Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

3/30/24

Ghazwa e Badar | 17 Ramadan al Mubarak | #ramadan

Share:

3/23/24

3/18/24

عیاں اُتنی ہی اُس پر ذات ہوگی | ادریس آزاد


 

عیاں اُتنی ہی اُس پر ذات ہوگی

 کسی کی جس قدر اوقات ہوگی

 

دھڑکتے دِل کی رُکنے تک ہمیشہ

دِگرگوُں صورت ِ حالات ہوگی

 

 حقیت میں جو ہوگا حشر کا دن

 وہ اِک نصف النّہاری رات ہوگی

 

مسلسل خواب کی تعبیر کیا ہو؟

 تمہارے جاگنے پر بات ہوگی

 

 یونہی بھوکا پڑا مرجاؤنگا میں

 نہیں لونگا اگر خیرات ہوگی

 

یہ آنسو بھاپ ہوتی ہے لہوکی

 جہاں گرمی بڑھی برسات ہوگی

 

 وزیروں، شہسواروں، کاہنوں کی

 پیادہ چل پڑا تو مات ہوگی

ادریس آزاد

Share:

3/15/24

جب تیری بے رخی اتنی حد سے بڑھی | میرے اشکوں کی قیمت ادا ہو گئی | jab teri be rukhi


 

جب تیری بے رخی اتنی حد سے بڑھی میں نے سمجھا کہ بس انتہا ہو گئی

تو نے نظریں اٹھا کر جو دیکھا مجھے میرے اشکوں کی قیمت ادا ہو گئی


تو میرے راستے سے ذراہٹ گیا میرے دل میں تو آتش فشا پھٹ گیا

زندگی سے مرا رابطہ کٹ گیا جسم  سےروح میرے جدا ہو گئی


بے سبب ہی نہیں دھڑکنیں بےربط ان کی جانب سے ترک وفا ہو گئی

چل دیے اٹھ کے وہ سامنے سے مرے میرے گھر میں  بپا کربلا ہو گئی


آ گئے ہیں مجھے راس زخمِ جگردیجیے چھوڑ مجھ کو مرے حال پر

بے قراری میں ہی میرا اب ہے سکوں لذتِ درد میری دوا ہو گئی


یہ ستم کیوں یہ جورو جفا کس لیے ہو گیا ہے تو مجھ سے خفا کس لیے

سر بھی حاضر ہے لیکن سزا کے لیے ایسی مجھ سے بتا کیا خطا ہو گئی


میری بے سود ہی رہ گئیں سسکیاں پاس ہو کے بھی وہ سن سکے نا فغاں

کچھ نا حاصل ہوا تو نہیں یہ بھی کم درد سے روح تو آشنا ہو گئی


تیرے در سے ہے پایا ہر اک نے صلہ ہم کو رسوائیوں سکے سوا کیا ملا

مل گئی غیر کو عزتِ دو جہاں ہم کو وحشت ہی وحشت عطا ہو گئی


میرے منصف ہے انصاف تیرا یہی کیا مساوات کا ہے تقاضا یہی

بات کرنا میرا جرم سا بن گیا ان کی رسم ستم بھی روا ہو گئی


روح بے چین میں غم کی دلدل سی ہےدل میں طوفان یہ ایک ہل چل سی ہے

تو جو بچھڑا تو یوں لگ رہا ہے مجھے زندگی میری مجھ سے خفا ہو گئی


تھا قیامت کے بارے میں جو بھی سنا ، آج اس کا مجھے بھی یقیں ہو گیا

آپ نے جوں ہی محفل میں رکھا قدم، تو قیامت ہی ہر سو بپا ہو گئی


تاب رخ گر نہیں ہے مجھے ساقیا اپنے آنچل سے پوچھو کہ کیوں اٹھ گیا

پھر چلے گا پتہ جرم کس کا ہے یہ زندگی میری کیسے تباہ ہو گئی


سب طبیبوں نے مجھ سے کہا لا دوا حل کسی سے نہ نکلا مرے مرض کا

ایک لمحے میں بس ہو گیا معجزہ ، اس نے دیکھا ادھر اور شفا ہو گئی


اس کی جانب کیا جب بھی قصد سفر آندھیاں چل پڑیں کیوں مری راہ پر

پہلے تو لوگ تھے رقیب اے فقیرؔ،اب رقیبوں میں شامل ہوا ہو گئی

 

Share:

3/5/24

گلوبلائزیشن کے مسلم خاندانی نظام پر اثرات | effects of globalization on Muslim family systems | Globalization and Islam

گلوبلائزیشن اور اس کے مسلم خاندانی نظام پر اثرات ( تحقیقی جائزہ )

پانچویں بین الاقوامی کانفرنس : رفاہ انٹرنیشنل  یونیورسٹی اسلام  (آباد پاکستان)

مقالہ نگار : مفتی وحید احمد قادری

 waheedahmad2467@gmail.com

 | 0336041202103006412467


گلوبلائزیشن اور اس کے مسلم خاندانی نظام پر اثرات

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور یہ انسان کی انفرادی و اجتماعی، عائلی و خاندانی، سیاسی و سماجی، معاشرتی و اقتصادی، دینی و روحانی، قومی و بین الاقوامی تمام تر معاملاتِ زندگی میں ہر شعبہ میں دقیق سے دقیق مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرنے اور معاملات کی انجام دہی کے اصول بیان کرتا ہے۔ اسلام کے تمام اصول اور احکامات وجودِ انسانی کی تخلیق اور جبلت کو ملحوظ رکھتے ہوئے وضع کیے گئے ہیں جبکہ انسانی سرِشت میں شامل ہے کہ وہ ازل سے ہی الہامی اصولوں کو توڑنے والا واقع ہوا ہے۔ اس نظریے کا باقاعدہ قومِ نوح سے ہوا جنہوں نے خدائی اصولوں کو پس پشت ڈال کر اپنی من مانی کی اور اس کے بعد قومِ نمرود و فرعون نے اس نظریہ کا بِیڑا اٹھایا، پھر بنی اسرائیل نے اپنی ضد، بے جا تنقید، غیر ضروری سوالات کی بھرمار، لالچ و ہٹ دھرمی اور خود ساختہ افضلیت و برتری کے زعم سے اس نظریہ کے ارتقائی مراحل طے کرنے میں مدد کی پھر عیسائیوں کی اناجیل میں تحریفات نے باقاعدہ طور پر الہام اور عقل انسانی کے رستے جدا جدا کردیے۔ انسان نے اپنے خالق کی طرف سے تفویض کردہ اصولوں کو اپنی عقل اور شعور تک محدود کرتے ہوئے یا ان خدائی اصولوں کو عقل انسانی کے تابع کرنے کی تگ و دو میں زمین و آسمان کے قلادے ملانا شروع کردیے۔ حضور نبی کریم خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ کے اعلانِ نبوت کے بعد جب اسلام نے اپنے ابدی و آفاقی اور غیرمتغیر اصولوں کا پرشار کیا تو عقل و خرد کے پیروکاروں نے فلسفہ، منطق اور کلام کے ذریعے اسلامی احکام کی مخالفت شروع کردی اور یہ سلسلہ روز اول سے ہوتا ہوا ابھی تک جاری ہے اور حق و باطل کی اس لڑائی کا تسلسل جاری رہے گا۔

اسلام نے حضرتِ انسان کی فلاح و بہبود اور کامیابی کے لیے جو قوانين و اصول نازل کیے ہیں ان کے مقابلے میں اہل مغرب نے بھی مختلف پالیسیوں کا اجراء شروع کردیا اور پچھلے 300 سال سے ان اصطلاحات اور تحاریک میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جو دن بدن بڑھتے ہوئے مسلمانانِ عالم کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کی اخلاقی، خاندانی، تہذیبی اور معاشی و اقتصادی زندگی بہت متاثر ہورہی ہے۔ مغربی یلغار ایک ایسی حکومت یا نظام کی متقاضی ہے جو پوری دنیا پر لاگو ہو اور دیگر اقوام و مذاہب اپنی اصلیت سے بے بہرہ ہوکر مغربی اصولوں کے مطابق ڈھل جائیں۔اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے گلوبلائزیشن جیسی ٹرمینالوجی کو متعارف کرایا ہے۔ جس کی بدولت وہ دنیا پرراج کرنے کے خواہشمند ہیں۔ اس اصطلاح کی وضاحت میں جان آرٹ کی تحقیق پڑھنے کے قابل ہے۔

گلوبلائزیشن کا مفہوم:

گلوبلائزیشن، عالمگیریت یا زہانی سازی: لُغوی طور پر اِس عمل (phenomenon) کا نام ہے جس سے دنیا کے لوگ اور ممالک ایک دوسرے کے قریب آچکے ہیں لوگوں اور ممالک کا آپس میں دار و مدار اور رابطہ تیزی سے بڑھ چکا ہے اور دنیا ایک عالمی گاؤں (Global Village ) بن چکا ہے

 

اِس کی وضاحت کچھ یُوں کی جا سکتی ہے کہ ‘‘ایک ایسی عملیت جس سے ساری دُنیا کے لوگ ایک معاشرے میں متحد ہوجائیں اور تمام افعال اکٹھے سر انجام دیں اس میں مذہب، تہذیب و ثقافت اور زبان و نسل کا کوئی امتیاز نہ رہے"۔اسے مزید سمجھنے کےلیے آئندہ سطور میں مختلف محققین و مؤرخین کی تحقیق پیش کی جاتی ہے۔

مختلف محققین کی آراء:

گلوبلائزیشن کی تعریف میں اسلامی اور مغربی مفکرین و محققین کا سخت اختلاف یا تحقیقی تنوع پایا جاتا ہے۔ بدلتے ادوار میں مختلف لوگوں نے مختلف تعریفیں کی ہیں مگر کوئی بھی تعریف ایسی نہیں جس پر کوئی اعتراض وارد نہ ہوا ہو۔

گلوبلائزیشن کی لغوی و اصطلاحی تفہیم کےلیے  ڈاکٹر منظرالاسلام الازہری کی تحقیقات قابل ستائش ہیں وہ اپنی کتاب " گلوبلائزیشن اور اسلام " میں اقوامِ عالم کے مفکرین کی تشریحات کو جدید تقاضوں کے مطابق کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں۔

"معروف مغربی مفکر جان آرٹ سکالٹ (Jan Art Scholt) نے اپنی کتاب Globalization a critical introductionمیں بین الاقوامی بنانے کا عمل (Internationalization) آزادی خیالی (Liberalization) کلیت سازی (Universalization)    مغربی طرزِ معاشرت (Westernization) اور Deterritorializationجغرافیائی حدود کا انہدام کی روشنی میں گلوبلائزیشن کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے۔ جان آرٹ نے اپنی کتاب میں جن پانچ اصطلاحات کا ذکر کیا ہے ان سب کا خلاصہ دو جملوں کے اردگرد گھومتا ہے اور یہی دو جملے درحقیقت مغربی اصطلاحات کے مضمر مقاصد کی منظر کشی کے لیے کافی ہیں۔

1.     پوری دنیا میں ایک تجارتی منڈی کا قیام

2.     پوری دنیا میں صرف ایک تہذیب کا وجود

گویا گلوبلائزیشن کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں موجود سرحدی رکاوٹوں کوختم کردیا جائے اور ایک تجارتی منڈی کا قیام عمل میں لایا جائے یا پوری دنیا کی تہذیب و ثقافت کو ایک ہی سانچے میں ڈھال دیا جائے۔

نظریہ عالمگیریت کا نقطہ آغاز:

دانشوروں کا ماننا ہے کہ گلوبلائزیشن یا نظریہ عالمگیر سازی کا بانی امریکہ ہے۔ جبکہ تاریخی تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان نے جب سے شعور کی منزل پر قدم رکھا اسی وقت اسی نظریہ کی بنیاد پڑگئی۔ انسان نے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے پیدل چلنا شروع کیا ایک ایسا زمانہ آیا جب جانوروں اور چوپایوں سے کام لیا جانے لگا۔ پھر حمل و نقل کے لئے سمندری راستے اور دیگر اسباب و ذرائع استعمال ہونے لگے۔ رفتہ رفتہ انسان کا شعور اتنا پختہ ہوگیا کہ فضا میں کمند ڈالنے لگا۔

انسان کا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا، کسی مخصوص جگہ کو تجارت کی منڈی بنانا، فرد سے جماعت‘ جماعت سے قبیلہ اور پھر حکومت و بادشاہت کی منزل طے کرنا‘ پھر علاقائی، ضلعی، صوبائی اور ملکی سطح پر تنظیم کا قیام عمل میں لاکر نظام حکومت کے حدود اربعہ میں توسیع کرنا، عالمگیر نظام کا ہی تو پیش خیمہ تھا۔

عالمگیریت اور مذاہبِ عالم:

انسان مندرجہ بالا ان تمام کوششوں کیساتھ ساتھ مذہب سے بھی خاص تعلق رکھتا ہے تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبیات کے شعبہ میں جو عالمگیریت نمودار ہوئی ان میں بعض نے صلح و مصالحت، اخلاق کی اعلی اقدار کو اپنی ترویج و اشاعت کا ذریعہ بنایا اور کسی نے قوت و بالادستی اور آمرانہ روش کے ذریعہ مذہبی فضا قائم کرنے کی کوشش کی۔ معلوم ہوا کہ گلوبلائزیشن امریکہ کی پیداوار نہیں بلکہ اس کی بنیاد میں دنیا کی دیگر قدیم تہذیبوں کا حصہ مقدم ہے اگرچہ بیسویں صدی میں اس نے اپنے آپ کو امریکنائز کرلیا۔

گلوبلائزیشن کی مزید وضاحت:

گلوبلائزیشن کی اصطلاح  ایک ایسی حقیقت ہے جو تاریخ انسانیت کو ابتدائے آفرینش سے لازم ہے اور فنائے دنیا تک اس کی جد و جہد بھی چلتی رہےگی۔ گلوبلائزیشن کا مطلب و معنی مختلف ادوار میں تہذیب و ثقافت اور تصورات کے اعتبار سے متعدد رہا ہے۔

گلوبلائزیشن کے لئے عربی لغت میں لفظ ’’عولمتہ‘‘ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

ایک غلطی کا ازالہ:

اس اعتبار سے جب اسلامی تاریخ، اسلامی اصول و ضوابط کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام نے ’’عولمتہ‘‘ (عالمگیر سازی) نہیں بلکہ عالمیت کا تصور دیا ہے۔ عالمیت کا تصور کسی نہ کسی مرحلہ میں عولمہ سے ضرور ملتا ہے مگر اسلامی ’’عالمیت‘‘ اورجدید عالمگیر سازی میں بڑا فرق ہے۔

 

اسلامی عالمیت کا تصور:

اسلامی عالمیت کو نبی اکرم ﷺ کے وجود مسعود سے جلا ملی قدیم منہجِ توحید جس پر بداخلاقی‘ بیہودگی اور بے حیائی کا دبیز پردہ پڑچکا تھا۔ آپ نے الہامی علم کے ذریعہ اس کے منفی اثرات سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ پیغامِ ربانی سناتے ہوئے اعلان کیا کہ

 ’’لوگو! میں جس دین اور جس منہج کی بات کررہا ہوں یہ کوئی نیا دین یا کوئی نیا منہاج نہیں بلکہ آدم سے لے کر ابراہیم، موسیٰ سے عیسٰی تک سب ہی اس کے داعی تھے۔"

اسلامی عالمیت کی بنیاد انسانی تکریم، مساوات، تقویٰ، عفت و پاکبازی پر قائم ہوئی ہے جبکہ جدید عالمگیریت کا مقصد یہ ہے کہ پوری دنیا کا نظامِ حکومت فردِ واحد یا چند مخصوص لوگوں کے ہاتھ میں رہے۔ دنیا کے تمام تر اسباب و وسائل، مال و دولت پر کسی ایک یا چند خاص لوگوں یا تنظیم کا قبضہ ہو جو پوری دنیا پر خودساختہ قوانین کے ذریعے سے کنڑول حاصل کرسکیں۔

گلوبلائزیشن کے بارے امریکی صدر کی سٹیٹمنٹس:

امریکی سابق صدر سینئر بش نے اپنے ایک بیان میں اس عالمگیر نظام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ "اس نظامِ حکومت کی باگ ڈور ایک ہی شخص یا جماعت کے ہاتھ میں ہوگی جو زندگی کے تمام پہلوؤں، تہذیب و ثقافت سے لے کر سیاست و معیشت اور معاشرت ہر ایک پر حاوی رہے گا۔" اہل مغرب اس کے نفاذ کے لئے اس لئے بھی کوشاں ہیں کہ ان کا ماننا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو حقوق انسانی کی کھلی توہین ہوگی بالخصوص اقلیتوں کا تحفظ ایک سوالیہ نشان بن کر رہ جائے گا۔

مغربی گلوبلائزیشن کی بنیادی سفارشات:

مغربی گلوبلائزیشن کی بنیاد الحاد اور لا دینیت پر استوار کی جارہی ہے۔ جس میں ایتھیزم، لبرلزم اور سیکولرازم اس تحریک کا ضروری عنصر تصور کیے جاتے ہیں اور گلوبلائزیشن میں مذہب کا اگر کہیں ذکر ہے بھی تو اس میں جبر کے تصورات موجود ہیں۔ علاوہ ازیں مغربی گلوبلائزیشن میں حسب و نسب کی رعایت کہیں سے کہیں تک نہیں، اس کا نظام اخلاط فحاشی، اباحیت اور ضیاع نسب پر ہے۔ اس طرح مال و دولت سے متعلق اس گلوبلائزیشن کا نظریہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں سرمایہ درانہ نظام نافذ کیا جائے اور اس کی باگ ڈور مخصوص لوگوں کے ہاتھ میں ہی رہے۔ یورپی گلوبلائزیشن میں انسانی جان کے حفاظت کی ضمانت بھی دور تک نظر نہیں آتی بلکہ اپنے تسلط کو برقرار رکھنے کے لئے ہر طرح کی مار دھاڑ اور قتل و غارت گری کو روا سمجھا گیا ہے۔

 یونہی عقل انسانی کی آزادی کی بات تو کی گئی ہے مگر اس کو آزادی سے نکال کر بے لگامی کا درجہ دے دیا گیا ہے گویا کہ یہ نظام مسلم خاندانی نظام پر بہت زیادہ اثرانداز ہوا ہے اور پوری مسلم امہ غیر محسوساتی طریقے سے اس کی لپیٹ میں آگئی ہے۔ جس کی نشاندہی آئندہ صفحات پر پیش کی جارہی ہے۔

مسلم خاندانی نظام پر گلوبلائزیشن کے اثرات:

گلوبلائزیشن کے مسلم خاندانی نظام پر اثرات بالکل واضح محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ گلوبلائزیشن کے نتیجہ میں مسلم خاندان اختلاف و انتشار کا شکار ہورہے ہیں۔ خاندانوں میں باہمی مدد کا جذبہ مفقود ہوتا جارہا ہے۔ رشتوں کے درمیان ربط و تعلق کمزور ہورہا ہے، خود غرضی اور مفاد پرستی بامِ عروج کو پہنچ رہی ہے۔ ہر فرد کو خاندانی مفاد و استحکام سے زیادہ  اپنے ذاتی مفاد عزیز ہوگئے ہیں۔ اولاد میں والدین کی نافرمانی تشویشناک حد تک بڑھتی جارہی ہے۔ اولاد ماں باپ کو پسماندہ اور پرانے خیالات کا تصور کرنے لگی ہے۔ دوسری جانب خود ماں باپ میں اولاد کے تئیں ذمہ داریوں کا احساس ختم ہوتا جارہا ہے۔ اب ماں باپ اولاد کو اپنی پر تعیش زندگی کے لیے رکاوٹ سمجھنے لگے ہیں۔ شفقتِ پدرانہ اور ماں کی ممتا مفقود ہوتی جارہی ہے۔ ماں باپ اپنے بچوں کی تعمیر سیرت اور روحانی تربیت سے دامن بچاتے نظر آتے ہیں۔ ایک ہی جگہ اور ایک ہی اپارٹمنٹ میں رہتے ہوئے لوگ پڑوسیوں سے کٹے ہوئے  ہیں۔ لفٹوں اور سیڑھیوں سے چڑھتے اترتے بارہا آمنا سامنا ہوتا ہے لیکن بات چیت تو دور ، سلام تک نہیں کرتے۔ پڑوسیوں کا حسن سلوک قصہ پارینہ بنتا جارہا ہے۔ ہر خاندان دوسرے خاندان سے کٹا ہوا زندگی گزار رہا ہے۔ خاندان کے بزرگوں سے نیاز مندانہ روابط اور ان کا ادب و احترام ختم ہوتا جارہا ہے۔ اب گھر کے نوجوان بوڑھوں اور بزرگوں کو بوجھ خیال کرنے لگے ہیں۔ بیت المعمرین جدید کلچر کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ گھر کے بوڑھوں سے جان چھڑانے کے لیے انہیں بیت المعمرین میں داخل کرایا جاتاہے۔

خاندانی انتشار اور خود غرضی اور مفاد پرستی کی بڑھتی وباء نے خاندانی جرائم میں خوب اضافہ کیا ہے۔ باپ کا اپنی اولاد کو قتل کرڈالنا اور اولاد کا باپ کو قتل کرنا، شوہر کا بیوی کو اور بیوی کا شوہر کو قتل کردینا اور محرم رشتہ داروں کے ساتھ بدکاری عام ہورہی ہے۔گویا کہ مسلمانوں کا طرز حیات اسلامی تہذیب و تمدن سے ہٹ کر ایسے معاشرے کی اطاعت و نقالی کر رہا ہے جس میں الہامی پیغام کا تصور ہی نہیں نظر آتا۔گلوبلائزیشن کے ان اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے دینی شعور کی بیداری اور مضبوطی کے ساتھ دین پر عمل آوری ضروری ہے ۔ گلوبلائزیشن دراصل دین بیزاری اور دین سے آزادی کی دعوت ہے۔ اس کا مقابلہ دین پسندی اور شریعت پر سخت عمل آوری کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے۔

مغربی خاندانی نظام کی نظریاتی بنیادوں کا جائزہ:

نکاح انسانی زندگی کا ایک اہم ستون اور معاشرے کے قیام اور استحکام کی بنیاد اسی میں مضمر ہے اور اس کے ذریعے بننے والا خاندان سے ایک بہترین اقدار کا متحمل معاشرہ تشکیل پاتا ہے ۔ جس سماج میں مضبوط اور پائیدار خاندان پائے جاتے ہوں وہاں افرادِ خاندان کے درمیان خوشگوار تعلق، احترام روایات، امن و اطمینان، حقوق کی فراہمی، عدل و انصاف اور محبت و الفت کا ماحول ہوگا اور معاشرے میں اعلیٰ اخلاقی قدریں پروان چڑھیں گی۔

 اس کے برعکس ماحول میں افراد خاندان کا باہمی تعلق کمزور یا ختم ہوجائے گا، انفرادیت پسندی اور خود غرضی ہوگی اور معاشرے میں اعلیٰ اخلاقی قدریں ٹھٹھر کر رہ جائیں گی اور بے شمار سماجی و معاشرتی مسائل کو فروغ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر تہذیب اور سماج میں اس اکائی کو مضبوط، مربوط اور متوازن بنانے کی ترغیب دی جاتی رہی ہے۔

مغربی تہذیب و تمدن کی زبوں حالی:

مغربی تہذیب جو آج اپنی سائنسی ترقی و ایجادات کے سبب دنیا کی علمی و تہذیبی قیادت کررہی ہے،اس میں خاندان ایک مستحکم ادارہ ہوا کرتا تھا۔ اس وقت میں کلیسا کی بالواسطہ قیادت ہوتی تھی۔ اس دور میں شادی کو ایک مقدس عمل مانا جاتا تھا۔ خاندان اور اس کے ارکان کے درمیان  باہمی محبت، الفت، صلہ رحمی اور شفقت و محبت کی کمی نہیں تھی مگر ایک طرف صنعتی ترقی اور دوسری طرف کلیسا کے نظام کے خلاف بغاوت اور اس کے زوال نے مغربی دنیا کو نئی تہذیبی قدروں سے روشناس کرایا۔

اہل مغرب کی مذہب سے دوری:

مذہب سے بغاوت اور "پوپو کریسی " کے خلاف نفرت آمیز ردِ عمل کے نتیجہ میں مغربی معاشرہ نہ صرف مذہب سے دور ہوگیا بلکہ پرانی معاشرتی اور مذہبی اقدار اور روایات کو سرے سے ملیا میٹ کرنے کی تحریک چلا بیٹھا اور لادینیت ہی اس کا دین ٹھہری۔ پھر آہستہ آہستہ الحاد، جنس پرستی، مادیت پرستی، آزاد خیالی، انفرادیت اور اس جیسی کئی قباحتوں سے اہلِ مغرب کو اپنے شکنجے میں جکھڑ لیا۔

فیمینزم (عورتوں کی آزادی کا نعرہ):

صنعتی ترقی نے اپنے تقاضوں کے مطابق صنفی تفریق (Gender Biasness)  كو وجہ بناکر صنفِ نازک (یعنی خواتین ) کو کام میں برابر کا شریک ( Work Force) میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی شروع کردی۔ اس کے لیے انقلابی نعرے تراشے گئے، خوبصورت مستقبل کے سبز باغ لگائے گئے، مرد و عورت کے درمیان جنس کی بنیاد پر تفریق کے خاتمے کے وعدے گھڑے گئے اور مساوات و برابری کا ایسا حسین جادوئی تصور دیا گیا کہ مغرب ہی کیا، مشرق تک کے مرد و خواتین اس تصور کے دیوانے ہونے لگے۔ پھر ان چیزوں کو قابلِ قبول بنانے اور اپنے ایجنڈے کو بحسن و خوبی آگے بڑھانے کے لیے نظریاتی بنیادیں استوار کی گئیں اور ان سب کے پیچھے ایسی منطق کو لگایا گیا جو اپنے زمانے کے سیاق و سباق میں مدلل طور پر اپنے ایجنڈے کی حقانیت کو ثابت کرسکے۔

موجودہ مغربی طرز زندگی:

آج کی دنیا جسے مغربی تہذیب و ثقافت کی دنیا بھی کہہ سکتے ہیں، اس کا خاندانی نظام (اگر کچھ ہے تو) کن نظریاتی بنیادوں پر بنایا گیا ہے اس کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔

ایسا دو وجہ سے ضروری ہے؛ پہلا یہ کہ ان نظریات نے مغربی دنیا کے خاندانی نظام کو پوری طرح تباہ و برباد کردیا ہے۔ اس کا اعتراف اب خود مغرب کے مفکرین اور سیاست داں بھی کررہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان بنیادوں پر بننے والی تہذیب اور طرزِ معاشرت صرف مغرب ہی میں نہیں، باقی دنیا میں بھی پھل پھول رہا ہے۔

موجودہ مغربی تہذیب و تمدن کے اہم محرکات:

1مرد و عورت کی برابری کا نعرہ:

اس سلسلے میں سب سے اہم کردار صنفی رول کے انکار (Denial of Gender Role) کے نظریے نے ادا کیا۔ یہ نظریہ بنیادی طور پر اس بات کی ترجمانی کرتا ہے کہ صنف (مرد یا عورت ہونے) کی بنیاد پر کسی بھی قسم کی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ یہ بات اپنی جگہ پر جتنی بڑی حقیقت ہے اتنا ہی بڑا دھوکا بھی ہے۔ اس کے مطابق عورت ہر وہ کام کرسکتی ہے اور درحقیقت کر بھی رہی ہے، جو مرد کرسکتا ہے۔ ٹھیک ہے مگر ان کاموں کا کیا ہوگا، جو فطری طور پر قدرت نے عورت کے حوالے کیے ہیں۔ 

عورتوں کی آزاد خیالی کا انجام:

اب عورت کی طرف سے یہ سوال غیر متوقع نہیں تھا کہ جب معاش کا بوجھ وہ مردوں کے ساتھ مل کر اٹھا رہی ہیں اور ہر میدان میں مردوں کے شانہ بہ شانہ شریکِ کار ہے تو پھر بچے وہی پیدا کیوں کرے؟ بچوں کی پرورش کی صعوبتیں وہ کیوں اٹھائے؟ گھریلو کام کی انجام دہی صرف عورت ہی کیوں کرے؟ اس طرح کے سیکڑوں سوالات ابھر کر سامنے آتے گئے اور سماج میں ایک شدید ردِ عمل نظر آنے لگا۔ ظاہر ہے کہ مرد و عورت کے حقوق اور ذمہ داریوں میں برابری کی بات تو سمجھ میں آگئی لیکن جہاں تک حیاتیاتی ساخت کا تعلق ہے اس میں کوئی تبدیلی کہاں سے ممکن ہے؟ ایسی صورت میں عورت نے اعلان کردیا کہ اسے بچہ پیدا کرنے کے عمل سے بھی آزادی چاہیے اور وہ اب شادی بھی نہیں کرے گی۔ اس بات کو نبھانے کے لیے اس سے بھی آزادی دے دی گئی۔ اگر عورت بچے پیدا نہیں کرے گی تو آبادی کہاں سے آئے گی؟ یہ سوال کھڑا ہوا تو اس کے لیے غیر شادی شدہ ماؤں کو بھی قانونی جواز دے دیا گیا اور بغیر شادی کے بھی مرد اور عورت کو ایک ساتھ رہنے کا قانونی جواز مل گیا۔

2- انفرادیت پسندی:

اس مغربی خاندانی نظریے کی دوسری بنیاد انفرادیت پسندی (Individualism) ٹھہری، جسے ہم خود غرضی  بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کے مطابق ہر فرد اپنی ذات اور اپنے مفاد کے خول میں سمٹ کر رہ گیا۔

عیش و عشرت اور مادیت پرستی:

جب فرد کو صرف اپنی ذات، اپنے مفاد اور اپنی لذت اور خوشی ہی مطلوب ہو تو وہ دوسروں کے بارے میں کیوں سوچے گا اور ان کے لیے پریشانیاں کیوں اٹھائے گا؟ اور ان پر اپنی کمائی کیوں خرچ کرے گا؟ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رشتے ناطے کمزور دھاگے بن کر رہ گئے، گھر کے بزرگ اور والدین بے کار کی چیز اور بوجھ بن گئے اور اپنی زندگی کے آخری مراحل اولڈ ایج ہوم میں گزارنے کے حق دار ٹھہرے۔ بچے پیدا کرنا اور ان کی ذمہ داریاں نبھانے میں دشواریاں برداشت کرنا کارِ عبث بن گیا۔ اب جو چیز بچی وہ اپنی ذات تھی جس پر مکمل توجہ صرف کرنا اصل کام رہ گیا اور اپنی زندگی کو عیش و آرام اور دولت سے آراستہ کرنا واحد ہدف اور مقصدِ زندگی قرار پایا۔

بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ Spectator نام کے رسالے میں الینر ملز(Eleanor Mills) لکھتی ہیں کہ "میری طرح کی بیس سالہ لڑکیاں جو صحت مند بھی ہیں اور خوبصورت بھی اور وہ متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں، بس بچے پیدا نہیں کرنا چاہتیں۔"

کیوں نہیں چاہتیں؟ اس کا جواب وہ دیتی ہیں کہ "بدقسمتی سے میری نسل کی عورتیں دو ہی مشاغل میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ صورت اور دولت! اس تیز رفتار معاشی دوڑ میں وہ پیچھے نہ چھوٹ جائیں، انھیں فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ شادی جیسے جھمیلوں میں الجھیں۔"

چاہے مرد ہوں یا عورت، دونوں کو اپنی زندگی بہتر گزارنی ہے، دولت مند ہونا ہے، اور زندگی کی ساری آسائشیں حاصل کرنی ہیں، پھر ان کے یہاں بچوں کی پیدائش کو اہمیت کیوں ملتی؟ وہ تو رات کو سکون کی نیند سونے کو ترجیح دیتی ہیں اور اپنی ذاتی زندگی کو حسین بنانے میں مصروف ہیں۔

شادی کے بغیر جنسی تعلقات کا رجحان:

مغربی نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کا ذہن اتنا بدل گیا کہ شادی کی ذمہ داریوں کا بوجھ اتار پھینکا گیا اور خاندان ایک بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ پر ہی مشتمل ہوکر رہ گیا۔یورپ میں موجودہ دور میں روایتی خاندان کے بچوں کی شرح 45% سے بھی نیچے آگئی ہے جبکہ Single Parent Faimlyمیں زندگی گزارنے والے بچوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اس کے علاوہ شادی کے بغیر اکٹھے رہنے (Live in Relationship ) کا چلن عام ہوگیا ہے۔ غیر شادی شدہ جوڑوں کا باہمی رضا مندی سے ایک ساتھ رہنا (co-habit)  اب ایک عام بات ہوگئی ہے اور یہ رجحان تیزی سے پوری دنیا کے ممالک میں بھی پھیلنے لگا ہے دوسری طرف موانع حمل  بہتر ذرائع بھی اب حاصل ہیں، اس لیے اب مغربی معاشرے میں روایتی خاندان کا ڈھانچہ برقرار رکھنے کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوتی۔ فکر و نظر کی یہ تبدیلی خود مغرب کو بھی خوفزدہ کررہی ہے، کیونکہ اس سوچ کی وجہ سے لوگ نئی نئی پیچیدگیوں میں پڑ گئے ہیں۔ ایک طرف سماج میں تناؤ بڑھ رہا ہے، لوگ جسمانی اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں تو دوسری طرف اس طرح کے ٹوٹے اور بکھرے ہوئے غیر مستقل رشتوں سے جو نسل تیار ہورہی ہے اس میں بھی منفی رجحانات عام ہیں۔

3اباحیت پسندی :

جدید دنیا یا مغربی نظام خاندان کی تیسری نظریاتی بنیاد (Permissiveness) یا اباحیت پسندی ہے۔ اس نظریے کے مطابق ہر وہ چیز جائز صورت اختیار کرسکتی ہے جو انسان کو لذت اور خوشی سے ہم کنار کرتی ہو یا دل اس کی طرف راغب ہو۔ اس نظریے نے بے شمار ایسی چیزوں کو قانونی اور بعد میں ’اخلاقی جواز‘ فراہم کیا جو گزشتہ زمانے میں مذہبی یا معاشرتی اور سماجی اقدار کے مطابق غلط اور ناجائز قرار دی گئی تھیں اور انہیں برائی تصور کیا جاتا تھا۔ اس نظریے نے سماج میں بہت سی غلط چیزوں کو، خصوصاً انسان کے جذبہ جنس کو تسکین دینے والی چیزوں کو،نہ صرف جائز اور قانونی حیثیت دے دی بلکہ ان کو فروغ بھی دیا۔

جنس پسندی کا فروغ:

اسی فرسودہ نظام نے مرد کی مرد سے شادی اور عورت کی عورت کے ساتھ ازدواجی زندگی کا جواز بخشا ۔ یہ ساری رعایت و خود ستائی اسی اباحیت پسندی یا Permissiveness كا نتیجہ تھا۔ اس کے علاوہ سیکس ٹوائز جیسی چیزیں بھی معاشرے میں رائج ہوئیں جنھوں نے خاندانی نظام کا خاتمہ کرڈالا۔

اہلِ مغرب کی خوش فہمی کا احتساب:

جدید دنیا کا وہ خاندانی نظام جسے بڑی منطقی اور نظریاتی بنیادوں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی تھی نہ صرف یہ کہ خاندانی نظام کو کچھ نہ دے سکا بلکہ الٹا اس کی تباہی و بربادی کا ذریعہ ثابت ہوا۔

مغربی مفکرین کی فکری جد و جہد:

ایسا نہیں ہے کہ پوری مغربی دنیا اس اباحیت پسندی اور آزاد خیالی کی نظری اور عملی تائید کرتی ہے اور اس کے خلاف وہاں کوئی رجحان نہیں پایا جاتا۔ ان افکار و نظریات کی مخالفت کرنے والے اور ان کی برائی کو برائی سمجھنے والوں میں عام لوگ بھی ہیں اور مفکرین و دانشوران بھی بلکہ اب تو وہاں کی حکومتیں بھی ان نظریات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال سے پریشان ہیں اور اس کے ازالہ اور نقصان سے بچانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔اس سلسلے میں پروفیسر سیمویل ہنٹگٹن (Clash of Civilization)کے تحت یوں بیان کرتے ہیں کہ:

"The real clash of civilizations will not be between the West and one or more of the Rest. It will be between the West and the Post West within the West itself.”

"تہذیبوں کا حقیقی تصادم دراصل مغربی تہذیب یا باقی دنیا کی کسی ایک یا اس زیادہ کے درمیان نہیں ہوگا بلکہ یہ مغربیت یا مابعد مغربیت کے اپنے درمیان ہی ہوگا۔"

مغربی مفکرین اس بات سے خوفزدہ تو ہیں کہ جو بھی خلافِ فطرت حرکتیں مغرب سے سر زد ہورہی ہیں ان کے برے اثرات کا شکنجہ بھی مغرب ہی پر کس رہا ہے اور اس نام نہاد صنفی آزادی کی لپیٹ میں پوری دنیا اور اقوام عالم آرہی ہیں لیکن اس سے بچنے کی صورتیں کیا ہیں اور کون سا نسخہ اس صورت حال کے علاج کرنے کے لیے اپنایا جائے، اس بارے میں وہ کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھا پارہے ہیں۔ وہ فطرت سے بغاوت کی بات بھی کرتے ہیں اور اس بات کا احساس بھی ہے کہ" "The new society is built on sandنیا معاشرہ ریت پر تعمیر ہوا ہے، اس بات کو بھی قبول کرتے ہیں کہ  "Women are not the same as man "  خواتین اور مرد ایک طرح کے نہیں ہیں۔ خواتین کے الگ سماجی رول کا بھی اعتراف کرتے ہیں اور اس بات کا بھی کہ عورتیں مردوں سے مقابلہ میں اس طرح جینے لگیں تو اس کے مہلک اثرات فیملی، سوسائٹی اور ملک پر لازماً پڑیں گے۔ یہاں تک کہ ہم جنس پرستی اور اس کی خباثت کا اعتراف کرنے میں بھی مغربی مفکرین اور ماہرین کو کوئی عار نہیں، مگر مسائل کے حل تک پہنچنے میں وہ ابھی تک ناکام ہی ہیں۔

مستغربین کے تسلیم شدہ حقائق کا جائزہ:

ایسا نہیں ہے کہ اس دنیا میں ان درجہ بالا مسائل کا حل نہیں۔ اس کا معتدل اور بہترین حل اسلام میں موجود ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ مغرب اسلام کے اس بہترین حل سے واقف نہیں۔ وہ اسلامی حدود و احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئے نت نئی پالیسیز کا اجراء کرتے ہیں اور وہ اسلام کے لافانی و الہامی احکام سے مکمل واقفیت رکھتے ہیں کیونکہ اس کا اعتراف بھی ان کے اسکالر نے اپنی تحقیقات میں کیا ہے مگر ایک مخالفت بھی ہے جو اسلام اور اس کی اعلیٰ اقدار سے تعصب کی بنیاد پر ہے۔ جو ان کو حق تسلیم کرنے میں مانع ہے۔ اس کیفیت کو ہم اسلاموفوبیا بھی کہہ سکتے ہیں۔

مغربی مفکرین کا پیغمبر اسلام کی زندگی سے لگاؤ:

مفکرین یورپ نے ان تمام مسائل کے حل کے لیے اسلام کا دروازہ کھٹکھٹانے کا مشورہ دیا ہے۔جسے باقی لوگ ماننے کو تیار نہیں بہرکیف مائیکل ہارٹ کا یہ اعتراف قابلِ غور ہے کہ:

 My choice of Muhammad to lead the life of the world’s most influential persons may surprise some readers and may be questioned by others, but he was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular level.”

"محمدﷺ کو دنیا کے سب سے مؤثر فرد کی حیثیت سے زندگی گزارنے والے انسان کے طور پر منتخب کرنا بہت سے لوگوں کو حیران کرے گا اور کچھ دوسرے اس بارے میں سوالات کھڑے کریں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ تاریخ انسانی میں ایسی منفرد ذات تھے جو کامیابی کے سب سے اعلیٰ مقام پر تھے مذہبی اور غیر مذہبی ہر دو اعتبار سے۔"

اس طرح کا اعتراف بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے لیکن جن لوگوں نے غیر متعصبانہ رویہ اپنایا ہے ان کے اقوال قابلِ غور ہیں۔ جارج برنارڈ شا کے ایک خط میں ایک اقتباس ہمیں ملتا ہےکہ :

"I have prophesied about the faith of Mohammad that it would be acceptable to the Europe of tomorrow as it is beginning to be acceptable to the Europe of today.” (Collected Letters, ed. Dan H. Laurence, p305)

"میں محمدﷺ کے عقیدے کے بارے میں پیش گوئی کرتا ہوں کہ یہ کل کے یورپ کے لیے قابلِ قبول ہوگا جیسا کہ اب کے یورپ میں اس کی قبولیت شروع ہوگئی ہے۔"

اس کے علاوہ بھی سینکڑوں مفکرین نے مغربی طرز زندگی کو قباحتوں کا مرقع قرار دیتے ہوئے اسلامی خاندانی نظام کو سراہا ہے اور تمام مسائل کا حل قرآن اور صاحب قرآن کے فرمان میں مضمر گردانا ہے۔

عالمگیریت : مقاصد، فوائد و نتائج:

گلوبلائزیشن کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے ہم اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ اس کی ساری خوبیاں محض اضافی نتائج کی حیثیت رکھتی ہیں جبکہ اس کا بنیادی محرک یعنی زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول اس کی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ گلوبلائزیشن کو انسانی تہذیب کی بقا اور سالمیت کو درپیش چیلنجوں میں سب سے زیادہ تشویش ناک چیلنج کہا جا سکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس چیلنج کا سامنا کیسے کیا جا ئے؟

چونکہ مذہب اور کلچر اپنے اندر مثبت پہلو رکھتے ہیں‘ اس لیے ان کو مکمل طور پر مسترد نہ کرنا بہت اہم ہے۔ قصیر مدتی اور وسط مدتی حکمت عملی کے طور پر بعض معاشی سرگرمیوں میں اخلاقی معیارات کو شامل کرنا چاہیے اور مارکیٹ کو اخلاقی اصولوں کا پابند بنانا چاہیے۔ مسلمان اور دوسرے مذہب کے مفکرین کے لیے چیلنج یہ ہے کہ وہ معاشی طور پر قابل عمل ایسی اخلاقی پالیسیاں بنائیں جو مذہبی تعلیمات کے مطابق ہوں اور جنہیں گلوبلائزیشن کے عمل کا حصہ بنایا جا سکے ۔

طویل مدتی حکمت عملی کے حوالے سے یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ گلوبلائزیشن کے صرف معاشی پہلو ہی ازسر نو غور کے محتاج نہیں ہیں بلکہ اس کے لیے ایک ہمہ جہتی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

ثقافت کے لیے رہنما اصولوں کا کردار ایسی کائناتی اخلاقی قدروں کو کرنا چاہیے جن کے ذریعے سے کسی ثقافت کے اندر موجود پابندئ حدود کی مضبوط اخلاقیات کو رو بہ عمل لاتے ہوئے دوسری ثقافت کے غلبہ کو روکا جا سکے۔ فرد اور سماج کے شعور میں اخلاقی اصولوں کو عالمی سطح پر مستحکم کر دینے میں ہی انسانیت کی واحد امید نجات ہے۔ انٹر نیٹ اور سیٹلائیٹ کے ذریعے سے پھیلنے والی تمام معلومات کو موثر طریقے سے سنسر کرنا قریب قریب ناممکن ہے۔ ایسا فرد جس کے اخلاقی نظام کا ماخذ مذہب ہو، وہی صحیح اور غلط کے صدیوں سے آزمودہ اصولوں کا پابند رہ سکتا ہے۔

 

الٰہی اخلاقیات کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان خدا کے ساتھ اپنے تعلق کا گہرا شعور رکھتا ہو۔ ایک خدا شناس معاشرہ نا انصافی کے خلاف لازماً آواز بلند کرتا ہے اور ایسا کرنے میں افراد معاشرہ کے ذہن میں اس حقیقت کا گہرا شعور کارفرما ہوتا ہے کہ وہ زمین پر خدا کے نمائندے ہیں۔ اس طرح کے افراد ہی حقیقت میں گلوبلائزیشن کے تمام زہروں کا اصل تریاق ہیں۔

ایسے افراد اور معاشروں کے نمودار ہونے کے لیے ایک عظیم اور سچ مچ کی تبدیلی لازمی ہے۔ یہ ایک طویل مدتی جدوجہد ہوگی تاہم اس کا آغاز ہمارے اپنے مذہب سے ہونا چاہیے۔ مختلف مذہبی اشکال، رسوم  و رواج اور علامات کے بجائے انصاف، محبت اور ہمدردی کے جذبات کو، جو تمام مذاہب کی تعلیمات کا حصہ ہیں، خیر اور اچھائی کا محرک بننا چاہیے۔

مذہب کے لیے یہ ایک بڑی سازگار بات ہے کہ گلوبلائزیشن کے متعدد عناصر نے مذہب کے جامع اور محیط پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کو آسان بنا دیا ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہمیں یہ موقع ملا ہے کہ ہم تمام بنی نوع انسان تک اپنے اپنے مذہب کی کائناتی حقیقت کو پہنچا سکیں۔ تو پھر چند تنگ نظر اور تعصب زدہ لوگوں کو ذرائع ابلاغ پر قابض ہونے کا موقع دینے کے بجائے کیوں نہ سب مرد وزن ایک کائناتی زاویہ نگاہ سے عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کریں؟

یک مذہبی معاشروں کی جگہ اب کثیر مذہبی معاشرے نمو پذیر ہیں۔ گویا معاشرتی حقائق ہمیں اس پر مجبور کر رہے ہیں کہ ہم اپنے محدود رویوں سے نجات حاصل کر کے ایک ایسا کائناتی رخ اختیار کریں جس میں دوسروں کے ساتھ رواداری کا برتاؤ کیا جائے۔

دنیا کی اقوام کے سامنے غالباً یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر وہ متحد انسانیت پر مبنی ایک عالمی برادری کی تشکیل کی منزل تک پہنچ سکتی ہیں۔ مشہور صوفی جلال الدین رومیؒ نے جب یہ کہا کہ ’’چراغ تو مختلف ہوتے ہیں لیکن ان کی روشنی ایک جیسی ہوتی ہے‘‘ تو غالباً ان کی مراد یہی تھی۔یہ منزل محض گلوبلائزیشن کے ذریعے سے، جس کے محرکات سراسر مادی اور اقتصادی ہیں حاصل نہیں کی جا سکتی۔

زوجین کے حقوق  کی ادائیگی :

اسلام نے خاندانی نظام کی بقا کو میاں بیوی کے خوشگوار تعلق میں مضمر رکھا ہے۔ جب بیوی کے تمام حقوق پورے کیے جائیں گے تو وہ تمام عمر اپنے شوہر کا با وفا بن کے رہے گی اور اسی طرح جب مرد کو اپنے گھر سے ہی سکون اور قرار ملرا رہے گا تو وہ کسی اور کی جانب متوجہ نہیں ہوگا۔ اس طرح معاشرے میں ایک بہترین خاندان کی ابتداء ہوگی جو حسن تہذیب کا مرقع ثابت ہوگا ۔

اسلام کی مکمل اطاعت و فرمانبرداری:

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس کی پاسداری و اطاعت میں تمام تر مسائل کا حل موجود ہے۔ پوری دنیا جن مسائل کے حل کو تلاشتے ہوئے حیران و پریشان اور مایوسی ہوگئی ہے ان تمام مسائل کا تفصیلی حل پیغمبرِ اسلام نے بتا دیا ہے۔

مغربی اصطلاحات سے آگاہی:

جدید دور میں پوری دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے تو اسلام کے اصولوں اور مذہبی روایات کی پامالی کے لیے آئے دن بد طینت افراد کی طرف سے نئی نئی اصطلاحات اور پالیسیز کا اجراء ہوتا رہتا ہے جوکہ اسلام دشمنی پر مبنی ہوتی ہیں ان سے آگاہی اور احتساب بھی ناگزیر ہے ۔

عقائد اسلام پر پختہ یقین:

عقائد اسلام پر پختگی بھی مغربی یلغار کے مقابلے میں انتہائی مؤثر بلکہ سب سے طاقتور ہتھیار اور ڈھال ہے۔ جو بندہ ایک خدا کا ماننے والا ہو تو عقیدہ توحید اسے دنیا و مافیہا کے خوب اور دبدبے سے بے پرواہ کردیتا ہے ۔

مغربی طرز معاشرت کے مقابلے میں اپنے روایتی لباس، طور طریقوں اور روایات کو اپنانے میں ہی ہماری کامیابی ہے۔ ہمیں اپنے تمام تر معاملات کو اسلام کے مطابق ڈھالنا ہوگا اسی میں ہماری بھلائی ہے۔

اختتامیہ:

اللہ پاک ہمیں حقیقی معنوں میں اپنے دین کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق اور سعادت عطا فرمائے اور ہمیں اپنے محبوب کریم کے اسوۃ حسنہ کا فہض نصیب کرے اور ہر طرح کی زمینی و آفاقی اور دیگر آفات و بلیات سے محفوظ  ومامون فرمائے  آمین۔






 

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive