن گوش مجھے

 

 یاد کرتا رہا تسبیح کے دانوں پہ جسے

 کردیا ہے اُسی ظالم نے فراموش مجھے

 

ایک دو جام سے نیت مری بھر جاتی تھی

 تری آنکھوں نے بنایا ہے بلانوش مجھے

 

 جیتے جی مجھ کو سمجھتے تھے جو اک بارِ گراں

 قبر تک لے کے گئے وہ بھی سرِ دوش مجھے

 

 مجھ پہ کُھلنے نہیں دیتا وہ حقیقت میری

حجلہ ء ذات میں رکھتا ہے وہ رُو پوش مجھے

 

 صحبتِ میکدہ یاد آئے گی سب کو برسوں

 نام لے لے کے مرا روئیں گے مے نوش مجھے

 

 بُوئے گُل مانگنے آئے مرے ہونٹوں سے مہک

 چومنے کو ترے مل جائیں جو پاپوش مجھے

 

 زندگی کے غم و آلام کا مارا تھا میں

 ماں کی آغوش لگی قبر کی آغوش مجھے

 

دے بھی سکتاہوں نصیر اینٹ کا پتھر سے جواب

وہ تو رکھا ہے مرے ظرف نے خاموش مجھے

 

 سید نصیر الدین نصیر رحمۃ اللہ علیہ

Share:

ہر طرف سے جھانکتا ہے روئے جاناناں مجھے || اک قیامت ڈھائے گا دنیا سے اٹھ جانا میرا || کلام پیر نصیر الدین نصیر شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ


 

ہر طرف سے جھانکتا ہے روئے جاناناں مجھے

محفلِ ہستی ہے گویا   آئینہ خانہ مجھے

 

اک قیامت ڈھائے گا دنیا سے اٹھ جانا میرا

یاد کر کے روئیں گے یارانِ میخانہ مجھے

 

دل ملاتے بھی نہیں دامن چھڑاتے بھی نہیں

تم نے آخر کیوں بنا رکھا ہے دیوانہ مجھے

 

یا کمالِ قرب ہو یا انتہائے بعد ہو

یا نبھانا ساتھ یا پھر بھول ہی جانا مجھے

 

انگلیاں شب زادگانِ شہر کی اٹھنے لگیں

میرے ساقی دے ذرا قندیلِ میخانہ مجھے

 

تو ہی بتلا اس تعلق کو بھلا کیا نام دوں

ساری دنیا کہہ رہی ہے تیرا دیوانہ مجھے

 

جس کے سنّاٹے ہوں میری خاموشی سے ہمکلام

کاش مل جائے نصیرؔ اک ایسا ویرانہ مجھے

Share:

10/11/21

میلاد النبی ﷺ | خطابت کے لیے قیمتی الفاظ | وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ | حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا قصیدہ | وَرَدْتَ نارَ الخَلِيلِ مُكْتَتَمًا في صُلْبِهِ أنتَ، كيفَ يَحتَرِقُ

وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا۔


اس آیہ مبارکہ میں کچھ باتیں ظاہر ہوتی ہیں: (اللہ نے عہد لیا انبیاء کرام سے حالانکہ اللہ تعالی نے نبی بھیجنا نہیں تھا کسی بھی نبی کے زمانے میں تو معلوم ہوتا ہے اللہ چاہتا تھا کہ تمام انبیاء کرام اپنے اپنے زمانے میں میرے محبوب کو ذکر کرتے رہیں۔)

اس آیہ مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پاک نے سب سے پہلے اپنے محبوب کو پیدا فرمایا تھا اور حضور ﷺ کا عہدہ بھی چن لیا تھا  اس لیے اب ان سے عہد لیا جا رہا ہے یعنی پہلے سب کچھ طے ہو چکا ہے۔حضورﷺ کے فضائل، کمالات، درجات، عہدے ، مقامِ محمود سب کچھ طے ہو چکا تھا۔  حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت اللہ نے تیرے نبی کے نور کو ساری کائنات سے پہلے پیدا فرمایا: (اس پر کچھ لوگوں نے کہا کہ سب سے پہلے لوح و قلم کو پیدا کیا گیا ) میں نے کہا ہاں ایسا ہی ہے جب کائنات کی تخلیق کی بات کی جائے تو ایسا ہی ہے لوح و قلم کوسب سے پہلے  پیدا کیا مگر سن! یہ لوح وقلم کائنات کا راز ہیں ان پر کائنات کی ہر بات لکھی گئی ہے کائنات کے راز لکھے گئے ، تو لوح و قلم کی تخلیق کا مقصد کائنات کے رازوں کو لکھنا تھا  :: لوح وقلم کی تخلیق سے پہلے یہ سارا منصوبہ جو اللہ تعالی نے بنایا تھا کائنات کی تخلیق کا ،وہ اپنے محبوب ﷺ کے لیے تھا ۔تو  کائنات کی تخلیق کا مقصد مصطفے ﷺ ہیں تخلیق کائنات کا سبب مصطفے ﷺ ہیں، (عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھما حدیث قدسی بیان کرتے ہیں::وعزتي و جلالي لولاک ما خلقت الجنّة ولولاک ما خلقت الدّنيا. ’’میری عزت و عظمت کی قسم، اگر میں آپ کو پیدا نہ کرتا تو جنت کو بھی پیدا نہ کرتا اور اگر آپ کو پیدا نہ کرتا تو پھر دنیا کو بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘ ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب):: لوح و قلم کائنات کا راز ہیں جو بعد میں ہے اور مصطفے ﷺ خدا کا راز ہیں  جو سب سے پہلے ہے۔)

v  ایک یہودی جو کہ مکہ میں تجارت کے لیے آیا تھا کہ ایک دن صبح صبح لوگوں میں شور کرتا آیا اے قریشیو جلدی آو آج کسی کے گھر میں بچہ پیدا ہوا ہے ۔ کسی سردار کے گھر تو حضرت عبد المطلب کے گھر گئے آپ کے ہاں پوتا پیدا ہوا تو دیکھنے کی اجازت دی گئی جب اس نے دیکھا  پشت پر مہر نبوت دیکھی اور چیخا اور بولا ۔ ذھبت النبوۃ من بنی اسرائیل۔ اے بنی اسماعیل اے قریشیو مبارک ہو اللہ کا آخری نبی تم میں پیدا ہو گیا ہے۔

v  دوسری طرف حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں 7 یا 8 سال کا لڑکا تھا کہ ایک دن مدینہ میں ایک یہودی عالم شور کرنے لگا لوگو جلدی آو لوگ جب جمع ہو گئے تو کہنے لگا ‘‘احمد کا ستارہ طلوع ہو گیا ہے آج رات کسی بھی لمحے پیدا ہو سکتا ہے’’

محمد سہیل عارف معینیؔ لاہور

 

مِنْ قَبْلِها طِبْتَ في الظِّلالِ وفي

مُسْتَوْدَعٍ حيثُ يُخْصَفُ الوَرَقُ

 

ثُمَّ هَبَطْتَ البِلادَ لا بَشَ رٌ

أنتَ ولا مُضْغةٌ ولا عَلَقُ

 

بَلْ نُطْفةٌ تَرْكَبُ السَّفِينَ وقدْ

أَلْجَمَ نَسْرًا وأهْلَهُ الغَرَقُ

 

وَرَدْتَ نارَ الخَلِيلِ مُكْتَتَمًا

في صُلْبِهِ أنتَ، كيفَ يَحتَرِقُ

 

تُنْقَلُ مِنْ صَالِبٍ إلى رَحِمٍ

إذا مَضىٰ عالَمٌ بَدا طَبَقُ

 

حتَّى احْتَوَىٰ بَيتُكَ المُهَيْمِنُ مِنْ

خِنْدِفَ عَلْياءَ تَحْتَها النُّطُقُ

 

وأنتَ لمَّا وُلِدْتَ أشْرَقَتِ الْ

أرْضُ وضاءَتْ بِنُورِكَ الأُفُقُ

 

فنحنُ في ذلكَ الضِّياءِ وفي النْـ

ـنُورِ، وسُبْلَ الرَّشادِ نَخْتَرِقُ

 

 

عید نبوی کا زمانہ آگیا

آ گیا موسم سوہانا آ گیا

نعرۂِ صل علی کی دھوم ہے

وجد میں سارا زمانہ آ گیا

ہر ستارے میں بڑھی ہے روشنی

ہر کلی کو مسکرانا آ گیا

میرے ہونٹوں پر ہے نعت مصطفےﷺ

ہاتھ بخشش کا خزانہ آ گیا

 

Share:

عید نبوی ﷺ کا زمانہ آ گیا || میلاد مصطفے ﷺ قیمتی الفاظ خطابت کے کیے || لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الأفْلَاکَ

1: حضرت حسان بِن ثابِت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں سات یا آٹھ سال کی عمر کا ایک ہوش و گوش والا سمجھ دار بچہ تھا۔ میں نے سُنا مدینہ کا ایک یہودی صبح کے وقت اپنے قلعہ کی چھت پر کھڑا ہُوا اور پُکار کر کہنے لگا: اے گروہِ یہود! دیکھو۔ آس پاس کے سارے یہودی جمع ہو گئے ، میں سُن رہا تھا۔ اُن لوگوں نے اُس سے کہا “ تیری خرابی ہو کیوں شور مچاتا ہے؟“ یہودی نے چھت پر سے کہا: احمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا ستارہ طلوع ہو گیا ہےجِس کو آج رات میں کِسی وقت پیدا ہونا ہے-


 2: حضرت عُثمان بِن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میری والدہ نے بتایا کہ میں اُس رات میں حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی جِس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی وِلادت ہوئی۔ میں گھر میں ہر طرف روشنی اور نور پاتی اور محسوس کرتی جیسے کہ ستارے قریب سے قریب تر ہو رہے ہیں۔ حتٰی کہ مُجھے گُمان ہُوا کہ کیا یہ میرے اوپر گِر پڑیں گے۔ پھر جب حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے وضع حمل کیا تو ایک نور بر آمد ہُوا جِس سے کہ ہر شے روشن ہو گئی یہاں تک کہ میں نور کے سوا کُچھ نہ دیکھتی تھی۔ بِلا شُبہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی والدہ ماجدہ نے وِدلاتِ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے وقت ایسے نور کو دیکھا جِس سے اُن پر شام کے مُحلات روشن ہو گئے۔

3: حضرت عرباض بِن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: میں اُس وقت اللہ کا عبد اور خاتم النبیین تھا جب کہ حضرت آدم علیہ السلام ہنوز اپنے خمیر میں تھے اور میں تُم لوگوں پر واضح کرتا ہوں کہ میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دُعا اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کی بشارت اپنی والدہ کے خواب کی تعبیر ہوں اور انبیا علیہ السلام کی مائیں ایسے ہی خواب دیکھا کرتی تھیں۔

 

قرآن و حدیث اور ان کی تشریحات و توضیحات کا تمام ذخیرہ چھان لیں ہمیں از اوّل تا آخر ایک ہستی، ایک ذات اور ایک شخصیت دکھائی دیتی ہے جو اس پوری بزم کون و مکان میں محبوبیت عظمیٰ کے مقام پر فائز ہے اور وہ ہے ہمارے آقائے نامدار حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس۔ تمام خلق میں کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کیسے ہوتا کہ خالق نے تواس عالم و ارض و سماء میں جن و انس اور موت وحیات کا نظام بنایا ہی اسی کے لیے ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ قدسی کا مضمون ملاحظہ کریں جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 وعزتي و جلالي لولاک ما خلقت الجنّة ولولاک ما خلقت الدّنيا. ’’میری عزت و عظمت کی قسم، اگر میں آپ کو پیدا نہ کرتا تو جنت کو بھی پیدا نہ کرتا اور اگر آپ کو پیدا نہ کرتا تو پھر دنیا کو بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘ ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 5: 227، رقم:8031

ایک اور حدیث جسے کثیر ائمہ و محدثین نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے: لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الأفْلَاکَ. ’’محبوب! اگر آپ کو پیدا نہ کرتا تو کائنات ہست و بود کو بھی وجود میں نہ لاتا۔‘‘

 1. عجلوني، کشف الخفاء، 2: 214، رقم: 2123

 2. آلوسي، تفسير روح المعاني، 1: 51

معروف مفسر امام آلوسی رحمۃ اللہ علیہ (م 1270ھ) نے تفسیر روح المعانی میں حقیقت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان میں اس حدیث کو بیان کیا ہے پھر اسی روایت کو سورۃ الفتح کی آیت إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا میں ’’لَكَ‘‘ کی تفسیر میں لکھا ہے: أن لام (لَکَ) للتعليل و حاصله أظهرنا العالم لأجلک و هو في معني ما يرونه من قوله سبحانه (لولاک لولاک ما خلقت الأفلاک). ’’(لَکَ) میں لام تعلیل کے لئے ہے، حاصل کلام یہ ہے کہ ہم نے عالم کو آپ کی خاطر ظاہر کیا، اس کا یہ معنی اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں بیان ہوا ہے کہ (اے حبیب! اگر آپ نہ ہوتے تو میں اس کائنات کو پیدا نہ کرتا۔

‘‘ آلوسي، تفسير روح المعاني، 26: 129

معلوم ہوا کہ مفسرین اور دیگر ائمہ نے اس روایت پر اعتماد کیا ہے۔ الفاظ میں فرق تو ہوسکتا ہے لیکن معناً یہ روایت بالکل درست ہے، نور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اوّلیت تخلیق کے حوالے سے ذخیرۂ کتب احادیث میں کئی روایات ملتی ہیں۔

 علامہ عجلونی (1162ھ) نے مذکورہ بالا روایت کے بارے میں لکھا ہے۔ و أقول لکن معناه صحيح و إن لم يکن حديثا. ’’میں کہتا ہوں کہ اگر یہ حدیث نہ بھی ہو تو بھی یہ روایت معنًا صحیح ہے۔‘‘ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق کے باب میں یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ائمۂِ عقائد کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کی (تخلیق کے اعتبار سے پوری کائنات پر) حقیقی اوّلیت ہر قسم کے شک و شبہ اور اختلاف سے بالاتر ہے۔

 عجلوني، کشف الخفاء، 2: 214، رقم: 3123

وہ ائمہ جو عقائد میں سند کا درجہ رکھتے ہیں جن کی عمریں توحید اور شرک کا صحیح مفہوم سمجھانے میں صرف ہوئیں وہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے پہلے تخلیق کیا گیا انہی ائمہ میں سے ایک امام ابو الحسن اشعری ہیں جو عقائد میں امام علی الاطلاق ہیں، حدیث نور کی شرح میں فرماتے ہیں:

اﷲ تعالي نور، کالأنوار، والرّوح النّبوية القدسية لمعة من نوره والملئکة شرر تلک الأنوار، وقال صلي الله عليه وآله وسلم أوّل ما خلق اﷲ نوري ومن نوري خلق کل شئ. ’’اللہ تعالیٰ اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحِ مقدّسہ اسی نور کی ایک چمک ہے اور فرشتے انہی انوار کا پرتو ہیں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرا نور پیدا کیا اور باقی ہر چیز میرے نور سے پیدا کی۔‘‘

 فاسي، مطالع المسّرات: 265

 ائمہ کاملین اور اجل محدثین و مفسرین کرام نے تخلیقِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے مروی احادیث کو قبول کر کے اپنی گراں قدر تصانیف میں جگہ دی ہے اور پھر ان کی تشریح و تعبیر کر کے یہ ثابت کیا کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مخلوقات سے نہ صرف افضل و برتر ہیں بلکہ وجہ تخلیقِ کائنات بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں یعنی کائنات کو وجود میں لانے کا واسطہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹھہرے، بقول مولانا ظفر علی خان

گر ارض و سما کی محفل میں لَولَاکَ لَمَا کا شور نہ ہو

یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میں یہ نور نہ ہو سیاروں میں

 مولانا ظفر علی خان تخلیقِ کائنات میں واسطۂِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک نعتیہ شعر میں اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے کتنی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔

وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو

جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے

 احمد رضا خان، حدائق بخشش، 1: 62

 

 

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive