Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

5/26/21

صبر ، شکر اور یقین || اسلام میں صبر وشکر کی کیا اہمیت ہے؟ || صبر اور شکر کی اہمیت | حضرت سلیمان علیہ السلام | حضرت ایوب علیہ السلام :

صبر ، شکر اور ایمان:

حضرت مغیرہ بن عامر سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الشکر نصف الایمان والصبر نصف الایمان و الیقین الایمان کله. ( بیهقی، شعب الایمان، 4: 109، رقم: 4448)

صبر نصف ایمان ہے، اور شکر نصف ایمان اور یقین کامل ایمان ہے۔

وقال ابن مسعود رضي الله عنه: الصبر نصف الإيمان، واليقين الإيمان كله. رواه الطبراني وغيره، وقال الحافظ المنذري في الترغيب والترهيب: رواته رواة الصحيح

وقال علي رضي الله عنه: الصبر من الإيمان بمنزلة الرأس من الجسد، من لا صبر له لا إيمان له.) روى ابن أبي شيبة في "المصنف" (6/ 172) ، والبيهقي في "الشعب" (1/ 146) ،(

آدھا ایمان صبر ہے آدھا ایمان شکر ہے اور مکمل ایمان یقین ہے۔

عَنْ صُهَيْبٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ کُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَيْرًا لَهُ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ، وَأَحْمَدُ۔

أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الزهد والرقائق، باب : المؤمن أمره کله خیر، 4 / 2295، الرقم : 2999، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 15، الرقم : 23969، والمنذري في الترغیب والترهیب، 4 / 140، الرقم : 5149۔

ترجمہ: حضرت صہیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مومن کی(اس) شان پر خوشی کرنی چاہیے کہ اس کے ہر حال میں خیر ہے اور یہ مقام اس کے سوا اور کسی کو حاصل نہیں، اگر وہ نعمتوں کے ملنے پر شکر کرے تو اس کو اجر ملتا ہے اور اگر وہ مصیبت آنے پر صبر کرے تب بھی اس کو اجر ملتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت ایوب علیہ السلام :صبر اور شکر

اللہ پاک نے قرآن مجید میں دو انبیا ئےکرام علیھما السلام کی زندگیاں بیان کی ہیں ۔۔ ایک جناب سلیمان علیہ السلام ہیں اور دوسرے ایوب علیہ السلام ہیں ۔جناب بتائیں!کیا سلیمان علیہ السلام (قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَهَبْ لِیْ مُلْكًا لَّا یَنْۢبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِیْۚ-اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ(۳۵)فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّیْحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِهٖ رُخَآءً حَیْثُ اَصَابَۙ(۳۶)وَ الشَّیٰطِیْنَ كُلَّ بَنَّآءٍ وَّ غَوَّاصٍۙ(۳۷)وَّ اٰخَرِیْنَ مُقَرَّنِیْنَ فِی الْاَصْفَادِ(۳۸)(سورۃ ص: 35-38)کو اتنی شاہانہ زندگی ایسے ہی مل گئی تھی؟، بغیر پٹرول سے چلنے والا ہیلی کاپٹر دیا تھا جہاں چاہتے تھے چلے جاتے تھے۔ دوسری طرف جناب ایوب علیہ السلام ہیں (وَ اذْكُرْ عَبْدَنَاۤ اَیُّوْبَۘ-اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّ عَذَابٍؕ(۴۱)(سورۃ ص:41))کہ بیماری کی کیفیت یہ تھی کہ پورے جسم میں کیڑے تھے اور سب گھر مال اولاد سب جاتا رہا۔ تو جناب بتائیں ! جناب ایوب علیہ السلام کے ساتھ ایسا کیوں تھا ؟ سنیں !  یہ دونوں زندگیاں اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش تھیں انہیں حکومت دےکر طاقت دے کر کائنات کی ساری سہولتیں دےکر آزمایا ۔۔ ادھر ساری کائنات کی نعمتیں دے کر پھر یکے بعد دیگرے اچانک تمام نعمتیں چھین کر اور بیماری لگا کر آزمایا اور امت محمدیہ کو یہ نصیحت فرمائی کہ سنوں دونوں حالتیں آزمائش ہیں کوئی یہ نہ کہے کہ بیمار ہوں، مصیبت میں گھرا ہوں، تکلیف میں پڑا ہوں، تو شاید بڑا بد نصیب ہوں فرمایا نہیں نہیں مایوسی کی ضرورت نہیں یہ آزمائش ہے۔ اسی طرح جس کے پاس نعمتیں ہیں وہ یہ نہ سمجھے کہ مجھ سے اللہ تعالی بڑا راضی ہے، یہ مال  بھی آزمائش ہے ۔۔ جناب نعمتیں ملیں تو شکر کرنا ہو گا اور مصیبت آئے تو صبر کرنا ہو گا ۔

 جناب سلیمان علیہ السلام کی کچہری ہے اور ملکہ بلقیس دربار سلیمان میں پہنچنے والی ہے فرمایا کون اس کا تخت لے کر آئے گا ایک جن نے کہا میں مگر کچھ دیر لگے گی آپ کی محفل برخاست ہونے سے پہلے آ جائے گا فرمایا نہیں  اس سے جلدی چاہیے ۔ اتنے میں ایک کتاب کا عالم سلیمان علیہ السلام کا مرید اور امتی کھڑا ہوا فرمایا میں لاتا ہوں ، فرمایا کتنی دیرْ عرض کیا حضرت آپ کی پلک جھپکنے سے آئے گا ، تخت کو دیکھا تو فرمایا  قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ (سورۃ النمل: 40)فرمایا یہ تیرا کمال نہیں ہے یہ میرے رب کا فضل ہے اور سنوں یہ فضل ایسے نہیں ہوا  وہ امتحان لیتا ہے امتحان لیتا ہے۔ مرید  نےعرض کیا حضرت جب انعام ملے تو امتحان میں پاس کیسے ہوں گے تو آپ نے فرمایا لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُؕ-وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ  (سورۃ النمل: 40)۔۔ یعنی فرمایا شکر کرنا پڑتا ہے۔ فرمایا جب بھی الہ تعالی کی نعمت ملے تو اس کا شکر کیا کرو۔۔

شکر:

یقین ایک درخت ہے اور صبر اور شکر اس کے پھل ہیں یا یوں سمجھ لیں کہ یقین ایک ترازو ہے اور صبر اور شکر دونوں اس کے پلے ہیں۔صبر اور شکر یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ انسان پر دو میں سے ایک حالت رہتی ہے یا وہ خوش ہوتا ہے یا غمگین ہوتا ہے۔ یا اس پر اللہ تعالی کی طرف سے نعمتوں ، رحمتوں کی بارش ہوتی ہے اور وہ خوش ہوتا ۔یا اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش یا اس کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے دکھ اور الم اس کا مقدر ہوتے ہیں۔

        اب اگر اللہ کی نعمتیں اس کو مل رہی ہیں اور وہ خوشحال ہے توانسان اس خوشحالی کو اپنی محنت سمجھتے ہوئے اس پر اترانے نہ لگ جائے اور تکبر نہ کرنے لگ جائے اس لیے حکم دیا کہ اللہ تعالی کا شکر ادا کرو تا کہ تم تکبر کا شکار نہ ہو جاؤ۔ کیوں کہ اللہ تعالی کو تکبر کسی صورت میں پسند نہیں ہے فرمایا: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ هَنَّادٌ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: الْكِبْرِيَاءُ رِدَائِي، وَالْعَظَمَةُ إِزَارِي، فَمَنْ نَازَعَنِي وَاحِدًا مِنْهُمَا قَذَفْتُهُ فِي النَّارِ".

ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل کا فرمان ہے: بڑائی (کبریائی) میری چادر ہے اور عظمت میرا تہ بند، تو جو کوئی ان دونوں چیزوں میں کسی کو مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب اللِّبَاسِ/حدیث: 4090]

تو تکبر سے بچانے کے لیے حکم دیا کہ شکر ادا کرو  فرمایا : وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ  (سورہ ابراہیم آیہ 7)  ترجمہ: اوروہ وقت بھی جب تمہارے پروردگار نے اعلان فرمادیا تھا کہ اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا ، اور اگر تم نے ناشکری کی تو یقین جانو ، میرا عذاب بڑا سخت ہے ۔

صبر:

دوسری طرف اگر اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش کے لیے امتحان کے لیے کوئی پریشان یا مصیبت آ گئی ہے تو اس صورت میں بھی انسان کو مایوسی سے بچانے کے لیے حکم دیا کہ صبر کرو ۔ کیوں کہ مایوسی بھی اللہ تعالی کو پسند نہیں ہے قرآن مجید میں جب یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں سے ارشاد فرماتے ہیں کہ جاؤ اور اپنے بھائی کو تلاش کرو اور اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس نہ ہو  ارشاد باری تعالی ہے: وَلَا تَيْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ (سورہ یوسف آیہ 87) ترجمہ: اللہ تعالی کی رحمت سے مایو س نہ ہو بے شک صرف کافر ہی اللہ کی رحمت سے مایوس ہوتے ہیں۔ تو اس مایوسی سے بچانے کے لیے ارشاد فرمایا کہ صبر کرو  اور یقین رکھو  اللہ تعال کی ذات پر ۔ کیوں کہ یقین نہیں تو کوئی بھی کام فائدہ مند نہیں ہے۔

        اب صبر کے حوالے سے اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو فرمایا  کہ یہ نہیں کہ تم بس صبر کرتے جو صبر کرتے جو نہیں بلکہ فرمایا : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴾ [البقرة: 153] فرمایا کہ صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ تعالی ہوتا ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ﴿ بَلَى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هَذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ ﴾ [آل عمران: 125] فرمایا اگر صبر کرو گےتو فرشتے تمہاری مدد کے لیے تیار رہیں گے اور فوراً تمہاری مدد کو آئیں گے ۔

تقدیر الہی کے نوشتے بھی وہی ہیں

اللہ بھی وہی اس کے فرشتے بھی وہی ہیں

اتریں گے ملائک آج بھی امداد کو تیری

گر ذاتِ خدا سے تیرے رشتے بھی وہی ہیں

﴿ وَكَأَيِّنْ مِنْ نَبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ ﴾ [آل عمران: 146] ترجمہ: اور کتنے ہی انبیاء نے جہاد کیا ان کے ساتھ بہت خدا والے تھے تو نہ سُست پڑے اُن مصیبتوں سے جو اللہ کی راہ میں انہیں پہنچیں اور نہ کمزور ہوئے اور نہ دبے اور صبر والے اللہ کو محبوب ہیں۔

فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ ﴾ [هود: 49]پس صبر کریں آخرت ہمیشہ پرہیزگاروں کے لیے ہے۔

﴿ وَاصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ ﴾ [هود: 115] اور صبر کریں پس اللہ تعالی احسان کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا ۔

إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ ﴾ [يوسف: 90] بے شک جس نے تقوی اختیار کیا اور صبر کیا پس اللہ تعالی اس کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

تکلیف کی انتہا :

اب اس میں یہ بھی ہے کہ صبر کا مطلب یہ نہیں کانٹا چبھ گیا اور بندہ کہے کہ میں نے صبر کیا ایسا نہیں بلکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ ہم اسے تکلیف سے آزمائیں گے آیات دیکھیں اللہ تعالی کیا ارشاد فرماتا ہے :

﴿ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ * الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ﴾ [البقرة: 155، 166]اس آیت کی وضاحت کی جائے گی۔

وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ﴾ [البقرة: 177].جنگ اور جان کی قربانی کا ذکر۔

قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ (الصفت آیہ 102)اس آیت میں درد اور تکلیف کی انتہا ہے مگر فرمانبرداری میں سب کچھ قربان کر دیا اسماعیل علیہ السلام نے۔

          صحابہ کرام نے مشرکین مکہ کے ظلم سے تنگ آ کر عرض کیا یارسول اللہ ﷺ آپ اللہ سے دعا کریں ہمیں نجات دیں ان کے ظلم سے مگر آپ نے ارشاد فرمایا صبر کرو تم سے پہلے لوگوں کے جسم لوہے کی کنگھیوں سے چھلنی کر دیے جاتے تھے اور آرے سے ان کے جسم کو چیر دیا جاتا تھا ۔ یعنی طلم کی انتہا ہو جاتی تھی مگر وہ صبر کرتے ۔ تو جو لوگ اس انتہا کی تکلیف میں صبر کرتے ہیں تو اللہ تعالی بھی اجر اتنا زیادہ عطا فرماتا ہے۔

حضرت ایوب علیہ السلام کو اللہ تعالی نے آزمایا اور ان کا سب کچھ چھین لیا گیا حالانکہ آپ کی جائیداد مال مویشی کے ریوڑ ہوتے تھے اور دولت کا اندازہ نہیں تھا مگر جب تکلیف آئی تو سب کچھ جاتا رہا اور بیمار اس قدر ہو گئے کہ علاقے والوں نے نکال دی اور آپ کے جسم پر کیڑے پڑ گئے اگر کوئی کیڑا نیچے گرتا تو آپ فرماتے تیرا رزق للہ تعالی نے یاں لکھا ہے تو کہاں جاتا ہے تو اس کیڑے کی تکلیف باقیوں سے زیادہ ہتی تھی ۔ بہر کیف آپ نے صبر کیا ور جب تکلیف کی انتہا ہو گئی اور ایوب علیہ السلام نے بھی صبر کی انتہا کر دی تو اللہ تعالی نے فرشہ بھیجا اور چشمے جاری ہوئے ایوب علیہ السلام تن درست ہو گئے اور ارشاد باری تعالی ہے :

فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ ۖ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَذِكْرَىٰ لِلْعَابِدِينَ (سورہ الانبیاء84)

یعنی جو کچھ ان سے چھن گیا تھا اللہ تعالی نے اتنا ور زیادہ عطا فرما دیا ۔

صبر آسان نہیں ، بڑی ہمت کا کام ہے :

اللہ تعالی صبر کرنے والوں کی ہمت کی قدر بھی کرتا ہے فرماتا ہے صبر کرنا اتنا آسان نہیں ہے یہ بہت ہمت اور مشکل کام ہے ہر کوئی اس میدان میں کامیاب نہیں ہو جاتا فرمایا:

وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ﴾ [آل عمران: 186]

﴿ يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ﴾ [لقمان: 17]

﴿ وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ﴾ [الشورى: 43].

صبر کرنا بہت مشکل کام ہے مگر جو صبر کر جاتے ہیں فرمایا پھر ان کے لیے اجر ہی اجر ہے ۔

اور جنہوں نے صبر کیا اور اللہ کی رضا کے لیے صبر کیا تو اللہ تعالی کے ہاں ان کے لیے بہت اجر و ثواب ہے ارشاد فرمایا:

﴿ وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَؤُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ ﴾ [الرعد: 22]

یعنی جو اللہ تعالی کی رضا کے لیے صبر کرتے ہیں تو فرمایا ان کے لیے بہترین آخرت کا گھر ہے۔

صبر کرنے پر اجر کی انتہا:

اب اللہ تعالی اجر کتنا عطا فرماتا ہے سنیں فرمایا :

﴿ مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ بَاقٍ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُوا أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ [النحل: 96]

﴿ إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ ﴾ [هود: 11]

﴿ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ ﴾ [الرعد: 24]

﴿ وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ ﴾ [النحل: 126]

﴿ إِنِّي جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوا أَنَّهُمْ هُمُ الْفَائِزُونَ ﴾ [المؤمنون: 111]

﴿ أُولَئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا ﴾ [الفرقان: 75]

﴿ أُولَئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا وَيَدْرَؤُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ ﴾ [القصص: 54]

إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ﴾ [الزمر: 10]

﴿ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴾ [فصلت: 35]

 احادیث مبارکہ:

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏    يَوَدُّ أَهْلُ الْعَافِيَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِينَ يُعْطَى أَهْلُ الْبَلَاءِ الثَّوَابَ لَوْ أَنَّ جُلُودَهُمْ كَانَتْ قُرِضَتْ فِي الدُّنْيَا بِالْمَقَارِيضِ   (ترمذی 2402)

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب قیامت کے دن ایسے لوگوں کو ثواب دیا جائے گا جن کی دنیا میں آزمائش ہوئی تھی تو اہل عافیت خواہش کریں گے کاش دنیا میں ان کی کھالیں قینچیوں سے کتری جاتیں“

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: ’’جب میں اپنے کسی بندے کو اُس کے جسم، مال یا اولاد کے ذریعے آزمائش میں مبتلا کروں ، پھر وہ صبر جمیل کے ساتھ اُس کا استقبال کرے تو قیامت کے دن مجھے حیا آئے گی کہ اس کے لیے میزان قائم کروں یا اس کا نامۂ اعمال کھولوں ۔ (نوادر الاصول ، الاصل الخامس والثمانون والمائۃ، ج۲، ص۷۰۰، حدیث: ۹۶۳۔)

شکر کرنے کے لیے عطا کیا :

وَأَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿٢٦ الأنفال﴾

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ ﴿١٧٢ البقرة﴾

وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿14 النحل﴾

وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَشُكُورًا ﴿62 الفرقان﴾

وَلَهُمْ فِيهَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ أَفَلَا يَشْكُرُونَ ﴿73 يس﴾

كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿٨٩ المائدة﴾

وَلَٰكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿٦ المائدة﴾

وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ ﴿١٤٥ آل عمران﴾

وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿78 النحل﴾

وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ ﴿12 لقمان﴾

اللہ تعالی شکر کرنے والوں کی قدر کرتا ہے:

وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ ﴿١٥٨ البقرة﴾

وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًا ﴿١٤٧ النساء﴾

لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ ﴿30 فاطر﴾

إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ ﴿34 فاطر﴾

وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ ﴿17 التغابن﴾

اپنا ہی فائدہ ہے :

فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ ﴿12 لقمان﴾

وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ﴿7 الزمر﴾

لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ﴿٤٠ النمل﴾

شکر کرنے سے عذاب نہیں آتا:

مَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ ﴿١٤٧ النساء﴾

شکر کتنی نعمت پر ادا کریں:

ایک مرتبہ دوپہر کے وقت سخت دھوپ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ پریشان ہوکر گھر سے چلے، مسجد میں پہنچے ہی تھے کہ حضرت عمر فاروقؓ بھی اسی حالت میں تشریف لے آئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بیٹھا ہوا دیکھ کر دریافت کیا : ’’ تم اس وقت یہاں کہاں۔ ‘‘ صدیق اکبرؓ نے فرمایا : ’’بھوک کی بے تابی نے پریشان کیا۔ ‘‘ حضرت عمرؓ نے عرض کیا ’’ وﷲ! اسی چیز نے مجھے بھی مجبور کیا کہ کہیں جاؤں۔ ‘‘

 

یہ دونوں حضرات یہ گفت گو کر ہی رہے تھے کہ سرکارِ دو عالم نبی اکرمؐ ﷺ تشریف لے آئے اور انہیں دیکھ کر دریافت فرمایا : ’’ تم اس وقت یہاں۔ ‘‘ عرض کیا یارسول ﷲ ﷺ! : ’’بھوک نے پریشان کیا، جس سے مضطرب ہوکر نکل پڑے۔ ‘‘ حضورؐ نے ارشاد فرمایا : ’’ اسی مجبوری سے میں بھی آیا ہوں۔‘‘

 

تینوں حضرات اکٹھے ہوکر حضرت ابوایوب انصاریؓ کے مکان پر پہنچے تو وہ تشریف نہیں رکھتے تھے۔ ان کی بیوی نے بڑی مسرت و افتخار سے ان حضرات کو بٹھایا۔ حضور اقدسؐ نے دریافت فرمایا : ’’ ابوایوبؓ کہاں گئے ہیں ؟ ‘‘ عرض کیا : ’’ ابھی حاضر ہوتے ہیں، کسی ضرورت سے گئے ہوئے ہیں۔‘‘ اتنے میں ابوایوبؓ بھی حاضر خدمت ہوگئے اور فرطِ خوشی میں کھجور کا ایک بڑا سا خوشہ توڑ لائے۔ حضورؐ نے ارشاد فرمایا : ’’سارا خوشہ کیوں توڑا ؟ اس میں کچی اور ادھ کچری بھی ٹوٹ گئیں، چھانٹ کر پکی ہوئی توڑ لیتے ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا: ’’ اس خیال سے توڑا کہ ہر قسم کی سامنے ہوں، جو پسند ہو وہ نوش فرمائیں۔‘‘ (کیوں کہ بعض مرتبہ پکی ہوئی سے آدھ کچری زیادہ پسند ہوتی ہیں) خوشہ سامنے رکھ کر جلدی سے گئے اور ایک بکری کا بچہ ذبح کیا اور جلدی جلدی کچھ تو ویسے ہی بھون لیا، کچھ کا سالن تیار کرلیا۔

 

حضور اقدسؐ نے ایک روٹی میں تھوڑا سا گوشت رکھ کر ابو ایوبؓ کو دیا کہ یہ حضرت فاطمہؓ کو پہنچا دو، اس کو بھی کئی دن سے کچھ نہیں مل سکا۔ وہ فوراً پہنچا کر آئے ان حضرات نے بھی سیر ہوکر تناول فرمایا۔ اس کے بعد حضور اقدسؐ نے ارشاد فرمایا کہ : ’’دیکھو! یہ ﷲ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں، روٹی ہے، گوشت ہے، ہر قسم کی کچی اور پکی کھجوریں ہیں۔ ‘‘ یہ فرما کر نبی اکرمؐ کی پاک آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور ارشاد فرمایا : ’’ اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، یہی وہ نعمتیں ہیں جن سے قیامت میں سوال ہوگا۔‘‘

 

جن حالات میں اس وقت یہ چیزیں میسر ہوئی تھیں، اس لحاظ سے صحابہ کرامؓ کو بڑی گرانی اور فکر ہوئی کہ ایسی مجبوری اور اضطرار کی حالت میں یہ چیزیں میسر آئیں اور ان پر بھی سوال و حساب ہوگا؟

 

حضور ؐ نے ارشاد فرمایا : ’’ ﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا تو ضروری ہے ہی، لہٰذا جب اس قسم کی چیزوں کی طرف ہاتھ بڑھاؤ تو اوّل بسم ﷲ پڑھو اور جب کھا چکو تو کہو ’’الحمدﷲ‘‘۔ اس دعا کا پڑھنا شکر ادا کرنے میں کافی ہے۔‘‘

 

 

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive