Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

7/22/22

علم غیب | علم وھبی | علم عطائی | رسول اللہ ﷺ کو علم غیب تھا

غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہونے سے متعلق اہم کلام:

 اس آیت میں  اور اس کے علاوہ کئی آیات میں  غیب کے علم کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ سے علمِ غیب کی نفی کی گئی ہے، اسی مناسبت سے یہاں  ہم علمِ غیب سے متعلق ایک خلاصہ ذکر کرتے ہیں  تاکہ وہ آیات،احادیث اور اقوالِ علماء جن میں  اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں  سے علم غیب کی نفی کی گئی ہے ا ن کا اصل مفہوم واضح ہو اور علم غیب سے متعلق اہلِ حق کے اصل عقیدے کی وضاحت ہو۔چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’علمِ غیب اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہونا بے شک حق ہے اور کیوں  نہ ہو کہ رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے: ’’ قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰهُ- سورہ نمل آیہ 65‘‘ تم فرمادو کہ آسمانوں  اور زمین میں  اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں ۔‘‘ اور اس سے مراد وہی علمِ ذاتی اورعلمِ محیط (یعنی ہر چیز کا علم) ہے کہ وہی اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت اور اس سے مخصوص ہیں ۔

علم وھبی ، علم عطائی، علمِ غیر محیط:

علمِ عطائی کہ دوسرے کا دیا ہوا ہواور علمِ غیر محیط کہ بعض اَشیاء سے مطلع ہو اور بعض سے ناواقف ہو، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے ہو ہی نہیں  سکتا،اس سے مخصوص ہونا تو دوسرا درجہ ہے۔ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے علومِ غیب غیر محیط کا اَنبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ملنا بھی قطعاً حق ہے اور کیوں  نہ ہو کہ رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے: ’’وَ  مَا  كَانَ  اللّٰهُ  لِیُطْلِعَكُمْ  عَلَى  الْغَیْبِ  وَ  لٰكِنَّ  اللّٰهَ  یَجْتَبِیْ  مِنْ  رُّسُلِهٖ  مَنْ  یَّشَآءُ- ‘‘(آل عمران:۱۷۹) اور اللہ کی شان یہ نہیں  کہ اے عام لوگوتمہیں  غیب کا علم دے  ہاں  اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں  سے جسے چاہے۔ اور فرماتا ہے: ’’عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًا(۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ‘‘(الجن:۲۶،۲۷) اللہ عالم الغیب ہے تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں  کرتاسوااپنے پسندیدہ رسولوں  کے۔ اور فرماتا ہے: ’’ وَ مَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ‘‘(التکویر: ۲۴) یہ نبی غیب کے بتانے میں  بخیل نہیں ۔ اور فرماتا ہے: ’’ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَ-‘‘( یوسف: ۱۰۲) یعنی اے نبی !یہ غیب کی باتیں  ہم تم کو مخفی طور پر بتاتے ہیں ۔ حتّٰی کہ مسلمانوں  کو فرماتا ہے: ’’یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ‘‘(بقرہ: ۳ ) غیب پر ایمان لاتے ہیں ۔ ایمان تصدیق (کا نام) ہے اور تصدیق علم ہے، (تو) جس شے کا اصلاً علم ہی نہ ہو اس پر ایمان لانا کیونکر ممکن (لہٰذا ثابت ہوا کہ مسلمانوں  کو غیب کا علم حاصل ہے)، تفسیر کبیر میں  ہے: ’’لَایَمْتَنِعُ اَنْ نَّقُوْلَ نَعْلَمُ مِنَ الْغَیْبِ مَالَنَا عَلَیْہِ دَلِیْلٌ‘‘ یہ کہنا کچھ منع نہیں  کہ ہم کو اس غیب کا علم ہے جس میں  ہمارے لیے دلیل ہے۔( تفسیرِ کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۲۷۴) نسیم الریاض میں  ہے: ’’لَمْ یُکَلِّفْنَااللہُ الْاِیْمَانَ بِالْغَیْبِ اِلَّا وَ قَدْ فَتَحَ لَنَا بَابَ غَیْبِہٖ‘‘ ہمیں  اللہ تعالیٰ نے ایمان بالغیب کا جبھی حکم دیا ہے کہ اپنے غیب کا دروازہ ہمارے لیے کھول دیا ہے۔( نسیم الریاض، فصل و من ذلک ما اطلع علیہ من الغیوب۔۔۔الخ، ص۱۵۱، فتاویٰ رضویہ، ۲۹ / ۴۳۸-۴۳۹، ملخصاً)

 

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive