Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

8/24/19

کسی انسان کا خوف دور کرنے کیلیے



اگر انسان کو کسی دوسرے انسان سے خوف ہو یا دشمن کی طرف سے خطرہ ہو تو اس دعا کا کثرت سے ورد کرے ان شاء اللہ 

خوف دور ہو جائے گا اور دشمن کی اذا رسانی سے بھی محفوظ رہے گا۔

اَللّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِيْ نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُ بِک مِنْ شُرُوْرِهِمْ

ابو داؤد ، کتاب فضائل القرآن، باب ما یقول الرجل إذا خاف قوما، الرقم:۱۵۳۷
Share:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ




رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ:

راوی:

عن ابی حمید الساعدی قال فی عشرۃ من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلمانا اعلمکم بصلاۃ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلمقال فاعرض قال کان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلماذا قام الی الصلاۃ رفع یدیہ حتی یحاذی بھما منکبیہ ثم یکبر ثم یقراثم یکبر ویر فع یدیہ حتی یحاذی بھما منکبیہ ثم یرکع ویضع راحتیہ علی رکبتیہ ثم یعتدل فلا یصبی راسہ ولا یقنع ثم یرفع راسہ فیقول سمع اﷲ لمن حمدہ ثم یرفع یدیہ حتی یحاذی بھما مبکبیہ معتد لا ثم یقول اﷲ اکبر ثم یھوی الی الارض ساجد افیجا فی یدیہ عن جنبیہ ویفتح اصابع رجلیہ ثم یرع راسہ ویثنی رجلہ الیسری فیقعد علیھا ثم یعتدل حتی یرجع کل عظم موضعہ معتد لا ثم یسجد ثم یقول اﷲ اکبر و یرفع ویثنی رجلہ الیسری فیقعد علیھا ثم یعتدل حتی یرجع کل عظ الی موضعہ ثم ینھض ثم یصنع فی الرکعۃ الثانیۃ مثل ذلک ثم اذا قام من الرکعتین کبرورفع یدیہ حتی یحاذی بھما منکبیہ کما کبر عند افتتاح الصلاۃ ثم یصنع ذلک فی بقیۃ صلا تہ حتی اذ کانت السجدۃ التی فیھا التسلیم اخرج رجلہ الیسری وقعد متور کا علی شقہ الا یسر ثم سلم قالوا صدقت ھکذا کان یصلی رواہ ابوداؤد والدارمی وراوی الترمذی وابن ماجۃ معناہ وقال الجامع ترمذی ھذا حدیث حسن صحیح وفی روایۃ لا بی داؤدمن حدیث ابی حمیدثم رکع فوضع یدیہ علی رکبتیہ کانہ قابض علیھا ووتر یدیہ فنحا ھما عن جنبیہ وقال ثم سجد فامکن انفہ وجبھتہ الارض ونحی یدیہ عن جنبیہ ووضع کفیہ حزو منکبیہ وفرج بین فخذیہ غیر حامل بطنہ علی شی من فخذیہ حتی فرغ ثم جلس فافترش رجلہ الیسری واقبل بصدر الیمنی علی قبلتہ ووضع لفہ الیمنی علی رکبتہ الیمنی وکفہ الیسری علی رکبتہ الیسری و اشار اصبحہ یعنی السایۃ و فی اخری لہ و اذا قدرخی الرعتین فعد علی بطن قدمہ الیسری و نصب الیمنی وذا کان فی الرابعۃ افضی بورلہ الیسری الی الارض و اخرج قدمیہ من ناحیۃ و احدۃ۔

" حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے دس صحابہ کی جماعت سے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز(کے طریقے) کو تم سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں صحابہ کی جماعت نے کہا کہ اچھا بیان کیجئے۔" انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر کندھوں کے برابر لے جاتے اور تکبیر کہتے پھر قرأت کرتے ۔ اس کے بعد تکبیر کہہ کر اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور رکوع میں جا کر دونوں ہتھیلیاں اپنے گھٹنے پر رکھتے اور کمر سیدھی کر لیتے اور سر کو نہ نیچا کرتے تھے اور نہ بلند کرتے تھے (یعنی پیٹھ اور سربرابر رکھتے تھے) پھر سر اٹھاتے وقت سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور دونوں ہاتھ اپنے دونوں پہلوؤں سے الگ رکھتے تھے اور اپنے پاؤں کی انگلیوں کو موڑ کر (ان کے رخ قبلے کی طرف) رکھتے تھے پھر سجدے سے سر اٹھاتے اور بایاں پاؤں موڑ کر (یعنی بچھا کر ) اس پر سیدھے بیٹھ جاتے تھے یہاں تک کہ ہر عضو اپنی جگہ پر برابر آجاتا تھا ۔ پھر تکبیر کہتے ہوئے (دوسرے) سجدے میں چلے جاتے اور پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے (سجدے سے) اٹھتے اور بایاں پاؤں موڑ کر اس اطمینان سے بیٹھتے (یعنی جلسہ استراحت کرتے ) یہاں تک کہ بدن کا ہر عضو اپنی جگہ پر آجاتا تھا پھر دوسری رکعت میں بھی (سوائے ابتدائے رکعت میں سبحانک اللھم اور اعوذ باللہ) پڑھنے کے اسی طرح کرتے تھے اور جب وہ دو رکعت پڑھتے (یعنی تشہد) کے بعد کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے جیسے کہ نماز کو شروع کرنے کے وقت تکبیر کہتے تھے پھر باقی نماز اسی طرح پڑھتے تھے اور جب وہ سجدہ (یعنی آخری رکعت کا دوسرا سجدہ) کر چکتے جس کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے تو اپنا بایاں پاؤں باہر نکالتے اور بائیں طرف کولھے پر بیٹھ جاتے اور پھر (تشہد وغیرہ پڑھنے کے بعد ) سلام پھیرتے تھے۔ (یہ سن کر) وہ سب صحابہ بولے کہ " بے شک تم نے سچ کہا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے (ابوداؤد و دارمی) ترمذی اور ابن ماجہ نے اس روایت کو بالمعنی نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ابوداؤد کی ایک روایت میں جو ابوحمید سے مروی ہے۔ یہ الفاظ ہیں " پھر رکوع میں جا کر دونوں ہاتھ زانو پر اس طرح رکھے جیسے انہیں مضبوطی سے پکڑا ہو اور اپنے ہاتھوں کو (کمان کے) چلے کی طرح رکھا اور کہنیوں کو اپنے دونوں پہلوؤں سے دور رکھا (گویا) کہ کہنیاں چلے کے مشابہ تھیں اور پہلو کمان کے مشابہ" اور راوی فرماتے ہیں کہ " پھر سجدے میں گئے تو اپنی ناک اور پیشانی کو زمین پر رکھا اور ہاتھوں کو پہلوؤں سے جدا رکھا اور دونوں ہاتھوں کو کندھوں کی سیدھ میں اور دونوں رانوں کو کشادہ رکھا اور اپنے پیٹ کو دونوں سے الگ رکھا یہاں تک کہ سجدے سے فارغ ہوئے اور پھر اس طرح بیٹھے کہ بایاں پیر تو بچھا لیا اور داہنے پاؤں کی پشت قبلے کی طرف کی اور داہنا ہاتھ دائیں گھٹنے پر اور بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھ لیا اور (اشھد ان لا الہ الا اللہ کہنے کے وقت) اپنی انگلی یعنی سبابہ سے اشارہ کیا۔ (اور ابوداؤد ہی کی ایک اور دوسر روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ " جب دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھتے تو بائیں پاؤں کے تلوے پر بیٹھتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا کر لیتے تھے اور جب چوتھی رکعت پڑھ کے بیٹھتے تو بائیں کولھے کو زمین سے ملاتے اور دونوں پاؤں کو ایک طرف نکال دیتے تھے۔"

تشریح
انا اعلمکم بصلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( یعنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے طریقہ کو تم سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں) ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی کسی خاص مصلحت و ضرورت کی بناء پر بغیر کسی غرور و تکبر اور نفسانیت کے اظہار کے طور پر اپنے علم کی زیادتی کا دعوی کرے تو جائز ہے۔
تکبیر تحریمہ سے پہلے ہاتھ اٹھانے چاہئیں :

حدیث کے الفاظ رفع یدیہ حتی یحاذی بھما منکبیہ ثم یکبر سے بصراحت معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو پہلے رفع یدین کرتے اس کے بعد تکبیر تحریمہ کہتے چنانچہ امام اعظم کا مسلک بھی یہی ہے کہ پہلے ہاتھ اٹھائے جائیں اس کے بعد تکبیر تحریمہ کہی جائے۔
سجدے کی تکمیل زمین پر ناک اور پیشانی دونوں رکھنے سے ہوتی ہے :
فامکن انفہ وجبھتہ الارض سے معلوم ہوا کہ سجدہ پیشانی اور ناک دونوں کو زمین پر رکھ کر کرنا چاہئے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مستقل طور پر سجدہ اسی طرح کرتے تھے اور احادیث بھی اس کے موافق وارد ہیں لہٰذا سجدہ مکمل تو جب ہی ہوتا ہے کہ ناک اور پیشانی دونوں کو زمین پر رکھا جائے۔ اگر کسی مجبوری اور عذر کی بناء پر سجدے میں ان دونوں میں سے کسی ایک کو زمین پر نہیں رکھا تو مکروہ نہیں ہے۔ اور اگر بغیر کسی عذر اور مجبوری کے ایسا کیا تو اس میں یہ صورت ہوگی کہ اگر زمین پر پیشانی رکھی ہے ناک نہیں رکھی تو یہ متفقہ طور پر جائز ہوگا البتہ سجدہ مکروہ ہوگا اور اگر پیشانی نہیں رکھی بلکہ ناک رکھی تو امام اعظم کے نزدیک یہ بھی بکراہت جائز ہے مگر حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک جائز نہیں ہے اور اسی پر فتوی ہے۔
سبابہ کی تحقیق :
سبابہ شہادت کی انگلی کو کہتے ہیں۔" سب" کے لغوی معنی گالی کے ہیں ایام جاہلیت میں اہل عرب جب کسی کو گالی دیتے تھے اس انگلی کو اٹھاتے تھے اس مناسب سے اس انگلی کا نام اسی وقت سے سبابہ رائج ہو گیا پھر بعد میں اس انگلی کا اسلامی نام مسبحہ اور سباحہ ہوگیا کیونکہ تسبیح و توحید کے وقت اس انگلی کو اٹھاتے ہیں۔
بہر حال۔ حدیث کے الفاط کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے التحیات میں کلمہ شہادت پڑھتے وقت اس انگلی سے اس طرح اشارہ کیا کہ نفی یعنی اشھد ان لا الہ کہتے وقت انگلی اٹھائی اور اثبات یعنی الا اللہ کہتے وقت انگلی رکھ دی۔




Share:

8/9/19

کشمیر اور میرا دکھ


کشمیر اور میرا دکھ:
        بچپن سے سنتے آ رہے ہیں  کہ کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم و ستم ہو رہے ہیں، فلسطین میں ، چچنیا، بوسنیا اور برما میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں  لوگوں کو بے گناہ قتل کیا جاتا ہے۔ عصمتیں لوٹی جا  رہی ہیں بچوں کو یتیم کیا جا رہا ہے عورتوں کو بیوہ کیا جا رہا ہے ۔ آج تک یہ سلسلہ تھم نہ سکا ۔
دوسری طرف ہر 14 اگست ، 23 مارچ، 6 ستمبر کو اسلحے کی نمائش بھی مسلسل دیکھ رہے ہیں ہر موقع پر توپوں کی سلامی کی گرم گرم خبریں بھی کانوں میں پڑتی ہیں۔ کبھی بابر مزائل کا تجربہ، کبھی کروز مزائل، کبھی ایٹمی دھماکے، کبھی JF 17 تھنڈر  کبھی سبمیرین  اور کبھی ڈرون کی کامیابی کی مبارک بادوں پر ٹی وی شوز اور اخبار کی شہ سرخیاں دیکھنے اور سننے کو ملتی رہتی ہیں۔
ہم نے شروع سے تاریخ اسلام میں پڑھا کہ بدر میں مسلمانوں نے بنا اسلحے کے جنگ لڑی جیت گئے، احد میں افرادی قوت بھی کم تھی اور جیت گئے، خندق میں سارا عالم کفر اہل اسلام پر چڑھ دوڑا مگر ناکام پلٹ گیا، حنین میں مسلمان فتح یاب ہوا، موتہ میں 3 ہزار کا مقابلہ لاکھوں سے ہوتا ہے اور جیت جاتے ہیں ، خیبر میں پیش قدمی کی جاتی ہے اور سرخرو لوٹتے ہیں شام کی سرحدوں ہر غزوہ تبوک کے نام سے پیش قدمی کی جاتی ہے اور سرخرو لوٹ آتے ہیں۔  11 سال میں کوئی جنگ شکست کی صورت میں دکھائی نہیں دیتی جبکہ کسی جنگ میں افرادی قوت مسلمانوں کی زیادہ نہیں اور نہ ہی  سامان ِ حرب کی فراوانی ہوتی ہے مگر فتح نہتوں کی ہوتی ہے۔
        جنگ کا مسلط ہونا اور جنگ کا شروع کرنا دو الگ الگ فلسفے ہیں۔ جنگ مسلط ہونے میں دشمن مسلمانوں کو لڑنے پر مجبور کرتا ہے اور بالآخر مسلمان کو ہتھیار اٹھانا پڑتا ہے اور پیش قدمی میں  مسلمان دشمن کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے تنگ آکر یا خطرے کے پیشِ نظر   ہتھیار اٹھاتے ہیں ۔ جب ہم بدر ،احد، خندق کے احوال پڑھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ جنگ مسلط کی گئی اور مسلمان ڈٹ گئے اور جب فتح مکہ، حنین، خیبر ، بنومصطلق، بنو نضیر  اور خیبر کے احوال پڑھتے ہیں تو مسلمانوں کی پیش قدمی نظر آتی ہے ۔ بعد ازاں موسی بن نصیر، حجاج بن یوسف، محمد بن قاسم ، عبد الرحمان الداخل اور غزنوی کے احوال پڑھتے ہیں تو پیش قدمی کی جھلک آتی ہے۔
        کیا کشمیر کے حالات چیخ چیخ کر نہیں کہ رہے کہ جنگ  مسلط کر دی گئی  یا حجاج کے اس  عورت کے جواب  کی یاد نہیں دلا رہے کہ حجاج کا کہنا   ‘‘بیٹی میں آرہا ہوں ،میں آ رہا ہوں’’ اور پھر محمد بن قاسم کا سندھ میں داخل ہونا ۔
        یہ گتھیاں سلجھا رہا ہوں کہ ان حالات میں کیا کرنا چاہیے امت مسلمہ کو بالخصوص پاکستان کو  یہ گتھیاں سلجھنے کا نام نہیں  لی رہیں۔ میرا دکھ یہ ہے کہ کب اور کیا استعمال ہونا ہے ان جہازوں کا ان ہتھیاروں کا ان مزائلوں کا  ۔۔۔۔
اسی ضمن میں ایک لطیفہ یاد ٓایا:
        ایک فوجی ٹرک میں پٹرول پمپ سے دور آئل ختم ہو جاتا ہے افسر ٹرک کو دھکا لگانے کا کہتا ہے تمام سپاہی دھکا لگاتے ہیں جب پٹرول پمپ پر ٹرک پہنچ جاتا ہے تو تمام سپاہی بہوش ہو جاتے ہیں جب ہوش آتی ہے تو افسر ڈرائیور سے پوچھتا ہے کہ پٹرول سے بھرا  ڈرم کہاں ہے تو ڈرائیور کہتا ہے سر وہ ٹرک میں کسی ایمرجنسی کے لیے رکھا ہے یہ سن کے افسر بہوش ہو جاتا ہے۔
کیا جناب مسلمان مرتے رہیں گے اور ہتھیار ایمرجنسی کے لیے ہیں؟؟؟؟؟ یا اللہ وہ ایمرجنسی ہی آجائے۔۔۔۔۔
یا اللہ ہمیں بدر و حنین جیسا جذبہ عطا فرما آمین۔۔۔۔۔۔۔

Share:

کشمیر ۔۔۔درویشوں کی سر زمین۔۔۔۔۔۔۔




کشمیر ۔۔۔درویشوں کی سر زمین۔۔۔۔۔۔۔ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات۔۔۔:
        یہ کائنات الوہی اصولوں کے تابع چلتی ہے۔انسانی خواہشات اور جذبات کے  تابع نہیں۔۔
دانش یا جسے آپ Intellect  کہتے ہیں یہ روح کا ہی ایک وصف ہوتا ہےجس کی Domain  یا اقلیم ظاہر کی دنیا ہوتی ہے۔ اور اس دانش کے سامنے یہ کائنات مسخر ہوتی ہے۔ یہ وہ Intellect  ہوتا ہے جس کو مسلسل روح سے علم کا نور ملتا رہتا ہے۔ یہی عقلِ سلیم کہلاتی ہے۔ بدر، احد، خیبر  بھی عقلِ سلیم کی معرکہ آرائیاں ہیں۔ اور حدیبیہ اور کربلا بھی عقل سلیم کی نشانیاں ہیں۔
فلسطین اور کشمیر اب تک صرف جذبات کے میدان رہے ہیں۔ اور جذبات سے جتنے بھی معاملات حل ہوئے ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں۔ ج سپر ماتم کرنا لکیر پیٹنے کے مترادف ہے۔
سرحد کے دونوں اطراف عسکری و سیاسی قوتیں اگر اس مغالطے میں ہیں کہ جذبات کو ہوا دے کر دونوں اطراف کے عوام کو  فریب میں رکھ کر بالا بالا وہ کشمیر کی قسمت لکھنے میں کامیاب ہو جائیں گی تو  ایسا نہیں ہونے والا۔
وہ اس لیے کہ عقلِ سلیم اپنا کام اپنے دیے گئے وقت پر دکھاتی ہے۔
وقت صرف گھڑیوں کی چال نہیں ہوتی جس پر سیکنڈ ، منٹ اور گھنٹے  بڑھ کر کیلینڈر بن جاتے ہیں اور ماہ و سال کی تقسیم و گردش  شروع ہو جاتی ہے۔
یہ کائنات انسانی خواہشات پر نہیں چل رہی اصولوں کے تابع چل رہی ہے ۔ پلان بنانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ خود کسی پلان کا حصہ ہیں یہی تو فریبِ دنیا ہے۔
مہرُے یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ خود حرکت میں ہیں ،   حیرت نہیں تو اور کیا ہے؟۔۔۔۔
زمانہ جب کروٹ لیتا ہے تو بہت اکھاڑ پچھاڑ ہوتی ہے۔ آج کا انسان زمانے کی کروٹ کی زد میں ہے۔ بچیں گے وہ جو پہاڑوں میں چلے جائیں گے۔
ایک رند  ِمست کی ٹھوکر میں ہیں
شاہیاں ، سلطانیاں، دارائیاں!!
استغفار کا دور ہے استغفار میں مصروف رہیں  اور یاد رکھیں ‘‘ بدر ، احد اور خیبر’’ بھی عقلِ سلیم اور حدیبیہ اور کربلا  بھی عقلِ سلیم ہیں۔ جذبات اور خواہشات عقلِ سلیم نہیں ہوتیں۔
‘‘ العلیم  ’’ فرماتا ہے کہ : غور کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
صاحبزادہ عاصم مہاروی

Share:

8/7/19

ﻏﺰﻭﮦِہند ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯿﺎﮞ

#ﻏﺰﻭﮦِہند ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯿﺎﮞ۔۔۔۔۔ 
 ﺑﮭﺎﺭﺕ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﯿﮧ ﺟﻨﮓ ﮐﯽ ﺩﮬﻤﮑﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺳﻮﺷﻞ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﭘﺮ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﻧﻈﺮ ﺁ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ . ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﺍﻥ ﻧﻮﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺷﺐ ﻭ ﺭﻭﺯ ﺑﮭﺎﺭﺗﯽ ﻓﻠﻤﯿﮟ، ﮈﺭﺍﻣﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﺎﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺳﻨﺘﮯ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ . ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﭘﻮﺳﭧ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﭼﻨﺪ ﺧﻮﺵ ﻓﮩﻤﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﺪﮨﯽ ﮐﺮ ﺩﻭﮞ . ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﺑﺮﺣﻖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺿﺮﻭﺭ ﺑﺮﭘﺎ ﮨﻮ ﮔﯽ . ﻟﯿﮑﻦ ﺳﻮﺍﻝ ﯾﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺟﻨﮓ ﮐﻮ ﻏﺰﻭﮦ ﺁﺧﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ . ﻏﺰﻭﺍﺕ ﺗﻮ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﻏﺰﻭﮦ ﺍﺱ ﺟﻨﮓ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﻨﻔﺲ ﻧﻔﯿﺲ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮﮞ . ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﺏ ﺗﮏ ﮐﺴﯽ ﺟﻨﮓ ﮐﻮ ﻏﺰﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﺣﺘﯽٰ ﮐﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﮩﺪﯼ ﮐﯽ ﻗﯿﺎﺩﺕ ﻣﯿﮟ ﻟﮍﯼ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺟﻨﮕﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻟﻤﻼﺣﻢ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﻏﺰﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ . ﮬﻨﺪ ﮐﯽ ﺟﻨﮓ ﮐﻮ ﻏﺰﻭﮦ ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺧﻮﺩ ﺳﺮﭘﺮﺳﺘﯽ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ . ﺑﮩﺮﺣﺎﻝ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯽ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﯿﮟ ﺟﺴﮯ ﺩﻭﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﺑﮩﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ . ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﮟ ﮐﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺭﺕ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﺮ ﺟﻨﮓ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ . ﻧﺎ ﺗﻮ ﭘﯿﻨﺴﭩﮫ ﺍﻭﺭ ﺍﮐﮩﺘﺮ ﻭﺍﻟﯽ ﺟﻨﮕﯿﮟ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﺎ ﮨﯽ ﺍﺏ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻨﮓ ﭼﮭﮍﯼ ﻭﮦ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﮨﻮ ﮔﯽ . ﺑَﻘِﻴَّﺔُ ﺑْﻦُ ﺍﻟْﻮَﻟِﻴﺪ ، ﺻَﻔْﻮَﺍﻥَ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻌﺾ ﻣﺸﺎﺋﺦ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺍﺑﻮ ﮨﺮﯾﺮﮦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺿﺮﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺍﯾﮏ ﻟﺸﮑﺮ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﺟﻨﮓ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻥ ﻣﺠﺎﮨﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﻓﺘﺢ ﻋﻄﺎ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ﺣﺘﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮨﻨﺪﻭﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﯿﮍﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﮑﮍ ﮐﺮ ﻻﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﻐﻔﺮﺕ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ﭘﮭﺮ ﺟﺐ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﻋﯿﺴﯽٰ ﺍﺑﻦ ﻣﺮﯾﻢ ﮐﻮ ﺷﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ - ﺍﺑﻮ ﺑﺮﯾﺮﮦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺟﻨﮓ ﮐﻮ ﭘﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﻧﯿﺎ، ﭘﺮﺍﻧﺎ ﻣﺎﻝ ﺳﺐ ﺑﯿﭻ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﮞ ﮔﺎ ﭘﺲ ﺟﺐ ﺍﻟﻠﻪ ﻓﺘﺢ ﺩﮮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻭﺍﭘﺲ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻋﯿﺴﯽٰ ﮐﻮ ﺷﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﺅﮞ ﮔﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺎ ﺷﻮﻕ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﺅﮞ ﮔﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﮮ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﮭﺎ - ﺍﺱ ﭘﺮ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﺴﮑﺮﺍﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻨﺴﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﺑﮩﺖ ﻣﺸﮑﻞ ﻣﺸﮑﻞ . ‏( ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻔﺘﻦ ﻧﻌﯿﻢ ﺑﻦ ﺣﻤﺎﺩ ‏) ﮬﻨﺪ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﮩﺪﯼ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﺑﻌﯿﻦ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺑﺮﭘﺎ ﮨﻮ ﮔﯽ ﺟﺲ ﻭﻗﺖ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﯿﺴﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮯ ﻧﺰﻭﻝ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﻗﺮﯾﺐ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﻮ ﮔﺎ . ﺁﭖ ﯾﮧ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﮟ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﯿﺴٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﺎ ﻧﺰﻭﻝ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﮩﺪﯼ ﮐﯽ ﺑﯿﻌﺖ ﺧﻼﻓﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺕ ﯾﺎ ﻧﻮ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﮨﻮ ﮔﺎ . ﺁﭖ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻣﺜﺎﻝ ﺳﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﯾﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﮩﺪﯼ ﮐﯽ ﺧﻼﻓﺖ ﺩﻭ ﮨﺰﺍﺭ ﺑﯿﺲ ﻣﯿﮟ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺣﺴﺎﺏ ﺳﮯ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﺩﻭ ﮨﺰﺍﺭ ﭘﭽﯿﺲ ﺳﮯ ﺩﻭ ﮨﺰﺍﺭﺳﺘﺎﺋﯿﺲ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺑﺮﭘﺎ ﮨﻮ ﮔﯽ . ‏( ﯾﮧ ﺻﺮﻑ ﻣﺜﺎﻝ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺳﺎﻝ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﺐ ﮨﻮ ﮔﺎ ﯾﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﮩﺘﺮ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﮯ ‏) ﻧﻌﯿﻢ ﺑﻦ ﺣﻤﺎﺩ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻔﺘﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺟﺐ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺯﻧﺠﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﮑﮍ ﮐﺮ ﻻﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻭﮦ ﺷﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﯿﺴٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ . ﺟﺐ ﺷﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﮩﺪﯼ ﮐﯽ ﻗﯿﺎﺩﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻤﻠﺤﻤۃ ﺍﻟﮑﺒﺮﯼٰ ﺑﺮﭘﺎ ﮨﻮ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍﺱ ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺮﯾﻦ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﺳﮯ ﻣﺴﺘﻔﯿﺪ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﮩﺎﮞ ﻣﺸﺮﻗﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﻋﻈﯿﻢ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﻧﺎ ﺭﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﻧﮯ ﺑﻠﮑﻞ ﺍﺳﯽ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﮐﺎ ﺗﺤﻔﮧ ﺭﮐﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽ ﮐﯽ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﻗﯿﺎﺩﺕ ﻭ ﺳﺮﭘﺮﺳﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻓﻀﻞ ﺗﺮﯾﻦ ﺟﮩﺎﺩ ﺍﻭﺭ ﺍﻓﻀﻞ ﺗﺮﯾﻦ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﯽ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﺳﮑﯿﮟ . ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﺍﺳﮯ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ . ﺍﺱ ﮐﮯﻋﻼﻭﮦ ﭘﺎﮎ ﺑﮭﺎﺭﺕ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﮓ ﮐﻮ ﺟﮩﺎﺩ ﻋﻈﯿﻢ ﺗﻮ ﮐﮩﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﺴﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺑﮭﯽ ﺩﺭﺳﺖ ﻧﮩﯿﮟ . ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺍﯾﮏ ﺍﮨﻢ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﭼﻠﻮﮞ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻋﻈﯿﻢ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﺁﺯﻣﺎﺋﯿﺶ ﮐﯽ ﺑﮭﭩﯽ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮐﺮ ﮐﻨﺪﻥ ﺑﻨﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﯽ . ﺍﮔﺮ ﻟﻮﮒ ﯾﮧ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻓﯿﺲ ﺑﮏ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺍﻧﮕﻠﯿﺎﮞ ﭼﻼ ﮐﺮ ﻇﻠﻢ ﻭ ﺳﺘﻢ ﺑﮭﺮﮮ ﺟﻤﮩﻮﺭﯼ ﻧﻈﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺣﺼﮧ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ، ﺳﻮﺩ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ، ﺟﮭﻮﭦ ﺑﻮﻝ ﮐﺮ، ﻇﻠﻢ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﮯ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮ ﮐﺮ، ﻣﻼﻭﭦ ﮐﺮ ﮐﮯ، ﻧﺎﭖ ﺗﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﮐﺮ ﮐﮯ، ﻧﻤﺎﺯﯾﮟ ﻏﺎﺭﺕ ﮐﺮ ﮐﮯ، ﻓﻠﻤﯿﮟ ﮔﺎﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﭺ ﮔﺎﻧﮯ ﮐﺮ ﮐﮯ، ﺷﺮﺍﺑﯿﮟ ﭘﯽ ﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﮨﺮ ﺑﺮﺍ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﮐﯽ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﻧﺼﯿﺐ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﺗﻮ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺑﮯ ﻭﻗﻮﻑ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ . ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﮩﺎﮞ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺑﭽﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮔﯿﻨﮓ ﺭﯾﭗ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻗﺘﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﻇﻠﻢ ﻭ ﺳﺘﻢ ﮐﺎ ﻧﻈﺎﻡ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﻗﺎﺋﻢ ﻭ ﺩﺍﺋﻢ ﺭﮨﮯ، ﻇﺎﻟﻢ ﺩﻧﺪﻧﺎﺗﺎ ﭘﮭﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺍﻡ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺗﻤﺎﺷﺎﺋﯽ ﺑﻨﯽ ﺭﮨﮯ ﮐﯿﺎ ﺍﯾﺴﯽ ﻗﻮﻡ ﺍﺱ ﻗﺎﺑﻞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﺟﯿﺴﯽ ﻋﻈﯿﻢ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﺟﺎﺋﮯ؟ ﺭﺏ ﮐﻌﺒﮧ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﮨﺮﮔﺰ ﻧﮩﯿﮟ . ﺁﭖ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ، ﺷﺎﻡ، ﻋﺮﺍﻕ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﺎ ﺣﺎﻝ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﮟ . ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﮩﺪﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﻼﺣﻢ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺁﺯﻣﺎﺋﺶ ﮐﯽ ﺑﮭﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﮐﻨﺪﻥ ﺑﻨﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﺟﺐ ﺟﮩﺎﺩ ﻋﻈﯿﻢ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﭘﺎﮎ ﺻﺎﻑ ﺍﻭﺭ ﺍﺧﻼﺹ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ ﮨﯽ ﺍﺱ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﺑﻨﯿﮟ . ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮐﭽﮫ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ، ﺑﻠﮑﻞ ﻭﯾﺴﺎ ﻧﺎ ﺳﮩﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﻣﺎﺭ ﭘﮍ ﮐﮯ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﯾﻨﮧ، ﻗﻄﺮﯾﻨﮧ، ﻋﺎﻟﯿﮧ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﻮ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻓﯿﺲ ﺑﮑﯽ ﻣﺠﺎﮨﺪ ﺍﺱ ﺑﮭﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺿﺮﻭﺭ ﺟﻼﺋﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺻﺮﻑ ﺍﺧﻼﺹ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻗﻮﻡ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﻗﯿﺎﺩﺕ ﻭ ﺳﺮﺑﺮﺍﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﻟﮍﻧﮯ ﮐﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ . ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻧﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﺐ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﻧﻌﻤﺖ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﯽ ﺑﺮﯼ، ﺑﺤﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﻓﻀﺎﺋﯽ ﺍﻓﻮﺍﺝ ﮐﮯ ﻭﮦ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﺩﺷﻤﻦ ﺳﮯ ﻧﻤﭩﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﯿﮟ . ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﻏﺰﻭۃ ﮬﻨﺪ ﮐﮯ ﺻﻒ ﺍﻭﻝ ﮐﮯ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﯽ ﻣﺠﻤﻮﻋﯽ ﺑﺪ ﺍﻋﻤﺎﻟﯿﺎﮞ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﻓﻮﺝ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻋﺬﺍﺏ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﭨﺎﻝ ﺳﮑﺘﯿﮟ . ﻭﮦ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﮯ ﺟﻮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ؟ ﻭﮦ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﻇﻠﻢ ﮨﮯ ﺟﻮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ؟ ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﮐﻮﻧﺴﯽ ﺧﺎﺹ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮨﻤﯿﮟ ﺁﺯﻣﺎﺋﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮨﯽ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﮍﯼ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﺟﺎﺋﮯ؟ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﻭﺍﺳﻄﮧ ﮨﮯ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﮭﻮﻝ ﻟﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮯ ﺁﭖ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺳﺨﺖ ﺁﺯﻣﺎﺋﯿﺶ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﺧﺮﻭ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺟﻞ ﮐﺮ ﺑﮭﺴﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺱ ﻣﻠﮏ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺮﮮ . ﺁﻣﯿﻦ .
Share:

8/6/19

تم نے بدلے ہم سے گن گن کے لیے



تم نے بدلے  ہم سے گن گن کے لیے

کیا تمہیں چاہا تھا اس دن کے لیے


وصل کا دن اور اتنا مختصر

دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے


چاہنے والوں سے گر مطلب نہیں

آپ پھر پیدا ہوئے کن کے لیے


ہم نشینوں سے میرے کہتے ہیں وہ

چھوڑ دیں غیروں کو ان کے لیے


باغباں کلیاں ہوں ہلکے رنگ کیں

بھیجنی ہیں ایک کم سن کے لیے


آج کل میں داغؔ ہو گے کامیاب

کیوں مرے جاتے ہو دو دن کے لیے

مرزا داغؔ دہلوی

Share:

8/4/19

Pak National Things


























Share:

8/2/19

Be Sabab Baat brhany ki zrorat kia hy


Share:

8/1/19

مست آنکھیں جھکی جھکی آنکھیں



میں نے دیکھی ہیں یار کی آنکھیں

مست آنکھیں جھکی جھکی آنکھیں


تھوڑی تھوڑی سی سرمئی آنکھیں

اور تھوڑی سی شبنمی آنکھیں


ایسا کیا ہے تمہای آنکھوں میں

 تم کو ڈھونڈیں گلی گلی آنکھیں


ان کی کوئی مثال کیسے ہو

لب گلابی شراب سی آنکھیں


تیری آنکھوں کو دیکھ کر جانا

کیسے کرتی ہیں شاعری آنکھیں


تیری آنکھیں بناکر کاغذ پر

روز چوموں میں کاغذی آنکھیں


تیری آنکھوں کی خیر ہو جانا ں

تیری آنکھوں پہ وار دی آنکھیں


میرے جیون کی کالی راتوں میں

بھر گئیں روشنی تیری آنکھیں


ہر کسی پہ نگاہِ الفت کی

ہم سے برتیں بے رخی آنکھیں


یہ ہیں سامان موت کا اداس

ان کو سمجھو نہ عام سی آنکھیں



پوسٹ :محمد سہیل عارف معینیؔ

Share:

پرانے وقتوں کی چار پائی پڑی رہے گی



جھگڑنا کاہے کا ؟ میرے بھائی پڑی رہے گی

یہ باپ دادا کی سب کمائی پڑی رہے گی


اندھیرے کمرے میں رقص کرتی رہے گی وحشت

اور ایک کونے میں پارسائی پڑے رہے گی


ہوا کی منت کرو کہ گھر کے دیے بجھے تو

اداس ہو کر دیا سلائی پڑی رہے گی


ہماری نظروں سے اور اوجھل اگر ہوئے تم

زمانے بھر کی یہ روشنائی پڑے رہے گی


تمہارے جانے کے بعد کیسی محلے داری

یقین کر لو ، بنی بنائی ، پڑی رہے گی


تمہارے ہاتھوں کا لمس کافی ہے ، لوٹ آؤ

میں ٹھیک ہو جاؤں گی، دوائی پڑی رہے گی


بزرگ رخصت ہوئےہیں لیکن برآمدے میں

پرانے وقتوں کی چار پائی پڑی رہے گی


کومل جائیہ

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive