Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

6/20/19

Muhammad Bin Qasim رحمۃ اللہ علیہ



محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ
محمد بن قاسم (عربی: محمد بن القاسم الثقفي) کا پورا نام عماد الدین محمد بن قاسم تھا جو کہ بنو امیہ کے ایک مشہور سپہ سالار حجاج بن یوسف کے بھتیجا تھے۔ محمد بن قاسم نے 17 سال کی عمر میں سندھ فتح کرکے ہندوستان میں اسلام کو متعارف کرایا۔ ان کو اس عظیم فتح کے باعث ہندوستان و پاکستان کے مسلمانوں میں ایک ہیرو کا اعزاز حاصل ہے اور اسی لئے سندھ کو "باب الاسلام" کہا جاتا ہے کیونکہ ہندوستان پر اسلام کا دروازہ یہیں سے کھلا۔
محمد بن قاسم 694ء میں طائف میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد خاندان کے ممتاز افراد میں شمار کئے جاتے تھے۔ جب حجاج بن یوسف کو عراق کا گورنر مقرر کیا گیا تو اس نے ثقفی خاندان کے ممتاز لوگوں کو مختلف عہدوں پر مقرر کیا۔ ان میں محمد کے والد قاسم بھی تھے جو بصرہ کی گورنری پر فائز تھے۔ اسطرح محمد بن قاسم کی ابتدائی تربیت بصرہ میں ہوئی۔ تقریباً 5 سال کی عمر میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔
ابتدائی دور
بچپن ہی سے محمد مستقبل کا ذہین اور قابل شخص نظر آتا تھا۔ غربت کی وجہ سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش پوری نہ کرسکے اس لئے ابتدائی تعلیم کے بعد فوج میں بھرتی ہوگئے۔ فنون سپہ گری کی تربیت انہوں نے دمشق میں حاصل کی اور انتہائی کم عمری میں اپنی قابلیت اور غیر معمولی صلاحیت کی بدولت فوج میں اعلی عہدہ حاصل کرکے امتیازی حیثیت حاصل کی۔
ابتدائی کارنامے
15 سال کی عمر میں 708ءکو ایران میں کردوں کی بغاوت کے خاتمے کے لئے سپہ سالاری کے فرائض سونپے گئے۔ اس وقت بنو امیہ کے حکمران ولید بن عبدالملک کا دور تھا اور حجاج بن یوسف عراق کا گورنر تھا۔ اس مہم میں محمد بن قاسم نے کامیابی حاصل کی اور ایک معمولی چھاؤنی شیراز کو ایک خاص شہر بنادیا۔اس دوران محمد بن قاسم کو فارس کے دار الحکومت شیراز کا گورنر بنایا گیا،اس وقت اس کی عمر 17 برس تھی،اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ حکومت کرکے اپنی قابلیت و ذہانت کا سکہ بٹھایااور 17 سال کی عمر میں ہی سندھ کی مہم پر سالار بنا کر بھیجا گیا۔ محمد بن قاسم کی فتوحات کا سلسلہ 711ء میں شروع ہوا اور 713ء تک جاری رہا۔انہوں نے سندھ کے اہم علاقے فتح کئے اور ملتان کو فتح کرکے سندھ کی فتوحات کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا لیکن شمالی ہند کی طرف بڑھنے کی خواہش حالات نے پوری نہ ہونے دی۔
نظام رواداری
محمد بن قاسم کم سن تھے لیکن اس کم سنی میں بھی انہوں نے نہ صرف ایک عظیم فاتح کی حیثیت سے اپنا نام پیدا کیا بلکہ ایک کامیاب منتظم ہونے کا بھی ثبوت دیا۔ انہوں نے تقریباً 4 سال سندھ میں گذارے لیکن اس مختصر عرصے میں انہوں نے فتوحات کے ساتھ ساتھ سلطنت کا اعلی انتظام کیا اور سندھ میں ایسے نظام حکومت کی بنیاد ڈالی جس نے انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کیا۔
محمد بن قاسم نے اپنی صلاحیتوں، جرات اور حسن تدبر و اخلاق کے باعث ہندوستان میں جو کارنامے انجام دیے وہ قابل ذکر ہیں۔ سندھ کے عوام کے لئے انہوں نے رواداری کی بڑی عمدہ پالیسی اختیار کی۔
محمد بن قاسم کی سندھ کی فتح سیاسی، معاشرتی، مذہبی اور عملی ہر اعتبار سے بے شمار اثرات کی حامل تھی۔
شخصیت و کردار
محمد بن قاسم ایک نو عمر نوجوان تھے۔ اس کم عمری میں انہوں نے سندھ کی مہم پر سپہ سالار کی حیثیت سے جو کارنامے انجام دیے وہ ان کے کردار کی پوری طرح عکاسی کرتے ہیں۔ وہ زبردست جنگی قابلیت اور انتظامی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ان کی ان صلاحیتوں کے ثبوت کے لئے سندھ کی مہم کی کامیابی ہی کافی ہے۔ ان کے اخلاق و کردار کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک غیر قوم ان کی گرویدہ ہوگئی تھی۔ سندھ کے عوام ان سے حد درجہ چاہت کا اظہار کرنے لگے تھے۔ تاریخ سندھ کے مصنف اعجاز الحق قدوسی تحریر کرتے ہیں
محمد بن قاسم جب سندھ سے رخصت ہونے لگے تو سارے سندھ میں ان کے جانے پر اظہار افسوس کیا گیا۔ ان کی وفات پر شہر کیرج کے ہندوؤں اور بدھوں نے اپنے شہر میں ان کا ایک مجسمہ بناکر اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔
یہی ذکر فتوح البلدان کے مصنف بلاذری نے بھی کیا ہے۔
محمد بن قاسم کی شخصیت انتہائی پروقار تھی۔ ان کا اخلاق دوسروں کو جلد گرویدہ بنالیتا تھا۔ ان کی زباں شیریں اور چہرہ ہنس مکھ تھا۔ وہ ایک باہمت، بامروت، رحمدل اور ملنسار انسان تھے۔ وہ ہر شخص سے محبت سے پیش آتے اور ان کے ماتحت ان کی حد درجہ عزت و احترام کرتے تھے۔ عام زندگی میں لوگوں کے غم بانٹتے تھے۔ انہوں نے ہر موڑ پر عقل و فراست کو پوری طرح استعمال کیا اور ان کا ہر قدم کامیابی کی راہیں تلاش کرتا تھا۔ ان کی بلند خیالی اور مستحکم ارادے ان کی کامیابی کی دلیل تھے۔
افسوسناک انجام
ملتان کی فتح کے بعد محمد بن قاسم نے شمالی ہند کے سر سبز و شاداب علاقے کی جانب متوجہ ہونے کے لئے قدم بڑھائے۔ پہلے قنوج کے راجہ کو دعوت اسلام دی لیکن اس نے قبول نہ کی تو محمد بن قاسم نے قنوج پر حملے کی تیاری شروع کردی۔ اس دوران 95ھ میں حجاج بن یوسف کا انتقال ہوگیا جس پر محمد بن قاسم نے قنوج پر فوج کشی کے بجائے واپس آگیا۔
حجاج بن یوسف کے انتقال کے کچھ ہی عرصے بعد ولید بن عبدالملک نے مشرقی ممالک کے تمام گورنروں کے نام احکامات جاری کئے کہ وہ تمام فتوحات اور پیشقدمی روک دیں۔ محمد بن قاسم کی شمالی ہند کی فتوحات کی خواہش پوری کرنے کی حالات نے اجازت نہ دی اور کچھ ہی ماہ بعد خلیفہ ولید بن عبدالملک کا بھی 96ھ میں انتقال ہوگیا۔
اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے انتقال کے ساتھ ہی فاتح سندھ محمد بن قاسم کا زوال شروع ہوگیا کیونکہ ولید کے بعد اس کا بھائی سلیمان بن عبدالملک جانشیں مقرر ہوا جو حجاج بن یوسف کا سخت دشمن تھا۔ حجاج کا انتقال اگرچہ اس کی خلافت کے آغاز سے قبل ہی ہوگیا لیکن اس عداوت کا بدلہ اس نے حجاج کے تمام خاندان سے لیا اور محمد بن قاسم کی تمام خدمات اور کارناموں کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں حجاج کے خاندان کا فرد ہونے کے جرم میں عتاب کا نشانہ بنایا۔
سلیمان نے یزید بن ابی کبشہ کو سندھ کا والی بناکر بھیجا اور حکم دیا کہ محمد بن قاسم کو گرفتار کرکے بھیجو۔ محمد بن قاسم کے ساتھیوں کو جب ان گرفتاری کا پتہ چلا تو انہوں نے محمد بن قاسم سے کہا کہ ہم تمہیں اپنا امیر جانتے ہیں اور اس کے لئے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں، خلیفہ کا ہاتھ ہرگز تم تک نہیں پہنچنے دیں گے لیکن محمد بن قاسم نے خلیفہ کے حکم کے سامنے اپنے آپ کو جھکادیا۔ یہ ان کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو ان کی امداد کے لئے سندھ کے ریگستان کا ہر ذرہ آگے آتا لیکن انہوں نے اپنے آپ کو ابی کبشہ کے سپرد کردیا۔ محمد بن قاسم کو گرفتار کرنے کے بعد دمشق بھیج دیا گیا۔ سلیمان نے انہیں واسط کے قید خانے میں قید کروادیا۔ 7 ماہ قید کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اس طرح محسن سلطنت کی خلیفہ نے قدر نہ کی اور ایک عظیم فاتح محض خلیفہ کی ذاتی عداوت و دشمنی کی بناء پر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ لیکن انہوں نے جنگي صلاحیتوں، جرات اور حسن تدبر و اخلاق کے باعث ہندوستان میں جو کارنامے انجام دیے وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے گئے۔ ان کی موت سے دنیائے اسلام کو عظیم نقصان پہنچا۔
سندھ محمد بن قاسم کے بعد
محمد بن قاسم سندھ میں تقریباً 4 سال رہے۔ فتح سندھ کے بعد انہوں نے یہاں کا نظام حکومت انتہائی کامیابی سے چلایا۔ اس نظام کی کامیابی یقینا ان کی شخصیت کی مرہون منت تھی۔ اسے سندھ کی گورنری سے معزول کرکے یزید بن ابی کبشہ کو گورنر مقرر کیا گیا لیکن ان کا چند ہی دن بعد انتقال ہوگیا۔ اس کے انتقال اور نئے گورنر کے آنے تک محمد بن قاسم کی گرفتاری کے اثرات سندھ میں بدنظمی کی صورت میں نظر آنے لگے۔


Share:

6/19/19

Hajjaj bin Yousuf Saqfi




حجاج بن یوسف ثقفی
پیدائش: 40ھ/660ء
انتقال: 96ھ ۔714ء
حجاج بنو امیہ کا ایک جرنیل،ظالم اور سفاک،سخت گیر گورنر تھا،کہاجاتاہے کہ اسی کے ایماء اور حکم سے قرآن میں نقاط لگائے گئے،فصیح اللسان تھا۔اموی حکومت کو مستحکم اور مضبوط بنانے میں اس کا بڑا حصہ رہا۔ اس نے 73ھ میں مکہ کا محاصرہ کیا جو سات ماہ تک جاری رہا اور کعبہ پر منجنیق سے پتھر برسائے۔اس وقت وہاں حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے پناہ لے رکھی تھی جنہیں اس نے شہید کروا دیا۔ یہ واقعہ اکتوبر 692ء کا ہے اس حملے  میں دس ہزار سے زائد مسلمان شہید ہو ئے تھے۔
مکمل نام ابو محمد حجاج بن یوسف بن حکم بن ابو عقیل ثقفی۔ طائف میں پیدا ہوا وہی اس کی پرورش بھی ہوئی،حجاج بن یوسف طائف کے مشہور قبیلہ بنو ثقیف سے تعلق رکھتا تھا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت اس نے اپنے باپ سے حاصل کی ۔ جو ایک مدرس تھا۔ حجاج کا بچپن سے ہی اپنے ہم جماعتوں پر حکومت کرنے کا عادی تھا۔ تعلیم سے فارغ ہو کر اس نے اپنے باپ کے ساتھ ہی تدریس کا پیشہ اختیار کیا لیکن وہ اس پیشے پر قطعی مطمئن نہ تھا اور کسی نہ کسی طرح حکمران بننے کے خواب دیکھتا رہتا تھا۔ بالاخر وہ طائف چھوڑ کر دمشق پہنچا اور کسی نہ کسی طرح عبدالملک بن مروان کے وزیر کی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ وزیر نے جلدی ہی اس کی انتظامی صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور اسے ترقی دے کر اپنی جاگیر کا منتظم مقرر کر دیا۔ ایک چیز جس کی وزیر کو ہمیشہ شکایت رہتی تھی اس کی سخت گیری تھی لیکن اس سخت گیری کی وجہ سے وزیر کی جاگیر کا انتظام بہت بہتر ہوگیا تھا۔

اتفاق سے عبدالملک کو اپنی فوج سے سستی اور کاہلی کی شکایت پیدا ہو گئی اور اس نے ایک محتسب مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔ وزیر نے حجاج کا نام پیش کیا لیکن یہ وضاحت کر دی کہ آدمی سخت گیر ہے اس لیے وہ اس کے افعال کے لیے جوابدہ نہیں ہوگا۔ اس طرح حجاج عبدالملک کی فوج میں شامل ہو گیا۔ اس حیثیت سے اس نے عبدالملک کی خوب خدمت کی اور اموی فوج اس سے دہشت کھانے لگی۔ یہاں تک کہ خود وزیر کا دستہ بھی اس کی سخت گیری کا شکار ہوا۔ حالانکہ وہ خود کئی سال انھیں میں شامل رہا تھا۔ عبدالملک نے جب عراق پر حملہ کیا تو مصعب بن زبیر کے خلاف اس کے سخت اقدامات نے عبدالملک کو قائل کر دیا کہ حجاج اس کے کہنے پر کوئی بھی اقدام کر سکتا ہے۔ اور اس کے لیے اخلاقی و مذہبی حدود عبور کرنا کوئی مشکل نہیں۔
مکہ پر حملہ
عبداللہ بن زیبر رضی اللہ عنہ اس وقت مکہ میں پناہ گزین تھے اور عبدالملک کو ان کی حکومت ختم کرنے کے لیے کسی ایسے شخص کی تلاش تھی جوعبداللہ بن زبیر کا خاتمہ کر سکے۔ چنانچہ حجاج کو اس مہم کا انچارج بنایا گیا۔ اس نے مکہ کی ناکہ بندی کرکے غذائی بحران پیدا کر دیا اور سنگباری کی۔ جب شامی خانہ کعبہ کی حرمت یا عبداللہ بن زبیر کی اخلاقی اپیلوں کی وجہ سے ہچکچاتے تو حجاج خود سنگباری کرتا تھا۔ اس مہم میں اس نے انتہائی سفاکی کا مظاہرہ کرکے عبداللہ بن زبیر کو شہید کر ڈالا ۔ اور ان کی لاش کو کئی روز تک پھانسی پر لٹکائے رکھا۔اس واقعہ میں کعبہ کی بھی دیواریں منہدم ہو گئیں ۔جو بعد دوبارہ تعمیر کی گئیں۔اس مہم کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسے حجاز کا گورنر کر دیا گیا۔
حجاز کی گورنری
حجاج بن یوسف کو گورنر حجاز اس لیے بنایا گیا تھا کہ وہ اموی اقتدار کو اس مقدس سرزمین میں مستحکم کر ڈالے چنانچہ کچھ دیر تک مکہ میں مقیم رہا۔ اس نے ہر اس شخص کو قتل کروا ڈالا جس سے اموی اقتدار کے خلاف زبان کھولنے کی توقع کی جاسکتی تھی۔ اس کے مظالم نے عوام کے حوصلے پست کر دئیے اور وہ اموی غلامی پر رضامند ہو گئے۔
مکہ کے بعد مدینہ کی باری آئی۔ حجاج وہاں پہنچا تو صحابہ زادوں اور تابعین کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ اس نے اہل مدینہ کو جمع کرکے ایک زوردار تقریر کی اور انھیں عبدالملک کی بیعت کرنے پر آمادہ کرنا چاہا تاہم اہل مدینہ خاموش بیٹھے رہے اور کسی نے مخالفت بھی نہ کی لیکن بیعت بھی کسی نے نہ کی۔ حجاج نے انھیں تین دن کی مہلت دے کر رخصت کر دیا لیکن ساتھ ہی قتل و غارت کا مشغلہ شروع کر دیا لوگ اس کے جورو ستم کے واقعات سن چکے تھے اور واقعہ حرہ انھیں ابھی بھولا نہیں تھا۔اس لیے انہوں نے عبدالملک کی بیعت کر لی۔
واقعہ حرہ ایک دل دہلا دینے والا واقعہ تھا۔ جس میں یزیدی فوج نے واقعہ کربلا کے بعد مدینہ طیبہ پر ہلا بول دیا۔ اور مدینہ میں قتل و غارت کا بازار گرم کردیا۔مسجد نبوی میں گھوڑے باندھ دئے گئے اور مسجد نبوی میں تین دن تک اذان بھی نہ دی جا سکی ۔
حجاج نے معززین کی ایک فہرست تیار کر ڈالی اور ان سب کو یکے بعد دیگرے طلب کرکے بیعت لی جس نے اموی حکومت پر تنقید کی اس کی گردن اڑا دی ۔ دو ماہ تک اس کی بربریت کے بھرپور مظاہرے ہوتے رہے۔ بالاخر اس مقدس بستی کے باشندوں سے قیامت ٹل گئی اور حجاج کا تبادلہ عراق کر دیا گیا۔

حجاج عراق میں
عبدالملک نے اہل خراسان اور کوفہ و بصرہ کی باغیانہ روش کو ختم کرنے کے لیے حجاج کو گورنر مقرر کیا۔ اس نے صرف بارہ آدمی ساتھ لیے اور ایک ہزار میل کا فاصلہ طے کرکے بالکل غیر متوقع طور پر کوفہ پہنچا ۔ کوفہ میں داخلہ کے وقت اس نے نقاب پہن رکھا تھا۔تاکہ لوگ اسے پہچان نہ سکیں۔ اس کے ساتھی اہل کوفہ کو پکار پکار کر مسجد میں جمع ہونے کا حکم دے رہے تھے ۔ حجاج بن یوسف ثقفی مسجد پہنچا تو لوگ شرارت پر آمادہ تھے ۔ کنکریاں ہمراہ لائے تھے تاکہ ان سے نئے گورنر کا استقبال کر سکیں۔ اس نے ممبر پر چڑھ کر نقاب الٹا اور ایسی تقریر کی سب لوگ ڈر گئے۔
اس تقریر سے لوگ بری طرح مرعوب ہوئے ۔ اس نے عبدالملک کا خط پڑھنے کا حکم دیا۔ جس میں اس کی تقریر کا حکم تھا خط کا آغاز السلام علیکم سے ہوتا تھا لوگ سہمے ہوئے خط سن رہے تھے لیکن حجاج سخت غصے کے عالم میں چیخا ’’کمینوں امیر المومنین تم پر سلام بھیجتے ہیں اور تم میں سے کوئی جواب تک نہیں دیتا۔ اس پر سب لوگوں نے بیک وقت سلام کا جواب دیا اور خط کو نہایت غور سے سنا۔حجاج نے کوفہ کے لوگوں کو حکم دیا کہ جو لوگ مہلب بن ابی صفرہ کی فوج سے بھاگ کر کوفہ آئے ہیں وہ فوراً واپس چلے جائیں ورنہ انھیں قتل کر دیا جائے گا۔ اہل کوفہ اس حد تک فرمانبردار ہوگئے تھے کہ انھوں نے اس حکم کی فوراً تعمیل کی۔

بصرہ کی بغاوت
حجاج کوفہ سے بصرہ پہنچا اور وہاں کے لوگوں کو مرعوب کرنے کے لیے بھی ایک زبردست تقریر کی اور فوج کی تنخواہوں میں کمی کر ڈالی۔ عبدالله بن جارود ایک سردار نے اس حکم کے خلاف اپیل کی تو اس نے اسے جھاڑ دیا اس پر فوج میں بغاوت ہو گئی اور فوجیوں نے حجاج کے خیمہ کو گھیر لیا لیکن حجاج نے رشوت دے کر بہت سے لوگوں کو ساتھ ملا لیا اور اس طرح بغاوت فرو ہوگئی اور اس کے قائد قتل کر ڈالے گئے۔ اہل عراق اس بغاوت کی ناکامی سے بہت مرعوب ہوئے۔
حجاج نے حضرت انس بن مالک مشہور صحابی کی شان میں بھی گستاخی کی اور ان کے لڑکے کو شہید کروا دیا تاہم عبدالملک نے اس پر سخت گرفت کی اور حجاج کو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے معافی مانگنی پڑی۔
حجاج نے ولید بن عبدالملک کے عہد میں فتوحات پر زیادہ زور دیا اور سندھ اور ترکستان میں بے شمار فتوحات کیں۔ اس نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو سندھ پر حملہ کرنے کا حکم دیا اور یوں ہندوستان میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کی باقاعدہ حکومت قائم ہوئی حجاج بن یوسف حکومت کے استحکام کے لیے ہر کام کرنے کو تیار رہتا۔ اموی حکومت کے استحکام میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے ۔ اس نے اخلاقی و مذہبی احکام کو ہمیشہ خلیفہ کی خوشنودی کے لیے قربان کیا اور حجاز و عراق پر مضبوط اموی کنٹرول قائم کر دیا۔ معاشی استحکام کے لیے اس نے معاشی اصلاحات نافذ کیں اور غیر مسلموں سے جزیہ وصول کیا۔ اس کا مزاج فاتحانہ تھا اس لیے اس کے عہد میں فتوحات بھی حاصل ہوئیں ۔ لیکن یہ صرف تصویر کا ایک رخ ہے دوسرا رخ یہ کہ وہ نہایت ظالم اور سفاک انسان تھا۔ بے جا تلوار استعمال کرتا ۔ انسانی جان کی حرمت اس کے نزدیک کوئی معنی نہ رکھتی تھی۔ حرام مہینوں کا احترام بھی وہ کم ہی کرتا تھا۔ عراقیوں اور عجمی مسلمانوں سے اس کا سلوک نہایت ظالمانہ تھا ۔ وہ سخت متعصب تھا اور شمالی عدنانی قبائل کا سرپرست تھا۔ اس نے یمنیوں کو بلاوجہ ظلم کا نشانہ بنایا اور اس طرح سے اس کے ظلم و جور اور قبائلی تعصب پر بنو امیہ کی جڑیں کھوکھلی کر دیں۔ اور عوام الناس کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت کا بیج بویا گیا جو اموی سلطنت کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔

القصہ حجاج نے اپنی تلوار اور تقریری قوت بنو امیہ کے استحکام کے لیے استعمال کی جس سے وقتی طور پر اموی حکومت مستحکم ہوگئی لیکن اس کی غلط کاریوں نے عوام کو اموی حکومت سے برگشتہ کر دیا۔

حجاج کا ایک انتہائی ظالمانہ پہلو
حجاج نے اپنے اور حکومت کے مخالفین پہ بےجا ظلم ڈھائے۔ اس کی محبوب سزا مخالف کو برہنہ کر کے بغیر چھت کے قید خانوں میں رکھنا تھی۔ اس معاملے میں وہ مرد اور عورت کی تمیز بھی نہیں رکھتا تھا۔ مزید اذیت کے لیے وہ ایک ہی خاندان کے مرد و خواتین کو ایک ہی جگہ برہنہ قید رکھتا۔ ایک وقت میں اس کے برہنہ قیدیوں کی تعداد پچاس ہزار تک پہنچ گئی تھی جن میں تیس ہزار خواتین تھیں۔ ان قیدیوں میں اکثریت حجاج و بنی امیہ کے سیاسی مخالفین کی تھی۔
حجاج بن یوسف ثقفی کی ۱۳ رمضان ۹۵ ہجری قمری کو ۵۳ سال کی عمر میں موت واقع ہوئی وہ عبدالملک بن مروان کے زمانے میں شہر واسط میں آکلہ(بہت زیادہ کھانے)کے مرض کی وجہ سے مر گیا۔اور تاریخ کا سفاکانہ باب بند ہوا اور مسلمانوں نے اس کی موت پرسکھ کا سانس لیا۔یہ شخص اتنا خونریز تھا کہ بعض مورخین نے لکھا ہے کہ اس نے تقریبا ایک لاکھ بیس ہزار مسلمانوں کو قتل کیا اور کئی ہزار مرد اور عورتوں کو زندان میں قید کیاتھا۔

Share:

6/18/19

جسم کے کسی حصے میں درد ختم کرنے کے لیے



جسم کے جس حصے میں درد ہو وہاں ہاتھ رکھیں اور
  تین مرتبہ      بسم اللہ الرحمن الرحیم
اور  سات مرتبہ    أَعُوذُ بِاللهِ وَقُدرَتِهِ مِن شَرِّ مَا أَجِدُ وَ أُحَاذِرُ    پڑھیں اور  ان شاء اللہ درد ختم ہو جائے گا۔

Share:

درداں نے پائے گھیرے سرکار نوں کہواں گے





درداں نے پائے گھیرے سرکار نوں کہواں گے
غم ہو گئے ودھیرے سرکار نوں کہواں گے

کدی لنگدے لنگدے آقا ول نوکراں دے آؤ
دکھیاں دا حال آقا کدی آکے ویکھ جاؤ
ساڈے گھر وی پاؤ پھیرے سرکار نوں کہواں گے

روندے نے درداں مارے چردے نئیں شاہاں چارے
ہولی اے جان میری درداں دے بھار بھارے
لتھ جان بھار میرے سرکار نوں کہواں گے

کدی آؤ ساڈے ولے یا فر سانوں بلاؤ
ہجراں دی اگ کولوں آقا سانوں بچاؤ
اسی شام تے سویرے سرکار نوں کہواں گے

اجمل جئے مجرماں دا تیری ذات ہے سہارا
ساڈی لاج رکھ کریماں ساڈی لاج رکھ خدارا
کتھے جان کملے تیرے سرکار نوں کہواں گے

Share:

جہڑے دل وچ رکھدے نے ارمان مدینے دے



جہڑے دل وچ رکھدے نے ارمان مدینے دے
بن جاندے کدی نا کدی مہمان مدینے دے

دل پھڑ کے میں بہ جانا جی بھر کے میں رو لینا
جد راہی مینوں چھڈ کے ٹر جان مدینے دے

سنیا اے مدینے تے جدوں دوروں نظر پیندی
دل کر دا اے ہو جائیے قربان مدینے دے

مولا تیرا شکر کراں اک وار جے کر دیویں
پیدا اس کملے لئی سامان مدینے دے

اک وار زیارت جو کر آئے نے روضے دی
ساری عمر نئیں دے سکدے احسان مدینے دے

میرے دل وچ بن جاوے تصویر مدینے دی
یا خواب مینوں آقا نت آن مدینے دے

انداز اوہ رک جاوے شالا حشر توڑی ویلا
جدوں خواب اچ آجاون سلطان مدینے دے
Share:

قدسی کھڑے ہیں حیران ہو کے qudsi khare hen heran ho k | نعت معراج | معراج کی رات



qudsi khare hen heran ho k
قدسی کھڑے ہیں حیران ہو کے کہ سدرہ سے آگے بشر جا رہا ہے
وہ بن ٹھن کے اپنے خالق سے ملنے سرِ عرش وہ تاجور جا رہا ہے


قیامت کے لمحے بڑے پر کٹھن تھے مگر ان کی نسبت پہ قربان جاؤں
پروں پہ اٹھا کے امت نبی کی جبریل پل کے ادھر جا رہا ہے


قصہ حلیمہ کے آنگن کا پوچھو جوانی کی چھوڑو تم بچپن کا پوچھو
ابھی مصطفے نے اٹھائی ہےانگلی قمر سے تو پوچھو کدھر جا رہا ہے


اقصی میں جتنے بھی مرسل کھڑے تھے حیرت میں سارے کے سارے پڑے تھے
کہ ہم ان کے پیچھے یہ کیا پڑھ رہے ہیں نمازیں ہی لینے اگر جا رہا ہے


جاتا ہے دیکھو وہ بے خوف ایسے کہ سب جانتا ہو یہ راہیں وہ جیسے
وہ یوں جا رہا ہے کہ جیسے کہ کوئی  گھر والا اپنے ہی گھر جا رہا ہے


کہاں تو ہے شاکر کہاں انکی نعتیں کہاں اپنی ذاتیں کہاں انکی باتیں
یہ کیوں کہ رہے ہو بشر جا رہا ہے حقیقت میں خیر البشر جا رہا ہے


Share:

6/17/19

Ethics for Perfect Life......



کچھ اخلاقیات جو آپ کو مہذب نظر آنے میں مدد دے سکتی ہیں:

1 کسی شخص کو مسلسل دو بار سے زیادہ کال مت کریں . اگر وہ اپکی کال نہیں اٹھاتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی اور ضروری کام میں مصروف ہیں ۔

    2کسی سے لی گئ ادھار رقم انکے یاد دلانے سے پہلے ادا کردیں . 1 روپیہ ہو یا 1 کروڑ یہ آپ کے کردار کی پختگی دکھاتا ہے۔

    3 کسی کی دعوت پر مینو پر مہنگی ڈش کا آڈر نہ دیں. اگر ممکن ہو تو ان سے پوچھیں کہ آپ کے لئے کھانے کی اپنی پسند کا آڈر دیں ۔

.    4 مختلف سوالات کسی مت پوچھیں جیسے 'اوہ تو آپ ابھی تک شادی شدہ نہیں ہیں' یا 'آپ کے بچے نہیں ہیں' یا 'آپ نے گھر کیوں نہیں خریدا؟' خدا کی لئے یہ آپ کا مسئلہ نہیں ہے. .

     5ہمیشہ اپنے پیچھے آنے والے شخص کے لئے دروازہ کھولیں. کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ مرد ہے یا عورت ۔ آپ کا قد لوگوں کے سامنے کسی سے اچھی طرح سے پیش آنے سے چھوٹا نہیں بڑھتا ہے

.     6اگر آپ کسی دوست کے ساتھ ٹیکسی لے لیں ، اور کرایہ وہ ادا کرتا ہے تو آپ اگلی بار ادا کریں.

        مختلف سیاسی نظریات کا احترام کریں.

     8لوگوں کی بات نہ کاٹیں

.     9اگر آپ کسی کو تنگ کررے ہیں، اور وہ اس سے لطف اندوز نہیں ہوتے تو رک جائیں اور دوبارہ کبھی ایسا نہ کریں.

     10 جب کوئی آپکی مدد کرے تو آپ اسکا شکریہ ادا کریں۔

     11 کسی کی تعریف کرنی ہو تو لوگوں کے سامنے کریں. اور تنقید صرف تنہائی میں

     12کسی کے وزن پر کوئی تبصرہ کرنے کی کوئی تک نہیں بنتی۔. بس کہیں ، "آپ اچھے نظر آتے ہیں ." اگر وہ وزن کم۔کرنے کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں تو وہ کریں گے.

    13 جب کوئی آپ کو اپنے فون پر ایک تصویر دکھاتا ہے، تو بائیں یا دائیں سوائپ نہ کریں. آپکو کچھ نہیں پتہ کہ آگے کیا ہے۔

.    14 اگر ایک ساتھی آپ کو بتاتا ہے کہ ان کو ڈاکٹر کے پاس جانا ہے،تو یہ نہ پوچھیں کہ کس لئے۔۔ بس آپ اچھی صحت کی دعا دیں . اگر وہ اس کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں تو وہ کریں گے۔

     15جس طرح آپ ایک سی ای او کے ساتھ احترام سے پیش آتے ہیں اسی طرح اپنے آفس بوئے اور چوکیدار کے ساتھ پیش آئیں۔ اپنے سے کم تر حثیت کے لوگوں سے اپکا برتاوء آپکے کردار کا آئینہ دار ہے ۔

    16 اگر کوئی شخص آپ کے ساتھ براہ راست بات کر رہا ہے، تو آپ مسلسل اپنے موبائل فون کی طرف نہ دیکھیں

.      17 جب تک آپ سے پوچھا نہ جائے مشورہ نہ دیں ۔

      18 کسی سے عرصے بعد ملاقات ہورہی ہو تو ان سے، عمر اور تنخواہ نہ پوچھیں جب تک وہ خود اس بارے میں بات نہ کرنا چاہیں۔

      19اپنے کام سے کام رکھیں اور کسی معاملے میں دخل نہ دیں جب تک آپکو دعوت نہ دی جائے۔

     20 اگر آپ گلی میں کسی سے بات کر رہے ہیں تو دھوپ کا۔چشمہ اتار دیں ۔یہ احترام کی نشانی ہے۔


Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive