Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

1/26/17

ابراہیم نخعی رحمہ اللہ تعالی

ابراہیم نخعی رحمہ اللہ تعالی سنہ 46 ہجری میں پیدا ہوئے جس زمانے میں کبار صحابہ کرام بھی بڑی تعداد میں موجود تھے  چنانچہ آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی زیارت کا شرف بھی حاصل کیا ہے اور متعدد کبار صحابہ کرام کی زیارت سے سعادت افروز ہوئے ہیں ۔۔
اپنے پیدائشی شہر کوفہ میں ہی آپ کی تمام تر علمی و فقہی تربیت ہوئی جہاں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کا علمی حلقہ قرآن و سنت اور فقہ و حدیث کے علوم میں اپنی بہاریں دکھا رہا تھا اور خود آپ کا خاندان بھی ایک علمی خاندان تھا چنانچہ اس دوہری نسبت نے بچپن سے ہی آپ کی علمی و فقہی تربیت کرنا شروع کردی تھی 
اہل علم کے چند اقوال
امام شعبی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : ابراہیم نخعی نے فقہی گھرانے میں تربیت پائی اور علم فقہ میں خوب مہارت حاصل کی بعد ازاں ہمارے ساتھ ( یعنی اصحاب حدیث کے ساتھ ) بیٹھنا شروع کیا تو ہمارے پاس موجود عمدہ اور قابل اعتبار و قابل عمل احادیث بھی حاصل کر لیں اور یوں فقہ و حدیث کے جامع بن گئے ۔۔
علامہ شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں
كان بصيرا بعلم ابن مسعود ، واسع الرواية ، فقيه النفس ، كبير الشأن ، كثير المحاسن ، رحمه الله تعالى 
یعنی موصوف حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے علوم میں بڑی بصیرت رکھتے تھے ، احادیث پر کافی دسترس تھی ، فقاہت ان کا طبعی جوہر تھا ، بلند شان کے حامل اور اچھی صفات ان میں بکثرت موجود تھیں ۔۔ اللہ تعالی کی رحمت ہو اُن پر
مزید یہ بھی لکھتے ہیں
كان مفتي أهل الكوفة هو والشعبي في زمانهما ، وكان رجلا صالحا ، فقيها ، متوقيا ، قليل التكلف
یعنی ابراہیم نخعی ایک نیک سیرت ، انسان ، بڑے فقیہ ، محتاط اور تکلفات سے پاک انسان تھے ۔ اپنے زمانے میں آپ اور امام شعبی دونوں کوفہ کے مفتی تھے ۔۔ 
فضل و کمال
آپ نے اولا کم سنی میں قرآن کریم حفظ کیا اور علم قرائت میں ایسی مہارت حاصل کی کہ کوفہ کے بڑے قرائ میں شمار ہوتے تھے 
اسی طرح علم حدیث میں بھی کمال حاصل کیا اور کوفہ کے محدثین میں صف اول میں شمار ہوئے جبکہ علم فقہ تو گویا ان کا اوڑھنا بچھونا تھا 
علم حدیث میں مہارت پر چند درج ذیل اقوال سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ 
اسماعیل بن ابو خالد کہتے ہیں کہ : امام شعبی ، ابراہیم نخعی اور ابو الضحی مسجد میں مذاکرہ حدیث کے لیے جمع ہوتے تھے اور جب کسی مسئلے میں کوئی حدیث کسی کو یاد نہ آتی تو سب کی نظریں ابراہیم نخعی پر جم جاتی تھیں ۔۔۔
امام اعمش سلیمان بن مہران رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ : ابراہیم نخعی علم حدیث کے صراف تھے !
۔
یاد رہے کہ یہ وصف بڑا ہی اہم ہے ۔۔ کیوں کہ محدثین کا ایک عمومی طرز یہ ہوتا ہے ک

ہ وہ احادیث جمع فرماتے ہیں اور پھر رجال و اسانید کی بنیاد پر ان میں مقبول و غیر مقبول احادیث کا فیصلہ کرتے ہیں جب کہ ان احادیث سے شرعی احکام معلوم کرنا اور نئے نئے مسائل کو احادیث کی روشنی میں حل کرنا یہ محض محدث سے اونچے درجے کے عالم کا کام ہے اور یہ وصف فقہائے کرام میں بکثرت پایا جاتا ہے ۔۔ اسی لیے امام اعمش جیسے جلیل القدر محدث نے حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ تعالی کو اس وصف مذکورہ بالا سے متصف کیا ہے
Share:

نماز میں آمین آہستہ کہنا


نماز میں آمین آہستہ کہنا:
امام احمد ، ابو داود طیالسی، ابو یعلی موصلی طبرانی، دار قطنی اور حاکم نے مستدرک میں حضرت وائل ابن حجر سے روایت کی حاکم نے فرمایا کہ اس کی اسناد نہایت صحیح ہے۔
عن وائل ابن حجر انہ صلی مع النبی صلی اللہ علیہ و سلم فلما بلغ غیر المغضوب علیھم و لا الضالین قال آمین و اخفی بھا صوتہ
ترجمہ: حضرت وائل ابن حجر نے حضور ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی ۔ جب حضور ﷺ و لا الضالین پر پہنچے تو آپ نے فرمایا آمین اور آمین میں آواز آہستہ رکھی۔

جب اتنے محدث ایک روایت کو صحیح کہیں تو ایمان والے مان جاتے ہیں اور بے ایمان تو حضور ﷺ کی بات کو اپنے کانوں سے سن کر بھی نہیں مانتے تھے  جن کا سردار عبد اللہ بن ابی تھا ۔ 
Share:

1/25/17

حنفی نماز میں رفع یدین کیوں نہیں کرتے ؟


حنفی نماز میں رفع یدین کیوں نہیں کرتے ؟
امام ابو محمد بخاری محدث رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سفیان ابن عینیہ سے روایت کی کہ ایک دفعہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیھما کی مکہ معظمہ کے دار الحناطین میں ملاقات ہو گئی تو ان بزرگوں کی آپس میں حسب ذیل گفتگو ہوئی:
امام اوزاعی: آپ لوگ رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے  وقت رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟
امام ابو حنیفہ: اس لیے کہ رفع یدین ان موقعوں پر حضور سے ثابت نہیں۔
امام اوزاعی: آپ نے یہ کیا فرمایا میں آپ کو رفع یدین کی صحیح حدیث سناتا ہوں۔
حدثنی الزھری عن سالم عن ابیہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم انہ کان یرفع یدیہ اذا افتتح الصلوۃ و عند الرکوع و عند الرفع  منہ۔
 ترجمہ: مجھے زہری نے حدیث بیان کی انہوں نے سالم سے سالم نے اپنے والد سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے کہ آپ ہاتھ اٹھاتے تھے جن نماز شروع فرماتے اور رکوع کے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت۔
امام اعظم: میرے پاس اس سے قوی تر حدیث اس کے خلاف موجود ہے۔
امام اوزاعی: اچھا فوراً پیش فرمائیے۔
امام اعظم: لیجیے سنیے:
حدثنا حماد عن ابراہیم عن علقمہ و الاسود عن عبد اللہ ابن مسعود ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کان لایرفع یدیہ الا عند افتتاح الصلوۃ ثم لا یعود لشیئ من ذالک۔
ترجمہ: ہم سے حماد نے حدیث بیان کی انہوں نے ابراہیم نخعی سے انہوں نے حضرت علقمہ اور اسود سے انہوں نے حضرت عبد اللہ ابن مسعود سے کہا نبی ﷺ صرف شروع نماز میں ہاتھ اٹھاتے تھے پھر کسی وقت نہ اٹھاتے تھے۔
امام اوزاعی: آپ کی پیش کردہ حدیث کو میری پیش کردہ حدیث پر کیا فوقیت ہے جس کہ وجہ سے آپ نے اسے قبول فرمایا اور میری حدیث کو چھوڑ دیا۔
امام ابو حنیفہ: اس لیے کہ حماد ، زہری سے زیادہ فقیہ ہیں۔ اور ابراہیم نخعی سالم سے بڑھ کر عالم و فقیہ ہیں۔ علقمہ ، سالم کے والد عبد اللہ ابن عمر سے علم میں کم نہیں اسود بہت ہی بڑے متقی فقیہ و افضل ہیں۔ عبد اللہ ابن مسعود فقہ ہیں۔ قراۃ میں حضور ﷺ کی صحبت میں حضرت ابن عمر سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہیں کہ بچپن سے حضور ﷺ کے ساتھ رہے۔
            چونکہ ہماری حدیث کے راوی تمہاری حدیث کے راویوں سے علم و فضل میں زیادہ ہیں لہذا ہماری پیش کردہ حدیث بہت قوی  اور قابل قبول ہے۔
امام اوزاعی: خاموش۔

غیر مقلدین صاحبان امام صاحب کی یہ اسناد دیکھیں اور اس  میں کوئی نقص نکالیں امام اوزاعی کو بجز خاموشی کے چارہ کار نہ ہوا یہ ہے امام اعظم ابو حنیفہ کی حدیث دانی اور یہ ہے ان کی حدیث کی اسناد۔ اللہ تعالی حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ضد کا کوئی علاج نہیں ۔ یہ لمبی لمبی اسنادیں اور ان میں ضعیف راویوں کی شرکت حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد کی پیدا وار ہیں ۔ امام صاحب نے جو حدیث قبول فرمائی وہ نہایت صحیح ہے۔( جاء الحق ، صفحہ 57،58 59، حصہ دوم)
Share:

ایک قدیم غلط فہمی کا ازالہ۔


غلط فہمی کا ازالہ :

            صحیح حدیث کا دارو مدار مسلم ، بخاری یا صحاح ستہ پر نہیں صحاح ستہ کو صحیح کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی ساری حدیثیں صحیح  ہیں ان کے سوا دوسری کتب کی ساری حدیثیں ضعیف ہیں بلکہ صرف مطلب یہ ہے کہ ان میں صحیح حدیثیں زیادہ ہیں۔ ہمارا ایمان حضور ﷺ پر ہے نہ کہ محض بخاری  و مسلم وغیرہ پر، حضور ﷺ کی حدیث جہاں سے ملے ہمارے سر آنکھوں پر ہے۔ بخاری میں ہو نہ ہو ۔تعجب ہے  غیر مقلدوں پر کہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی تقلید کو شرک قرار دیتے ہیں مگر مسلم بخاری پر ایسا ایمان رکھتے ہیں اور ان کی ایسی اندھی تقلید کرتے ہیں کہ خدا پناہ۔( جاء الحق، صفحہ 7 حصہ اول)
Share:

1/14/17

Quran and Human Climax.

قرآن حکیم فرقان حمید اللہ تعالی کی وہ لا ریب اور بلند رتبہ کتاب ہے جو کائنات ارضی و سماوی کے علاوہ دیگر علوم کی جامع ہے اور اپنے اس دعوی کی دلیل بھی خود قرآن حکیم ہے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے ( سورہ نحل آیہ 89) ترجمہ: اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے اور ہدایت اور رحمت اور بشارت مسلمانوں کیلیے۔(کنز الایمان)۔
(سورہ یوسف آیہ 111) ترجمہ: اور ہر چیز کا مفصل بیان اور مسلمانوں کیلیے ہدایت اور رحمت۔(کنز الایمان)
            (سورہ انعام آیہ 38) ترجمہ: اور نہیں کوئی زمین میں چلنے والا اور نہ کوئی پرندہ کہ اپنے پروں پر اڑتا ہے مگر تم جیسی امتیں ہم نے اس کتاب میں کچھ اٹھا نہ رکھا۔ (کنز الایمان)
            سورہ انعام آیہ 59 ترجمہ: اور نہ کوئی تر اور خشک جو ایک روشن کتاب میں لکھا ہوا عالم پست و بالا تر چیز کا تصور کریں آپ کو وہ قرآن حکیم میں ضرور پر ضرور ملے گی گویا قرآن کا اعزاز ہے ان دو لفظوں لا رطب اور یابس کے ذریعے ساری کائنات کے ایک ایک ذرے کی موجودگی اور علم کا اظہار کر دیا  ہے بلکہ پندھرویں پارہ کی (سورت بنی اسرائیل آیہ 14) میں ہے کہ ترجمہ: اور ہم نے ہر چیز خوب جدا جدا ظاہر فرما دی۔ (کنز الایمان)
            چنانچہ علوم قرآنیہ کے بارے میں مفسرین و محققین نے اپنی اپنی خدادا صلاحیتیوں کے مطابق بہت کچھ لکھا ہے۔ قاضی ابو بکر بن عربی نے کہا ہے کہ قرآنی علوم کی تعداد تقریباً تین لاکھ نو ہزار آٹھ سو ہے اور الحمد للہ سے والناس تک استعمال ہونے والا ہر کلمہ کسی نہ کسی مستقل علم اور فن کی بنیاد ہے۔ (قانون التاویل)
            حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ قرآن کےہر حرف کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے۔ پھر ہر ظاہر و باطن کیلیے ایک حد آغاز اور ایک حد اختتام ہے۔
            حضرت امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اعوذ باللہ اور بسم اللہ میں لاکھوں مسائل کا ذکر فرمایا ہے۔ الغرض قرآن حکیم میں علم الارض ، علم الادب، علم ہوا، علم آتش، علم ہئیت، علم ریاضی ، علم النفس، علم الانسان، علم طب، فن و تشریح، علم زبان، علم بلاغت و فصاحت، علم معدنیات، علم تجارت، علم الرویا، علم تفسرین قرآن، علم المیراث، علم حدیث، علم الہیات، علم تعبیر، علم فقہ، علم الرجال، علم دعوت، علم تصوف، علم رموز قرآن فلکیات وغیرہ تمام علوم قرآن میں موجود ہیں ۔ لہذا مرضی الہی یہ ٹھہری کہ انسان جو آئینہ رحمان ہے۔ جو میرا بھید اور میں اس کا بھید ہوں بلکہ مجھے انسان سے اتنی محبت ہے کہ  ان  اللہ خلق آدم علی صورۃ  کا اعزاز وشرف صرف اور صرف حضرت انسان کو حاصل ہے لہذا وہ انسان میرے رازوں اور بھیدوں کو پائے۔
            چنانچہ اللہ تعالی نے انسان کو متعدد بار یہ دعوت دی کہ وہ اس کی کھلی نشانیوں میں غور و فکر کرے اس قدرت کاملہ کا مشاہدہ کرے جو انسان کا ابدی اور دائمی حق ہی نہیں بلکہ اس کی تخلیق کا مقصد حیات ہے۔ چنانچہ ہر موقع پر رب العالمین نے حجرت انسان کی توجہ اپنی نشانیوں اور اس میں غور و فکر کی جانب مبذول کرائی ہے۔
            (سورہ النحل آیہ 89) ترجمہ: بے شک اس میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کے لیے۔
            (سورہ یونس آیہ 67) ترجمہ: بے شک اس میں نشانیاں ہیں سننے والوں کیلیے ۔
            (سورہ البقرہ آیہ آیہ 221) ترجمہ: اور اپنی آیتیں لوگوں کیلیے بیان کرتا ہے کہ کہیں وہ نصیحت مانیں۔
            (سورہ یونس آیہ 101) ترجمہ: تو کیا وہ قرآن کو سوچتے نہیں بعض دلوں پر ان کے قفل لگے ہیں۔
            (سورہ آل عمران آیہ 190 ) ترجمہ: بے شک آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش اور رات اور دن کی باہم بدلیوں میں نشانیاں ہیں عقل مندوں کیلیے۔
            (سورہ ص آیہ 29) ترجمہ: یہ ایک کتاب ہے کہ ہم نے تمہاری طرف اتاری برکت والی تا کہ اس کی آیتوں کو سوچیں اور عقل مند نصیحت مانیں۔
            (سورہ آل عمران آیہ 191) ترجمہ: جو اللہ کی یاد کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں اے رب ہمارے تو نے یہ بیکار نہ بنایا۔
            (سورہ الاعراف آیہ 179) ترجمہ: بے شک ہم نے جہنم کیلیے پیدا کیے بہت جن اور آدمی وہ دل رکھتے ہیں جن میں سمجھ نہیں ، اور وہ آنکھیں جن سے دیکھتے نہیں اور وہ کان جن سے سنتے نہیں وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر گمراہی و غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
            (سورہ الاعراف آیہ 185) ترجمہ: کیا ناہوں نے نگاہ نہ کی آسمانوں اور زمین کی سلطنت میں اور جو چیز اللہ نے  بنائی اور یہ کہ شاید ان کا وعدہ نزدیک آگیا ہو تو اس کے بعد اور کونسی بات پر یقین لائیں گے۔
            (سورہ الغاشیہ آیہ 17 تا 20) ترجمہ: تو کیا اونٹ کو نہیں دیکھتے کیسا بنایا گیا ، آسمان کو کیسا اونچا کیا گیا اور پہاڑوں کو کیسے قائم کیا گیا اور زمین کو کیسے بچھاہا گیا ۔ دیگر آیات مذکورہ بالا میں غور و فکر کرنے کی دعوت ہے مگر ان آیات میں مشاہدہ کا ذکر ہے۔
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفے سے مجھے

کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
(ندائے اہلسنت فروری 1995 صفحہ 193،194،195)
Share:

1/9/17

قرآن مجید اور نظام معاشرت: Quran and Social System|| Do and Don't

قرآن مجید اور نظام معاشرت:

قرآن مجید اشرف المخلوقات انسان کی پیدائش سے لیکر  موت تک کی تمام ضروریات کی تکمیل کیلیے اصول و ضوابط دیتا ہے گویا کہ اس کی معاشرتی زندگی کے فوائد ہمیں قرآن مجید کی تعلیمات سے میسر ہو سکتے ہیں کیونکہ اولاد  کی پرورش والدین کے حقوق ، حقوق ازدواج ، کاروبار ، تعلیم، نظام حکومت وغیرہ سبھی امور پر ہمیں تعلیماتِ قرآن سے رہنمائی ملتی ہے۔ یہ قرآن ہی ہے جس نے ایک پاکیزہ اور منظم زندگی گزارنے کی تلقین فرمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسانیت ذلت و تباہی کے عمیق گڑھوں میں رسوا ہو رہی تھی شرف انسانیت پامال ہو چکا تھا تو قرآن نے آداب معاشرت میں انقلاب پیدا فرما دیا۔ آج ہماری یہ حالت ہے کہ دنیاوی مقاصد کی تکمیل کیلیے رات دن کوشاں ہیں اس مقصد وحید کی طرف توجہ دینا پسند نہیں فرماتے جس کیلیے ہمیں خالق کائنات نے پیدا فرمایا ہے۔ قرآن مجید  فرقان حمید میں سورہ الذاریات میں ارشاد ہوتا ہے کہ:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (56)

 ترجمہ: ہم نے نہیں پیدا کیا جن اور انسان کو مگر عبادت کیلیے گویا کہ تخلیق انسانی کا مقصد اطاعت خداوندی تھا جس کے طریقے ہمیں قرآن و حدیث میں سکھائے گئے ہیں انسان کے دستور حیات ہیں یہ بات قرآن کے ذریعہ ملتی ہے سورہ انعام میں ارشاد ہے کہ:

قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۖ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (151) وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۖ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۖ وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (152) وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (153)

 ترجمہ: آؤ ہم تمہیں وہ باتیں بتائیں جو تمہارے لیے پروردگار نے تم پر حرام کی ہیں اللہ کا کسی کو شریک نہ بناؤ، والدین سے نیکی کرو، بچوں کو غربت و افلاس سے قتل نہ کرو، کیونکہ خدا تمہیں روزی دیتا ہے۔ لغویات کے قریب نہ جاؤ ، خواہ اعلانیہ ہو یا خفیہ، جس جان کو خدا نے محترم کیا ہے اسے حق کے علاوہ قتل نہ کرو، یہ باتیں ہیں، جس کی نصیحت کی جاتی ہے یقین ہے کہ ان باتوں کو سمجھو گے اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر بہتری کے لیے یہاں تک کہ بالغ ہو ، ناپ تول میں کمی نہ کرو ، ہم کسی کو اس کی گنجائش سے زیادہ بات کا پابند نہیں کرتے ، جب بولو تو انصاف سے خواہ تمہارا عزیز ہی کیوں نہ ہو اللہ کا عہد پورا کرو  یہ وہ باتیں ہیں جن کی طرف  تمہیں راہنمائی کی گئی ہے شاید تم یاد رکھو یہی میرا سیدھا راستہ ہے اس کی پیروی کرو، مختلف راستوں پر نہ چلو ، ورنہ راہ صحیح سے بھٹک جاؤ گے، انہی باتوں کا تمہیں مشورہ دیا جاتا ہے یقین ہے کہ تم پرہیز گار بن جاؤ گے۔

ان آیات مقدسہ کو دیکھو کیسے شاندار انداز میں سماجی ڈھانچہ کی تشریح کی گئی ہے آج بڑے بڑے عالمی ادارے انسانی حقوق کیلیے چارٹر جاری کرتے ہیں لیکن اسلام نے چودہ صدیاں قبل جو عالمی انسانی حقوق کا منشور پیش کیا تھا اور پھر جس کی تشریح محسن انسانیت پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفے ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمائی تھی آج کے منشور اس کی گرد راہ کو بھی نہیں پہنچ پائے ، قرآن کے فرمائے ہوئے احکامات پر جب ایک انسان عمل کرتا ہےتو پوری دنیا اس کے ماتحت ہو جاتی ہے اس کے ارشاد کو اپنے لیے حکم سمجھا جاتا ہے۔

سورہ انفال کی آیت کریم کو دیکھئے ، ارشاد ہوتا ہے کہ:

وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَآصَّةًۚ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(۲۵)

 ترجمہ: ڈرو اور بچو اس فتنہ و فساد سے جس کی لپیٹ میں تم  میں سے صرف ظالم ہی نہیں آئیں گے اور جان لو کہ اللہ تعالی کا عذاب سخت ہے۔ کیونکہ جب کسی قوم کی اکثریت ظالم اور فسادی ہو جاتی ہے تو جو لوگ ان برائیوں سے خود تو بچتے ہیں لیکن دوسروں کو بچانے کی کوشش نہیں کرتے خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں تو وہ بھی قابل رعایت نہیں رہتے۔ سورہ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ:

إِلَّا تَنفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( 39 )

 ترجمہ: اگر تم (خدا کے دین کی حفاظت کیلیے) نہیں نکلو گے تو وہ تمہارے سوا کسی دوسری قوم کو لے آئے گا تم اس خدا کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکو گے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جب کوئی قوم بد اعمالیا ں کرتے کرتے سنگدل ہو جاتی ہے تو پھر اس کی اصلاح کیلیے کوئی دوسری تدبیر کارگر ثابت نہیں ہوتی اور قدرت بھی اس  کی ہدایت کا سامان نہیں  کرتی قارون، شداد، ہامان، فرعون اور نمرود جیسے افراد نے معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کی اللہ تعالی نے سب کو نیست و نابود کر دیا کیونکہ اللہ تعالی کسی بھی ایسے انسان کو پسند نہیں کرتا جو اس کے بندوں کیلیے مشکلات پیدا کرے اور معاشرتی اقدار کو تباہ کرنا چاہے۔

قرآن مجید دین فطرت کا عالمی منشور:

قرآن جو دین فطرت کا عالمی منشور ہے ، جس نے انسان کو ذلت کی پستیوں سے نکالا اور فضائل و کمالات کے عروج پر پہنچایا ، ظلم و جبر کو انصاف سے ، سختی کو نرمی ، جہالت کو علم و معرفت سے عداوت کو محبت ، نفاق کو اتفاق ، خیانت کو امانت سے بدلا  گویا انسانیت کو تہذیب سے روشناس کرایا ، جو نا آشنا تھے انہیں حکمرانی کے قوائد و ضوابط سے واقف کیا ، ظلم و بربریت کو ختم کیا فلاحی معاشرہ قائم فرمایا ۔ لہذا ثابت ہوا کہ قرآن مجید نے انسان کو نظام معاشرت کے وہ سنہری اصول عطا فرمائے ہیں کہ تا قیامت رشد و ہدایت کے چشمے ابلتے رہیں گے۔ ( ماخوذ از: ندائے اہلسنت فروری 1995ء صفحہ225، 226)

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive