Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

7/31/22

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ | عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ Second Caliph of Islam


 قدم قدم پہ نواز دیتے  میرے نبی ﷺ کے قدوم ِاقدس

عظیم اتنے کہ عرش چومے مرے نبی ﷺ کے قدومِ اقدس

پہاڑ خوشیوں سے وجد کرتے ادب  سے قدموں کے بوسے لیتے

جب ان کی قسمت جگانے جاتے مرے نبی ﷺ کے قدوم اقدس

کھڑے تھے جب دو شہید اس پر اور ایک صدیق ساتھ ان کے

احد کی لرزش کو روکتے تھے مرے نبی ﷺ کے قدوم ِاقدس

·       عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ عُمَرُ : وَافَقْتُ رَبِّيْ فِيْ ثَلاَثٍ : فِي مَقَامِ إِبْرَاهِيْمَ، وَ فِي الْحِجَابِ، وَ فِي أَسَارٰی بَدْرٍ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ. ’’حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میرے رب نے تین امور میں میری موافقت فرمائی، مقام ابراہیم میں، حجاب میں اور بدر کے قیدیوں میں (تین کا ذکر شہرت کے اعتبار سے ہے ورنہ ان آیات کی تعداد زیادہ ہے)۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 54 : أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1865، الحديث رقم : 2399

·       أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُمْ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَعِدَ أُحُدًا وَأَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ , وَعُثْمَانُ فَرَجَفَ بِهِمْ ، فَقَالَ :    اثْبُتْ أُحُدُ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ    . جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر احد پہاڑ پر چڑھے تو احد کانپ اٹھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”احد! قرار پکڑ کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔“ Sahih Bukhari#3675

·       ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏   أَوَّلُ مَنْ يُصَافِحُهُ الْحَقُّ عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَوَّلُ مَنْ يُسَلِّمُ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَوَّلُ مَنْ يَأْخُذُ بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَيُدْخِلُهُ الْجَنَّةَ  . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  حق تعالیٰ سب سے پہلے قیامت کے دن عمر سے مصافحہ کریں گے، اور سب سے پہلے انہیں سے سلام کریں گے، اور سب سے پہلے ان کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل کریں گے ۔ Sunnan e Ibn e Maja#104

·      عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : اسْتَأْذَنَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ نِسْوَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُكَلِّمْنَهُ وَيَسْتَكْثِرْنَهُ عَالِيَةً أَصْوَاتُهُنَّ عَلَى صَوْتِهِ , فَلَمَّا اسْتَأْذَنَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قُمْنَ فَبَادَرْنَ الْحِجَابَ , فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَدَخَلَ عُمَرُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ ، فَقَالَ عُمَرُ : أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :    عَجِبْتُ مِنْ هَؤُلَاءِ اللَّاتِي كُنَّ عِنْدِي فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَكَ ابْتَدَرْنَ الْحِجَابَ    ، فَقَالَ عُمَرُ : فَأَنْتَ أَحَقُّ أَنْ يَهَبْنَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، ثُمَّ قَالَ عُمَرُ : يَا عَدُوَّاتِ أَنْفُسِهِنَّ أَتَهَبْنَنِي وَلَا تَهَبْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْنَ : نَعَمْ أَنْتَ أَفَظُّ وَأَغْلَظُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :    إِيهًا يَا ابْنَ الْخَطَّابِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ سَالِكًا فَجًّا قَطُّ إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ

عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ اس وقت آپ کے پاس قریش کی چند عورتیں  ( امہات المؤمنین میں سے )  بیٹھی باتیں کر رہی تھیں اور آپ کی آواز پر اپنی آواز اونچی کرتے ہوئے آپ سے نان و نفقہ میں زیادتی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ جوں ہی عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو وہ تمام کھڑی ہو کر پردے کے پیچھے جلدی سے بھاگ کھڑی ہوئیں۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی اور وہ داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ خوش رکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ان عورتوں پر ہنسی آ رہی ہے جو ابھی میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں، لیکن تمہاری آواز سنتے ہی سب پردے کے پیچھے بھاگ گئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ڈرنا تو انہیں آپ سے چاہیے تھا۔ پھر انہوں نے  ( عورتوں سے )  کہا اے اپنی جانوں کی دشمنو! تم مجھ سے تو ڈرتی ہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں، عورتوں نے کہا کہ ہاں، آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں آپ کہیں زیادہ سخت ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر شیطان تمہیں کسی راستے پر چلتا دیکھتا ہے تو اسے چھوڑ کر وہ کسی دوسرے راستے پر چل پڑتا ہے۔

·      أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ :    وُضِعَ عُمَرُ عَلَى سَرِيرِهِ فَتَكَنَّفَهُ النَّاسُ يَدْعُونَ وَيُصَلُّونَ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ وَأَنَا فِيهِمْ فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا رَجُلٌ آخِذٌ مَنْكِبِي ، فَإِذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَتَرَحَّمَ عَلَى عُمَرَ ، وَقَالَ : مَا خَلَّفْتَ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَلْقَى اللَّهَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ مِنْكَ , وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأَظُنُّ أَنْ يَجْعَلَكَ اللَّهُ مَعَ صَاحِبَيْكَ وَحَسِبْتُ إِنِّي كُنْتُ كَثِيرًا أَسْمَعُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ :    ذَهَبْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ وَدَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ وَخَرَجْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ    .

جب عمر رضی اللہ عنہ کو  ( شہادت کے بعد )  ان کی چارپائی پر رکھا گیا تو تمام لوگوں نے نعش مبارک کو گھیر لیا اور ان کے لیے  ( اللہ سے )  دعا اور مغفرت طلب کرنے لگے، نعش ابھی اٹھائی نہیں گئی تھی، میں بھی وہیں موجود تھا۔ اسی حالت میں اچانک ایک صاحب نے میرا شانہ پکڑ لیا، میں نے دیکھا تو وہ علی رضی اللہ عنہ تھے، پھر انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دعا رحمت کی اور  ( ان کی نعش کو مخاطب کر کے )  کہا: آپ نے اپنے بعد کسی بھی شخص کو نہیں چھوڑا کہ جسے دیکھ کر مجھے یہ تمنا ہوتی کہ اس کے عمل جیسا عمل کرتے ہوئے میں اللہ سے جا ملوں اور اللہ کی قسم! مجھے تو  ( پہلے سے )  یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی رکھے گا۔ میرا یہ یقین اس وجہ سے تھا کہ میں نے اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سنے تھے کہ ”میں، ابوبکر اور عمر گئے۔ میں، ابوبکر اور عمر داخل ہوئے۔ میں، ابوبکر اور عمر باہر آئے۔“

·       عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :    لَقَدْ كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ رِجَالٌ يُكَلَّمُونَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونُوا أَنْبِيَاءَ فَإِنْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِي مِنْهُمْ أَحَدٌ فَعُمَرُ    . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلی امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے، اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر ہیں۔ زکریا بن زائدہ نے اپنی روایت میں سعد سے یہ بڑھایا ہے کہ ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہوا کرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیا کرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے تو وہ عمر ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے پڑھا «من نبي ولا محدث» ۔ Sahih Bukhari#3689

·       عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ اﷲَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلی لِسَانِ عُمَرَ وَ قَلْبِهِ وَ قَالَ ابْنُ عُمَرَ : مَا نَزَلَ بِالنَّاسِ أمْرٌ قَطُّ فَقَالُوْا فِيْهِ وَ قَالَ فِيْهِ عُمَرُ أوْقَالَ ابْنُ الْخَطَّابِ فِيْهِ شَکَّ خَارِجَةُ إِلَّا نَزَلَ فِيهِ الْقُرْآنُ عَلٰی نَحْوِ مَا قَالَ عُمَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وً قَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَ فِي الْبَابِ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ وَ أَبِيْ ذَرٍّ وَ أَبِيْ هُرَيْرَةَ. ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری کر دیا ہے۔ حضرت ابن عمر کہتے ہیں جب کبھی لوگوں میں کوئی معاملہ درپیش ہوا اور اس کے متعلق لوگوں نے کچھ کہا اور حضرت عمر ابن خطاب نے بھی کچھ کہا (خارجہ بن عبد اﷲ راوی کو شک ہے کہ کس طرح آپ کا نام لیا گیا)۔ اس بارے میں رائے بیان کی تو ضرور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق قرآن نازل ہوا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘ اس باب میں فضل بن عباس، ابو ذر اور ابو ہریرۃ رضی اللہ عنھم سے بھی روایات مذکور ہیں۔ الحديث رقم 55 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 617، الحديث رقم : 3682

·       عبد اللہ بن ابی بہت بڑا منافق تھا۔ بظاہر مسلمان تھا لیکن باطنی طور پر اسلام کا دشمن تھا۔ جب وہ مرا تو اس کا لڑکا ( جو خود ایک سچا مسلمان تھا ) حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور نمازِ جنازہ پڑھانے کی درخواست کی ۔ حضور اکرم ﷺ اس کی نمازِ جنازہ پڑھانے کے لیے تشریف لے گئے۔ راستے میں حضرت عمر نے حضور ﷺ سے اپنی اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ آپ ﷺ اس منافق کی نمازِ جنازہ نہ پڑھائیں۔ جنازہ پڑھانے کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ کا یہ حکم صادر ہوا کہ آئندہ ان منافقین میں سے کوئی مر جائے تو آپ ﷺ نہ اس کی نماز پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں

اِسْتَغْفِرْ لَـهُـمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَـهُـمْ اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَـهُـمْ سَبْعِيْنَ مَرَّةً فَلَنْ يَّغْفِرَ اللّـٰهُ لَـهُـمْ ۚ ذٰلِكَ بِاَنَّـهُـمْ كَفَرُوْا بِاللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ ۗ وَاللّـٰهُ لَا يَـهْدِى الْقَوْمَ الْفَاسِقِيْنَ (80) تو ان کے لیے بخشش مانگ یا نہ مانگ اگر تو ان کے لیے ستر دفعہ بھی بخشش مانگے گا تو بھی اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا، یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا، اور اللہ نافرمانوں کو راستہ نہیں دکھاتا۔

نقطہ: عبد اللہ بن ابی اور منافقین کے لیے ارشاد فرمایا اگرچہ آپ  70 بار بھی توبہ کریں گے میں معاف نہیں کروں گا اور ایمان والوں کے لیے فرمایا کہ محبوب آپ ایک بار استغفار کر کے دیکھیں ہم معاف بھی کر دیں گے بخش بھی دیں گے اور رحمت بھی کریں گے   جملہ: محبوب گناہ گار آپ سے پیار کرتے ہیں منافق آپ کا دشمن ہے محبوب ہم گناہ کب دیکھتے ہیں ہم تو بس دیکھتے ہیں کہ آپ سے پیار کتنا کرتا ہے : ایک روایت وہ شخص جو گناہ بھی کرتا تھا ور اور پھر حضور کو خوش بھی کرتا تھا لوگوں نے بات کی کہ گناہ چھوڑ کیوں نہیں دیتا حضور نے فرمایا اس کے بارے میں بات نہ کرو یہ اللہ اور اس کے رسول سے پیار کرتا ہے۔

·        عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه اَنَّ رَجُلًا عَلٰی عَهْدِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ اسْمُه عَبْدَ اﷲِ، وَکَانَ يُلَقَّبُ حِمَارًا، وَکَانَ يُضْحِکُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَکَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم قَدْ جَلَدَه فِي الشَّرَابِ، فَاُتِيَ بِه يَوْمًا، فَاَمَرَ بِه، فَجُلِدَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : اَللّٰهُمَّ، الْعَنْهُ مَا اَکْثَرَ مَا يُؤْتٰی بِه، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَلْعَنُوْهُ، فَوَاﷲِ، مَا عَلِمْتُ إِنَّه يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه. وفي روارواية : لَا تَلْعَنْهُ فَإِنَّه يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه.

 رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَبُوْ يَعْلٰی، وَإِسْنَادُه حَسَنٌ. 21 : اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الحدود، باب ما يکره من لعن شارب الخمر وإنه ليس بخارج من الملة، 6 / 2489، الرقم : 6398، وعبد الرزاق في المصنف، 7 / 381، الرقم : 13552، وابو يعلی في المسند، 1 / 161، الرقم : 176، وأبو نعيم في حلرواية الأولياء، 3 / 228، والبزار في المسند، 1 / 393، الرقم : 269. ’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک شخص تھاجس کا نام عبد اﷲ اور لقب حمار تھا، اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہنسایا کرتا تھا۔ (ایک بار وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حالت نشہ میں لایا گیا تو) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر شُرْبِ خمر کی حد جاری فرمائی۔ ایک روز اسے (پھر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حالتِ نشہ میں لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے اسے (دوبارہ) کوڑے لگائے گئے۔ لوگوں میں سے کسی نے کہا : اے اﷲ! اس پر لعنت فرما، یہ کتنی دفعہ (اس جرم میں) لایا گیا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس پر لعنت نہ بھیجو، میں جانتا ہوں کہ یہ اﷲتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس پر لعنت نہ بھیجو کیوں کہ یہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔

دوسرا نقطہ: عمر کے لیے دعا کی اللہ نے قبول کر لی  ایک بار کرنے پر قبول کر لیا مگر منافقین کے لیے 70 بار بھی کریں گے تو قبول نہیں کروں گا ۔ مسئلہ یہ ہے کہ عمر کو مسئلہ حضور کی ذات سے نہیں تھا مسئلہ اللہ کی ذات سے تھا یعنی اللہ کو ایک نہیں مانتے تھے  حضورﷺ کو تو امین اور صادق مانتے تھے ۔ ادھر منافقین کا مسئلہ اللہ کی ذات نہیں وہ حضورﷺ کی ذات ہے تو اللہ تعالی نے فرمایا محبوب جو میرا دشمن ہے اس کے لیے دعا کرے گا تو معاف کر دوں گا مگر جو تیرا دشمن ہے اسے کبھی معاف نہیں کروں گا۔

·       ایک یہودی اور منافق مسلمان میں کسی بارے میں تنازعہ ہوا۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیصلہ کروایا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیانات کے بعد فیصلہ یہودی کے حق میں دیا۔ وہ منافق مسلمان حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا کہ آپ حمیت دینی میں اس کا ساتھ دیں گے مگر جب آپ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقدمہ کا فیصلہ فرماچکے ہیں اور اب منافق مجھ سے فیصلہ چاہتا ہے تو تلوار اٹھا کر منافق کا سرقلم کردیا۔ قرآن کریم نے سورہ نسآء میں اس فیصلہ کی توثیق کی اور مستقل طور پر یہ اصول طے پایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلہ کو آخری حیثیت حاصل ہے اور جو اس فیصلہ کو درست تسلیم نہ کرے وہ مومن نہیں ہے۔

فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۶۵)ترجمہ: کنزالعرفان تو اے حبیب! تمہارے رب کی قسم، یہ لوگ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنالیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو اپنے دلوں میں اس سے کوئی رکاوٹ نہ پائیں اوراچھی طرح دل سے مان لیں ۔


سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نکیرین کے بارے میں سن کر)حضرت سیِّدُنا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم! جب وہ میرے پاس آئیں   گے تو کیا میں   اسی طرح صحیح سَالِم رہوں   گا جیسے اب ہوں؟‘‘فرمایا:” ہاں۔‘‘عرض کیا: ’’یارسول اللہ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم! پھر تو میں   انہیں   آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف سے خُوب جواب دوں گا۔‘‘سرکار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’اے عمر! اس رب عَزَّوَجَلَّ کی قسم جس نے مجھے حق دے کر بھیجا! مجھے جبریل امین نے بتایا ہے کہ وہ دونوں   فرشتے جب تمہاری قبر میں   آئیں   گے اور سوالات کریں   گے تو تم یوں   جواب دو گے کہ میرا رب   اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہے مگر تمہارا رب کون ہے؟ میرا دین اسلام ہے مگر تمہارا دین کیا ہے؟ میرے نبی تو محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں   مگر تمہارا نبی کون ہے؟ وہ کہیں   گے: بڑی تعجب کی بات ہے، ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں   یا تم ہماری طرف بھیجے گئے ہو؟‘‘(ریاض النضرۃ ،ج1،ص346)

Share:

7/22/22

علم غیب | علم وھبی | علم عطائی | رسول اللہ ﷺ کو علم غیب تھا

غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہونے سے متعلق اہم کلام:

 اس آیت میں  اور اس کے علاوہ کئی آیات میں  غیب کے علم کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ سے علمِ غیب کی نفی کی گئی ہے، اسی مناسبت سے یہاں  ہم علمِ غیب سے متعلق ایک خلاصہ ذکر کرتے ہیں  تاکہ وہ آیات،احادیث اور اقوالِ علماء جن میں  اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں  سے علم غیب کی نفی کی گئی ہے ا ن کا اصل مفہوم واضح ہو اور علم غیب سے متعلق اہلِ حق کے اصل عقیدے کی وضاحت ہو۔چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’علمِ غیب اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہونا بے شک حق ہے اور کیوں  نہ ہو کہ رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے: ’’ قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰهُ- سورہ نمل آیہ 65‘‘ تم فرمادو کہ آسمانوں  اور زمین میں  اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں ۔‘‘ اور اس سے مراد وہی علمِ ذاتی اورعلمِ محیط (یعنی ہر چیز کا علم) ہے کہ وہی اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت اور اس سے مخصوص ہیں ۔

علم وھبی ، علم عطائی، علمِ غیر محیط:

علمِ عطائی کہ دوسرے کا دیا ہوا ہواور علمِ غیر محیط کہ بعض اَشیاء سے مطلع ہو اور بعض سے ناواقف ہو، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے ہو ہی نہیں  سکتا،اس سے مخصوص ہونا تو دوسرا درجہ ہے۔ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے علومِ غیب غیر محیط کا اَنبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ملنا بھی قطعاً حق ہے اور کیوں  نہ ہو کہ رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے: ’’وَ  مَا  كَانَ  اللّٰهُ  لِیُطْلِعَكُمْ  عَلَى  الْغَیْبِ  وَ  لٰكِنَّ  اللّٰهَ  یَجْتَبِیْ  مِنْ  رُّسُلِهٖ  مَنْ  یَّشَآءُ- ‘‘(آل عمران:۱۷۹) اور اللہ کی شان یہ نہیں  کہ اے عام لوگوتمہیں  غیب کا علم دے  ہاں  اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں  سے جسے چاہے۔ اور فرماتا ہے: ’’عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًا(۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ‘‘(الجن:۲۶،۲۷) اللہ عالم الغیب ہے تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں  کرتاسوااپنے پسندیدہ رسولوں  کے۔ اور فرماتا ہے: ’’ وَ مَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ‘‘(التکویر: ۲۴) یہ نبی غیب کے بتانے میں  بخیل نہیں ۔ اور فرماتا ہے: ’’ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَ-‘‘( یوسف: ۱۰۲) یعنی اے نبی !یہ غیب کی باتیں  ہم تم کو مخفی طور پر بتاتے ہیں ۔ حتّٰی کہ مسلمانوں  کو فرماتا ہے: ’’یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ‘‘(بقرہ: ۳ ) غیب پر ایمان لاتے ہیں ۔ ایمان تصدیق (کا نام) ہے اور تصدیق علم ہے، (تو) جس شے کا اصلاً علم ہی نہ ہو اس پر ایمان لانا کیونکر ممکن (لہٰذا ثابت ہوا کہ مسلمانوں  کو غیب کا علم حاصل ہے)، تفسیر کبیر میں  ہے: ’’لَایَمْتَنِعُ اَنْ نَّقُوْلَ نَعْلَمُ مِنَ الْغَیْبِ مَالَنَا عَلَیْہِ دَلِیْلٌ‘‘ یہ کہنا کچھ منع نہیں  کہ ہم کو اس غیب کا علم ہے جس میں  ہمارے لیے دلیل ہے۔( تفسیرِ کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۲۷۴) نسیم الریاض میں  ہے: ’’لَمْ یُکَلِّفْنَااللہُ الْاِیْمَانَ بِالْغَیْبِ اِلَّا وَ قَدْ فَتَحَ لَنَا بَابَ غَیْبِہٖ‘‘ ہمیں  اللہ تعالیٰ نے ایمان بالغیب کا جبھی حکم دیا ہے کہ اپنے غیب کا دروازہ ہمارے لیے کھول دیا ہے۔( نسیم الریاض، فصل و من ذلک ما اطلع علیہ من الغیوب۔۔۔الخ، ص۱۵۱، فتاویٰ رضویہ، ۲۹ / ۴۳۸-۴۳۹، ملخصاً)

 

Share:

7/20/22

دین سے دور، نہ مذہب سے الگ بیٹھا ہوں | din se door na mazhab se alag betha hon | پیر نصیر الدین نصیر شاہ | #sufiana




 

دین سے دور، نہ مذہب سے الگ بیٹھا ہوں

تیری دہلیز پہ ہوں، سب سے الگ بیٹھا ہوں

 

 ڈھنگ کی بات کہے کوئی، تو بولوں میں بھی

 مطلبی ہوں، کسی مطلب سے الگ بیٹھا ہوں

 

بزم احباب میں حاصل نہ ہوا چین مجھے

 مطمئن دل ہے بہت، جب سے الگ بیٹھا ہوں

 

 غیر سے دور، مگر اس کی نگاہوں کے قریں

 محفل یار میں اس ڈھب سے الگ بیٹھا ہوں

 

یہی مسلک ہے مرا، اور یہی میرا مقام

آج تک خواہش منصب سے الگ بیٹھا ہوں

 

 عمر کرتا ہوں بسر گوشۂ تنہائی میں

جب سے وہ روٹھ گئے، تب سے الگ بیٹھا ہوں

 

 میرا انداز نصیرؔ اہل جہاں سے ہے جدا

سب میں شامل ہوں، مگر سب سے الگ بیٹھا ہوں

Share:

مائل بہ کرم مجھ پر ہو جائیں تو اچھا ہو | mail ba karam mujh pr | فنا بلند شہری


 

مائل بہ کرم مجھ پر ہو جائیں تو اچھا ہو

مقبول مرے سجدے ہو جائیں تو اچھا ہو

 

 اس دشت نوردی سے پیچھا تو کہیں چھوٹے

ہم کوچۂ جاناں میں مر جائیں تو اچھا ہو

 

 سر ہو در جاناں پہ دم اپنا نکل جائے

یہ کام محبت میں کر جائیں تو اچھا ہو

 

 یوں تو سبھی آئے ہیں دفنانے مجھے لیکن

 وہ بھی مری میت پہ آ جائیں تو اچھا ہو

 

 پھر درد جدائی کا جھگڑا نہ رہے کوئی

 ہم نام ترا لے کر مر جائیں تو اچھا ہو

 

 دیکھیں نہ کسی کو ہم پھر دیکھ کے رخ تیرا

 دیدار ترا کر کے مر جائیں تو اچھا ہو

 

 رہ جائے محبت کا دنیا میں بھرم کچھ تو

 دو پھول ہی تربت پہ دھر جائیں تو اچھاہو

 

دھڑکا لگا رہتا ہے ہر وقت بلاؤں کا

ہم ساتھ نشیمن کے جل جائیں تو اچھا ہو

 

 بدنام ہی کرنے کو آئیں وہ مگر آئیں

 وہ اتنا کرم مجھ پر کر جائیں تو اچھا ہو

 

 جا سکتے ہیں جانے کو ہم چل کے فناؔ دیکھیں

 وہ خود ہمیں محفل میں بلوائیں تو اچھا ہو

Share:

7/18/22

داستان غم دل ان کو سنائی نہ گئی | dastan e gham e dil un ko sunai na gai | jigar murad abadi


 

داستان غم دل ان کو سنائی نہ گئی

بات بگڑی تھی کچھ ایسی کہ بنائی نہ گئی

 

 سب کو ہم بھول گئے جوش جنوں میں لیکن

 اک تری یاد تھی ایسی جو بھلائی نہ گئی

 

 عشق پر کچھ نہ چلا دیدۂ تر کا قابو

 اس نے جو آگ لگا دی وہ بجھائی نہ گئی

 

 پڑ گیا حسن رخ یار کا پرتو جس پر

 خاک میں مل کے بھی اس دل کی صفائی نہ گئی

 

 کیا اٹھائے گی صبا خاک مری اس در سے

 یہ قیامت تو خود ان سے بھی اٹھائی نہ گئی

Share:

7/15/22

فضائل سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ| سیرت و مناقب | Bio of Third Caliph of Islam Usman bin Affan RA


 

مناقب و سیرت  سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ

          یہ تحریر بالخصوص مقرر حضرات کو زیادہ فائدہ دے گی کیوں عموماً مواد مختصر لکھا گیا ہے

 

1:بیئر رومہ ۔۔ یہودی سے فرمایا جنت کے چشمے کے بدلے تو اس نے انکار کر دیا تو حضرت عثمان نے 35000 درہم کے بدلے خرید لیا ور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا میرے لیے بھی چشمہ ہو گا(کیا میرے لیے بھی وہی پیکج ہے) فرمایا ہاں تو عرض کیا میں نے مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔

2: لشکر پر تنگی تھی کہ حضرت عثمان کو پتہ چلا تو 14 سواریاں خرید لیں ا ور 9 حضور ﷺ کو بھیج دیں جب دیکھا تو خوش ہوئے اور راوی کہتے ہیں ایسی دعا حضور نے کسی کے لیے نہیں کی کہ یا اللہ عثمان کو یہ بھی دے دے وہ بھی دے

3: لشکر کی تیاری میں 100 پھر 200 پھر 300 پھر گھر گئے 1000 دینا حضور ﷺ کو پیش کیے حضور نے فرمایا ماضر عثمان ما عملَ بعدالیوم

4: مسجد کی جگہ تنگ پڑ گئی تو حضور نے فرمایا کتنی اچھی جگہ ہے اگر مل مسجد کے لیے مل جائے کون ہے جو جنت خریدے گا حضرت عثمان گئے جب واپس آئے تو پوچھا عثمان دیکھ آئے عرض کیا سوہنا  نہ چمن نہ چمن کی بو پسند ہمیں آئے وہ پسند جسے آئے تو پسند۔ عرض کیا سوہنا غلام دیکھنے نہیں گیا تھا سوہنا میں وہ زمین خرید آیا ہوں۔

تفصیل کے ساتھ حالات و واقعات پڑھنے کے لیے کلک کریں

5:حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں حضرت رقیہ آئیں تو فرمایا میں نے حضور ﷺ کے بال سنوارے ہیں تو حضور نے پوچھا رقیہ عثمان کیسا ہے تو عرض کیا یاسول الللہ ﷺ بہت اچھے ہیں تو حضورﷺ نے فرمایا  قال اکرمیہ فانہ من اشبہ اصحابی بی خُلُقاً  طبرانی

6: ہر آدمی اپنے کفو کے ساتھ کھڑا ہو فرماتے ہیں کہ حضور حضرت عثمان کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور گلے لگایا اور فرمایا عثمان تو دنیا میں بھی میرا دوست ہے او آخرت میں بھی۔

7: لکل نبی رفیق اور رفیقی یعنی فی الجنۃ عثمان

8: پنڈلی سے اپنا کپڑا درست کر لیا؛؛ فرشتے بھی حیا کرتے ہیں

أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُضْطَجِعًا فِي بَيْتِي، كَاشِفًا عَنْ فَخِذَيْهِ، أَوْ سَاقَيْهِ، فَاسْتَأْذَنَ أَبُو بَكْرٍ فَأَذِنَ لَهُ، وَهُوَ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، فَتَحَدَّثَ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ، فَأَذِنَ لَهُ، وَهُوَ كَذَلِكَ، فَتَحَدَّثَ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُثْمَانُ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَوَّى ثِيَابَهُ - قَالَ مُحَمَّدٌ: وَلَا أَقُولُ ذَلِكَ فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ - فَدَخَلَ فَتَحَدَّثَ، فَلَمَّا خَرَجَ قَالَتْ عَائِشَةُ: دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فَلَمْ تَهْتَشَّ لَهُ وَلَمْ تُبَالِهِ، ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ فَلَمْ تَهْتَشَّ لَهُ وَلَمْ تُبَالِهِ، ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ فَجَلَسْتَ وَسَوَّيْتَ ثِيَابَكَ فَقَالَ: «أَلَا أَسْتَحِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ»(مسلم 2401) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے کہا :  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں لیٹے ہوئے تھے ،  رانیں یا پنڈلیاں کھولے ہوئے تھے کہ اتنے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی ،  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حالت میں اجازت دے دی اور باتیں کرتے رہے ۔  پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو انہیں بھی اسی حالت میں اجازت دے دی اور باتیں کرتے رہے ۔  پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور کپڑے برابر کر لئے ۔  پھر وہ آئے اور باتیں کیں ۔   ( راوی محمد کہتا ہے کہ میں نہیں کہتا کہ تینوں کا آنا ایک ہی دن ہوا )  جب وہ چلے گئے تو ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ خیال نہ کیا ،  پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ خیال نہ کیا ،  پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لئے ۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں اس شخص سےحیا نہ کروں جس سے فرشتے حیاکرتے ہیں۔

تفصیل کے ساتھ حالات و واقعات پڑھنے کے لیے کلک کریں

9: حضورﷺ منے فرمایا کہ فرشتہ بیٹھا تھا کہ کہا  اس کو ایک جماعت شہید کرے گی اور فرمایا کہ ہم فرشتے ان کا حیا کرتے ہیں۔

عن زید بن ثابت  رسول اللہ ﷺ یقول : مرّ َ بی عثمان و عندی مَلَک من الملائکۃ فقال شھید یقتلہ قومہ اِنَّا لَنَستحیی منہ ۰طبرانی معجم کبیر حدیث نمبر 4939)

10: ہر قدم پر غلام آزاد کروں گا

11: جنت میں بغیر حساب کے ۔۔ جناب مولا علی نے عرض کیا حساب کس سے شروع ہو گا تو حضورﷺ نے فرمایا قیامت میں سب سے پہلے حساب  ابو بکر پھر عمر پھر علی۔۔مگر میرا عثمان بنا حساب کے جنت میں

12: میں سوادا طے کر لیا ہے  اور وہ تاجر مجھے دس گناہ دے رہا ہے۔ مدینہ میں قحط پڑا حضرت عثمنان کے اونٹ غلے سے لدے مدینہ آئے تاجر گئے خریدنے کے لیے گئے مگر آپ نے جواب دے دیا

Share:

اصل خبر اندر کی ہوتی ہے | جا جا وڈدا مندر مسیتی | صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی

آپ کس کے ساتھ ہیں؟

صاحبو! آپ جس کسی کے بھی ساتھ ہیں اگر آپ اپنے ساتھ نہیں ہیں تو یقین جانیے کہ آپ کسی کے بھی ساتھ نہیں ہیں ۔ جیسے انسان اپنے اردگرد کی خبر رکھتا ہے، اردگرد میں ہونے والے واقعات سے باخبر رہتا ہے مگر انسان اپنے اندر کی خبر نہیں رکھتا۔۔۔اپنے اندر ہونے والے واقعات سے بے خبری میں رہتا ہے۔۔

ویسے خبر ہوتی کیا ہے؟

صاحبو ! خبر تو اندر کی ہی ہوتی ہے

اور اگر اندر کی نہ ہو تو خبر ہی کیا۔۔۔۔

بڑے صحافی یا بڑے صحافتی ادارے “ اندر” کی خبریں دینے کی وجہ سے ہی معتبر ٹھہرائے جاتے ہیں۔

تو خبر اندر کی ہوتی ہے ۔۔۔

واقعہ تو کہیں اندر ہوتا ، باطن میں ، داخل میں ہے ، باہر یا خارج میں یا جسے ظاہر کہتے ہیں اُس میں تو صرف اُس اندرونی واقعہ کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے ۔

اندر کا واقعہ ہے کہ انسان کو طاقت کی خواہش یا دولت کا لالچ جکڑ لیتا ہے۔۔۔ یہ سب اندر ہو رہا ہوتا ہے۔ جو باہر یا خارج میں باپ کی آنکھیں نکالنے اور زندان میں ڈالنے کے بعد ایسا کرنے والے بیٹے کو تخت نشین کر دیتا ہے۔

جو یتیم بھتیجے کی جائیداد پر قابض ہو جاتا ہے

جو زیادہ منافع کمانے کے لیے خوراک کی زخیرہ اندوزی کر کے مصنوعی قلت پیدا کر دیتا ہے۔

جو دودھ میں پانی ملا دیتا ہے۔۔۔

واقعہ تو اندر ہوتا ہے میری جان

باہر تو صرف اظہار ہے

تو جب صوفی کہتا ہے کہ

جا جا وڈدا مندر مسیتی

کدی من اپنے اچ وڑیا ای نہیں

‘‘دوڑ دوڑ کر مندر اور مسجد جاتے ہیں مگر اپنے من میں کبھی داخل ہونے کی کوشش نہیں کرتے’’

تو صوفی یہی اشارہ کرتا ہے کہ اصل واقعہ تو اندر ہو رہا ہوتا ہے۔۔۔ اور تُم باہر ڈھونڈ رہے ہوتے ہو۔ اور یہ اپنے اندر نہ دیکھنے اور صرف باہر ہی دیکھتے رہنے کی وجہ سے ہے کہ نہ دل میں جستجو، نہ بات میں خوشبو، نہ آنکھ میں آنسو، نہ طبعیت میں دُعا، نہ لمس میں شفا، نہ نظر میں حیا، نہ بات میں اثر۔۔۔۔ بڑے بڑے کشادہ محل بنانے کے چکروں میں اُس “ محل ربانی” اپنے دل کو ہی تنگ کر بیٹھا ہے۔انسان ، انسان پر طاقت ور رہنے کے لیے “ القوی” سے براہ راست جنگ کر بیٹھا ہے۔

انسان چیزوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے خود ایک چیز ایک commodity بن گیا ہے ۔

انسان ظاہر میں اسی لیے پریشان ہے کہ اُس نے باطن کو پراگندہ کر دیا ہے

جیسے ہی باطن مطمئن ہونے لگتا ہے، توازن میں آتاہے ظاہر کے جھگڑے ختم ہونے لگتے ہیں۔

محبت راج کرنے لگتی ہے

محبت کا راج کیا ہوتا ہے

خدمت محبت کی راجدھانی ہے

پھر ریاست ماں بن جاتی ہے

پھر مخدوم ہی اصل خادم ہوتا ہے

خوشی کا نسخہ کیمیاء Alchemy of Happiness یہی ہے ۔ مخلوق کی خدمت اور خالق کا ذکر۔۔۔

ہتھ کار ولے ، دل یار ولے۔۔

انسان سُنتا ہے اور بھول جاتا ہے

انسان دیکھتا ہے اور یاد رکھتا ہے

انسان کرتا ہے اور سمجھ جاتا ہے

التماس دُعا

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

 

 

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive